قربِ قیامت کی نشانی، علم کا اٹھ جانا

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

امام بغویؒ نے حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ’’لوگو! قرآن کو سیکھو اور اس پر عمل کرو قبل اس کے کہ اسے اٹھا لیا جائے‘‘۔

اس کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کے اٹھائے جانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کے الفاظ اٹھا لیے جائیں گے بلکہ صحیحین کی روایت کے مطابق ’’ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ولکن یقبض العلماء‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں کے سینوں سے نہیں اٹھائے گا بلکہ نیک اور اچھے علماء کو اٹھا لے گا۔

جب دین کا صحیح علم رکھنے والے نہیں ہوں گے تو لوگ جاہلوں کو عالم، مفتی اور قاضی کا درجہ دیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ لوگ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، اور اس طرح دنیا سے علم کو چھین لیا جائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک موقع پر حضور علیہ السلام نے کوئی بات بیان کی اور پھر فرمایا کہ ایسا اس وقت ہو گا ’’حین ذہاب العلم‘‘ جب علم چلا جائے گا۔

حضور علیہ السلام کے ایک صحابی زیاد بن لبیدؓ نے عرض کیا کہ علم کیسے چلا جائے گا جبکہ ہم ان سے قرآن پڑھتے ہیں اور آگے دوسروں کو پڑھاتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: تیری ماں تجھے کم پائے زیاد، میں تو تجھے مدینے کا سمجھدار آدمی سمجھتا تھا مگر تم نے تو بے سمجھی کی بات کی ہے۔ کیا تم یہود و نصاریٰ کا حال نہیں دیکھتے؟ ان کے پاس کتابیں موجود ہیں مگر وہ ان پر عمل نہیں کرتے، ایسے علم کا کیا فائدہ؟ یہی ذہابِ علم ہے۔

ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں ’’تعلموا العلم‘‘ لوگو! علم سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ ’’تعلموا الفرائض‘‘ فرائض سیکھو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ ’’فیقبض العلم‘‘ کیونکہ علم قبض کر لیا جائے گا اور فتنے برپا ہوں گے، جہالت برپا ہو گی، حتیٰ کہ دو آدمی ایک فریضہ میں جھگڑا کریں گے مگر ان کو بتلانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ آپؐ نے یہ بھی فرمایا ’’انی امرء مقبوض‘‘ میں تمہارے درمیان ہمیشہ نہیں رہوں گا بلکہ مجھے بھی اٹھا لیا جائے گا۔

تو قاضی صاحبؒ فرماتے ہیں کہ علم چھن جانے کی صورت یہ ہو گی کہ سب سے پہلے لوگوں میں سے عمل اٹھا لیا جائے گا، ان سے عمل کی توفیق ہی سلب ہو جائے گی، جیسا کہ آج کل نظر آ رہا ہے۔ علم بہت ہے، کتابوں کی لائبریریاں بھری ہوئی ہیں، مگر عمل مفقود ہے۔ آپ دیکھ لیں، ہر سال سیرتِ طیبہ پر ہزاروں کتابیں شائع ہوتی ہیں، ان پر انعامات بھی تقسیم ہوتے ہیں، مگر کروڑوں کی آبادی میں ان کتابوں پر عمل کرنے والے دس آدمی بھی نہیں ملیں گے۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت کے مطابق سب سے پہلے عمل کی توفیق سلب کر لی جائے گی، اس کے بعد اچھے اچھے علماء اٹھا لیے جائیں گے، اور تیسرا مرحلہ قربِ قیامت میں پیش آئے گا، لوگ سو کر اٹھیں گے تو علم کی کوئی بات سینوں میں محفوظ نہیں ہو گی، اور کتابوں کے حروف مٹ چکے ہوں گے۔

دین و حکمت

(اپریل ۱۹۹۵ء)

اپریل ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter