علمائے کرام کی خدمت میں چند گزارشات

حضرت مولانا نذیر احمد

دینی مدارس کے متعلق حکومت کے عزائم اخبارات میں آپ ملاحظہ فرما چکے ہوں گے۔ تمام وفاقوں اور تنظیموں کی اپیل پر احتجاج کے پہلے مرحلے کے طور پر جمعوں میں احتجاجی بیانات ہو چکے ہیں۔ اس سلسلہ میں مزید اقدامات کی تجویز مرکزی تنظیموں کی قیادتیں کریں گی۔ سرِدست مجالس اور جمعوں کی تقریروں میں کیا انداز رکھنا چاہیے اس میں علمائے کرام اور خطبائے عظام دامت برکاتہم اپنے علم، دانش اور حکمت کے پیش نظر کسی رہنمائی کے محتاج نہیں، تاہم اذہانِ مبارکہ کو اس طرف متوجہ کرنے کے لیے بطور مشورہ بیانات کے چند عنوانات پیش خدمت کیے جاتے ہیں، جمعہ کی تقریروں میں اس طرف توجہ ہو جائے تو مفید ہو گا:

  • ہمارا اصل سرمایہ رجوع الی اللہ تعالیٰ ہے۔ اوقاتِ مخصوصہ میں انفرادی و اجتماعی دعائیں بکثرت کی جائیں۔
  • اپنے اپنے دائرہ اثر میں مدارس کو اکابر کے معیارِ تعلیم و تقویٰ پر لانے کے لیے مؤثر کردار ادا کیا جائے۔
  • حکومت کے عزائمِ قبیحہ کے سد کے لیے بھرپور مساعی ضروری ہیں۔ اس سے بھی زیادہ یہ بات ضروری ہے کہ عوام اور مخیر طبقہ کے ذہنوں میں مدارس کی ضرورت، اہمیت اور عظمت بٹھائی جائے۔ مخالف طبقہ کی طرف سے جو اشکالات پیدا کیے جا رہے ہیں، اپنی اپنی وسعت کے مطابق تقریراً و تحریراً ان کے موقر جوابات دیے جائیں۔ عنواناتِ ذیل بھی اسی مقصد کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔
  • حافظ، قاری، عالم، مفتی، مناظر، امام، خطیب، صحیح مصنف، اور مدرس غرضیکہ دینی خدمات سرانجام دینے والی ہر شخصیت مدارس کی پیداوار ہے۔
  • مناصبِ مذکورہ ملک و ملت اور اس عظیم اسلامی مملکت کی سب سے بڑی اور بنیادی ضرورت ہیں، جسے یہ مدارس اچھے نظم سے پورا کر رہے ہیں۔
  • اعتقادی، نظریاتی، عملی، اخلاقی، معاشرتی اور معاملاتی اصلاحات کے لیے جتنی جماعتیں، ادارے، خانقاہیں اور افراد کام کر رہے ہیں، یہ سب انہی مدارس کے آثارِ حسنہ اور ثمراتِ طیبہ ہیں۔
  • پورے عالم میں جذبۂ جہاد، اسلامی و ایمانی لہر، جس سے بڑی اسلام دشمن طاقتیں خوفزدہ ہیں، یہ انہی مدارس کے نتائج ہیں۔
  • تمام دنیوی محکموں اور اداروں میں احساسِ ذمہ داری رکھنے والے سچے، دیانتدار، ضوابط کے پابند افراد کی نمایاں اکثریت انہی مدارس اور خانقاہوں سے نسبتِ استفادہ رکھنے والوں کی ہے۔
  • ہمارے اکابر کے دور کے معیارِ تعلیم، تربیت اور تقویٰ کے اعتبار سے موجودہ مدارس میں بہت تقصیرات ہیں، لیکن حکومتی خرچ اور نظم سے چلنے والے اداروں سے امن و سکون، معیارِ تعلیم و تربیت، معیارِ حسنِ امتحانات وغیرہا کے اعتبار سے یہ مدارس اتنے اونچے ہیں کہ ان میں کوئی نسبت ہی نہیں۔
  • مدارس اتنے بڑے صدقاتِ جاریہ ہیں جن کا سلسلہ اتنا طویل اور دراز اور شاخ در شاخ ہو جاتا ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ ایک عالم کی خدمات اس کے بلاواسطہ اور بالواسطہ شاگردوں اور متوسلین اور ہم نشینوں کی خدمات کا پھیلاؤ ہمارے تصور سے زیادہ ہے۔ جن لوگوں کے اخراجات سے پہلا عالم تیار ہوا تھا، یہ اس کی وسعتوں کے ثواب میں باقاعدہ شریک ہوں گے۔ دوسرے رفاہی کاموں میں حصولِ اجر کی یہ شان ہرگز نہیں ہے۔
  • علومِ اسلامیہ کی نشر و اشاعت کے لحاظ سے تو یہ مدارس صدقہ جاریہ ہیں، ان میں صدقہ جاریہ کے اور بھی متنوع پہلو ہیں۔ درسگاہیں، دارالاقامے (ہاسٹل)، مطبع، وضو خانے، غسل خانے، کپڑے، کھانے پینے اور ادویات کا انتظام کرنا، یہ سب کچھ خدمتِ خلق اور تصدق اور رفاہِ عام کے پہلو ہیں، جن سے نفع اٹھانے والے اکثر اتقیاء، صلحاء اور عباد و زہار ہوتے ہیں۔ ایسے نیک دوسرے رفاہی اداروں سے استفادہ کرنے والوں میں کم ہوتے ہیں۔
  • مدارس میں بھی اکا دکا باہمی کشمکش کے واقعات ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں، لیکن اکثر بلکہ تقریباً سب مدارس اس بداَمنی اور بے سکونی کے دور میں دوسرے اداروں کی نسبت امن و سکون کے مرکز ہی نہیں بلکہ اس کے داعی اور علمبردار ہیں۔
  • مدارس کے متعلق یہ خیال مجالس میں گردش کرتا رہتا ہے کہ اس سے ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ پیدا نہیں ہوتے۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ واقعی ایسے افراد پیدا ہیں ہوتے، لیکن یہ سوال جدید فنون کے اداروں پر بھی ہے۔ میڈیکل کالج سے صرف ڈاکٹر پیدا ہوتے ہیں، نہ وکیل بنتے ہیں نہ انجینئر بنتے ہیں، نہ ماہر معاشیات وغیرہ۔ اصل بات یہ ہے کہ آدمی متخصص (اسپیشلسٹ) کسی ایک ہی فن میں ہو سکتا ہے، اس کو کسی دوسرے فن کی طرف لگانا اس کے اصل فن میں اسے ناقص رکھنے کی اسکیم کے مترادف ہے۔ ایسے ہی علومِ اسلامیہ اپنے اندر جو اہمیت، ضرورت اور وسعت رکھتے ہیں، ان کو دوسری طرف لگانے کا مشورہ دینے کا منشا تو علومِ اسلامیہ کی اہمیت و ضرورت سے جہالت ہے، یا ان کو ان علوم میں ناقص رہنے کا مشورہ دینا ہے۔


دین اور معاشرہ

(اپریل ۱۹۹۵ء)

اپریل ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۴

تلاش

Flag Counter