دنیا کا ہر مذہب کوئی نہ کوئی مقدس کتاب رکھتا ہے، جیسا کہ اسلام میں قرآنِ کریم مقدس آسمانی کتاب ہے۔ عیسائیوں کی مقدس کتاب کا نام بائیبل ہے، یہ بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہے۔
- ایک وہ جس کو ’’عہدنامہ عتیق‘‘ کہا جاتا ہے جس میں تورات، زبور اور انبیاء کبار و صغار کے الہامی و تواریخی صحائف ہیں۔ اس کے جس متن پر یہود اور نصارٰی میں سے فرقہ پروٹسٹنٹ کا اتفاق ہے، یہود اسے ۲۴ اور فرقہ پروٹسٹنٹ والے ۳۹ صحائف میں تقسیم کرتے ہیں۔ جبکہ یہی عہدنامہ عتیق کیتھولک پطرسی کلیسا کی بائیبل میں ۷ کتابوں کے اضافے کے ساتھ ۴۶ کتابوں یعنی صحائف کی شکل میں موجود ہے۔
- دوسرا وہ ’’عہدنامہ جدید‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں چار اناجیل (منسوب بہ متی، مرقس، لوقا و یوحنا) رسولوں و حواریوں کے اعمال، پولس مقدس کے ۱۴ خطوط، دیگر حواریوں کے خطوط اور یوحنا عارف کا مکاشفہ ہیں۔ اس حصہ میں کل ۲۷ کتابیں ہیں۔ یاد رہے کہ یہود ’’عہدنامہ جدید‘‘ کو الہامی تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ حضرت عیسٰیؑ کی نبوت کے منکر ہیں۔
اب بائیبل میں سے تورات و انجیل پر ہمارا یعنی مسلمانوں کا بطریق قرآن یہ عقیدہ اور یقین ہے کہ یہ دونوں کتابیں تبدیل ہو چکی ہیں، بگڑ چکی ہیں، کیونکہ ان میں اس قدر تحریف ہوئی کہ یہ اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہیں۔ جبکہ مسیحی علماء اس قرآنی نص کا شدومد سے انکار کرتے ہیں۔
اب جاننا چاہیئے کہ تحریف کی دو قسمیں ہیں: اول، تحریفِ لفظی۔ دوم، تحریفِ معنوی۔
(۱) تحریفِ لفظی کہتے ہیں الفاظ کو بگاڑ ڈالنا، کلمات کو بدل ڈالنا۔ اس کے تین طریقے ہیں: (۱) تبدیلی (۲) زیادہ (۳) نقصان۔ اور تحریف لفظی تینوں طریقوں سے ان کتابوں میں موجود ہے جیسا کہ حضرت مولانا رحمت اللہ العثمانی الکیرانوی المکیؒ ’’اظہار الحق‘‘ میں اس کی صراحت ان الفاظ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ
ان التحریف اللفظی بجمیع اقسامہ اعنی تبدیل الالفاظ و زیادتھا و نقصانھا ثابت فی الکتب المذکورۃ۔ (اظہار الحق ۲۰۹)
(۲) تحریفِ معنوی کہتے ہیں (اصل) الفاظ کی غلط تفسیر و تعبیر اور تاویل کرنا جیسا کہ آج کل کے کچھ گمراہ فرقے قرآن کریم میں تحریفِ معنوی کرتے ہیں۔
یہ بھی جاننا چاہیئے کہ تورات و انجیل میں تحریف (لفظی و معنوی) کے بارے میں علماء اسلام کے ہاں تین مذاہب پائے جاتے ہیں۔
اول وہی ہے جو مولانا رحمت اللہؒ کی عبارت سے ظاہر ہے۔ اس پر اصحاب ظواہر میں سے علامہ ابن حزمؒ نے بہت زور دیا ہے اور ’’الفصل‘‘ میں یہود و نصارٰی کے عقائد، کتب اور ان کی بطالت کے بیان میں طویل بحث کی ہے، یہ مذہب جمہور علماء کا ہے۔
دوم یہ کہ ان کتب میں اگرچہ تحریف ہوئی لیکن بہت کم (تحریف سے بہرحال انکار نہیں)۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ حافظ ابن تیمیہؒ کا میلان اسی جانب ہے۔
سوم یہ کہ ان کتب میں تحریف قطعًا واقع نہیں ہوئی الّا یہ کہ تحریف معنوی ثابت ہے۔ لیکن اس مذہب والوں نے یہ کہہ کر قرآن میں موجود نصوص کی سخت مخالفت کی ہے اور یہ مذہب ’’شذوذ‘‘ کے زمرہ میں شمار ہوگا کیونکہ قرآن کریم میں ہے:
’’یہ کلمات کو ان کی جگہوں کے مقرر ہونے کے بعد بگاڑ ڈالتے ہیں۔‘‘ (المائدہ)
اور
’’یہ اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ لیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔‘‘ (البقرہ)
اور یہ مذہب اس لیے بھی ناقابلِ اعتبار ہے کہ قرآن میں ہر مقام پر لفظ تحریف کو ’’تاویلِ فاسد‘‘ کہنے سے قرآن اور ان کتابوں میں حفاظت کے سلسلے میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ جبکہ سورۃ الحجر میں ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون‘‘ میں مذکور لفظ ’’الذکر‘‘ کو مفسرین نے بالاتفاق ’’قرآن‘‘ کا لقب کہا ہے۔
تحریفِ لفظی کے سلسلے میں علامہ محمود آلوسیؒ فرماتے ہیں:
والجمھور علی ان تحریفھما بتبدیل کلام من تلقائھم۔ (روح المعانی ج ۱ ص ۲۹۸)
’’جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ان کتابوں کی تحریف یہود و نصارٰی کے اپنی طرف سے ڈالے جانے والے کلام کے ذریعے ہوئی۔‘‘
مدارک التنزیل میں ہے:
یزیلونہ و یمیلونہ عن مواضعہ التی وضعہ اللہ فیھا۔ (ج ۱ ص ۴۹۶)
’’کلمات کو زائل کر دیتے تھے اور ہٹا دیتے تھے ان مقامات سے جہاں پر اللہ نے ان کو رکھا تھا۔‘‘
خازن میں ہے:
وفی قولہ من بعد مواضعہ اشارۃ الی اخراجہ من الکتاب بالکلیۃ (ج ۱ ص ۴۹۶)
’’اللہ تعالیٰ کے قول ’’من بعد مواضعہ‘‘ میں اس جانب اشارہ ہے کہ وہ کلمات کو بالکل کتاب سے ہی نکال دیتے تھے۔‘‘
قارئین کرام! یہ تو قرآنی آیات اور ان کی تفسیر ہے۔ اس قدر صراحت کے باوجود ایک عیسائی پادری کے ایل ناصر قرآن کریم کی ان واضح آیات سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
’’قرآن شریف میں تورات و انجیل میں تحریف کا الزام کہیں نہیں ہے۔‘‘ (تصدیق الکتاب ۔ ص ۴۸ ۔ از پادری کے ایل ناصر)
اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود مسیحی علماء کے اقوال سے اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ثبوت پیش کیا جائے۔
(۱) آرچ ڈیکن پادری برکت اللہ نے لکھا ہے:
’’حسن اتفاق سے ان معلموں کے ہاتھوں میں ایک رسالہ بھی تھا جو حضرت کلمۃ اللہ کی تعلیم اور آپ کے کلمات طیبات پر مشتمل تھا۔‘‘ (قدامت و اصلیت اناجیل اربعہ ۔ ج اول ص ۳۷)
اور ص ۸۵ پر لکھا ہے:
’’اور یہ رسالہ آہستہ آہستہ نقل ہونا بند ہو گیا اور ایک زمانہ آیا جب یہ رسالہ ناپید ہو گیا۔‘‘
(۲) پادری ایچ یو سٹینٹس کا کہنا ہے کہ:
’’بعض مصنفین نے خیال کیا ہے سناپٹک اناجیل کے مصنفین کے سامنے ایک اور انجیل تھی جو ہماری موجودہ اناجیل سے بہت پہلے کی تھی اور اب مفقود ہے۔‘‘ (تفسیر متی ۔ مترجمہ پادری طالب الدین بی اے ۔ ص ۱۸)
(۳) مسیحی مجلہ سہ ماہی ’’ھما‘‘ لکھنؤ (بابت اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۷ء) رقم طراز ہے:
’’اب جبکہ نئے عہدنامہ کی کتابوں کو تصنیف ہوئے اٹھارہ صدیاں گزر چکی ہیں کیا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتابیں آج اپنی اصل صورت میں موجود ہیں؟ مسیحی علماء متفق الرائے ہیں کہ ان کتابوں کے اصل نسخے معدوم ہو گئے ہیں۔‘‘ (ص ۵)
(۴) مفسر کریز اسٹم اپنی تفسیر ’’ہوم لی‘‘ میں لکھتا ہے:
’’پیغمبروں کی بہت سی کتابیں ناپید ہوگئیں اس لیے کہ یہودیوں نے غفلت بلکہ بے دینی سے بعض کتابوں کو کھو دیا اور بعض کو پھاڑ ڈالا اور بعض کو جلا ڈالا۔‘‘ (ج ۹)
(۵) مشہورِ زمانہ مؤرخ موسیو دینان لکھتا ہے:
’’تورات میں بھی بہت سی اہم تبدیلیاں کی گئیں۔ نئی کتابیں مثل کتاب ’’استثناء‘‘ مرتب کی گئیں اور کہا یہ گیا کہ یہ کتابیں موسٰیؑ کی اصل شریعت کی حامل ہیں حالانکہ درحقیقت ان کی روح پرانی کتابوں سے بالکل مختلف تھی۔ (لائف آف موسس ص ۴)
اور ’’حیاتِ مسیح‘‘ میں یہی مصنف لکھتا ہے:
’’ابتدائی ڈیڑھ سو سال میں اناجیل کو کوئی مستند حیثیت حاصل نہ تھی۔ ان میں اضافے کرنے یا مختلف انداز سے ترتیب دینے یا ایک کی تکمیل دوسرے سے کرنے میں کوئی باک اور تامل نہ (ہوتا) تھا۔‘‘ (ص ۱۲)
(۶) مشہور متعصب اور عنّاد مسیحی عالم پادری فانڈر لکھتا ہے کہ:
’’ہم لوگ قائل ہیں کہ بعض حروف و الفاظ میں تحریف وقوع میں آئی اور بعض آیات کی بابت مقدم اور مؤخر اور الحاق کا شبہ ہے۔‘‘ (اختتام دینی مباحثہ ۔ ص ۵۰ ۔ طبع ۱۸۵۵ء)
(۷) مشہور عیسائی مؤرخ موشیم لکھتا ہے کہ:
’’بہت سے فریب کاروں نے خود کتابیں لکھیں اور انہیں مقدس حواریوں کی طرف منسوب کر دیا۔‘‘ (پہلی صدی ۔ حصہ دوم ۔ باب ۲/۱۷)
(۸) مفسر ہارسلے اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ:
’’مقدس متن میں تحریف کا وقوع شک و شبہ سے بالاتر ہے۔‘‘ (ج ۳ ص ۲۸۲)
(۹) مفسر ہورن تفسیر میں لکھتا ہے:
’’الحاق کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیئے کہ تورات میں اس قسم کے فقرے موجود ہیں۔‘‘ (ج اول ص ۶۸)
(۱۰) یہی مفسر لکھتا ہے:
’’ناقلوں نے نہایت بے باکی کے ساتھ عہد جدید کی ایک کتاب کے فقروں کو دوسری کتاب میں داخل کر دیا۔ اسی طرح حواشی کی عبارتوں کو متن میں شامل کر دیا۔‘‘ (جلد اول ص ۴۶۷)
ہم اقوال کے سلسلے میں صرف ان دس حوالجات پر اکتفا کرتے ہیں جو ہر مسلمان کے اس قرآنی عقیدہ کو پختہ کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ تورات و انجیل کو حفاظت جیسی فضیلت حاصل نہیں کیونکہ یہ اقوال قرآن یا کسی مسلم مفسر و عالم کے نہیں بلکہ خود مسیحی فضلاء و علماء کے ہیں۔
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے
لیکن ممکن ہے کہ آج کے بزعم خویش مسیحی متکلمین و مناظرین ان محققین پر اپنی علمی و تحقیقی افضلیت و فوقیت کی خوش فہمی میں مبتلا ہوں اور تورات و انجیل کی تحریف سے انکار کریں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تحریف کی چند واضح مثالیں بھی پیش کر دی جائیں تاکہ ان خودساختہ محققین کے دعوٰی کی حقیقت بے نقاب ہو سکے۔
مثال اول
وادیٔ مکہ کا ایک معروف نام فاران بھی ہے اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر اسی فاران سے دس ہزار صحابہ کرامؓ کی معیت میں وارد ہوئے۔ چنانچہ بائیبل میں اس واقعہ کو بطور پیش گوئی ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا تھا کہ:
’’خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر آشکارا ہوا۔ وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور دس ہزار مقدسوں کے ساتھ آیا۔‘‘ (تورات ۔ کتاب استثناء ۔ باب ۳۳ ۔ آیت ۱ تا ۳)
اس میں ’’سینا‘‘ کا لفظ موسٰی علیہ السلام کی شریعت بتلاتا ہے اور ’’سعیر‘‘ عیسٰی علیہ السلام کی۔ جبکہ فاران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو ظاہر کرتا ہے اور دس ہزار کا لفظ صحابہ کرامؓ کی تعداد بتلاتا ہے۔ اور یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے کہ اس میں وہی تعداد بتلائی جا رہی ہے جو صحابہ کرامؓ کی تھی۔ اس لیے مسیحی علماء نے اپنے معروف حربہ کے موافق اس کو اڑا دیا، موجودہ اردو ترجمہ یوں ہے:
’’وہ لاکھوں قدسیوں کے ساتھ آیا۔‘‘
اور عربی مترجم نے نہایت ہوشیاری سے لاکھوں کا لفظ بھی اڑا دیا اور ’’ربوات القدس‘‘ کر دیا یعنی ’’قدس کے ٹیلے‘‘۔ باوجودیکہ یہ صدہاسال سے اس فعلِ شنیع میں مصروف ہیں لیکن حیرت ہے کہ ابھی تک یہ عقل اور سمجھ سے پیدل ہیں۔ انگریزی ترجمہ کی طرف کسی نے خیال ہی نہیں کیا جو آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نوید سنا رہا ہے:
"And he came with ten thousand of saint." (King James Version)
مثال دوم
بائیبل میں کثیر تحریف کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق مقامات و واقعات کی طرف اشارہ اس میں پایا جاتا ہے۔ سورہ آل عمران میں ایک لفظ ’’بَکَّۃَ‘‘ ہے جو مکہ مکرمہ کے لیے استعمال ہوا ہے، اور سورۂ ابراہیم میں مکہ مکرمہ کو ’’وَادٍ غَیْرَ ذِیْ زَرْعٍ‘‘ یعنی بنجر زمین کہا گیا ہے۔ یہی لفظ یعنی بکۃ زبور ۸۴ میں یوں مذکور تھا:
’’وہ وادی بکۃ سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں۔‘‘ (آیت ۶)
لیکن مسیحیوں کے تعصب و عناد کو دیکھیئے کہ مکہ مکرمہ کا نام تک اپنی کتاب میں گوارا نہیں کیا، لہٰذا موجودہ اردو ترجموں میں یوں ہے:
’’وہ وادی بُکا سے گزر کر ۔۔۔۔‘‘
یعنی لفظ کے ب پر پیش ڈال دیا جس کا معنی ’’رونا‘‘ ہے۔ عربی ترجمہ میں صراحت سے ’’عابرین فی وادی البکاء‘‘ مذکور ہے تو اس کا معنی ’’رونے کی وادی‘‘ ہو گیا ہے۔ جبکہ کیتھولک بائیبل میں بکۃ کا ترجمہ ’’خشک وادی‘‘ کیا گیا ہے جو ’’غیر ذی زرع‘‘ کے لیے مناسب ہے۔ پروٹسٹنٹ محرفین کی اس حرکت کا مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے ان الفاظ میں محاسبہ کیا ہے کہ
’’تغیر و تبدل اور اصلاح کرتے رہنا فرقہ پروٹسٹنٹ کے لیے ایک امر طبعی بن گیا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے جب کبھی ان کی کوئی کتاب دوسری بار طبع ہوتی ہے اس میں پہلے کی نسبت بے شمار تغیر و تبدل پایا جاتا ہے۔ یا تو بعض مضامین بدل دیے جاتے ہیں یا گھٹا بڑھا دیے جاتے ہیں یا کسی مبحث کو مقدم یا مؤخر کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (اظہار الحق ج ۱ ص ۴۶)
یہ بھی واضح رہے کہ یہ شرارت صرف اردو اور عربی ترجموں کی ہے۔ انگریزی (کنگ جیمز) بائیبل میں بھی بکۃ کا لفظ ہے (Valley of Baca)۔
مثال سوم
انجیل متی میں یوں تھا:
’’اور انہوں نے اسے صلیب پر چڑھایا اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لیے تاکہ وہ پورا ہو جائے جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا کہ انہوں نے میرے کپڑے آپس میں بانٹ لیے اور میرے لباس میں قرعہ ڈالا۔‘‘ (باب ۲۷ آیت ۳۵)
جبکہ موجودہ اردو ترجمہ صرف اتنا ہے:
’’اور انہوں نے اسے مصلوب کیا اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لیے۔‘‘
ملاحظہ کیجیئے کہاں اتنی لمبی توضیح اور کہاں یہ مختصر سی عبارت اور پھر ’’جو نبی کی معرفت الخ‘‘ والی اہم عبارت حذف کر دی گئی ہے۔ اور سنیئے موجودہ عربی ترجمہ اردو ترجمہ کی تائید سے منکر ہے:
ولما صلبوہ اقتسموا ثیابہ مقترعین علیھا لکی یتم ما قبل بالنبی اقتسموا ثیابی و علی لباسی القوا قرعۃ۔
’’اور جب انہوں نے اسے سولی دی تو اس کے کپڑے تقسیم کر لیے درآنحالیکہ وہ ان کپڑوں پر قرعہ ڈالنے والے تھے تاکہ پورا ہو جو کہا گیا نبی کے ذریعے انہوں نے تقسیم کر لیے میرے کپڑے اور میرے لباس پر انہوں نے قرعہ ڈالا‘‘۔
مثال چہارم
یوحنا کے پہلے خط ۸۰۷/۵ میں یوں تھا:
’’اس لیے کہ آسمان میں گواہی دینے والے تین ہیں۔ باپ، کلمہ اور روح القدس اور یہ تینوں ایک ہیں۔ اور زمین میں گواہی دینے والے بھی تین ہیں۔ روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں۔‘‘
جبکہ آج کے ترجموں میں ہمیں یہ عبارت ملتی ہے:
’’اور جو گواہی دیتا ہے وہ روح ہے کیونکہ روح سچائی ہے۔ اور گواہی دینے والے تین ہیں روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں۔‘‘
مصیبت یہ ہے کہ عربی ترجمہ میں بھی وہی ہے جو موجودہ ترجمہ سے حذف کر دیا گیا ہے:
فان الذین یشھدون فی السماءھم ثلثۃ الأدب والکلمۃ والروح القدس وھؤلاء الثلثۃ ھم واحد۔ والذین یشھدون فی الارض ھم ثلثۃ الروح والماء والدم والثلثۃ ھم فی الواحد۔
ناظرین تحریف کی چند مثالیں آپ نے ملاحظہ کیں، اب اس سلسلے میں عیسائی احباب کا ردعمل بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مسیحی مجلہ ’’ھما‘‘ لکھنؤ (بابت اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۷ء) اعتراف کرتا ہے کہ
’’انجیل مقدس کے مختلف نسخوں اور ترجموں میں ردوبدل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔‘‘ (ص ۷)
جب مقدس صحیفوں کا یہ حال ہے تو ان کے الہام کی بابت بھی پادری والش صاحب کی یہ تحریر بھی ملاحظہ ہو:
’’اسقف بٹلر صاحب نے کہا کہ انگلستان میں ایک بھی فاضل ایسا نہیں ہے جو پاک نوشتوں کے الہام کا قائل ہو۔‘‘ (قربت الٰہی ۔ ص ۵۹ ۔ مطبوعہ ۱۸۶۸ء)
اور تحریف کی بابت خود برمیاہ نبی نے الزام لگایا کہ
’’تم نے زندہ خدا رب الافواج ہمارے خدا کے کلام کو بگاڑ ڈالا ہے۔‘‘ (ہرمیاہ ۳۶:۲۲)
اور پولس رسول کہتا ہے کہ
’’انہوں نے خدا کی سچائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالا۔‘‘ (رومیوں ۲۵:۱)
محترم قارئین! ہم نے اس بحث میں پادری کے ایل ناصر اور اس کے ہمنواؤں پر ’’اتمام حجت‘‘ کر دیا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ واضح کر دیا ہے کہ بائیبل جس کی نسبت یہ بڑی عجیب عجیب باتیں لکھتے ہیں اور اس کو غیر محرف اور Unchanged کہتے تھکتے نہیں وہ نہ صرف قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق تحریف شدہ ہے بلکہ خود ان کے بڑوں کے بقول محرف ہے اور تورات و انجیل کے قدیم نسخے بلکہ ان کی اصل زبانیں تک گم ہو چکی ہیں۔