اسسٹنٹ کمشنر/مجسٹریٹ درجہ اوّل اسلام آباد۔
سٹیٹ بنام عبد القیوم علوی۔
مقدمہ علت ۱۳ مؤرخہ ۱۴/۲/۸۵ بجرم A۔295 و A۔298 ت پ تھانہ آبپارہ۔
حکم: عبد القیوم علوی ولد غلام حسین قوم اعوان سکنہ پنڈ نگرال تھانہ گولڑہ شریف اسلام آباد کو پولیس تھانہ آبپارہ نے بجرم ۲۹۵۔اے ۲۹۸ ۔اے ت پ چالان کر کے بغرضِ سماعت پیشِ عدالت کیا۔ مختصر حالات مقدمہ اس طرح ہیں کہ مورخہ ۱۴/۲/۸۵ کو مدعی مقدمہ مولانا محمد عبد اللہ صدر جمعیۃ اہلسنت والجماعت پاکستان خطیب مرکزی مسجد سیکٹر جی سکس اسلام آباد نے تحریری درخواست تھانہ آبپارہ گزاری کہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) مصنفہ عبد القیوم علوی (ملزم) میں بعض صحابہ کرامؓ اور بزرگ ہستیوں بشمول حضرت امیر معاویہؓ کے متعلق مصنف نے قابلِ اعتراض الفاظ استعمال کیے اور ان کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ کافر، کتے، خنزیر کے برابر اور منافق، دشمنِ اسلام، ملعون اور دین کے معاملہ میں خصوصاً ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے جس سے مدعی اور سنی اکثریت کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔
دورانِ تفتیش کتاب مذکورہ بالا قبضۂ پولیس میں لی گئی، گواہان کے بیانات قلمبند ہوئے، ملزم کو گرفتار کیا جا کر، بعد تکمیل تفتیش چالان عدالت کیا گیا۔ مورخہ ۱۵/۴/۸۵ کو نقول بیانات گواہان استغاثہ تقسیم ہو کر مورخہ ۳۰/۴/۸۵ کو ملزم پر فرد جرم یر دفعات A۔295 و A۔298 عائد ہوئی، ملزم کے انکار پر شہادت استغاثہ طلب ہو کر قلمبند ہوئی۔
گواہان استغاثہ نمبر ۱، نمبر ۲ فرد مقبوضگی Ex P1 ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) ہیں جنہوں نے بابت مقبوضگی کتاب بیان کیا۔ گواہ استغاثہ نمبر ۳ مدعی مقدمہ جنہوں نے اپنی رپورٹ ابتدائی Ex PB کی تائید کی اور بتایا کہ وہ ان کی قلمی و دستخطی ہے نیز اس نے بتایا کہ اس نے دوران تفتیش کتاب Ex P2 پیش کی اور وہ پولیس نے بذریعہ خود Ex PC قبضہ پولیس میں لی جس پر گواہ نے اپنے دستخط شناخت کی۔ گواہ نے اپنی شہادت کے دوران بتایا کہ کتاب کے مختلف حصوں میں مصنف نے صحابہ کرامؓ کے بارہ میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں اور ان کو ناصبی کہا ہے جبکہ مصنف نے ناصبیوں کے لیے کتے، خنزیر، ملعون اور کافر، منافق جیسے برے القاب سے تعبیر کیا جس سے مدعی کی اور تمام اہل سنت ساتھیوں (گواہان) کی مذہبی دلآزاری ہوئی اور ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔ گواہ نے اس بارہ میں کتاب کے صفحہ ۱۶ مقام A تا A اور صفحہ ۲۱ مقام B تا B اور صفحہ ۱۵ مقام C تا C کا خاص طور پر ذکر کیا۔ مزید بتایا کہ اس نے ایک مفصل رپورٹ (Ex P3 - P6) ایسے ہی حوالہ جات پر مبنی تیار کر کے پولیس کو دی جو کہ ان کی اور گواہ عبد الغفور کی دستخطی ہے۔ گواہ نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی جن کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے حضرت معاویہؓ کو صحابی اور کاتب وحی سمجھتے ہیں۔ جرح میں گواہ نے بتایا کہ اس کی دلآزاری مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور اہلسنت والجماعت ہونے کی حیثیت سے اور علماء دیوبند کے ساتھ تعلق کی حیثیت سے ہوئی ہے۔
گواہ استغاثہ ۴ کرامت خان ASI محرر FIR ہے۔ گواہ نے بتایا کہ اس نے رسمی رپورٹ ابتدائی Ex PB/I حسب آمدہ تحریر مدعی Ex PB درست طور پر قلمبند کی۔
گواہان استغاثہ نمبر ۵، ۶، ۷ نے بھی متفقہ طور پر بتایا کہ بحیثیت مسلمان اور اہلسنت والجماعت ان کے مذہبی جذبات ملزم کی مصنفہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) پڑھ کر مجروح ہوئے ہیں۔ چونکہ مصنف نے اپنی کتاب میں صحابہ کرامؓ کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے اور انہیں ناصبی گردانا جس کی تعبیر مصنف نے کتے اور خنزیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کر کے کی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دوران شہادت گواہ استغاثہ ۶ مولانا عبد الغفور ملزم سے ذیل سوالات عدالت نے پوچھے جو کہ معہ جوابات ملزم درج ہیں:
سوال عدالت: کیا آپ نے حضرت معاویہؓ اور عمرو بن عاصؓ کو کافر، منافق، ظالم وغیرہ کہا ہے؟
جواب: میں نے بالکل یہ کہا ہے اور کتاب میں لکھا ہے۔
سوال عدالت: کیا آپ کی نظر میں ان صحابہ کو برا بھلا کہنے سے جذبات مجروح نہیں ہوتے؟
جواب: اس سے جذبات مجروح نہیں ہوتے کیونکہ اہل سنت کے نزدیک یہ ظالم اور بری شخصیتیں ہیں۔
گواہ استغاثہ ۸ ریاض احمد SI تفتیشی افسر مقدمہ ہذا ہے، گواہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس نے دورانِ تفتیش حسب پیش کردہ گواہان کتاب EX P1, P2 ’’تاریخ نواصب‘‘ بذریعہ فردات Ex PC, EX PA قبضہ پولیس میں لی۔ نقشہ موقعہ Ex PE مرتب کیا اور کتاب کے قابل اعتراض اقتباسات Ex P3-P14/1-14 پیش کردہ گواہان حاصل کر کے شامل مثل کیے۔ گواہ نے مزید بتایا کہ ملزم نے صحابہ کرامؓ کی توہین کی ہے اور اہلسنت والجماعت کے جذبات کو مجروح کیا ہے جس کی وجہ سے ملزم کو گنہگار پا کر چالان عدالت کیا۔ اس گواہ پر باوجود موقعہ دینے کے ملزم نے جرح نہ کی اور اس مرحلہ پر شہادت استغاثہ کی تکمیل ہوئی۔
شہادت استغاثہ کی قلمبندی کے بعد مؤرخہ ۱۹/۲/۸۷ کو ملزم کا بیان زیر دفعہ 342 ص ت قلمبند کیا گیا۔ گواہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ کتاب P1, P2 ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) کا وہ مصنف ہے۔ اس نے موقف اختیار کیا کہ اس نے کسی صحابیٔ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین نہ کی ہے اور نہ ہی کسی سنی کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ ملزم نے مزید بتایا کہ وہ اپنے دیگر بیان میں تفصیلات بابت کتب مصنفین اہل والجماعت جس نے اصحابِ رسولؐ کو کافر و منافق وغیرہ لکھا ہو بتائے گا اور یہ بھی بتائے گا کہ اس کے خلاف مقدمہ کیوں بنایا گیا ہے۔ تاہم ملزم نے بعد ازاں مؤرخہ ۴/۳/۸۷ کو بیان کیا کہ وہ دفعہ 340 ض ف بیان نہ دینا چاہتا ہے۔ اس مرحلہ پر بحث فریقین سماعت کی گئی اور مثل کا بغور مطالعہ کیا گیا۔
دورانِ بحث ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی کہ دفعہ 196 ض ف کے تحت دفعہ 295/8 ت پ کی سماعت سے پہلے مرکزی یا صوبائی حکومت یا ان کی طرف سے مجاز اتھارٹی کی نالش ضروری تھی جو کہ حاصل نہ کی گئی ہے۔ اس قانونی نقطہ سے ہم اتفاق کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واقعی سماعت مقدمہ کرنے سے پہلے اس بارہ میں کارروائی کرنا لازمی تھی جو کہ نہ کی گئی ہے۔ ہم اس مرحلہ پر جب کہ مقدمہ ہذا سال ۱۹۸۵ء سے زیرسماعت ہے اس بارہ میں تحرک کو تقاضائے انصاف کے خلاف اور نامناسب سمجھتے ہیں۔
صفحہ مثل برآمدہ شہادت اور بیان ملزم سے عیاں ہے کہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) ملزم ہی کی تصنیف ہے اور ملزم نے اس امر کو خود تسلیم کیا۔ نیز ملزم نے دوران کارروائی عدالت واضح الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ اس نے اپنی کتاب مذکورہ بالا میں حضرت معاویہؓ اور عمرو بن عاصؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ کو کافر، منافق، ملعون، بدکردار، فاسق، فاجر اور ظالم وغیرہ کہا ہے، تاہم یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے اور اہلسنت والجماعت کے نزدیک وہ صحابی نہیں ہیں۔
شہادت استغاثہ اور تاریخِ اسلام پر لکھی گئی مستند کتب کے حوالے سے اس امر کے متعلق کوئی شک و شبہ نہ ہے کہ حضرت معاویہؓ صحابیٔ رسول اور کاتب وحی تھے۔ اس طرح عمرو بن عاصؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ بھی اصحاب رسولؐ تھے۔ ملزم کے مذکورہ شخصیتوں کو اصحابؓ رسولؐ نہ ماننے سے قطعًا تاریخی واقعات و حالات تبدیل نہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مذہب اسلام کے لاکھوں پیروکار ان شخصیتوں کو صحابیٔ رسولؐ سمجھتے ہیں اور اس بات کا علم ملزم کو بھی ہے اور ملزم نے جان بوجھ کر ان شخصیتوں کے بارے میں عمدًا نازیبا الفاظ استعمال کر کے اہلسنت والجماعت و دیگر مسلمانوں مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے۔
بحالات بالا ہم سمجھتے ہیں کہ استغاثہ اپنے مقدمہ کو بدون شک و شبہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے نیز یہ کہ نازیبا الفاظ جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا شخصیتوں کے لیے استعمال کرنے کو بھی ملزم ازخود تسلیم کرتا ہے، لہٰذا ہم ملزم کو زیردفعہ A۔298 ت پ تین سال قید بامشقت کی سزا دیتے ہیں، تاہم اس سزا کا اطلاق حسب منشا زیر دفعہ B۔382 ض ف ہو گا، حکم سنایا گیا۔ مثل بعد ترتیب و تکمیل داخل دفتر ہووے۔
دستخط اسسٹنٹ کمشنر / مجسٹریٹ درجہ اول اسلام آباد
۱۵/۱۱/۸۹