موضوعِ زیر بحث کے کئی گوشے ہیں۔ جو لوگ خروج کے قائل ہیں ان میں سے بعض تو حکمرانوں کے بعض اقوال یا افعال کی بنا پر ان کی تکفیر کرکے ان کی معزولی کو واجب قرار دیتے ہیں جبکہ بعض کا استدلال یہ ہے کہ پاکستان کا دستور ’ کفریہ ‘ ہے اور اس ’کفریہ نظام ‘ میں کہیں کہیں اگر اسلام کی پیوند کاری کی بھی گئی ہے تو اس کے باوجود اسے اسلامی نہیں مانا جاسکتا۔ پھر بسا اوقات بحث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کا حوالہ بھی آجاتا ہے۔ یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ پاکستان دار الاسلام ہے یا نہیں ؟ دستور نے اگر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا ہے تو کیا یہ شرک نہیں ہے ؟ بالخصوص جبکہ قانون سازی کا یہ اختیار مطلق ہے ؟ ریاست اگر اقتدار اعلی کی حامل ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے اقتدار اعلی کی صفت مانی جاسکتی ہے ؟ بین الاقوامی قانون اگر غیر مسلموں کی جانب سے مسلمانوں پر مسلط کیا گیا ہے تو کیا ان قوانین اور معاہدات کو مان لینے کے بعد کوئی ریاست اسلامی رہ سکتی ہے؟
خلطِ مبحث سے بچنے کے لیے اس مقالے میں کوشش کی گئی ہے کہ ان تمام امور کا الگ الگ تجزیہ کیا جائے اور ان کے متعلق اسلامی قانون کی پوزیشن معلوم کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مقالے کو پانچ فصول میں تقسیم کیا گیا ہے :
فصلِ اول میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے، یا ذمہ داری، پر روشنی ڈالی گئی ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ اس فریضے کے ضمن میں طاقت کب استعمال کی جاسکتی ہے اور کون استعمال کرسکتا ہے؟
فصلِ دوم میں خروج اور بغاوت کی اصطلاحات کی وضاحت کی گئی ہے اور باغیوں اور عام قانون شکن گروہ میں قانونی فرق کی وضاحت کی گئی ہے۔
فصلِ سوم میں فرد کی تکفیر کے حوالے اسلامی قانون کے بنیادی اصول پیش کیے گئے ہیں۔
فصلِ چہارم میں ریاست کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے پر تفصیلی بحث کی گئی ہے اور اس ضمن میں ریاست، دار، اقتدار اعلی، انسان کے بنائے گئے قانون اور اسلامی شریعت کے تعلق، قانون سازی کے مطلق اختیار اور بین الاقوامی قانون کی حیثیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
فصلِ پنجم میں پاکستان کے دستور پر اٹھائے گئے چند اہم اعتراضات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں دستور کی دفعات کے علاوہ اہم عدالتی نظائر کے حوالے دیے گئے ہیں۔
فصلِ اول: امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اختیار
۱۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انفرادی طور پر ہر مسلمان کا بھی فریضہ ہے اور اجتماعی طور پر مسلمانوں کے نظم اجتماعی کا، یا حکمران، کا بھی۔
۲۔ چنانچہ انفرادی سطح پر ہر مسلمان پر اس کے دائرۂ کار کے اندر لازم کیا گیا ہے کہ وہ اچھائی کی تلقین کرے اور برائی سے روکے اور اگر اسے اس راہ میں تکلیف اٹھانی پڑے تو وہ اسے پوری ہمت سے سہے، اگر اس سخت رد عمل کو سامنا ہو تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور شیطان کے بہکاوے میں آکر اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز نہ کرے۔ اگر کوئی حق بات قبول کرنے سے انکاری ہو تو اسے زبردستی حق کے آگے جھکانے کی ذمہ داری ان کی نہیں ہے۔
۳۔ پس اگر کوئی مسلمان کسی غلط کام کو دیکھے تو اس پر نہی عن المنکر واجب ہوجاتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس کام کو زبردستی روکنے کا حق رکھتا ہے ؟ اسی طرح اگر وہ کسی کو اچھائی کی طرف راغب کرنے کا فریضہ ادا کر رہا ہے، تو کیا اسے اختیار ہے کہ وہ اسے زبردستی وہ اچھا کام کرنے پر مجبور کردے ؟ ایک مشہور حدیث میں اس فریضے کے متعلق تین درجوں کا ذکر کیا گیا ہے : دل میں برائی کے بدلنے کا عزم پالنا ؛ برائی کو تبدیل کرنے کے لیے زبانی نصیحت اور یاددہانی کے ذریعے کوشش ؛ اور زبردستی برائی کو تبدیل کرنے کی کوشش۔
۴۔ جہاں تک برائی کو دل میں برائی سمجھنے اور اچھائی کو دل میں اچھائی سمجھنے اور برائی کو اچھائی میں بدلنے کا عزم دل میں پالنے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق تو دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ یہ ایمان کا لازمی اور کم سے کم تقاضا ہے۔
۵۔ اسی طرح اچھائی کی تلقین اور برائی سے باز رہنے کی نصیحت ہر مومن کا فریضہ ہے۔ تاہم اگر برائی کا ارتکاب کرنے والا جابر ہو، طاقتور ہو، بڑا گروہ ہو، حکمران ہو، اور اسے زبانی سمجھانے میں موت کا اندیشہ ہو، تو خاموش رہنا جائز ہوگا بشرطیکہ خاموش رہنا والا اسے دل میں برا سمجھے اور کم از کم دل میں اس برائی کو اچھائی میں بدلنے کا ارادہ رکھے۔ تاہم ایسی صورت میں برائی کو برائی کہنے اور اس کی پاداش میں ہر سزا برداشت کرنے کی راہ عزیمت کی راہ ہے۔ البتہ ضروری ہے کہ حکمت اور موعظتِ حسنہ کے تقاضوں کی پابندی کی جائے۔
۶۔ نہی عن المنکر کے لئے طاقت کے استعمال کے لئے ولایۃ یعنی ’’قانونی اختیار ‘‘کی موجودگی شرط ہے اور صاحب ولایۃ صرف ان لوگوں کے خلاف طاقت استعمال کرسکتا ہے جن کے اوپر اسے ولایۃ حاصل ہے۔ یہ ولایت دو طرح سے وجود میں آتی ہے :
الف۔ کبھی تو بعض افراد کو بعض دیگر افراد پر، مثلاً باپ کو نابالغ بیٹے پر، شریعت کے کسی حکم کی رو سے حاصل ہوتی ہے ؛ اور
ب۔ کبھی باہمی معاہدے کے نتیجے میں کسی کو ولایت حاصل ہوجاتی ہے، مثلاً عقد وکالت (Contract of Agency) کے نتیجے میں وکیل (Agent) کو اصیل (Principal) کی نمائندگی کے لئے ولایت حاصل ہوجاتی ہے۔
۷۔ پس دین کا علم اور فہم رکھنے والا شخص کسی برے کام کو برا تو کہہ سکتا ہے اور اس برائی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش بھی اس کا فرض ہے لیکن اس برائی کی جبراً روک تھام کے لیے اگر اس کے پاس ولایت نہیں ہے تو وہ زبردستی اسے نہیں روک سکتا۔ وہ صرف انھی لوگوں کو جبراً اس برائی سے روک سکتا ہے جن پر اسے ولایت حاصل ہو۔ دیگر لوگ، جن پر اسے ولایت حاصل نہ ہو، اگر اس برائی کا ارتکاب کررہے ہوں تو اسے صاحبِ ولایت کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ وہ انہیں جبراً روکے۔ و الامر بالمعروف بالید الی الامراء لقدرتھم، و باللسان الی غیرھم۔ ( الہدایۃ )
۸۔ تاہم مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جب وہ لوگ جن لوگوں کو ولایت حاصل ہو برائی کو نہ روکنا چاہیں، یا وہ اسے برائی ہی نہ کہیں، اور جو لوگ برائی کی روک تھام چاہتے ہوں انھیں ولایت حاصل نہ ہو۔ چنانچہ اسی مسئلے کی آخری اور انتہائی شکل یہ ہے کہ کیا کسی حکمران کے ناجائز کاموں کی وجہ سے اسے زبردستی معزول کیا جاسکتا ہے ؟ کیا اس کے خلاف خروج کیا جاسکتا ہے ؟
۹۔ امام ابو حنیفہ کا موقف اس سلسلے میں یہ ہے کہ جابر اور فاسق حکمران کے خلاف خروج جائز ہے، بشرطیکہ اس کے خلاف نکلنے والے متبادل صالح قیادت فراہم کرسکتے ہوں، اور تبدیلی کی اس کوشش میں جو نقصان ہو، وہ اس نقصان سے کم ہو جو جابر یا فاسق حکمران کے برقرار رہنے کی صورت میں رونما ہورہا ہے۔
فصلِ دوم: خروج کا مفہوم
۱۔ فقہِ اسلامی کی تین اصطلاحات یہاں قابلِ ذکر ہیں : خروج، بغی اور حرابہ۔
خروج کے لغوی معنی ’’ نکلنے ‘‘ کے ہیں۔ اصلاً یہ لفظ ان لوگوں کی روش کے لیے استعمال ہوا تھا جو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی اطاعت سے نکل گئے تھے اور اسی بنا پر ’’ خارجی ‘‘ ( جمع : خوارج ) کہلائے۔ تاہم اموی اور عباسی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کے بعض افراد کی سرکردگی میں حکومت کی تبدیلی کے لیے وقتاً فوقتاً جو مسلح جد و جہد ہوئی اسے خروج کہا جانے لگا۔ گویا خروج ظالم حکمران کے خلاف عادل افراد کی جانب سے کی جانے والی مسلح جد و جہد کو کہا گیا۔ اس کے برعکس ’’ بغی ‘‘ کے لغوی معنی سرکشی، زیادتی اور فساد پھیلانے کے ہیں۔ چنانچہ عادل حکمران کا تختہ الٹنے کے لیے کی جانے والی مسلح جد و جہد کو بغی کہا جانے لگا۔
۲۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی مسلح جد و جہد کے جواز یا عدم جواز کے متعلق بالعموم ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں۔ اسی طرح حکمران کے ظالم یا عادل ہونے، یا اس کی معزولی کے وجوب یا عدمِ وجوب، کے متعلق بھی عام طور پر اختلاف پایا جاتا ہے، اور ایک ہی جد و جہد کو ایک شخص خروج اور دوسرا بغی کہتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ باغی ہمیشہ خود کو مبنی بر حق کہیں گے اور حکمران ہمیشہ انھیں فسادی قرار دیں گے۔ اس لیے فقہا نے جدوجہد کے عادلانہ یا ظالمانہ ہونے کے پہلو کو نظر انداز کرکے اس پہلو پر توجہ مرکوز کی کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد ہورہی ہے۔
۳۔ اب ظاہر ہے کہ حکومت کی تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد تبھی کی جاسکے گی جب جدوجہد کرنے والے ایک مضبوط جتھے کی صورت میں ہوں اور حکومت سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس خصوصیت کو فقہا نے ’’ منعۃ ‘‘ کا نام دیا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ ڈاکو بھی مضبوط جتھا رکھتے ہیں اور حکومت کے خلاف مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ فقہا نے باغیوں اور ڈاکووں میں فرق ضروری سمجھا۔
۴۔ باغیوں اور ڈاکووں میں یہ بات مشترک ہوتی ہے کہ انھوں نے باقاعدہ ایک قوت اور طاقت رکھنے والے گروہ کی شکل اختیار کی ہوتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ باغیوں کی طرح ڈاکووں نے بھی کسی مخصوص خطے پر اپنا تسلط قائم کرلیا ہو۔ تاہم ڈاکووں کا کام بنیادی طور پر مالی و مادی مفاد کے حصول یا شخصی انتقام کی حد تک ہوتا ہے، جبکہ باغی نظامِ حکومت یا حکمران کی تبدیلی چاہتے ہیں، یا اس اجتماعی نظم سے علیحدگی چاہتے ہیں، کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حکمران ناجائز بنیاد پر حکومت کررہا ہے، یا یہ نظام ہی سرے سے غلط بنیادوں پر قائم ہے۔ اس طرح وہ اپنے تئیں باطل کو ہٹا کر حق قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس حقیقت کی تعبیر فقہا اس طرح کرتے ہیں کہ باغیوں کے پاس ان کے موقف کے متعلق ’’تأویل‘‘ ہوتی ہے۔ یہ تاویل کبھی صحیح ہوتی ہے اور کبھی غلط، لیکن ہر دو صورتوں میں جب منعۃ رکھنے والا گروہ تاویل بھی رکھتا ہو تو پھر ان کی جدوجہد کو رہزنی اور ڈکیتی کے بجاے بغاوت قرار دیا جائے گا۔
۵۔ اگر ایک یا زائد اشخاص حکومت یا ریاست کو ناجائز قرار دے کر اس کی تبدیلی یا خاتمے کو ضروری قرار دیتے ہوں لیکن ان کے پاس مسلح جدوجہد کی طاقت نہ ہو تو وہ باغی نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر حکومت یا ریاست کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت رکھنے والا گروہ حکومت یا ریاست کو ناجائز قرار دے کر اس کی تبدیلی یا خاتمے کے لیے جدوجہد نہ کرتا ہو تو وہ ڈاکووں کا گروہ ہے، نہ کہ باغیوں کا۔ پس بغاوت کے احکام کا اطلاق تبھی ہوگا جب کسی گروہ میں منعۃ اور تأویل دونوں خصوصیات بیک وقت موجود ہوں۔
۶۔ ڈاکووں اور رہزنوں سے ریاست کے فوجداری قانون کے تحت نمٹا جاتا ہے۔ چنانچہ ڈاکے کی ایک خاص نوعیت کو حرابہ کہا جاتا ہے جو اگر ایک مخصوص ضابطے اور شرائط کے تحت ثابت ہو تو اس پر ایک مخصوص سزا کا اطلاق ہوتا ہے جسے حد کہا جاتا ہے۔ اس کے برعکس باغیوں پر جنگ کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے اور حدود و قصاص کی سزائیں باغیوں کو نہیں دی جاسکتیں، بالکل اسی طرح جیسے حکومت کی فوج پر ان سزاوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ البتہ جنگ کے قانون کی خلاف ورزی پر باغیوں کو بھی سزا دی جاسکتی ہے اور حکومت کی فوج کو بھی۔ نیز باغیوں کو فساد پھیلانے کی بنا پر حکمران مناسب سزا دے سکتا ہے جسے فقہا ’’ سیاسۃ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ سزا دیتے وقت اسلامی قانون کے قواعدِ عامہ کی پابندی کی جائے گی۔
فصلِ سوم : انفرادی سطح پر تکفیر کا مسئلہ
ماضی میں بالعموم خروج کے جواز و عدمِ جواز، یا وجوب و عدمِ وجوب، کا مسئلہ حکمران کے فسق یا کفر سے متعلق سمجھا جاتا تھا۔ اب بھی کئی قائلینِ خروج حکمرانوں کی تکفیر یا تفسیق کو ہی بنیاد بناتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ کسی فرد کی تکفیر کے متعلق اسلامی قانون کے بنیادی اصول بھی یہاں مختصراً ذکر کیے جائیں :
۱۔ کسی مسلمان کی تکفیر پر چونکہ ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوتا ہے، اور ارتداد کی سزا حد ہے، اس لیے اس جرم کے اثبات کے لیے صرف دو ہی طریقے ہیں، کسی تیسرے طریقے سے اس جرم کو ثابت نہیں کیا جاسکتا : ایک مجرم کی جانب سے عدالت کے سامنے آزادانہ اقرارِ جرم اور دوسرا اس کے خلاف گواہی، جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق ہو۔ وہ مخصوص نصاب یہ ہے کہ کم سے کم دو ایسے مسلمان عاقل بالغ مرد گواہی دیں جن کا کردار بے داغ ہو۔
۲۔ پھر چونکہ یہ حد کی سزا ہے اس لیے یہ شبھۃ سے ساقط ہوجاتی ہے۔ یہاں شبھۃ سے مراد یہ ہے کہ جس قول یا فعل کی بنیاد پر کسی شخص کو ارتداد کا مرتکب قرار دیا جارہا ہو، اس کے جواز و عدمِ جواز کے متعلق ملزم کے ذہن میں اشتباہ پایا جاتا تھا۔ کبھی تو ملزم کے ذہن میں یہ اشتباہ حقیقتاً پایا جاتا ہے اور کبھی قانون اس کی موجودگی فرض کرلیتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں تکفیر ناجائز ہوگی اور ارتداد کی سزا نافذ نہیں کی جائے گی۔
۳۔ چنانچہ کسی بھی ایسے قول یا فعل کی بنیاد پر یہ سزا نہیں دی جاسکتی جس کے کفر ہونے یا نہ ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہو۔
۴۔ اسی طرح اگر کسی قول یا فعل کی ایک سے زائد تعبیرات ممکن ہوں اور ان میں کوئی تعبیر ایسی ہو جس کی رو سے اسے کفر نہ قرار دیا جاسکتا ہو تو اسی تعبیر کو اپنایا جائے گا۔
۵۔ پس ملزم سے پوچھا جائے گا کہ اس قول یا فعل سے اس کی مراد کیا تھی، سواے اس صورت کے جب وہ کفر بواح کا مرتکب ہوا ہو۔
۶۔ اگر ملزم کفر سے انکاری ہو تو اس کے انکار کو قبول کیا جائے گا خواہ اس کے خلاف گواہ موجود ہوں کیونکہ اس کے اس انکار کو رجوع اور توبہ سمجھا جائے گا۔
فصلِ چہارم : ریاست کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کی بحث
خروج کی بحث ماضی میں جس طرح حکمران کی تکفیر یا تفسیق سے متعلق ہوتی تھی، اسی طرح معاصر قائلینِ خروج بالعموم ریاستی نظام کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کی بنیاد پر خروج کے احکام مرتب کرتے نظر آتے ہیں۔ عام طور پر یہ موقف یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ریاست کے دستور میں فلاں فلاں شقوں کی موجودگی کی وجہ سے ریاست غیر اسلامی ہوگئی ہے ؛ یا اس ریاست کو دار الاسلام نہیں مانا جاسکتا۔ اس سلسلے میں استدلال کے لیے بالعموم جن شقوں کا حوالہ دیا جاتا ہے ان میں ریاست کے لیے ’’ اقتدار اعلی‘‘ (sovereignty) کا، یا پارلیمان کے لیے قانون سازی کے ’’ مطلق اختیار‘‘ (absolute authority) کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس لیے ان امور پر بھی فقہی و قانونی اصولوں کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے۔
اولاً : کیا کوئی ریاست ’’ اسلامی ‘‘ یا ’’ غیر اسلامی‘‘ ہوسکتی ہے ؟
سب سے پہلے ’’ اسلامی ریاست‘‘ کا تصور لے لیجیے:
۱۔ معاصر قوانین کے تحت ’’ریاست‘‘ کو ایک ’’شخص‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ قانون کے تحت اس شخص حقوق و فرائض بھی ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے انسان، جسے ’’ شخصِ حقیقی ‘‘ کہا جاتا ہے، حقوق و فرائض رکھتا ہے۔ معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے جب کسی ’’ وجود‘‘ (entity) میں چار صفات پائی جائیں تو قانون اسے ’’ معنوی شخصیت ‘‘ عطا کردیتا ہے اور وہ ’’ ریاست ‘‘ بن جاتا ہے۔ یہ چار صفات یہ ہیں :
الف۔ مخصوص خطۂ زمین ؛
ب۔ مستقل قیام پذیر آبادی ؛
ج۔ نظمِ حکومت ؛ اور
د۔ دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت۔
فقہاے اسلام نے جس قانونی نظام کی تعمیر کی ہے اس میں اس طرح کے ’’شخصِ اعتباری‘‘ کے لئے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ ( ۱ )
۲۔ شخصِ اعتباری کا تصور تسلیم کرنے کے نتیجے میں چند بدیہیات بھی تسلیم کرنی پڑیں گی۔ ان میں سے ایک اہم یہ ہے کہ شخصِ اعتباری پر کسی قسم کی دینی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔ اس بات کی تعبیر فقہی اصطلاح میں یوں کریں گے کہ خطاب العبادات شخصِ اعتباری کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔ مثال کے طور پر اگر کارپوریشن کو شخص اعتباری مان لیا جائے تو اس شخص کی املاک پر زکاۃ عائد نہیں ہوگی۔ اسی طرح ریاست کو شخص اعتباری کہا جائے تو ساتھ ہی ماننا پڑے گا کہ اس کی طرف خطاب العبادات متوجہ نہیں ہے۔ پس جہاد ریاست کا نہیں بلکہ امام کا فریضہ ہوگا۔ اس بات کی تعبیر فقہا اس طرح کرتے ہیں: و أمر الجھاد موکول الی الامام و اجتھادہ۔ یہی بات امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اقامت صلاۃ و ایتاء زکاۃ اور اس طرح کے دیگر فرائض کے متعلق بھی کہی جائے گی۔ بہ الفاظ دیگر، خالص قانونی و فقہی لحاظ سے ریاست کا اسلامی یا غیر اسلامی ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس لیے ریاست جیسے مسلمان نہیں ہوسکتی، اسی طرح مرتد یا فاسق بھی نہیں ہوسکتی !
۳۔ البتہ موجودہ دور کے عرف میں ’’ اسلامی ریاست ‘‘ کی ترکیب دو مفاہیم میں استعمال کی جارہی ہے : ایک مفہوم وہ ہے جو مولانا ابو الاعلی مودودی اور دیگر اہلِ علم کی کاوشوں سے رائج ہوا اور جس کے مطابق اس سے مراد وہ ریاست ہے جہاں شریعت کو بالادستی حاصل ہو ؛ دوسرا مفہوم وہ ہے جو بین الاقوامی اداروں نے بالعموم اختیار کیا ہے اور جس کے مطابق ہر وہ ریاست اسلامی ریاست ہے جہاں آبادی کی اکثریت مسلمان ہو۔ اس دوسرے مفہوم کے لحاظ سے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے ہر رکن کو اسلامی یا مسلمان ریاست کہا جاتا ہے۔ ان دونوں مفاہیم کو چاہے آپ غلط العام کا درجہ دیں، یا اسے کچھ اور کہیں، لیکن یہ محض عرفی تعبیرات ہیں۔ ان کا قانونی اثر کچھ بھی نہیں ہے۔ ( ۲)
کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس وقت تمام ریاستیں غیر اسلامی ہیں ؟ ہر گز نہیں۔ کوئی بھی ریاست غیر اسلامی نہیں ہوسکتی۔ قانونی پہلو سے ریاست کے معاملے میں اسلامی و غیر اسلامی کی بحث ہی سرے سے غیر متعلق ہے۔
ثانیاً : دار الاسلام سے مراد کیا ہے؟
۱۔ دار الاسلام کے تصور کی بنیاد ملت پر نہیں تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو دار الاسلام کے اندر رہنے والے مسلمانوں کے حقوق و فرائض اور دار الاسلام سے باہر رہنے والے مسلمانوں کے حقوق و فرائض میں فقہا فرق نہ کرتے۔ ایسا تسلیم کیا جائے تو عدالتوں کے اختیارِ سماعت کے متعلق حنفی فقہ کی تمام جزئیات دریابرد کرنی پڑیں گی۔ نیز ایسا ہونے کی صورت میں دو میں سے ایک نتیجہ لازماً تسلیم کرنا پڑتا:
الف۔ یا تو پوری دنیا کو دار الاسلام میں تبدیل کرنا لازم ہوتا کیونکہ کسی بھی لمحے کہیں بھی کوئی بھی شخص اسلام قبول کر سکتا ہے ؛
ب۔ یا ہر مسلمان پر دار الاسلام کی طرف ہجرت واجب ہوتی۔
۲۔ فقہا کے نصوص کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ دار کے تصور کی بنیاد غلبہ و قہر پر تھی۔ جہاں غلبہ مسلمانوں کو حاصل ہوتا وہ دار الاسلام ہوتا اور جہاں غلبہ کافروں کو ہوتا وہ دار الکفر۔ البقعۃ انما تنسب الینا أو الیھم باعتبار القوۃ و الشوکۃ۔
۳۔ اگر غلبہ مسلمانوں کو حاصل ہو تو اما م پر لازم ہوگا کہ وہ احکام اسلام کا اجرا کرے۔ بعض احکام کے عدمِ اجرا پر وہ گنہگار ہوگا اور اس کے خلاف خروج جائز ہوگا، جبکہ بعض احکام کے عدم اجرا پر یا بعض احکامِ کفر کے اجرا پر اس کا عزل واجب ہوجائے گا اور اگر دیگر شرائط پوری ہوں تو اس کے خلاف خروج واجب بھی ہوجائے گا لیکن جب تک اس معاشرے میں من حیث المجموع مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو تو اس دار کو دار الکفر نہیں کہا جائے گا۔
۴۔ اس کی مزید وضاحت اس امر سے ہوتی ہے کہ دار الاسلام میں کفار کی جانب سے احکامِ کفر کے اجرا کی صورت میں بھی امام ابو حنیفہ اسے اس وقت تک دار الکفر نہیں قرار دیتے جب تک دو مزید شرائط ہوری نہ ہوں :
الف۔ مسلمانوں کا امان ختم ہو ؛ اور
ب۔ یہ علاقہ ہر طرف سے دار الکفر میں گھرا ہوا ہو (متاخمۃ دار الکفر)۔
ان میں پہلی شرط اس بات کے تعین کے لیے ہے کہ منعۃ کس کے پاس ہے ؟ جبکہ دوسری شرط اس بات کے تعین کے لیے یہ ہے کہ یہ تبدیلی عارضی ہے یا مستقل رہے گی ؟ پس جب متعین ہوجائے کہ غلبہ و قہر اور منعۃ کفار کا ہے تو ولایۃ بھی ان کو حاصل ہوجائے گی اور اس علاقے کو دار الاسلام نہیں کہا جائے گا۔ پس اصل سوال منعۃ و ولایۃ کا ہے ! اس بات کی مزید وضاحت آگے اقتدار اعلی پر بحث کے ضمن میں آئے گی۔
۵۔ باقی رہا یہ مسئلہ کہ دار الاسلام ایک ہے تو یا ایک سے زائد بھی ہوسکتے ہیں تو اسلامی شریعت کا مفروضہ یہ ہے کہ دار الاسلام ایک ہی ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے یہ جزئیہ کافی ہوگا کہ جب دار الاسلام میں دو حکومتیں قائم ہوجائیں، ایک اہل عدل کی اور دوسری باغیوں کی، تب بھی فقہا دونوں حکومتوں کے زیر تسلط تمام علاقے کو ایک ہی دار قرار دیتے ہیں، باوجود اس کے کہ حکومت اور منعۃ کے الگ ہونے کی وجہ سے فقہا کئی قانونی اثرات مانتے ہیں۔ تاہم چونکہ قانوناً دار ایک ہی ہوتا ہے اس لیے دار کی تبدیلی سے واقع ہونے والے قانونی اثرات یہاں مرتب نہیں ہوں گے۔
۶۔ پس اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے ممبر ممالک کو ایک ہی دار الاسلام کہا جائے گا تاہم منعۃ کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اگر منعۃ کے اصول پر نظر رکھی جائے تو صورتحال کچھ یوں نظر آتی ہے کہ ایک دار الاسلام ہونے کے باوجود یہ علاقہ ۵۷ مختلف حکمرانوں کے منعۃ کے تحت ہے۔ ایک حکمران کے ماتحت جو علاقے ہیں وہاں جرم ہو جائے تو دوسرا حکمران، جو کسی اور علاقے میں منعۃ رکھتا ہے، اس جرم پر سزا دینے کا اختیار نہیں رکھتا۔ پس ان مختلف حکمرانوں کو اپنے اپنے علاقوں پر بطور امر واقعی (de facto) ولایۃ حاصل ہے لیکن بطور امر قانونی (de jure) ضروری ہے کہ اس تمام علاقے پر ایک ہی حکمران کو ولایۃ عامۃ حاصل ہو اور باقی حکمران اس کے ماتحت ہوں۔ بہ الفاظ دیگر ایک مرکزی خلافت کا قیام ایک واجب شرعی ہے، جس کے ترک پر سب گنہگار ہوں گے لیکن اس مطلوب صورت کے وجود میں آنے تک جن لوگوں کو عملاً منعۃ حاصل ہے ان کو ولایۃ بھی حاصل ہے اور معروف میں ان کی اطاعت کی جائے گی۔ بالکل اسی طرح جیسے متغلب کو ولایۃ حاصل ہوتی ہے اور معروف میں اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ مرکزی خلافت کا قیام مطلوب سہی لیکن اس کے قیام تک لوگوں کو فوضی لا سراۃ لھم نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس اصول کی بنیاد پر دار الاسلام کے ان ۵۷ ٹکڑوں کو مزید چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹنا بھی ناجائز ہوگا۔
ثالثاً : اقتدار اعلیٰ کی بحث
۱۔ عصر حاضر میں ریاست کے تصور کی طرح اقتدار اعلی کا تصور بھی خلطِ مبحث کا شکار ہوگیا ہے۔ یورپ میں یہ تصور دراصل روم کی مرکزی حکومت سے بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ جب نشاۃِ ثانیہ اور تحریکِ اصلاحِ مذہب کے نتیجے میں رومی حکومت کا کنٹرول کم ہوا اور علاقائی قوتوں نے خود مختاری کا دعوی کیا تو جنگوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔ بالآخر ویسٹ فالیہ کے معاہدے (۱۶۴۸ء ) کے نتیجے میں ’’مقدس رومی بادشاہت ‘‘ کے خاتمے کا باضابطہ اعلان ہوا اور علاقائی قوتوں کا الگ تشخص اور ان کی الگ حیثیت تسلیم کرلی گئی۔ اس وقت کے سیاسی مفکرین نے اس الگ تشخص کی بنیاد متعین کرنے کے سلسلے میں ’’اقتدار اعلی ‘‘ کے تصور سے مدد لی۔ چنانچہ یہ مان لیا گیا کہ جو علاقے ایک ہی اقتدار اعلی کے تحت ہوں وہ ایک ریاست میں شامل متصور ہوں گے، اور جہاں اقتدار اعلی کسی دوسری طاقت کا ہوگا وہ الگ ریاست ہوگی۔ اس تصور کو فقہی اصطلاح میں دیکھیں تو یہ ’’منعۃ‘‘ کے تصور کے مترادف معلوم ہوتا ہے، اور منعۃ کے ساتھ ولایۃ کا تصور خودبخود آجاتا ہے۔ یہیں سے اختیار سماعت اور دیگر متعلقہ مسائل کے لئے بنیاد فراہم ہوتی ہے۔
۲۔ اقتدار اعلی کے اس سیدھے سادھے تصور کو اٹھارھویں اور انیسویں صدی میں سیاسی مفکرین نے کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ پھر اس طرح کی بحثیں شروع ہوئیں کہ کیا اقتدار اعلی قابل تقسیم ہے ؟ کیا یہ قابل اشتراک ہے ؟ کیا یہ قابل انتقال ہے ؟ کیا اقتدار اعلی کا حامل کسی کو جوابدہ ہوتا ہے ؟ ان چاروں سوالات کا ابتدائی جواب تو نفی میں سامنے آیا۔ تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جب نئی ریاستیں نئے انداز میں سامنے آئیں اور نظامہائے حکومت میں بھی دور رس تبدیلیاں وجود میں آئیں تو پھر ان مباحث نے نئی کروٹ لی اور مغربی مفکرین حنابلہ، اشاعرہ، معتزلہ اور ماتریدیہ کی طرح تاویلات در تاویلات اور سوال، جواب اور جواب الجواب کا شکار ہوگئے۔ امریکہ میں جب وفاقی ریاست قائم ہوئی تو اقتدار اعلی کے ناقابل تقسیم ہونے کا تصور مسترد کردیا گیا۔ اسی طرح جب مغرب میں جمہوریت نے جڑیں پکڑ لیں تو سوال پیدا ہوا کہ اقتدار اعلی کس کے پاس ہے ؟ اگر کہا جائے کہ حکومت کے پاس ہے تو وہ تو پارلیمنٹ کو جوابدہ ہوتی ہے، اور اگر پالیمنٹ کے پاس ہے تو اسے تو عوام منتخب کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر اقتدار اعلی عوام کے پاس ہے تو وہ تو خود پالیمنٹ کے وضع کردہ قوانین کے ماننے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مزید برآں، جب بین الاقوامی معاملات میں ریاستوں کا ایک دوسرے پر انحصار بڑھنے لگا اور ریاستوں نے چند ضوابط کی پابندی ضروری سمجھی تو خارجی سطح پر بھی اقتدار اعلی کا تصور خود بخود ختم ہوگیا۔
۳۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ریاستوں کے لیے اقتدار اعلی صرف تصوراتی دنیا میں ہی باقی رہا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مونٹی ویڈیو کنونشن ۱۹۳۳ء میں ریاست کے لئے اقتدار اعلی کے بجائے ’’ دوسری ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی صلاحیت ‘‘ کی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔ بہ الفاظ دیگر بات واپس منعۃ اور ولایۃ کے تصور تک پہنچ گئی۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے منشور اور دیگر معاہدات میں اور بین الاقوامی عرف میں اب بھی ریاست کے لئے اقتدار اعلی کی صفت استعمال ہوتی ہے اور ریاستوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو ناجائز تصور کیا جاتا ہے، مگر عملاً یہ تصور اب صرف منعۃ اور ولایۃ تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ پس یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کن چیزوں پر اپنی ولایۃ برقرار رکھنے پر بضد ہیں ؟ ان معاملات میں آپ کے منعۃ کی وجہ سے کوئی مداخلت نہیں کرسکے گا اور وہ آپ کے ’’اندرونی معاملات ‘‘ قرار پائیں گے، وگرنہ ہر معاملے میں دوسرے مداخلت کرتے رہیں گے اور آپ کی ولایۃ کسی معاملے میں باقی نہیں رہ پائے گی۔ پس اصل اہمیت منعۃ اور ولایۃ کی ہے نہ کہ اقتدار اعلی نام کی موہوم شے کی۔
۴۔ فقہاے اسلام ولاےۃ اور منعۃ کو امام کی طرف منسوب کرتے تھے، نہ کہ دار کی طرف۔ تاہم امام کے پاس کوئی اختیار از خود نہیں آیا، بلکہ یا تو اسے شریعت نے عطا کیا ہوتا ہے یا امت کے وکیل کی حیثیت سے اسے بعض اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں شریعت کی بالادستی مسلم ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں امت، امام، دار اور منعۃ و ولایۃ کے مجموعے کو بین الاقوامی عرف میں ایک ’’ شخص ‘‘ متصور کرلیا گیا ہے، اور اس شخصِ اعتباری کے لئے کچھ حقوق و فرائض متعین کیے گئے ہیں۔ ہمیں غیروں کی اصطلاح میں بات کرنے کے بجائے اپنی اصطلاحات کی روشنی میں موجودہ صورتحال کی شرعی تکییف کرنی ہوگی۔
رابعاً : قانونِ وضعی کی حیثیت
۱۔ اگر انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو لازماً شرک فی الحکم سمجھاجائے تو پھر یہی درجہ خلفائے بنو امیہ سے لے کر عثمانی خلفاء تک سب حکمرانوں کے جاری کردہ فرامین اور وضع کردہ قواعد کو بھی دینا ہوگا۔ اس کے جو سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ اتنے واضح ہیں کہ ان پر تبصرے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔
ہر قانونی نظام میں صحیح (Valid) اور غیر صحیح (Invalid) قوانین میں فرق کے لئے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔مثلاً پارلیمنٹ کسی موضوع پر قانون سازی کے لئے بنیادی قواعد ایک قانون کے ذریعے طے کردیتی ہے جو Parent Act کہلاتا ہے۔ اس ایکٹ کے ذریعے کسی دوسرے ادارے کو قانون سازی کے اختیارات تفویض (Delegate)کر دیے جاتے ہیں۔ وہ ادارہ جو قوانین وضع کرتا ہے اگر وہ Parent Act کے وضع کردہ قواعد کی رو سے صحیح ہوں تو انہیں ملک کے قانونی نظام کا حصہ سمجھا جائے گا، باوجود اس کے کہ ان قوانین کو پارلیمنٹ کے بجائے ایک ماتحت ادارے نے وضع کیا ہوتا ہے۔ پھر ہر قانونی نظام میں ایک اساسی قاعدہ (grundnorm ) ہوتا ہے جو خود صحیح ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر دیگر تمام قوانین کی صحت یا عدم صحت کا فیصلہ کیاجاتاہے۔
اسلامی قانون کا grundnorm یہ ہے: ان الحکم الا للہ (سورۃ یوسف، آیت ۴۰)
پس وضعی قوانین کو الہامی نہیں قرار دیا جاسکتا لیکن وہ اسلامی قانون ہی کا حصہ ہوتے ہیں بشرطیکہ وہ مذکورہ بالا grundnorm کی رو سے صحیح ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا تعزیری سزاؤں کا ذکر کتاب الحدود میں ہی کرتے ہیں۔ جب قرآن و سنت نے اس طرح کے معاملات میں قانون سازی کا اختیار اولوالامر کو دیا ہے تو پھر اس پر اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔
البتہ وضعی قوانین پر یہ اعتراض یقیناًوزنی ہے کہ وہ اسلامی قانون کے بجائے انگریزوں کے وضع کردہ قوانین سے ماخوذ ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں قانون ساز اداروں اور شعبۂ قانون سے وابستہ بہت سے افراد کا موقف یہ ہے کہ جو قوانین قرآن وسنت سے ’’متصادم‘‘ نہیں ہیں وہ از خود صحیح ہیں۔ اس سلسلے میں نہ صرف یہ کہ اسلامی قانون کے قواعد عامہ نظر انداز کردیے جاتے ہیں بلکہ ’’عدم تصادم ‘‘کو ’’مطابقت‘‘ کے مترادف سمجھ لیا جاتا ہے۔
۲۔ فقہا نے اسلامی قانون کا جو ڈھانچہ بنایا ہے اس میں ہر قسم کا قانون ایک خاص قسم کے حق کے ساتھ منسلک ہے۔ ان حقوق میں باہم ترجیح کے لیے فقہا نے خاص اصول بھی وضع کیے ہیں۔ جب تک حقوق کے اس نظام کو اچھی طرح نہ سمجھ لیا جائے اسلامی قانون کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں برقرار رہیں گی۔ اس ڈھانچے میں ہر قانون کا تعلق یا تو اللہ کے حق سے ہوتا ہے، یا بندے کے حق سے جسے حق العبد کہتے ہیں۔ بعض اوقات قانون کا تعلق ریاست یا معاشرے کے حق سے ہوتا ہے جسے حق السلطان یا حق السلطنۃ کہتے ہیں۔ حق جس کا ہوتاہے اسے جرم کی معافی کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ اگر حقوق اللہ اور حقوق السلطان ایک ہی ہوتے (جیسا کہ کئی معاصر اہلِ علم نے فرض کیا ہے ) تو پھر جن جرائم کو حقوق اللہ سے متعلق سمجھا جاتاہے (حدود) ان میں ریاست کے پاس معافی کا اختیارہوتا۔ اسی طرح حق کے مختلف ہونے کی وجہ سے جرم کے ثبوت اور بعض دیگرمتعلقہ مسائل (مثلاً شبہہ کااثر) بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات دو قسم کے حقوق مل کر ایک مشترک حق بناتے ہیں۔
ایسے جرائم جن کا تعلق حق السلطان سے ہے اور جن کی سزا کی مقدار کا تعین بھی اولوالامر کے ذمے ہے، ان کوفقہاے احناف ’’سیاسۃ‘‘ جرائم کہتے ہیں۔ ان جرائم میں معیار ثبوت کا تعین بھی حکومت کے پاس ہے اور معافی کا اختیار بھی وہ رکھتی ہے۔ جرم کی نوعیت کے مطابق سزا کا تعین حکومت کرتی ہے اور اس سلسلے میں ایسی کوئی قید نہیں ہے کہ سزا حد کی مقدار سے زائد نہ ہو۔ چنانچہ بعض حالات میں سزاے موت بھی دی جاسکتی ہے۔
۳۔ باقی رہا سوال پارلیمانی نظام حکومت کا تو وہ آمریت اور تغلب کے طریق کار سے بدرجہا بہتر ہے۔ اگر کوئی غلام امارت حاصل کرے اور اس کی اطاعت معروف میں واجب ہے، اگر کسی متغلب حاکم کی بھی معروف میں اطاعت لازم ہے، تو ایسے حاکم کی اطاعت تو بدرجۂ اولی لازم ہونی چاہیے جو عوام کی مرضی سے حکومت حاصل کرے۔ یہ بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے جب ہم اس حقیقت پر نظر ڈالتے ہیں کہ امام دراصل مامومین کا وکیل ہوتا ہے۔ تغلب کی صورت میں وہ عقد وکالۃ کے بغیر یہ منصب حاصل کرتا ہے، جبکہ چناؤ کی صورت میں وہ موکل کی مرضی سے وکیل بن جاتا ہے۔ خواہ مرضی کا یہ اظہار کتنا ہی ناقص ہو یہ تغلب سے بہتر ہے۔
۴۔ پارلیمنٹ کیا ہر قسم کی قانون سازی کرسکتی ہے ؟ کیا اس کا یہ اختیار مطلق ہے ؟ مغرب میں اقتدار اعلیٰ کے متعلق جو بحثیں ہوئیں ان کے نتیجے میں پہلے نظری سطح پر یہ بات مان لی گئی کہ اقتدار اعلی عوام کے پاس ہے۔ انتخاب کی صورت میں وہ یہ اختیار اپنے نمائندوں کو تفویض کردیتے ہیں۔ تاہم اس تفویض کے عمل سے دو باتیں از خود ثابت ہوجاتی ہیں : ایک یہ کہ جن کو اختیار تفویض کیا گیا وہ مطلق اختیار کے حامل نہیں ہیں؛ دوسری یہ کہ جنہوں نے اختیار تفویض کیا وہ بھی مطلق اختیار کے حامل نہیں رہے۔ بہ الفاظ دیگر اقتدار اعلی کسی کے پاس نہیں رہا۔
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز !
اب یہ بات صرف کاغذات تک ہی محدود ہے کہ پالیمنٹ اقتدار اعلی کی حامل ہے۔ حقیقت یہ ہے، جیسا کہ پیچھے واضح کیا گیا، کہ ریاست بھی اقتدار اعلی کی حامل نہیں ہے چہ جاے کہ پارلیمنٹ ! برطانیہ کے نظامِ حکومت کو پارلیمانی نظام حکومت کی سب سے بہترین مثال سمجھا جاتا ہے لیکن وہاں بھی پارلیمنٹ کے اقتدار اعلی کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ ’’ کابینہ کی آمریت ‘‘ کے تصور نے جنم لیا ہے۔ امریکہ میں جہاں عدالتوں کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کانگرس کے وضع کردہ قانون کو ختم کرسکتی ہے وہاں کانگرس کے بجائے دستور کی بالادستی کی بات کی جاتی ہے جس کی محافظ عدالتِ عظمی ہے۔ اسی طرح عدالتِ عظمی کو اختیار دیا گیا کہ وہ صدر کے جاری کردہ فرامین کو بھی کالعدم قرار دے۔ تاہم کانگرس دستور میں ترمیم کرسکتی ہے جو اگرچہ ایک نہایت مشکل کام ہے لیکن بہر حال اس کا اختیار کانگرس کے پاس ہے۔ اس طرح کانگرس عدالت کے اختیارات کو محدود کرسکتی ہے۔ کانگرس کے اس اختیار پر ایک قدغن لگانے کے لیے سربراہِ ریاست، یعنی صدر، کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کانگرس کے منظور کردہ قانون کو ویٹو کے اختیار کے استعمال کے ذریعے مسترد کردے۔ بھارت میں پارلیمنٹ کے اس اختیار کو مزید محدود کردیا گیا ہے کہ وہ دستور میں اس طرح کی ترمیم نہیں کرسکتی کہ اس سے دستور کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل ہوجائے۔ پس ’’ قانون سازی کے مطلق اختیار ‘‘ کا وجود کہیں بھی نہیں ہے۔ یہ محض ایک تخیل اور وہم ہے۔ پاکستان کے نظام پر آگے کچھ تفصیلی بحث آئے گی۔
۵۔ پارلیمنٹ کے لیے مطلق اختیارات کے تصور کے پیچھے یہ اصول کارفرما تھا کہ ریاست اقتدار اعلی کی حامل ہے۔ تاہم یہ تصور اب صرف نظریات کی حد تک ہی باقی رہا ہے۔ عملی دنیا میں اس تصور کے لئے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی مد نظر رہے کہ ریاست کے لیے اقتدار اعلی کے قائل صرف وہ مغربی مفکرین رہے ہیں جن کو Positivists کہا جاتا ہے۔ مغربی مفکرین ہی میں ایک گروہ ایسا رہا ہے جس نے اس مطلق اختیار پر سخت تنقید کی اور اعلان کیا کہ ریاست بذات خود مقصد نہیں بلکہ ایک اعلی تر مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ وضعی قانون کے اوپر ایک اور اعلی اور بالادست قانون موجود ہے جسے انہوں نے ’’ قانونِ فطرت ‘‘ کا نام دیا۔ انہوں نے قرار دیا کہ ریاستی وضعی قانون صرف اسی وقت واجب التعمیل ہوگا جب وہ اس قانون فطرت سے موافق ہو۔ اگر ریاست کا وضع کردہ قانون اس بالاتر قانون سے متصادم ہو تو ریاستی قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان Naturalists نے قرار دیا کہ حقوقِ انسانی کا منبع یہی قانون فطرت ہے اور ریاست کا مقصدِ وجود یہ ہے کہ وہ ان حقوق کی حفاظت کرے نہ کہ ان کو معطل کرے یا محدود کرے۔ ان میں سے بعض نے قانون فطرت کو خدائی قانون کا حصہ قرار دیا۔ ( ۳ )
Naturalistsکی کاوشوں سے ریاست اور پارلیمنٹ کے مطلق اختیارات پر ایک بڑی قدغن لگ گئی۔ ایک دوسری قدغن، جس کا پیچھے بھی ذکر کیا گیا، عدالتوں نے بالخصوص Judicial Review کے اختیار کے ذریعے لگائی۔ نیز خود مغربی مفکرین کو مطلق العنانی کے سد باب کے لئے ’’اختیارات کی تقسیم ‘‘ کا نظریہ پیش کرنا پڑا، جس کے تحت قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا گیا، تعبیر قانون کا اختیار عدالتوں کو اور تنفیذ قانون کا اختیار انتظامیہ کے سپرد کردیا گیا۔ پھر مغرب میں یہ بحث بھی چھڑ گئی کہ اگر قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے تو جج کا کیا کردار ہے؟ کیا وہ قانون سازی کرتا ہے یا وہ محض قانون کی تعبیر کرتا ہے۔ اگر قانون کی تعبیر سے مراد صرف یہ ہے کہ لفظ کے ظاہر تک محدود رہے تو پھر نئے پیش آمدہ مسائل کا حل کیسے پیش کیا جائے گا۔ پھر وہاں اسی طرح کے مباحث نے جنم لیا جس سے مسلمان اہل علم پہلے ہی آشنا تھے، یعنی اہلِ ظاہراور اہل راے کے مباحث ! جہاں کہیں کسی جج نے قانون کے پیچھے کارفرما اصولوں کا استخراج کرکے کسی مسئلے کا حل پیش کیا بعض ظاہر پسندوں نے اسے ’’ قانون سازی ‘‘ قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے اختیارات پر حملہ قرار دیا۔ تاہم ’’ اہل راے ‘‘ ججوں کی کاوشوں سے سینکڑوں نئے مسائل کا حل دریافت ہوا اور قانون نے ارتقا کا سفر جاری رکھا۔
ان میں سے کوئی مبحث مسلمان اہلِ علم کے لئے انوکھا اور نیا نہیں ہے مگر اسے تشریع من دون اللہ کہنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔
خامساً : بین الاقوامی قانون کی حیثیت کا مسئلہ
۱۔ بین الاقوامی قانون کے متعلق بھی یہ تصور صرف Positivists کا رہا ہے کہ اس کا ماخذ ریاست کی مرضی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ ریاست اقتدار اعلی کی حامل ہے اس لئے اس پر بالادست قانون کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ بالادستی کا مطلب ریاست کے اقتدار اعلی کی نفی ہے۔ تاہم اقتدار اعلی کا حامل شخص خود اپنے اوپر بعض پابندیاں عائد کرسکتا ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی قانون ان پابندیوں کا مجموعہ ہے جو ریاست نے اپنے اوپر صراحتاً یا دلالۃً عائد کی ہیں۔ اول الذکر کو معاہدہ اور ثانی الذکر کو رواج کہتے ہیں۔ تاہم یہ انتہائی حد تک سادہ موقف اب بالکل متروک ہوچکا ہے۔ چنانچہ جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا، ریاست کے اقتدار اعلی کا تصور صرف اعلان کی حد تک محدود رہ گیا، اس کے قانونی اثرات باقی نہیں رہے۔ قانونی اثرات صرف منعۃ اور ولایۃ کے ہیں۔ مزید برآں جب ریاست رواج یا معاہدے کی دفعات پر عمل کی پابند ہوگئی تو وہ اقتدار اعلی کی حامل باقی ہی نہیں رہی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے ضابطے میں تصریح کی گئی ہے کہ بین الاقوامی قانون کے مآخذ میں محض رواج اور معاہدات ہی شامل نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی عدالتوں کے فیصلوں اور ممتاز ماہرین قانون کی تحریرات کے علاوہ مہذب اقوام کے نظامہائے قانون کے مسلمہ قواعد اور اصول بھی شامل ہیں۔ ان مآخذ میں کچھ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور کچھ بنیادی، تاہم اتنی بات طے ہے کہ ان سب کا ماخذ ریاست کا اقتدار اعلی نہیں ہے۔ اس پر مزید اضافہ Naturalists کی کاوشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حقوق انسانی کے ذخیرے کا بھی کیجئے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار اعلی کے تصور کی جڑ ہی کٹ گئی ہے۔
۲۔ شریعت نے دار الاسلام اور دار الکفر کے درمیان جنگ و امن کے تعلقات کی تہذیب کے لئے کچھ قوانین نصوص کے ذریعے دیے ہیں اور دیگر امور کے لئے سیاسۃ کے قاعدے کے تحت امام کو اختیار دے دیا ہے۔ مسلمانوں کے لئے شریعت کے احکام ہر صورت میں واجب الاطاعت رہیں گے خواہ فریق مخالف ان کو مانے یا نہ مانے، اور خواہ وہ ان کی پابندی کرے یا خلاف ورزی۔ گویا دیگر امور کی طرح اس شعبے میں بھی مسلمانوں پر شریعت کے احکام کی پابندی کی بنیاد تماثل اور مجازاۃ نہیں ہے۔ ہاں اگر فریق مخالف بھی ان امور کی پابندی پر آمادہ ہے اور ان کو معاہدات کے ذریعے منضبط کرنا چاہتا ہے تو یہ اور بھی بہتر ہے۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی، جو فی الحقیقت آیۃ من آیات اللہ تھے، نے السیر الکبیر میں کئی ایسے فرضی معاہدات پر بحث کی ہے جو مسلمان دیگر اقوام کے ساتھ آداب القتال کے سلسلے میں کرسکتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ ’’ یہ معاہدہ نہیں بلکہ قانون ہے لہٰذا ناجائز ہے ‘‘ ایک انتہائی حد تک غلط موقف ہے کیونکہ، جیسا کہ پیچھے واضح کیا گیا، محض قانونی حیثیت حاصل ہونے کی وجہ سے یہ ناجائز نہیں ہوجاتا، بالخصوص جبکہ اس معاہدے میں وہی کچھ طے کیا گیا ہو جو شریعت نے مسلمانوں پر لازم ٹھہرایا ہو۔
۳۔ باقی رہی یہ بات کہ اگر معاہدے میں کوئی شق شریعت کے خلاف ہو تو کیا اس معاہدے پر دستخط کرنا ناجائز نہیں ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خلاف شریعت کسی شرط کا ماننا مسلمانوں کے لئے جائز نہیں ہے (المسلمون عند شروطھم الا شرطاً أحل حراماً أو حرم حلالا)۔ اس قسم کی شرط ماننا یقیناًناجائز ہے۔ بلکہ اگر اس قسم کی شرط مان بھی لی گئی تو اس پر عمل ناجائز ہوگا۔ تاہم بعض شرائط کے مقتضیات کے تعین پر اختلاف ہوسکتا ہے۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ بعض شروط کے ماننے سے بعض لوگوں کے نزدیک کفر کی بالادستی ماننی لازم آتی ہو، جبکہ بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں ہوسکتا ہے کہ یہ ان شروط کے ماننے کا لازمی تقاضا نہ ہو۔ اس لئے کوئی sweeping statement دینا مناسب نہیں ہوگا، بلکہ ضروری ہوگا کہ ہر ہر شرط کے مقتضیات پر الگ الگ بحث کی جائے اور پورے معاہدے کے مجموعی اثر پر اس کے بعد نظر ڈالی جائے۔ اس کے بعد ہی اس معاملے کی صحیح شرعی تکییف کی جاسکے گی۔ عقود اور شروط کے متعلق اصل صحت، نفاذ اور لزوم کا ہے۔ جو شخص دعوی کرے کہ کوئی شرط یا عقد اس اصل کے خلاف ہے تو ثبوت کا بار بھی اسی کے ذمے ہے۔
۴۔ پچھلے مباحث کی روشنی میں یہ امر اصولی طور پر بالکل جائز ہے کہ مسلمان دیگر اقوام کے ساتھ مل کر ایسا معاہدہ کریں جس کے ذریعے وہ آپس کے تنازعات کے حل کے لئے کوئی پر امن طریقہ متعین کریں۔ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف باہمی تعاون بھی اصولی طور پر جائز ہے۔ البتہ تفصیلات اور جزئیات پر بحث کی ضرورت ہے۔
۵۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اگر دو گروہوں کے درمیان تنازعہ ہو اور ہمیں کسی ایک فریق کا ساتھ دینا پڑے تو کیا ہم اس بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ ان گروہوں میں مسلمان کون ہے ؟ یا یہ دیکھیں گے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ؟ اگر ظالم اور مظلوم کے سوال کو نظر انداز کرکے ہم ہر حال میں صر ف ’’ مسلمان ‘‘ ہی کا ساتھ دیں تو کیا یہ اسی طرح کی ’’ قوم پرستی ‘‘ نہیں ہوجائے گی جس پر مسلمان اہلِ علم عموماً تنقید کرتے ہیں ؟
فصلِ پنجم: کیا پاکستان کا دستور ’ کفریہ ‘ ہے ؟
پچھلے مباحث کی روشنی میں جب ہم پاکستان کی مخصوص صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں تو چند نتائج بدیہی طور پر سامنے آجاتے ہیں :
اولاً : پاکستان دار الاسلام ہے۔
پاکستان میں شامل علاقے یقیناًدار الاسلام کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ یہاں کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے جنہوں نے باہمی معاہدے کے ذریعے یہ بھی طے کیا ہوا ہے کہ ان کا سربراہ مسلمان ہوگا۔ اگر بعض لوگوں کے خیال میں اس معاہدے کی بعض شقیں یا دیگر قوانین کی بعض جزئیات ’’ ظہور احکام کفر ‘‘ کے ضمن میں آتی ہیں تو اس کے باوجود دار الاسلام کے دار الکفر میں تبدیل ہونے کے لئے جو دو مزید شرطیں درکار ہیں وہ یہاں نہیں پائی جاتیں۔ یہاں غلبہ اور قہر مسلمانوں کا ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ مسلمانوں کو ہی منسوب ہے اور دار الکفر کی متاخمت کی شرط بھی بدیہی طور پر مفقود ہے۔ ان امور کی مزید وضاحت کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں :
۱۔ ۱۹۴۹ء میں پہلی دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کی جس کی رو سے یہ طے پایا کہ پاکستان میں اسلامی قانون کو بالادستی حاصل ہوگی۔ اس قرارداد کے ذریعے پاکستان کے دستوری نظام کے بنیادی مقاصد کا تعین کیا گیا۔ یہ قرارداد پاکستان کے تینوں دساتیر ۱۹۵۶ء، ۱۹۶۲ء اور ۱۹۷۳ ء میں دیباچے کے طور پر شامل کی گئی۔ پھر ۱۹۷۳ء کے دستور میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ۱۹۸۵ء میں اسے دفعہ ۲۔ الف کے تحت دستور کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔ اعلی عدالتوں نے کئی فیصلوں میں اس قرارداد کو انتہائی مقدس دستاویز قرار دیا ہے یہاں تک کہ دستور سے انحراف کے دور میں بھی قراردادِ مقاصد کو ناقابلِ تنسیخ و تعطیل سمجھا گیا اور اسی بنا پر عاصمہ جیلانی کیس ۱۹۷۲ء میں قرار دیا گیا کہ مارشل لا کا نظام ناجائز ہے اور حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ مارشل لا ختم کرکے دستوری نظام بحال کرلے۔
۲۔ ۱۹۵۲ ء میں پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے جید علماے کرام نے دستور کی اسلامی حیثیت ماننے کے لیے بائیس نکات دیے۔ پاکستان میں تمام دساتیر میں ان بائیس نکات کی روشنی میں اسلامی دفعات شامل کی گئیں۔ مثال کے طور پر سربراہِ ریاست کے لیے مسلمان ہونے کی شرط ضروری قرار دی گئی ہے۔ ۱۹۷۴ ء میں دستوری ترمیم کے ذریعے ’’ مسلمان ‘‘ کی تعریف بھی دستور میں شامل کی گئی جس کے تحت نہ صرف قادیانی بلکہ بہائی بھی غیر مسلم قرار پائے۔ دستور کی دفعہ ۲ کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ اسلام پاکستان کا ’’ریاستی مذہب ‘‘ہے۔ دفعہ ۲۲۷ کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ تمام قوانین کو اسلامی شریعت کے مطابق کیا جائے گا اور تمام غیر اسلامی قوانین ختم کردیے جائیں گے۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل بھی تشکیل دی گئی ہے۔
۳۔ ۱۹۷۷ ء کے انقلاب کے بعد پہلے عدالت ہاے عالیہ میں شریعت بنچ قائم کیے گئے، بعد میں یہ بنچ ختم کرکے ان کی جگہ وفاقی شرعی عدالت قائم کی گئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اسلامی شریعت سے متصادم قوانین کو تصادم کی حد تک کالعدم قرار دے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف جب سپریم کورٹ میں اپیل کی جاتی ہے تو اس کی سماعت کے لیے خصوصی شریعت اپیلیٹ بنچ قائم کی گئی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ دونوں میں علما جج بھی تعینات کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ اگر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل نہ ہو تو پھر اس فیصلے کی پابندی سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوتی ہے۔
۴۔ وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ اختیار سے ابتدا ( ۱۹۸۰ ء ) میں چار قوانین خارج کیے گئے :
الف۔ دستور
ب۔ عدالتوں کے طریقِ کار سے متعلق قوانین
ج۔ مسلم شخصی قوانین اور
د۔ مالیاتی امور سے متعلق قوانین۔
یہ ایک انتظامی قسم کا فیصلہ تھا اور اس سے مراد یہ ہر گز نہیں کہ یہ قوانین شریعت پر بالادست ہیں۔ نیز ان استثناء ات کی تعبیر وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے اس طور پر کی ہے کہ بہت ہی کم قوانین اب ان استثناء ات کے ذیل میں آتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملکیتِ زمین کی تحدید کے مسئلے کو ابتدا میں وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر قرار دیا گیا کیونکہ زمینی اصلاحات کو ایک قسم کا دستوری تحفظ حاصل تھا۔ تاہم قزلباش کیس ( ۱۹۸۹ء ) میں سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ نے اس خیال کو مسترد کردیا۔ اسی طرح شفعہ سے متعلق قانون کو ابتدا میں عدالتی طریقِ کار سے متعلق قوانین میں شامل سمجھا گیا لیکن سید کمال شاہ کیس ( ۱۹۸۶ء ) میں اس کی نفی کی گئی۔ مسماۃ فرشتہ کیس ( ۱۹۸۰ ء ) میں شخصی قوانین کی ایسی تعریف پیش کی گئی جس کی رو سے مسلم عائلی قوانین آرڈی نینس ۱۹۶۱ء بھی وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر سمجھا گیا۔ تاہم ڈاکٹر محمود الرحمان فیصل کیس ( ۱۹۹۳ ء ) میں سپریم کورٹ نے شخصی قوانین کی ایک اور تعریف پیش کی جس کے بعد یہ آرڈی نینس وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت میں آگیا اور اس نے اللہ رکھا کیس ( ۲۰۰۰ ء ) میں اس کی کئی شقوں کو اسلامی شریعت سے متصادم قرار دیا۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا فیصلہ ابھی نہیں ہوسکا ہے۔ مالیاتی امور سے متعلق قوانین کو ابتدا میں ۲ سال، پھر ۵ سال اور پھر ۱۰ سال کے لیے وفاقی شرعی عدالت کے دائرۂ سماعت سے باہر کیا گیا۔ یہ مدت ۱۹۹۰ء میں پوری ہوچکی ہے۔ اس لیے عدالت اب ان قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے۔ نیز اس دوران میں عدالت نے اس اصطلاح کی ایسی تعبیر پیش کی جس کی رو سے کئی قوانین مالیاتی قوانین کی تعریف سے باہر ہوکر عدالت کے دائرۂ سماعت میں آگئے۔
۵۔ پاکستان کے حکمرانوں اور عدالتوں کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کے متعلق ایک اہم دستاویز وہ فتوی ہے جس کا اصل موضوع تو رویتِ ہلال کا مسئلہ تھا لیکن اس سے زیر بحث مسئلے میں بھی نہایت واضح اور دو ٹوک رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد رویتِ ہلال کے سلسلے میں عمومی اتفاق قائم کرنے کی ایک اہم کوشش مولانا مفتی محمد شفیع نے کی۔ انھوں نے پہلے ایک سوالنامہ مرتب کرکے ہند و پاک کے ممتاز علما کے پاس بھجوایا۔ پھر ستمبر ۱۹۵۴ء میں قاسم العلوم ملتان میں جید علماے کرام کا ایک اہم اجتماع منعقد کرایا جس میں دو دن کے تفصیلی مباحثہ کے بعد ’’زبدۃ المقال فی رؤیۃ الہلال ‘‘ کے عنوان سے ایک متفقہ فتویٰ تیار کیا گیا۔ ( ۴ ) اس فتوے میں پاکستانی حکومت کے فیصلوں کی شرعی حیثیت کے متعلق جو سوالات قائم کیے گئے ہیں اور ان کے جو جوابات دیے گئے ہیں، وہ زیر بحث مسئلے میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے یہاں اس فتوے سے چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں۔ پاکستانی حکمرانوں اور عدالتوں کی شرعی حیثیت کے تعین کے لیے اس فتوے میں تین سوالات قائم کیے گئے :
’’ پہلا سوال یہ ہے کہ جو شخص قوت کے بل بوتے پر اقتدار پر غالب ہوجائے اوار ارباب حل و عقد اس کی حکمرانی پر راضی نہ ہوں کیا اس کی حکومت صحیح ہے اور اس کی جانب سے قاضیوں کی تقرری جائز ہے ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا فاسق قضا کے لیے اہل ہے ؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ احکامِ شرعیہ سے عدم واقفیت کسی قاضی کی اہلیت قضا ختم کردیتی ہے ؟ ‘‘
ان میں پہلے سوال کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اگرچہ احادیث نبویہ اور عبارات فقہیہ کے بموجب اصولاً حکمران کا ارباب حل و عقد کے مشورے سے مقرر کرنا ضروری ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص طاقت کے بل بوتے پر حکومت پر قابض ہوجائے تو جائز امور میں اس کی اطاعت سب مسلمانوں پر واجب ہوتی ہے اور اس کی ماتحتی میں قضا اور دیگر مناصب کی ذمہ داری قبول کرنا جائز ہوتا ہے، خواہ مسلمانوں کے اہل علم میں کسی ایک نے بھی اس کی بیعت نہ کی ہو، جب تک کہ وہ کفر بواح کا مرتکب نہ ہوجائے۔ اس کے بعد پاکستان کے حکمرانوں کے تناظر میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان میں حکام کئی معاملات میں شرعی قوانین پر عمل کرسکتے ہیں اور اس قسم کے فیصلے شرعاً صحیح اور نافذ ہوں گے کیونکہ قاضی کے ہر فیصلہ کا شرعی حکم الگ ہے ( بعض صحیح اور نافذ ہوں گے اور بعض غیر صحیح اور غیر نافذ ہوں گے )۔
دوسرے سوال کے جواب میں واضح کیا گیا ہے کہ فقہاء کے نزدیک قضا کے لیے عدل شرط جواز نہیں بلکہ شرط اولوی ہے، یعنی اس صفت کا قاضی میں موجود ہونا بہتر ہے اگرچہ اس کے بغیر بھی قاضی کے منصب پر تعیناتی جائز ہے۔ یہاں ابنِ عابدین کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر یہ بات مان لی گئی کہ فاسق قضا کا اہل نہیں ہے تو بالخصوص ہمارے دور میں قضا کا کام سرے سے ناممکن ہوجائے گا۔ اس کے بعد ابن الھمام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ جسے سلطان کی جانب سے قضا کا منصب سونپ دیا گیا اس کے فیصلے نافذ ہوں گے خواہ وہ جاہل یا فاسق ہو۔ البتہ ایسے قاضی کو دوسروں کے فتویٰ پر فیصلہ دینا چاہیے۔
تیسرے سوال کے جواب میں پھر ابن الھمام کے مذکورہ بالا قول کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں صراحتاً قرار دیا گیا ہے کہ جاہل کے فیصلے نافذ ہوں گے۔
واضح رہے کہ یہ فیصلہ ان علماے کرام نے ۱۹۵۴ء میں اس وقت دیا تھا جب ابھی پاکستان کا پہلا دستور بھی نہیں لکھا گیا تھا۔ ۱۹۵۶ء میں پاکستان نے دستوری طور پر ’’ اسلامی ریاست ‘‘ ہونے کا اعلان کرلیا اور قرار دیا کہ پاکستان میں تمام قوانین اسلامی احکام کے مطابق ہوں گے۔ ۱۹۶۲ء کے دستور میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا اور قوانین کو اسلامیانے کے لیے دو ادارے اسلامی مشاورتی کونسل اور ادارۂ تحقیقات اسلامی تشکیل دیے گئے۔ ۱۹۷۳ء کے دستور میں مزید اسلامی دفعات کا اضافہ کیا گیا اور ۱۹۷۴ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے دستور میں ’’ مسلمان ‘‘ کی تعریف بھی داخل کی گئی جس کی رو سے ختم نبوت کے منکرین غیر مسلم قرار پائے۔ ۱۹۷۷ء کے انقلاب کے بعد بڑے پیمانے پر قوانین میں تبدیلیاں لائی گئیں اور کئی قوانین کو اسلامی شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کی گئیں۔ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے علاوہ سپریم کورٹ اور عدالت ہاے عالیہ نے پچھلے چونسٹھ برسوں میں کئی اہم فیصلے دیے جنھوں نے پاکستان کے قانونی نظام کے اسلامی تشخص کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پس اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان دار الاسلام ہے۔
ثانیاً : دستورِ پاکستان کی حیثیت مسلمانوں کے مابین ایک معاہدے کی ہے جو اصلاً صحیح، نافذ اور لازم ہے۔
۱۔ دستورِ پاکستان کی حیثیت یہاں کے مسلمانوں کے درمیان ایک معاہدے کی سی ہے۔
۲۔ پس اس پر معاہدے سے متعلق قواعد لاگو ہوں گے جن میں سے ایک یہ ہے کہ معاہدے اور اس کی شقوں کو اصولاً صحیح مانا جائے گا۔
۳۔ جہاں کہیں کوئی شق اسلامی قانون کی رو سے غیر صحیح ہو اس کی ایسی تاویل کی جائے گی جو اسے اسلامی قانون کے مطابق کردے۔
۴۔ اگر کسی شق کی ایسی تاویل ممکن نہ ہو تو وہ باطل ہے اور اس پر عمل جائز نہیں ہے، خواہ معاہدے میں صراحتاً یہ بات لکھی گئی ہو کہ اس شق پر عمل واجب ہے، اور خواہ اس شق پر عمل کو عدالتوں نے بھی واجب قرار دیا ہو۔ اسلامی قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ قاضی کا فیصلہ اگر نصِ قطعی یا اجماع کے خلاف ہو تو وہ نافذ نہیں ہوگا۔
ثالثاً : مسلمانوں کے لیے شریعت کے کسی حکم پر عمل عدالت کے فیصلے سے مشروط نہیں ہے۔
۱۔ مسلمانوں کے لیے شریعت کے کسی حکم پر عمل اس سے مشروط نہیں ہے کہ پہلے اس حکم کے متعلق عدالتی فیصلہ آئے۔ اس لیے اگر بینک کا انٹرسٹ کسی کے فہم کے مطابق ربا ہے ( اور میرے نزدیک یقیناًہے ) تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس انٹرسٹ سے میں اس لیے اجتناب نہیں برت سکتا کہ ابھی اس کا معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے،بلکہ اس پر واجب ہوگا کہ وہ اس سے اجتناب کرے۔
۲۔ پاکستان میں سودی نظام کے بقا کی وجہ یہ نہیں کہ عدالت نے اسے ناجائز ٹھہرانے سے انکار کیا ہے، بلکہ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس معاملے میں یا تو بے حس ہے اور یا بے خبر۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ عدالت میں جن ججوں نے اس معاملے میں تساہل اور مداہنت کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی انہی میں سے کسی ایک یا دونوں اسباب کی بنا پر کیا ہے۔ پس اصل مسئلہ لوگوں کے فہم اور دینی حس کا ہے۔
۳۔ جہاں تک دار الاسلام میں سودی لین دین کا تعلق ہے وہ بہر صورت ناجائز ہے، خواہ مسلمانوں کی اکثریت اس میں مبتلا ہو ؛ خواہ انھوں نے معاہدے میں قرار دیا ہو کہ اس پر پابندی لگانے میں ابھی کچھ دیر ہے ؛ اور خواہ وہاں کی عدالت نے اسے ناجائز کہنے میں توقف کیا ہو۔ اس لیے اگر کسی ماتحت عدالت کے کسی جج کے سامنے سودی لین دین کا تنازعہ آئے تو اس پر واجب ہے کہ سود کو باطل قرار دے۔ لیکن کتنے جج ہیں جو ایسا کرسکیں گے ؟ اور جو نہیں کرسکیں گے تو وہ کس وجہ سے نہیں کرسکیں گے ؟ کیا وہ یہ کہیں گے کہ اگرچہ قرآن و سنت میں اسے حرام قرار دیا گیا ہے مگر ہم پر قرآن و سنت کے بجائے دستور اور اعلی عدالتوں کے فیصلے کی اتباع واجب ہے ؟ اگر وہ ایسا کہیں گے تو ظاہر ہے کہ وہ کفر کا ارتکاب کریں گے۔ اس لیے ان میں کچھ اسے سود قرار دینے میں تامل کریں گے، کچھ اسے سود قرار دیتے ہوئے اپنی کمزوری کا اعتراف کریں گے، اور کچھ سرے سے اس بحث سے ہی کنارہ کشی کریں گے۔ ان تینوں گروہوں کو کچھ بھی کہا جائے مگر ان کا حکم پہلے گروہ سے مختلف ہوگا۔
رابعاً : پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار مطلق نہیں ہے۔
۱۔ یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خواہ دستور میں قرار دیا گیا ہو کہ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار مطلق ہے اس کے باوجود وہ مطلق نہیں ہے۔ ایک تو اس وجہ سے کہ پارلیمنٹ اقتدار اعلی کی حامل نہیں ہے۔ دوسرے اس وجہ سے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کی غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ پس اگر اس پارلیمنٹ نے کوئی ایسا قانون منظور کیا جو قرآن و سنت سے متصادم ہو تو اس قانون پر سرے سے عمل جائز نہیں ہوگا کیونکہ یہ پارلیمنٹ نے اپنے جائز اختیارات سے تجاوز کیا ہوگا۔ بلکہ اگر پارلیمنٹ دستور میں ترمیم کے ذریعے اس سے تمام اسلامی دفعات کا خاتمہ کرے، تب بھی وہ ترمیم ہی سرے ناجائز ہوگی۔
۲۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہوگی کہ ججز کیس ( ۱۹۹۶ء ) میں سپریم کورٹ نے طے کیا ہے کہ پارلیمنٹ دستور سے اسلامی دفعات کا خاتمہ نہیں کرسکتی، بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہوگی کہ اسلام کے دعویدار ہوتے ہوئے ارکانِ پارلیمنٹ ایسا کر نہیں سکتے۔
۳۔ اگر انھوں نے ایسا کیا بھی، تو اسلام کے دعویدار ججز پر لازم ہوگا کہ اسے کالعدم قرار دیں۔
۴۔ اگر انھوں نے بھی اسے کالعدم قرار دینے سے انکار کیا تو پاکستان کے شہریوں پر، جن کی غالب اکثریت اسلام کی دعویدار ہے، لازم ہوگا کہ اسے ماننے سے انکار کریں۔
۵۔ اگر بفرضِ محال انھوں نے بھی اس پر خاموشی اختیار کی، تب بھی اس کا ماننا ان کے لیے جائز نہیں ہوگا۔ ( ۵)
۶۔ ہاں اگر انہوں نے اسے جائز قرار دیا تب یہ امکان پیدا ہوسکتا ہے کہ پاکستان دار الاسلام نہ رہے۔ تاہم، جیسا کہ واضح ہے، یہ آخری صورت تبھی ممکن ہوسکے گی جب یہاں کے لوگوں کی اکثریت مرتد ہوجائے، و العیاذ باللہ !( ۶)
۷۔ یہی کچھ عدالتوں کے متعلق بھی کہا جائے گا۔ جج اگر مسلمان ہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے اور اگر انھوں نے ایسا کیا تب بھی اس فیصلے کا ماننا پاکستان کے مسلمانوں کے لئے ناجائز ہوگا۔ پس تکفیر و خروج کے قائلین جس امکان کا ذکر کرتے ہیں، وہ اتنا موہوم ہے کہ اس پر اس مسئلے کے حکم کا بنا کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔
خامساً : شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے جو قوانین باہر ہیں وہ شریعت سے بالاتر نہیں ہیں۔
۱۔ جہاں تک شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے بعض قوانین کے اخراج کا معاملہ ہے تووہ ایک انتظامی فیصلہ ہے۔ اگر یہ عدالت عائلی قوانین کے متعلق فیصلہ نہیں سنا سکتی تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قوانین شریعت پر بالادست ہوگئے۔ اگر یہ مسلمانوں کا علاقہ ہے اور یہاں منعۃ اور ولایۃ مسلمانوں کے پاس ہے تو دستور سمیت یہاں کے تمام قوانین شریعت کے ماتحت ہیں، اور رہیں گے، خواہ کوئی عدالت ان کے خلافِ شریعت ہونے کا فیصلہ کرسکے یا نہ کر سکے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی قانون کو اگر یہ عدالت خلافِ شریعت قرار دے تو وہ فیصلہ اس کو مستلزم نہیں کہ وہ قانون واقعتاً خلافِ شریعت ہے۔
۲۔ باقی رہا اپیل کا معاملہ تو وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ عدالت کا فیصلہ بہر حال انسانی کاوش ہے۔ اس لیے اس پر بعض دیگر انسان مزید غور و فکر کریں تو غلطی کا احتمال کم ہوجاتا ہے۔ اگر اس اختیار کو بعض لوگوں نے غلط استعمال کیا ہے تو کون سا ایسا جائز کام ہے جسے ناجائز کام کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ؟ تو کیا اس بنا پر ہر جائز کام کو ناجائز قرار دیا جائے گا ؟
سادساً : پارلیمنٹ کو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ماننے کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔
۱۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی حیثیت ’’ ریاستی مفتی ‘‘ کی ہے اور اس وجہ سے حکومت پر اس کی ’’تجاویز ‘‘کو ماننا لازم نہیں ہے۔ جب ہارون الرشید مختلف ائمۂ کرام کو اکٹھا کرکے ان سے استفتا کرتا تھا تو اس کے بعد ان میں کسی کی رائے پر عمل کرنا اس نے خود پر لازم قرار دیا تھا یا حتمی فیصلہ اسی کا ہوتا تھا ؟
۲۔ نیز کیا ان نتائج پر بھی غور کیا گیا ہے جو اس کونسل کے فیصلے کو لازم قرار دینے سے پیدا ہوتے ہیں ؟ اس فیصلے کو لازم کردینے سے قبل آپ کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ اس کونسل کے ارکان کون ہوں گے ؟ کیا وہ حکومت کے نامزد کردہ ہوں گے ؟ یا ان کا بھی انتخاب کیا جائے گا ؟اگر انتخاب کے مسئلے کو ’’ قدرتی چناو ‘‘ کے سپرد کردیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قدرتی چناو کا عملاً مطلب یہ نہیں ہوگا کہ معاملہ حکمران کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ؟ قبائلی اور بدوی زندگی میں قدرتی چناؤ اتنا دشوار نہیں ہوتا جتنا شہری اور متمدن زندگی میں ہوتا ہے۔ پس آخر الامر معاملہ حکمران کی صوابدید پر ہی جا رکتا ہے !
۳۔ بہر حال ارکان خواہ کسی طرح چنے گئے ہوں، مزید سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سعودی عرب کی ہئیۃ کبار العلماء کے ارکان کی طرح وہ پوری عمر اس کے رکن رہیں گے یا کسی مقررہ مدت تک؟ ایران میں مجلسِ بزرگان کے فیصلوں کو اگر لازمی حیثیت دی گئی ہے تو وہ اس لیے قابلِ فہم ہے کہ وہاں شیعہ مذہب کے اثرات کی وجہ سے امامت کے تصور کے ضمن میں علما کا ایک شجرہ وجود میں آگیا ہے، جن میں مختلف درجات باقاعدہ متعین ہیں۔ اس لیے یہ معاملہ اتنا سیدھا سادھا نہیں ہے جتنا اس کو سمجھا جارہا ہے۔
سابعاً : اسلامی نظریاتی کونسل اور شرعی عدالت مثالی ادارے نہیں ہیں مگر صحیح سمت میں اہم پیش رفت ہیں۔
۱۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے برعکس وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے لازمی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ اس کی حیثیت ’’ ریاستی قاضی ‘‘ کی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت اور شریعت اپیلیٹ بنچ نے بعض غیر اسلامی قوانین کے خاتمے اور بعض نئے اسلامی قوانین کے اجرا کے سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح ان عدالتوں نے شرعی قوانین کی توضیح اور تنفیذ کے سلسلے میں بعض اہم فیصلے سنائے ہیں۔ مجموعی لحاظ سے ان کی کارکردگی مثالی اور معیاری نہ سہی لیکن انہیں صحیح سمت میں پیش رفت کا نام ضرور دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً شرعی عدالت کے اختیار سماعت سے جن قوانین کو استثنا دیا گیا ہے ان کو بھی اس کے دائرۂ اختیار میں لانا چاہیے۔ بلکہ زیادہ مناسب صورت تو یہی تھی کہ عدالت ہاے عالیہ میں شریعت بنچ ہوں۔
۲۔ تاہم محض شریعت بنچوں یا شرعی عدالت سے کام نہیں چلے گا بلکہ ابھی بہت کام کی ضرورت ہے۔ نہ ہی اس سے کام چلے گا کہ ان عدالتوں میں ’’ علما ‘‘ کی تعداد بڑھائی جائے۔ ان علما میں کتنے ہیں جو معاشرتی سطح پر قانون کی تنفیذ کی پیچیدگیوں کا ادراک رکھتے ہیں ؟ پھر ان میں کتنے ایسے ہیں جو وضعی قانون کی اصل خامیوں، کمزوریوں اور مفاسد سے واقف ہیں ؟ اور ان میں کتنے ایسے ہیں جو عصر حاضر کے اسلوب میں شریعت اسلامی کی صحیح تعبیر پیش کرسکتے ہیں ؟ نیز ججوں اور قانون دانوں میں کتنے ایسے ہیں جو شریعت کی اساسیات سے ہی واقف ہیں ؟
ثامناً : پاکستانی دستور نے پر امن تبدیلی کا راستہ کھلا رکھا ہے۔
۱۔ جو لوگ موجودہ حکمرانوں یا طرز حکمرانی سے نالاں ہیں اور اس لیے نظام کی تبدیلی اور انقلاب کے نعرے بلند کرکے لوگوں کو خروج کی طرف دعوت دیتے ہیں انھیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ خروج کے جواز کے لیے ایک بنیادی شرط پاکستان میں مفقود ہے کیونکہ یہاں تبدیلی پر امن ذرائع سے ممکن ہے۔
۲۔ اسلامی شریعت نے غیر مسلموں کے خلاف جنگ کی اجازت بھی صرف اس صورت میں دی ہے جب جنگ بالکل ہی ناگزیر ہوجائے تو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا مسئلہ تو اس سے بدرجہا زیادہ سنگین ہے۔ اس لیے اس کی اجازت اس صورت میں قطعاً نہیں دی جاسکتی جب تبدیلی و اصلاح کے لیے پر امن ذرائع میسر ہوں۔
تاسعاً : موجودہ حالات میں خروج زیادہ بڑے فساد کا باعث ہوگا۔
امام ابو حنیفہ اگرچہ اپنے معاصر اموی خلفا اور ان کے بعد عباسی خلفا کی نااہلیت کے قائل تھے اور ان کے شدید ناقدین میں تھے، نیز آپ تبدیلی کے حامی بھی تھے اور اصولاً خروج کے جواز کے قائل بھی تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے خروج کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کیا اور جب خراسان کے مشہور فقیہ ابراہیم الصائغ نے انھیں خروج کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا :
’’ یہ کام ایک آدمی کے بنانے سے نہیں بن سکتا۔ انبیا بھی اس کے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے جب تک وہ اس کام کے لئے آسمان سے مامور نہ کیے جاتے۔ یہ فریضہ دیگر فرائض کی طرح نہیں ہے جنھیں کوئی بھی شخص تنہا ادا کرسکتا ہے۔ یہ کام ایسا ہے کہ تنہا آدمی اس کے لیے کھڑا ہوگا تو اپنی جان دے گا اور خود کو ہلاکت میں ڈالے گا، اور مجھے اندیشہ ہے کہ وہ اپنے قتل میں اعانت کا ذمہ دار ٹھہرے گا۔ پھر جب ایک ایسا شخص قتل کیا جائے گا تو پھر کوئی دوسرا اس کام کے لئے اپنی جان ہلاکت میں ڈالنے کی ہمت نہیں کرپائے گا۔ ‘‘
خروج کے داعیوں سے یہی گزارش ہے کہ امتِ مسلمہ کے ذہین اور مخلص نوجوانوں کو خروج کی راہ دکھا کر وہ غیروں کا نہیں بلکہ اپنوں کا ہی نقصان کررہے ہیں۔
عاشراً : ایسے ذہین افراد کی ضرورت ہے جو شریعت اور قانون دونوں میں مہارت رکھتے ہوں اور اس کا واحد طریقہ تعلیم اور تربیت کا ہے۔
ان لوگوں کی اسلامی تربیت، اسلامی قانون کی عصری اسلوب میں صحیح تعبیر اور عصر حاضر کے چیلنجز کے حل کے لیے اسلامی قانون کی رہنمائی کی توضیح بہت زیادہ محنت کا کام ہے۔ اس لیے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے بجاے اس کام کے لیے باصلاحیت لوگوں کو آگے بڑھ کر کام کرنا چاہیے۔ یہ ایک فرض کفائی ہے جس کی ادائیگی کے لئے ’’ کافی ‘‘ لوگ دستیاب نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ کام کرسکتے ہیں وہ اور کاموں میں الجھے ہوئے ہیں، اور جن کا یہ کام نہیں ہے وہ خود کو اس کے ماہر قرار دے کر اپنی عاقبت بھی خراب کررہے ہیں اور دوسروں کا بھی بیڑہ غرق کر رہے ہیں۔ فالی اللہ المشتکی!
ھذا ما عندی، و العلم عند اللہ۔ اللھم أرنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ، و أرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ۔
حواشی
۱۔ جن اہلِ علم نے کمپنی یا کارپوریشن کے تصور کو جواز عطا کرنے کے لیے وقف یا بیت المال اور اس طرح کی دیگر مثالوں کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی قانون شخصِ اعتباری کا قائل ہے، ان سے بہت بڑا تسامح ہوا ہے۔ اس غلط بنیاد پر انھوں نے جو تفصیلی احکام مستنبط کیے ہیں، بناء الفاسد علی الفاسد کی وجہ سے ان کا فساد بھی عیاں ہے۔ اس تصور کے جواز کے لیے کیے جانے والے استدلال کے بطلان پر اسلامی قانون کے اصول و قواعد کی روشنی میں تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے :
Imran Ahsan Khan Nyazee, Islamic Law of Business Organization: Corporations (Islamabad: Islamic Research Institute, 1998).
۲۔ یہ بالکل اسی طرح کامعاملہ ہے جیسے پارٹنر شپ فرم کو حسابات میں آسانی کی خاطر ’’ فرم ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، حالانکہ فرم کوئی شخصِ اعتباری نہیں ہے، اور پارٹنرز میں ہر ایک شخصِ حقیقی ہوتا ہے۔اسی طرح عرف عام میں اسلامی ریاست سے مراد چاہے کچھ بھی ہو، قانونی لحاظ سے کوئی ریاست اسلامی نہیں کہلائی جاسکتی۔
۳۔ مثلاً تھامس ایکویناس نے قرار دیا کہ خدائی قانون د و طرح کا ہے۔ کچھ ایسے امور ہیں جن کی اچھائی اور برائی کی پہچان عقل سے نہیں ہوسکتی اس لئے ان امور کے لئے انسان کی رہنمائی وحی کے ذریعے کی گئی۔ دیگر معاملات جن میں عقل سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ان میں قانون کی دریافت کا کام عقل کے سپرد کردیا گیا۔ عقل جب اس قانون کا ادراک کرے تو در اصل امر خداوندی ہی کا ادراک کرتی ہے۔ واضح رہے کہ ایکویناس ابن رشد سے بہت متاثر تھا اور اس نے ابن رشد کی شروح پڑھی تھیں جو اس نے ارسطو کے کام پر لکھی تھیں۔ یوں ابن رشد کے واسطے سے ایکویناس تک اور پھر اس سے دیگر مفکرین تک وہ تمام مباحث پہنچ گئے جو حسن اور قبح کے متعلق معتزلہ، اشاعرہ اور دیگر متکلمین کے درمیان چھڑے ہوئے تھے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابن رشد صرف ایک فلسفی اور متکلم ہی نہیں تھا بلکہ ایک اعلی پائے کا فقیہ بھی تھا۔ اس لئے ایکویناس اور دیگر Naturalistsکے موقف کو یکسر مسترد کردینے سے پہلے کم از کم ابن رشد کا لحاظ کرتے ہوئے ان پر ایک غائر نظر تو ڈال ہی دینی چاہیے۔ نیز اگر عقل کی حیثیت کے متعلق ان کے موقف کو شرک اور کفر قرار دیا جائے تو پھر نہ صرف معتزلہ کو بلکہ کسی حد تک اشاعرہ کو ( اور ان سے کچھ زیادہ حد تک ماتریدیہ ) کو بھی اسی طرح کے شرک اور کفر کا مرتکب ماننا پڑے گا، و العیاذ باللہ !
۴۔ اس فتویٰ کے مرتبین میں مولانا محمد یوسف بنوری، مفتی محمد شفیع، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا احمد علی لاہوری، مفتی محمد سیاح الدین کاکاخیل، مفتی رشید احمد لدھیانوی، مولانا عزیز الرحمان بجنوری، محمد عبد المصطفی الازہری اور محمد ناظم ندوی جیسے کبار اہلِ علم شامل تھے۔ علماے کرام کی مکمل فہرست کے لیے دیکھیے : مفتی رشید احمد لدھیانوی، احسن الفتاویٰ (کراچی : محمد سعید اینڈ سنز، ۱۳۷۹ ھ )۔ ص ۳۵۰۔ ۳۵۱۔
۵۔ یہ آخری صورت ترکی میں مسلمانوں نے اختیار کی جب مصطفی کمال نے ترکی کو سیکولر ائز کیا۔
۶۔ واضح رہے کہ جب بھارت میں پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کرکے صراحتاً قرار دیا کہ وہ دستور کی کسی بھی شق کو ختم یا تبدیل کرسکتی ہے تو وہاں کی سپریم کورٹ نے اس پر فیصلہ سناتے ہوئے پھر قرار دیا کہ ترمیم کا یہ اختیار مطلق نہیں ہے ! اگر وہ اپنے سیکولر نظام کو بچانے کے سلسلے میں اتنی غیرت کا مظاہرہ کرسکتے ہیں تو ہم مسلمان ہوتے ہوئے کیوں معذرت خواہانہ رویہ اپنائیں ؟ ہم پر تو شرعاً واجب ہے کہ پارلیمنٹ کے اس مطلق اختیار کی نفی کریں (اگرچہ مطلق اختیار اس کے پاس ویسے بھی نہیں ہے، جیسا کہ پیچھے واضح کیا گیا )۔