مئی و جون ۲۰۰۱ء
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
رمضان المبارک کے بعد ملک کے معروف دانشور جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے تلامذہ کے ساتھ بعض علمی و دینی مسائل پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا تھا اور اس سلسلے میں دونوں طرف سے مضامین مختلف اخبارات و جرائد مثلاً روزنامہ جنگ، روزنامہ اوصاف، روزنامہ پاکستان، ماہنامہ اشراق اور ماہنامہ تجلیاتِ حبیب چکوال میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان مضامین کو الشریعہ کی زیرنظر اشاعت میں اہلِ علم کی خدمت میں یکجا پیش کیا جا رہا ہے۔ اربابِ علم و دانش سے گزارش ہے کہ وہ ان مضامین کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کریں اور اگر کسی حوالے سے اپنی رائے کے اظہار کی ضرورت محسوس کریں تو اس...
― شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
جس مجلس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھی یا بیان کی جا رہی ہو اس مجلس میں شوروغل برپا کرنا سخت بے ادبی ہے کیونکہ آپ کے ارشاد کا احترام بعد از وفات بھی ویسا ہی ضروری ہے جیسا کہ آپ کی حیات میں تھا۔ جلیل القدر محدث اور حضرت امام بخاری کے استاد امام عبد الرحمٰن بن مہدی (المتوفٰی ۱۹۸ھ) کا یہ معمول تھا کہ جب ان کے سامنے حدیث پڑھی یا سنائی جاتی تو وہ لوگوں کو خاموش رہنے کا حکم دیتے اور فرماتے: ’’لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی‘‘ کہ اپنی آوازوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر بلند...
― شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
قرآنِ مجید میں ارشاد ہے کہ اس قرآن کو روح الامین لے کر آئے ہیں ’’بلسان عربی مبین‘‘ (الشعراء ۱۹۵) جس کی زبان عربی ہے جو کہ بالکل واضح اور فصیح زبان ہے۔ اس سے یہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ قرآن پاک اپنے مضامین، مطالب، معانی، دلائل، مسائل، احکام و شواہد کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کہلانے کا مستحق وہی نسخہ ہو گا جو عربی زبان میں ہو گا، کسی دوسری زبان میں ہونے والا ’’ترجمۂ قرآن‘‘ تو کہلا سکتا ہے لیکن قرآن نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’فاقرءوا ما تیسر من القرآن‘‘ (المزمل...
― ڈاکٹر محمد امجد تھانوی
ماضی میں کئی حکومتوں نے دینی مدارس کے خلاف کارروائی کرنے کی کوششیں کیں لیکن وہ اس میں اس لیے کامیاب نہیں ہو سکیں کہ پاکستان کے دینی حلقوں نے ان کی اس کوشش پر شدید تنقید کر کے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔ اسی طرح اب موجودہ حکومت امریکی مطالبے پر اور این جی اوز کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ملک میں دینی مدارس کے خلاف اور جہادی تحریکوں کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں کابینہ کے ارکان اور بارہ علماء پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جس کا مقصد مدارس کے طریقۂ تعلیم میں تبدیلی لانا ہے جو کہ ایک طویل عرصے سے درسِ نظامی کے نام سے کام کر رہے...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست ہیں، صاحب علم ہیں، عربی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وسیع المطالعہ دانشور ہیں، اور قرآن فہمی میں حضرت مولانا حمید الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے مکتب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان دنوں قومی اخبارات میں غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید جناب خورشید احمد ندیم کے بعض مضامین اور بیانات کے حوالے سے ان کے کچھ تفردات سامنے آرہے ہیں جن سے مختلف حلقوں میں الجھن پیدا ہو رہی ہے۔ اور بعض دوستوں نے اس سلسلہ میں ہم سے اظہار رائے کے لیے رابطہ بھی کیا ہے۔ آج بھی ایک قومی اخبار کے لاہور ایڈیشن میں پشاور پریس کلب میں غامدی...
― خورشید احمد ندیم
مولانا زاہد الراشدی نے استادِ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے بعض نتائجِ فکر اور ’’تکبیر مسلسل‘‘ میں بیان کی گئی کچھ آرا کو اپنے مضامین کا موضوع بنایا ہے جو ایک معاصر روزنامے میں شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے چار اہم مسائل پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے جو ظاہر ہے ہمارے موقف سے مختلف اور اس پر ناقدانہ تبصرہ ہے۔ مولانا نے اپنے اختلاف کا اظہار جس سلیقے کے ساتھ کیا ہے، اس سے ہمارے دل میں ان کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ ہماری بات سے لوگ اس سے قبل بھی اختلاف کرتے رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ہم اس لہجے کو ترس گئے تھے۔ ہماری یہ خواہش کم ہی پوری ہوئی کہ لوگ علمی آرا...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
علماء کے سیاسی کردار، کسی غیر سرکاری فورم کی طرف سے جہاد کے اعلان کی شرعی حیثیت، علماء کرام کے فتویٰ جاری کرنے کے آزادانہ استحقاق، اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی شرعی ممانعت کے حوالہ سے محترم جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض حالیہ ارشادات کے بارے میں ان کالموں میں کچھ گزارشات پیش کی تھیں۔ ہمارا خیال تھا کہ غامدی صاحب محترم ان مسائل پر قلم اٹھائیں گے اور ہمیں ان کے علم و مطالعہ سے استفادہ کا موقع ملے گا۔ لیکن شاید ’’پروٹوکول‘‘ کے تقاضے آڑے آگئے جس کی وجہ سے غامدی صاحب کی بجائے ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب نے ہماری ان گزارشات...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خورشید احمد ندیم صاحب نے علماء کے سیاسی کردار پر تفصیلی بحث کی ہے اور اس نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے کہ علماء کرام کو عملی سیاست میں براہ راست رفیق بننے کی بجائے اصولی سیاست اور رہنمائی کی سطح تک اپنی سرگرمیوں کو محدود رکھنا چاہیے۔ اور ساتھ ہی پاکستان کی پچاس سالہ سیاست کا تجزیہ کیا ہے کہ علماء کا عملی سیاست میں حصہ لینا علماء اور دین دونوں کے لیے فائدہ کی بجائے نقصان کا باعث بنا ہے۔ جہاں تک علماء کے عملی سیاست میں فریق بننے یا نہ بننے کی بات ہے خورشید ندیم صاحب نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ یہ جائز و ناجائز کی بات نہیں بلکہ حکمت و تدبیر کا مسئلہ ہے۔...
― معز امجد
پچھلے دنوں مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ایک مضمون ”غامدی صاحب کے ارشادات پر ایک نظر‘‘ تین قسطوں میں روزنامہ ”اوصاف‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں مولانا محترم نے استاذِ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی کی بعض آرا پر اظہارِ خیال فرمایا ہے۔ مذکورہ مضمون میں مولانا محترم کے ارشادات سے اگرچہ ہمیں اتفاق نہیں ہے، تاہم ان کی یہ تحریر علمی اختلافات کے بیان اور مخالف نقطہء نظر کی علمی آرا پر تنقید کے حوالے سے ایک بہترین تحریر ہے۔ مولانا محترم نے اپنی بات کو جس سلیقے سے بیان فرمایا اور ہمارے نقطہء نظر پر جس علمی اندازسے تنقید کی ہے، وہ یقیناًموجودہ...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
غالباً عید الفطر کے ایام کی بات ہے کہ محترم جاوید احمد غامدی نے پشاور پریس کلب میں جہاد، فتویٰ، زکوٰۃ، ٹیکس اور علماء کے سیاسی کردار کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ملک کے جمہور علماء کے موقف اور طرز عمل سے مختلف تھے۔ اس لیے میں نے روزنامہ اوصاف اسلام آباد میں مسلسل شائع ہونے والے اپنے کالم ’’نوائے قلم‘‘ میں ان کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس پر غامدی صاحب محترم کے شاگرد رشید جناب خورشید احمد ندیم نے روزنامہ جنگ میں غامدی صاحب کے موقف کی مزید وضاحت کی جن پر میں نے ان کی چند باتوں پر روزنامہ اوصاف میں دوبارہ تبصرہ...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پشاور کے سید وقار حسین صاحب نے ایک خط میں منیر احمد چغتائی صاحب آف کراچی کے اس مراسلہ کی طرف توجہ دلائی ہے جو جاوید احمد غامدی صاحب کے بعض افکار کے بارے میں میرے مضامین کے حوالہ سے گزشتہ دنوں روزنامہ اوصاف میں شائع ہوا ہے۔ یہ مراسلہ میری نظر سے گزر چکا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں رکھ لیا تھا کہ اس کی بعض باتوں پر کسی کالم میں تبصرہ کر دوں گا۔ مگر وقار حسین کے توجہ دلانے پر اپنی ترتیب میں رد و بدل کر کے اس مراسلہ کے بارے میں ابھی کچھ عرض کر رہا...
― معز امجد
ماہنامہ ’’اشراق‘‘ مارچ ۲۰۰۱ء میں استاذِ گرامی کی بعض آرا سے متعلق مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ العالی کے فرمودات اور ان کے حوالے سے ہماری معروضات شائع ہوئی ہیں۔ مولانا محترم نے استاذِ گرامی کی جن آرا پر اظہارِ خیال فرمایا ہے ان میں سے ایک جہاد کے متعلق ہمارے استاذ کی رائے ہے۔ یہ بات مولانا محترم کے فرمودات ہی سے واضح ہو گئی ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان اس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ’’کسی قوم یا ملک کے خلاف جہاد تو بہرحال مسلمان حکومت ہی کی طرف سے ہو سکتا ہے۔‘‘ اپنی معروضات میں ہم نے مولانا محترم کے ساتھ اپنے اختلاف کو واضح کرتے...
― ڈاکٹر محمد فاروق خان
پچھلے کچھ عرصہ سے مولانا زاہد الراشدی صاحب کی تحریروں میں تین حوالے بار بار آ رہے ہیں۔ ایک دمشق پر تاتاریوں کے حملے کے دوران میں امام ابن تیمیہ کا کردار، دوسرے الجزائر کی جنگِ آزادی، اور تیسرے جہادِ افغانستان۔ چنانچہ یہ مناسب ہے کہ درجِ بالا تینوں معاملات کا تاریخی و نظریاتی جائزہ لیا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ ہمارے آج کے حالات میں ان سے کیا کیا سبق ملتے...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
محترم جاوید احمد غامدی کے بعض ارشادات کے حوالے سے جو گفتگو کچھ عرصے سے چل رہی ہے اس کے ضمن میں ان کے دو شاگردوں جناب معز امجد اور ڈاکٹر محمد فاروق خان نے ماہنامہ اشراق لاہور کے مئی ۲۰۰۱ء کے شمارے میں کچھ مزید خیالات کا اظہار کیا ہے جن کے بارے میں چند گزارشات پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔معز امجد صاحب نے حسب سابق (۱) کسی مسلم ریاست پر کافروں کے تسلط کے خلاف علماء کے اعلان جہاد کے استحقاق (۲) زکوٰۃ کے علاوہ کسی اور ٹیکس کی ممانعت (۳) اور علماء کے فتویٰ کے آزادانہ حق کے بارے میں اپنے موقف کی مزید وضاحت کی ہے۔ جبکہ ڈاکٹر محمد فاروق خان نے (۱) شیخ الاسلام...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلسِ شورٰی نے صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ توڑنے اور نصابی کتب کی تدوین و اشاعت بین الاقوامی اداروں کے سپرد کرنے کے حکومتی فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی ہے اور اسے ملک کے نصابِ تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی مہم کا ایک حصہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مہم منظم کرنے کے لیے ملک کے دینی اور تعلیمی حلقوں سے رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ ۲۹ اپریل ۲۰۰۱ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں منعقدہ پاکستان شریعت کونسل کی مرکزی مجلسِ شورٰی کے اجلاس میں کیا گیا جس کی صدارت مرکزی امیر مولانا فداء الرحمٰن درخواستی...
― ادارہ
پشاور میں جمعیت علماء اسلام پاکستان کی ’’خدماتِ دارالعلوم دیوبند کانفرنس‘‘ کے موقع پر پشاور کے محترم اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الدیان کلیم نے ’’صوبہ سرحد کے علماء دیوبند کی سیاسی خدمات‘‘ کے نام سے ساڑھے تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل مجلد اور خوبصورت کتاب پیش کی ہے جو دراصل ان کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ کا ایک حصہ ہے۔ مقالہ میں تحریکِ آزادی، تحریکِ پاکستان اور پھر پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد میں صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے علماء دیوبند کی خدمات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے اور بہت اہم معلومات یکجا کر دی گئی...
― مولانا محمد تقی امینی
فقہ اسلامی کا دسواں ماخذ مسلمہ شخصیتوں کی آراء ہیں۔ اس میں اقوال، فتاوٰی، ثالثی، عدالتی فیصلہ، سرکاری و غیر سرکاری ہدایتیں سب داخل ہیں، مگر مرکزی حیثیت صحابہ کرامؓ کی آراء کو حاصل ہو گی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’میرے صحابی مثل ستاروں کے ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کر لو گے، ہدایت مل جائے گی‘‘۔ صحابہؓ کی رایوں کے مستند ہونے پر دلائل: ان کے اکثر اقوال زبانِ رسالت سے سنے ہوئے...