حکیم سید محمود علی فتحپوری

کل مضامین: 1

موت کا منظر

یہ سرائے دہر مسافرو! بخدا کسی کا مکاں نہیں۔ جو مقیم اس میں تھے کل یہاں کہیں آج ان کا نشاں نہیں۔ یہ رواں عدم کوئے کارواں، بشر آگے پیچھے ہیں سب رواں۔ چلے جاتے سب ہیں کشاں کشاں، کوئی قید پیر و جواں نہیں۔ نہ رہا سکندرِ ذی حشم، نہ رہے وہ دارا اور نہ جسم۔ جو بنا گیا تھا یہاں اِرم (۱)، تہِ خاک اس کا نشاں نہیں۔ نہ سخی رہے نہ غنی رہے نہ ولی رہے نہ نبیؐ۔ یہ اجل کا خواب وہ خواب ہے کوئی ایسا خوبِ گراںنہیں۔ یہ موت ایک عجیب سر، کہ صفائے عقل ہے داں کدر۔ وہ ہے تیرے وقت کی منتظر، تجھے اس کا وہم و گماں نہیں۔ وہ جھپٹ کے تجھ پہ جب آئے گی تو بنائے کچھ نہ بن آئے گی۔ یہ عزیز...
1-1 (1)