برطانوی نوآبادیاتی نظام برصغیر میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی ایک کوشش تھی جو یورپی سامراج نے ان نوآبادیاتی نظاموں سے (جس کا تجربہ فرانس کے تحت شمالی افریقہ کے ممالک، اور ہالینڈ کے تحت انڈونیشیا کے عوام کر رہے تھے) اپنی نوعیت کے اعتبار سے زیادہ مؤثر، گہرا اور دور رس نتائج کا حامل، اور سختی اور تشدد کے لحاظ سے نسبتاً کمتر درجے کا تھا۔ لیکن اس کے باوجود برطانوی نوآبادیاتی نظام نے اس خطے میں اپنے غلاموں کے ذہنوں پر پائیدار اثرات چھوڑے ہیں۔ چنانچہ آج پاکستان اپنے دورِ غلامی کے ناخوشگوار تجربات سے اتنے مختلف طریقوں سے چمٹا ہوا ہے کہ ہمارے شرفاء کو اس کا اندازہ تک نہیں، اور نہ ہی کبھی انہوں نے یہ جاننے کی پرواہ کی ہے کہ ’’تحقیق و تشویش‘‘ کا یہ فقدان دراصل خود بھی ہمارے عوام کی نوآبادیاتی نظام سے متاثرہ ذہنیت کا ورثہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان آج بھی انگریزی ہے، جس سے ہم ماضی کی ایک علامت سمجھ کر آسانی سے صَرفِ نظر کر جاتے ہیں، اور اس طرح ایک ایسی حقیقت سے چشم پوشی کر جاتے ہیں جس کا تجزیہ دقتِ نظر سے کیا جانا چاہیے۔ پاکستان کا معزز طبقہ انگریزی بولتا ہے، لندن اور نیویارک کی سیر کرتا ہے، مغربی لباس زیب تن کرتا ہے، وہاں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کی آرزوئیں اس کے دل میں مچلتی رہتی ہیں۔ مختصر یہ کہ ہمارا اونچا طبقہ اس قدر وسیع المشرب بننے کی کوشش کرتا ہے جو ہمارے ان سابقہ آقاؤں کی خوشنودی کا باعث ہو، جو کچھ عرصہ قبل ہی یہ ملک چھوڑ کر گئے ہیں۔ یعنی وہی دو ہزار انگریز افسر جنہوں نے برصغیر کے چالیس کروڑ مقامی باشندوں پر حکومت کی۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ انگریز ایک ایسا طبقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو لارڈ کرومر کے الفاظ میں رنگ اور نسل کے اعتبار سے تو بے شک ہندوستانی میں ہو، لیکن انڈین سول سروس میں آنے کے بعد اپنے طور اطوار، مزاج، اور اندازِ فکر و نظر میں انگریز بن جائے۔ لیکن آج جو چیز ہمیں نوآبادیاتی تجربے کی کامیابی کی علامت دکھائی دیتی ہے، وہ دراصل اس احساسِ کمتری اور احساسِ ندامت کی غمازی کرتی ہے جو ہمارے سابق حکمران ہمارے ذہنوں پر مرتسم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمارے نوآبادیاتی تجربے نے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں، انگریزی زبان اس کا صرف ایک نقش ہے۔
دوسری نشانی لباس ہے، چنانچہ ہمارے معززین یعنی گندمی رنگ کے صاحب لوگ نہ صرف اپنے سابق حکمرانوں کی زبان کی نقالی پر نازاں و فرحاں ہیں، بلکہ انہوں نے شلوار قمیص اور پگڑی سے بھی جان چھڑا کر تھری پیس سوٹ اور سفاری لباس اپنا لیا ہے جس کو برطانوی دور میں حکومت میں نچلے طبقے کے مقامی یعنی ’’کمی کمین‘‘ پہنتے تھے، اور کسی زمانے میں وہ ہمارے نوابوں اور مہاراجاؤں کا لباس ہوا کرتا تھا۔ اس کے برعکس ہمارے براؤن صاحبان کا ابھرتا ہوا طبقہ فوراً ٹائی اور پتلون پہننے لگا۔ یہ طبقہ مقامی لباس صرف ان مواقع پر استعمال کرنے لگا جو بالکل مقامی نوعیت کے ہوتے، مثال کے طور پر تمام افسر جو برطانوی عہد میں انڈین سول سروس میں شامل ہوتے، انہوں نے اپنے حکامِ بالا والا لباس پہننا شروع کر دیا۔ اسی طرح جو مقامی لوگ فوج اور پولیس میں شامل ہوئے انہوں نے بھی انگریزوں والی وردی پہننی شروع کر دی۔
اس طرح علامت کے طور پر ایک نئی طبقاتی تقسیم وجود میں آ گئی۔ جہاں تک نچلے عملے کا تعلق ہے جیسے چوکیدار، بیرے، یا اسی قسم کے وہ ملازم جو چھوٹے موٹے کام کرتے تھے، وہ مختلف قسم کا مقامی لباس استعمال کرتے جو شلوار قمیص اور پگڑی پر مشتمل ہوتا، اور یہی لباس ہمارے مقامی نوابوں اور جاگیرداروں کا تھا۔ اس طرح انگریزوں نے غیر ارادی طور پر نہ صرف ہمارے مقامی لباس کی ایک گونہ توہین کی بلکہ ہمارے مقامی نوابوں کو بھی ان کے نمایاں تشخص سے محروم کر دیا۔
اس طرح انگریزوں نے جو طبقاتی تقسیم متعارف کرائی وہ نہایت سادہ خطوط پر استوار تھی۔ وہ مقامی لوگ جنہوں نے زبان اور لباس میں آقاؤں کی تقلید کی، وہ شرفاء (ایلیٹ) کہلائے۔ جو تقلید نہ کر پائے وہ متروک و مردود قرار پائے۔ یہ متروک طبقہ لاہور اور دہلی جیسے شہروں کے پسماندہ علاقوں میں کسمپرسی کی حالت میں دھکیل دیا گیا، جبکہ مسابقت کی دوڑ میں ہمارے شرفاء (براؤن صاحب) نواحی کنٹونمنٹ میں نوتعمیر کوٹھیوں میں منتقل ہو گئے۔ تاہم انہوں نے ’’مقامیت‘‘ کا لبادہ پوری طرح تار تار نہیں کیا بلکہ مقامی تشخص کے ساتھ ان کا ارتباط ایسی ایک شعوری کوشش کی صورت میں رہا، جو ان کے لیے ایک طرح کی قابلِ نفرت چیز تھی۔ مختصر یہ کہ ہم اپنے آپ کو ایسے قدیم باشندے سمجھنے لگے جو جدید اور مہذب بننے کی کوشش میں وادی پرخار میں آبلہ پا ہو رہے ہوں۔
انگریز جس وقت ہندوستان کو ’’مہذب‘‘ بنانے میں مصروف تھے، اس دوران انہوں نے تہذیب کے بعض ایسے پہلوؤں کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا جنہیں تازہ زندگی بخشنے کی ضرورت تھی۔ اس میں شک نہیں کہ کوئی تہذیب یا ثقافت ہر لحاظ سے مکمل نہیں ہوتی، اور اس کے بعض پہلو ایسے ہوتے ہیں جن کی اصلاح اور درستی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہماری تہذیب و ثقافت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھی اور نہ اب ہے۔ تاہم انگریزوں نے ہماری ثقافت کے بعض ایسے پہلوؤں کو بہتر بنانے کا اہتمام کیا جن پہلوؤں کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرنا ہم پر چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ اس طرح انہوں نے ہمیں قومی شعور و افتخار سے محروم کر دیا۔ چنانچہ ہم اصلاح کے لیے خودکار دائمی عمل سے گزرنے کی بجائے کورانہ تقلید کی دلدل میں کھو کر رہ گئے۔ حالانکہ اپنی اصلاح خود کرنے کا حق ہر معاشرے کو حاصل ہونا چاہیے۔
اس استحقاق سے محروم کیے جانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے بسا اوقات اپنی عظیم ثقافت، ورثے اور تہذیب کی طرف دیکھنے اور اس کی اصلاح کی بجائے اسے مسترد کر دیا، اور اس طرز زندگی اور اس عمل کی نقالی شروع کر دی جو ہمارے لیے اجنبی تھا۔ اس کے نتیجے میں ہم ذہنی اور نفسیاتی خلفشار کا شکار ہو گئے ہیں، ایک لمحہ میں ہم انگریز بن جاتے ہیں اور دوسرے لمحے مسلمان، البتہ بالادستی انگریزی تشخص کو ہی حاصل ہوتی رہی۔ اگر کبھی کبھار ہم پر مقامی تشخص اجاگر کرنے کا دورہ پڑتا ہے تو وہ جلد ہی کورانہ تقلید، جو اَب ہمارے لیے ایک فطری عمل بن چکا ہے، کی دھند میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ ہم اپنے ان راہنماؤں کا منہ تو چڑاتے ہیں جو نہ تو صاف ستھری انگریزی بول سکتے ہیں اور نہ ہی مغربی محاوارت اور روز مرہ کی سدھ بدھ رکھتے ہیں (اس سلسلہ میں فرائیڈے ٹائمز میں اتفاق نامہ خود تحقیری کے بہترین نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے) لیکن ہم اپنے ان راہنماؤں سے اغماض برتتے ہیں جو اردو بھی صحیح نہیں بول سکتے اور خود اپنے ہی وطن میں اجنبی بن چکے ہیں۔
آج جبکہ ہماری تیسری نسل قومی قیادت سنبھالنے کے لیے پر تول رہی ہے، ہماری ثقافتی پراگندگی کم تو کیا ہوتی بلکہ الٹا اس نے منافقتوں کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے، جن سے ہمارا معاشرہ سر تا پا آلودہ ہے۔ کسی ثقافت سے اس کی اچھی چیزیں اخذ کر لینا کوئی بری بات نہیں، البتہ ذہنی غلامی ضرور بری بات ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت انتخاب کے لیے بہت سے راستے کھلے ہیں اور ایک ایسا ورثہ بھی ہمارے سامنے ہے جس پر قابو پانا مشکل ہے۔ لیکن تبدیلی کا جو عزم بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا صحیح اور واضح تصور ہمارے ذہن میں ہو۔ اب تک تو ہم انتہاؤں کے درمیان لڑکھتے رہے ہیں، یا پھر ہم جن چیزوں میں سے صاف انتخابات کر سکتے تھے، ان کے بارے میں بھی گومگو کی کیفیت میں رہے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں گورے اور کالے کے حوالے سے سوچنے کی بجائے ہمیں مغربی اور مشرقی تہذیب کے حسین امتزاج سے پیدا ہونے والے نظام کے مختلف پہلوؤں کا بغور جائزہ لینا چاہیے، کیونکہ
- اگر ہمیں نوآبادیاتی ادارے ہی برقرار رکھنا ہیں تو پھر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ انہیں ایک جدید پاکستان کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔
- اگر ہمیں اپنے اندازِ حکومت میں اسلام کا نفوذ کرنا ہے تو پھر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہم انسانی آزادی کو متاثر کیے بغیر ایسا کس طرح کر سکتے ہیں۔
- اسی طرح اگر ہمیں تحریر و تقریر میں انگریزی کو ہی برقرار رکھنا ہے تو پھر ہمیں سوچنا ہو گا کہ اس سے جو طبقاتی تقسیم پیدا ہوتی ہے اسے کس طرح مٹایا جائے۔
- اقتصادیات میں اگر سرمایہ داری ہی کو برقرار رکھنا ہے تو دیکھنا ہو گا کہ ہم بہتر منصفانہ معاشرہ تشکیل دینے کی جو خواہش رکھتے ہیں اس کے ساتھ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کو کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔
پاکستان میں یہ تعمیری اور اصلاحی عمل اس وجہ سے شروع نہیں ہو سکا کہ ہم من حیث القوم اس عیاش اور دوسروں کا خون چوسنے والے کالے صاحب کو طویل عرصے سے برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں، جس کے لیے جوں کا توں برقرار رہنا ہی فائدہ مند ہے۔ تاہم دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے ہمیں خود ہی اپنی اصلاح کا عمل شروع کر دینا چاہیے، اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو خود اپنے اندر سے اور معاشرے کے اندر سے شروع کیا جا سکتا ہے۔
آئیں ہم صراطِ مستقیم کی تلاش میں نکلیں اور اس تلاش میں دوسروں سے راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے خود اپنی کاوش سے اور اپنے شعور سے اپنے لیے سیدھا راستہ بنائیں، اور اس کے لیے ہمیں خارجی مثالوں سے انحراف بھی کرنا پڑے تو دریغ نہ کریں۔ یہ آسان کام نہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی کام جس کے لیے انسان جان کی بازی لگا سکتا ہے، آسان نہیں ہوتا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تعمیرِ ملت اور تشکیلِ تشخص کا کام ولولہ انگیز کام ہے۔ اور وہ چیز جسے ہم پسند نہیں کرتے اسے بہتر بنانے یا اسے یکسر تبدیل کرنے کے لیے کوشش تو بہرحال ہم کر ہی سکتے ہیں۔