جس مجلس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھی یا بیان کی جا رہی ہو اس مجلس میں شوروغل برپا کرنا سخت بے ادبی ہے کیونکہ آپ کے ارشاد کا احترام بعد از وفات بھی ویسا ہی ضروری ہے جیسا کہ آپ کی حیات میں تھا۔
جلیل القدر محدث اور حضرت امام بخاریؒ کے استاد امام عبد الرحمٰن بن مہدیؒ (المتوفٰی ۱۹۸ھ) کا یہ معمول تھا کہ جب ان کے سامنے حدیث پڑھی یا سنائی جاتی تو وہ لوگوں کو خاموش رہنے کا حکم دیتے اور فرماتے: ’’لا ترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی‘‘ کہ اپنی آوازوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر بلند نہ کرو۔ نیز فرماتے تھے کہ حدیث پڑھتے پڑھاتے وقت خاموش رہنا اسی طرح لازم ہے جس طرح آپ کے دنیا میں ارشاد فرمانے کے وقت لازم تھا۔ (مدارج النبوۃ ج ۱ ص ۵۲۹)
حافظ ابن القیمؒ (المتوفٰی ۷۵۱ھ) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر اپنی آواز کو بلند کرنا جب موجبِ حبطِ اعمال ہے تو آپ کی سنت اور احکام کے مقابلے میں اپنی رائے، رسم و رواج اور بدعات پر عمل کرنا کیونکر اعمالِ صالحہ کے لیے تباہ کن نہ ہو گا۔ (اعلام الموقعین ج ۱ص ۴۲)
رئیس التابعین حضرت سعید بن المسیبؒ (المتوفٰی ۹۳ھ) ایک پہلو پر (بیمار ہونے کی وجہ سے) لیٹے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے ان سے ایک حدیث دریافت کی۔ وہ فورًا اٹھ کر بیٹھ گئے اور حدیث بیان کی۔ سائل نے کہا، آپ نے اتنی تکلیف کیوں کی؟ فرمایا میں اس چیز کو پسند نہیں کرتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کروٹ کے بل لیٹے لیٹے بیان کروں۔ (جامع بیان العلم ج ۲ ص ۱۱۹ ۔ مدارج النبوۃ ج ۱ ص ۵۴۱)
حضرت امام مالکؒ (المتوفٰی ۱۷۹ھ) کا یہ معمول تھا کہ جب حدیث بیان فرماتے تو پہلے غسل کرتے، پھر خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہن کر نہایت عاجزی اور تواضع کے ساتھ حدیث بیان کرتے اور آخر دم تک اسی حالت میں رہتے (مدارج النبوۃ ج ۱ ص ۵۴۲)۔ امام صاحبؒ حدیث کی تعظیم کے پیشِ نظر باوضو ہی حدیثیں بیان کرتے تھے (جامع بیان العلم ج ۲ ص ۱۹۹)۔