مارچ ۲۰۱۲ء
خصوصی اشاعت: جہاد ۔ کلاسیکی وعصری تناظر میں
― محمد عمار خان ناصر
’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘ کے زیر عنوان ’الشریعہ‘ کی اشاعت خاص قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ اسلام کے تصور جہاد کے مختلف نظری اور عملی پہلو اس وقت علمی حلقوں میں زیر بحث ہیں جن میں تین پہلو بہت نمایاں اور اہم ہیں: ۱۔ اسلام میں جہاد کا اصولی تصور اور اس کی وجہ جواز کیا ہے اور عہد نبوی وعہد صحابہ میں مسلمانوں نے جو جنگیں لڑیں، ان کی حقیقی نوعیت کیا تھی؟ اسی پر یہ بحث متفرع ہوتی ہے کہ بعد کے ادوار میں امت مسلمہ کے لیے دنیا کی غیر مسلم قوموں کے ساتھ باہمی تعلقات کی اساس کیا ہے؟ آیا اسلام کی نظر میں عالمگیر سیاسی غلبے کو مقصود کی حیثیت حاصل ہے...
― مولانا محمد یحیی نعمانی
محاربہ علت القتال ہے نہ کہ کفر یا شوکت کفر۔ اسلامی جہاد کے بارے میں سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اس کا مطلب مسلمانوں کو ہر غیر مسلم حکومت سے جنگ کی تعلیم وترغیب ہے؟ یعنی کیا مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر ان کے لئے ممکن ہو تو وہ ضرور غیر مسلموں سے جنگ کریں۔
اصولی طور پر سوال یہ ہے کہ کیا ظلم وجارحیت اور ’’فتنہ‘‘ یعنی مذہبی جبر کے خاتمہ کے علاوہ ’’کفر‘‘ علۃ القتال ہوسکتا ہے؟ یا اگر کفر نہیں تو کیا صرف غیر مسلم حکومت کے وجود کو جنگ کے لئے کافی جواز اور سبب قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہمارے محدود مطالعے کی حد تک قدیم علمی وفقہی سرمایے میں اس...
― محمد عمار خان ناصر
تمہید۔ اسلامی شریعت کی تعبیر وتشریح سے متعلق علمی مباحث میں ’جہاد‘ ایک معرکہ آرا بحث کا عنوان ہے۔ اسلام میں ’جہاد‘ کا تصور، اس کی غرض وغایت اور اس کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟ یہ سوال ان اہم اور نازک ترین سوالات میں سے ہے جن کا جواب بحیثیت مجموعی پورے دین کے حوالے سے ایک متعین زاویہ نگاہ کی تشکیل کرتا اور دین کے اصولی وفروعی اجزا کی تعبیر وتشریح پر نہایت گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسلام اور تاریخ اسلام کی تفہیم وتعبیر میں اس سوال کے مرکزی اور بنیادی اہمیت حاصل کر لینے کی وجہ بالکل واضح ہے: واقعاتی لحاظ سے دیکھیے تو اسلام، صفحہ تاریخ پر ’جہاد‘...
― محمد رشید
امن ایک نہایت مطلوب چیز ہے اور تشدد ایک قابل نفرت چیز۔ساری دنیا امن سے محبت کرتی ہے اور تشدد کو برا جانتی ہے، لیکن اگر کوئی مفکر امن سے محبت اور تشدد سے نفرت کے نام پر اقوام اور ریاستوں کی دفاعی قوت یعنی افواج کوختم کرنے کی دعوت دے اور یہ کہے کہ جدید دور میں فوج بنانے کا مطلب ہے تشدد کا حامی ہونا، لہٰذا کسی ملک کو اپنے پاس فوج نہیں رکھنی چاہیے تو اقوام عالم کی اکثریت من حیث المجموع اس غیر معقول فلسفہ کو ردکردے گی۔ اسی طرح ’’امن اور شانتی‘‘ کے نام پر اس حد تک غلو کا شکار ہونا کہ کمزوری، پستی، ذلت، رسوائی، بے حمیتی، بے حسی اور غلامی کی ہر پست...
― مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
خروج اور تکفیر کا مسئلہ ایک عرصہ سے دینی حلقوں میں زیر بحث ہے اور مختلف حوالوں سے اس پر بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مسئلہ نیا نہیں ہے، بلکہ خیر القرون میں بھی اس پر بحث ومباحثہ ہو چکا ہے اور مختلف حلقوں کا موقف تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ تکفیر کا مسئلہ سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا جب جنگ صفین کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے لشکر سے خوارج نے علیحدگی اختیار کی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر الزام لگا دیا کہ انھوں نے حضرت معاویہؓ کے ساتھ جنگ کے دوران جنگ کو فیصلہ کن نتیجے تک پہنچانے کی بجائے صلح کی پیش کش قبول کر کے اور حضرت عمرو بن العاصؓ اور...
― ادارہ
(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)۔ قابل بحث نکات۔ الف۔ خروج کا جواز وعدم جواز۔ ۱۔ ریاست کے تمام شہری ایک معاہدے کے تحت اس کے پابند ہوتے ہیں کہ نظم حکومت کے خلاف کوئی مسلح اقدام نہ کریں۔ کیا معاہدے کی یہ پابندی ہر حالت میں ضروری ہے یا اس میں کوئی استثنا بھی پایا جاتا ہے؟ ۲۔ اگر بعض اسباب اور وجوہ سے پابندی لازم نہیں رہتی تو وہ کون سے حالات ہیں؟ کیا اپنے دفاع کی خاطر یا حکمرانوں کو شریعت نافذ کرنے پر یا قومی مصالح کے خلاف اختیار کردہ پالیسیاں بدلنے پر مجبور کرنے کے لیے یا غیر اسلامی نظام حکومت...
― ادارہ
(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)۔ خروج کے جواز کے حق میں اہم استدلالات: اصولی طور پر: ۱۔خروج کی ممانعت کا تعلق یا تو عادل حکمرانوں سے ہے یا ایسے حکمرانوں سے جو اپنی ذاتی حیثیت میں ظلم وجبر اور فسق کے مرتکب ہوں، لیکن ریاست کا نظام بحیثیت مجموعی شریعت پر مبنی ہو اور ریاست کے دیگر تمام ادارے شرعی نظام کے مطابق کام کر رہے ہوں۔ اگر نظام ریاست کفر پر مبنی ہو یا کفریہ قوانین کو تحفظ دیتا ہو یا شرعی قوانین کی عمل داری میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہو تو اس صورت سے ممانعتِ خروج کی احادیث بالکل غیر متعلق ہیں۔...
― ادارہ
(پاکستان مرکز برائے مطالعات امن (PIPS) اسلام آباد کے زیر اہتمام مجالس مذاکرہ کی روداد)۔ ڈاکٹر خالد مسعود (میزبان، سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)۔ اس سے پہلے کہ ہم گفتگو شروع کریں، میں یہ شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ میں اس مسئلے کو کیسے دیکھتا ہوں۔ تکفیر اور خروج دو مختلف مسائل ہیں، لیکن دونوں کی نزاکت اور اہمیت جو ہے، وہ دینی سے زیادہ سیاسی ہے اور اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی طورپر ایسے کہ یہ سیاسی نظام کی ساخت میں کبھی شامل ہو جاتی ہے اور کبھی شامل سمجھی جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ ہمارا اس نشست میں یہ کام...
― الشیخ ایمن الظواہری
(مصنف کی کتاب ’’الصبح والقندیل‘‘ کے اردو ترجمہ سے اقتباسات۔)۔ جب سے میں پاکستان سے متعارف ہوا ہوں، مسلسل کئی پاکستانی بھائیوں اور اسلامی جماعتوں کے داعی اور کارکن حضرات کو ایک بات دہراتے سنا ہے۔ ان سب حضرات کی رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت دیگر مسلم ممالک میں قائم نظام ہائے حکومت سے قدرے مختلف ہے، کیونکہ پاکستان کا دستور صحیح اسلامی اساس پر قائم ہے۔ یہ دستور عامۃ المسلمین کو اپنے نمائندے چننے اور شریعت کی روشنی میں اپنے حکام کا محاسبہ کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرتا ہے۔ پس مسئلہ دستور یا نظام کا نہیں، بلکہ اس فاسد حکمران طبقے...
― محمد زاہد صدیق مغل
چند روز قبل ایک این جی او کی طرف سے راقم الحروف کو مکالمہ بعنوان ’’عصر حاضر میں تکفیر و خروج‘‘ کے موضوع پر شرکت کی دعوت دی گئی جس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام نے شرکت فرمائی۔ چند وجوہات کی بناء پر راقم مکمل پروگرام میں شرکت نہ کرسکا، البتہ پروگرام کی ریکارڈنگ کے ذریعے شرکائے گفتگو کا مقدمہ اور ان کے دلائل سننے کا موقع ملا۔ پوری نشست کا خلاصہ یہ ہے کہ تقریباً تمام ہی شرکائے محفل نہ صرف یہ کہ عصر حاضر میں مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کے اصولی عدم جواز پر متفق ہیں بلکہ قریب قریب ان کا یہ نظریہ ایک آفاقی قضیہ بھی ہے، یعنی ماسوا کفر بواح خروج...
― مولانا مفتی محمد زاہد
خروج اور تکفیر کے حوالے سے علمائے امت میں ہمیشہ سے کئی ایشوز زیر بحث رہے ہیں۔ آج کل کے حالات کے تناظر میں بالخصوص ہمارے خطے کے تناظرمیں جوسب سے اہم سوال ہے وہ یہ ہے کہ ایک طبقے کے خیال میں پاکستان جیسے ملک نہ تودارالاسلام ہیں اورنہ اسلامی ریاست کہلانے کے قابل ۔اس طرح کے ملکوں کے نظام کفریہ ہیں،اس لئے ان میں حصہ لینے والے، ان کے مدداگار بننے والے ،یا ان کی حفاظت کرنے والے سب کے سب کفریہ نظام کاحصہ ہیں ،اس لئے وہ بھی کافرہیں۔ایک سوچ یہ بھی موجود ہے کہ ایسے لوگ واجب القتل ہیں ۔چنانچہ ایسے خاص طبقے کے لٹریچر میں پاکستان اورافغانستان کے ریاستی...
― محمد مشتاق احمد
موضوعِ زیر بحث کے کئی گوشے ہیں ۔ جو لوگ خروج کے قائل ہیں ان میں سے بعض تو حکمرانوں کے بعض اقوال یا افعال کی بنا پر ان کی تکفیر کرکے ان کی معزولی کو واجب قرار دیتے ہیں جبکہ بعض کا استدلال یہ ہے کہ پاکستان کا دستور ’ کفریہ ‘ ہے اور اس ’کفریہ نظام ‘ میں کہیں کہیں اگر اسلام کی پیوند کاری کی بھی گئی ہے تو اس کے باوجود اسے اسلامی نہیں مانا جاسکتا ۔ پھر بسا اوقات بحث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کا حوالہ بھی آجاتا ہے ۔ یہ بحث بھی چھڑ جاتی ہے کہ پاکستان دار الاسلام ہے یا نہیں ؟ دستور نے اگر پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا ہے تو کیا...
― محمد عمار خان ناصر
القاعدہ کے راہنما شیخ ایمن الظواہری نے کچھ عرصہ پہلے ’’الصبح والقندیل‘‘ کے زیر عنوان اپنی ایک کتاب میں دستور پاکستان کی اسلامی حیثیت کو موضوع بنایا ہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ ’’سپیدۂ سحر اور ٹمٹماتا چراغ‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ ظواہری دستور پاکستان کے مطالعہ کے بعد ’’پوری بصیرت‘‘ کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’پاکستان ایک غیر اسلامی مملکت ہے اور اس کا دستور بھی غیر اسلامی ہے، بلکہ اسلامی شریعت کے ساتھ کئی اساسی اور خطرناک تناقضات پر مبنی ہے۔ نیز مجھ پر یہ بھی واضح ہوا کہ پاکستانی دستور بھی اسی مغربی ذہنیت کی پیداوار ہے جو عوام...
― محمد مشتاق احمد
(جناب ایمن الظواہری کی کتاب پر راقم کے تنقیدی تبصرے پر محترم پروفیسر مشتاق احمد صاحب نے درج ذیل خط ارسال فرمایا جسے موضوع کی مناسبت سے یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مدیر)۔ برادر محترم عمار خان ناصر صاحب۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔ ایمن الظواہری کی کتاب پر آپ کا تبصرہ پڑھا ۔ ماشاء اللہ تبصرے کا حق ادا کردیا ہے۔ مجھے آپ کے مقدمات و دلائل اور وجہِ استدلال سے مکمل اتفاق ہے۔ البتہ دو امور کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے: ایک یہ کہ آپ نے حنفی فقہا کے متعلق درست فرمایا ہے کہ وہ سربراہِ حکومت (ریاست نہیں کیونکہ ریاست نامی شخصِ اعتباری کا...
― محمد عمار خان ناصر
ریاست و حکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں ’’خروج‘‘ کے موضوع کو زیر بحث لانا بظاہر عجیب دکھائی دیتا ہے، اس لیے کہ ’’خروج‘‘ کی بحث بنیادی طور پر ایک فروعی اور اطلاقی فقہی بحث ہے جبکہ اس نوعیت کی بحثیں عام طور پر اقبال کے غور وفکر کے موضوعات میں داخل نہیں۔ تاہم ذرا گہرائی سے موضوع کا جائزہ لیا جائے تو اس بحث کے ضمن میں فکر اقبال کی relevance اور اہمیت بہت نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔ فقہ اسلامی میں ’خروج‘ کی اصطلاح اس مفہوم کے لیے بولی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں بسنے والا کوئی گروہ اپنے کسی مذہبی تصور کی...
― ادارہ
’’امیر عبد القادر الجزائریؒ ۔ سچے جہاد کی ایک داستان‘‘۔ لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’دار الکتاب‘‘ نے اپنی تازہ ترین مطبوعات میں امریکی مصنف جان ڈبلیو کائزر کی کتاب کا اردو ترجمہ ’’امیر عبد القادر الجزائری: سچے جہاد کی ایک داستان‘‘ کے عنوان سے پیش کیا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی عیسوی کے دوران مسلم ممالک پر یورپ کے مختلف ممالک کی استعماری یلغار کے خلاف ان مسلم ممالک میں جن لوگوں نے مزاحمت کا پرچم بلند کیا اور ایک عرصہ تک جہاد آزادی کے عنوان سے داد شجاعت دیتے رہے، ان میں الجزائر کے امیر عبد القادر الجزائریؒ کا نام صف اول کے مجاہدین...