فقہ اسلامی کا دسواں ماخذ مسلمہ شخصیتوں کی آراء ہیں۔ اس میں اقوال، فتاوٰی، ثالثی، عدالتی فیصلہ، سرکاری و غیر سرکاری ہدایتیں سب داخل ہیں، مگر مرکزی حیثیت صحابہ کرامؓ کی آراء کو حاصل ہو گی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا:
’’میرے صحابی مثل ستاروں کے ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کر لو گے، ہدایت مل جائے گی۔‘‘
صحابہؓ کی رایوں کے مستند ہونے پر دلائل
ان کے اکثر اقوال زبانِ رسالت سے سنے ہوئے ہیں، اور اگر انہوں نے اجتہاد بھی کیا ہے تو ان کی رائے زیادہ صائب ہے کیونکہ انہوں نے نصوص کے موقع و محل کا براہ راست مشاہدہ کیا ہے۔ دین میں انہیں تقدم حاصل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے فیضیاب ہوئے ہیں، ان کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ تھا کیونکہ انہوں نے قرآن مجید کے نزول اور اسرارِ شریعت کا مشاہدہ کیا ہے۔
(توضیح و تلویح فی تقلید الصحابی)
ان وجوہ کی بنا پر اگر وہ اپنی رائے سے بھی کوئی بات کہتے ہیں تو وہ دوسروں کے مقابلہ میں بدرجہا فضیلت اور برتری کی مستحق ہوتی ہے۔
فقہاء نے صحابہؓ سے اخذ و استنباط کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اور قانونی امور میں ان کی خصوصیت کا بھی لحاظ رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ سب انسان یکساں نہیں ہوتے اس لیے سب صحابہؓ بھی یکساں نہیں تھے۔ اس لیے قانونی امور میں ان صحابہؓ کی رائے زیادہ وزنی ہو گی جن کی طرف اس عبارت میں اشارہ ہے:
’’جن صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اپنی عمریں گزاری تھیں اور آپؐ کے پاکیزہ اخلاق کے رنگ میں رنگ گئے تھے، جیسے خلفاء راشدینؓ، ازواجِ مطہراتؓ، عبادلہ (عبد اللہ بن مسعودؓ، عبد اللہ بن عمرؓ، عبد اللہ بن زبیرؓ، عبد اللہ بن عباسؓ)، حضرت انس ؓ، حضرت حذیفہؓ اور جو اُن کے طبقہ میں ہیں۔‘‘
(بحوالہ فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر)