علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داری

قاضی محمد اسرائیل

انبیاء علیہم السلام کو اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے دنیا میں مبعوث کیا۔ جب ایک نبی علیہ السلام کا انتقال ہوا تو دوسرا نبی اس کے بعد مبعوث کیا گیا۔ یہاں تک کہ سلسلہ رُسل کی آخری کرن آمنہ کے لال عبد اللہ کے درِّ یتیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے پوری کائنات کے لیے رسولؐ بنا کر بھیجا اور یہ اعلان فرمایا کہ آپؐ کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اب لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے یہ نبیوں والا کام اس امت کے علماء کے حوالے کر دیا گیا ہے اور خالقِ کائنات نے اعلان فرمایا کہ میرے بندوں میں سب سے زیادہ مجھ سے ڈرنے والے علماء ہیں۔ علماء کرام کے ادب و احترام کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ علماء کرام کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ میں ایک جھلک علماء کرام کے مقام اور مرتبے کی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

خالقِ ارض و سما رب العالمین نے قرآن پاک کے اندر اعلان فرمایا: 

’’کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘ 

دوسری جگہ اعلان فرمایا: 

’’اللہ پاک جو لوگ ایمان لائے ان کے درجے اور مرتبے بلند کرے گا اور علم والے لوگوں کے بھی‘‘۔ 

اس آیت میں اللہ پاک نے علماء کرام کی عظمت اور رفعت کا ذکر کیا ہے۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

’’وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کی قدر نہ کرے‘‘ (ترغیب)

ایک اور مقام پر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 

’’تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق کے سوا کوئی شخص ہلکا (ذلیل) نہیں سمجھ سکتا۔ ایک وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو گیا، دوسرا اہلِ علم، تیسرا منصف بادشاہ‘‘ (ترغیب)

ہماری آنکھوں کے نور، دلوں کے سرور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کا مقام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’یا تو عالم بن یا طالب علم یا علم کا سننے والا یا (علم اور علماء) سے محبت کرنے والا، پانچویں قسم میں داخل نہ ہونا ورنہ ہلاک ہو جائے گا‘‘ (مقاصد حسنہ)

حضرت علامہ حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ پانچویں قسم سے مراد علماء کی دشمنی ہے اور ان سے بغض رکھنا۔ اسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

’’یا تو عالم بن یا طالب علم اور اگر دونوں نہ ہو سکے تو علماء سے محبت رکھنا ان سے بغض نہ رکھنا‘‘۔ (مجمع)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’قرآن کریم کے حاملین (علماء و حفاظ) قیامت کے دن جنت والوں کے سردار اور چوہدری ہوں گے‘‘ (طبرانی)

حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی جو بہت بڑے بزرگ اور صوفی گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتوں کا مسلمانوں سے عہد لیا ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ میرے علماء کا احترام کرنا۔ علامہ شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک عام عہد اس بات کا لیا گیا ہے کہ ہم علماء کرام کا اکرام اور اعزاز کریں اور ان کی تعظیم کریں اور ہم میں یہ قدرت نہیں ہے کہ ان کے احسانات کا بدلہ کر سکیں چاہے وہ سب کچھ دے دیں جو ہماری ملک میں ہے اور خواہ مدت العمر ان کی خدمت کرتے رہیں۔ اس معاہدے میں بہت سے طالب علم اور مریدین کوتاہی کرنے لگے ہیں حتٰی کہ ہم کو ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اپنے استاذ کے حقوق واجبہ ادا کرتا ہو۔ یہ دین کے بارے میں ایک بڑی بیماری ہے جس سے علم کی اہانت کا پتہ چلتا ہے اور اس ذات اقدس کے حکم کے ساتھ لاپرواہی کا پتہ چلتا ہے جس نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ 

مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ شعرانیؒ لکھتے ہیں، ہم لوگوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک عام عہد لیا گیا ہے کہ ہم علماء اور اکابر کی تعظیم کریں چاہے وہ خود اپنے علم پر عمل نہ کریں اور ہم لوگ ان کے حقوق واجبہ کو پورا کریں اور ان کے ذاتی معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیں۔ جو شخص ان کے حقوق واجبہ اکرام اور تعظیم میں کوتاہی کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کرتا ہے۔ اس لیے کہ علماء رسول اللہؐ کے جانشین ہیں اور ان کی شریعت کے حامل اور اس کے خادم۔ پس جو شخص ان کی اہانت کرتا ہے تو یہ سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ کفر ہے۔ اور تم غور کر لو کہ بادشاہ اگر کسی کو ایلچی بنا کر کسی کے پاس بھیجے اور وہ اس کی اہانت کرے تو بادشاہ ایلچی کی بات کس غور سے سنے گا اور اپنی نعمت کو جو اس اہانت کرنے والے پر تھی ہٹا لے گا اور اس کو اپنے دربار سے ہٹا دے گا، بخلاف اس شخص کے جو ایلچی کی تعظیم اور توقیر کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرتا ہے اور بادشاہ بھی اس کو اپنا مقرب بنا لیتا ہے۔ 

علماء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ہیں، ان کی عزت کرنا فرض ہے، جو ان کی عزت کرے گا وہ ان شاء اللہ قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جگہ پائے گا۔ جب علماء کرام آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث اور جانشین ہیں تو پھر ہر موقعہ پر اور ہر موڑ پر علماء کو امت کی راہنمائی کرنی ہو گی اور امت کا فرض بنتا ہے کہ وہ علماء کا ساتھ دیں اور وقت کی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ علماء حق سے راہنمائی حاصل کرے اور علماء کی ضروریات زندگی میں ان کا خیال رکھے، کسی صورت میں علماء کا وقار مجروح نہ کیا جائے۔ علماء تو زمین کے ستارے ہیں ان سے روشنی لی جائے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

’’علماء کی مثال زمین میں ایسی ہے جیسی آسمان میں ستارے جن کے ذریعے جنگل کے اندھیروں اور سمندروں میں راستہ پہچانا جاتا ہے۔ اگر ستارے بے نور ہو جائیں تو یہ بات اقرب ہے کہ راہبرانِ قوم راستہ سے بھٹک جائیں۔‘‘ (ترغیب)

علماء کو چاہیئے کہ اپنی روشنی سے پوری دنیا کو منور کریں، علم و تقوٰی سے پوری امت کو مستفید کریں۔ ایک مقام پر آپؐ نے فرمایا کہ 

’’نبوت کے درجہ کے بہت قریب ایک جماعت علماء کی ہے، دوسرے مجاہدین کی۔ اس لیے کہ علماء اس چیز کا راستہ بتاتے ہیں جو اللہ کے رسولؐ لے کر آئے ہیں اور مجاہدین اپنی تلواروں سے اس طرف متوجہ کرتے ہیں۔‘‘ (احیاء العلوم)

  • علماء کرام کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں، 
  • علماء پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ پوری دنیا میں اشاعتِ اسلام کے لیے کوشش کریں، 
  • علماء کرام کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے یہ حق کی آواز بلند کرتے رہیں۔ 
  • علماء جماعتِ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ انبیاء کرامؑ نے قوم کی ہر موقع اور موڑ پر راہنمائی فرمائی جس کی وجہ سے انبیاء کو ساحر، مجنوں اور دیوانہ کہا گیا مگر انبیاء علیہم السلام نے اپنے مشن کو نہیں چھوڑا۔ علماء کا فرض ہے کہ وہ اس پاک جماعت انبیاءؑ کے جانشین ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے اپنا سب کچھ دین کے لیے قربان کر دیں۔ 
  • علماء کرام کا یہ فرض بھی بنتا ہے کہ عملی طور پر لوگوں کے سامنے نمونہ پیش کریں، سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ 

مضمون کو مختصر کرتے ہوئے شیرِ خدا علی المرتضٰیؓ کے ایک قول پر ختم کرتا ہوں، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ

’’جب کوئی عالم مر جاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسا رخنہ پیدا ہوتا ہے جس کو اس کا کوئی نائب ہی بھر سکتا ہے۔‘‘ (احیاء العلوم)

تمام امت پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اپنے علماء کا ادب و احترام کریں، ان کی خدمت کریں، ان کے پاس جا کر دینی معلومات حاصل کریں، ان کی توہین سے بچیں اور ان لوگوں سے بھی دور رہیں جو علماء کرام کی توہین کرتے ہیں، علماء بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک مسلمانوں کو اپنے مذہبی راہنماؤں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

دین اور معاشرہ

(دسمبر ۱۹۸۹ء)

دسمبر ۱۹۸۹ء

جلد ۱ ۔ شمارہ ۳

آہ! الشیخ عبد اللہ عزامؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا عزیر گلؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پیرِ طریقت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ
مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی

اسلام کا فطری نظام
مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

کیا افغان مجاہدین کی جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی تعلیم اور مدارس کی اہمیت
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

تلاوتِ قرآنِ مجید باعث خیر و برکت ہے
محمد اسلم رانا

کیا بائیبل میں تحریف پر قرآن کریم خاموش ہے؟
محمد عمار خان ناصر

علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داری
قاضی محمد اسرائیل

کیا واقعی سندھ کو نبی اکرمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟
غازی عزیر

موت کا منظر
حکیم سید محمود علی فتحپوری

عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت
مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی

توہینِ صحابہؓ کے مرتکب کو تین سال قید با مشقت کی سزا
ادارہ

منقبتِ صحابہؓ
سرور میواتی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

قرآنی نظام اپنے لیے ماحول خود بناتا ہے
شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی

تلاش

Flag Counter