ایک ضروری عرضداشت
ملک کے دینی و سیاسی راہنماؤں، ارکانِ اسمبلی اور دیگر اربابِ حل و عقد کی خدمت میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مکرمی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟

گزارش ہےکہ ملک میں سنی شیعہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ اور دونوں طرف سے قیمتی افراد کے روز مرہ قتلِ عام نے ہر ذی شعور شہری کو پریشان اور مضطرب کر دیا ہے۔ اس مسلح تصادم کا دائرہ دن بدن وسیع ہوتا جا رہا ہے جو ملکی سالمیت اور قومی وحدت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اس کشیدگی کی روک تھام کے لیے حقیقت پسندانہ بنیاد پر عملی اقدامات کیے جائیں۔ اس سلسلہ میں میری تجویز یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج صاحبان پر مشتمل ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے جو کھلی تحقیقات کے ذریعے سنی شیعہ کشیدگی میں حالیہ برسوں میں اضافہ اور اس کے مسلح تصادم کی صورت اختیار کر جانے کے اسباب و عوامل کی نشاندہی کرے۔ اور ان اسباب و عوامل کو دور کر کے اس کشیدگی و اشتعال کی روک تھام کے لیے قومی سطح پر متفقہ عملی کارروائی کا اہتمام کیا جائے۔

اسی سلسلہ میں ایک اہم واقعہ کی طرف توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ۲۵ نومبر ۱۹۹۴ء کو لاہور میں تحریک جعفریہ کی عظمت اسلام کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس جانے والی ایک بس پر کھاریاں کے قریب فائرنگ ہوئی جس میں متعدد افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک سانحہ ہے لیکن اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کیس میں ضلع جہلم اور ضلع گجرات سے جمعیۃ علمائے اسلام، سپاہ صحابہؓ اور تحریک خدام اہل سنت کے ذمہ دار راہنماؤں مولانا قاری خبیب احمد عمر، مولانا قاری محمد اختر، مولانا عبد الغفور قاسمی، حافظ خالد محمود اور ان کے دیگر رفقاء کو مبینہ طور پر بلاوجہ ملوث کر دیا گیا ہے جن کے بارےمیں جہلم کے عام شہریوں کا تاثر یہ ہے کہ چونکہ گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین کا تعلق جہلم شہر سے ہے اور چونکہ ان حضرات کا شمار چودھری صاحب موصوف کے سیاسی مخالفین میں ہوتا ہے اس لیے انہیں سیاسی دباؤ اور انتقام کے طور پر اس کیس میں ملوث کرایا گیا ہے۔ جیسا کہ بعد میں سامنے آنے والے متعدد شواہد نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔

کھاریاں بس فائرنگ کیس کے سلسلہ میں بعد میں گرفتار ہونے والے ایک گروہ نے پولیس کے ریکارڈ کے مطابق اعتراف جرم بھی کر لیا ہے لیکن اس کے باوجود مذکورہ بالا حضرات ابھی تک زیر حراست ہیں اور انہیں مقدمہ میں گنہگار ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جبکہ مقدمہ کی تفتیش میں گرفتار شدگان کو انصاف کے معروف تقاضوں سے محروم رکھنے کے لیے مبینہ طور پر گورنر پنجاب انتظامیہ و پولیس پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس صورتحال کا فوری طور پر نوٹس لیا جائے۔ اس سلسلہ میں میری تجویز یہ ہے کہ ہائی کورٹ کے کسی جج کے ذریعے اس کیس کی کھلی تحقیقات کرائی جائے اور گورنر پنجاب کے خلاف جہلم کے شہریوں کے الزامات کی غیر جانبدارانہ انکوائری کے ذریعے اصل حقائق کو منظر عام پر لا کر انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔

آنجناب سے گزارش ہے کہ اس سلسلہ میں اپنا اثر و رسوخ بھرپور طور پر استعمال میں لا کر گجرات اور جہلم کے شریف شہریوں کو انصاف دلانے میں تعاون فرمائیں۔

بے حد شکریہ، والسلام
ابوعمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم
۱۰ فروری ۱۹۹۵ء

مکاتیب

(اپریل ۱۹۹۵ء)

اپریل ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۴

’’ملی یکجہتی کونسل پاکستان‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سنتِ نبویؐ کی اہمیت و ضرورت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

قربِ قیامت کی نشانی، علم کا اٹھ جانا
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

بنی اسرائیل مصر میں
محمد یاسین عابد

اپنے قومی تشخص کا احیاء کیجئے
عمران خان

علمائے کرام کی خدمت میں چند گزارشات
حضرت مولانا نذیر احمد

دینی مدارس کا ایک نیا وفاق
ادارہ

عظیم افغان کمانڈر مولانا نصر اللہ منصورؒ
عید محمد افغان

قافلۂ معاد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیاں
ادارہ

سالانہ الشریعہ تعلیمی کانفرنس
قاری عبید الرحمٰن ضیاء

الشریعہ ایجوکیشنل ویلفیئر سوسائٹی کا قیام
ادارہ

یرقان
حکیم عبد الرشید شاہد

امریکی طالبات کا سب سے بڑا مسئلہ
ادارہ

ایک ضروری عرضداشت
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter