توضیحات

خورشید احمد ندیم

مولانا زاہد الراشدی نے استادِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے بعض نتائجِ فکر اور ’’تکبیر مسلسل‘‘ میں بیان کی گئی کچھ آرا کو اپنے مضامین کا موضوع بنایا ہے جو ایک معاصر روزنامے میں شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے چار اہم مسائل پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے جو ظاہر ہے ہمارے موقف سے مختلف اور اس پر ناقدانہ تبصرہ ہے۔ مولانا نے اپنے اختلاف کا اظہار جس سلیقے کے ساتھ کیا ہے، اس سے ہمارے دل میں ان کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری بات سے لوگ اس سے قبل بھی اختلاف کرتے رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہم اس لہجے کو ترس گئے تھے۔ ہماری یہ خواہش کم ہی پوری ہوئی کہ لوگ علمی آرا کو علمی نظر ہی سے دیکھیں اور اسی حوالے سے ان پر اظہار خیال کریں۔ مولانا نے اس وادی میں قدم رکھا ہے تو ہم ان کے لیے سراپا شکر ہیں۔

مولانا زاہد الراشدی نے اپنے مضامین میں جن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے وہ آج سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان پر قوم کو صحیح راہنمائی میسر آئے۔ ان مسائل پر کوئی رائے قائم کرتے وقت اگر ہم نے ٹھوکر کھائی یا کسی ابہام کا شکار ہوئے تو اس سے ہماری اجتماعی زندگی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ مولانا نے اس سلسلہ مضامین کے آغاز میں ہمارا فکری شجرہ نسب بھی بیان کیا ہے، اس میں دو باتیں وضاحت کی طلب گار ہیں۔ آج کا کالم انہی کی توضیح کے لیے خاص ہے، جہاں تک اصل مسائل کا تعلق ہے تو وہ اگلے کالموں میں ایک ترتیب سے زیربحث آئیں گے۔

پہلی بات خبرِ واحد کی حجیت کے بارے میں ہے، اس باب میں محدثین اور فقہا کا اختلاف معروف ہے، اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ہنوز یہ بحث زندہ ہے۔ ہمارے مکتبہ فکر کے نزدیک فہمِ دین کے جو اصول ہیں وہ اگر پیشِ نظر ہوں تو یہ بحث قطعاً غیر اہم ہو جاتی ہے۔ محترم جاوید صاحب نے ’’اصول و مبادی‘‘ کے عنوان سے انہیں بیان کر دیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:

’’سنت سے مراد دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے‘‘۔یہ سنت چالیس امور پر مشتمل ہے۔ ’’اس کے بارے میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں۔ وہ جس طرح صحابہؓ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماعی اور عملی تواتر سے ملی ہے، اور ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے‘‘۔ (اشراق ۱۹۹۸ء، ۱۹۹۹ء)

سنت کی یہ تعریف اگر سامنے ہو تو نہ صرف اخبار آحاد کی حجیت کا سوال باقی نہیں رہتا بلکہ سنت کے ماخذ دین ہونے پر جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔

دوسری بات کا تعلق رجم کے بارے میں مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے سے ہے۔ زنا کی سزا کے حوالے سے مولانا کا موقف یہ ہے کہ اس کے نفاذ میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ کی تمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔ قرآن مجید جب اس جرم کے لیے سو کوڑوں کی سزا بیان کرتا ہے تو وہ مجرم کی ازدواجی حیثیت کو زیربحث نہیں لاتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مولانا کی یہ رائے جمہور کے موقف سے مختلف ہے لیکن وہ کبھی اس بات کے علمبردار نہیں رہے کہ ریاست کا قانون ان کی رائے پر مبنی ہو۔

اس باب میں ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک مسلمان ریاست میں پبلک لا اسی رائے کی بنیاد پر بنایا جائے جس پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اعتماد ہو۔ اگر پاکستان میں لوگوں کی اکثریت ان علما کی رائے سے اتفاق کرتی ہے جو ہم سے مختلف الرائے ہیں تو ہمارا کہنا یہ ہے کہ انہی کی رائے کو قانون سازی کے وقت پیشِ نظر رکھا جائے۔ اس کے ساتھ ہم اس بات کے بھی قائل ہیں کہ اہلِ علم کو بہرحال یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ علمی طور پر اگر کوئی مختلف رائے رکھتے ہیں تو اسے آزادی سے بیان بھی کر سکیں۔ اگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگوں کی اکثریت ان کی رائے پر اعتماد کرنے لگتی ہے تو پھر خودبخود اسے یہ حیثیت حاصل ہو جائے گی کہ اسے ریاست کا قانون بنا دیا جائے۔

یہ بات واقعاتی طور پر درست نہیں ہے کہ مولانا کبھی وفاقی شرعی عدالت گئے اور انہوں نے رجم کے شرعی حد نہ ہونے پر دلائل فراہم کیے۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ’’تدبر قرآن‘‘ کا وہ حصہ چھپ چکا تھا جس میں مولانا نے اپنی رائے بیان کی ہے۔ عدالت نے اسی سے استفادہ کیا تھا۔ مولانا اصلاحی نہ صرف یہ کہ کسی عدالت میں نہیں گئے بلکہ جاوید صاحب نے تو جسٹس آفتاب حسین سے یہ کہا کہ وہ اپنے فیصلے کی بنیاد اس رائے پر رکھیں جس پر اکثریت اعتماد کرتی ہے۔

ہمارا تو اس بات پر اصرار رہا ہے کہ اہلِ علم کو اپنی رائے دینے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے۔ اس کے نفاذ یا دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ اور اگر کوئی دوسرا ان سے اختلاف کرتا ہے تو اس کا یہ حق تسلیم کرنا چاہیے۔ اس باب میں ہم تو امام مالک کے مقلد ہیں، خلیفہ منصور نے جب ان کے سامنے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ان کی موطا کو ریاست کا قانون بنانا چاہتا ہے تو انہوں نے منصور کی تائید نہیں کی اور کہا کہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے وہ جس رائے کو چاہیں گے اختیار کر لیں گے۔

یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں میں جو فقہی مکاتبِ فکر مقبول ہوئے ان کے فروغ میں اقتدار کا ایک حصہ رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی درست ہے کہ جب معاشرہ کسی صاحبِ علم پر اعتماد کرنے لگتا ہے تو پھر صاحبانِ اقتدار کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس کی رائے کے برخلاف فیصلہ دیں۔ مامون الرشید کے وزیر فضل بن سبل کو کسی نے یہ مشورہ دیا کہ عدالتوں کو اس بات سے روک دیا جائے کہ وہ ابوحنیفہ کی رائے کی بنیاد پر فتوٰی دیں۔ اس نے مشاورت کے لیے اہلِ علم و دانش کو جمع کیا، سب کی رائے یہ تھی کہ اس اقدام کا نہ صرف یہ کہ کوئی فائدہ نہیں بلکہ اس سے نقصان کا اندیشہ ہے۔ لوگ عباسی حکمران پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کے اقتدار کا سلامت رہنا مشکل ہو جائے گا۔ لوگوں نے فضل سے یہ بھی کہا کہ جس نے آپ کو یہ رائے دی وہ کوئی احمق شخص ہے۔ ہمارے نزدیک کوئی صاحبِ علم آج بھی اگر امام ابوحنیفہ کے طرز عمل کی تقلید کرے تو ایسے ہی نتائج نکل سکتے ہیں۔

ہمارا اصل مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہم اپنی بات بزور دوسروں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اور اس بات کو اپنے نامہ اعمال میں جلی حروف سے درج کروانا چاہتے ہیں کہ ہم نے فلاں فلاں فتنے کے خلاف جہاد کیا۔ ہم اختلاف کرنے والے کو پہلے دائرہ اسلام اور پھر دائرہ حیات سے خارج کرنے کے لیے کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ مسجدوں پر قبضے کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے اور دوسروں کے لیے جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ جتنی محنت ہم لوگوں کو کافر قرار دینے کے لیے کرتے ہیں اگر اتنی ہی مشقت ہم انہیں مسلمان بنانے کے لیے اٹھائیں تو دنیا کا منظر بہت بدل جائے۔

مولانا زاہد الراشدی نے اہم مسائل کو سنجیدہ بحث کا موضوع بنایا ہے، اللہ کرے کہ ہم بحیثیت قوم ان مسائل پر زیادہ سے زیادہ اتفاقِ رائے پیدا کر سکیں۔

علما اور سیاست

کیا علما کو عملی سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت دو باتیں پیش نظر رہنا چاہییں۔ ایک تو یہ ہے کہ یہ شریعت کا نہیں، حکمت وتدبر کا معاملہ ہے۔ یہ جائز اور ناجائز کی بحث نہیں ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ شریعت نے علما کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا ہے یا انہیں اس کے لیے حکم دیا ہے۔ جب ہم اس سوال کو موضوع بناتے ہیں تو ہمارے پیش نظر محض یہ ہے کہ اس سے دین اور علما کو کوئی فائدہ پہنچا ہے یا نقصان؟ دوسری بات یہ کہ عملی سیاست سے ہماری مراد اقتدار کی سیاست (Power Politics) ہے یعنی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا یا کسی کے عزل ونصب کے لیے کوئی عملی کردار ادا کرنا۔

قرآن مجید کی راہنمائی یہ ہے کہ ایک عالم دین کا اصل کام انذار کرنا ہے۔ (توبہ :۱۲۲) انذار یہ ہے کہ لوگوں کو خبردار کیا جائے کہ انہیں ایک روز اپنے پروردگار کے حضور میں حاضر ہونا ہے اور ان اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے جو وہ اس دنیا میں سرانجام دیں گے۔ اس جواب دہی کا تعلق اس کردار کے ساتھ ہے جو وہ اس دنیا میں ادا کریں گے۔ اگر کوئی حکمران ہے تو اس کی جواب دہی کی نوعیت اور ہے، اور اگر ایک عامی ہے تو اس کے لیے اور۔ اسی انذار کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ علما دین کو اس طرح بیان کریں جیسے کہ وہ ہے۔ اگر دین کو کوئی فکری چیلنج درپیش ہے تو وہ دین کا مقدمہ لڑیں۔ اگر مسلمان معاشرے میں کوئی علمی یا عملی خرابی در آئی ہے تو وہ اسے اصل دین کی طرف بلائیں۔ اس معاملے میں ان کی حیثیت ایک داروغہ کی نہیں ہے۔ انہیں دین کا ابلاغ کرنا اور اسے دوسروں تک پہنچا دینا ہے۔ اس کی ایک صورت ایسے مبلغین کی تیاری ہے جو اس کام کو لے کر معاشرے میں پھیل جائیں اور ایسے ادارے اور دار العلوم آباد کرنا ہے جہاں دین کے جید عالم تیار ہوں۔ اس انذار کی ایک شکل عامۃ الناس کا تزکیہ بھی ہے۔ یہ تزکیہ علم کا بھی ہوگا اور عمل کا بھی۔ یہ وہ کام ہے جو ہمارے صوفیا کرتے رہے ہیں۔ اس وقت تصوف ایک فلسفہ حیات کے طور پر زیر بحث نہیں ہے۔ میں جس پہلو کی تحسین کر رہا ہوں، وہ صوفیانہ حکمت عملی ہے جو خانقاہوں اور صوفیا کے حلقوں میں اختیار کی گئی ہے۔

تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ علما نے جب یہ کام کیا، معاشرے پر اس کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے۔ ان اثرات کا دائرہ اقتدار کے ایوانوں سے لے کر عامۃ الناس کے حجروں تک پھیلا ہوا ہے۔ مختلف تذکروں میں ہمیں ایسے بہت سے واقعات ملتے ہیں جب حکمران، علما کے حجروں میں حاضر ہیں یا علما ارباب اقتدار سے بے نیازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ علما کو اگر معاشرے میں یہ مقام حاصل تھا تو اس کا سبب یہ تھا کہ وہ انذار کے منصب پر فائز تھے۔ انہوں نے خود کو اس کام کے لیے مخصوص کر لیا تھا کہ وہ دین بیان کریں گے اور معاشرے کے مختلف طبقات کو ان کی دینی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں گے۔ یہ لوگ کبھی اقتدار کی کشمکش میں فریق نہیں بنے۔ معاشرے پر ان کے اثرات کا یہ عالم تھا کہ حکمران ان کی رائے کے احترام پر مجبور تھے۔ پھر یہ وقت بھی آ گیا کہ ایسے لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے جن پر کسی صاحب علم کا خاص اثر تھا۔ اس نے برسر اقتدار آ کر ان کی رائے کو ریاست کا قانون بنا دیا۔ ہارون الرشید نے قاضی ابو یوسف کو قاضی القضاۃ بنا دیا۔ محکمہ قضا جب ان کے ہاتھ آیا تو اسلامی ریاست میں اسی کو قضا کے عہدے پر فائز کیا جاتا جس کی سفارش قاضی ابو یوسف کرتے تھے۔ افریقہ میں معز بن باولیس کو والی بنایا گیا تو امام مالک کی فقہ کو وہاں غلبہ حاصل ہو گیا۔ اندلس میں حکم بن ہشام کے دور میں فقہ مالکی کو سرکاری حیثیت مل گئی۔ مصر میں صلاح الدین یوسف بن ایوب جب عبید کو شکست دے کر حکمران بنے تو فقہ شافعی کو غلبہ ملا کیونکہ بنو ایوب شوافع تھے۔ اب کسی جگہ ایسا نہیں ہوا کہ وہاں فقہ حنفی کے لیے مہم چلائی گئی ہو یا حنبلی مسلک کے نفاذ کا مطالبہ لے کر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں۔

ہم جن صاحبان عزیمت کا ذکر کرتے ہیں، اور اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ تذکرہ ہمارے ایمان کی تقویت کا باعث بنتا ہے، ان کا معاملہ یہ تھا کہ وہ اقتدار کی کشمکش میں کبھی فریق نہیں تھے۔ انہوں نے حکمرانوں سے اگر اختلاف کیا تو اس موقع پر جب انہوں نے دین میں مداخلت کی یا شریعت کے کسی حکم کو تبدیل کرنا چاہا۔ عباسی حکمرانوں نے جب یہ حکم جاری کیا کہ جو ان کی بیعت سے نکلے تو اس کی بیوی خود بخود اس پر حرام ہو جائے گی تو یہ فرمان دین میں مداخلت تھا چنانچہ امام مالکؒ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی کہ اس جبری طلاق کی کوئی حقیقت نہیں۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اگر حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی تو اس بات پر کہ وہ ریاست کی قوت کو بروئے کارلا کر یہ چاہتے تھے کہ قرآن مجید کو مخلوق مانا جائے۔ علما اور فقہاے امت کا یہ کام اپنی حقیقت میں انذار ہے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ اگر کہیں دین کے کسی حکم کو تبدیل کیا جا رہا ہے تو وہ لوگوں کے سامنے دین کا صحیح تصور پیش کریں۔ یہ کوئی سیاسی کردار نہیں ہے۔ ان لوگو ں نے حکمرانوں کے ناپسندیدہ کاموں پر انہیں ٹوکا لیکن نہ خود کو ان کی اطاعت سے آزاد کیا نہ دوسرے لوگوں کو اس کے لیے کہا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان جلیل القدر لوگوں کو اس راہ میں بہت سی مشکلات برداشت کرنا پڑیں لیکن اس کے بعد ارباب اقتدار کے لیے یہ آسان نہیں رہا کہ وہ اپنی رائے پر اصرار کریں۔

آج بھی اگر کوئی ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کا دفاع کریں اور اس راہ میں کوئی مشقت اٹھانا پڑتی ہے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کریں۔ صبر واستقامت ایسی چیزیں نہیں ہیں جو رائیگاں چلی جائیں۔ جو لوگ ان خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، معاشرے پر ان کے بے پناہ اثرات ہوتے ہیں۔ آج کے جمہوری دور میں تو حکمرانوں کے لیے مزید مشکل ہو جائے اگر وہ ایسے لوگوں کی مخالفت کریں۔

اسی بنیاد پر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ علما کے شایان شان یہی ہے کہ وہ اقتدار کی حریصانہ کشمکش سے دور رہ کر منصب اعلیٰ کو آباد کریں اور دین کی حفاظت کے ساتھ لوگوں کا تزکیہ نفس کریں۔ اس سے دین کو فائدہ پہنچے گا اور ان کے احترام میں بھی اضافہ ہوگا۔ میں تو یہ عرض کرتا ہوں کہ اس سے ان کا سیاسی اثر ورسوخ بھی کئی گنا بڑھ جائے گا۔ میں پاکستان کے کئی ایسے علما وصوفیا کے نام گنوا سکتا ہوں جو اپنی خانقاہوں سے کبھی نہیں نکلے لیکن ان کے معاشرتی اثرات کا یہ عالم ہے کہ ہر عام انتخابات کے موقع پر اہل سیاست ان کے دروازے پر حاضر ہوتے ہیں اور ان سے تائید کی بھیک مانگتے ہیں۔ وہ جس کے حق میں فیصلہ دے دیں، ان کے حلقہ اثر میں اس کی کام یابی یقینی ہو جاتی ہے۔

یہ صحیح ہے کہ تاریخ میں ہمیں بعض ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو اقتدار کی کشمکش میں فریق تھے۔ پرانے دور میں اس کی نوعیت خروج کی تھی۔ امام ابن تیمیہؒ نے ’’منہاج السنۃ‘‘ میں ان تمام بغاوتوں کا جائزہ لے کر یہ بتایا ہے کہ ایسی کوئی کوشش نہ صرف یہ کہ کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس سے امت میں انتشار اور افتراق کا ایسا دروازہ کھلا کہ پھر کبھی بند نہیں ہو سکا۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگرچہ صاحبان اقتدار کی تبدیلی کے انداز بدل گئے ہیں لیکن علما کی عملی سیاست میں شرکت کے نتائج پر کوئی فرق نہیں آیا۔ پاکستان کو اگر ہم اپنی توجہ کا مرکز بنائیں تو علما کی سیاست کا دین کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔

پاکستانی سیاست میں علما کا کردار

پاکستان میں علما عملی سیاست میں بالعموم دو طرح سے شریک رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہوں نے بعض مذہبی ودینی مسائل پر تحریکیں اٹھائیں اور مطالبات منوانے کے لیے اپنی سیاسی قوت کو بروئے کار لائے۔ دوسری صورت میں یہ دھماکہ انہوں نے خود کو قوم کے سامنے متبادل قیادت کے طور پر پیش کر کے کیا اور مروجہ نظام کے تحت اقتدار تک پہنچنے کی سعی کی۔ ان دونوں صورتوں کے جو نتائج نکلے، میں انہیں قدرے تفصیل کے ساتھ زیر بحث لا رہا ہوں۔

تحریکیں اٹھا کر علما نے بعض مذہبی معاملات میں حکومت وقت سے قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ء میں دستور اسلامی کے لیے تحریک اٹھی، ۱۹۵۳ء اور پھر ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کو اسلامی بنانے کے لیے آواز اٹھائی گئی۔ ان مخصوص مسائل کے علاوہ بھی ہمارے علما ہر حکومت سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کرے۔ گزشتہ دنوں میں ان کی طرف سے اسلام آباد پر یلغار کا اعلان تھا۔ یہ اقدام بھی اس مطالبہ پر مبنی تھا کہ حکومت فوری طور پر نفاذ اسلام کا اعلان کرے۔ علما کی یہ مہم بڑی حد تک کام یاب رہی۔ قانون سازی کے باب میں ان کے مطالبات بالعموم تسلیم کر لیے گئے۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ قانون کی سطح پر پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے میں اب کوئی امر مانع نہیں ہے۔ یہ البتہ ایک دوسری بحث ہے کہ محض قانون سازی سے کیا کوئی ریاست اسلامی بن سکتی ہے؟

اب ہم دوسری صورت کی طرف آتے ہیں۔ اس ملک میں اقتدار تک پہنچنے کے دو راستے ہیں: ایک آئینی، دوسرا غیر آئینی۔ آئینی طور پر برسراقتدار آنے کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ ہماری مذہبی جماعتوں نے انتخابات میں دو طرح سے حصہ لیا۔ انفرادی حیثیت میں اور سیاسی اتحادوں میں شامل ہو کر۔ انفرادی سطح پر انتخابات میں حصہ لے کر علما نہ صرف کوئی قابل ذکر کام یابی حاصل نہ کر سکے بلکہ ان کی حمایت میں بتدریج کمی آئی۔ ۱۹۷۰ء میں انہیں پندرہ فیصد رائے دہندگان کا اعتماد حاصل تھا تو ۱۹۹۷ء تک پہنچتے پہنچتے اس میں بہت کمی آگئی۔ تاہم اتحادوں میں شامل ہو کر وہ پارلیمنٹ تک پہنچے اور بعض اوقات صوبائی اور قومی سطح پر شریک اقتدار بھی ہوئے۔ ظاہر ہے کہ یہ شرکت اسی وقت ممکن ہوئی جب انہوں نے کسی بڑی سیاسی جماعت کا ہاتھ تھاما۔

یہ تو علما کی سیاست کے براہ راست نتائج ہیں۔ اب ہم ان نتائج کی طرف آتے ہیں جو بالواسطہ سامنے آئے۔

پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ اقتدار کی حریصانہ کشمکش میں شریک ہو کر وہ منصب دعوت سے معزول ہو گئے۔ اب وہ معاشرے میں دین کے داعی کا کردار ادا نہیں کر سکتے۔ اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ دعوت بے غرض بناتی ہے اور سیاست غرض مند۔ جب آپ کسی کو دین کی دعوت دیتے ہیں تو جواباً کسی اجر کا مطالبہ نہیں کرتے۔ اس سے آپ کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوتا ہے اور آپ اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ آپ کی دعوت کے کیا اثرات مدعو پر پڑیں گے، اس کو آپ کی بات پسند آئے گی یا نہیں۔ اس کے بالمقابل جب آپ سیاست میں ہیں تو لوگوں سے ووٹ کے لیے درخواست کرتے ہیں۔ یہ ایک ضرورت مند کا کردار ہے۔ آپ کو حق بات کہنے سے زیادہ دلچسپی اس امر میں ہے کہ عوام کے مطالبات کیا ہیں؟ چنانچہ کسی سیاسی ضرورت کے تحت آپ یہ ثابت کرتے ہیں کہ آپ ہی وہ موزوں ترین شخص ہیں جو ان کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔ جو یہ بات باور کرانے میں کام یاب ہو جاتا ہے، وہ جیت جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیاست کی حریصانہ کشمکش میں جب آپ فریق بنتے ہیں تو پھر وہ گروہ آپ کا مخاطب نہیں رہتا جو آپ کا مخالف ہے۔ اس طرح آپ کی دعوت اس طبقے تک نہیں پہنچ سکتی اور یہ بات حکمت تبلیغ کے خلاف ہے لہٰذا علما کی سیاست کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ مسند دعوت خالی ہو گیا۔

دوسرے نتیجے کا تعلق مذہبی جماعتوں کی ہیئت ترکیبی سے ہے۔ ہمارے ہاں مذہبی جماعتیں، جماعت اسلامی کے استثنا کے ساتھ، فرقہ وارانہ بنیاد پر قائم ہیں۔ ہر مسلک کے علما نے اپنی سیاسی جماعت بنا رکھی ہے۔ سیاست کے مبادیات سے واقف ایک شخص بھی یہ جانتا ہے کہ جو جماعت کسی خاص مذہبی فکر پر قائم ہو، وہ کبھی قومی جماعت نہیں بن سکتی۔ اس کے ساتھ ان مذہبی عناصر کے مفاد کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہ تقسیم باقی رہے کیونکہ اس صورت میں انہیں ایک پریشر گروپ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور پھر وہ کسی بڑی سیاسی جماعت سے معاملہ کر کے سینٹ یا اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح سیاسی منظر پر اپنی موجودگی کو یقینی بناتے ہیں۔ اس سے کسی فرد واحد یا چند افراد کو تو دنیاوی اعتبار سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن قوم میں مسلکی تقسیم مزید پختہ ہو جاتی ہے۔ چونکہ ان عناصر کے پیش نظر شخصی مفاد ہوتا ہے اس لیے ایک لازمی نتیجے کے طور پر شخصیات کا تصادم (Personality clash) جنم لیتا ہے اور یہ جماعتیں مزید تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرتی ہیں۔ آج اس ملک میں کوئی مذہبی جماعت ایسی نہیں جو دو یا دو سے زیادہ حصوں میں منقسم نہ ہو۔ گویا اس مذہبی سیاست کا دوسرا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ فرقہ وارانہ گروہ بندی مضبوط تر ہو گئی۔

تیسرا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست میں مسلسل ناکامیوں نے ان لوگوں کو مایوسی (Frustration) کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیا۔ چنانچہ اب وہ برملا یہ کہنے لگے ہیں کہ انتخابی سیاست سے کام یابی کا کوئی امکان نہیں اس لیے ہمیں اب کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنا ہوگا کیونکہ آئین کے تحت تبدیلی کا واحد راستہ انتخابات ہیں۔ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد کے قائل ہیں۔

چوتھا نتیجہ یہ نکلا کہ عملی سیاست میں شریک بعض علما کے دامن پر جب دنیاوی آلودگیوں کے نشانات کا تاثر ابھرا تو اس سے علما کی شہرت کو بالعموم بہت نقصان پہنچا۔ میرے لیے یہ کہنا ممکن نہیں کہ اس تاثر میں صداقت کا تناسب کیا ہے لیکن اس بات سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ یہ تاثر پیدا ہی تب ہوا جب علما عملی سیاست میں الجھے۔ یہ امر واقعہ ہے کہ دور جدید میں علما کا وقار جتنا مجروح ہوا ہے، شاید ہی کسی دوسرے طبقے کا ہوا ہو۔ دنیا داروں کے ساتھ جب انہوں نے معاملات کیے تو علما کو ان کی سطح پر اترنا پڑا۔

میرے نزدیک ان نتائج کی فہرست طویل ہو سکتی ہے لیکن اگر محض ان ہی کو پیش نظر رکھا جائے تو یہی رائے بنتی ہے کہ عملی سیاست دین اور علما دونوں کے لیے مفید ثابت نہیں ہوئی۔ علما کی عملی سیاست میں شرکت کا واحد فائدہ یہ ہوا کہ یہ ملک آئینی اور دستوری طور پر اسلامی بن گیا۔ اس کے علاوہ اس شرکت کے تمام نتائج منفی رہے۔ اب جہاں تک اس واحد فائدے کا تعلق ہے تو علما اگر اپنے منصب انذار پر جلوہ افروز رہتے اور حکمرانوں کو اس جانب متوجہ کرتے کہ اگر کسی خطے میں مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہو جائے تو وہ شرعاً اس کے پابند ہیں کہ وہاں اللہ کے قانون کی حکمرانی ہو تو بھی یہ مقصد حاصل ہو جاتا۔ یہ قوم مزاجاً بھی ریاست کے سیکولر تشخص کو قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور اس کے ساتھ اگر علما کا یہ دباؤ بھی ہوتا تو کوئی حکومت یہ جرات نہ کر سکتی کہ وہ پاکستان کو دستوری طور پر سیکولر بنائے۔ پھر اس بات سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ دستور کو اسلامی بنانے اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوانے میں بنیادی کردار ایک ایسے عالم دین، مولانا ظفر احمد انصاری مرحوم کا تھا جو عملی سیاست سے دور رہنے والے تھے۔

اس تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں ہوگا کہ اس سے مقصود دین وسیاست کی علیحدگی کی وکالت ہے۔ یہاں محض یہ بات کہی جا رہی ہے کہ علما کا کام سیاست نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو اپنی افتاد طبع کے اعتبار سے سیاست کا رجحان رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو اسلامی ریاست ہونا چاہیے اور اس میں بھی دو آرا نہیں کہ اس کے لیے جدوجہد ہونی چاہیے لیکن ہمارے نزدیک یہ کام وہ لوگ کریں جن کے اندر اس کے لیے فطری داعیہ موجود ہو۔ علما کا منصب یہ نہیں کہ وہ سیاست دان بنیں۔ ان کاکام یہ ہے کہ وہ سیاست دانوں کو مسلمان بنائیں۔ اس ملک میں تنہا مولانا مودودیؒ کے عالمانہ کام کا یہ اثر ہے کہ اہل صحافت کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوئی جس کی تمام صحافیانہ سرگرمیوں کا محور ومرکز یہ ہے کہ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست ہونا چاہیے۔ اگر مولانا سیاست کی حریفانہ کشمکش کو بھی اسی طرح متاثر کرتے، ذرا غور کیجیے اگر ہمارے درمیان ایسے علما موجود ہوتے جن کی علمی وجاہت سے اس ملک کا رجحان ساز طبقہ یعنی اہل سیاست، فوجی قیادت، بیورو کریسی مرعوب ہوتے تو اس ملک کا نقشہ کیا ہوتا؟ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر علما اپنی ذمہ داری بطریق احسن ادا کرتے تو آج ہمیں حکمرانوں سے نفاذ اسلام کی بھیک نہ مانگنا پڑتی۔

آراء و افکار

(مئی و جون ۲۰۰۱ء)

مئی و جون ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۵ و ۶

اہلِ علم سے ایک گزارش
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حدیثِ رسولؐ پڑھنے اور پڑھانے کے آداب
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

قرآنِ کریم اور عربی زبان
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

دینی مدارس اور موجودہ حکومت
ڈاکٹر محمد امجد تھانوی

غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

توضیحات
خورشید احمد ندیم

غامدی صاحب اور خبرِ واحد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علماء اور سیاست
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
معز امجد

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجھے ان باتوں سے اتفاق نہیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کے فرمودات کا جائزہ
معز امجد

امام ابن تیمیہ، الجزائر کی جنگِ آزادی، اور جہادِ افغانستان
ڈاکٹر محمد فاروق خان

معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان شریعت کونسل کی مجلسِ شورٰی کے فیصلے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

مسلمہ شخصیتوں کی آراء
مولانا محمد تقی امینی

تلاش

Flag Counter