بنی اسرائیل مصر میں
بائبل کے داخلی تضادات پر دلچسپ بحث

محمد یاسین عابد

مصر میں آمد کے وقت بنی اسرائیل کی تعداد

پیدائش ۴۶ : ۸ تا ۲۷ کے مطابق مصر میں آمد کے وقت یعقوبؑ سمیت بنی اسرائیل کی تعداد ۷۰ تھی۔ حضرت یعقوبؑ کے کل ۱۲ بیٹے تھے جو کہ آپ کی دو بیویوں لیاہ اور راخل اور دو لونڈیوں زلفہ اور بلہاہ سے پیدا ہوئے۔

’’لیاہ کے بیٹے یہ تھے: روبن یعقوب کا پہلوٹھا اور شمعون اور لاوی اور یہوداہ اور اشکار اور زبولون۔ اور راخل کے بیٹے یوسف اور بن یامین تھے، اور راخل کی لونڈی بلہاہ کے بیٹے دان اور نفتالی تھے، اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بیٹے جد اور آشر تھے۔‘‘ (پیدائش ۳۵ : ۲۳ تا ۲۶)

پیدائش ۴۶ : ۸ تا ۲۷ میں یعقوبؑ کے ۱۲ بیٹوں کی تمام اولاد کے نام درج ہیں۔ یعقوبؑ اور ان کی بیٹی دینہ کو ملا کر کل تعداد ستر بنتی ہے۔ خروج ۱ : ۵ میں لکھا ہے:

’’سب جانیں جو یعقوبؑ کے صلب سے پیدا ہوئیں، ستر تھیں۔‘‘

واضح ہو کہ یہاں یعقوبؑ کو شمار نہیں کیا گیا، اگر یعقوبؑ کو بھی شامل کر لیا جائے تو تعداد ۷۱ ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر ہم انجیل شریف کا مطالعہ کریں تو تعداد میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ لکھا ہے:

’’یوسف نے اپنے باپ یعقوب اور سارے کنبے کو، جو پچھتر جانیں تھیں، بلا بھیجا۔‘‘ (اعمال ۷ : ۱۴)

انجیل کی اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ یوسفؑ اور اس کے دونوں بیٹوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو تعداد ۷۵ + ۳ = ۷۸ ہو جاتی ہے۔

بنی بن یامین کی تعداد

توراۃ کے مطابق بن یامین کے ۱۰ بیٹوں کو شامل کر کے بنی اسرائیل کی کل تعداد ۷۰ بنتی ہے (پیدائش ۴۶ : ۲۱)۔ لیکن ۱۔تواریخ ۸ : ۱، ۲ کے مطابق بن یامین کے بیٹوں کی تعداد پانچ عدد ہے۔ یوں بنی اسرائیل کی تعداد ۷۰ سے کم ہو کر ۶۵ رہ جاتی ہے۔ تعداد میں مزید کمی ہوتی ہے جب ہم ۱۔تواریخ ۷ : ۶ میں بن یامین کے بیٹوں کی کل تعداد صرف تین دیکھتے ہیں۔ یوں مصر میں آمد کے وقت بنی اسرائیل کی کل تعداد صرف ۶۳ بنتی ہے۔ اب نہیں معلوم کہ بنی اسرائیل کی تعداد ۶۳ تھی یا ۶۵ یا ۷۰ یا ۷۱ یا ۷۸؟

مصر میں قیام کی مدت

خدا نے ابرہام سے کہا:

’’یقین جان کہ تیری نسل کے لوگ ایسے ملک میں، جو ان کا نہیں، پردیسی ہوں گے اور وہاں کے لوگوں کی غلامی کریں گے اور وہ چار سو برس تک ان کو دکھ دیں گے۔‘‘ (پیدائش ۱۵ : ۱۳)

لیکن افسوس کہ بنی اسرائیل کو خدا کے وعدہ سے ۳۰ برس زیادہ مصریوں کی غلامی کرنا پڑی، جیسا کہ بائبل مقدس میں ہے:

’’بنی اسرائیل کو مصر میں بود و باش کرتے ہوئے ۴۳۰ برس ہوئے تھے اور ان چار سو تیس برسوں کے گزر جانے پر ٹھیک اسی روز خداوند کا سارا لشکر ملک مصر سے نکل گیا۔‘‘ (خروج ۱۲ : ۴۰، ۴۱)

وعدۂ برکت اور نزولِ شریعت کا درمیانی عرصہ

انجیل میں ہے:

’’جس عہد کی خدا نے پہلے سے تصدیق کی تھی اس کو شریعت چار سو تیس برس کے بعد آ کر باطل نہیں کر سکتی کہ وعدہ لاحاصل ہو۔ کیونکہ اگر میراث شریعت کے سبب سے ملی ہے تو وعدہ کے سبب سے نہ ہوئی، مگر ابرہام کو خدا نے وعدہ ہی کی راہ سے بخشی۔‘‘ (گلتیوں ۳ : ۱۶ تا ۱۸)

یعنی وعدۂ برکت اور نزولِ توراۃ کے درمیان ۴۳۰ برس کا عرصہ ہے۔ آئیے بائبل کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔ وعدۂ برکت کے وقت ابراہیمؑ کی عمر ۷۵ سال تھی (ایضاً ۱۲ : ۴)۔ ولادتِ اسحاقؑ کے وقت آپ کی عمر ۱۰۰ سال تھی (ایضاً ۲۱ : ۵)۔ یعنی وعدۂ برکت سے ولادتِ اسحاقؑ تک ۲۵ برس بنتے ہیں۔ ولادتِ اسحاقؑ سے ولادتِ یعقوبؑ تک ۶۰ برس کا عرصہ ہے (ایضاً ۲۵ : ۲۶)۔ یعنی وعدۂ برکت سے ولادتِ یعقوبؑ تک ۲۵ + ۶۰ = ۸۵ برس ہوئے۔ اور مصر میں بنی اسرائیل کی آمد کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام کی عمر ۱۳۰ برس تھی (پیدائش ۴۷ : ۹)۔ یعنی وعدۂ برکت سے مصر میں آمد تک ۸۵ + ۱۳۰ = ۲۱۵ برس بنتے ہیں۔ مصر میں قیام کی مدت، جیسا کہ اوپر گزرا، ۴۳۰ برس ہے۔ یعنی وعدۂ برکت سے لے کر مصر سے خروج تک ۲۱۵ + ۴۳۰ = ۶۴۵ برس بنتے ہیں۔

اس تفصیل کی رو سے انجیل کا یہ بیان کہ شریعت وعدۂ برکت کے ۴۳۰ سال بعد نازل ہوئی، غلط ٹھہرتا ہے، کیونکہ توراۃ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ توراۃ کا سلسلہ بنی اسرائیل کے مصر سے خروج کے کافی عرصہ بعد شروع ہوا۔ بالفرض اگر یہ مان لیا جائے کہ خروج کے روز ہی شریعت کا نزول شروع ہو گیا تھا، تب بھی وعدۂ برکت اور نزولِ شریعت کے درمیان ۶۴۵ برس کا عرصہ بنتا ہے۔ وعدۂ برکت سے مصر میں آمد تک ۲۱۵ سال + مصر میں قیام کی مدت ۴۳۰ سال = ۶۴۵

اور اگر انجیل کا یہ بیان درست مان لیا جائے تو توراۃ کا یہ بیان غلط ٹھہرتا ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں چار سو تیس برس رہے۔ اس صورت میں مصر میں ان کے قیام کا عرصہ ۲۱۵ برس ماننا پڑے گا، کیونکہ اوپر ہم یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وعدۂ برکت سے مصر میں آمد تک کا عرصہ ۲۱۵ برس ہے۔ اس کے بعد شریعت کے نزول کے عرصہ (۴۳۰ برس) تک، مصر میں قیام کی مدت ۲۱۵ برس ہی بنتی ہے۔ چنانچہ توراۃ اور انجیل دونوں کے بیانات بیک وقت کسی طرح درست نہیں ہو سکتے۔

عمرام و یوکبد

حضرت موسٰی علیہ السلام کے والد کا نام عمرام اور والدہ کا نام یوکبد تھا (خروج ۶ : ۲۰)۔ یوکبد یعقوبؑ کے بیٹے لاوی کی بیٹی تھی جو مصر میں آمد کے بالکل تھوڑے عرصے بعد پیدا ہوئی تھی (گنتی ۲۶ : ۵۹)۔ گو کہ بائبل میں یہ تصریح نہیں کہ یوکبد اور عمرام کی پیدائش مصر میں آمد کے کتنی دیر بعد ہوئی، لیکن توراۃ کے بنظر عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوکبد اور عمران کی پیدائش مصر میں آمد کے بعد جلد ہی ہو گئی تھی، کیونکہ یوسفؑ کے بیچے جانے سے کافی عرصہ قبل جب دینہ کی بے حرمتی کی گئی (پیدائش ۳۴ : ۱ تا ۳) تو شمعون اور لاوی نے اس طرح بدلہ لیا کہ

’’اپنی اپنی تلوار لے کر ناگہاں شہر پر آ پڑے اور سب مردوں کو قتل کیا، حمور اور اس کے بیٹے سکم کو بھی تلوار سے قتل کر ڈالا، اور سکم کے گھر سے دینہ کو نکال لے گئے، اور یعقوبؑ کے بیٹے مقتولوں پر آئے اور شہر کو لوٹا، اس لیے کہ انہوں نے ان کی بہن کو بے حرمت کیا تھا، انہوں نے ان کی بھیڑ بکریاں اور گائے بیل اور گدھے اور جو کچھ شہر اور کھیت میں تھا، لے لیے، اور ان کی سب دولت لوٹی اور ان کے بچوں اور بیویوں کو اسیر کر لیا اور جو کچھ گھر میں تھا سب لوٹ کھسوٹ کر لے گئے۔‘‘ (پیدائش ۳۴ : ۲۵ تا ۲۹)

صرف دو آدمیوں کا پورے شہر کو ملیامیٹ کر دینا، کھیتوں کو اجاڑ دینا، اتنی بڑی لوٹ کھسوٹ کر کے بچوں اور عورتوں کو اسیر کر لینا اس امر پر دال ہے کہ شمعون اور لاوی اس وقت بچے نہیں تھے بلکہ زبردست طاقت کے مالک جوان تھے، اور عورتوں کا اسیر کرنا ان کے شادی شدہ ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ اغلب ہے کہ شمعون اور لاوی اس وقت صاحبِ اولاد تھے، کیونکہ ان کی سب سے چھوٹی بہن دینہ بھی اس وقت پوری جوان تھی۔ حمور کے بیٹے سکم کی دینہ سے عشقیہ میٹھی میٹھی باتیں دینہ کے جوان ہونے پر دال ہیں (ایضاً ۳۴ : ۳)۔ اس لیے کئی گنا بڑا بھائی لاوی تو ضرور اس وقت بچوں والا ہو گا۔

اس واقعہ کے کافی عرصہ بعد بن یامین کی پیدائش اور راخل کی وفات ہوئی (ایضاً ۳۵ : ۱۸، ۱۹)۔ پھر اس کے بعد روبن کا اپنی ماں کے ساتھ زنا کا واقعہ پیش آیا (پیدائش ۳۵ : ۲۲)۔ اس کے کافی عرصہ بعد یوسفؑ کو فروخت کیا گیا (ایضاً ۳۷ : ۲۸ تا ۳۶)۔ اس کے بعد لاوی کے چھوٹے بھائی یہوداہ نے عدلامی حیرہ کی مدد سے سوع کنعانی کی بیٹی سے بیاہ کر لیا (ایضاً ۳۸ : ۱، ۲)۔ پھر یکے بعد دیگرے یہوداہ کے تین بیٹے (۱) عیر (۲) اونان (۳) سیلہ پیدا ہوئے۔ اغلب ہے کہ لاوی اس وقت تک بوڑھا ہونے کے قریب ہو گا۔ اس کے کافی عرصہ بعد عیر جوان ہوا اور اس کی شادی یسوع مسیحؑ کی مشہور دادی تمر سے ہوئی (پیدائش ۳۸ : ۶ ، متی ۱ : ۳ ، روت ۴ : ۱۲)۔ پھر تمرہ بیوہ ہوئی تو اسے اونان سے بیاہ دیا گیا۔ پھر کافی عرصہ بعد اونان بھی مر گیا۔ اس وقت تک سیلہ نابالغ تھا، جب سیلہ بالغ ہوا تو تمر نے اپنے سسر یہوداہ سے زنا کروا لیا اور فارص کو جنم دیا (پیدائش ۳۸ : ۱۳ تا ۳۰)۔ اس وقت تک یہوداہ کے دو بیٹے جوان ہو کر مر چکے تھے اور تیسرا سیلہ جو اونان کی موت کے وقت ابھی بچہ تھا (ایضاً) ۳۸ : ۱۱) وہ بھی جوان ہو چکا تھا۔

لہٰذا ضروری امر ہے کہ لاوی کے بیٹے (۱) جیر سون (۲) قہات (۳) صراری بھی صاحبِ اولاد ہوں گے، کیونکہ لاوی یہوداہ سے بھی بڑا تھا اور یہوداہ سے بہت دیر پہلے شادی شدہ تھا۔ اغلب ہے کہ فارص کی پیدائش تک قہات ضرور ہی جوان بلکہ شادی شدہ ہو گا اور لاوی بوڑھا ہو چکا ہو گا۔ پھر فارص بھی پل کر جوان ہوا، شادی شدہ ہوا، پھر یکے بعد دیگرے دو بیٹے حصرون اور حمول پیدا ہوئے (پیدائش ۴۶ : ۱۲)۔ مصر میں آمد کے وقت یہ حصرون اور حمول یعقوبؑ کے ساتھ تھے۔ یعنی ہجرتِ مصرت کے وقت لاوی خوب بوڑھا ہو چکا تھا۔ اس لیے گمان غالب یہی ہے کہ بوڑھے لاوی سے موسٰیؑ کی والدہ یوکبد کی پیدائش مصر میں آمد کے بعد جلد ہی ہوئی ہو گی (گنتی ۲۶ : ۵۹)۔ قہات جو کہ عیر اور اونان سے بھی بڑا تھا، مصر میں آمد کے وقت ادھیڑ عمر ہو گا۔ کنعان سے مصر آنے والے بنی اسرائیل میں قہات کے بیٹے عمرام کا کوئی ذکر نہیں۔ اس لیے ظاہر ہے کہ عمرام بھی اپنی پھوپھی یوکبد کا ہم عمر تھا۔ یعنی عمرام اور یوکبد کنعان سے مصر ہجرت والے سال پیدا ہوئے تھے۔

اس طرح اگر مصر میں بنی اسرائیل کے قیام کی مدت ۴۳۰ برس تسلیم کر لی جائے (خروج ۱۲ : ۴۰، ۴۱) تو موسٰیؑ کی ولادت کے وقت عمرام اور یوکبد کی عمر ۳۵۰ برس ماننی پڑے گی۔ کیونکہ حضرت موسٰی علیہ السلام ۸۰ برس کے تھے جب بنی اسرائیل نے مصر سے خروج کیا (خروج ۷ : ۷)۔ ادھر بائبل سے ثابت ہے کہ عمرام کی کل عمر ۱۳۷ تھی (خروج ۶ : ۲۰)۔ اور اگر مصر میں بنی اسرائیل کا قیام ۲۱۵ برس تسلیم کیا جائے (جیسا کہ گلتیوں ۳ : ۱۶ تا ۱۸ کی بحث سے ثابت ہوتا ہے) تو ولادتِ موسٰیؑ کے وقت عمرام اور یوکبد کی عمر ۲۱۵ - ۸۰ = ۱۳۵ برس بنتی ہے جو کہ بالکل ناقابل قبول بات ہے۔ کیونکہ بائبل کے مطابق نوے برس کی عورت اس قابل نہیں ہوتی کہ اس کے اولاد ہو (پیدائش ۱۸ : ۱۱)۔ اس لیے ماننا پڑے گا کہ ولادت ِموسٰیؑ کے وقت یوکبد جوان عورت تھی، زیادہ سے زیادہ ۴۰ برس کی۔

خروج ۲ : ۱ و ۲ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمرام نے موسٰیؑ کی ولادت سے بالکل تھوڑی مدت پہلے اپنی پھوپھی یوکبد سے نکاح کر لیا تھا۔ ہارون اور مریم چونکہ موسٰی سے بڑے تھے اس لیے ولادت ِموسٰی سے تقریباً سات یا آٹھ برس قبل دونوں پھوپھی بھتیجے کا بیاہ ہوا ہو گا۔ اور پھر خروج ۲ : ۷ تا ۱۰ بھی یوکبد کے جوان ہونے پر دال ہے کیونکہ موسٰیؑ کی والدہ محترمہ فرعون کے گھر میں دایہ کے فرائض سر انجام دیتی تھیں (پیدائش ۲: ۷ تا ۹)۔ جوان عورت ہی زچہ ہونے کے ساتھ ساتھ دایہ کے فرائض بھی انجام دے سکتی ہے۔ اگر موسٰی کی پیدائش ۱۳۵ سالہ بوڑھی یوکبد سے معجزانہ بھی ہوئی ہوتی تو فرعون کی بیٹی موسٰیؑ کو دودھ پلانے کے لیے اتنی بوڑھی دایہ کو کیونکر قبول کر سکتی تھی؟ چنانچہ ماننا پڑے گا کہ ولادتِ موسٰیؑ کے وقت یوکبد زیادہ سے زیادہ ۴۰ برس کی جوان عورت تھی۔ مصر سے خروج کے وقت موسٰیؑ کی عمر ۸۰ برس تھی۔ اگر ولادتِ موسٰیؑ کے وقت یوکبد کی عمر ۴۰ برس بھی تسلیم کر لی جائے تو مصر میں بنی اسرائیل کے قیام کی مدت ۴۰ + ۸۰ = ۱۲۰ برس بنتی ہے۔

مفسر پادری رس ارون صاحب کی تحقیق کے مطابق حضرت موسٰی علیہ السلام کی ولادت حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے ۶۴ برس بعد ہوئی (تفسیر کتاب پیدائش، ناشر مسیحی اشاعت خانہ لاہور، ص ۱۰)۔ حضرت یوسفؑ کی وفات تک بنی اسرائیل کے مصر میں قیام کی مدت ۷۰ برس تھی کیونکہ حضرت یوسفؑ کی ولادت کے وقت حضرت یعقوبؑ کی عمر ۹۰ برس تھی (قاموس الکتاب ص ۱۱۷۳ کالم ۲)۔ اور مصر میں آمد کے وقت حضرت یعقوبؑ کی عمر ۱۳۰ برس تھی (پیدائش ۴۷ : ۹)۔ یعنی مصر میں بنی اسرائیل کی آمد کے وقت یوسفؑ کی عمر ۱۳۰ - ۱۹۰ = ۴۰ برس تھی۔ یوسف کی کل عمر ۱۱۰ برس ہوئی (ایضاً)۔ یعنی یوسفؑ کی وفات تک مصر میں بنی اسرائیل کے قیام کی مدت ۱۱۰ - ۴۰ = ۷۰ برس بنتی ہے۔ لہٰذا ولادتِ موسٰیؑ تک مصر میں قیام کا عرصہ ۷۰ + ۶۴ = ۱۳۴ برس بنتا ہے۔ خروج کے وقت چونکہ موسٰیؑ کی عمر ۸۰ برس تھی اس لیے مصر میں آمد سے خروج تک ۱۳۴ + ۸۰ = ۲۱۴ برس کا عرصہ بنتا ہے۔

مذاہب عالم

(اپریل ۱۹۹۵ء)

اپریل ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter