یہ سرائے دہر مسافرو! بخدا کسی کا مکاں نہیں |
جو مقیم اس میں تھے کل یہاں کہیں آج ان کا نشاں نہیں |
یہ رواں عدم کوئے کارواں، بشر آگے پیچھے ہیں سب رواں چلے جاتے سب ہیں کشاں کشاں، کوئی قید پیر و جواں نہیں |
نہ رہا سکندرِ ذی حشم، نہ رہے وہ دارا اور نہ جسم جو بنا گیا تھا یہاں اِرم (۱)، تہِ خاک اس کا نشاں نہیں |
نہ سخی رہے نہ غنی رہے نہ ولی رہے نہ نبیؐ یہ اجل کا خواب وہ خواب ہے کوئی ایسا خوبِ گراںنہیں |
یہ موت ایک عجیب سر، کہ صفائے عقل ہے داں کدر وہ ہے تیرے وقت کی منتظر، تجھے اس کا وہم و گماں نہیں |
وہ جھپٹ کے تجھ پہ جب آئے گی تو بنائے کچھ نہ بن آئے گی یہ عزیز جاں یوں ہی جائے گی کہ قضا سا پیکِ رواں نہیں |
مگر اک حیاتِ حیات ہے، وہی جس میں سب کی نجات ہے یہی بات سننے کی بات ہے، ایسی بات کا تو دھیاں نہیں |
جو نبیؐ کے عشق کا غار ہے، وہ گلوں کا تاجِ وقار ہے یہی ایک ایسی بہار ہے کبھی جس میں دورِ خزاں نہیں |
(۱) شدّاد نے اس دنیا میں جنت بنائی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔