عظیم افغان کمانڈر مولانا نصر اللہ منصورؒ

عید محمد افغان

حضرت مولانا نصر اللہ منصور بن غلام محمد خان سہاکھ گاؤں زرمت کے علاقہ میں صوبہ پکتیکا میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے جس کو علاقہ کے لوگ فضل الرحمٰن کے گھرانے کے نام سے جانتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم زرمت پکتیکا پغمان کے مختلف علاقوں میں حاصل کی اور جامعہ نور المدارس الفاروقیہ ولایت غزنی میں علومِ عالیہ کی تحصیل کے لیے داخل ہوئے اور ایسی علمی اور روحانی فضا میں تربیت پائی جہاں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں اور قال اللہ جل جلالہ اور قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آوازیں آتی تھیں۔ اس جامعہ سے مولانا منصور شہیدؒ نے علومِ عالیہ تفسیر، حدیث، اصول، عقائد، کلام اور فقہ وغیرہ حاصل کیے۔ اس جامعہ کا شمار افغانستان کے بڑے مدارس میں ہوتا ہے۔ طالب علمی کے دور میں مولانا شہیدؒ ذہین و فہیم طلباء میں شمار ہوتے تھے۔

پڑھائی کے دوران ہی مولانا منصورؒ کا تعلق شیخ المشائخ المجددی نور اللہ مرقدہ سے ہو گیا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ان کا دل خوشی سے اصلاحِ باطن کی طرف مائل ہوا اور طیب خاطر سے شیخ مجددی نور اللہ مرقدہ کے حلقہ بگوش ہو کر شغف بالذکر کرنے لگے۔ ان کے شیخ معمولی شیخ نہ تھے بلکہ پورے افغانستان کے علماء اور عوام الناس کے شیخ الکل تھے۔ پس شیخ کی مبارک روحانی بیعت نے اس طالب علم کے اندر عجیب و غریب اثرات پیدا کر دیے جو ان کی آنے والی زندگی کے لیے سنگِ بنیاد کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس دوران مولانا منصور شہیدؒ نے ’’جمعیت خدام الفرقان‘‘ کی بنیاد رکھی اور اس کے ساتھ ساتھ علمی مشاغل کو بھی برقرار رکھا۔ مولانا منصورؒ نے جمعیت کے لیے ایک منشور مرتب کیا۔ جمعیت وہ پہلی جماعت تھی جس نے اپنی تمام تر کوششیں روسی کمیونسٹوں کے خلاف وطنِ عزیز افغانستان میں صرف کیں، اور افغانستان کی جملہ مسلم جماعتیں اس عظیم جمعیت کے ساتھ متفق اور متحد تھیں۔ اور یہ جمعیت محمد اسماعیل مجددی، جنہوں نے محمود غزنویؒ کے پوتوں کو سرکش ظالموں کی سرکوبی کے لیے تیار کیا تھا، کی قیادت میں سرگرم عمل تھی۔

مولانا منصور شہیدؒ نے جامعہ نور المدارس سے فراغت حاصل کی اور ممتاز درجہ میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ اسلامی علوم سے فراغت کے بعد مولانا منصورؒ علم کے حقوق کی ادائیگی میں لگ گئے، یعنی دینی علوم کی تدریس اور تعلیم میں مصروف ہو گئے۔ کمیونسٹ روسی چونکہ افغانستان کے مختلف علاقوں میں کثیر تعداد میں تھے، لہٰذا انہوں نے اس بطلِ حریت کو ہر طرح کے حیلے کر کے قید کرنا چاہا۔ کیونکہ وہ روسی کمیونسٹوں کے گندے عزائم کے سامنے سدِ سکندری تھے۔ ان حالات میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم ’’ارض اللہ واسعۃ فتہاجروا فیہا‘‘ کو بسر و چشم قبول کیا۔ وطنِ عزیز کو خیرباد کہہ کر شاہی کوٹ چلے آئے جو کہ مجاہدینِ اسلام افغانستان کا مرکز اور معسکر تھا، اور وہاں پہنچ کر نوجوانوں کو اسلامی تعلیم کے ساتھ روسیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرتے رہے۔ شاہی کوٹ میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ بھی بے سروسامانی کے عالم میں خیموں میں جاری رہا۔ باوجود اس کے کہ کبھی کبھار تند ہوا سے خیموں کی رسیاں ٹوٹی جاتی تھیں، منصورؒ نوجوانوں کو روسیوں کے مقابلہ کے لیے بلند ہمتی کے ساتھ تیار کرتے رہے۔

روسی جارحیت کے کچھ ہی عرصہ بعد پاکستان کے علاقہ میران شاہ میں آگئے تاکہ اللہ تعالیٰ، اس کے دین اور مجاہدینِ اسلام کے دشمنوں کے مکروہ قید و بند تکالیف سے نجات حاصل کر کے ان کی بری تدابیر کا سدباب کیا جائے۔ روسی اگرچہ افغانستان کے مختلف شہروں اور صوبوں میں موجود تھے لیکن علماء اور عوام پر اپنا تسلط قائم نہ کر سکے، اور انہی دنوں منصور شہیدؒ نے اپنا نام تبدیل کر لیا تاکہ روسی سازشوں سے محفوظ رہیں۔

روسی کمیونسٹ انقلاب کے بعد جب تراکئی اور حفیظ اللہ امین کرسی اقتدار پر بیٹھے تو انہوں نے کمیونسٹ روسی نظام کو افغانستان کی سرزمین پر مسلط کرنا چاہا۔ علماء کرام اس نظام کے خلاف سرگرم عمل ہوئے تو حکومت نے علماء کو جیلوں میں بند کرنا شروع کر دیا۔ اسی پاداش میں منصورؒ کو بھی کابل جیل میں بند کر دیا گیا اور دوسرے مشائخ کو، مثلاً جمعیت خدام الفرقان جو کہ جہاد فی سبیل اللہ کے لیے بنائی گئی، اس جمعیت کے بانی مرشد المشائخ مجددی بن نور المشائخ اور حضرت مولانا فضل عمر مجددی کو بھی قید میں ڈالا گیا۔ تاہم کابل جیل کا جیلر منصورؒ کا ہم وطن تھا، چنانچہ اس نے مولانا شہید کو رہا کر دیا۔

اس کے بعد منصور شہیدؒ شیخ محمد بن محمدی کے ساتھ پاکستان آئے اور فقیہ العصر مولانا مفتی محمودؒ قدس سرہ سے مشاورت کی۔ ’’حرکت الانقلابیہ الاسلامیہ‘‘ کے نوجوانوں نے شریعت کے نفاذ کے لیے قربانیاں دیں تاکہ مذکورہ قیادت کے زیرسایہ افغانستان میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو جائے۔ اس لیے کہ مسلمان مجاہدین کا مطمح نظر ایک ہی تھا کہ افغانستان میں دین کا پرچم سربلند ہو۔ اور حرکت کی انتھک کوششوں سے قریب تھا کہ روسی حکومت کا خاتمہ ہو جائے، لیکن روس نے تازہ دم فوج ’’جیش احمر‘‘ (Red Army) کو مجاہدین کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا، لیکن حرکت کے نوجوانوں نے، جو کہ منصور شہیدؒ کی کمان میں لڑ رہے تھے، ڈٹ کر مقابلہ کیا اور دین کی سربلندی کے لیے خون کو بہایا اور ہزاروں علماء کرام نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

ان مجاہدین میں سے سینکڑوں نے جام شہادت نوش کیا جن میں صوبہ پکتیکا کے حضرت مولانا پیر محمد الوقفی شہیدؒ، صوبہ پغمان کے مولوی عبد الرحیم الحنفی شہیدؒ، غزنی کے قاری عبد اللہ دانش شہیدؒ، ہلمند کے مولانا محمد نسیم شہیدؒ، زابل کے مولوی مدد خانؒ اور مولوی محمد موسیٰ کلیم شہیدؒ، اور کابل کے مولوی شفیع اللہ شہیدؒ شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے جور رحمت میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔

اسی دوران پاکستان کے مرد مجاہد بطل حریت حضرت مولانا ارشاد احمد شہیدؒ نے ’’حرکت الجہاد الاسلامی العالمی‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ یہ پہلے مرد مجاہد تھے جنہوں نے دین کو اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیا اور کفر کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اس کو لرزہ خیز کر دیا اور اسی کشمکش میں رب العالمین کا پڑوس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جب مولانا ارشاد شہیدؒ نے جہاد کی مہم شروع کی تو حضرت مولانا عبد الحق رحمہ اللہ تعالیٰ رئیس دارالعلوم الحقانیہ اکوڑہ خٹک سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد شہیدؒ کو مولانا منصور شہیدؒ کی رفاقت اختیار کرنے کے لیے فرمایا اور ارشاد شہیدؒ کا منصور شہید سے بڑا گہرا تعلق تھا، اور حرکت الجہاد الاسلامی العالمی بھی منصور شہید کے زیر اثر برسرپیکار رہی ہے۔

منصور شہیدؒ حلیم الطبع اور نرم خو شخصیت کے حامل تھے اور فیصلہ کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمر بن عبد العزیزؓ کی اقتدا کرتے تھے۔ اس کی نمایاں مثال ایک واقعہ ہے کہ ان کی جماعت کے ایک ذیلی امیر نے گیارہ آدمیوں کو ناحق قتل کر دیا۔ منصور شہیدؒ نے مقتول کے ورثا اور عامۃ الناس کو جمع کیا تاکہ امیر سے قصاص لیا جائے۔ مجاہدین نے اصرار کیا کہ امیر کو قصاص میں قتل نہ کیا جائے ورنہ رسوائی ہو گی، اور اگر نہ چھوڑا گیا تو ہم تمہارا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ منصور شہیدؒ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو اختیار کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے حالات کی پروا کیے بغیر اللہ تعالیٰ کے احکام حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے قصاص کا فیصلہ کر دیا۔

منصور شہیدؒ افغانستان کے جہاد ہی کے ذمہ دار نہ تھے بلکہ اتحاد اسلامی کے خصوصی رکن بھی تھے۔ اور افغانستان کی آزادی کے لیے کوشاں حرکت الانقلاب الاسلامیہ کے نائب رئیس بھی تھے۔ اس کے علاوہ سات متحدہ افغانی جماعتوں کے سیکرٹری بھی تھے۔ آزادئ افغانستان کے بعد حرکت الانقلاب الاسلامیہ کے نائب بن گئے اور زندگی کے آخری ایام میں مجلس الاعلیٰ للقضاء کے رئیس تھے اور گردیز کے والی بھی بن گئے۔ گویا منصور شہیدؒ تمام جماعتوں میں مشترک حیثیت رکھتے تھے۔

ظالم کمیونسٹوں نے منصورؒ کے خلاف سازش کی، وہ قافلہ کی صورت میں کابل سے گردیز کی طرف سفر کر رہے تھے کہ ان کی گاڑی میں نصب کیا جانے والا بم پھٹ گیا۔ منصور شہیدؒ کے ساتھی انجینئروں نے انہیں بتایا تھا کہ آپ اپنی گاڑی چھوڑ دیں، لیکن وہ نہ مانے، انہیں گمان بھی نہیں تھا کہ ان کے ساتھ یہ کچھ ہو جائے گا۔ منصور شہیدؒ کی گاڑی میں چھ محافظوں کے علاوہ ولایت لوگر کے مولوی ضبطو خان بھی موجود تھے جو کہ حرکت الانقلاب الاسلامیہ کے قائدین میں سے تھے۔ تھوڑی دیر چلنے کے بعد انہوں نے کسی چیز کی بدبو محسوس کی لیکن سمجھ نہ سکے کہ کیا چیز ہو سکتی ہے۔ گاڑی کو روکا، اترے اور دیکھا لیکن کسی چیز کو نہ پایا، چنانچہ سفر جاری رکھا۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر گاڑی سے دھواں اٹھتا ہوا محسوس ہوا تو ارادہ کیا کہ گاڑی کو کسی پانی والی جگہ پر روک کر تفتیش کریں۔ مگر چند لمحوں بعد ہی بم پھٹ گیا اور گاڑی کے پرخچے اڑ گئے اور منصور شہیدؒ اپنے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہماری اور تمام امتِ مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے اور جنت نعیم میں ان کا ٹھکانہ بنائیں، آمین ثم آمین۔

شخصیات

(اپریل ۱۹۹۵ء)

اپریل ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter