جاوید احمد غامدی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست ہیں، صاحب علم ہیں، عربی ادب پر گہری نظر رکھتے ہیں، وسیع المطالعہ دانشور ہیں، اور قرآن فہمی میں حضرت مولانا حمید الدین رحمہ اللہ تعالیٰ کے مکتب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان دنوں قومی اخبارات میں غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید جناب خورشید احمد ندیم کے بعض مضامین اور بیانات کے حوالے سے ان کے کچھ تفردات سامنے آرہے ہیں جن سے مختلف حلقوں میں الجھن پیدا ہو رہی ہے۔ اور بعض دوستوں نے اس سلسلہ میں ہم سے اظہار رائے کے لیے رابطہ بھی کیا ہے۔ آج بھی ایک قومی اخبار کے لاہور ایڈیشن میں پشاور پریس کلب میں غامدی صاحب کے ایک خطاب کے حوالہ سے ان کے بعض ارشادات سامنے آئے ہیں اور انہی کے بارے میں ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ مگر پہلے غامدی صاحب کے علمی پس منظر کو سامنے رکھنا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر نہ ان کی بات صحیح طور پر سمجھ میں آ سکتی ہے اور نہ ہی ہم اپنی بات وضاحت کے ساتھ کہہ پائیں گے۔
حضرت مولانا حمید الدین فراہیؒ برصغیر پاک و ہند کے سرکردہ علماء کرام میں سے تھے اور مولانا شبلی نعمانیؒ کے ماموں زاد تھے۔ ان کے اساتذہ میں مولانا شبلیؒ کے علاوہ مولانا عبد الحئی فرنگی محلیؒ، مولانا فیض الحسن سہارنپوریؒ اور پروفیسر آرنلڈ شامل ہیں۔ دینی درسیات کی تکمیل کے بعد انہوں نے جدید تعلیم بھی حاصل کی اور وہ بیک وقت عربی، اردو، فارسی، انگلش اور عبرانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ حیدر آباد دکن کے دارالعلوم کے پرنسپل رہے جسے بعد میں جامعہ عثمانیہ کے نام سے یونیورسٹی کی شکل دے دی گئی۔ اور کہا جاتا ہے کہ دارالعلوم کو ’’جامعہ‘‘ کی شکل دینے میں مولانا فراہیؒ کی سوچ اور تحریک بھی کار فرما تھی۔ بعد میں حیدرآباد کو چھوڑ کر انہوں نے لکھنو کے قریب سرائے میر میں مدرسۃ الاصلاح کے نام سے درسگاہ کی بنیاد رکھی اور قرآن فہمی کا ایک نیا حلقہ قائم کیا جو اپنے مخصوص ذوق اور اسلوب کے حوالہ سے انہی کے نام سے منسوب ہوگیا۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں مولانا فراہیؒ کے نزدیک قرآن فہمی میں عربی ادب، نزول قرآن کے دور کے عربی لٹریچر اور روایات، اور اس کے ساتھ تعرف و تعامل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ حدیث و سنت کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں مگر ’’خبر واحد‘‘ کو ان کے ہاں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو محدثین کے ہاں تسلیم شدہ ہے، اور وہ احکام میں خبر واحد کو حجت تسلیم نہیں کرتے۔ اسی وجہ سے بعض علمی معاملات میں ان کی اور ان کے تلامذہ کی رائے جمہور علماء سے مختلف ہو جاتی ہے۔ مولانا فراہیؒ کے بعد ان کے فکر اور فلسفہ کے سب سے بڑے وارث اور نمائندہ حضرت مولانا امین احسن اصلاحیؒ تھے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل وفاقی شرعی عدالت میں شادی شدہ مرد و عورت کے لیے زنا کی سزا کے طور پر ’’رجم‘‘ کی شرعی حد نہ ہونے پر دلائل فراہم کیے تھے اور یہ موقف اختیار کیا تھا کہ رجم اور سنگسار کرنا شرعی حد نہیں ہے۔ اس کے پیچھے بھی خبر واحد کے احکام میں حجت نہ ہونے کا تصور کارفرما تھا۔
یہ ایک مستقل علمی بحث ہے کہ احکام و قوانین کی بنیاد شہادت پر ہے یا خبر پر۔ پھر خبر اور شہادت کے نصاب و معیار میں کیا فرق ہے۔ اس میں فقہاء کے اصولی گروہ میں سے بعض ذمہ دار بزرگ ایک مستقل موقف رکھتے ہیں، جبکہ جمہور محدثین اور عملی فقہاء کا موقف ان سے مختلف ہے۔ ہمارے خیال میں مولانا حمید الدین فراہیؒ کا موقف جمہور فقہاء اور محدثین کی بجائے بعض اصولی فقہاء سے زیادہ قریب ہے، اسی وجہ سے ہم اسے ان کے تفردات میں شمار کرتے ہیں۔ اور تفردات کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہر صاحب علم کا حق ہے جس کا احترام کیا جانا چاہیے بشرطیکہ وہ ان کی ذات یا حلقہ تک محدود رہے۔ البتہ اگر کسی تفرد کو جمہور اہل علم کی رائے کے علی الرغم سوسائٹی پر مسلط کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ فکری انتشار اور ایک نئے مکتب فکر کے قیام کا سبب بنتا ہے۔ اور یہی وہ نکتہ اور مقام ہے جہاں ہمارے بہت سے قابل قدر اور لائق احترام مفکرین نے ٹھوکر کھائی ہے اور امت کے اجتماعی علمی دھارے سے کٹ کر جداگانہ فکری حلقوں کے قیام کا باعث بنے ہیں۔ بہرحال محترم جاوید احمد غامدی صاحب اور ان کے شاگرد رشید خورشید احمد ندیم صاحب کا تعلق اسی علمی حلقہ سے ہے اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے بعد اس حلقہ علم و فکر کی قیادت غامدی صاحب فرما رہے ہیں۔
پس منظر کی وضاحت کے طور پر ان تمہیدی گزارشات کے بعد ہم غامدی صاحب محترم کے ان ارشادات کی طرف آرہے ہیں جو انہوں نے گزشتہ روز پشاور پریس کلب میں گفتگو کرتے ہوئے فرمائے ہیں اور جنہیں مذکورہ اخبار نے اس طرح رپورٹ کیا ہے کہ:
- علماء کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اصلاح کریں تو بہتر ہوگا، مولوی کو سیاستدان بنانے کی بجائے سیاست دان کو مولوی بنانے کی کوشش کی جائے۔
- زکوٰۃ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ٹیکسیشن کو ممنوع قرار دے کر حکمرانوں سے ظلم کا ہتھیار چھین لیا ہے۔
- جہاد تبھی جہاد ہوتا ہے جب مسلمانوں کی حکومت اس کا اعلان کرے، مختلف مذہبی گروہوں اور جتھوں کے جہاد کو جہاد قرار نہیں دیا جا سکتا۔
- فتوؤں کا بعض اوقات انتہائی غلط استعمال کیا جاتا ہے اس لیے فتویٰ بازی کو اسلام کی روشنی میں ریاستی قوانین کے تابع بنانا چاہیے اور مولویوں کے فتوؤں کے خلاف بنگلہ دیش میں فیصلہ صدی کا بہترین عدالتی فیصلہ ہے۔
جہاں تک پہلی بات علماء اور سیاست کا تعلق ہے کہ علماء کرام خود سیاسی فریق بننے کی بجائے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اصلاح کریں تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ موقع محل اور حالات کی مناسبت کی بات ہے اور دونوں طرف اہل علم اور اہل دین کا اسوہ موجود ہے۔ امت میں اکابر اہل علم کا ایک بہت بڑا طبقہ ہے جس نے حکمرانوں کے خلاف سیاسی فریق بننے کی بجائے ان کی اصلاح اور راہ نمائی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ لیکن ایسے اہل علم بھی امت میں رہے ہیں جنہوں نے اصلاح کے دوسرے طریقوں کو کامیاب نہ ہوتا دیکھ کر خود فریق بننے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑی مثال حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ ہیں جن کا شمار صغار صحابہؓ میں ہوتا ہے اور وہ بنیادی طور پر اہل علم میں سے تھے۔ لیکن حضرت معاویہؓ کے بعد انہوں نے یزید کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اور نہ صرف انکار بلکہ اس کے خلاف فریق بن گئے اور متوازی حکمران کے طور پر کئی برس تک حجاز اور دوسرے علاقوں پر حکومت کرتے رہے۔ اس لیے اگر کسی دور میں علماء کرام یہ سمجھیں کہ خود فریق بنے بغیر معاملات کی درستگی کا امکان کم ہے تو اس کا راستہ بھی موجود ہے اور اس کی مطلقاً نفی کر دینا دین کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔
زکوٰۃ کے بارے میں غامدی صاحب کا ارشاد گرامی ہم سمجھ نہیں پائے۔ اگر تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کے نظام کو مکمل طور پر اپنانے کی صورت میں اسلامی حکومت کو کسی اور ٹیکس کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی تو یہ بات سو فیصد درست ہے۔ اور ہمارا موقف بھی یہی ہے کہ ایک نظریاتی اسلامی ریاست قرآن و سنت کی بنیاد پر زکوٰۃ و عشر کے نظام کو من و عن اپنا لے اور اس کو دیانتداری کے ساتھ چلایا جائے تو اسے اور کوئی ٹیکس لوگوں پر لگانے کی ضرورت نہیں رہے گی اور ملک بہت جلد ایک خوشحال رفاہی سلطنت کی شکل اختیار کر لے گا۔ لیکن کیا کسی ضرورت کے موقع پر اس کے علاوہ کوئی ٹیکس لگانے کی شرعاً ممانعت ہے؟ اس میں ہمیں اشکال ہے۔ اگر غامدی صاحب محترم اللہ تعالیٰ کی طرف سے زکوٰۃ کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی ممانعت پر کوئی دلیل پیش فرما دیں تو ان کی مہربانی ہوگی اور اس باب میں ہماری معلومات میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدانخواستہ ہم ٹیکسیشن کے موجودہ نظام کی حمایت کر رہے ہیں۔ یہ نظام تو سراسر ظالمانہ ہے اور شریعت اسلامیہ کسی پہلو سے بھی اس کی روادار نہیں ہے۔ مگر اسلامی نظام میں زکوٰۃ کے نظام کے بعد کسی اور ٹیکسیشن کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ممانعت کی کوئی دلیل ہمارے سامنے نہیں ہے اور اسی کے لیے ہم غامدی صاحب سے علمی راہ نمائی کے طلب گار ہیں۔
محترم جاوید احمد غامدی صاحب کو مختلف جہادی گروپوں کی طرف سے جہاد کے نام پر مسلح سرگرمیوں پر اشکال ہے اور وہ ان کے اس عمل کو جہاد تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا ارشاد ہے کہ جہاد کا اعلان صرف ایک مسلم حکومت ہی کر سکتی ہے اس کے سوا کسی اور کو جہاد کا اعلان کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ مگر ہمیں ان کے اس ارشاد سے اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ جہاد کی مختلف عملی صورتیں اور درجات ہیں اور ہر ایک کا حکم الگ الگ ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی ملک یا قوم کے خلاف جہاد کا اعلان اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ایک اسلامی یا کم از کم مسلمان حکومت اس کا اعلان کرے۔ لیکن جب کسی مسلم آبادی پر کفار کی یلغار ہو جائے اور کفار کے غلبہ کی وجہ سے مسلمان حکومت کا وجود ختم ہو جائے یا وہ بالکل بے بس دکھائی دینے لگے تو غاصب اور حملہ آور قوت کے خلاف جہاد کے اعلان کے لیے پہلے حکومت کا قیام ضروری نہیں ہوگا اور نہ ہی عملاً ایسا ممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر ایسے مرحلہ میں مسلمانوں کی اپنی حکومت کا قیام قابل عمل ہو تو کافروں کی یلغار اور تسلط ہی بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ صورت پیدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب مسلمانوں کی حکومت کفار کے غلبہ اور تسلط کی وجہ سے ختم ہو جائے، بے بس ہو جائے، یا اسی کافر قوت کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جائے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیا کیا جائے؟ اگر جاوید غامدی صاحب محترم کا فلسفہ تسلیم کر لیا جائے تو یہ ضروری ہوگا کہ مسلمان پہلے اپنی حکومت قائم کریں اور اس کے بعد اس حکومت کے اعلان پر جہاد شروع کیا جائے۔ لیکن پھر یہ سوال اٹھ کھڑا ہوگا کہ جب مسلمانوں نے اپنی حکومت بحال کر لی ہے تو اب جہاد کے اعلان کی ضرورت ہی کیا باقی رہ گئی ہے؟ کیونکہ جہاد کا مقصد تو کافروں کا تسلط ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار بحال کرنا ہے اور جب وہ کام جہاد کے بغیر ہی ہوگیا ہے تو جہاد کے اعلان کا کون سا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
اس کی ایک عملی مثال سامنے رکھ لیجیے کہ فلسطینی عوام نے تنظیم آزادی فلسطین کے عنوان سے غیر سرکاری سطح پر اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ سالہا سال کی مسلح جدوجہد کے نتیجہ میں مذاکرات کی نوبت آئی اور ان مذاکرات کے بعد ایک ڈھیلی ڈھالی یا لولی لنگڑی حکومت جناب یاسر عرفات کی سربراہی میں قائم ہوئی جو اس وقت بین الاقوامی فورم پر فلسطینیوں کی نمائندگی کر رہی ہے۔ اگر مسلح جدوجہد نہ ہوتی تو مذاکرات اور حکومت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ مسلح جدوجہد کسی حکومت کے اعلان پر نہیں بلکہ غیر سرکاری فورم کی طرف سے شروع ہوئی اور اسی عنوان سے مذاکرات کی میز بچھنے تک جاری رہی۔ یہاں عملی طور پر ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت مسلح جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہوئی ہے نہ کہ حکومت نے قائم ہونے کے بعد مسلح جدوجہد یا جہاد کا اعلان کیا۔ لیکن اگر غامدی صاحب کے فلسفہ کو قبول کر لیا جائے تو یہ ساری جدوجہد غلط قرار پاتی ہے۔ اور ان کے خیال میں فلسطینیوں کو یہ چاہیے تھا یا شرعاً ان کے لیے جائز راستہ یہ تھا کہ وہ پہلے ایک حکومت قائم کرتے اور پھر وہ حکومت جہاد کا اعلان کرتی، تب ان کی مسلح جدوجہد غامدی صاحب کے نزدیک شرعی جہاد قرار پا سکتی تھی۔
خود ہمارے ہاں برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی نے کٹھ پتلی کی حیثیت اختیار کر لی اور عملاً انگریزوں کا اقتدار قائم ہوگیا تو اس وقت کے علماء کے سرخیل حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے جہاد کا فتویٰ دیا۔ اور پھر بالا کوٹ کے معرکے تک اور اس کے بعد ۱۸۵۷ء میں مسلح جہاد آزادی کے مختلف مراحل تاریخ کا حصہ بنے۔ جہاد کا یہ اعلان بھی غیر سرکاری فورم کی طرف سے تھا اور شاہ عبد العزیز دہلویؒ یا انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے دیگر علماء کو کوئی سرکاری اتھارٹی حاصل نہیں تھی۔ اس لیے غامدی صاحب کے فلسفہ کی رو سے یہ سارا عمل غیر شرعی قرار پاتا ہے۔ محترم غامدی صاحب یا ان کا کوئی شاگرد رشید اس دور میں موجود ہوتا تو وہ شاہ عبد العزیز دہلویؒ کو یہی مشورہ دیتا کہ حضور! آپ کو جہاد کے اعلان کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور نہ ہی حکومتی معاملات میں فریق بننے کا آپ کے لیے کوئی جواز ہے۔ آپ صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ حکومت کی راہ نمائی کریں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں آلۂ کار کی حیثیت اختیار کر جانے والے مغل بادشاہ کو مشورہ دیتے رہیں اور اس سے کہیں کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف جہاد کا اعلان کرے، کیونکہ اس کے سوا جہاد کا اعلان کرنے کا شرعی اختیار اور کسی کے پاس نہیں ہے۔
جہاد افغانستان کی صورتحال بھی کم و بیش اسی طرح کی ہے کہ جب کابل میں روسی فوجیں اتریں، مسلح غاصبانہ قبضہ کے بعد افغانستان کے معاملات پر روس کا کنٹرول قائم ہوگیا اور ببرک کارمل کی صورت میں ایک کٹھ پتلی حکمران کو کابل میں بٹھا دیا گیا تو افغانستان کے مختلف حصوں میں علماء کرام نے اس تسلط کو مسترد کرتے ہوئے حملہ آور قوت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ بعد میں ان کے باہمی روابط قائم ہوئے تو رفتہ رفتہ وہ چند گروپوں کی صورت میں یکجا ہوگئے۔ پھر انہیں روسی فوجوں کے خلاف مسلح جدوجہد میں ثابت قدم دیکھ کر باہر کی قوتیں متوجہ ہوئیں اور روس کی شکست کی خواہاں قوتوں نے ان مجاہدین کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں روس کو افغانستان سے نکلنا پڑا اور سوویت یونین کا شیرازہ منتشر ہوگیا۔ غامدی صاحب کے اس ارشاد کی رو سے یہ سارا عمل غیر شرعی اور ناجائز ٹھہرتا ہے اور ان کے خیال میں افغان علماء کو از خود جہاد کا اعلان کرنے کی بجائے ببرک کارمل کی رہنمائی کرنے تک محدود رہنا چاہیے تھا، اور اس سے درخواست کرنی چاہیے تھی کہ چونکہ شرعاً جہاد کے اعلان کا اختیار صرف اس کے پاس ہے اس لیے وہ روسی حملہ آوروں کے خلاف جہاد کا اعلان کرے، تاکہ اس کی قیادت میں علماء کرام جہاد میں حصہ لے سکیں۔
فرانسیسی استعمار کے تسلط کے خلاف الجزائر کے علماء کو بھی اسی قسم کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا، وہاں کے قوم پرست لیڈروں بن باللہ، بومدین اور بو نسیاف کے ساتھ ساتھ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ اور الشیخ بشیر الابراہیمیؒ جیسے اکابر علماء نے بھی مسلح جدوجہد کی قیادت کی۔ انہوں نے فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلح جدوجہد کو جہاد قرار دیا، اس کے لیے علماء کی باقاعدہ جماعت بنائی، اور جمعیۃ علماء الجزائر کے پلیٹ فارم سے سالہا سال تک غاصب حکومت کے خلاف مسلح جنگ لڑ کر الجزائر کی آزادی کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ بلکہ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ کو یہ مشورہ ہی ان کے استاد محترم شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے دیا تھا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب مولانا مدنیؒ ہندوستان سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور مسجد نبوی میں حدیث نبویؐ پڑھایا کرتے تھے۔ الشیخ عبد الحمید بن بادیسؒ نے ان سے حدیث پڑھی اور وہیں مدینہ منورہ میں کسی جگہ بیٹھ کر درس و تدریس کا سلسلہ شروع کرنے کی اجازت طلب کی تو شیخ مدنیؒ نے ان سے کہا کہ ان کا ملک غلام ہے اس لیے وہ واپس جائیں اور علماء کرام کو منظم کر کے اپنے وطن کی آزادی کے لیے جہاد کریں۔ اگر اس وقت شیخ بن بادیسؒ کے ذہن میں کوئی ’’دانشور‘‘ یہ بات ڈال دیتا کہ آپ لوگوں کو از خود مسلح جدوجہد شروع کرنے کا شرعاً کوئی حق حاصل نہیں ہے اور جہاد کے لیے کسی مسلم حکومت کی طرف سے اعلان ضروری ہے تو وہ بھی مدینہ منورہ میں کوئی علمی مرکز قائم کر کے بیٹھ جاتے اور الجزائر کی جنگ آزادی کا جو حشر ہوتا وہ ان کی بلا سے ہوتا رہتا۔
غامدی صاحب محترم کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ساتویں صدی ہجری کے آخر میں عالم اسلام کے خلاف تاتاریوں کی خوفناک یلغار کے موقع پر جب دمشق کے حکمران سراسیمگی اور تذبذب کے عالم میں تھے اور عوام تاتاریوں کے خوف سے شہر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے تو اس موقع پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے از خود جہاد کی فرضیت کا اعلان کر کے عوام کو اس کے لیے منظم کرنا شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں حکمرانوں کو حوصلہ ہوا اور عوام نے شہر چھوڑنا ترک کیا۔ ورنہ اگر ابن تیمیہؒ بھی غامدی صاحب کے فلسفہ پر عمل کرتے تو بغداد کی طرح دمشق کی بھی اینٹ سے اینٹ بج جاتی۔
محترم جاوید احمد غامدی نے مولوی کے فتویٰ کے خلاف بنگلہ دیش کی کسی عدالت کے فیصلے پر مسرت کا اظہار کیا ہے اور اسے صدی کا بہترین عدالتی فیصلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ فتوؤں کا بعض اوقات انتہائی غلط استعمال کیا جاتا ہے اس لیے فتویٰ بازی کو اسلام کی روشنی میں ریاستی قوانین کے تابع بنانا چاہیے۔
بنگلہ دیش کی کون سی عدالت نے مولوی حضرات کے کون سے فتوے کے خلاف فیصلہ دیا ہے، ہمیں اس کا علم نہیں ہے اور نہ ہی مذکورہ فیصلہ ہماری نظر سے گزرا ہے۔ لیکن غامدی صاحب کے ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی عدالت نے کسی مولوی صاحب کو فتویٰ دینے سے روک دیا ہوگا یا ان کے فتویٰ دینے کے استحقاق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہوگا جس کی بنا پر غامدی صاحب اس کی تحسین فرما رہے ہیں اور پاکستان کے لیے بھی یہ پسند کر رہے ہیں کہ مولویوں کو فتویٰ دینے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے اور فتویٰ بازی کو ریاستی قوانین کے تابع کر دینا چاہیے۔
جہاں تک اس شکایت کا تعلق ہے کہ ہمارے ہاں بعض فتوؤں کا انتہائی غلط استعمال ہوتا ہے، ہمیں اس سے اتفاق ہے۔ ان فتوؤں کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔ اور ان خرابیوں کی اصلاح کے لیے غیر سرکاری سطح پر کوئی قابل عمل فارمولا سامنے آتا ہے تو ہمیں اس سے بھی اختلاف نہیں ہوگا۔ مگر کسی چیز کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے سرے سے اس کے وجود کو ختم کر دینے کی تجویز ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ چونکہ ہماری عدالتوں میں رشوت اور سفارش اس قدر عام ہوگئی ہے کہ اکثر فیصلے غلط ہونے لگے ہیں اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہوتا جا رہا ہے اس لیے ان عدالتوں میں بیٹھنے والے ججوں سے فیصلے دینے کا اختیار ہی واپس لے لیا جائے۔ یہ بات نظری طور پر تو کسی بحث و مباحثہ کا خوبصورت عنوان بن سکتی ہے مگر عملی میدان میں اسے بروئے کار لانا کس طرح ممکن ہے؟ اس کے بارے میں غامدی صاحب محترم ہی زیادہ بہتر طور پر رہنمائی فرما سکتے ہیں۔
اور ’’فتویٰ‘‘ تو کہتے ہی کسی مسئلہ پر غیر سرکاری رائے کو ہیں۔ کیونکہ کسی مسئلہ پر حکومت کا کوئی انتظامی افسر جو فیصلہ دے گا وہ ’’حکم‘‘ کہلائے گا اور عدالت جو فیصلہ صادر کرے گی اسے ’’قضا‘‘ کہا جائے گا۔ جبکہ ان دونوں سے ہٹ کر اگر کوئی صاحب علم کسی مسئلہ کے بارے میں شرعی طور پر حتمی رائے دے گا تو وہ ’’فتویٰ‘‘ کہلائے گا۔ امت کا تعامل شروع سے اسی طرح چلا آرہا ہے کہ حکام حکم دیتے ہیں، قاضی حضرات عدالتی فیصلے دیتے ہیں، اور علماء کرام فتویٰ صادر کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ صحابہ کرامؓ کے دور سے چلا آرہا ہے۔ خود صحابہ کرامؓ میں خلافت راشدہ کے دور میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت ابوہریرہؓ جیسے مفتیان کرام موجود تھے جو کسی مسئلہ پر فتویٰ صادر کرنے میں کسی سرکاری نظم کے پابند نہیں تھے بلکہ آزادانہ طور پر مسائل پر رائے دیتے تھے اور ان کی رائے کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ اور تابعین کے دور سے تو فتویٰ کا یہ ادارہ اس قدر آزاد اور خودمختار ہوا کہ بڑے بڑے مفتیان کرام وقت کی حکومتوں کے خلاف فتوے دیتے تھے اور ان فتوؤں پر مصائب و آلام بھی برداشت کرتے تھے مگر انہوں نے اپنے اس آزادانہ حق میں حکومت کی کسی مداخلت کو قبول نہیں کیا۔
طبقات ابن سعدؒ کی روایت کے مطابق رئیس التابعین حضرت حسن بصریؒ نے خلیفہ یزید بن عبد المالک کے طرز عمل پر برسرعام تنقید کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ اس کے مظالم میں اس کے ساتھ تعاون نہ کریں۔ کامل ابن اثیرؒ کی روایت کے مطابق حضرت امام مالکؒ نے خلیفہ منصورؒ کے خلاف محمد نفس زکیہؒ کی بغاوت کی حمایت کرتے ہوئے لوگوں سے کہا کہ وہ منصورؒ کی بیعت توڑ کر محمد نفس زکیہؒ کا ساتھ دیں۔ہزارہ کی مناقب ابی حنیفہؒ میں ہے کہ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ نے محمد نفس زکیہؒ اور ان کے بھائی ابراہیم بن عبد اللہؒ کی مذکورہ بغاوت کی کھلم کھلا حمایت کی اور منصور خلیفہؒ کے کمانڈر حسن بن قحطبہ نے امام ابو حنیفہؒ کے کہنے پر ابراہیم بن عبد اللہؒ کے خلاف لڑنے سے انکار کر دیا۔ اس سے قبل اموی خلیفہ ہشام بن عبد المالکؒ کے دور میں اس کے خلاف امام زید بن علیؒ کی بغاوت میں بھی امام ابو حنیفہؒ نے امام زیدؒ کا ساتھ دیا اور انہیں دس ہزار درہم کا چندہ بھی بھجوایا۔
خلیفہ ہارون الرشیدؒ کے دور میں حضرت امام شافعیؒ کو بھی اس الزام میں گرفتار کیا گیا کہ وہ خلیفہ وقت کے خلاف یحییٰ بن عبد اللہؒ کی بغاوت کی درپردہ حمایت کر رہے ہیں مگر الزام ثابت نہ ہونے پر بعد میں رہا کر دیا گیا۔ امام مالکؒ نے ’’جبری طلاق‘‘ کے بارے میں حکومت وقت کی منشا و مفاد کے خلاف فتویٰ دیا جس پر سرعام ان پر کوڑے برسائے گئے حتیٰ کہ ان کے شانے اتر گئے۔ مگر وہ اس شان سے اپنے فتوے پر قائم رہے کہ جب انہیں گھوڑے پر سوار کر کے بازار میں پھرایا جا رہا تھا تو وہ لوگوں سے بلند آواز میں کہتے جاتے تھے کہ جو لوگ مجھے جانتے ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں، اور جو نہیں جانتے وہ جان لیں کہ میں مالک بن انس ہوں اور میں نے فتویٰ دیا ہے کہ جبر کی حالت میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ حکمرانوں کو امام مالکؒ کے اس فتویٰ سے خوف لاحق ہوگیا تھا کہ اگر مجبوری کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی تو جن لوگوں کو مجبور کر کے انہوں نے اپنے حق میں بیعت لے رکھی تھی کہیں وہ یہ نہ سمجھنے لگ جائیں کہ ہماری بیعت بھی واقع نہیں ہوئی اور ہم اس بیعت کے ساتھ حکمرانوں کی وفاداری کے پابند نہیں رہے۔
حکمرانوں کی مرضی اور منشا کے خلاف دیے جانے والے ان فتوؤں سے قطع نظر امت مسلمہ کے چار بڑے اماموں امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ ، اور امام احمد بن حنبلؒ نے جو لاکھوں فتاویٰ صادر کیے وہ کسی سرکاری نظم اور ریاستی قوانین کا نتیجہ نہیں بلکہ شرعی مسائل پر اہل علم کی طرف سے اظہار رائے کا ایک آزادانہ نظام کا ثمرہ تھے۔ ورنہ اگر یہ ائمہ کرامؒ فتویٰ صادر کرنے میں سرکاری نظم اور ریاستی قوانین کے تابع ہونے کو قبول کر لیتے تو نہ امام ابوحنیفہؒ کا جنازہ جیل سے نکلتا، نہ امام مالکؒ سر عام کوڑے کھاتے، نہ امام شافعیؒ کی گرفتاری کی نوبت آتی، اور نہ امام احمد بن حنبلؒ کو خلق قرآن کے مسئلہ پر قید و بند اور کوڑوں کی صبر آزما سزا کے مراحل سے گزرنا پڑتا۔ ان چاروں اماموں اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں فقہاء اور ائمہ نے جو لاکھوں فتوے دیے اور امت کے بے شمار مسائل کا جو مفتی حل پیش کیا وہ ایک آزادانہ عمل تھا۔ اسی وجہ سے انہیں امت میں اس قدر مقبولیت حاصل ہوئی کہ آج تیرہ سو برس گزر جانے کے بعد بھی امت کی غالب اکثریت ان ائمہ کے فتاویٰ پر عمل کرتی ہے اور ان کے فقہی مذاہب کی پیروکار ہے۔
امام اعظم ابوحنیفہؒ نے تو اپنی ایک مستقل ’’مجلس علمی‘‘ قائم کر رکھی تھی جس میں علماء، فقہاء، محدثین، اہل لغت اور مختلف علوم و فنون کے ماہرین کا جمگھٹا رہتا تھا۔ یہ غیر سرکاری کونسل تھی جو مسائل پر بحث کرتی تھی، اس کے شرکاء آزادانہ رائے دیتے تھے، ان کے درمیان مباحثہ ہوتا تھا، اور جو بات طے ہوتی اسے فیصلہ کے طور پر قلمبند کیا جاتا تھا۔ اس کونسل کے فیصلے نہ صرف اس دور میں تسلیم کیے جاتے تھے بلکہ اب تک امت کا ایک بڑا حصہ ان فیصلوں پر کاربند ہے۔ امام صاحبؒ کی اس مجلس علمی یعنی غیر سرکاری کونسل کے بارے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ علوم عربی و اسلامیات کے سربراہ ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی کی مستقل کتاب ہے جس میں انہوں نے اس کونسل کے خدوخال اور طریق کار کی وضاحت کی ہے۔
اس لیے فتویٰ کے آزادانہ عمل کو ریاستی قوانین کے تابع کرنے کی یہ تجویز یا خواہش امت کے چودہ سو سالہ اجتماعی تعامل کے منافی ہے جس کی کسی صورت میں حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اور ہمارے محترم اور بزرگ دوست جاوید احمد غامدی صاحب ناراض نہ ہوں تو ڈرتے ڈرتے ان سے ایک سوال پوچھنے کو جی چاہتا ہے کہ انہوں نے مختلف گروپوں کی مسلح جدوجہد کے جہاد نہ ہونے، زکوٰۃ کے علاوہ ٹیکس کی ممانعت، اور ریاستی نظم سے ہٹ کر فتویٰ کا استحقاق نہ ہونے کے بارے میں جو ارشادات فرمائے ہیں وہ بھی تو معروف معنوں میں ’’فتویٰ‘‘ ہی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں یہ فتوے جاری کرنے کی اتھارٹی کس ریاستی قانون نے دی ہے؟