اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)

محمود الحسن عالمیؔ


(13)اگر واقعی ہی ایسا ہے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک نہایت بڑی تحریک چلنی چاہیے تھی۔  لیکن اس کے بجائے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے یہودی لوگ اور بالخصوص یہودی ربی (علمائے یہود) صہیونیت کی حمایت کرتے ہیں۔

درحقیقت دوسری جنگ عظیم(1939ء) سے قبل صہیونیت کے خلاف مذہبی یہودیوں نے ایک عظیم جنگ برپا کی ہوئی تھی۔کہ تقریباً تمام ربی (علمائے یہود) اور ان کے پیروکار صہیونیت کی مخالفت میں نہایت سرگرم تھے لیکن بدقسمتی سے اِن میں سے اکثر یہودی جنگ عظیم دوم(کے سانحہءہولوکاسٹ )میں مارے گئے۔نتیجے کے طور پر زندہ بچ جانے والے یہودی اب تنہا ، یتیم اور بے سہارا ہو کر صہیونیت کے چمکتے دمکتے سراب میں اُلجھنے لگے۔نیز یہ کہ برسوں کی طویل جنگ نے صہیونیت کے بعض مخالفین کوبھی اِس خوف میں مبتلا کر دیا تھا کہ یہودیوں کی جان بچانے کے لیے اب فلسطینیوں اور دیگر لوگوں کے خلاف جنگ و جدل کی حمایت کرنا ضروری ہے۔

(14)اچھا !تو جنگ عظیم دوم کے سانحہء ہولوکاسٹ سے پہلے مذہبی یہودیوں کا صیہونیت پر ردعمل کیا تھا؟

 شروعات ہی سے تقریباً تمام بنیاد پسند یہودی ربیوں(علمائے یہود) اور اُن کے پیروکاروں نے صہیونی تحریک کی شدید مذمت کی ہے اور یہ مذمت قابل فہم بھی تھی کیونکہ یہ تحریک ہر اُس چیز کو اکھاڑ پھینکنے آئی تھی کہ جس کی جڑیں یہودیت سے وابستہ ہے۔صہیونیوں نے اپنی تحریک کو سرزمین مقدس پر یہودیوں کی بہتر زندگی کے لیے کوشاں ایک بے ضرر تحریک کے طور پیش کیا۔ لیکن ہمارے ربیوں(یہودی علماء) نے اِس (فریبِ نظر سے بچتے ہوئے) صہیونیت کو ایک ایسی جھوٹی مسیحی تحریک اور تورات مخالف تحریک کے طور پر فوراً پہچان لیا کہ جو عالمی سطح پر یہودیوں اور یہودیوں کے بین الاقوامی تعلقات کو خطرے میں ڈالے گی۔

ایک ایسی بنیاد پسند یہودی برادری صدیوں سے فلسطین میں موجود تھی کہ جس کے ربی(علماء ) خاص طور پر صہیونیت کی شدید مذمت کرتے تھے۔ اِس برادری کے یہودیوں نے فلسطینی عربوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے، حفظ ما تقدم یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ صہیونیت (بالآخر) اِس دوستی کو ختم کر دی گی۔  وہ مقدس سرزمین کی اس بے حرمتی پر بھی خوفزدہ تھے کہ جو غیر مذہبی صہیونیوں کی بڑی تعداد میں آباد کاری کے نتیجے میں رونما ہوئی تھی۔

اِس ساری صورتحال کے پیش نظر مختلف ممالک کے ربیوں(یہودی علماء) نے اِس تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باہمی ملاقاتیں کیں کہ اب کیا کرنے کی ضرورت ہے۔؟( نتیجے کے طور پر ) صہیونیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے روس ، پولینڈ اور جرمنی میں”اگوداتھ اسرائیل“ نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ آسٹریا اور ہنگری کے بنیاد پسند ربیوں(علماء) نے اپنے پیروکاروں کو صہیونی تحریک میں شامل ہونے سے منع کیا۔فلسطین میں یروشلم کی ”عیدہ چاریڈیس“ صہیونی قومی کونسل کے متبادل کے طور پر قائم کی گئی اور صہیونی کابینہ کی مخالفت کے پیش نظر ایک آزاد کابینہ کی بنیاد رکھی گئی۔

تاہم دوسری جنگ عظیم(ہولوکاسٹ) میں یورپی یہودیوں کی تباہی کے بعد صہیونیوں نے مذہبی یہودیوں کو اپنی تحریک میں پھنسانے کا موقع ہاتھ  سے جانے نہ دیا۔جو بنیاد پسند علمائے یہود اور فرقے بچ گئے تھے اُن کا صفایا کر دیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو رہنمائی سے یوں محروم کر دیا گیا کہ وہ خود کو بے دفاع اور کمزور محسوس کرنے لگ گئے۔اِس طریقہ واردات سے"یہودی لوگوں کے دفاع" کے وعدوں نے زندہ بچ جانے والوں سے ایک صہیونی ریاست کے قیام کی اپیل کرنا شروع کر دی۔

مزید برآں یہ کہ صہیونیوں نے یہودی عوام الناس کے اندر اپنی مخالفت کو کچلنے کے لیے وحشیانہ طریقے استعمال کیے۔ 1924ء میں انہوں نے ڈاکٹر ”یاکوف یسروئیل ڈیہان“ کو قتل کر دیا، جو کہ یروشلم کی (صہیون مخالف تنظیم) ”عیدہ چاریڈیس“ کے اسپیکر اور سفارت کار تھے۔ حتی کہ انہوں نے یہودیوں کے پرامن مظاہروں کو بھی روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، اور ایک مظاہرے کے دوران انھوں نے سرعام ربی(علامہ) ”پنچاس سیگیلوف“ کو قتل کر دیا۔  1948ء میں، انہوں نے یروشلم میں کئی دہائیوں سے آباد ربیوں(علمائے یہود) پر گولیاں چلائیں جو اردنی فوجیوں کے ساتھ صلح کرنے کے لیے نکلے تھے۔  ربی امر بلاؤ (1900-1974)، یروشلم میں ایک ممتاز صہیونی مخالف رہنما تھے جنھیں اپنی جدوجہد کے دوران کئی بار جانی حملوں کا سامنا ہوا اور آخرکار انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔

لیکن اِن سب مظالم کو سہنے کو باوجود آج بھی دنیا بھر میں بہت سے ایسے یہودی مذہبی فرقے، تنظیمیں اور تورات کے مدارس باقی ہیں جن میں اصل یہودی عقیدے کی تعلیم دی جاتی ہے اور صہیونیت کی مذمت کی جاتی ہے۔  صہیونیت مخالف یہودیوں نے امریکہ، فلسطین اور دیگر ممالک میں صہیونی حکومت اور اس کے فیصلوں کے خلاف بے شمار مظاہرے کیے ہیں۔  ان کے بہادر رہنما صہیونیوں کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور مظلوموں کی آواز کو آج تک خاموش نہیں ہونے دئے رہے۔

صہیونی اسرئیلی ریاست اور دیگر جگہوں پر یہودیوں کے ایسے بڑے گروہ  وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں کہ جو صہیونی یوم آزادی نہیں مناتے، صہیونی پرچم نہیں لہراتے اور صہیونی فوج میں خدمات نہیں دیتے۔

(15)آپ کے علم میں ہے کہ (یہودیوں کا قتل عام) ہولوکاسٹ ہوا تھا اِس لیے کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ یہودیوں کو اپنی حفاظت کے لیے کسی قسم کی قوت کی ضرورت ہے ؟

 تو کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ صہیونی اُن جرمن نازیوں سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ جن کو شکست دینے کے لیے(پانچ بڑی عالمی قوتوں یعنی) امریکہ و برطانیہ ، فرانس و روس اور چین کو چھ سال لگ گئے تھے ؟

دوم یہ کہ( اصل سوال یہ ہے) کہ کیا صہیونی واقعی ہی ہولوکاسٹ کے دورانیے میں یہودیوں کی حفاظت کرنا چاہتے تھے کہ نہیں ؟جب کہ وہ یہودیوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی سکت بھی رکھتے تھے۔مثال کے طور پر وہ اتحادیوں پر کچھ اِس طرح کا دباو ڈال سکتے تھے کہ اتحادی افواج یہودی قتل گاہوں پر بمباری کریں۔لیکن اِنھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ یہودیوں کو نازیوں کے ظلم سے بچانے کے لیے مالی مدد فراہم کرنے سے بھی مکمل طور پر انکار کر دیاحتیٰ کہ کچھ معمولات میں تو صہیونیوں کے نازیوں کے ساتھ تعاون کے بھی واضح ثبوت بھی ملتے ہیں۔(یہ ثبوت دستاویزات،پمفلٹس اور کتب کی شکل میں ناطوری یہود کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ملاحظہ فرمائیں:

https://nkusa.org

ثوم یہ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی حماس، حزب اللہ اور دیگر اِس جیسی کمزور تنظیموں سے بھی اپنا دفاع نہیں کر پا رہے ہیں تو پھر وہ جرمنی جیسے طاقتور ملک کے خلاف یہودیوں کی حفاظت کیسے کر سکتے تھے ؟

چوتھی بات یہ کہ اگر دنیا میں کہیں یہود دشمنی پھیلتی ہے تو صہیونی اِس جگہ یہودیوں کی مدد کو نہیں پہنچتے۔  بلکہ، وہ اِس صورت حال سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور (اپنی مظلومیت کا رونا روتے) خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ غیر اسرائیلی یہودیوں کو اسرائیلی ریاست میں پناہ ملنے کی ترغیب مل سکے۔

پانچویں بات یہ کہ سیاسی صہیونیت  کے بانی(تھیوڈور ہرزل) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”نئی یہودی ریاست کی اقامت کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہود دشمنی کی آگ کے الاؤ کو روشن کیا جائے اور اسے یہودیوں کے پاؤں تلے رکھ دیا جائے، تاکہ وہ  اُس سرزمین کی طرف بھاگنا چاہیے جو صہیونیوں کو ملے گی۔“

یہ بالکل وہی حربہ ہے، جس کے ذریعے ہولوکاسٹ عمل میں لایا گیا ہے۔  لیکن آج وہ ہولوکاسٹ کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

آخری بات یہ کہ تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ یہودی صہیونیوں کے تحفظ کے بغیر بھی رہ سکتے ہیں۔ صہیونیوں کے حصول اقتدار سے پہلے یہودی دنیا میں عام طور پر امن سے رہ رہے ہیں۔ جبکہ آج اِن کی ریاست دنیا کی اُن شاذ و نادر جگہوں میں شمار کی جاتی ہے جہاں مسلسل تشدد ہو رہا ہے اور اپنی ریاست کے علاوہ بھی صہیونی باقی دنیا میں بھرپور شر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعے پر چیخ چیخ کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہودیوں کو تحفظ کے لیے اُن کی نام نہاد پناہ میں آ جانا چاہیے۔

(16)کیا آپ اِس  بات سے  انکار کرسکتے ہیں کہ دنیا میں یہود دشمنی ہے، مثال کے طور پر ایران میں؟

 ایران میں یہود دشمنی ہے یہ بھی خالصتاً صہیونی  پروپیگنڈاہے۔ کیونکہ ایران میں یہودیوں کو خاص مراعات حاصل ہیں، حتی کہ مذہب کے معاملے میں بھی۔ مثال کے طور پر، یہودیوں کو کدوش(مذہبی عبادت) کے لیے شراب بنانے کی اجازت ہے، حالانکہ شراب مسلمانوں میں مطلقاً حرام ہے۔ پس اگر کہی بھی یہود دشمنی ہوتی ہے تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ صہیونی اِس دشمنی کو اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے اُبھارتے ہیں۔

(17) اگر یہودی تنظیم اور خود کا دفاع غلط ہے، تو  اگر دنیا میں کہیں واقعی ہی یہودیوں پر کوئی آفت آ جاتی ہے تو آپ کیا کریں گے؟

 آپ نے عمدہ سوال کیا۔جواب گہرا ہے پس اِسے آہستہ آہستہ جذب کریں کہ شاید آپ سمجھ جائیں۔

(1) ایک یہودی کے لیے ایمان اور تورات سب سے اولین ترجیح  پر آتے ہیں پھر اِس کی زندگی دوسری ترجیح پر آتی ہے۔پس ہم اپنے پورے جی جان سے اپنے عقائد کے وفادار ہے اور ہم محض اپنی جانیں بچانے کے عوض اپنے عقائد کا سودا ہرگز نہیں کرئے گئے۔بس مشکل وقت میں صرف اُسی قدر دفاع کرئے گئے کہ جس قدر دفاع کرنے کی اجازت ہمیں تورات دیتی ہے یعنی اپنے دفاع کے لیے اطاعت و فرمانبرداری کا طریقہ اختیار کرنے کی۔

(2) ہمارا کامل یقین ہے کہ  خداوند یکتا خیر و شر کا مالک ہے۔انسان اُس کے مخص اِک پیروکار کی حیثیت رکھتا ہے۔پس ہم اپنے آپ کو اُس کے احکامات سے مکمل طور پر آزاد نہیں کرسکتے ہیں۔

(3) ہم سمجھتے ہیں کہ   خداوند یکتا اسرائیل(یعنی آل یعقوب) کا محافظ ہے۔  تاریخ نے کئی عظیم حکمران طاقتوں کا عروج و زوال دیکھا ہے لیکن یہودی اب بھی موجود ہیں اور رہیں گے۔  تنظیم اور خود دفاعی"سیلف ڈیفنس"کا عمل ہماری مدد نہیں کرئے گے، جیسا کہ اُس نے اُن عظیم حکمران طاقتوں کی مدد نہیں کی۔ صرف  خداوند یکتا ہی ہماری حفاظت اور مدد کر سکتا ہے۔

(4)  خداوند یکتا جو سزائیں ہم پر لاتا ہے وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بنتے ہوئے ہمارے فائدے کے لیے ہی ہوتی ہے اور ہمیں توبہ و استغفار کے لیے بیدار کرتی ہے۔توبہ، دعا اور صدقہ جیسے اعمال   خداوند یکتا کی طرف سے جاری کردہ سزاؤں کی شدت کم کرنے یا کسی حکم کو منسوخ کرنے کے حوالے سے متاثر کن حیثیت رکھتے ہیں۔

(5) کتاب مقدس تورات کی تعلیمات کی روشنی میں خود ساختہ تنظیم یا صہیونیت سنگین ترین گناہوں میں سے ایک ہے اور اس کی سخت ترین سزا ہے۔  جلاوطنی سے سرکشی اختیار کرنا یہودیوں کے لیے باعث نجات ہرگز نہیں ہے کہ یہ ماسوائے بدقسمتی کچھ نہیں ہے۔

(6) یہود مخالفت اصل میں مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خداوند کی پکڑ میں لاٹھی ہے۔پس ہمیں لاٹھی سے نہیں بلکہ لاٹھی پکڑنے والے سے مخاطب ہونا چاہیے یعنی  خداوند یکتا سے، کہ ہمیں دعا کے ذریعے اُسی سے مخاطب ہوتے ہوئے توبہ واستغفار طلب کرنی چاہیے۔

 ناطوری یہود درج ذیل بالا اپنے موقف کی حمایت و تائید میں تورات و تلمود اور دیگر کئی اہم یہودی مذہبی کتب سے دلائل کا ایک  ضخیم دفتر رکھتے ہیں جو کہ ناطوری یہود کی آفیشل ویب سائٹ پر آپ تفصیلی طور پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔یہاں صرف اُن چند اہم ترین آیات و اقوال کو پیش کیا جارہاہے کہ جو اختصار کے تقاضے کے ساتھ ساتھ جامعیت کا بھی حق ادا کرتی ہے۔

 "کتاب تلمود" میں صہیونیت کے خلاف دلائل میں سب سے اہم تین قسموں پر مبنی وہ تلمودی تصور ہے کہ بامطابق "تلمود ،کسوبوس 111اے" میں خداوند قادر مطلق نے یہودی قوم پر اِن تین وعدوں/ قسموں کی پاسداری و پابندی قیامت تک کے لیے اب عائد کر دی ہے:

1۔یہودی ارضِ مقدسہ(فلسطین ) کی جانب اب کھبی بھی کسی بھی قسم کے اجتماعی  نظم و قوت کے زیرِ اہتمام واپسی نہیں کرئے گئے۔

2یہودی دیگر اقوام کے خلاف ہرگز بغاوت نہیں کریں گئے کہ جو انھیں پناہ دئے گئی۔

3۔دیگر اقوام یہود کو زیر جبر و استحصال نہیں کرئے گئی۔

 صہیونیت نے خدا سے کیے گئے اِن  وعدوں / قسموں  کی کس طرح سختی سے خلاف ورزی کرتے ہوئے، بغاوت کا پرچم تھامے ، خدا کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔یہ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ماضی کی تاریخ اور موجودہ حال کی روداد اِس کی عینی شاہد ہے۔

صہیونیت کے خلاف بنیادی طور پر اہم ترین دلائل کتابِ مقدس " تورات" میں درج احکاماتِ عشرہ (دس بنیادی خدائی احکامات) سے متعلق ہیں۔کہ اِن میں سے خصوصاً  دو خدائی احکام صہیونی اسرائیل کی قتل و غارتگری اور خطہء فلسطین پر قبضے اور وسائل چوری کی انتہائی مذمت کرتے ہیں۔یہ دو بنیادی احکام تورات میں دو مختلف جگہوں پر لیکن ایک ہی معنی و مفہوم کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ تورات کی کتاب خروج(20:13) میں ساتویں بنیادی حکم کے طور پر اور باب اِستناء(5:17) میں چھٹے بنیادی حکم کے طور پر خداوند تعالیٰ بالخصوص یہودی قوم کو اور بالعموم اقوام عالم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

"تم  خون نہ بہانا۔۔۔!"

پھر کتاب خروج (20:15) میں ناویں بنیادی حکم کے طور پر اور باب اِستناء(5:19) میں آٹھویں بنیادی حکم کے طور پر ارشاد فرماتا ہے:

تم چوری نہ کرنا۔۔۔!

یہودیوں کی جلاوطنی سے متعلقہ آیات:

”تم اُس اچھی زمین سے ہٹا دیے جاؤ گے جس کے تم وارث ہونے کے لیے آئے ہو، اور خداوند تمہیں زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں منتشر کر دے گا۔“

تورات، استثناء:28:63

”اور اگر تم میری نہیں سنو گئے اور میرے احکامات کی پیروی نہ بجا لاوں گئے تو میں تمہیں تمام اقوام میں منتشر کر دوں گا۔”

تورات ، احبار :26:33 

یہودیوں کی جلاوطنی آمد مسیح کے ساتھ ختم ہوگئی اِس موضوع سے متعلقہ آیات:

اور مسیح کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے ایک شاخ پھوٹے گی۔1 اور خداوند کی روح، حکمت اور فہم کی روح، مصلحت اور قدرت کی روح، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح اُس میں قیام کرئے گی۔۔۔۔۔۔اور اس دن مسیحا کی حکومت قائم ہوگی جو لوگوں کے لیے ایک نشانی ہوگی۔ قومیں اس کی تلاش کریں گی اور اس کا قیام جلالی ہوگا۔10۔۔۔اور اسی دن خداوند دوسری بار اپنے ہاتھ کو بڑھائے گا کہ اپنی قوم کے بقیہ ( لوگوں)کو واپس لائے۔۔۔11 اور وہ قوموں کے لیے ایک نشانی کھڑا کرے گا اور آل یعقوب کے جلاوطنوں کو واپس جمع کرے گا اور یہودا(یہودی قوم) کے متفرق لوگوں کو زمین کی چاروں سمتوں سے اکٹھا کرے گا۔12

کتاب یسعیاہ:11(1-2)

چند اعلی اخلاقی تعلیمات سے متعلقہ آیات:

جو آپ اپنے ساتھ نہیں کرنا چاہتے  وہ دوسروں کے ساتھ بھی  نہ کریں۔ یہ پوری تورات ہے۔  باقی تفسیر ہے۔  جاؤ اور مطالعہ کرو۔

تلمود، شببوس 31 اے

خدا  کی طرح بنیں کہ جس طرح وہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے، اُسی طرح آپ کو بھی مہربان اور رحم دل ہونا چاہیے۔

 تلمود، شبوس 133 -بی 

جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری دنیا بچائی۔"

   کتابِ تلمود_مشناہ_سناہدرین:4:5

"اے انسان!وہ تجھ سے کیا چاہتا ہے،  سوائے اِس  کہ تو انصاف کرے، رحم دلی سے پیش آئے، اور اپنے رب کے حضور عاجزی سے رہے۔"

کتابِ تنک_نبییم_میکاہ: 6:8

 قارئین محترم!"ناطوری یہود" کا صہیونیت کے حوالے سے موقف ممکنہ دیانت داری سے پیش کرنے کی طالب علمانہ سعی کے بعد میں یہ وضاحت قابلِ ذکر سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ناطوری یہود لاکھ بار "صہیونیت"کو  اپنے دائرہ مذہبِ(یعنی یہودیت) سے خارج کر لے لیکن یہ حقائق تو اپنے طور  پر عین موجود ہی رہے گئے کہ اولاً  یہ مانا سہی کہ صہیونی یہود/ صہیونیت دائرہ یہودیت سے خارج ہے لیکن پھر بھی ہم اُن کو یہودی نسل سے چاہ کر بھی  خارج نہیں کرسکتے۔عرض یہودی النسل ہونے کی بناء پر بلاآخر اُن کی شناخت و تشخیص تو یہودیت سے ہی  وابستہ رہے گئی۔دوم یہ کہ یہ حقیقت تو سبھی ناطوری یہود بھی مانتے ہیں کہ اگرچہ صہیونیت اپنی اصل میں ایک سیکولر تنظیم / تحریک تھی لیکن اب بدقسمتی سے اپنی لاعلمی/ مصالحت پسندی کی وجہ سے بہت سے مذہبی یہود بھی اِس کے ساتھ  وابستہ ہوچکے ہیں۔لہذا اِس بنیاد پر بھی ہم یہودی تشخص سے صرفِ نظر نہیں برت سکتے۔

عرض قارئین محترم! اِن سارے عقائد و نظریات کے تعارف کا حاصل یہ کہ  جیسا کہ معروف محاورہ ہے کہ اصل تعریف وہ کہ جو مخالف کرئے۔یعنی اگرچہ کہ  مذہبی بنیادوں پر تو ناطوری یہود بھی اسلام کی اصل کو اپنا مخالف ہی سمجھتے ہیں لیکن اِس مذہبی اختلاف و مخالفت کے باوجود یہ ناطوری یہود دیگر تمام غیر یہودی  مذاہب میں سے سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا تاریخی و قلبی اعتبار سے خیر خواہ پاتے ہیں۔ وہ اِس طرح  کہ یہ نمک حلال  ناطوری یہود اِس بات کو عین جانتے اور مانتے ہیں کہ جب جب غیر یہودی اقوام نے اِن پر ظلم کے شکنجے کستے ہوئے اُنھیں اپنی ہی زمینوں ، جاگیروں اور سلطنتوں سے بے دخل کیا تو غیر یہودی مذہبِ اسلام کے ماننے والے مسلمان ہی وہ واحد ترس اور عظیم الخلاق قوم تھے کہ جنھوں نے اپنی زمینوں ، اپنی سلطنتوں میں نہ صرف یہودیوں کو داخلے کی اجازت دی بلکہ مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے و عمل کے ساتھ ساتھ مکمل امن و امان کی پناہ بھی بخشی۔ بغیر کسی تفریق و امتیاز کے اپنی علم گاہوں، دکانوں اور کاروباروں میں  بھی شراکت داری کے برابر موقع فراہم کیے کہ یہ سلسلہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی فتح کردہ ریاست فلسطین (637ء)میں داخلے کی مکمل مذہبی آزادی سے لے کر ، اسلامی اندلس(711ء تا 1492ء) کی سائنسی تجربہ گاہوں  و  علمی یونیورسٹیوں میں شراکت سے ہوتا ہوا، سلطنت عثمانیہ(1517ء تا 1924ء) کی کاروباری دکانوں  تک ہمیشہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔عرض یہی اُن تمام تاریخی حقائق کا مختصراً خاکہ ہے کہ جن کی تسلیمات کی بنیاد  پر آج ناطوری یہود خود کو فکری ،قلبی اور تاریخی اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں دونوں کے قریب تر پاتے ہیں اور مسلمانوں کے مختلف ادوار حکومت کو اپنے سنہری ادوار میں شمار کرنے کے حق میں ہے۔لہذا میں بطورِ ملت اسلامیہ کے ایک رکن کے اِس بات کو ناطوری یہود کی نمک حلالی ، خدا خوفی اور انسان دوستی کی نیک نیتی پر ہی قیاس کرتا ہوں کہ جب آج خصوصاً  فلسطین اور عموماً پوری دنیا میں مسلمان ناحق مارے جارہے ہیں تو یہ ِان کے ساتھ عین اُسی طرح کھڑے ہیں کے کہ جیسے قیامِ اسرائیل سے پہلے جب کئی صدیوں تک لاکھوں  یہودی ناحق مارے جارہے تھے تو اُس وقت  صرف مسلمان ہی اِن کے ساتھ کھڑے تھے۔

میرے اِس سارےمضمون کے پس منظر میں حاصل یہ تین افکار ہے کہ اول یہ کہ فلسطین کی تولیت و حاکمیت کے حوالے سے مسلم قوم کے موقف کی تائید یہودی قوم و مذہب کی ہی بنیادی کتب سے ہوسکے تاکہ حق مزید نکھر کر اِتنا واضح ہوجائے  کہ چاہے کوئی یہودی "ناطوری کارتا گروہ"سے اختلاف کرئے یا اتفاق عرض دونوں صورتوں میں صہیونی اسرائیل کی حقیقت مزید واضح ہوسکے اور شاید اسی طرح کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ  اندرون اسرائیل اور بیرون اسرائیل دونوں طرفہ یہودی عوام الناس و علماء کی ایک اچھی  خاصی تعداد صہیونی اسرائیلی مظالم کے شدید مخالف ہے۔بلکہ میں تو یہاں تک عرض کرنا پسند کروں گا  کہ ہر رقیق القلب اور عقل سلیم کا حامل یہودی صہیونی اسرائیلی مظالم سے  اعلان برات کرنا پسند کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ناطوری کارتا سمیت 16 یہودی فعال تنطیمیں صہیونیت مخالف شمار کی جاتی ہیں۔

سوم حاصل فکر یہ کہ اِس وقت پوری انسانیت کو بلا لخاظ تفریق مذہب و وطنیت اسرائیلی مظالم کے مخالف ڈٹ جانا چاہیے کہ قطری نیوز چینل الجزیرہ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء تا دم تحریر 25 جولائی 2024ءتک یعنی تقریباً 10 ماہ سے زائد کی اسرائیلی دہشت گردی کے زیر جبر غزہ اور مغربی کنارے میں کل تقریباً 40  ہزار مظلوم فلسطینیوں کی شہادتیں واقع ہوچکی ہے اور کل تقریباً  95 ہزار سے زائد فلسطینی شدید زخمی ہوچکے ہیں۔جن میں سے نصف سے زائد شہدا کی تعداد فلسطینی معصوم بچوں اور عورتوں کی رپورٹ ہوئی ہیں نیز تقریباً 75 فیصد فلسطینی انفرا سٹرکچر  ( رہائش گاہیں ،گھر ،تعلیمی ادارے ، عبادت گاہیں ، ہسپتال ، پانی کے پائپ  اور سڑکیں وغیرہ) مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔جبکہ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ اعداد و شمار صرف سابقہ تقریباً 10 ماہ کی اسرائیلی دہشت گردی کا ثبوت ہے۔سابقہ 76سالوں سے صہیونی اسرائیل نے کون کون سی قیامت فلسطینیوں پر ڈھائی ہے اور کس کس طرح ڈھائی ہے اور کتنی لاشوں کے ناحق انبار لگا دیے ہیں اِس کا صحیح اندازہ لگانا شاید مشکل ہی نہیں بلکہ بڑے جگر گردے کا کام ہے۔بہرحال شاید اسی اندھی بربریت اور قتل و غارتگری کو دیکھ کر یورپ سمیت پوری دنیا کے ممالک میں فلسطین کے حق میں اور صہیونی اسرائیل مخالف مظاہرے رپورٹ ہو رہے ہیں جن کی آوازیں سوشل میڈیا کی برکت تلے اِن ممالک کی حکومتیں چاہ کر بھی مکمل طور پر دبا نہیں پا رہی۔

آخری حاصل فکر یہ کہ موجودہ تنازعہء فلسطین و اسرائیل ،اکتوبر 2023ءسے لے کر   قبل مسیح کی تاریخ تک سر زمینِ مقدس کی  تولیت و حاکمیت کے حوالے سے  جتنے بھی چھوٹے بڑے تنازعات اور جنگیں ہوئیں ہیں یا آئندہ ہوگئیں۔میرے طالب علمانہ فہم کے مطابق ازل سے لے کر اَبد تک اُن میں دو بڑے دھڑے"بلاکس " بنتے رہے ہیں پہلے اِن دھڑوں کی بنیاد پر سیاسی مقاصد و مفادات سے زیادہ مذہبی زاویہ نگاہ  کی فضاء غالب تھی۔کہ اِس کی مثال حصولِ فلسطین کے حوالے  سے جنگ طالوت و جالوت(تقریباً 1 ہزار قبل مسیح) سے لے کر مسلم و  صلیبی جنگوں(1095ء تا 1291ء) تک کی ہے۔ لیکن جنگ عظیم اول 1914ء تا 1918ء کے بعد سے  لے کر تا دم تحریر 2024ء تک جو حصولِ فلسطین کے حوالے سے دنیامیں بڑے  دھڑے  قائم ہیں اِن میں ماضی کی تاریخ کے عین برعکس ہمیں  فکری پس منظر میں مذہبی تشخص و تعصب سے زیادہ سیاسی و معاشی مفادات کارِ فرما  نظر آتے ہیں۔کہ اعلان بالفور 1917ء تا  تنازعہ اکتوبر 2023ء تک سبھی معاہدات و تنازعات کی گہرائی میں اصل بنیاد ہمیں مذہبی تشخص و تعصب سے زیادہ  سیاسی و معاشی مفاد  کی صورت میں نظر آتی ہے کہ اعلان بالفور1917ء سلطنت برطانیہ کا جنگ عظیم اول کے وقت ، اپنے اتحادی یہودیوں سے کیا جانے والے ایک سیاسی معاہدے کا نتیجہ تھا اور حالیہ صہیونی اسرائیل کے سابقہ  76 سالہ مظالم بھی ایک سیاسی منصوبے "دی گریٹر اسرائیل"کی خواہش کا نتیجہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج عرب و یورپ معاشی مفادات میں سانجھے داری ہونے کے باعث اسرائیلی مظالم پر اسلام  کی  نام نہاد ٹھیکے دار  سعودی  بادشاہت سمیت اکیس کے اکیس عرب مُسلم ممالک کی حکومتیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہوئے ہیں اور کچھ اِسی طرح کا  حال اسلام کے نام نہاد قعلے داروں یعنی پاکستان،ترکی و ملائیشیاء کا ہے کہ جن کے پاس ماسوائے چند مزاحمتی بیانات کے علاوہ عملی طور پر اِس انسانیت سوز  نسل کُشی کے خلاف کرنے کوکچھ نہیں  ہے۔

 وجہ  اولاً عین یہی ہے کہ  تمام مُسلم ممالک کے سیاسی و معاشی مفادات اسرائیلی پشت پناہ ریاستوں کے ساتھ جُرے ہوئے ہیں اور  دوم یہ کہ مسلم قوم (مجموعی اعتبار سے اور عملی طور پر ) اپنے قومی علم و اخلاق ، سیاسی وحدت اور اپنے فکری نظام میں یکسوئی کے اعتبار سے یورپی قوتوں کے  سامنے زوال پذیر ہوچکی ہے۔لہذا جہاں تمام 57 کے 57 مسلم ممالک کو فوری حکمت عملی کے تحت اپنی ایک سیاسی وحدت قائم کرتے ہوئے مل کر فلسطینی قاتل قوتوں کے مخالف عملی تدابیر اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے وہی  دُور اندیش حکمت عملی کے تحت اپنی قومی علمیت و اجتماعی  اخلاقیات ، سیاسی وحدت و اتحاد اور اپنے فکری نظام میں یکسوئی کے زوال کو دُور کرنے کی ایک پر امن راہ سلجھانی چاہیے تاکہ ہم عالمی اشرافیہ کی فکری و معاشی غلامی سے نکل کر حقیقی معنوں میں مکمل آزادی و خود مختاری حاصل کرتے ہوئے مظلوم انسانیت کی مسیحائی کا دم بھر سکے۔


مذاہب عالم

(الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۹

مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرو
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مبارک ثانی کیس کا فیصلہ : دیوبندی قیادت کے لیے قابل توجہ پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مبارک ثانی کیس ہے کیا اور اب تک اس میں کیا ہوا؟
انڈپینڈنٹ اردو

مبارک ثانی کیس کیا تھا اور نظر ثانی کیوں ضروری تھی؟
بنوریہ میڈیا

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء
علامہ سید یوسف بنوریؒ

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہؒ کی شہادت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی

اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)
محمود الحسن عالمیؔ

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دنیا کی مسلمان آبادی
میٹا اے آئی

ماہ صفر اور توہم پرستی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

نُکتہ یا نُقطہ؟
ڈاکٹر رؤف پاریکھ

The Two Viable Paths for the Qadiani Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter