رمضان المبارک کے بعد ملک کے معروف دانشور جناب جاوید احمد غامدی اور ان کے تلامذہ کے ساتھ بعض علمی و دینی مسائل پر گفتگو کا سلسلہ چل نکلا تھا اور اس سلسلے میں دونوں طرف سے مضامین مختلف اخبارات و جرائد مثلاً روزنامہ جنگ، روزنامہ اوصاف، روزنامہ پاکستان، ماہنامہ اشراق اور ماہنامہ تجلیاتِ حبیب چکوال میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان مضامین کو الشریعہ کی زیرنظر اشاعت میں اہلِ علم کی خدمت میں یکجا پیش کیا جا رہا ہے۔ اربابِ علم و دانش سے گزارش ہے کہ وہ ان مضامین کا توجہ کے ساتھ مطالعہ کریں اور اگر کسی حوالے سے اپنی رائے کے اظہار کی ضرورت محسوس کریں تو اس سے ہمیں بلاتامل آگاہ فرمائیں۔ ہمارے خیال میں اس قسم کے مسائل پر آزادانہ علمی مباحثہ ضروری ہے کیونکہ اسی سے فکری الجھنوں کی گرہیں کھلتی ہیں اور اہلِ علم کے لیے کسی معاملے میں رائے قائم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
امید ہے کہ یہ معمولی سی کاوش اربابِ علم و دانش کی توجہات اور حوصلہ افزائی سے محروم نہیں رہے گی۔ ضخامت میں اضافہ کے باعث زیرنظر شمارہ مئی اور جون ۲۰۰۱ء کا مشترکہ شمارہ ہو گا اور اگلا شمارہ جولائی کے آغاز میں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
گزشتہ دنوں ملک کی دو نامور دینی شخصیات (۱) جمعیۃ علماء پاکستان کے سربراہ مولانا عبد الستار خان نیازی اور (۲) جمعیۃ اہلِ حدیث پاکستان کے سرپرست مولانا محمد عبد اللہ دارفانی سے رحلت کر گئے۔ ملک میں دینی اقدار کے تحفظ و فروغ کے لیے دونوں حضرات کی خدمات لائقِ تحسین رہی ہیں۔ ان کے علاوہ حافظ آباد کے بزرگ عالم دین مولانا حکیم نور احمد یزدانی کا انتقال ہو گیا ہے جو جمعیۃ علماء اسلام کے ابتدائی راہنماؤں میں سے تھے۔ علاوہ ازیں گکھڑ کے معروف ادیب و دانش جناب شمس کاشمیری کا انتقال ہو گیا ہے، وہ ایک دیندار گھرانے کے دیندار فرد اور متعدد ادبی کتابوں کے مصنف تھے، کچھ عرصہ تک ایبٹ آباد سے ہزارہ ٹائمز کے نام سے ایک جریدہ بھی شائع کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مولانا مفتی محمد اقبال کی والدہ محترمہ بھی رحلت فرما گئی ہیں۔
ہم ان سب مرحومین کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔