۲۹ جولائی تا ۳۱ جولائی ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ میں قائم ’’ہزارہ چیئر‘‘ کے زیر اہتمام سید احمد شہید ؒ کی تحریک اور خدمات کے حوالے سے ایک بین الاقوامی سیمینار کا اہتمام کیا گیا ۔ سیمینار کا مقصد سید احمد شہید ؒ کی تحریک اور اس کے پس منظر و اثرات کے بارے میں ٓگاہی پیدا کرنا اور مستقبل کے منظر نامے میں اس تحریک سے راہنمائی حاصل کرنا تھا ۔ راقم کو اس سیمینار میں شرکت کرنے اور ’’ سید احمد شہید ؒ کی تحریک اور میر نثار علی عرف تیتو میر ؒ کی تحریک کا باہمی تعلق ‘‘ کے عنوان سے مقالہ پیش کرنے کا موقع ملا جس کے لیے میں اپنے دیرینہ رفیق اور محترم دوست مولانا وقار احمد (لیکچرار اسلامیات خان پور کالج، ہری پور ، ناظم دورہ تفسیر ، الشریعہ اکادمی ، گوجرانوالہ ) کا شکر گزار ہوں کہ یہ قیمتی موقع ان کی اطلاع و تحریض کی وجہ سے حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ ان کو بہترین بدلہ عطا فرمائیں اور دین و دنیا کی تمام سعادتوں سے بہرہ مند فرمائیں۔
سیمینار کے منتظم ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم کے چیئر مین ڈاکٹر منظور شاہ صاحب تھے ۔ ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر پہلے ایک صفحہ پر مشتمل مقالے کا خلاصہ بھیجا گیا جس کا منتظمہ کمیٹی نے جائزہ لیا اور پھر بذریعہ ای میل اطلاع دی گئی کہ آپ مقالہ پیش کرنے آسکتے ہیں ۔ سیمینار تین دنوں پر مشتمل تھا ۔ پہلے دو دن مقالات پیش کئے گئے اور تیسرے دن شرکاء کے لئے سید صاحب ؒ سے متعلقہ منتخب مقامات کی زیارت اور دیگر سیاحتی مقامات کی سیر کا انتظام کیا گیا تھا ۔ پہلے دو دن سیمینار کے دو حصے تھے ، صبح نو بجے سے ایک بجے تک کا وقت مہمانان خصوصی کی گفتگو کے لیے مختص تھا جس کو Key Notes کا عنوان دیا گیا تھا اور دوسرے حصے میں مقالہ پیش کرنے والے شرکاء کے لئے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے مختلف کمروں میں متوازی سیشنز میں مقالہ پیش کرنے کا اہتما م تھا ۔ جن شرکاء نے مقالہ پیش کیا، ان کی مجموعی تعداد ساٹھ کے لگ بھگ تھی۔
سیمینار کا آغاز ڈاکٹر منظور شاہ صاحب کے خوش آمدیدی خطاب سے ہوا ۔ جس میں سیمینار کا مقصد بتایا گیا۔ ان کے بعد سیمینار کے مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر محمد اشرف عدیل نے بطور کی نوٹ سپیکر خطاب کیا ۔ ڈاکٹر اشرف عدیل کا تعلق یونیورسٹی آف پینسلوینیا ، امریکہ سے ہے اور وہ وہاں سے سیمینار میں شرکت کے لئے تشریف لائے تھے ۔ ان کے خطاب کا عنوان ’’ معاشروں اور تحریکات کی کارکردگی جانچنے میں اعتدال بطور پیمانہ ‘‘ تھا ۔ انہوں نے قرآن کریم کی آیت مبارکہ وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاس (البقرۃ، ۴۳)ِ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعتدال اس امت کا امتیازی وصف ہے اور اس امت کی اصلاح اسی وصف کوہر شعبہ زندگی میں اپنانے سے ممکن ہے ۔انہوں نے اس بات پر بطور خاص زور دیا کہ کسی بھی قوم میں انقلاب کی ابتداء کلاس روم سے ہوتی ہے اس لئے ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر اور مؤثر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اسی سے معاشرہ انقلاب سے روشناس ہو گا ۔سوال و جواب میں شرکاء کی طرف سے کافی اہم سوالات اٹھائے جن کا ڈاکٹر صاحب نے عمدگی کے ساتھ جواب دیا۔
keynote speakers میں پہلے دن اسراء یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر علی خان ، ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان شامل تھے۔ ڈاکٹر عمر علی خان کے مقالے کا عنوان:
’’The Renaissance of Millat -E - Muslima and Its Resurrection after The Encounter of Balakot‘‘
یہ مقالہ انگریزی زبان میں بڑے جوشیلے انداز میں پیش کیا گیا۔ لوگوں نے توجہ سے سنا بھی، لیکن ان کے آیات اور احادیث کی غلط تلاوت کی وجہ سے عمومی تاثر اچھا نہیں رہا۔ ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان جو کہ سرحد یونیورسٹی پشاور سے تشریف لائے تھے ، ان کے مقالے کا عنوان تھا:
’’The Historical outcome of Armed Struggle by Syed Ahmed Shaheed: A Critical Analysis‘‘
انہوں نے سید صاحب ؒ کے سفر اور جدوجہد کی روداد داستان کے انداز میں سنائی ۔ اس سیشن کے اختتام پرٍ مانسہرہ کے سابق ضلعی خطیب اور بالا کوٹ میں مدرسہ سید احمد شہید ؒ کے مہتمم قاضی نے اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ میری پر زور رائے بلکہ مطالبہ ہے کہ سید احمد شہید ؒ کی خدمات سے عوام الناس کو متعارف کروانے کے لئے ہزارہ یونیورسٹی کو ان کے نام سے موسوم کیا جائے ۔انہوں نے ضیاء دور کے ایک اعلان کا حوالہ بھی دیا جس میں ایک جگہ سید احمد شہیدؒ کے نام سے ایک لائبریری بنانے کا اعلان ہوا تھا اور سنا یہ گیا تھا کہ فنڈز بھی جاری ہو چکے ہیں لیکن آج تک وہ لائبریری معرض وجود میں نہیں آسکی ۔ ان کی دعا پر اس سیشن کا اختتام ہوا۔پہلے دن کے keynoteسیشن کے اختتام پر ہمارا تاثر یہ تھا کہ موضوع پر بہت کم بات ہوئی اور وعظ و نصیحت کی محفل زیادہ جمی رہی۔
دوسرے دن keynoteوالے سیشن میں ڈاکٹر سعید الرحمان اور کراچی سے تشریف لانے والی ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر کی گفتگو انتہائی عمدہ اور عین موضوع کے مطابق تھی۔ ڈاکٹر سعید الرحمان (صدر شعبہ اسلامیات ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان) کے مقالے کا عنوان تھا:
’’Syed Ahmed Shaheed's Mission of Reforming Muslim Society: Research and Analysis"
اپنے Keynote خطاب میں انہوں سید صاحبؒ کے جہاد کی ہمہ گیریت پر نہایت عمدہ گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر سید صاحب ؒ کے جہاد کے بارے میں یہ تصور ہے کہ یہ سکھوں کے مقابلے میں ایک مسلح جدوجہد تھی اور بس ۔ حالانکہ سید صاحبؒ کے ہاں جہاد کا تصور بڑا وسیع ہے اس میں عوامی بہبود ، معاشرتی رسومات کی اصلاح اور عقائد کی درستگی سب شامل ہے اور سید صاحبؒ کے حالات زندگی اس پر شاہد ہیں ۔گویا اس جہاد سے محض مسلح جدوجہد مراد لیا اس کی وسعت کو محدود کرنے کے مترادف ہے ۔ ڈاکٹر صاحب سے چائے کے وقفہ کے دوران ہم نے ملاقات کی اور درخواست کی کہ کچھ وقت عنایت ہو تو مولانا وقار صاحب کے پی ایچ ڈی کے موضوع مقالہ اور کچھ دیگر امور پر راہنمائی حاصل کی جا سکے ۔ انہوں نے سیشن کے دوران وقفہ میں ہم کو بلایا اور حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے حوالے سے پی ایچ ڈی کے موضوعات کے حوالے سے انتہائی مفید راہنمائی فرمائی۔ راقم نے دوران گفتگو سوال کیا کہ کیا مدرسہ کے طلبہ کو مطالعہ کا عادی بنانے کے لئے کوئی ناول دیا جا سکتا ہے جیسے کہ نسیم حجازی کے ناول ہیں تو انہوں نے برملا کہا کہ ایسے ناول انسان کے اندر ایک تخیلاتی دنیا تشکیل دیتے ہیں کہ ایک نجات دہندہ آئے گا اور کشتوں کے پشتے لگا کر قوم کو مصائب سے نجات دلائے گا ۔ اس سے پھر وہ ساری زندگی کسی ایسے مسیحا کا انتظار ہی کرتے رہتے ہیں جو کہ ان کی نجات کا سندیسہ لے کر آئے اور یہ کوئی practical approach نہیں ۔
ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ کی گفتگو بلا شبہ پوری کانفرنس کی جان کہی جا سکتی ہے اور ان کی گفتگو کے بعد سید حنیف رسول صاحب نے اٹھ کر برملا اقرار بھی کیا کہ شکر ہے آپ کی گفتگو ہوئی وگرنہ کل سے سید صاحب ؒ کے متعلق کافی کنفیوژن پیدا ہو چکی تھی جس کا اب کافی حد تک ازالہ ہو چکا ہے ۔ ان کے مقالے کا عنوان تھا:
’’Political Vision of Sayyed Ahmad Shaheed‘‘
اپنی گفتگو میں انہوں نے سید صاحبؒ کے حالات سے متعلق تقریبا تمام کتب اور ماخذ کا انتہائی عمدہ اور بھر پور تنقیدی جائزہ پیش کیا اور سید صاحبؒ کی جدوجہد کی عظمت کو اجاگر کیا ۔ انہوں نے اپنی گفتگو کا اختتام سید صاحبؒ کے حوالے سے ایک مثال پر کیا کہ دوران جنگ دو سپاہی ایک مورچے میں محصور ہیں ، ان کے پاس ایک ہی بم ہے ، دوسری طرف سے دشمن مسلسل فائرنگ کر رہا ہے اور گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی ہے ، اس دوران ایک سپاہی نے اٹھ کر وہ اکلوتا بم دشمن کی طرف پھینکا۔اب اگر وہ گولیوں کا نشانہ بننے سے محفوظ رہا تو لوگ اس کو شجاع اور بہادر کہہ کر اس کی تعریف کریں گے اور اگر وہ کسی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر گیا تو یہی لوگ تنقید کرتے ہوئے یہ کہنے لگیں گے کہ کیا ضرورت تھی جان گنوانے کی ، انتظار کر لیتے ، ایسے ہی اپنا بھی نقصان کیا اور قوم کا بھی وغیرہ ۔ سید صاحبؒ کے بارے میں بھی ایسا ہی رویہ ہے ، سید صاحب ؒ وہ سپاہی ہیں جنہوں نے دشمن پر آخری حملہ کیا اور جان کی بازی ہار گئے اور بعد والے لوگ ان کی کوشش کو پس پشت ڈال کر ان پر تنقید کے نشتر چلانے لگے حالانکہ انہوں نے اس وقت کے معروضی حالات کے مطابق اپنا فرض ادا کر دیا ۔
دوسرا سیشن ظہر کی نماز کے بعد شروع ہوا ، اس میں مقالہ پیش کرنے والے شرکاء نے اپنے مقالہ جات پیش کئے جس کا انتظام شعبہ تعلیم کے کلاس رومز میں کیا گیا تھا ۔ چار کمرے منتخب کئے گئے تھے اور ہر کمرے میں تقریبا پانچ سے چھ مقالہ نگاروں نے اپنے مقالہ جات پیش کئے ۔اس طرح دو دنوں میں تقریبا بیس کے قریب مقالے پیش کئے گئے ۔ کانفرنس کے اس حصے میں سید صاحب ؒ کی تحریک کے حوالے سے جو نکات زیادہ زیر بحث رہے ان میں سے چند اہم نکات حسب ذیل ہیں :
۱۔ سید احمد شہید ؒ کی تحریک برطانوی ایمپائر کی حکمت عملی کا نتیجہ تھی ، اس کی دلیل یہ دی گئی کہ انگریز سامراج نے سب سے پہلے بنگال کے علاقوں پر قبضہ کیااور سید احمد شہیدؒ کی تحریک کی تقریبا ساری افرادی قوت انہیں علاقوں سے تعلق رکھتی ہے ، سید احمد شہید ؒ کے مریدین کا سب سے بڑا حلقہ بھی انہیں علاقوں میں تھا ۔ انگریز ایمپائر کو اس وقت زیر قبضہ علاقوں پر اپنا قبضہ مستحکم کرنے اور مزید علاقوں پر قبضہ کرنے کے لئے جن دو قابل ذکر مزاحمتوں کا سامنا تھا وہ ایک بنگال اور ملحقہ علاقوں میں موجود مسلم مزاحمتی عنصر تھا اور دوسرا پنجاب کے علاقوں میں سکھ راج تھا ، انگریزوں نے اپنے زیر قبضہ علاقوں سے یہ ساری قوت مجتمع کر کے سکھوں کے خلاف کھڑی کر دی جس سے جہاں یہ مسلم مزاحمتی قوت تباہ ہو گئی وہیں سکھوں کی قوت کا بھی کافی حد تک توڑ ہو گیا ، اس طرح برطانوی ایمپائر نے اپنے دونوں مقاصد حاصل کر لئے ۔اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ یہ ساری تحریک اصل میں برطانوی ایمپائر کی حکمت عملی کا نتیجہ تھی اور جس طرح ہم عصر حاضر میں افغانستان ودیگر علاقوں میں امریکی ایمپائر کے ہاتھو استعمال ہو رہے ہیں سید صاحبؒ کے ساتھ بھی اسی طرح کا معاملہ ہوا ۔یہ نظریہ GPGC, Mansehra سے آئے ہوئے ڈاکٹر ریاض حسین صاحب نے پیش کیا جن کے مقالے کا عنوان تھا:
’’The Study of jihad Movement Through Imperialist Persperctive‘‘
۲۔ سید احمد شہید ؒ کی تحریک جہاد اصلا انگریزوں کے خلاف تھی اور ان کا سکھوں کے ساتھ ٹاکرا ان کے مشن کی ایک ناگزیر قسط تھی ۔ اس کے دلائل میں سید صاحبؒ کے وہ خطوط پیش کئے گئے جو انہوں نے ہندہ راجاؤں کو لکھے جن میں ان کو تعاون کرنے اور اس تعاون کے بدلے میں ان کی راجدھانیاں قائم رہنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی ۔ اس کا مطلب تھا کہ سید صاحب ؒ کا اصل ہدف انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنا تھا نہ کہ سکھوں یا دوسری اقوام کے ساتھ جنگ چھیڑ دینا ۔ اس موقف پر کافی لے دے ہوئی اور عمومی سامعین نے اس کو قبول نہیں کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ سید صاحب ؒ کے پیش نظر صرف انگریز وں کا اخراج نہیں تھا بلکہ وہ ایک اسلامی ریاست کے قیام اور خلافت علی منہاج النبوت کے احیاء کے لئے نکلے تھے ۔ مندرجہ بالا موقف کی نمائندگی سید حنیف رسول نے کی جو Edwards College, Peshawar سے آئے تھے ۔ ان کے مقالے کا عنوان تھا:
’’Revisiting Syed Ahmad Shaheed's Tehreek-e-Mujahedeen: First LIberation Movement of the Wali Ullahi School‘‘
۳۔ سید احمد شہیدؒ کی تحریک کا دو قومی نظریہ سے کیا تعلق ہے ؟اس ضمن میں عام تاثر وہی رہا جو ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ دو قومی نظریہ شاہ ولی اللہ ؒ بلکہ ان سے بھی پہلے سے شروع ہوتا ہے اور قیام پاکستان تک پہنچتا ہے ۔ اس معاملے میں ایک دلچسپ بحث کانفرنس کے تیسرے دن ٹور کے موقع پر ہوئی ۔ ٹور سے واپسی پر ایک جگہ چائے کے لئے رکے تو شرکاء میں دو قومی نظریہ کی تعریف پر بات چلی ۔ اسراء یونیورسٹی اسلام آباد سے آئے ہوئے ڈاکٹر ریاض سعید نے کہا کہ دو قومی نظریہ یہ ہے کہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں کیوں کہ ان کا مذہب ، رسوم و روایات اور طرز ندگی مختلف ہے ، اس پر مولانا وقار احمد نے سوال کیا کہ پاکستان میں بسنے والے ہندو اور سکھ پھر کس قومیت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے شناختی کارڈ میں قومیت کے خانے میں کیا لکھا ہوتا ہے ؟ ان کے سوال پر کچھ دیر کے لئے شرکاء خاموش ہوئے تو درمیان میں راقم نے یہی سوال ہندوستان کے مسلمان باسیوں کے بارے میں اٹھایا تو ایک صاحب کہنے لگے کہ ان کو الگ کرنے کے لئے شناختی کارڈ کے خانے میں مذہب کا خانہ موجود ہے ۔ اس پر عرض کیا کہ مذہب کا خانہ موجود ہے لیکن قومیت ’’Nationality ‘‘ کے خانے میں وہ بھی پاکستانی ہی ہیں یہاں پر دو قومی نظریہ کہا گیا ؟ اس پر شرکاء کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب نہ آسکا ۔ ہمارا اصرار تھا کہ قومیت کا جو تصور مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے پیش کیا تھا وہ عملی طور پر آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر میں رائج ہے اور یہی عملی طور پر ممکن بھی ہے ۔ اور دو قومی نظریہ ایک وقتی ضرورت تو کہا جا سکتا ہے لیکن اس کو عملی طور پر ناقابل عمل ہی سمجھا گیا ہے اور قومیت کے خانے میں آج بھی وطن اور خطہ زمین کی بنیاد پر ہی قومیت درج کی جاتی ہے ۔ کافی گرما گرم بحث ہوئی ۔ آخر میں ڈاکٹر ریاض صاحب نے یہ کہا کہ اس بحث سے میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ مجھے اس موضوع پر مزید مطالعہ کرنا چاہئے اور انہوں نے مولانا وقار صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ اس بحث کا ایک اہم پہلو سامنے لائے ہیں ۔ ان کے مقالہ کا عنوان تھا:
’’Syed Ahmed Shaheed movement and the two nation's theory(Struggle for a separate identity in Indian subcontinent)‘‘
۴۔ سید صاحبؒ کی تحریک کے عصر حاضر کے ساتھ تعلق پر جو سوال بار بار زیر بحث آیا وہ ان کی تحریک اور طالبان تحریک خصوصا پاکستانی طالبان کے نظریات کے درمیان مماثلت کا سوال تھا ۔ یعنی سید صاحب ؒ اگر ہتھیار اٹھا کر ایک خطہ لینا چاہتے ہیں اور اس ضمن میں مسلح کوشش کرتے ہیں تو وہ جہاد کہلاتا ہے اور طالبان اگر یہی کام کرتے ہیں تو وہ دہشت گردی کہلاتی ہے ، اس کی کیا وجہ ہے ؟ گویا طالبان تحریک سید صاحبؒ کی جدوجہد کا ہی ایک تسلسل ہے ۔ اس سوال پر کافی محتاط گفتگو ہوئی اور کوئی بات واضح نہ ہو سکی لیکن عام شرکاء کی باڈی لینگوئچ سے ایسا احساس ہوتا تھا کہ لوگ اس معاملے میں کنفیوژن کا شکار ہیں اور ان کے ذہنوں میں اس حوالے سے کوئی تسلی بخش تصور نہیں ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ سید صاحب ؒ کے حوالے سے عقیدت و احترام اور طالبان کے حوالے سے برعکس رویہ دیکھنے میں آیاخصوصا پاکستانی طالبان کے حوالے سے ۔
۵۔ راقم کا مقالہ ’’ سید احمد شہید ؒ کی تحریک جہاد اور میر نثار علی عرف تیتو میر کی تحریک کا باہمی تعلق :تحقیقی مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے تھا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ تیتو میر کا تعلق سید صاحب ؒ سے ضرور تھا اور انہوں نے ان کے سفر حج سے پہلے یا دوران سفر ان کے ہاتھ پر بیعت بھی کر لی تھی اور غیر مستند روایت کے مطابق سید صاحبؒ نے ان کو اپنا خلیفہ بھی مقرر کیا تھا لیکن ان کی تحریک کو مزاحمتی تحریک تو کہا جا سکتا ہے جو کہ حالات کے جبر کی وجہ سے ان کو منظم کرنا پڑی لیکن اس کے پیچھے تحریک مجاہدین کا وہ اساسی تصور نہیں تھا کہ قوت جمع کر کے کسی علاقے پر قبضہ کیا جائے اور اسلامی تعلیمات کا نفاذ کیا جائے ، بلکہ اپنی ابتداء میں یہ ایک اصلاحی تحریک تھے جس کا مقصد غلط رسوم کا قلع قمع اور مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح کے ساتھ ان کی دینی تعلیم کا مناسب بندو بست کرنا تھا ، یہ اصلاحی تحریک کچھ مسلمانوں کی ریشہ دوانیوں اور ہندہ راجاؤں کے مظالم کی وجہ سے مسلح مزاحمت میں تبدیل ہو گئی ۔ہاں اختتام پر جب تیتو میر شہید ؒ نے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا تو انہوں نے کچھ عرصہ کے لئے اپنی آزاد حیثیت اور برطانوی تسلط و ہندو راجاؤں کی عملداری سے نکل جائے کا اعلان کیا تھا جس کی وجہ سے ان کے خلاف ایک بڑا آپریشن کیا گیا اور وہ اپنے سینکڑوں ساتھیوں سمیت شہید ہوئے ۔ ان کی شہادت سید صاحب کی شہادت سے کچھ عرصہ بعد ہوئی ہے ۔
۶۔ مولانا وقار صاحب (لیکچرار اسلامیات ، گورنمنٹ کالج ، خانپور )کے مقالے کا عنوان تھا’’ تحریک مجاہدین کی ناکامی کے اسباب وجوہ : تجزیاتی مطالعہ ‘‘ اس میں انہوں نے بڑی تفصیل سے ان وجوہات پر گفتگو کی جن کی وجہ سے سید صاحبؒ کی تحریک بظاہر ناکامی سے دوچار ہوئی ۔ اس میں انتظامی امور میں لاپرواہی ، علاقائی حالات کے بارے میں غلط اندازے ، مقامی لوگوں کا غیر تربیت یافتہ ہونا ، گردو نواح کے کچھ مسلمانوں کی مفاد پرستی اور کئی دیگر وجوہات پر بات ہوئی جو کہ سید صاحبؒ کی تحریک کی ناکامی کا باعث بنے ۔ لوگوں نے انتہائی توجہ سے سنا اور کثیر سوالات کے ذریعے اس میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ۔
ان مقالات کے علاوہ دیگر عنوانات پر بھی گفتگو ہوتی رہی، مثلاً سید صاحبؒ کے بعد ان کی تحریک کا تسلسل کہا ں تک رہا اور کس کس نے ان کا مشن جاری رکھنے کی کوشش کی؟ اسی طرح جو لوگ مقتل سے بچ گئے، وہ کس طرف گئے اور ان کی زندگی کی کیا مصروفیات رہیں؟ بہر حال کانفرنس کے دوران بہت اچھا علمی ماحول بن گیا اور شرکاء نے ایک دوسرے کے مطالعہ و معلومات سے بھر پور استفادہ کیا۔ بجا طور پر ہزارہ یونیورسٹی کی انتظامیہ ، ہزارہ چیئر کے منتظمین اور خصوصاً ڈاکٹر منظور حسین شاہ صاحب اس اہم موضوع پر کامیاب بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد کے مستحق ہیں ۔ کچھ انتظامی خامیاں ضرور رہیں لیکن علمی استفادہ و افادہ خوب ہوا ، اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اسی طرح اہم موضوعا ت پر کانفرنسز اور سیمینارز منعقد کرنے کی توفیق مزید مرحمت فرمائیں ۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔