دینی مدارس کا ایک نیا وفاق
نظامتِ تعلیماتِ اسلامیہ پاکستان

ادارہ

علم ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، علم کے ذریعے ہی انسان اپنے معبودِ حقیقی کی معرفت حاصل کرتا ہے اور خود اپنے آپ کو بھی پہچان سکتا ہے، بلکہ علم کی وجہ سے انسان کو باقی مخلوق حتیٰ کہ فرشتوں پر فضیلت حاصل ہوئی ہے۔ اور یہ کہنا کسی طرح بھی بے جا نہ ہو گا کہ علم کے بغیر خود انسان نامکمل رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر دور میں علم کی ترویج و ترقی کے لیے ہر ممکن کوششیں بروئے کار لائی گئیں۔ خصوصاً اسلام نے تو اپنے تمام عقائد و تعلیمات کی بنیاد علم پر رکھی ہے۔ خود پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنے متعلق ’’انما بعثت معلما‘‘ کا جملہ ارشاد فرمایا، وہاں ’’طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘ کہہ کر ہر مسلمان کے لیے حصولِ علم کو فرض قرار دیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے علم کی اہمیت کو محسوس کیا اور پوری دنیا میں علم کی اشاعت کے لیے وہ کوششیں سرانجام دیں کہ تمام اقوام آج مسلمانوں کے اس سلسلہ کی مرہونِ منت ہیں۔ اب بھی مسلمان امت تعلیم و تعلم کے اس فریضہ کو بجا لانے میں پوری طرح مصروف ہے۔

تعلیم پاکستان میں

مملکتِ خداداد پاکستان میں اس وقت دو طرح کے تعلیمی نظام رائج ہیں:

(۱) قدیم دینی و عربی نصاب کی تعلیم کا محور و مرکز مساجد اور دینی مدارس ہیں، اور اس نظام نے یہاں دینی و اعتقادی ضروریات پوری کرنے کا فرض نبھایا، اور آج جو کچھ بھی دینی زندگی اور ایمانی حمیت یہاں موجود ہے، وہ اسی نظامِ تعلیم کا نتیجہ ہے۔ اخلاق و کردار اور ایمان و عمل میں جو رونقیں نظر آتی ہیں، وہ مساجد و مدارس کے ماحول میں ہونے والی مساعی کے دم قدم سے ہیں۔

(۲) جدید حکومتی نصابِ تعلیم کا مرکز سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں، اور اس نصاب نے ریاست کے امور چلانے والے افراد تیار کیے اور دنیوی شعبوں میں کام کرنے کی استعداد پیدا کی۔ اس حکومتی نصاب میں قرآن مجید ناظرہ کی تعلیم اور اسلامیات کی صورت میں کسی حد تک اسلامی عقائد و احکام کا ایک حصہ شامل ہے، لیکن یہ ایک مسلمان کی دینی ضروریات کے لیے ناکافی ہے۔ اس پر المیہ یہ ہے کہ اس حصہ کو عملاً تعلیم کے سلسلہ میں کوئی اہمیت نہیں دی گئی، جس کے نتیجہ میں جہاں ان اداروں میں تعلیم کا معیار انتہائی پست ہے، وہاں نقل اور ناجائز ذرائع سے امتحانی کامیابی کا حصول کوئی عیب نہیں رہا۔ اور ان اداروں میں نوجوان نسل کی تربیت اس انداز سے ہو رہی ہے کہ کلاشنکوف کلچر، گروپ بندی اور دوسری تمام اخلاقی خرابیوں نے ان درسگاہوں کے تصور کو بھی بھیانک بنا دیا ہے اور والدین انتہائی پریشان ہیں، لیکن ان کے سامنے تعلیم و تربیت کا ایسا کوئی متبادل نظام موجود نہیں جس پر وہ اپنی اولاد کے معاملہ میں اعتماد کر سکیں۔

مندرجہ بالا صورتحال اور پاکستان میں تعلیم کے دونوں نظاموں میں پائے جانے والے خلا کو پر کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ کسی طرح ان دونوں نظاموں کی خوبیوں کو جمع کر دیا جائے، اور اس طرح ایسی نسل تیار کی جائے جو بیک وقت دینی تعلیمات سے آگاہ ہونے کے ساتھ جدید دور کے فنون سے بھی پوری طرح واقف ہو۔ اس سلسلہ میں مسلمان زعماء اور دردمند اکابر ہمیشہ کوشش میں مصروف رہے ہیں، لیکن یہ کوششیں انفرادی درجہ کی حامل تھیں، جبکہ اب ملک و ملت کی اس ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے دردمند علماء کے ایک اجلاس میں ان کوششوں کو اجتماعی شکل دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اور اس کے لیے ’’نظامتِ تعلیماتِ اسلامیہ پاکستان‘‘ کے نام سے کام کرنے کا عزم کیا گیا اور طے کیا گیا کہ ایک ایسا نظامِ تعلیم اور نصاب وضع کیا جائے جس میں دونوں نصابوں کی اہم ضروریات ملحوظ رکھی جائیں۔ اور تعلیم و تربیت کا ایسا پروگرام طے کیا جائے جس کے ذریعے ایسی مسلمان نسل تیار ہو جو بیک وقت دینی تعلیم اور اخلاقی و روحانی تربیت بھی رکھتی ہو، اور انتظامی و ریاستی امور سرانجام دینے کی بھی پوری طرح اہل ہو۔

نظامت کے مقاصد

  • دینی علوم اور عصری فنون پر مشتمل نصاب کی تدوین
  • ملحقہ مدارس کے امتحانی اور تربیتی نظام کی نگرانی
  • اعلیٰ اسلامی تعلیم و تربیت اور ملکی نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کی حامل نسل تیار کرنے کی جدوجہد
  • ایسے طریقۂ تدریس کا استعمال جس میں ایسے مبلغین اسلام تیار ہوں جو عربی، فارسی اور انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہوں، اور پوری دنیا میں تبلیغِ دین کا فرض بھی ادا کر سکیں، اور عصرِ حاضر کے تمام الحادی اور غیر اسلامی فتنوں کا تعاقب کر کے اسلام دشمن تحریکوں کی سرکوبی کر سکیں۔

نظامت کا قیام اور عملی اقدام

  • مندرجہ بالا مقاصد کے حصول کے لیے نظامتِ تعلیماتِ اسلامیہ پاکستان کے نام سے اس ادارہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
  • نظامت کا مرکزی دفتر جامعہ منظور الاسلامیہ، عید گاہ صدر روڈ، لاہور چھاؤنی میں قائم کیا گیا ہے۔
  • حضرت مولانا محمد طیب صاحب حنفی کو نظامت کا امیر منتخب کیا گیا ہے، جبکہ مولانا عبد الرؤف فاروقی کو ناظمِ اعلیٰ نامزد کیا گیا ہے۔
  • حضرت مولانا عبد الرحمٰن ظفر کی سربراہی میں تدوینِ نصاب کمیٹی نے پرائمری پاس طلباء کے لیے گیارہ سالہ نصاب ترتیب دیا ہے، جس میں ترجمۂ قرآن مجید، تفسیر، اصولِ تفسیر، حدیث، اصولِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، عقائد، ادب، صرف، نحو اور منطق پر مشتمل دینی و قرآنی علوم کے ساتھ چھٹی سے بی اے تک کا حکومتی نصاب شامل ہے۔
  • طے کیا گیا ہے کہ جو مدارس نظامت کے ساتھ الحاق کریں گے اور نظامت کا مرتب کردہ نصاب رائج کریں گے، ان کے امتحانات اور تعلیمی و تربیتی نظام کی نگرانی نظامت کرے گی، اور نتائج کے مطابق اسناد بھی جاری کرے گی۔
  • نظامت نے طے کیا ہے کہ طلباء میں عربی و دینی علوم کی استعداد پیدا کرنے کے لیے فنون کی بعض ابتدائی کتابیں مرتب کر کے انہیں شائع کیا جائے۔
  • نظامت نے طے کیا ہے کہ ملحقہ مدارس کا بنیادی مشن علومِ نبوت کی تعلیم و ترویج ہو گا اور وہ اسی مقصد کو اہمیت دیں گے، جبکہ حکومتی نصاب سے ریاستی امور اور تبلیغِ اسلام کے لیے صلاحیت پیدا کرنا مقصود ہو گا اور اسی درجہ میں اس کو اہمیت حاصل ہو گی۔


اخبار و آثار

(اپریل ۱۹۹۵ء)

اپریل ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter