برصغیر پاک و ہند کو عالمِ اسلام میں یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اس سرزمین پر اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی قدوم میمنت لزوم سے دینِ اسلام سے والہانہ محبت، اسلامی حمیّت و غیرت کا چراغ روشن ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہوں یا خواجہ سید علی ہجویریؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا فیضان ہو یا خواجہ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کی تعلیمات ہوں، حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی درخشندہ تاریخ ہو یا خواجہ نظام الدین اولیاء کے کارنامے، سب اکابرین کی تاریخ ساز جدوجہد اور محنت و عرق ریزی نے انسانیت کے مردہ قلوب کو اسلام کی تابندہ روشنی سے منور کیا۔
عہدِ حاضر میں پوری دنیا کفر و ضلالت اور الحاد مغربیت کی زد میں جاں بلب ہے۔ مسلم ممالک تک لادینیت کے زہر سے آلودہ ہیں۔ دہریت اور جدت طرازی نے ایک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کی ثقافت و معاشرت اور تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ غوایت و گمراہی کے ان مہیب سایوں، شرک و کفر اور بدعات و توہمات کے اندھیروں میں صرف ایک روشنی کی کرن اکابرین و اسلاف اور اولیاء عظام کی تعلیمات کی صورت میں پوری ملت اسلامیہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اہلسنت والجماعت کے تمام مکاتبِ فکر ولایت و ریاضت کے چار روحانی سلسلوں میں منسلک ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے سلسلہ قادریہ، خواجہ شہاب الدین سہروردیؒ سے سلسلہ سہروردیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے سلسلہ چشتیہ، حضرت مجدد الف ثانیؒ سے سلسلہ نقشبندیہ، برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش میں ذکرِ الٰہی، صفائی قلب، تزکیہ نفس اور انسانیت کی سچی تعمیر کے لیے روبہ عمل ہیں۔
ہم زیرِ نظر مضمون میں عہدِ حاضر کی ایک ایسی برگزیدہ ہستی اور عبقری صفت انسان کا تذکرہ کریں گے جو سلسلۂ نقشبندیہ کا درخشندہ ماہتاب ہے جس کی عطر بیزی سے دنیا کے ۲۲ ممالک کے مسلمانوں کے قلوب معطر ہو رہے ہیں۔ سلسلہ نقشبندیہ کی یہ عظیم شخصیت اور لاکھوں مسلمانوں کے پیشوا حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کے نام سے معروف ہیں۔ حال ہی میں جن کا سایہ اہلِ پاکستان کے سر سے اٹھ گیا ہے وہ لاکھوں مریدوں کو یتیم کر کے خلد بریں میں پہنچ چکے ہیں۔ آپ کے جنازے میں ایک لاکھ افراد شریک ہوئے۔ خانقاہ نقشبندیہ چکوال میں آج بھی اندرون اور بیرون ملک سے ہزاروں سوگواروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
حضرت پیر غلام حبیب صاحبؒ ۱۹۰۴ء بمطابق ۱۳۲۲ھ کو موضع کورڈھی وادی سون سکیسر ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میں قاری قمر الدین صاحب سے حفظ قرآن مکمل کیا۔ آخری تعلیم یعنی دورہ حدیث اور تفاسیر کی کتب شیخ الحدیث مولانا سید امیر فاضل دیوبند سے حاصل کی۔ تفسیرِ قرآن کے لیے آپ نے اپنے عہد کے نامور علماء اور جید اساتذہ کے فیض صحبت سے حظ وافر حاصل کیا۔ آپ کے ایک معتقد اور خصوصی شاگرد کے مطابق آپ نے ۱۹۴۲ء میں حرم کعبہ میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ سے تفسیر قرآن کے اہم رموز سیکھے۔ علاوہ ازیں علمِ تفسیر میں آپ نے نامور مفسر اور عہد حاضر کے نابغۂ روزگار، قرآنی علوم کے ماہر حضرت مولانا حسین علی واں بچھراں اور شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ سے شرفِ تلمذ پایا۔
۱۹۵۱ء میں آپ نے وطنِ مالوف کو خیرباد کہا اور مستقل طور پر چکوال میں مقیم ہو گئے۔ حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ نے جن دنوں چکوال میں قدم رکھا پورا علاقہ معصیت و کفران اور ضلالت و غوایت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ چاروں طرف دین سے بے رغبتی، جہالت اور شرک و کفر کے مہیب سائے دراز تھے۔ صحابہ کرامؓ، خلفاء راشدینؓ اور اہل بیت عظامؓ کا نام لینا اور ان کے فضائل بیان کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ جہالت و کفر کی اس سیاہ وادی میں قدم رکھنے کے بعد آپ نے ایک جامع مسجد میں درس و تدریس اور ذکرِ الٰہی کی محافل کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ ہجوم اور عقیدت مندوں کا قافلہ بڑھتا گیا۔ آپ نے تھوڑے عرصے بعد دارالعلوم حنفیہ کے نام سے ایک دینی مدرسہ کا آغاز کیا۔
تعلیمی امور کے ساتھ آپ نے اپنے دور کی ہر دینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا پیر غلام حبیبؒ نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آپ نے علاقہ بھر میں قادیانیت کے کفر سے لوگوں کو آگاہ کیا، خود طویل عرصے تک جیل کاٹی۔
چکوال میں تشریف آوری سے بہت قبل آپ نے مشہور روحانی سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق استوار کیا۔ اس کے لیے آپ احمد پور شرقیہ (بہاولپور) تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے حضرت فضل علی قریشیؒ کے سلسلۂ عالیہ کے ایک چشم و چراغ حضرت پیر عبد المالک صدیقیؒ نقشبندی سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ روحانی منازل طے کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے بے مثال ترقی حاصل کی اور اپنے مرشد کے خانوادہ سے خلافت کے خلعت سے مرقع ہوئے۔ سلسلۂ نقشبندیہ کے فروغ اور روحانیت کی اعلیٰ اقدار کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے حضرت پیر غلام حبیب صاحبؒ نے بے پناہ محنت کی، آپ کی عرق ریزی، جہدِ مسلسل، سعیٔ پیہم کا نتیجہ تھا کہ پاکستان اور غیر ملکوں سے لاکھوں انسان آپ کے آستانہ پر حاضر ہوئے۔ دیکھتے دیکھتے چکوال کی چھوٹی سی مسجد اور مختصر سا دینی مدرسہ برصغیر کی نامور خانقاہ بن گئی۔ پاکستان کی چالیس سالہ تاریخ میں کسی خانقاہ سے اتنے لوگ منسلک نہیں ہوئے جتنے حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کے حلقۂ ارادت میں لوگوں نے شرفِ بیعت پایا۔ آپ کو ایک نظر دیکھنے والا کوئی انسان آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا، موصوف حسن و جمال اور قدرتی تاثیر کی بے پایاں دولت سے بہرہ ور تھے۔ دن رات میں بائیس بائیس گھنٹے آپ وعظ و تلقین میں گزارتے، بڑھاپے کی عمر تک آپ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔
حضرت پیر غلام حبیبؒ سال بھر میں تین چار مرتبہ بیرون ملک دوروں کے لیے تشریف لے جاتے۔ امریکہ، برطانیہ، زمبیا، فرانس، فیجی، ماریشیس، طاوی اور ۲۲ اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں آپ کے مریدوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے۔ حال ہی میں جب سے آپ کی وفات کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے دنیا بھر سے آپ کے مریدوں اور عقیدتمندوں کی کیفیت انتہائی قابلِ دید ہے جیسے ان کے سر سے حقیقی باپ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔
حضرت پیر غلام حبیب نقشبندی کے قائم کردہ دارالعلوم میں تین سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ آپ کی زندگی ہی میں دارالعلوم اور خانقاہ کی پرشکوہ تعمیرات کی تکمیل ہو چکی ہے۔ چکوال کے پورے علاقے میں ایسے تعمیرات ناپید ہیں۔
آپ کی وفات ۲۱ ستمبر بروز جمعرات ۱۹۸۹ء کو ہوئی، دنیا بھر سے علماء، صلحاء، مشائخ، سیاست دان، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور عام مسلمانوں نے (جنازہ میں) شرکت کی۔ حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ اور ممتاز عالم دین حضرت مولانا عبد الرحمٰن قاسمی کی دستاربندی ہوئی، اس تقریب میں ملک بھر کے ہزاروں افراد شریک ہوئے۔