حضرت مولانا قاضی عبد الکریم آف کلاچیؒ کا انتقال علمی و دینی حلقوں کے لیے غم و صدمہ کا باعث ہے اور بلاشبہ ہم ایک مخلص بزرگ اور مدبر راہ نما سے محروم ہوگئے ہیں، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کے والد گرامی حضرت مولانا قاضی نجم الدین کلاچویؒ اپنے دور کے بڑے علماء کرام میں سے تھے اور علمی و دینی دنیا میں مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے فتاوٰی ’’نجم الفتاوٰی‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں موجود ہیں اور علماء کرام کے لیے راہ نمائی اور استفادہ کا اہم ذریعہ ہیں۔
حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ دارالعلوم دیوبند کے پرانے فضلاء میں سے تھے۔ انہوں نے غالباً 1938ء میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کا تلمذ حاصل کر کے دورۂ حدیث کیا تھا، جبکہ ان کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ 1942ء میں دورۂ حدیث میں شریک ہوئے تھے اور اسی سال میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے بھی فراغت حاصل کی تھی۔
میں نے دونوں بھائیوں کو 1970ء کے عام انتخابات کے دوران پہلی بار جمعیۃ علماء اسلام میں متحرک دیکھا تھا جو میرا ابتدائی دور تھا۔ اور یہ دونوں بزرگ جمعیۃ کے اہم راہنماؤں اور مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ میں حضرت مولانا علاء الدینؒ ، حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ ، حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ ، حضرت مولانا قاضی عطاء اللہ آف ٹانکؒ ، حضرت مولانا مفتی عبد القدوسؒ اس وقت کے بڑے جماعتی بزرگ شمار ہوتے تھے اور ان سب سے میری نیاز مندی ایک کارکن کے طور پر اس وقت سے قائم تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کلاچی اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ جمعیۃ کی مرکزی مجلس شورٰی کے اجلاسوں میں بھی ان سے ملاقات ہوتی تھی اور جماعتی امور میں نیازمندانہ رفاقت کا سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہا۔ مولانا قاضی عبد الکریمؒ نکتہ رس اور صاحب الرائے بزرگ تھے اور علمی و سیاسی اجلاسوں میں ان کی رائے ہمیشہ وقیع ہوتی تھی جسے توجہ سے سنا جاتا تھا۔ ایک عرصہ تک وہ جمعیۃ کے مرکزی اجلاسوں کا لازمی حصہ رہے مگر بعد میں بوجوہ غیر متحرک ہوتے چلے گئے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے چھوٹے بھائی مولانا قاضی عبد اللطیفؒ جمعیۃ کی مرکزی قیادت کا متحرک حصہ بن گئے تھے اور بڑے بھائی ہر اجلاس میں شرکت کو ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ جبکہ مولانا قاضی عبد اللطیفؒ کو حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے رفقاء میں سینئر معاون کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی اور وہ جماعتی سیاست کے ساتھ ساتھ بعد میں پارلیمانی سیاست کا بھی اہم کردار بن گئے تھے۔ بالخصوص حضرت مولانا سمیع الحق کے ساتھ سینٹ میں شریعت بل پیش کرنے پر انہیں ملک گیر شہرت حاصل ہوئی تھی۔ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی وفات کے وقت مرکزی ناظم کے طور پر ان کے نائبین میں حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ ، حضرت مولانا قاضی عبد اللطیفؒ ، حضرت مولانا غلام ربانیؒ آف رحیم یار خان، حضرت مولانا نیاز محمدؒ آف زیارت بلوچستان، اور راقم الحروف متحرک تھے۔
مولانا قاضی عبد الکریمؒ بعض علمی امور پر اپنی منفرد رائے رکھتے تھے اور اس کا اظہاربھی کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ اسمبلی میں غیر مسلموں کی نمائندگی کے حق میں نہیں تھے، ان سے اس مسئلہ میں متعدد بار میری بھی گفتگو ہوئی۔ ان کا موقف تھا کہ ایک اسلامی ریاست کی پارلیمنٹ میں کسی غیر مسلم کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں ہے، جبکہ ہمارا موقف یہ تھا کہ غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے غیر مسلموں کو اسمبلی میں نمائندگی دی جا سکتی ہے۔
افغانستان میں طالبان حکومت کے دوران میں نے ایک موقع پر رائے دی کہ طالبان راہ نماؤں کو اسلامی ریاست کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے پاکستان میں نفاذ اسلام کے حوالہ سے علماء کرام کی علمی و فکری جدوجہد اور اس سلسلہ میں سرگرم سرکردہ علماء کرام کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے، اور علمی و فکری محاذ کے ہوم ورک سے استفادہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر علماء کے 22نکات اور 1973ء کے دستور کی اسلامی دفعات کو اپنے ہاں دستوری بنیاد بنانا چاہیے۔ میں اس رائے پر اب بھی قائم ہوں اور اس کا اظہار کرتا رہتا ہوں، مگر ایک بار میں نے اس رائے کا تفصیل کے ساتھ کسی مضمون میں اظہار کیا تو مولانا قاضی عبد الکریمؒ نے ایک مکتوب گرامی میں فرمایا کہ ’’کیوں طالبان قائدین کو بھی ہمارے جیسی عادتیں ڈالنا چاہتے ہو‘‘۔ سچی بات ہے کہ اپنے موقف پر اصولی طور پر قائم رہتے ہوئے بھی مجھے حضرت قاضی صاحبؒ کی یہ پر خلوص بات اپیل کر گئی اور میں اپنی رائے کے اظہار میں محتاط ہوگیا۔
حضرت مولانا قاضی عبد الکریمؒ ان بزرگوں میں سے تھے جو علم و حکمت کے ساتھ فکر و دانش سے بھی پوری طرح بہرہ ور تھے اور حالات حاضرہ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ میں نے کئی بار کلاچی میں ان کی خدمت میں حاضری دی ہے اور علمی و فکری استفادہ کے ساتھ ان کی شفقتوں او ردعاؤں سے ہمیشہ فیض یاب ہوا ہوں۔ اللہ رب العزت ان کے درجات جنت میں بلند فرمائیں اور برادرم مولانا قاضی محمد نسیم کلاچوی اور دیگر رفقأ، تلامذہ اور اہل خاندان کو صبر و حوصلہ کے ساتھ یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔