(۱)
برادر محترم جناب عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
اگست کے ’’الشریعہ‘‘ میں ’’تہذیبی کشمکش کا نیا باب ‘‘ کے عنوان سے جناب خورشید احمد ندیم کا کالم ’’بشکریہ روزنامہ دنیا ‘‘ شائع کیا گیا ۔ ندیم صاحب نے بہت اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے ۔ سنجیدگی اور متانت ان کے ہر کالم کی خصوصیات میں شامل ہیں ۔ تاہم اپنے استاد محترم کی طرح ان کی تحریرات میں بھی بسا اوقات مبالغے اور انفعال کے مظاہر نظر آتے ہیں ۔ مثال کے طور پر انھوں نے ہم جنس پرستی کے مسئلے پر امریکی عدالت عظمی کے فیصلے کو ’’ تاریخ ساز‘‘ قرار دیا ہے ، بعینہ اسی طرح جیسے ۲۰۰۱ء میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے فتوی پر باندی کے حوالے سے بنگلہ دیش کی عدالت عالیہ کے فیصلے کو ’’صدی کا سب سے اہم فیصلہ ‘‘قرار دیا تھا (حالانکہ اکیسویں صدی کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا )۔ مغرب کے ساتھ تعامل کے مسئلے پر جس طرح ہمارا روایتی دینی طبقہ ایک انتہا پر کھڑا ہے اسی طرح جناب غامدی صاحب کا حلقۂ اثر بھی ایک دوسری انتہا پر کھڑا ہے۔ اول الذکر گروہ کارد عمل اگر اس طرح کے مسائل میں طنز و استخفاف کی صورت میں ہوتا ہے تو موخر الذکر گروہ کا رد عمل بالعموم بہت زیادہ متاثر ہونے کی صورت میں ہوتا ہے ، خواہ اس متاثر ہونے کے بعد وہ اس کا جواب دینے کی کوشش ہی میں مصروف نظر آئے ۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکی عدالت کا یہ فیصلہ انوکھا ہے نہ ہی تاریخ ساز ، بلکہ یہ ’’لادینی انسانیت ‘‘ (اگر secular humanism کے لیے یہ تعبیر قابل قبول ہو ) کے بنیادی عقیدے کا محض ایک عملی تقاضا ہے ۔ ندیم صاحب فرماتے ہیں :
’’یہ الہامی روایت اور لبرل ازم کے درمیان جاری کشمکش کا فیصلہ کن موڑ ہے ۔ انسان ، سماج اور زندگی کے باب میں جوہری طور پر دو ہی نقطہ ہاے نظر رہے ہیں ۔ ایک یہ کہ انسان خدا کی مخلوق ہے ۔ یہ حق خدا کا ہے کہ وہ اس کے مقصد حیات کا تعین کرے اور اس کے ساتھ اس کے لیے آداب زندگی بھی طے کرے ۔ یہ خدا ہی ہے جس نے انسان کی فطرت کو تخلیق کیا ۔ فطرت میں خیر و شر کا تصور رکھا اور پھر اس تصور کی یاددہانی کے لیے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ۔ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ انسان کسی خالق کی مخلوق نہیں ۔ زندگی اصلاً ایک ارتقائی عمل ہے۔ ۔۔ انسان اس تبدیل شدہ حیات کا ایک ارتقائی مرحلہ ہے ۔ اس کی زندگی کا نصب العین کیا ہے ، اس نے جینے کے لیے کن آداب کا لحاظ رکھنا ہے ، اس کا فیصلہ وہ اپنی عقل سے کرے گا ۔ فطرت کسی مستقل ضابطے کی پابند نہیں ہے ۔ یہ خارجی عوامل سے متاثر ہوتی ہے اور یوں اس کے مطالبا ت تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔‘‘
اس بارے میں عرض یہ ہے کہ انھوں نے مذہب کا جو موقف بیان کیا ہے وہ ایک بنیادی مغالطے پرمبنی ہے ۔ اسی طرح جو ’’دوسرا نقطۂ نظر‘‘ انھوں نے ذکر کیا اس میں بھی انھوں oversimplification کی ہے ۔ مذہب کے موقف کے متعلق بنیادی مغالطہ یہ ہے کہ خیر و شر کا اصل معیار انسانی فطرت ہے اور پیغمبر صرف اس کی ’’یاددہانی ‘‘کے لیے آتے ہیں ؛ جبکہ درحقیقت ’’الہامی مذہب‘‘ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اصل اور حقیقی معیار صرف وحی الٰہی ہے ۔ چنانچہ فطرت کو اصل ماننے والے تو یہ کہیں گے کہ فلاں کام برا ہے ،اسی لیے وحی نے اس سے روکا ؛ جبکہ وحی کو اصل ماننے والے یہ کہتے ہیں کہ وحی نے فلاں کام سے روکا ہے ، اس لیے وہ برا ہے۔ بہ الفاظ دیگر بات ان تین بنیادی مسائل تک آجاتی ہے کہ : حسن اور قبح افعال کی ذاتی خصوصیات ہیں یا نہیں ؟ حسن اور قبح عقل کے ذریعے قطعی طور پر معلوم ہوسکتے ہیں یا نہیں ؟ اور عقل کا یہ فیصلہ حکم خداوندی کی حیثیت رکھتا ہے یا نہیں ؟ الہامی مذہب ماننے والوں کا پہلے دو مسئلوں پر چاہے چھوٹا یا بڑا اختلاف ہو لیکن تیسرے مسئلے پر ان کا اتفاق ہے ، سواے ان عقل پرستوں کے جن کی راے کو علمی دنیا نے کبھی الہامی مذہب کا ’’اصل موقف ‘‘تسلیم نہیں کیا ، کہ عقل کا فیصلہ حکم خداوندی کی حیثیت نہیں رکھتا اور اسی لیے اصول فقہ میں حکم شرعی کی تعریف میں ’’خطاب الشارع‘‘ کو بنیادی رکن کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے ۔
اسی طرح ہم جنس پرستی کے قائلین صرف وہ لوگ ہی نہیں ہیں جو انسانی فطرت کو کسی ضابطے کا پابندنہیں سمجھتے بلکہ اس کے قائلین اور پر جوش وکلامیں بہت سے وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ انسانی فطرت ہی اصل معیار ہے اور کوئی بھی قانون جو ’’قانونِ فطرت‘‘ (Natural Law)کے خلاف ہو ، اسے قانون کے طور پر مانا ہی نہیں جاسکتا ۔ اصول قانون (Jurisprudence)کے مبتدی طالب علم بھی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ Legal Positivists فطرت اور اخلاق کو ’’اضافی ‘‘(Relative) قرار دیتے ہیں جبکہ Naturalists ان کو متعین حقیقت (Absolute Reality) کے طور پر مانتے ہیں ۔ اس لیے قانون اور اخلاق کی بحث میں Legal Positivists کا موقف یہ ہوتا ہے کہ اخلاقیات کے تصورات غیر متعلق ہیں اور یہ کہ قانونِ فطرت محض ایک ’’افسانہ ‘‘(fiction) ہے ۔ اس کے برعکس Naturalists کا موقف یہ ہوتا ہے کہ قانون فطرت ہی اصل معیار ہے جسے عقل کے ذریعے دریافت کیا جاسکتا ہے اور اگر وضعی قانون (Positive Law)اس قانونِ فطرت کے خلاف ہو تو وہ کوئی قانون ہی نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ قانونِ فطرت کے ان قائلین کی اکثریت اس وقت ان لوگوں کی ہے جو اخلاقیات کے لیے وحی کے بجاے عقلِ انسانی کو ماخذ مانتے ہیں ۔
بین الاقوامی قانون کے طالب علم جانتے ہیں کہ حقوق انسانی کے قانون (Human Rights Law) کی بنا دراصل قانونِ فطرت کے بنیادی مفروضات پر ہی کی گئی ہے ۔ مثال کے طور پر میری رابنسن ، جو اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انسانی کے کمیشن کی سربراہ تھیں ، کے اس قول کے مضمرات پر غور کریں :
Human rights are inscribed in the hearts of people. They were there long before the lawmakers drafted their first proclamation.
پس جو لوگ ہم جنس پرستی کو ’’انسانی حق ‘‘ مانتے ہیں وہ ’’عقل و فطرت ‘‘ کے اسی تصورکو استعمال کرتے ہیں جو جناب غامدی صاحب کے مکتبِ فکر کے ’’اصول و مبادی ‘‘اور ’’دین کے صحیح تصور‘‘ کا رکن رکین ہے ۔ کافی عرصے سے میں نے المورد کی ویب سائٹ www.understanding-islam.com پر سوالات اور مباحث کا مطالعہ نہیں کیا لیکن جن دنوں میں اس ویب سائٹ کی باقاعدہ ’’سیاحی ‘‘کیا کرتا تھا ، ان دنوں ( ۱۹۹۹ء اور ۲۰۰۱ء کے درمیان) اس پر ایک اہم مباحثہ یہ ہوا تھا کہ ہم جنس پرستی انسانی فطرت کے خلاف ہے یا نہیں اور جناب معز امجد صاحب کو اسے خلافِ فطرت ثابت کرنے میں کافی کدوکاوش کرنی پڑی تھی ۔ وہ بحث بعد میں المورد کی جانب سے شائع کردہ کتاب Answers on the Web کی ۲۰۰۰ء کی اشاعت میں شامل بھی تھی اور میں حسن ظن رکھتا ہوں کہ بعد کی اشاعتوں میں بھی وہ خارج نہیں کی گئی ہوگی ۔
چنانچہ اس وقت اسلام سمیت تمام الہامی مذاہب کو اصل خطرہ ان لوگوں سے نہیں ہے جو انسان کو زندگی کا ایک ارتقائی مرحلہ مانتے ہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو لادینی انسانیت کے قائل ہیں اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس معرکے میں عقل و فطرت کو معیار ماننے والوں کی کاوشوں کا فائدہ لادینی انسانیت کے قائلین کو ہی مل رہا ہے ۔
ندیم صاحب کا جو دوسرا کالم اسی شمارے میں شائع کیا گیا ہے ، اس پر تفصیلی تبصرہ کسی اور وقت کروں گا لیکن ایک بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ انھوں نے علامہ شبلی نعمانی کے بارے میں اس تاثر کی نفی کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ مستشرقین کے زیر اثر تھے ۔ یہ ندیم صاحب کی مجبوری ہے کیونکہ ان کے استاد گرامی کے نزدیک مغرب کے تہذیبی اور علمی حملوں کا جواب صرف ’’دبستانِ شبلی ‘‘ ہی سے ممکن ہوسکا تھا ۔ جناب غامدی صاحب کے پیروکاروں میں جن چند اصحاب سے یہ توقع تھی کہ وہ مجتہد فی المذہب کا درجہ تو حاصل کرہی لیں گے ان میں ایک ندیم صاحب بھی تھے لیکن وہ بھی نرے مقلد ہی نکلے وگرنہ ان کے لیے تو کم از کم یہ بات عیاں ہونی چاہیے تھی کہ مستشرقین کے جواب میں ہی سہی ، اور نہایت خلوصِ نیت سے ہی سہی ، لیکن علامہ شبلی (اللہ انھیں غریقِ رحمت کرے ) نے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرکے کئی ایسی باتوں کا انکار کیا ، یا ان کی تاویل کی ، جو تاریخی طور پر مسلمات میں شمار کی جاتی رہی ہیں ۔ وہی رویہ تین نسلیں گزرنے کے بعد بھی دبستانِ شبلی کے منتسبین کے ہاں بدستور پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہے ۔
محمد مشتاق احمد
اسسٹنٹ پروفیسر قانون ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی ،اسلام آباد
mushtaqahmad@iiu.edu.pk
۶ ذوالقعدہ ۱۴۳۶ ھ ( ۲۲ اگست ۲۰۱۵ء )
(۲)
محترم محمد عمار خان صاحب السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
الشریعہ کا ہمیشہ سے ہی انتظار رہتا ہے اور یقین جانیے اس کے مندرجات سارے کے سارے ہی علم میں اضافے کا باعث ہوتے ہیں۔ الشریعہ کی یہ پالیسی میرے نزدیک احسن ہے کہ اس میں مختلف مکاتب فکر ،حتی کہ اپنے خلاف بھی بڑے کھلے دل سے ، کی تحریروں کہ جگہ ملتی ہے۔مباحثہ و مکالمہ اور تنقید سے ہی علم کی ترقی ممکن ہے۔ اسی سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ بڑے خلوص سے لکھے گئے مقالات کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے، ورنہ زندگی غلط فہمی میں ہی گزر جائے۔ اسی احساس کے پیش نظر میں نے اپنی کتاب،:بینک انٹرسٹ:منافع یا ربا" آپ کی خدمت میں پیش کی تھی کہ اس پر کھل کر تنقید ہو گی اور مجھ پر اپنی غلطی واضح ہو گی۔ وہ تو شاید کسی مصلحت یا کسی مناسب اہل علم کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ ہو سکا۔ یہ میں نے اپنا نقطہ واضح کرنے کی خاطر لکھا کہ تنقید کو میں علم کی ترقی کے لیے ضروری خیال کرتا ہوں۔
غامدی صاحب کی فکر پر جب محترم حافظ صاحب کی تحریر کا آغاز ہوا تھا تو ایک لحاظ سے خوشی ہوئی تھی کہ کوئی علمی چیز سامنے آئے گی۔ ایک دو قسطوں کے بعد میں نے مضمون پر سرسری سی نظر ڈالنے کے بعد آگے بڑھ گیا، اور اب حالت یہ ہے کہ میں اس پر نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا۔ یہ میری بد قسمتی ہی ہے کہ انداز تحریر کی وجہ سے شاید کوئی بڑی علمی چیز سے محروم ہوا جاتا ہوں۔ کاش کہ موصوف اس بحث کو علمی انداز میں آگے بڑھاتے۔ اب گزارش یہ ہے یہ سلسلہ کہیں رکے گا بھی یا ہم جیسے لوگوں کے ذوق پر برچھی بن کر دل و دماغ کو زخمی کرتا رہے گا۔ یہ درست ہے کہ و کل فوق ذی علم علیم، لیکن اہل علم کو دوسروں کو امتحان میں نہ ڈالیں تو بہتر ہو گا۔
اسی طرح ایک اور علمی سلسلہ جو سال ہونے کو آیا ہے اور ابھی تک جاری ہے یعنی اردو تراجم قرآن پر ایک نظر، اللہ جانے یہ کب ہماری جان چھوڑے گا۔ اس کے لیے میں صرف دعا ہی کر سکتا ہوں۔
الفاظ کے انتخاب میں اگر کسی کی دل آزاری کو کوئی پہلو نکلتا ہو تو معافی کا خواہاں ہوں۔ بندہ بشر ہونے کے علاوہ عجمی ہوں۔ والسلام
محمد انور عباسی
anwarabbasi@hotmail.com