دینی مدارس اور موجودہ حکومت

ڈاکٹر محمد امجد تھانوی

ماضی میں کئی حکومتوں نے دینی مدارس کے خلاف کارروائی کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ اس میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکیں کہ پاکستان کے دینی حلقوں نے ان کی اس کوشش پر شدید تنقید کر کے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی طرح اب موجودہ حکومت امریکی مطالبے پر اور این جی اوز کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ملک میں دینی مدارس کے خلاف اور جہادی تحریکوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

اس سلسلے میں کابینہ کے ارکان اور بارہ علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کا مقصد مدارس کے طریقۂ تعلیم میں تبدیلی لانا ہے جو کہ ایک طویل عرصے سے درسِ نظامی کے نام سے کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے چند امریکی سینیٹروں نے پاکستان کی حکومت کے اعلیٰ حکام سے جب ملاقات کی تو انہوں نے دینی مدارس اور مساجد کا ذکر بھی کیا اور اس سلسلے میں انتہاپسندی کا ذکر کرتے ہوئے اپنے خوف کا اظہار کیا، لیکن حکومت کے ایک معزز عہدیدار نے

  • انہیں یقین دہانی کرائی کہ اسلام صبر، برداشت، رواداری، تحمل اور عالمگیر اقدار کی ترویج کا درس دیتا ہے اور ہمارے دینی مدارس ان کے امین ہیں۔
  • اور یہ بھی کہا کہ مدارس اور مساجد ہمارے معاشرے اور ثقافت کا مرکز ہیں۔
  • انہوں نے امریکی وفد کو یہ بھی بتایا کہ افغان جنگ کے دوران، جو روس اور افغانستان کے درمیان ہوئی، مجاہدین کافی مضبوط ہو چکے ہیں اور اس کے بعد حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔ اور یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ہم ان کو سدھار دیں گے جس میں وقت لگے گا۔

جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت دینی مدارس کے سلسلے میں اپنا لائحہ عمل بنائے گی اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر تعلیم اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کو یہ ٹاسک دے دیا گیا ہے کہ وہ بھی ملک کے اندر اپنے لائحہ عمل کے مطابق دارالعلوم قائم کریں جہاں دینی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم بھی دی جائے گی۔ کیونکہ مدارس کو نہ تو ایک دم ختم کیا جا سکتا ہے اور نہ حکومت فوری طور پر ان کا کنٹرول سنبھال سکتی ہے۔ حکومت کی مقرر کردہ کمیٹی نے حکومت کو یہ یقین دلایا ہے کہ دینی مدارس کو ریگولرائز کرنے کا طریقہ کار طے کر لیا جائے گا۔

ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت امریکی خواہش کے مطابق اپنے فیصلوں کو دینی مدارس پر نافذ کرنا چاہتی ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہم مدارس کو ختم تو نہیں کر سکتے لیکن دینی مدارس کو جدید ایجوکیشن سنٹر بنا کر ان کا نصاب تبدیل کر دیں گے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مدارس کی روح کو سلب کر لیا جائے گا۔

حکومت نے یہ تاثر بھی دیا ہے کہ نصاب کی تبدیلی کا مقصد بے روزگاری، تنگ نظری، عصبیت اور جاہلیت پر قابو پانا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دینی مدارس سے فارغ ہونے والے کبھی بے روزگار نہیں رہتے، کبھی حکومت سے ملازمتوں کی بھیک نہیں مانگتے، کبھی نوکریوں سے برطرف نہیں ہوتے، پھر اچانک موجودہ حکومت کو ان کی بے روزگاری کا خیال کیسے آیا؟

موجودہ حکومت اگر ملک کے کالجز اور یونیورسٹیوں کا جائزہ لے تو اس کو معلوم ہو گا کہ تنگ نظری، عصبیت، جاہلیت، ضد اور ہٹ دھرمی کے مراکز ملک کی مختلف جامعات، کالجز اور اسی قسم کے مغربی تعلیمی ادارے ہیں۔ جامعہ کراچی (کراچی یونیورسٹی) سمیت ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبا کے جھگڑوں میں قتل ہونے والوں کی تعداد کئی سو سے زیادہ ہے۔ جبکہ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کسی بھی دینی مدرسے کے کسی طالب علم نے کبھی اپنے مدرسے میں کسی کو قتل نہیں کیا۔ اس وقت جامعہ کراچی، این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور کراچی کے دوسرے کالجز میں خاص طور پر رینجرز اور فوج کے نوجوان پہرہ دے رہے ہیں۔ جبکہ پاکستان کے کسی بھی دینی مدرسے میں تصادم کو روکنے کے لیے فوج، پولیس اور رینجرز کو نہیں بلایا جاتا۔

مغربی تعلیمی اداروں میں ہڑتالیں ہوتی ہیں، اساتذہ کی بے عزتی کی جاتی ہے، حکومت کی گرانٹ کے باوجود ہنگاموں کے باعث جامعات اور کالجز بند کر دیے جاتے ہیں، اس کے مقابلے میں پاکستان کے تمام دینی مدارس خواہ وہ کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں مغربی تعلیمی اداروں سے ہزارہا درجے بہتر چل رہے ہیں۔

ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں دینی مدارس میں طلبا و طالبات کی تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے جس میں تقریباً تین لاکھ طلبا ناظرہ قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اٹھانوے ہزار طلبا قرآن کریم کے حفظ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، چالیس ہزار طلبا تجوید قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ترپن ہزار طلبا قراءت سیکھ رہے ہیں، اور چھبیس ہزار سے زیادہ طلبا درس نظامی کا علم حاصل کر رہے ہیں۔ تقریباً اٹھاون ہزار طالبات بھی اس ملک میں دینی مدارس میں رائج نظام کے مطابق اپنی دینی تعلیمات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی سو طلبا پورے ملک میں فتوے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جس میں مہارت کے بعد وہ دین کے سلسلے میں مسلمانان پاکستان کی رہنمائی کرتے ہیں جس کو پاکستان کی عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمٰی نے بھی تسلیم کیا ہے۔

ہم حکومت سے یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کون سی وجوہ ہیں جن کی بنا پر وفاقی وزیر تعلیم اور وفاقی وزیر برائے مذہبی امور کی نگرانی میں دینی مدارس میں نیا نصاب رائج کرنے اور مدارس کے کلچر کی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سیکولرازم، فاشزم اور مغربی یلغار کا مقابلہ صرف اور صرف دینی مدارس کر سکتے ہیں۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(مئی و جون ۲۰۰۱ء)

مئی و جون ۲۰۰۱ء

جلد ۱۲ ۔ شمارہ ۵ و ۶

اہلِ علم سے ایک گزارش
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حدیثِ رسولؐ پڑھنے اور پڑھانے کے آداب
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

قرآنِ کریم اور عربی زبان
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

دینی مدارس اور موجودہ حکومت
ڈاکٹر محمد امجد تھانوی

غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

توضیحات
خورشید احمد ندیم

غامدی صاحب اور خبرِ واحد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علماء اور سیاست
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کی خدمت میں
معز امجد

علماء کے سیاسی کردار پر جناب غامدی کا موقف
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجھے ان باتوں سے اتفاق نہیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا زاہد الراشدی کے فرمودات کا جائزہ
معز امجد

امام ابن تیمیہ، الجزائر کی جنگِ آزادی، اور جہادِ افغانستان
ڈاکٹر محمد فاروق خان

معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق کے جواب میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان شریعت کونسل کی مجلسِ شورٰی کے فیصلے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تعارف و تبصرہ
ادارہ

مسلمہ شخصیتوں کی آراء
مولانا محمد تقی امینی

تلاش

Flag Counter