جنرل حمید گل مرحوم آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی تاریخی جدوجہد اور تگ و دو کے اثرات ایک عرصہ تک تاریخ کے صفحات پر جگمگاتے رہیں گے۔ ان کا تعلق پاک فوج سے تھا اور ان کا نام جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اور جنرل اختر عبد الرحمن مرحوم کے ساتھ جہادِ افغانستان کے منصوبہ سازوں میں ذکر کیا جاتا ہے۔ وہ جہاد افغانستان جس نے تاریخ کا رخ موٹ دیا اور جس کے مثبت و منفی دونوں قسم کے اثرات سے پوری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے یا انہیں بھگت رہی ہے۔
جنرل حمید گل مرحوم کا اس جنگ میں کیا کردار تھا؟ اس کے اظہار کا ایک پہلو یہ ہے کہ جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی جس کی وجہ سے جرمنی متحد ہوا اور برلن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی دیوار توڑ دی گئی، تو زندہ دل جرمنوں نے اس کا ایک چھوٹا سا پتھر جنرل حمید گل مرحوم کو بھی اس نوٹ کے ساتھ بھجوایا کہ یہ دیوار چونکہ آپ کی کوششوں سے ٹوٹی ہے اس لیے یادگار اور اعتراف کے طور پر اس ٹوٹی ہوئی دیوار کا ایک پتھر آپ کو بھجوایا جا رہا ہے۔
جہاد افغانستان کی برکت سے نہ صرف جرمنی متحد ہوا بلکہ مشرقی یورپ کو کمیونزم کے تسلط سے نجات ملی، وسی ایشیا کی ریاستیں آزاد ہوئیں اور بالٹیک ریاستوں نے بھی آزادی کا ماحول پایا۔ مگر اسے تاریخ کی ستم ظریفی کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ جہاد افغانستان میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے افغان مجاہدین اپنے ہی ملک میں ایک بار پھر غیر ملکی جارحیت سے نبرد آزما ہیں اور ان کی مدد کے لیے دنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین اپنے اپنے ملکوں میں ’’دہشت گرد‘‘ کا خطاب پا کر خود اپنی حکومتوں کے جبر کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔
جنرل حمید گل مرحوم کو جہاد افغانستان کے ہیروز میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ اگر صرف اسی اعزاز کو سینے سے لگائے دنیا سے رخصت ہو جاتے تو تاریخ میں ان کا نام زندہ رہنے کے لیے یہ بات کافی تھی۔ مگر ان کا ہدف صرف تاریخ میں اپنے نام کو محفوظ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ خود کو اللہ کا سپاہی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاں نثار، اسلام کا خدمت گزار، ملت اسلامیہ کا غم خوار اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظریاتی کارکن سمجھتے تھے۔ اس لیے زندہ دل جرمنوں سے ’’خراج کا پتھر‘‘ وصول کرنے کے بعد ان کے قدم رکے نہیں بلکہ وہ آگے بڑھتے چلے گئے اور انہوں نے جہاد افغانستان کے نظریاتی مقاصد کے حصول، پاکستان کو ایک صحیح اسلامی ریاست کی شکل دینے اور عالم اسلام کی دینی تحریکات کے دفاع اور انہیں سپورٹ کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا اور اسی راہ میں جدوجہد کرتے ہوئے اپنے اللہ کے حضور جا پہنچے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
انہیں جہاد افغانستان کا منصوبہ ساز کہا جاتا ہے اور اس کے بعد انہیں پاکستان میں اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کا خالق بھی بتایا جاتا ہے جبکہ افغانستان و پاکستان کے حوالہ سے بہت سی تحریکات کے راہ نماؤں میں وہ صف اول میں دیکھے جاتے رہے ہیں۔ ان کے طریق کار، سوچ اور اقدامات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ انہوں نے جو کچھ کیا اسلام کی خاطر کیا، ملت اسلامیہ کا مفاد سمجھ کر کیا اور اسلامی جمہوری پاکستان کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ کیا۔
میں بھی چونکہ اسی راہ کا مسافر ہوں اور اس سفر میں صحرا نوردی کرتے ہوئے مجھے نصف صدی کا عرصہ بیت چکا ہے اس لیے جنرل حمید گل مرحوم کے ساتھ رفاقت، ہم آہنگی اور یگانگت فطری بات ہے اور یہ مختلف دائروں میں مسلسل رہی ہے۔ ملاقاتیں بھی رہی ہیں، مشاورت کا سلسلہ بھی وقفہ وقفہ سے موجود رہا ہے، متعدد تحریکات میں شرکت بھی رہی ہے، اور اہم قومی و دینی مسائل پر مشترکہ موقف کے اظہار کے لیے باہمی تبادلۂ خیالات کے مواقع بھی میسر رہے ہیں۔ جب اکوڑہ خٹک میں افغانستان اور پاکستان کے دفاع کے لیے قومی سطح پر دینی و سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا کنونشن حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی صدارت میں ہوا تھا اور دفاع پاکستان و افغانستان کونسل کی تشکیل عمل میں لائی گئی تھی تو کنونشن کا موقف تحریر کرنے کی ذمہ داری جنرل حمید گل مرحوم اور راقم الحروف کو سونپی گئی تھی۔ ہم دونوں جب اس مقصد کے لیے تنہا ہوئے تو جنرل صاحب نے کہا کہ مولانا ! آپ ہی لکھیں، میں اس پر نظر ثانی کر لوں گا۔ چنانچہ ہم دونوں نے اس طرح اس کنونشن کا اعلامیہ مرتب کیا اور اس کی بنیاد پر ایک نئی قومی کونسل وجود میں آئی۔
جرنل صاحب آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، انہیں اس منصب سے تبدیل کر کے جب ایک ٹیکنیکل قسم کا منصب دیا گیا تو وہ مستعفی ہو گئے۔ مجھے ان کے اس فیصلے سے اتفاق نہیں تھا اس لیے کہ سنیارٹی کی فہرست میں ایک دو ٹرم کے بعد ان کے چیف آف آرمی اسٹاف بننے کا چانس دکھائی دے رہا تھا۔ مگر وہ استعفیٰ دے چکے تھے اس لیے اب کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیونکہ تحریک انصاف ابھی وجود میں نہیں آئی تھی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ان کا کوئی مثبت تعلق نہیں تھا، جبکہ ان کے استعفیٰ پر سیاست کی اکاس بیل کا سایہ بھی نہیں تھا۔ اس لیے وہ مستعفی ہوئے تو ہو ہی گئے البتہ بعد میں جب ہمارے خیال کے مطابق اس ’’چانس‘‘ کا مرحلہ گزر گیا تو میں نے ایک ملاقات میں ان سے کہا کہ
’’جنرل صاحب! اب آپ کو اپنے غصے پر غصہ تو آرہا ہوگا۔‘‘
جنرل صاحب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بات کا رخ کسی اور طرف موڑ دیا۔ جرنل صاحب نظریاتی اور فکری دنیا کے بھی جنرل تھے۔ عالمی تاریخ اور بین الاقوامی معاملات کے اتار چڑھاؤ کو سمجھتے تھے، بر وقت بات کہنے کا ذوق رکھتے تھے اور لگی لپٹی رکھے بغیر منہ پر بات کرنے کا حوصلہ بھی ان میں موجود تھا۔ لاہور کے فلیٹی ہوٹل میں ایک سیمینار تھا جس میں جسٹس سید نسیم حسن شاہ مرحوم نے قرآن و سنت کی بالادستی پر بڑی اچھی گفتگو کی۔ راقم الحروف بھی اس میں شریک تھا۔ جسٹس صاحب مرحوم کے بعد جب جنرل حمید گل مرحوم نے گفتگو کی تو جسٹس مرحوم سے مخاطب ہو کر کہا کہ جناب والا! جب آپ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ’’قرارداد مقاصد‘‘ کو دستور کی بالادست دفعہ تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ تحریر فرما رہے تھے تو قرآن و سنت کی بالادستی پر آپ کا یہ عقیدہ کونسے فریزر میں منجمد پڑا تھا جس کا آپ نے آج کے خطاب میں اظہار کیا ہے؟ جنرل حمید گل مرحوم کے اس استفسار پر جسٹس صاحب مرحوم نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیا اور میرے دل نے بے ساختہ دعائیں دینا شروع کر دیں۔
جنرل حمید گل مرحوم کی جدائی سے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی شناخت کے تحفظ اور ’’اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام‘‘ کی جدوجہد کے ایک عظیم جرنیل سے محروم ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں انہیں اعلیٰ مقام سے نوازیں او رپسماندگان کو صبر و حوصلہ کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔