(۱۲ و ۱۳ نومبر ۱۹۸۹ء کو جامعہ اشرفیہ مسلم ٹاؤن لاہور میں حرکۃ الجہاد الاسلامی (عالمی) کا سالانہ اجتماع ہوا جس کی صدارت حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا قاری سیف اللہ اختر نے کی اور اس کی مختلف نشستوں سے ملک کے اکابر علماء کرام اور نے خطاب فرمایا۔ مدیر الشریعہ نے اپنے خطاب میں جہاد افغانستان کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اہم سوالات کا جائزہ لیا، ان کا خطاب درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ جناب صدر، قابل احترام علماء کرام اور میرے مجاہد بھائیو!
میں حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا قاری سیف اللہ اختر کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس اجتماع میں حاضری اور جہاد افغانستان کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ وقت مختصر ہے اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے آپ سے مخاطب ہونا ہے اس لیے انتہائی اختصار کے ساتھ کسی تمہید کے بغیر جہاد افغانستان کے بارے میں عام طور پر کیے جانے والے دو اہم سوالوں کا جائزہ لوں گا۔
میرے محترم بھائیو! آپ حضرات میں سے بہت سے دوست وہ ہیں جو محاذ جنگ پر جا کر عملاً جہاد میں شریک ہو چکے ہیں اور بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کے دلوں میں جہاد کا جذبہ موجزن ہے اور وہ محاذ جنگ پر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جہاد افغانستان کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک کا جائزہ لیا جائے تاکہ ذہنوں میں کسی قسم کا خلجان باقی نہ رہے۔ جہادِ افغانستان کے بارے میں اس وقت جن دو سوالوں پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے ان میں:
- ایک یہ ہے کہ جب روسی افواج افغانستان سے چلی گئی ہیں تو اب جہاد جاری رکھنے کا شرعی جواز کیا باقی رہ گیا ہے اور کیا افغانستان میں ہونے والی موجودہ جنگ مسلمان کی مسلمان کے ساتھ جنگ نہیں ہے؟
- دوسرا سوال یہ ہے کہ افغان مجاہدین نے اب تک جو جنگ لڑی ہے اس میں انہیں امریکہ، پاکستان اور دوسرے ممالک کی پشت پناہی حاصل تھی مگر اب ان ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلی نظر آرہی ہے اور پشت پناہی اور امداد کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہی۔ ان حالات میں افغانستان کی جنگ اب کس حال میں ہے، اس کا مستقبل کیا ہے اور اس کے جیتنے کے امکانات کس حد تک ہیں؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کے جواب میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاد افغانستان کا اصل ہدف کیا تھا۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ افغان مجاہدین نے روسی فوجوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تھا اس لیے روسی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ جہاد ختم ہوگیا ہے۔ کیونکہ جب افغانستان میں جہاد کا آغاز ہوا تھا اور افغان علماء نے جہاد کا فتوٰی دے کر ہتھیار اٹھائے تھے اس وقت افغانستان میں روسی فوجوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ افغان علماء نے کابل میں کمیونسٹ نظام کے تسلط اور اسلامی اقدار و روایات کے خلاف کابل کی کمیونسٹ حکومت کے اقدامات کے علی الرغم علم جہاد بلند کیا تھا۔ روسی فوجیں تو بہت بعد میں آئی ہیں اور اس وقت آئی ہیں جب افغان مجاہدین باقاعدہ عملی جنگ کے ذریعے افغانستان کا ایک اچھا خاصا علاقہ کابل کی کمیونسٹ حکومت کے تسلط سے آزاد کرا چکے تھے۔ روسی فوجیں کابل میں اپنی حکومت اور نظام کو بچانے کے لیے آئی تھیں اور کمیونسٹ انقلاب کو مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے بچانے کے لیے جنگ میں شریک ہوئی تھیں۔
اس پس منظر میں آپ دیکھیں کہ کابل میں جس کمیونسٹ حکومت اور کمیونسٹ نظام کے خلاف افغان مجاہدین نے جہاد کا آغاز کیا تھا، کیا اس کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ اگر کابل کی حکومت موجود ہے اور اپنے نظریاتی موقف اور نظام و انقلاب پر قائم ہے تو اس کے خلاف افغان مجاہدین کا جہاد بھی اپنی مکمل شرعی حیثیت کے ساتھ جاری ہے۔ یہ جس طرح پہلے دن شرعی جہاد تھا آج بھی شرعی جہاد ہے اور اس وقت تک شرعی جہاد رہے گا جب تک کابل پر کمیونسٹ انقلاب کا تسلط ختم نہیں ہو جاتا اور اس کی جگہ ایک خالص نظریاتی شرعی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔
دوسری گزارش سوال کے اس پہلو کے بارے میں ہے کہ یہ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے اور دونوں طرف سے مسلمان ہلاک ہو رہے ہیں۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ جو نام نہاد مسلمان کفر کی حمایت و حفاظت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں ان کا مسلمان ہونا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے۔ میں انہی بھائیوں کی زبان میں بات کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ یہ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے اس لیے شرعاً اسے جہاد کہنے کا جواز باقی نہیں رہا۔ دیکھیے! جس نوعیت کی جنگ آج افغان مجاہدین روسی استعمار کے خلاف لڑ رہے ہیں اسی طرح کی جنگ ہمارے اکابر نے برٹش استعمار کے خلاف لڑی تھی۔ برطانوی استعمار نے اسی طرح برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر قبضہ کر کے اپنا نظام مسلط کیا تھا اور ہمارے بزرگوں نے، علماء حق نے، اکابر نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس جہاد کا فتوٰی دیا تھا اور علماء حق نے مختلف اوقات میں مختلف محاذوں پر انگریزوں سے جنگ لڑی تھی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان جنگوں میں فرنگی کی فوجوں میں مسلمان تھے یا نہیں تھے؟ کئی ریاستوں کے مسلم حکمران اور ان کی فوجیں فرنگی مقاصد کے لیے مجاہدین آزادی کے خلاف جنگ میں شریک ہوئی تھیں یا نہیں؟
شہدائے بالاکوٹ کو دیکھ لیجئے۔ امیر المؤمنین سید احمد شہیدؒ اور امام المجاہدین شاہ اسماعیل شہیدؒ نے جن سکھوں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کیا تھا کیا ان کے ساتھ مسلمان نہیں تھے؟ کیا کفار کی فوج میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے شریک ہو جانے سے یہ جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ بن گئی تھی اور شرعی جہاد نہیں رہا تھا؟ ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی کو دیکھ لیجئے۔ ہم آج تک اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ مسلمان کہلانے والے نوابوں، جاگیرداروں، سرداروں، خان بہادروں اور وڈیروں نے اس جنگ میں انگریز کا ساتھ دیا تھا، انگریزی فوج کو سپاہی مہیا کیے تھے۔ ہم مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے خاندان کی انگریزی حکومت سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے مرزا قادیانی کی کتابوں سے یہ حوالے دیتے ہیں کہ اس کے باپ نے اور دادا نے انگریزی فوج کے لیے ۱۸۵۷ء میں سینکڑوں گھوڑے اور سپاہی مہیا کیے۔ کفر کا فتوٰی تو مرزا غلام احمد قادیانی پر اس کے دعوائے نبوت کی وجہ سے لگا ہے، اس کے باپ اور دادا پر تو کسی نے کفر کا فتوٰی نہیں لگایا تھا۔ کیا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے فرنگی فوجوں میں شامل ہو جانے سے اس کا جہاد ہونا مشکوک ہوگیا تھا؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے کیونکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ شہدائے بالاکوٹ کی جنگ شرعاً جہاد تھی اور ۱۸۵۷ء کا معرکہ شرعاً جہاد تھا تو افغان مجاہدین کی جنگ بھی مسلمان اور مسلمان کی جنگ نہیں بلکہ شرعی جہاد ہے۔
ایک بات میں علماء کرام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مسلمان کفر کے نظام کا حمایتی بن جائے اور نظامِ کفر میں شامل ہو کر جنگ میں مسلمانوں کے مقابل آجائے تو اس کا حکم شرعاً کیا ہے؟ کیا اس کو گولی مارنے سے اس لیے گریز کریں گے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہے اور کیا اس کو گولی مرنے سے اس جنگ کی شرعی حیثیت تبدیل ہو جائے گی؟ میرے محترم بزرگو اور بھائیو! یہ سب پروپیگنڈا ہے اور جہاد افغانستان کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے جس کا مقصد مجاہدین کے حوصلوں کو پست کرنے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی حمایت سے روکنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اب ِآئیے دوسرے سوال کی طرف کہ امریکہ اور پاکستان کی افغان پالیسی میں محسوس کی جانے والی منفی تبدیلی کے بعد جہاد افغانستان کس حال میں ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟
اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ کہنا ہی خلاف واقعہ ہے کہ افغان مجاہدین نے یہ جہاد امریکہ اور دوسرے ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے شروع کیا تھا۔ کیونکہ جب افغان علماء نے جہاد کا فتوٰی دیا تھا اور ان کی قیادت میں مجاہدین پہلے کابل حکومت اور پھر روسی فوجوں کے خلاف صف آرا ہوئے تھے تو امریکہ اور دوسرے حمایتوں کا کہیں دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ چند بے وقوف مولوی ہیں، روسی فوجوں سے ٹکرانا ان کے بس کی بات نہیں، دو چار ہفتوں میں صاف ہو جائیں گے۔ لیکن جب مجاہدین ڈٹے رہے اور انہوں نے افغانستان کا کم از کم چالیس فیصد علاقہ روسی فوجوں کے تسلط سے محفوظ کر لیا تو امریکہ اور دوسری طاقتیں متوجہ ہوئیں اور انہوں نے افغان مجاہدین کی عملی امداد کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ جہاد افغانستان کے آغاز کے بعد کم از کم تین سال تک مجاہدین نے تن تنہا جنگ لڑی ہے، روسی فوجوں کا اسلحہ چھین کر لڑی ہے، بے سروسامانی کی حالت میں لڑی ہے، فقر و فاقہ اور کسمپرسی کے عالم میں لڑی ہے اور ایمانی قوت کے ساتھ میدان میں ڈٹ کر دنیا کو بتایا ہے کہ ایمان اور جذبہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے۔
دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ امریکہ کی امداد کے بارے میں مجاہدین اور ان کے ہمنوا کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں رہے کہ یہ آخر وقت تک جاری رہے گی۔ سب جانتے ہیں کہ یہ امداد اپنے مفادات کے لیے امریکہ نے دی ہے۔ جب تک روسی فوجیں افغانستان میں موجود تھیں امریکہ کا مفاد اس میں تھا کہ مجاہدین کو امداد دی جائے اور انہیں مضبوط کیا جائے۔ اور جب روسی فوجیں چلی گئیں تو امریکہ کا مفاد اس میں ہے کہ مجاہدین کو کمزور کیا جائے اور کابل پر ان کی حکومت کو قائم ہونے سے ہر قیمت پر روکا جائے۔ یہ صرف امریکہ کا مفاد نہیں بلکہ اسلام آباد، ڈھاکہ، انقرہ، قاہرہ، خرطوم، جکارتہ اور دوسرے تمام مسلم دارالحکومتوں کا مشترکہ مفاد ہے کیونکہ اگر کابل میں خالص نظریاتی شرعی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں منافقت کا اسلام کابل کی اسلامی حکومت کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، اسے میدان سے ہٹنا پڑتا ہے، دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اور مسلم ممالک میں منافقانہ اور دکھاوے کے اسلام کی شکست امریکہ کی شکست ہے، اس کے مفادات کی شکست ہے اور عالم اسلام پر اس کی بالادستی کی شکست ہے۔ اس لیے سب مل کر اس گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں کہ کابل پر مجاہدین کی حکومت قائم نہ ہونے دی جائے اور ظاہر شاہ یا اس قسم کے کسی اور نام سے دکھاوے کی مسلمان حکومت کابل میں قائم کر دی جائے۔ لیکن میں افغان مجاہدین اور جہاد افغانستان کے زعماء کی بصیرت و جرأت کو سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے اس گٹھ جوڑ کو مسترد کر دیا ہے، وہ لمبی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں مگر کفر اور منافقت کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ نہیں ہیں۔
میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ صورتحال کچھ بدل گئی ہے، حالات میں تغیر آیا ہے، مجاہدین کی مشکلات بڑھی ہیں، ان کی جنگ لمبی ہوئی ہے اور آزمائش کا عرصہ طویل ہوگیا ہے۔ لیکن جہاد کی کامیابی کا راستہ یہی ہے، کفر و منافقت کی مکمل شکست اور اسلام کی مکمل بالادستی کا راستہ یہی ہے۔ میں نے مجاہدین کو محاذ جنگ پر دیکھا ہے، ان کے مورچوں میں گیا ہوں اور ان کے عزم و حوصلہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مشکلات ان کی راہ میں حائل نہیں ہوں گی۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ جہاد افغانستان اپنی فطری رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، امریکہ اور اسلام آباد کے رویہ میں تبدیلی کے باوجود مجاہدین کے قدم رکے نہیں مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور فطری رفتار میں بڑھ رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب مجاہدین کابل پر شریعت اسلامیہ کی بالادستی کا پرچم لہرائیں گے اور میرے نزدیک وہ دن جہاد کے اختتام کا دن نہیں ہوگا بلکہ وہی دن پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک میں استعماری نظاموں اور منافقت کے اسلام کے خلاف جہاد کے آغاز کا دن ہوگا۔ خدا ہمیں وہ دن جلدی دکھائے اور اس دن کے لیے خود کو تیار رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔