سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس

قاری عبید الرحمٰن ضیاء

یومِ پاکستان کے موقع پر ۲۳ مارچ ۱۹۹۵ء کو شاہ ولی اللہ یونیورسٹی اٹاوہ گوجرانوالہ میں الشریعہ اکیڈمی مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ایک روزہ سالانہ ’’الشریعہ تعلیمی کانفرنس‘‘ منعقد ہوئی جس میں گوجرانوالہ شہر اور ضلع سے تعلیمی شعبہ سے تعلق رکھنے والے حضرات کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس کی صدارت شاہ ولی اللہ یونویرسٹی کے چیئرمین الحاج میاں محمد رفیق نے کی۔ جبکہ اس سے الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی، جامعہ اسلامیہ کامونکی کے مہتمم مولانا عبد الرؤف فاروقی، معارفِ اسلامیہ اکادمی گکھڑ کے ڈائریکٹر قاری حماد الزہراوی، گورنمنٹ ڈگری کالج گوجرانوالہ کے پروفیسر غلام رسول عدیم، شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے پرنسپل پروفیسر چودھری نصیر احمد، اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے سال چہارم کے طالب علم فیصل محبوب نے خطاب کیا۔

الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر حافظ محمد الیاس نے سوسائٹی کا پروگرام پیش کیا اور گورنمنٹ ہائر اسکینڈری اسکول گوجرانوالہ کے استاذ سید احمد حسین زید نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیے۔ اس موقع پر ڈاکٹر حافظ محمد الیاس نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام اس سال چار سالہ میٹرک کلاس کا آغاز کیا جا رہا ہے جس میں حافظ قرآن یا پرائمری پاس طلبہ کو چار سال میں میٹرک کا امتحان دلانے کے علاوہ عربی گرائمر کے ساتھ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا جائے گا اور کمپیوٹر ٹریننگ دی جائے گی۔ جبکہ حافظ قرآن طلبہ کو تجوید کا کورس اور غیر حافظ طلبہ کو قرآن کریم ناظرہ اور آخری دو پارے حفظ کرائے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے سال سے درس نظامی کی کلاس کا بھی آغاز کیا جائے گا جس میں طلبہ درس نظامی کے مکمل نصاب کے ساتھ ایف اے اور بی اے کے باضابطہ امتحانات بھی دیں گے۔

کانفرنس میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس محمد رفیق تارڑ نے بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی مگر جسٹس خلیل الرحمٰن خان کے فرزند کی حادثاتی وفات کی وجہ سے وہ تشریف نہ لا سکے، البتہ اسے موقع پر انہوں نے جو تحریری خطاب کرنا تھا، وہ ان کی طرف سے اسٹیج سیکرٹری نے کانفرنس میں پڑھ کر سنایا۔

جسٹس محمد رفیق تارڑ کا خطاب

بعد الحمد والصلوٰۃ! صدر محترم اور قابل احترام شرکائے محفل! میں الشریعہ اکیڈمی اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے منتظمین کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے آج کی اس محفل میں شرکت اور آپ حضرات کے ساتھ گفتگو کی دعوت دی۔ اس بہانے مجھے شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع ملا اور یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کسی سرکاری اور بیرونی امداد کے بغیر اتنا بڑا تعلیمی منصوبہ تعمیر و ترقی کے مراحل طے کر رہا ہے، جو گوجرانوالہ کے زندہ دل شہریوں کے دینی جذبہ اور شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے منتظمین کے عزم و حوصلہ کی علامت ہے۔

حضرات محترم! تعلیم کے حوالے سے بہت کچھ کہنے کی ضرورت ہے اور قومی تعلیمی ضروریات اور مروجہ تعلیمی نظاموں اور نصابوں کے درمیان مسلسل عدم توازن نے ہمیں علمی اور فکری طور پر جس انتشار اور خلفشار سے دوچار کر دیا ہے اس کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی بحث و تمحیص وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے، کیونکہ کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی میں اس کا نظامِ تعلیم بنیادی اہمیت رکھتا ہے، اور بدقسمتی سے ہم حصولِ آزادی اور قیامِ پاکستان کے بعد سے اپنے نظامِ تعلیم کو قومی ضروریات اور تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی طرف کوئی سنجیدہ پیشرفت نہیں کر پائے۔ جس کے تلخ نتائج و ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں اور پاکستان کا ہر باشعور شہری ملکی سالمیت، قومی وحدت اور ملک کی نظریاتی حیثیت کے بارے میں مجسم سوال بن کر رہ گیا ہے۔

شرکائے محفل! اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام برصغیر میں مسلم قوم کے جداگانہ تشخص کی بنیاد پر اس عزم کے ساتھ عمل میں لایا گیا تھا کہ ملتِ اسلامیہ اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق اجتماعی زندگی بسر کر سکے، اور مسلم معاشرہ میں اسلامی احکام و اقدار کی عملداری ہو۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ قیام پاکستان کے بعد پورے کے پورے تعلیمی نظام کو ازسرنو نظریاتی بنیادوں پر استوار کیا جاتا، تاکہ قومی زندگی کے ہر شعبہ میں تربیت یافتہ رجال کار فراہم ہوتے، اور پاکستان اپنے مقصدِ قیام کی طرف عملی پیشرفت کرتا۔ مگر ایسا نہ ہو سکا بلکہ ہمارا نظامِ تعلیم بدعنوانی، نا اہلیت اور بے مقصدیت کی آماجگاہ بن کر رہ گیا، جس کی وجہ سے ان نظریاتی تخریب کاروں کو تعلیمی نظام میں در آنے کا موقع ملا جو ربع صدی قبل پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اب باقی ماندہ پاکستان کو لسانی، علاقائی، فرقہ وارانہ اور نسلی عصبیتوں کا شکار بنا کر پاکستانی قوم کو اس کے اسلامی تشخص کے رہے سہے اثرات سے بھی محروم کرنے کے درپے ہیں۔

حضرات مکرم! ان حالات میں کچھ اصحابِ خیر کا اس طرف متوجہ ہونا اور تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے سرگرمِ عمل ہو کر مسائل و مشکلات کی پروا کیے بغیر سفر کا آغاز کر دینا یقیناً امید کی ایک ایسی کرن ہے جو قوم کے بہتر مستقبل کے لیے نوید بن سکتی ہے۔ اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصلاحِ احوال کے راستے ابھی مکمل طور پر بند نہیں ہوئے بلکہ اصحابِ عزم و ہمت اپنے ارادوں کو روبہ عمل لانے کا تہیہ کر لیں تو تذبذب اور مایوسی کی دلدل سے قوم کو نکالا جا سکتا ہے۔

ان گذارشات کے ساتھ الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کی طرف سے سالانہ ’’الشریعہ تعلیمی کانفرنس‘‘ کے آغاز اور حافظ قرآن و پرائمری پاس بچوں کے لیے قرآن کریم کے ترجمے اور کمپیوٹر ٹریننگ کے ساتھ میٹرک کلاس کے پروگرام کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت اس پروگرام کو کامیابی سے ہمکنار کریں اور اسے ملک بھر میں تعلیمی نظام کی اصلاح اور بہتری کا مؤثر ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔

اخبار و آثار

(اپریل ۱۹۹۵ء)

اپریل ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter