بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور اس کا سدباب

محمد فیصل شہزاد

(یہ ایک حساس، سلگتا ہوا مگر انتہائی ضروری موضوع ہے جو شاید کسی طبع نازک کو ناگوار گزرے مگر بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں اور یاد رکھیں کہ ہم سب کے ہی بچے ہر وقت جنسی کتوں کی نظر میں ہیں۔ اگر آج ہم ضروری اقدامات نہیں کریں گے تو خدانخواستہ ہمارے بچے بھی غیر محفوظ ہو سکتے ہیں۔ درخواست ہے کہ اسے پڑھیے، سمجھیے، عمل کیجیے اور شیئر کیجیے تا کہ ہمارا اور ملک کا مستقبل، ہمارے معصوم بچے، ان گلی کوچوں میں آزاد گھومتے جنسی درندوں کے ناپاک ارادوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ سب بچوں کی ہر طرح حفاظت فرمائے آمین! اعداد وشمار اور معلومات کے لیے ادارہ ’’روزن‘‘ کی رپورٹس سے استفادہ کیا گیا ہے۔ محمد فیصل شہزاد)


سانحہ قصور ایک نہایت دل دہلا دینے والا، دردناک، شرم ناک بلکہ گھناؤنا ترین واقعہ ہے۔ 280 بچوں کا تو ذکر ہے، مجھے یقین ہے کہ اس سے دوگنے بچے ہوں گے جن کا بدترین جنسی استحصال کیا گیا ہو گا۔ اس گھناؤنے جرم کے ذمہ داران کے خلاف بڑی باتیں ہو رہی ہیں مگر کیا یہ سب پہلی بار ہوا ہے؟ کیا اس سے پہلے ہمارے معاشرے میں بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی اور بدفعلی عام نہیں ہے؟ نہیں جناب! یہ گھناؤنا عمل ہر محلے کی سطح میں، ہر دوسرے اسکول اور ہر تیسرے اقامتی مدرسے میں ہو رہا ہے۔ ایک ادارے ’’روزن‘‘ کی تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر معاشرتی و اقتصادی پس منظر سے تعلق رکھنے والے 15سے 20فیصد لڑکوں اور لڑکیوں کو اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور جنسی بدسلوکی سے واسطہ پڑتا ہے اور یہ بیس فیصد وہ ہوتے ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں، مگر سب جانتے ہیں کہ اس سے کئی گنا سلگتے واقعات وہ ہیں، جو کبھی منظر عام پر نہیں آتے!

میں ان سطور کے ذریعے سے کوشش کروں گا کہ دوستوں کو بتايں کہ معصوم پھول جیسے بچوں کے ساتھ بدفعلی صرف ایک ’’عمل‘‘ نہیں ہے، بلکہ بہت سارے بد افعال بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے ضمن میں آتے ہیں۔ اسی طرح اس ضمن میں ہمارے ہاں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ سب سے پہلیان غلط فہمیوں کا ذکر کروں گا تا کہ ہم اپنے بچوں کو ہر بری نگاہ رکھنے والے کی گندی نگاہ سے زیادہ سے زیادہ حفاظت میں رکھ سکیں۔

صرف بچیاں یا بچے بھی؟

ایک بہت بڑی غلط فہمی لوگوں میں اس خیال کا عام ہونا ہے کہ صرف بچیوں کے ساتھ ہی جنسی بدسلوکی ہوتی ہے! ایسا بالکل نہیں ہے۔ تحقیق کے مطابق بچیاں اور بچے تقریبا ایک جتنی تعداد میں جنسی بدسلوکی کا شکار ہوتے ہیں، یعنی ہر تین میں سے ایک بچی اور ہر چار میں سے ایک بچہ!! یہ اس لیے کہ بچے بچیوں کی بانسبت آسان ہدف ثابت ہوتے ہیں۔ ایک تو اس لیے کہ لڑکیوں اور بچیوں کی لوگ زیادہ حفاظت کرتے اور ان پر نظر رکھتے ہیں مگر بچوں کو جنسی بھیڑیوں کا تر نوالہ بننے کے لیے ایسے ہی چھوڑ دیا جاتا ہے! دوسری بات ہم جنس پرستی کی بڑھتی ہوئی لعنت ہے جس نے معاشرے کے ہر طبقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسی لیے لڑکیوں کی نسبت چھوٹے لڑکوں کو آج اسکول، مدرسے، کھیل کا میدان حتی کہ اپنے گھر میں بھی تحفظ حاصل نہیں ہے! 

اجنبی نہیں، رشتہ دار زیادہ خطرناک ہیں! 

ایک اور بہت بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرنے والے زیادہ تر اجنبی مرد یا عورت ہوتے ہیں۔ یہ سنگین غلطی ہے۔ درحقیقت جنسی بدسلوکی کرنے والے مرد اور عورتیں دونوں ہی عام طور پر جنسی بدسلوکی کے لیے منتخب کیے جانے والے بچے سے پہلے ہی سے واقفیت یا کوئی تعلق رکھتے ہیں اور اکثر انہیں بچے تک براہ راست رسائی حاصل ہوتی ہے۔ خاندان کے افراد( فرسٹ کزنز، پھوپھا، خالو حتی کہ چچا ماموں)خاندانی دوست، گھریلو معاون، پڑوسی اور ٹیچرز سب ہی جنسی بھیڑیے ثابت ہو سکتے ہیں! جی ہاں، استاد جسے روحانی باپ کہا جاتا ہے، وہ بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں ہیں۔ خود قصور کے جس علاقے میں بچوں سے جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا ہے، وہاں کے ایک زمیندار مولانا عبیداللہ صاحب ہمارے ایک دوست کے دوست ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ اس واقعہ میں بنیادی کردار مقامی اسکول کا ہے جہاں بے غیرت ٹیچرز ہی اس مکروہ کام کرنے والوں کو بچے سپلائی کرتے تھے۔ مگر اس واقعہ میں میڈیانے اسکول کا ذکر سرے سے غائب کر دیا ہے۔ اب ذرا تصور کیجیے کہ اس طرح کے کسی واقعہ میں کسی مدرسے کا نام آیا ہوتا تو پھر میڈیا اور سول سوسائٹی کا کردار کیا ہوتا!

یہ ایک ضمنی بات آ گئی، بہرحال ایک غیر سرکاری ادارے روزن کی ایک رپورٹ کے مطابق دو سو بچوں کے ساتھ جنسی بدسلوکی کرنے والوں میں سے49فیصد رشتہ دار تھے، 43فیصدواقف کاروں میں سے تھے (جن میں سب سے زیادہ شرح گھریلو ملازموں کی تھی)، اور صرف 7فیصد کی تعداد اجنبی افراد کی تھی!

غریب، امیر سب کے بچے!

اسی طرح ایک خیال یہ عام ہے کہ صرف غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچے ہی بدفعلی کا شکار ہوتے ہیں۔ مگر یہ بات بھی غلط ہے۔ غرباء کے بچوں کے تقریباً برابر ہی متوسط اور امیر طبقے کے بچے بھی جنسی سلوکی کا شکار ہوتے ہیں! 

طریقہ واردات! 

جیسا کہ عرض کیا گیا، جنسی بدسلوکی کرنے والوں کی اکثریت ایسے قریبی افراد کی ہوتی ہے جن پر اعتماد کیاجاتا ہے اور جن کے بارے میں کوئی ایسی حرکت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات ان کی حرکتیں کسی کے علم میں نہیں آتیں۔ پھر یہ کہ جنسی بدسلوکی کرنے والے یہ درندے اپنے شکار بچوں کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے افعال کو راز میں رکھنے کے لیے جسمانی قوت استعمال کرنے کے بجائے، اپنے تعلقات کو بنیاد بناتے ہیں۔ جنسی بدسلوکی کرنے والے ایسا طرزِ عمل اپناتے ہیں کہ وہ بچوں سے قریب ہو جائیں اور وہ بچوں کو تحفہ دے کر، ان کی تعریف کر کے ان کا اعتماد حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے وہ لوگ جو قریبی رشتہ دار نہ ہوں، وہ بچے کے گھر والوں کے ساتھ کسی ہمدرد کی صورت بنا کر قریبی تعلقات قائم کر لیتے ہیں تا کہ انہیں بچے کے ساتھ تنہائی میں ملنے کا موقع ملتا رہے اور ان کی طرف کسی کا دھیان بھی نہ جائے! ایک بار بچے کے ساتھ بے تکلف ہونے کے بعد وہ آہستہ آہستہ حدود کو پار کرنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات اتفاقیہ طور پر چھو جانے کی صورت میں، جنسی نوعیت کے مذاق کرنے یا بچے کو مختلف مواقع پر لپٹانے یا چومنے کی صورت میں!

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معصوم بچہ جنسی بدسلوکی کرنے والے یا والی سے مانوس ہو جاتا ہے اور اس کی جانب سے چھوئے جانے یا باتیں کرنے پر بچے کی حساسیت کم ہو جاتی ہے۔ اگر پرائیویٹ مقامات پر ملاقات کے مواقع جاری رہیں تو جنسی بدسلوکی کرنے والے اپنے افعال میں قربت بڑھا دیتے ہیں۔ جنسی بدسلوکی کرنے والے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں جن کے ذریعے یہ یقین ہو جائے کہ بچے اپنے ساتھ ہونے والے معاملات کسی کو نہ بتائیں گے۔ ان میں سے بعض براہ راست جارحیت (قوت کا استعمال) اختیار کرتے ہیں اور بچے کو بری طرح ڈرا دیتے ہیں کہ ’’اگر اس نے کسی کو بتایا تو اسے یا اس کے گھر والوں کو نقصان پہنچا دیا جائے گا‘‘ جب کہ بعض ایسے افراد بچوں کو ندامت یا شرمندگی کا احساس دلاتے ہیں کہ تم یہ کسی کو بتاؤ گے تو کتنی شرم کی بات ہے، سب تمہارا مذاق اڑائیں گے۔ اس طرح وہ بالآخر انہیں اس بات پر راضی کر لیتے ہیں کہ اس تعلق یا جنسی بدسلوکی کو راز میں رکھا جائے!

بدسلوکی کرنے والے صرف مرد ہی نہیں عورتیں بھی!

بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں میں مردوں کے ساتھ عورتوں کے ذکر پر کچھ لوگوں کو تعجب ہوا ہوگا اور انہیں برا بھی لگے گا کہ ایسا کیسے ممکن ہے؟ عرض ہے کہ بالکل ممکن ہے۔ نو عمر قریب البلوغ بچے یا نو بالغ لڑکوں کا جنسی استحصال صرف مرد ہی نہیں بلکہ عورتیں بھی کرتی ہیں۔ خاص طور پر امیر گھرانوں میں کام کرنے والی گھریلو ملازمائیں اس میں ملوث ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھی دورکی آنٹیاں نوعمر بچوں جنسی استحصال کرتی ہیں، یہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ البتہ یہ ہے کہ فطرتاً ایسی گندی عورتوں کی تعداد ایسے مردوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور ان کے کیسز بھی بہت کم سامنے آتے ہیں مگر ایسا ہوتا ضرور ہے۔ یہ فرق بھی ضرور ہے کہ عورتوں کی طرف سے جنسی استحصال میں عموماً امیروں کے بچے زیادہ شکار بنتے ہیں! 

جنسی بدسلوکی میں کیا کیا شامل ہے؟ 

جنسی بدسلوکی کی نمایاں صورتوں میں جنسی حملہ، اعضائے مخصوصہ کو سہلانا اور بچے کو ڈرا دھمکا کر زنا بالجبر یا لالچ دے کر زنا بالرضا کرنا تو شامل ہے ہی، مگر جنسی بدسلوکی میں کسی بھی قسم کے غیر مناسب جنسی مواد سے دوچار کرنا بھی شامل ہے، خواہ یہ مواد زبانی ہو یا مناظر کی صورت میں ہو۔ درج ذیل تمام عوامل جنسی بدسلوکی میں شامل ہیں:

  • بچے کی جسم یا اعضاء کو اور خصوصاً پوشیدہ اعضاء کو غیرمناسب طریقے سے چھونا یا سہلانا۔
  • بچے کو اس کے اپنے یا کسی دوسرے فرد کے جنسی اعضاء کو چھونے کے لیے کہنا۔
  • بچے کے ساتھ جنسی ملاپ کرنا یا اسے کسی دوسرے سے یہ قبیح حرکت کرنے پر مجبورکرنا۔
  • بچے کو عریاں تصاویر یا عریاں فلم دکھانا۔
  • بچے کو عریانیت پر مبنی کہانی سنانا۔
  • بچے کو عریاں تصاویر یا عریاں فلم بنوانے کے لیے کہنا۔
  • بچے کو بے لباس کرنا یا اسے کسی اور کو بے لباسی کی حالت میں دیکھنے پر مجبور کرنا۔
  • بچے کو اپنے پوشیدہ اعضاء دکھانا یا جنسی لطف حاصل کرنے کے ارادے سے بچے کے اعضاء کو دیکھنا۔

کیا جنسی بدسلوکی کو روکا جا سکتا ہے؟ 

اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ: ’’ہاں‘‘۔ بالکل ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے جنسی بدسلوکی ہونے کے امکانات کو کم کیا جا سکتاہے۔ والدین اور دیکھ بھال کرنے والے ہر وقت اپنے بچوں کے ساتھ موجود نہیں رہ سکتے، لہٰذا بچوں میں اپنی حفاظت کے لیے مطلوبہ صلاحیتیں پیدا کی جانی چاہئیں۔ روایتی طور پر سب سے زیادہ عام طریقہ استعمال خوف کا استعمال ہے تا کہ بچے بات سننے اور ہدایات پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ مثال کے طور پر والدین اپنے بچوں کو ’’اجنبی افراد سے خطرے‘‘ کے بارے میں بتاتے ہیں، یعنی اگر وہ کسی اجنبی سے بات کریں گے یا اس کے ساتھ کہیں جائیں گے تو انہیں جسمانی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے، مگر جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ جنسی طور پر بدسلوکی کرنے والوں میں سے زیادہ تر افراد اور متعلقہ بچے کے درمیان پہلے سے واقفیت ہوتی ہے، اس لیے یہ بات نوٹ کر لیجیے کہ:

1۔ والدین کسی پر بھی اندھا اعتماد نہ کریں، قریب ترین رشتہ داروں اور دوستوں کے گھر بھی اپنے بچوں کو تنہا نہ چھوڑیں۔

2۔ اسی طرح انتہائی کوشش کیجیے کہ حتی الامکان بچے کو عصری ہاسٹلز یا اقامتی مدرسوں میں داخل نہ کریں، بلکہ ترتیب یہ بنائیں کہ بچہ تعلیم حاصل کر کے واپس گھر ہی آئے۔ 

3۔ خود اپنے بچوں کو کمپنی دیں، ان کے ساتھ کھیلیں اور ان کے اندر خوداعتمادی پیدا ہونے دیں۔ خود اعتمادی کے ساتھ اپنے آپ کو اس کے دوستوں کی طرح رکھیں کہ وہ ہر بات پر آپ کو بھی اعتماد میں لے۔

4۔ اس بات کو لے کر اس کے اندر غصہ اور غیرت پیدا کروائیں کہ کوئی بھی ان کی ’’شرم‘‘ والی جگہ کو بے اختیار ہاتھ لگنے کا ڈھونگ بھی کرے تو وہ بھرپور غصے کا اظہار کریں۔

5۔ اپنے بچوں کے اشارے کنائے یا ڈھکی چھپی باتوں کو ’’بچوں کی باتیں‘‘ کہہ کر کبھی نظر انداز نہ کریں۔ ان کی ہر بات کو سیریس لیں اور پھر خاموشی سے تحقیق کریں! اگر ایک بار آپ نے بچے کے اشارے کنائے کو نظر انداز کر دیا یا سختی سے اسے جھٹلا دیا تو آپ پر سے اس کا اعتماد ختم ہو جائے گا اور ہوس کے بچاری اس کے جسم و روح پر قبضہ کر لیں گے! 

بچوں کو ضروری آگہی دیجیے! 

6۔ بچے کو بتائیں کہ والدین، والدین کے والدین اور بہن بھائیوں کے علاوہ کوئی بھی، کتنا ہی قریبی رشتہ دار ہو، ایک حد سے زیادہ بے تکلف ہوں یا تحفے تحائف دے تو محتاط ہو جائیں ۔۔۔ تحفے کبھی خود نہ لیں، بلکہ اپنے والدین کو دینے کا کہیں!

7۔ ماں باپ بچوں میں کوئی بھی غیرمعمولی حرکت دیکھیں تو فورا چوکنا ہو جائیں ۔۔۔ 

  • ان کے جسم پر چوٹ کے نشانات خصوصاً نازک اور پوشیدہ جگہوں پر کوئی نشان یا تکلیف کے آثار۔
  • بچوں کا اچانک غیرمعمولی طور پر حساس ہو جانا۔
  • چپ چاپ رہنا۔
  • ڈرے سہمے رہنا۔
  • یا پھر اس کے بالکل برعکس بہت زیادہ بولڈ یا بدتمیز ہو جانا۔
  • فحش حرکتیں کرنا یا فحش گفتگو کرنا جو پہلے نہ کرتا تھا۔
  • بچوں کے پاس زیادہ پیسوں کا آ جانا (خود بھی میانہ روی سے کام لیں، نہ زیادہ جیب خرچ دیں اور نہ ہی بہت کم دیں)
  • کھانے کی چیزیں یا کھلونے وغیرہ کا آ جانا۔
  • دیر سے گھر آنا۔
  • آپ کے کسی خاص واقف کار کو دیکھ کر عجیب سا برتاؤ کرنا وغیرہ۔

یہ سب علامات چوکنا کر دینے والی ہیں، انہیں دیکھ کر آپ کے دماغ میں الارم بج جانا چاہیے، مگر واضح رہے کہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہم شکی ہو جائیں،  ذرا ذرا سی بات پر بچوں سے سوال جواب کرنے لگ جائیں، اس سے اس کی شخصیت پر برا اثر پڑے گا، نہ ہی میں بلاوجہ کسی پر شک کرنے کی ترغیب دے رہا ہوں، مگر جب آپ کو کچھ بھی غیر معمولی لگے تو اسے نظر انداز نہ کیجیے، براہ راست بچے سے نہ پوچھیے بلکہ اس کی جاسوسی کیجیے، ریکی کیجیے، باتوں ہی باتوں میں اس سے اس کی نئی چیزوں اور پیسوں کے متعلق اس طرح کریدیے کہ اسے ذرا شک نہ ہو! یہ سب ہمارے لیے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جس میں سب سے زیادہ بچوں پر ظلم ہو رہا ہے! 

8۔ بچوں کو ضروری آگہی دیجیے، انہیں مہذب پیرایے میں بتائیے کہ ستر سے متعلق ہر بات عیب یا "گندی بات" نہیں ہے، بلکہ "گندی بات" غلط انداز میں ذکر یا "کسی" بھی دوسرے کا آپ کے جسم سے چھیڑ چھاڑ ہے، لیکن آج اس ضروری آگہی کو بھی گناہ سمجھا جاتا ہے اور عیب کی بات سمجھتی جاتی ہے، چاہے پھر بچہ دوسرے بگڑئے ہوئے لوگوں سے غلط سلط معلومات حاصل کرے اور نتیجتاً ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ جائے!

آج میں اس پبلک فورم میں اس بات کا ڈنکے کی چوٹ پر اظہار کرتا ہوں کہ میں والد کے، بچوں کو بلوغت کے قریب آسان زبان اور لہجے میں، مہذب و شائستہ پیرایے میں ضروری جنسی مسائل کی تعلیم دینے کے حق میں ہوں، جس طرح ماں بچیوں کو بلوغت کے وقت سب کچھ سمجھاتی ہے کہ پھر اسے ادھر ادھر دیکھنا نہیں پڑتا، بالکل اسی طرح باپ (واضح رہے صرف باپ، استاد بھی نہیں) بچوں کو ایک حد میں رکھتے ہوئے ایسا اعتماد دے کہ وہ اپنا ہر مسئلہ، اپنی ہر بات آپ سے شیئر کر ے، تا کہ آپ بھی وقت کے ساتھ ساتھ اس کی فطری تبدیلیوں کے بارے میں مہذب اور شائستہ پیرایے میں اسے سمجھا سکیں،  یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، ہمارے دینی مدارس میں اس کی مثال موجود ہے، بچوں کو بلوغت کے شروع میں ہی یہ سب پڑھایا جاتا ہے!

اچھے برے لمس کی پہچان اور اللہ کی حفاظت! 

9۔ بقول محترمہ شینا صاحبہ، پانچ سے نو سال تک کے بچوں سے جنسی بدسلوکی پر ٹھوس انداز میں بات کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انہیں ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ لمس (چْھونا) کے بارے میں بتایا جائے۔ تمام بات چیت میں مثالیں دی جائیں تا کہ وہ بیان کردہ لمس (چھوئے جانے) اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے احساسات کے درمیان تعلق قائم کر سکیں!

مثال کے طور پر اچھا لمس وہ ہوتا ہے جس سے ہمیں خوشی، پیار اور سکون کا احساس ہو مثلاً والدین کی جانب سے لپٹانا، یا استاد کی جانب سے حوصلہ افزائی کے طور پر پیٹھ پر تھپکی دینا!

برے لمس وہ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ہمیں یا تو جسمانی نقصان پہنچتا ہے یا کسی نہ کسی طرح بے چینی محسوس ہوتی ہے،  اگر کوئی شخص ہمارے ستر پر ہاتھ مارتا ہے یا بے سکونی کی حد تک گدگداتا ہے تو یہ سب برے لمس ہوتے ہیں، خیال رکھیے کہ صرف جسمانی نقصان کی مثالیں نہ دی جائیں کیوں کہ اس طرح بچے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ برے لمس(چھونا) صرف وہ ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ سے جسمانی درد ہوتا ہے، جب کہ یہ لازم نہیں ہے، بلکہ ان کی چھٹی حس کو بیدار کیجیے، اللہ تعالیٰ کی یہ نعمت ہر انسان کو دی گئی ہے کہ اس کا دل اچھی بری نظر، اچھے برے لمس، اچھے برے لہجے میں فوراً فرق کر لیتا ہے، آپ کو اپنے بچے کی اسی حس کو بیدار کرنا ہے کیوں کہ صرف جسمانی نقصان یا درد کی مثال کافی نہیں ہے، بہت سے عیار نفس کے غلام اس طرح اپنی نفسانی خواہش کو پورا کرتے ہیں کہ بچے کو کوئی جسمانی نقصان نہ ہو، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ پیار سے سہلانا جس کی تہہ میں نفسانیت اور گندگی ہو، چاہے ظاہری تکلیف نہ دے، ایک بے چینی ضرور پیدا کر دے گی، بس یہی حس بچے میں بیدار کیجیے!

اللہ کی حفاظت میں دیجیے! ۔۔۔ چند مسنون اعمال

آخری اور بنیادی بات یہ کہ یہ سب تو اسباب کے درجے میں ہے، جس کا ہمیں حکم ہے، مگر اصل حفاظت اللہ رب العزت ہی کرتے ہیں!اس لیے آخر میں کچھ مسنون دعائیں اور کچھ بزرگوں کے تجربات اس ضمن میں پیش خدمت ہیں، ان اعمال کو خود بھی یاد کیجیے اور خصوصاً خواتین اور بچوں کو ضرور یاد کروا کر ان کو عمل پر مضبوط کیجیے، ان شاء اللہ غیب سے حفاظت ہو گی اور خواتین بچے ہر برے ارادے والے کی بری نگاہ سے مستور ہو جائیں گے ان شاء4 اللہ! صبح شام کی دعاؤں کے علاوہ، گھر سے باہر نکلنے کی دعا بچے کو اس دعا کا اہتمام کروائیے۔

اَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامََّۃِ مِنْ کُلِِّ شَیطَانٍٍ وَّھَامَّۃٍ وَمِن کُلِِّ عَینٍٍ لَّامَّۃٍ (ترمذی)
’’میں پناہ پکڑتا ہوں اللہ تعالیٰ کے پورے کلموں کے ساتھ ہر شیطان کے اثرسے اور ڈسنے والے ہر زہریلے کیڑے سے اور لگنے والی ہر نظر بد سے۔‘‘

یہ دعا نظربد،شیاطین اور موذی مخلوق سے حفاظت میں عجیب تاثیر رکھتی ہے، نیت کے بقدر اس میں ہر طرح کی بد نظر" والے سے حفاظت ہو گی، ان شاء اللہ! صبح و شام اس کا ورد بہت مفید ہے۔

حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مشرکین کی آنکھوں سے مستور ہونا چاہتے تو قرآن مجید کی تین آیتیں پڑھ لیتے تھے۔ اس کے اثر سے کفار آپ کو نہ دیکھ سکتے تھے۔ وہ تین آیتیں یہ ہیں۔ ایک سورہ کہف میں، دوسری سورہ نحل میں اور تیسری سورہ جاثیہ میں۔‘‘ (قرطبی)

اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰیٰ قُلُوبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوہُ وَفِی اٰذَانِھِمْ وَقْرًا۔ (سورۃ الکہف)
اُولَئِکَ الَّذِینَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَی قُلُوبِِِھِِمْ وَسَمْعِھِمْ وَاََبْصَارِھِمْ۔ (سورہ نحل)
اَفَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ھَوٰاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلمٍٍ وَخَتَمَ عَلٰی سَمْعِہ وَقَلْبِِہ وَجَعَلَ عَلٰی بَصَرِہ غِشَاوَۃً۔ (سورۃ الجاثیہ)

حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ میں نے ملک شام کے ایک شخص سے بیان کیا، اس کو کسی ضرورت سے رومیوں کے ملک میں جانا تھا، وہاں گیا اور ایک زمانہ تک وہاں مقیم رہا، پھر رومی کفار نے اس کو ستایا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلا، ان لوگوں نے اس کا تعاقب کیا، اس شخص کو وہ روایت یاد آگئی اور مذکورہ تین آیتیں پڑھیں، قدرت نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈالا کہ جس راستے پر یہ چل رہے تھے، اسی راستے پر دشمن گزر رہے تھے مگر وہ ان کو نہ دیکھ سکتے تھے۔(قرطبی)

امام ثعلبی رحمہ اللہ کہتے ہیں حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے جو روایت نقل کی گئی ہے میں نے رَے کے رہنے والے ایک شخص کو بتلائی، اتفاق سے دیلم کے کفار نے اس کو گرفتار کرلیا۔ کچھ عرصہ ان کی قید میں رہا، پھر ایک روز موقع پاکر بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ لوگ اس کے تعاقب میں نکلے مگر اس شخص نے بھی یہ تین آیتیں پڑھ لیں، اس کا یہ اثر ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی آنکھوں پر ایسا پردہ ڈال دیا کہ وہ اس کو نہ دیکھ سکتے تھے، حالاں کہ ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور ان کے کپڑے ان کے کپڑوں سے چھو جاتے تھے۔ (قرطبی)

امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان تینوں آیات کے ساتھ اگر وہ آیات سورہ یٰسین کی بھی ملالی جائیں جن کو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے وقت پڑھا تھا تو نور علیٰ نور ہیں۔ اس رات جبکہ مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا محاصرہ کر رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں اور ان کے درمیان سے نکلتے ہوئے چلے گئے بلکہ ان کے سروں پر مٹی ڈالتے ہوئے گئے۔ ان میں سے کسی کو خبر تک نہیں ہوئی، وہ سورہ یٰسین کی پہلی نو آیات ہیں۔

اس لیے ان تینوں آیات کے ساتھ سورہ یٰسین کی ابتدائی نو آیات خصوصاً خواتین اور بچے پڑھ لیا کیجیے، ان شاء اللہ ہر برے ارادے والے کی نگاہوں سے حفاظت رہے گی، زیادہ چھوٹے بچوں کی طرف سے خود ہی پڑھ کر ان پر دم کر دیجیے۔ بلاشبہ آج کا دور ہمارے بچوں کے لیے بہت خطرناک ہے، روز کوئی نہ کوئی دل دہلا دینے والی خبر سننے کو ملتی ہے، اس عمل کی برکت سیاللہ تعالیٰ ہر برے ارادے والے کی نگاہ سے مستور رہیں گے ان شاء اللہ!

مشاہدات و تاثرات

(ستمبر ۲۰۱۵ء)

تلاش

Flag Counter