قرآنِ مجید میں ارشاد ہے کہ اس قرآن کو روح الامین لے کر آئے ہیں ’’بلسانٍ عربی مبین‘‘ (الشعراء ۱۹۵) جس کی زبان عربی ہے جو کہ بالکل واضح اور فصیح زبان ہے۔ اس سے یہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ قرآن پاک اپنے مضامین، مطالب، معانی، دلائل، مسائل، احکام و شواہد کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن پاک کہلانے کا مستحق وہی نسخہ ہو گا جو عربی زبان میں ہو گا، کسی دوسری زبان میں ہونے والا ’’ترجمۂ قرآن‘‘ تو کہلا سکتا ہے لیکن قرآن نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’فاقرءوا ما تیسر من القرآن‘‘ (المزمل ۲۰) یعنی نماز میں جتنی سہولت ہو قرآن پڑھا کرو۔ اور قرآن وہی ہے جو عربی میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نماز عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں نہیں پڑھی جا سکتی۔
بعض ملحد قسم کے لوگ کہتے ہیں کہ ہم عربی کو سمجھتے نہیں لہٰذا اگر نماز اپنی زبان اردو پنجابی وغیرہ میں پڑھ لیا کریں تو مطلب بھی سمجھ میں آئے گا اور نماز اچھے طریقے سے ادا ہو گی۔ یہ سخت بے دینی کی بات ہے۔ بجائے اس کے کہ نماز اور قرآن پاک کی چند سورتوں کا ترجمہ سیکھ لیا جائے، انہوں نے نماز کو اردو میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کر دی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ لوگ انگریزی، فارسی، فرانسیسی اور جرمن زبانیں سیکھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتے مگر قرآن پاک کی زبان عربی کی باری آتی ہے تو اس کو سیکھنے کے بجائے قرآن اور نماز کے ترجمے پر گزارا کرنا چاہتے ہیں۔ آدمی تھوڑی سی کوشش کر کے نماز کی حد تک تو قرآن کے الفاظ اور ترجمہ سیکھ لیتا ہے اور پھر پوری دلجمعی کے ساتھ نماز ادا کر سکتا ہے۔