جہاد ۔ ایک مطالعہ

محمد عمار خان ناصر

تمہید

اسلامی شریعت کی تعبیر وتشریح سے متعلق علمی مباحث میں ’جہاد‘ ایک معرکہ آرا بحث کا عنوان ہے۔ اسلام میں ’جہاد‘ کا تصور، اس کی غرض وغایت اور اس کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟ یہ سوال ان اہم اور نازک ترین سوالات میں سے ہے جن کا جواب بحیثیت مجموعی پورے دین کے حوالے سے ایک متعین زاویہ نگاہ کی تشکیل کرتا اور دین کے اصولی وفروعی اجزا کی تعبیر وتشریح پر نہایت گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسلام اور تاریخ اسلام کی تفہیم وتعبیر میں اس سوال کے مرکزی اور بنیادی اہمیت حاصل کر لینے کی وجہ بالکل واضح ہے:

واقعاتی لحاظ سے دیکھیے تو اسلام، صفحہ تاریخ پر ’جہاد‘ کے جلو ہی میں رونما ہوا تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے جہاد کے نتیجے میں اسلام کی سیاسی حاکمیت پہلے جزیرۂ عرب پر اور اس کے بعد شام، ایران اور مصر کے علاقوں پر قائم ہوئی اور پھر توسیع سلطنت کا یہی سلسلہ آگے بڑھتا ہوا اندلس، ایشیاے کوچک، وسطی ایشیا اور بعد ازاں جنوبی ایشیا کے علاقوں کو محیط ہوا۔ اسلام کو تاریخی سطح پر دنیا کا ایک بڑا مذہب بنانے میں اس واقعاتی تسلسل کا کردار غیر معمولی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخی تناظر میں اسلام کا مطالعہ کرنے والا ہر صاحب فکر جس سوال سے سب سے پہلے دوچار ہوتا ہے، وہ یہی سوال ہے۔

فکری اعتبار سے دیکھیے تو دنیا کا کوئی بھی قانونی نظام، چاہے وہ مذہبی ہو یا سیکولر، اپنے ظاہری ڈھانچے کی تشکیل کے لیے کچھ مابعد الطبیعیاتی تصورات اور پھر ان سے پھوٹنے والے چند اخلاقی اصولوں کا محتاج ہوتا ہے۔ یہ تینوں دائرے چونکہ باہم بالکل مربوط (Interconnected) ہوتے ہیں، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کے تصور جہاد کی تعبیر وتشریح کے ساتھ خود اس کے مابعد الطبیعیاتی تصورات اور اخلاقی اصولوں کے ایک بڑے حصے کی تعبیر وتشریح کا سوال بھی وابستہ ہے۔ چنانچہ اس سوال کا کوئی بھی متعین جواب نہ صرف حیات انسانی کے حوالے سے اسلام کے عمومی مزاج اور زاویہ نگاہ کی عکاسی کرے گا، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق اس بات سے بھی ہوگا کہ اسلام مابعد الطبیعیاتی سطح پر انسانی زندگی کے بارے میں خدا کی اسکیم کی کیا وضاحت کرتا اور انسانی اخلاقیات کے دائرے میں دنیا کے دوسرے گروہوں اور مذاہب کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کی کیا نوعیت متعین کرتا ہے۔ 

یہ سوال اپنی اسی اہمیت کے باعث ویسے تو اسلامی تاریخ کے ہر دور میں مسلم اور غیر مسلم علمی حلقوں میں مختلف حوالوں سے زیر بحث رہا ہے، تاہم دنیا کے سیاسی حالات اور تہذیبی وقانونی تصورات میں رونما ہونے والے نہایت بنیادی تغیرات نے گزشتہ دو صدیوں میں اس بحث کو ایک نیا رنگ دے دیا ہے اور اسلامی شریعت اور سیرت نبوی سے لے کر اخلاقیات، قانون بین الاقوام اور تاریخ وتہذیب تک، مختلف علمی دائروں سے وابستہ اہل علم اس کی پیچیدگیوں اور الجھنوں سے مسلسل نبرد آزما ہیں۔

’جہاد‘ کے موضوع پر لکھے گئے قدیم وجدید اسلامی لٹریچر کا دقت نظر سے جائزہ لیجیے تو واضح ہوگا کہ اسلام کے تصور جہاد کی تعبیر کا سوال ہر دور میں شریعت کو اپنے مطالعہ وتحقیق کا موضو ع بنانے والے اہل علم کے سامنے رہا ہے اور چودہ صدیوں میں علمی روایت کے ارتقا نے اس ضمن میں قرآن وسنت کے نصوص کی تفہیم وتعبیر کے حوالے سے متنوع زاویہ ہاے نگاہ پیدا کر دیے ہیں:

الف۔ کلاسیکی فقہی ذخیرے میں ’جہاد‘ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک فرع قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو خدا کی طرف دعوت دینے، کفر وشرک سے اجتناب کی تلقین کرنے اور ان کے تزکیہ و اصلاح کے لیے انبیا کا جو سلسلہ جاری فرمایا، کفار کے ساتھ جہاد بھی اسی کی ایک کڑی اور دعوت الی الحق ہی کی ایک صورت ہے اور امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ دنیا کی کافر قوموں کو اسلام کی دعوت دے اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں تو ان کے خلاف جہاد کر کے انھیں اپنا محکوم بنا لے۔ 

ب۔ دور جدید میں اہل علم کی بڑی تعداد نے اس تعبیر سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ کفار کے خلاف جہاد اسلام کی توسیع واشاعت کے لیے نہیں بلکہ محض اس کے دفاع اور دشمنان اسلام کے ظلم وجبر کے خاتمہ کے لیے مشروع کیا گیا تھا۔ ان کی رائے میں قرآن مجید میں جہاد کے تمام احکام خالصتاً دفاعی تناظر میں عہد رسالت اور عہد صحابہ کے ان مخالف اسلام گروہو ں کے بارے میں وارد ہوئے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں پر ظلم وتعدی کی ابتدا کے مرتکب ہوئے تھے اور ان کے بارے میں مستقل طور پر معاندانہ پالیسی اختیار کیے ہوئے تھے۔ عہد رسالت اور عہد صحابہ کے جنگی اقدامات کی تعبیر بھی وہ اسی دفاعی زاویہ نگاہ سے کرتے ہیں۔ 

ج۔ عصر حاضر کے ممتاز عالم اور مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جہاد سے متعلق اسلامی شریعت کے تصور اور اس کے احکام کی تعبیر وتشریح کو ایک خاص زاویے سے موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا نقطہ نظر اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انھوں نے فقہا کے روایتی موقف کے مطابق جہاد وقتال کے اس ہدف سے تو اتفاق کیا ہے کہ اس کے ذریعے سے پوری دنیا پر اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کر دی جائے، تاہم اس کی فکری اور فلسفیانہ اساس کے ضمن میں انھوں نے فقہا سے مختلف ایک متبادل تعبیر پیش کی ہے۔ ان کے نزدیک جہاد کے حکم کی نظریاتی اساس ایک مخصوص عقیدہ اور مذہب کی حیثیت سے اسلام کی توسیع نہیں، بلکہ یہ ہے کہ قانون اور نظام کے دائرے میں اسلام کی حاکمیت اور بالادستی پوری دنیا پر قائم کر دی جائے۔ ان کی رائے میں اسلام شخصی اعتقاد اور رسمی عبادت کے دائرے میں تو کفر وشرک کو گوارا کرتا ہے، لیکن کسی ایسے نظام حکومت کا وجود اسے قبول نہیں جس میں خدائی قانون کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی عمل داری قائم ہو، چنانچہ جہاد کا مقصد یہ ہے کہ تمام فاسد نظاموں کا خا تمہ کر کے اسلام کے مقرر کردہ صالح نظام زندگی کی عمل داری پوری دنیا میں قائم کر دی جائے۔ 

د۔ عصر حاضر ہی کے ایک دوسرے ممتاز عالم اور محقق جناب جاوید احمد غامدی نے مذکورہ آرا کے بنیادی زاویہ نگاہ (Approach) سے اختلاف کرتے ہوئے متذکرہ علمی الجھنوں کو ایک نئے انداز میں حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نقطہ نظر کا خلاصہ یہ ہے کہ شرعی نصوص میں وارد جہاد وقتال کے احکام دو مختلف نوعیتوں میں تقسیم ہیں: ایک وہ جن میں کسی گروہ کے فتنہ وفساد اور ظلم وتعدی کے خاتمہ کے لیے جہاد کی مشروعیت بیان کی گئی ہے اور دوسرے وہ جن میں اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے دیے جانے احکام کا تعلق تو دین وشریعت کے عمومی اور ابدی دائرے سے ہے جبکہ اسلام قبول نہ کرنے والے کفار کے خلاف تلوار اٹھانے کا حکم اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت پر مبنی اور انھی گروہوں تک محدود ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی طرف صریحاً اس کی اجازت دی گئی ہو۔ اس نقطہ نظر میں عہد رسالت وعہد صحابہ کے جنگی اقدامات کو کلیتاً دفع فساد کے اصول پر مبنی قرار دینے کے بجائے ان کی توجیہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت کی روشنی میں کی گئی ہے۔ 

زیر بحث سوال اور اس سے متعلق مختلف توجیہات پر مبنی اس پورے علمی لٹریچر کا سنجیدہ علمی مطالعہ بجائے خود دلچسپ او ر مفید ہونے کے ساتھ ساتھ معاصر فکری تناظر میں دین کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آئندہ صفحات میں ہم نے جہاد سے متعلق قرآن وحدیث کے نصوص اور ان کی تعبیر کے ضمن میں پیش کیے جانے والے مذکورہ نقطہ ہاے نگاہ کے تجزیاتی وتنقیدی مطالعے کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ 


عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کی نوعیت

قرآن وسنت کے نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیرو اہل ایمان کو عہد نبوی کے معروضی حالات کے تناظر میں جہاد وقتال کا حکم دو طرح کے مقاصد کے تحت دیا گیا: ایک اہل کفر کے فتنہ وفساد اور اہل ایمان پر ان کے ظلم وعدوان کا مقابلہ کرنے کے لیے اور دوسرے کفر وشرک کا خاتمہ اور باطل ادیان کے مقابلے میں اسلام کا غلبہ اور سربلندی قائم کرنے کے لیے۔ 

پہلے مقصد کے تحت قتال کی تفصیل حسب ذیل نصوص میں بیان کی گئی ہے:

أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوَاتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً وَّلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہُ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ (الحج ۲۲: ۳۹، ۴۰)

’’جن اہل ایمان کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ بھی لڑائی کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، محض اس جرم میں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اور اگر اللہ ایک گروہ (کے ظلم وعدوان کو) دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع نہ کرے تو خانقاہوں، گرجوں، کنیسوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔ اور جو لوگ اللہ کی مدد کریں گے، اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ بہت قوت والا نہایت غالب ہے‘‘ ۔

سورۃ النساء میں فرمایا ہے:

وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُوْنَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنکَ وَلِیّاً وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْراً (النساء ۴:۷۵)

’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور کفار کی چیرہ دستی کا شکار ان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کے لیے قتال نہیں کرتے جو یہ دعائیں مانگتے ہیں کہ یا اللہ، ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لیے کوئی مددگار اور اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حامی بھیج دے۔‘‘

سورۂ انفال میں ارشاد ہوا ہے:

وَإِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ وَّاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ۔ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ (الانفال ۸: ۷۲، ۷۳)

’’اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، سوائے اس صورت کے کہ وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد مانگیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم (ان کے مقابلے میں) اہل ایمان کی مدد نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔‘‘

ان نصوص کا حاصل یہ ہے کہ کفار کے جو گروہ موں پر کسی بھی نوعیت کے ظلم وستم اور جارحیت کا ارتکاب کریں اور بالخصوص عقیدہ ومذہب کے انتخاب واختیار کے معاملے میں ان کی آزادی ان سے چھیننے کی کوشش کریں، ان کے خلاف تلوار اٹھانا نہ صرف جائز ہے بلکہ قوت واستطاعت اور حالات کی موافقت اور جنگ کے اخلاقی اصولوں کی پاسداری کی شرط کے ساتھ ایک اخلاقی فریضے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

جہاد کا دوسرا مقصد یعنی کفر وشرک کا خاتمہ اور اسلام کی سربلندی کا قیام درج ذیل نصوص میں بیان ہوا ہے:

وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۹۳)

’’اور ان کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘

مذکورہ آیت ہجرت مدینہ کے بعد جہاد کے حوالے سے دی جانے والی ہدایات کے بالکل ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہے اور اس میں کفار کے فتنہ وفساد کو خدا کے دین کی سربلندی کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیتے ہوئے یہ حکم دیا گیا ہے کہ کفار کے ساتھ قتال کیا جائے تاکہ فتنہ ختم ہو سکے اور خدا کا دین سربلند ہو جائے۔ 

عہد نبوی میں جہاد وقتال کے آخری مراحل میں دین حق کو قبول نہ کرنے والے گروہوں کے حوالے سے متعین احکام سورۂ توبہ میں بیان کیے گئے ہیں۔ مشرکین عرب کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:

فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواْ الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُواْ لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوْا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۹: ۵)

’’پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کر ڈالو اور ان کو پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر یہ شرک سے تائب ہو جائیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

اہل کتاب کے حوالے سے فرمایا گیا کہ:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ (التوبہ ۹: ۲۹)

’’ان اہل کتاب کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی قبول کرتے ہیں۔ (ان کے ساتھ جنگ کرو) یہاں تک کہ یہ تمہارے مطیع بن کر ذلت اور پستی کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ سلم کا ارشاد ہے:

امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاۃ ویوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم واموالہم الا بحق الاسلام وحسابہم علی اللہ (بخاری، رقم ۲۴)

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک کہ وہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ اور ’محمد رسول اللہ‘ کا اقرار نہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی پابندی قبول نہ کر لیں۔ پھر جب وہ ایسا کر لیں تو اسلام کے عائد کردہ کسی حق کے علاوہ وہ اپنی جانوں اور مال کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہوگا۔‘‘

ان نصوص کا مدعا یہ ہے کہ کفرو شرک کا ارتکاب کرنے والے گروہوں کے خلاف قتال کا فریضہ انجام دیا جائے تاکہ وہ یا تو دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں اور یا ان کی سیاسی خود مختاری کا خاتمہ کر کے اہل اسلام کو اہل کفر پر بالادست اور دین حق کو باطل ادیان پر غالب کر دیا جائے۔ 

یہ نصوص اپنے ظاہر کے لحاظ سے اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جہاد وقتال کا جو حکم دیا گیا، وہ اپنے ہدف کے لحاظ سے مخالف گروہوں کے فتنہ وفساد کو فرو کرنے اور اہل ایمان کو ان کے ظلم وتعدی سے بچانے تک محدود نہیں تھا، بلکہ خالص اعتقادی تناظر میں، کفر وشرک کا خاتمہ یا اہل کفر کو مسلمانوں کا محکوم بنانا بھی اس کے اہداف ومقاصد میں شامل تھا۔ کلاسیکی علمی روایت میں مذکورہ دونوں طرح کے نصوص کو جہاد کے دو الگ الگ اور مستقل بالذات مقاصد ہی کا بیان قرار دیا گیا ہے، تاہم دور جدید میں بہت سے اہل علم نے اس رائے سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ جہاد اسلام کی توسیع واشاعت کے لیے نہیں بلکہ محض اس کے دفاع اور دشمنان اسلام کے ظلم وجبر کے خاتمہ کے لیے مشروع کیا گیا تھا اور قرآن مجید میں جہاد کے تمام احکام اسی مخصوص تناظر میں عہد رسالت اور عہد صحابہ کے اسلام دشمن گروہوں کے بارے میں وارد ہوئے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی رو سے جن نصوص میں کفار ومشرکین کو قتل کرنے یا محکوم بنا کر ان پرجزیہ عائد کرنے کا ذکر ہوا ہے، ان کو انھی کفار سے متعلق سمجھنا چاہیے جو اسلام اور مسلمانوں پر ظلم وتعدی کی ابتدا کے مرتکب ہوئے تھے اور ان کے بارے میں مستقل طور پر معاندانہ روش اختیار کیے ہوئے تھے۔ گویا اگر یہ اہل کفر مسلمانوں کے لیے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا حق کھلے دل سے تسلیم کر لیتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کے کفر وشرک سے کوئی سروکار نہ ہوتا اور آپ عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر ان سے کسی قسم کا کوئی تعرض کیے بغیر ان کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کا راستہ اختیار کر لیتے۔ (اس نقطہ نظر کے حق میں جو استدلالات پیش کیے گئے ہیں، آگے چل کر ہم ان کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔)

ہماری راے میں اس نقطہ نظر کوقبول کرنا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ قرآن مجید کے نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے پس منظر، اس کے مقصد اور اس مقصد کے حصول کی حکمت عملی کے حوالے سے جو پوری اسکیم بیان ہوئی ہے، اس کو کلیتاً نظر انداز کر دیا جائے۔ قرآن مجید کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت، سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی دعا کے مطابق، بنی اسماعیل کے تزکیہ وتطہیر اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دینے کے لیے ہوئی تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی ذریت کو حجاز کے علاقے میں آباد کیا تھا اور ان سے توحید پر قائم رہنے اور شرک سے اجتناب کا عہد لے کر بیت الحرام کی تولیت اور دربانی کے فرائض ان کے سپرد فرمائے تھے۔ سورۂ بقرہ میں ہے:

وَإِذِ ابْتَلَی إِبْرَاہِیْمَ رَبُّہُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ قَالَ إِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَاماً قَالَ وَمِن ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَہْدِیْ الظَّالِمِیْنَ ۔ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی وَعَہِدْنَا إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَن طَہِّرَا بَیْْتِیَ لِلطَّاءِفِیْنَ وَالْعَاکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ...... وَمَن یَرْغَبُ عَن مِّلَّۃِ إِبْرَاہِیْمَ إِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ وَلَقَدِ اصْطَفَیْْنَاہُ فِی الدُّنْیَا وَإِنَّہُ فِی الآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ إِذْ قَالَ لَہُ رَبُّہُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِیْنَ ۔ وَوَصَّی بِہَا إِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ إَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ (البقرہ ۲:۱۲۴-۱۳۲)

’’اور جب ابراہیم کے رب نے چند باتوں میں اس کو آزمایا تو اس نے ان کو پورا کر دکھایا۔ اللہ نے کہا کہ میں تمھیں لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ ابراہیم نے کہا کہ میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنانا)۔ اللہ نے کہا کہ میرے اس وعدے میں ظالم شامل نہیں ہوں گے۔ اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) ابراہیم کی جائے سکونت کو نماز کی جگہ بنا لو۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو تاکید کی کہ میرے گھر کو طواف اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجو د کرنے والوں کے لیے (شرک سے) پاک رکھنا۔ ...... اور ابراہیم کے دین سے کون رو گردانی کر سکتا ہے سوائے اس کے جو نادان ہو۔ ہم نے اس کو دنیا میں بھی منتخب کیا اور آخرت میں بھی وہ نیک لوگوں کے زمرے میں ہوگا۔ جب اس کے پروردگار نے اس سے کہا کہ فرماں برداری اختیار کر لو تو اس نے کہا کہ میں رب العالمین کے سامنے سر اطاعت خم کرتا ہوں۔ اور ابراہیم نے بھی اپنے بیٹوں کو اسی کی وصیت کی اور یعقوب نے بھی کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے تمھارے لیے یہی دین پسند فرمایا ہے، اس لیے مرتے دم تک اسی کے فرماں بردار رہنا۔‘‘

سورۂ ابراہیم میں ہے:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ہَذَا الْبَلَدَ آمِناً وَّاجْنُبْنِیْ وَبَنِیَّ أَنْ نَّعْبُدَ الأَصْنَامَ ۔ رَبِّ إِنَّہُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَإِنَّہُ مِنِّیْ وَمَنْ عَصَانِیْ فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ رَّبَّنَا إِنِّیْ أَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلاَۃَ فَاجْعَلْ أَفْءِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہْوِیْ إِلَیْْہِمْ وَارْزُقْہُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُونَ (ابراہیم ۱۴:۳۵-۳۷)

’’اور جب ابراہیم نے دعا کی کہ میرے پروردگار! اس شہر کو امن کی جگہ بنا دے اور مجھے او ر میری اولاد کو اس بات سے بچائے رکھ کہ ہم بتوں کی پرستش کرنے لگیں۔ اے پروردگار! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ سو جوشخص نے میری پیروی کی، وہ میرا ہے اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں تاکہ اے پروردگار، یہ نماز قائم کریں۔ سو تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے اور انھیں پھلوں سے روزی دے تاکہ یہ شکر ادا کریں۔ ‘‘

بنی اسماعیل اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں اصل ملت پر قائم رہے، تاہم رفتہ رفتہ ان میں انحراف پیدا ہوتا گیا اور شرک وبدعت ان کے مابعد الطبیعیاتی تصورات، مناسک عبادت اور معاشرتی رسم ورواج میں سرایت کرتے چلے گئے اور توحید خالص کا مرکز یعنی بیت الحرام ’شرک‘ کا گڑھ بن کر رہ گیا۔ سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل علیہما السلام کی دعا کے مطابق چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں مبعوث کیا تو ملت ابراہیمی کی اصل تعلیمات کے احیا اور مشرکانہ بدعات کے خاتمے کو آپ کی جدوجہد کا ہدف قرار دیا۔ قرآن نے واضح کیا کہ آپ عام معنوں میں کوئی داعی، واعظ اور مبلغ نہیں، بلکہ خدا کے رسول اور اس کے آخری پیغمبر ہیں، چنانچہ خداکے قانون کے مطابق آپ کی جدوجہد کا کامیابی سے ہم کنار ہونا اور جزیرۂ عرب میں خدا کے دین کا غلبہ قائم ہونا ایک طے شدہ فیصلہ ہے جو اہل کفر کی خواہشات، کوششوں اور سازشوں کے علی الرغم قائم ہو کر رہے گا:

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۳۳)

’’اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سارے دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔‘‘

دین کا یہ غلبہ، ظاہر ہے کہ منکرین حق کے خلاف قائم کیا جانا تھااور اس کی عملی صورت یہ تھی کہ بیت اللہ کو مشرکین کے قبضہ وتصرف سے آزاد کرا کے دوبارہ توحید خالص کا مرکز بنا دیا جائے اور اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین سرزمین عرب میں غالب اور سربلند نہ رہے۔ اس ہدف کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ’قتال‘ کاناگزیر ہونا تاریخ وسیرت سے واقف ہر شخص پر واضح ہے اور قرآن مجید میں کفار کے خلاف جہاد وقتال کے احکام، جیسا کہ ہم ابھی واضح کریں گے، اسی تناظر میں وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ دیکھیے:

بیت اللہ پر اس وقت مشرکین قریش قابض ومتصرف تھے اور نہ صرف یہ کہ دعوت توحید کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، بلکہ انھوں نے توحید پر ایمان رکھنے کی پاداش میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والے لوگوں پر ظلم وستم اور ایذا رسانی کا سلسلہ بھی شروع کررکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال میں بیت اللہ کو شرک سے پاک کر کے دوبارہ توحید کا مرکز بنا دینا اس کے بغیر ممکن نہیں تھا کہ مشرکین کے خلاف تلوار اٹھائی جائے اور ان کے غلبہ وتسلط کو طاقت کے زور پر ختم کر دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سرداران قریش کو اس حقیقت پر ان الفاظ میں متنبہ کیا کہ:

اتسمعون یا معشر قریش اما والذی نفسی بیدہ لقد جئتکم بالذبح (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۱/۲۷۴)

’’اے گروہ قریش! کیا تم سن رہے ہو؟ یاد رکھو، خدا کی قسم! میں تمھارے لیے ذبح کا انجام لے کر آیا ہوں۔‘‘

ایک دوسرے موقع پر ابوجہل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیغام کو یوں بیان کیا کہ:

ان محمدا یزعم انکم ان تابعتموہ علی امرہ کنتم ملوک العرب والعجم ....وان لم تفعلوہ کان لہ فیکم ذبح (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۶)

’’محمد کا دعویٰ ہے کہ اگر تم نے اس کے دین کی پیروی کی تو تم عرب وعجم کے حکمران بن جاؤ گے، لیکن اگر ایسا نہ کیا تو اس کے ہاتھوں تمھاری خوں ریزی ہوگی۔‘‘

تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کو مکہ مکرمہ میں اس کی اجازت نہیں دی گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ کسی آزاد اور خود مختار علاقے میں ایک باقاعدہ نظم اجتماعی کے تحت اپنی سیاسی وحربی طاقت کو مجتمع کیے بغیر یہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہیں تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت کی گئی کہ حق کا غلبہ باطل پر بزور قوت قائم کر دینے کے لیے انھیں جس حکومت واقتدار کی ضرورت ہے، اس کے حصول کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہیں:

وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّیْ مِن لَّدُنکَ سُلْطَاناً نَّصِیْراً ۔ وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقاً (بنی اسرائیل ۱۷:۸۰، ۸۱)

’’اور دعا کرو کہ اے پروردگار! مجھے عزت واکرام کے ساتھ داخل کر اور (مکہ سے) خیر وخوبی کے ساتھ نکال اور مجھے اپنے پاس سے ایسا اقتدار نصیب فرما جو مددگار ہو۔ اور کہہ دو کہ حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا، کیونکہ باطل کے لیے نابود ہوناہی مقدر ہے۔‘‘

اسی دعا کی روشنی میں آپ مسلمانوں کے لیے کوئی جاے پناہ اور مرکز مہیا کرنے کی غرض سے ہر سال موسم حج میں حج کے لیے آنے والے مختلف قبیلوں کے پاس جاتے، اپنے آپ کو ان پر پیش کر کے جاے پناہ فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے اور انھیں بتاتے کہ اس دین کا غلبہ قائم ہو کر رہے گا، اس لیے وہ آگے بڑھ کر اس کے انصار بننے کی سعادت حاصل کر لیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب آپ نے اس سلسلے میں بنو عامر سے گفتگو کی تو ان کے سردار نے کہا:

ارایت ان نحن بایعناک علی امرک ثم اظہرک اللہ علی من خالفک ایکون لنا الامر من بعدک؟ قال الامر الی اللہ یضعہ حیث یشاء قال فقال لہ افتہدف نحورنا للعرب دونک فاذا اظہرک اللہ کان الامر لغیرنا! لا حاجۃ لنا بامرک (السیرۃ النبویۃ ۱/۳۸۷)

’’یہ بتائیں کہ اگر ہم آپ کے دین کے معاملے میں آپ کی بیعت کر لیں اور پھر اللہ آپ کے مخالفوں پر آپ کو غلبہ عطا کر دے تو کیا آپ کے بعد اقتدار ہمیں ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا اختیار اللہ کے پاس ہے، وہ جس کو چاہے گا اقتدار دے گا۔ اس پر بنو عامر کے سردار نے کہا کہ اچھا، آپ کے دفاع میں عربوں کے سامنے سینہ سپر تو ہم ہوں اور پھر جب اللہ آپ کو غالب کر دے تو اقتدار کسی اور کو مل جائے! ہمیں آپ کے دین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘

اللہ کے حکم سے آپ کا مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنا اسی مقصد کے لیے تھا۔ چنانچہ انصار مدینہ کے اسلام قبول کرنے پر جب آپ نے ان سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ اپنے شہر میں مسلمانوں کے لیے ایک جاے پناہ اورمرکز فراہم کریں تو انھوں نے سوال کیا کہ:

یا رسول اللہ ان بیننا وبین الرجال حبالا وانا قاطعوہا یعنی الیہود فہل عسیت ان نحن فعلنا ذلک ثم اظہرک اللہ ان ترجع الی قومک وتدعنا؟ (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۲)

’’یا رسول اللہ! ہمارے اور یہود کے مابین تعلقات ہیں جنھیں (آپ کا ساتھ دینے کے لیے) ہم توڑ دیں گے، لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم یہ کر لیں اور پھر اللہ آپ کو (قریش پر) غلبہ عطا کر دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم کے پاس چلے جائیں؟‘‘

مدینہ میں مسلمانوں کو ایک محفوظ جائے پناہ میسر آ گئی اور وہ ہجرت کر کے وہاں مجتمع ہونا شرو ع ہو گئے تو سورۂ حج کی آیت ۳۹ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں مشرکین مکہ کے خلاف قتال کی باقاعدہ اجازت دے دی :

أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللّٰہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ، الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً وَلَیَنصُرَنَّ اللّٰہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ، الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ (الحج ۲۲:۳۹، ۴۱)

’’جن اہل ایمان کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ بھی لڑائی کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، محض اس جرم میں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اور اگر اللہ ایک گروہ (کے ظلم وعدوان کو) دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع نہ کرے تو خانقاہوں، گرجوں، کنیسوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔ اور جو لوگ اللہ کی مدد کریں گے، اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا۔ بے شک اللہ بہت قوت والا نہایت غالب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم اس سرزمین میں اقتدار دیں گے تو وہ نماز قائم کرین گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

سورۂ حج میں یہ اجازت جس سلسلہ بیان میں آئی ہے، اس کا آغاز اس آیت سے ہوتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِیْ جَعَلْنَاہُ لِلنَّاسِ سَوَآءًنِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ وَمَنْ یُّرِدْ فِیْہِ بِاِلْحَادٍم بِظُلْمٍ نُّذِقْہُ مِنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ (الحج ۲۲:۲۶)

’’جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ کی راہ سے روکنے لگے اور اس حرمت والی مسجد سے بھی جسے ہم نے تمام لوگوں کے لیے مساوی کر دیا ہے، وہیں کے رہنے والے ہوں یا باہر کے ہوں، جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے، ہم اسے دردناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘

اس کے بعد مشرکین کے الحاد اور کفر کو واضح کرنے کے لیے آیت ۲۶ سے ۳۸ تک بیت اللہ کی ابتدائی تاریخ اور اس کی تعمیر کے اصل مقصد کو واضح کیا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کے لیے جگہ خود متعین فرما کر حضرت ابراہیم کو اس کی تعمیر کا حکم دیا اور انھیں اس کا متولی بنا کر ہدایت کی کہ وہ اس کو خداے واحد کی عبادت کرنے والوں کے لیے کفر وشرک کی آلودگیوں سے پاک رکھیں۔ اسی ضمن میں قربانی کی رسم کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ملت ابراہیمی میں قربانی صرف اللہ کے نام پر مشروع کی گئی تھی اور اس کے پیروکاروں سے کہا گیا تھا کہ وہ خداے واحد ہی کے حضور قربانی گزرانیں اور اصنام واوثان کی نجاست سے دور رہیں۔ اس کے بعد آیت ۳۹ میں فرمایا گیا ہے کہ چونکہ مشرکین نے ملت ابراہیمی کے اصل پیروکاروں یعنی اہل ایمان کو محض اس وجہ سے مکہ مکرمہ سے نکال دیا ہے کہ وہ توحید کے قائل ہیں، اس لیے انھیں اجازت ہے کہ اس ظلم کا بدلہ لینے کے لیے مشرکین سے جہاد کریں۔ قرآن نے یہاں ’ولینصرن اللہ من ینصرہ‘ کے الفاظ سے واضح کیا ہے کہ اس قتال کا مقصد محض مسلمانوں پرہونے والے ظلم کا بدلہ لینا نہیں، بلکہ خدا کے دین کی نصرت کرنا بھی تھا جس کی عملی صورت یہ تھی کہ بیت اللہ کو مشرکین کے تسلط سے آزاد کرا کے اسے ملت ابراہیمی کی روایات کے مطابق خالص توحید کا مرکز بنانے کے لیے قتال کیا جائے۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں:

لما اخرج النبی صلی اللہ علیہ وسلم من مکۃ قال ابوبکر اخرجوا نبیہم لیہلکن فانزل اللہ تعالیٰ اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا وان اللہ علی نصرہم لقدیر فقال ابوبکر لقد علمت انہ سیکون قتال (ترمذی، رقم ۳۰۹۵)

’’جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنے پرمجبور کر دیا گیا تو ابوبکر نے کہا کہ اہل مکہ نے اپنے نبی کو نکال دیا ہے، اب یہ ضرور ہلاک ہو کر رہیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ: اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا وان اللہ علی نصرہم لقدیر تو ابوبکر نے کہا کہ میں نے جان لیا ہے کہ (قریش کو سزا دینے کے لیے) قتال ہوگا۔‘‘

دوسرے مقام پر قرآن نے واضح کیا ہے کہ قریش سے عرب کا اقتدار چھین کر اہل ایمان کے سپرد کیے جانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ جزیرۂ عرب میں شرک کے بجاے توحید غالب ہو اور خدا کا پسندیدہ دین یہاں متمکن ہو جائے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور ۲۴:۵۵)

’’اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ہرحال میں انھیں اس سرزمین میں اسی طرح اقتدار عطا کرے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کیا اور ان کے لیے ان کے دین کو لازماً مستحکم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو یقیناًامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی انکار کریں تو وہی بدکار ہیں۔‘‘

قتال کی اجازت ملنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ سے عقبہ اخیرہ کی بیعت لی تو اس کا یہ مفہوم انصار اور اہل مکہ، دونوں پر بالکل واضح تھا کہ یہ درحقیقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کفار کے خلاف برسرجنگ ہونے کی تمہید ہے۔ بیعت کے موقع پر عباس بن عبادہ نے انصار سے مخاطب ہو کر کہا:

یا معشر الخزرج ہل تدرون علام تبایعون ہذا الرجل؟ قالوا نعم قال انکم تبایعونہ علی حرب الاحمر والاسود من الناس (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۵)

’’اے گروہ خزرج! کیا تم جانتے ہوکہ تم اس آدمی کے ہاتھ پر کس چیز کی بیعت کر رہے ہو؟ انھوں نے کہا ، ہاں۔ عباس نے کہا کہ تم اس کے ساتھ (عرب کے) سارے لوگوں کے ساتھ جنگ کرنے کی بیعت کر رہے ہو۔‘‘

بیعت کے بعد انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اسی وقت کفار کے تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہیں:

واللہ الذی بعثک بالحق ان شئت لنمیلن علی اہل منی غدا باسیافنافقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم نؤمر بذلک (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۷)

’’اس اللہ کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، ہم کل ہی اپنی تلواروں کے ساتھ اہل منیٰ پر پل پڑیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابھی ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔‘‘

ابن اسحاق بیعت عقبہ ثانیہ کی سیاسی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

کانت بیعۃ الحرب حین اذن اللہ لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی القتال شروطا سوی شرطہ علیہم فی العقبۃ الاولی کانت الاولی علی بیعۃ النساء وذلک ان اللہ تعالیٰ لم یکن اذن لرسولہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الحرب فلما اذن اللہ لہ فیہا وبایعہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی العقبۃ الاخیرۃ علی حرب الاحمر والاسود اخذ لنفسہ واشترط علی القوم لربہ وجعل لہم علی الوفاء بذلک الجنۃ (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۱۲)

’’جب اللہ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتال کی اجازت دے دی تو آپ نے (انصار سے) جنگ کی جو بیعت لی، اس میں ایسی شرائط بھی شامل کیں جو عقبہ اولیٰ کی بیعت میں نہیں تھیں۔ پہلی بیعت تو انھی باتوں پر لی گئی تھی جن کا ذکر عورتوں سے لی جانے والی بیعت میں ہوا ہے کیونکہ اس وقت اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ کی اجازت نہیں دی تھی۔ پھر جب اللہ نے اس کی اجازت دے دی اور آپ نے عقبہ اخیرہ میں ان سے احمر واسود کے خلاف جنگ پر بیعت لی تو آپ نے اپنے لیے (پناہ اور حفاظت) کا عہد بھی لیا اور لوگوں پر اللہ کے عہد پر قائم رہنے کی شرط بھی عائد کی اور اس عہد کو پورا کرنے پر ان سے جنت کا وعدہ کیا۔‘‘

مدینہ میں مسلمانوں کے اجتماع اور پھر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کا یہ مفہوم ومقصد قریش پر بھی بالکل واضح تھا، چنانچہ بیعت عقبہ کا واقعہ ان کے علم میں آیا تو ان کے اعیان اگلے ہی دن بنو خزرج کے پاس گئے اور ان سے کہا:

یا معشر الخزرج انہ قد بلغنا انکم قد جئتم الی صاحبنا ہذا تستخرجونہ من بین اظہرنا وتبایعونہ علی حربنا (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۷)

’’اے گروہ خزرج! ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم ہمارے اس آدمی کے پاس اس لیے آئے ہو کہ اسے ہمارے درمیان سے نکال کر لے جاؤ اور تم ہمارے ساتھ جنگ کرنے کے لیے اس کے ساتھ بیعت کر رہے ہو۔‘‘

ابن اسحاق لکھتے ہیں:

لما رات قریش ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد صارت لہ شیعۃ واصحاب من غیرہم بغیر بلدہم وراوا خروج اصحابہ من المہاجرین الیہم عرفوا انہم قد نزلوا دارا واصابوا منہم منعۃ فحذروا خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الیہم وعرفوا انہ قد اجمع لحربہم (السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۴)

’’جب قریش نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی جماعت بن گئی ہے اور اہل مکہ کے علاوہ ایک دوسرے علاقے میں کچھ اور ساتھی بھی ان کو مل گئے ہیں اور پھر انھوں نے مسلمانوں کے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کو بھی دیکھا تو انھوں نے سمجھ لیا کہ مسلمانوں کو قریش کے مقابل ایک محفوظ ٹھکانہ مل گیا ہے، چنانچہ انھیں فکر ہوئی کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نکل کر ان کے پاس چلے جائیں گے۔ قریش نے جان لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف جنگ کا مصمم عزم کر چکے ہیں۔‘‘

یہی وہ ڈر تھا جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے موقع پر جب قریش آپ کے حوالے سے کوئی لائحہ عمل وضع کرنے کے لیے دار الندوہ میں جمع ہوئے تو آپ کو گرفتار کر کے محبوس کر دینے یا مکہ سے نکال دینے کی تجاویز پر اتفاق نہیں ہو سکا، کیونکہ دونوں صورتوں میں یہ خطرہ تھا کہ آپ یا آپ کے ساتھی بالآخر مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے قریش کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کریں گے، چنانچہ قریش نے نعوذ باللہ آپ کو قتل کرنے کی تجویز پر اتفاق کر لیا۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۳۶)

بہرحال مشرکین کے ناپاک منصوبوں کے علی الرغم جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے اور آپ کی سربراہی میں ایک باقاعدہ اسلامی حکومت قائم ہو گئی تو سورۂ بقرہ میں مشرکین کے خلاف قتال کا باقاعدہ حکم دیا گیا اور یہ واضح کیا گیا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا اصل ہدف اللہ کے دین کو سربلند کرنا ہے اور قریش کے خلاف قتال کر کے ان کے فتنہ وفساد کو ختم کرنے کا حکم اسی مقصد کے تحت دیا جا رہا ہے:

وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلاَ تَعْتَدُوْا إِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبِّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ وَاقْتُلُوْہُمْ حَیْْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُمْ مِّنْ حَیْْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَۃُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلاَ تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّی یُقَاتِلُوکُمْ فِیْہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِیْنَ ۔فَإِنِ انتَہَوْاْ فَإِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔ وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ فَإِنِ انْتَہَواْ فَلاَ عُدْوَانَ إِلاَّ عَلَی الظَّالِمِیْنَ (البقرہ ۲:۱۹۰-۱۹۳)

’’اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں، تم بھی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو، لیکن زیادتی نہ کرنا کیونکہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ان کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے، وہاں سے تم بھی ان کو نکالو۔ اور فتنہ، قتل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ہاں، مسجد حرام کے پاس ان سے لڑائی نہ کرو، یہاں تک کہ وہ تم سے لڑائی نہ کریں۔ پھر اگر وہ لڑیں تو ان کو قتل کرو۔ یہی ہے بدلہ کافروں کا۔ اور اگر وہ باز آ جائیں تو بے شک اللہ معاف کر دینے والا، مہربان ہے۔ اور ان سے برابر لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے۔ اور اگر وہ باز آ جائیں تو ظالموں کے علاوہ کسی پر زیادتی روا نہیں۔‘‘

یہاں قتال کی غایت یہ بیان کی گئی ہے کہ ’فتنہ‘ باقی نہ رہے اور اس کا نتیجہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو جائے گا۔ اس سے قرآن کی مراد یہ تھی کہ قریش کی قوت کو توڑ کر مکہ مکرمہ کو فتح کر لیا جائے اور مشرکین کو بیت الحرام سے بے دخل کر کے یہاں سے شرک کے تمام آثار کو مٹا دیا جائے تاکہ عرب کے مشرکین شرک کو ذلیل اور توحید کو سربلند دیکھ کر من حیث الجماعت دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ سورۂ نصر میں اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ اور مشرکین عرب کے بحیثیت قوم اسلام قبول کر لینے کا ذکر ایسے بلیغ اسلوب میں کیا گیا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کے یہ دونوں ہدف پوری قطعیت کے ساتھ واضح ہو جاتے ہیں۔ فرمایا:

إِذَا جَاء نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ ۔ وَرَأَیْْتَ النَّاسَ یَدْخُلُونَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ أَفْوَاجاً ۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّاباً (النصر ۱۱۰:۱-۳)

’’جب اللہ کی مدد آ جائے اور (مکہ) فتح ہو جائے اور تم لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ہوئے دیکھ لو تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرو اور اس سے مغفرت مانگو، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘

قرآن نے فتح مکہ کی اسی اہمیت کی وجہ سے یہ واضح کر دیا کہ مکہ فتح ہونے کے بعد قتال میں حصہ لینے والے کسی طرح اس سے پہلے جہاد کرنے والوں کے برابر نہیں ہو سکتے:

لَا یَسْتَوِیْ مِنکُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَءِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلّاً وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ (الحدید ۵۷:۱۰)

’’تم میں سے وہ لوگ جنھوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے مال خرچ کیا اور جہاد کیا (اور وہ جنھوں نے نہیں کیا) برابر نہیں ہو سکتے۔ ان لوگوں کا درجہ ان سے بڑا ہے جنھوں نے فتح کے بعد مال خرچ کیا اور جہاد کیا۔ اور دونوں کے ساتھ اللہ نے اچھے بدلے کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تمہارے اعمال کی پوری خبر رکھتا ہے۔‘‘

اس ضمن میں وَمَا کَانُوآ اَوْلِیَآءَ ہُ اِنْ اَوْلِیَآؤُہُ اِلاَّ الْمُتَّقُوْنَ (الانفال ۸: ۳۳۔ ’’مشرکین مسجد حرام کے متولی نہیں۔ اس کی تولیت کے حق دار تو صرف اللہ سے ڈرنے والے ہیں‘‘) اور ’مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِیْنَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللّٰہ شَاہِدِیْنَ عَلَی أَنفُسِہِمْ بِالْکُفْرِ‘ (التوبہ ۹:۱۷۔ ’’مشرکین کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر خود کفر کی گواہی دیتے ہوئے اللہ کی مساجد کو آباد کریں) جیسی آیات میں یہ بات تو دوٹوک الفاظ میں واضح کر دی گئی تھی کہ مسجد حرام کو آباد کرنے اور اس کی تولیت وانتظام کے اصل حق دار اہل ایمان ہیں، جبکہ مشرکین اس کا کوئی حق نہیں رکھتے، تاہم مکہ مکرمہ کو فتح کرنے کے لیے فوری اقدام کرنے کے بجائے یہ حکمت عملی اختیار کی گئی کہ مختلف معرکوں میں قریش کی حربی قوت اور سیاسی پوزیشن کو زک پہنچا کر ان کا دم خم نکال دیا جائے تاکہ جب مسلمان مکہ کو فتح کرنے کے لیے جائیں تو شکستہ دل قریش ان کی مزاحمت نہ کر سکیں اور حدود حرم میں زیادہ خون ریزی کی نوبت نہ آنے پائے۔ 

اس ضمن میں پہلا اور فیصلہ کن معرکہ بدر میں بپا ہوا ۔ ذخیرۂ سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر کے محرکات میں، من جملہ دیگر عوامل کے، تحریش واغرا (Provocation) کی وہ کارروائیاں بھی شامل تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وقتاً فوقتاً قریش کے تجارتی قافلوں پر حملوں کی صورت میں کی گئیں۔ چنانچہ قریش اسی طرح کے ایک حملے کی اطلاع پا کر اپنے تجارتی قافلے کو بچانے کے لیے مکہ سے نکلے اور اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے مطابق بدر کے مقام پر ان کا مسلمانوں سے آمنا سامنا ہوا۔ ابوسفیان اپنی تدبیر سے قریش کے تجارتی قافلے کو مسلمانوں سے بچا لے جانے میں کامیاب ہو گئے تو سرداران قریش میں سے بعض نے اس بات کی کوشش کی کہ ان کے اور مسلمانوں کے مابین لڑائی نہ ہو، تاہم ابو جہل نہیں مانا اور یہ معرکہ برپا ہو کر رہا۔ اس موقع پر جنگ سے گریز کا مشورہ دینے والے سرداروں کی گفتگو سے عیاں ہے کہ جزیرۂ عرب پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عزم وارادہ ان پر بالکل واضح تھا۔ چنانچہ عتبہ بن ربیعہ نے اپنے خطبے میں قریش کو مخاطب کر کے کہا:

یا معشر قریش .... ارجعوا وخلوا بین محمد وبین سائر العرب فان اصابوہ فذاک الذی اردتم وان کان غیر ذلک الفاکم ولم تعرضوا منہ ما تریدون (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۵۵۰، ۵۵۱)

’’اے گروہ قریش! .... واپس چلے چلو اور محمد اور پورے عرب کو آپس میں نمٹنے دو۔ اگر اہل عرب محمد پر غالب آ گئے تو یہی تم چاہتے ہو اور اگر اس سے مختلف معاملہ ہوا (اور تمھیں بھی محمد کے سامنے سر جھکانا پڑا) تو وہ تمھیں اس حال میں پائیں گے کہ تم نے ان کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کی ہوگی جس کا تم اس وقت ارادہ رکھتے ہو۔‘‘

بہرحال جنگ بدر میں قریش کو عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی صف اول کی قیادت تہ تیغ ہو گئی اور ستر کے قریب قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔ قریش کی یہ عبرت ناک شکست درحقیقت فتح مکہ کی تمہید تھی، چنانچہ اس موقع پر کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے اشعار میں سرداران قریش کو یوں خبردار کیا:

فلا تعجل ابا سفیان وارقب

جیاد الخیل تطلع من کداء

بنصر اللہ روح القدس فیہا

ومیکال فیا طیب الملاء

(السیرۃ النبویۃ ۲/۲۵)

’’ابو سفیان! جلدی میں مت پڑو اور اس وقت کا انتظار کرو جب (محمد اور اصحاب محمد کے) عمدہ اور بہترین گھوڑے مقام کداء سے نمودار ہوں گے۔ ان کو اللہ کی مدد اور جبریل اور میکائیل کی رفاقت حاصل ہوگی۔ سو یہ کیسی پاکیزہ جماعت ہوگی۔‘‘

احد اور احزاب کی جنگیں بھی بدر ہی سے شروع ہونے والے سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ ان جنگوں کے ذریعے سے قریش کی طاقت اور ان کے عزم وہمت کو شکست دینے کا مقصد پورا ہو گیا اور ۵ ہجری میں غزوۂ خندق کے موقع پر مشرکین کا لشکر جرار ناکام ونامراد واپس پلٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرما دیا کہ اب مشرکین میں جنگ کا دم خم باقی نہیں رہا، اس لیے اب اقدام کرنے کی باری ان کی نہیں، بلکہ مسلمانوں کی ہے۔ آپ نے فرمایا:

الآن نغزوہم ولا یغزوننا نحن نسیر الیہم (بخاری، رقم ۳۸۰۱)

’’اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے اور وہ ہم پر حملہ نہیں کریں گے۔ اب ان کی طرف بڑھنے کی باری ہماری ہے۔‘‘

۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ عمرے کے ارادے سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو مشرکین نے انھیں حدیبیہ کے مقام پر روک دیا۔ سابقہ ہدایات کی رو سے اس موقع پر مسلمانوں کو حدود حرم میں تلوار اٹھانے کا پورا پورا حق حاصل تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اہم تر مصالح کے پیش نظر مشرکین سے صلح کا معاہدہ کر لیا تو اس کو ذہنی طور پر قبول کرنا صحابہ کے لیے ایک آزمائش بن گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید میں اس صلح کی حکمت اور اس کے پوشیدہ فوائد پر باقاعدہ ایک سورت نازل کرنا پڑی جس میں انھیں یہ بتایا گیا کہ اگرچہ مشرکین ان کو مسجد حرام سے روکنے کے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، لیکن چونکہ مکہ میں ابھی بہت سے ایسے اہل ایمان موجود ہیں جو اپنے ایمان کو مخفی رکھے ہوئے ہیں اور ان کے اور مشرکین کے مابین واضح امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ وہ بھی لڑائی میں تہ تیغ ہو جائیں گے، اس لیے اس موقع پر قتال کو موخر کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی انھیں فتح مکہ کی بشارت اس وضاحت کے ساتھ دی گئی کہ مسجد حرام کا مسلمانوں کے تصرف میں آنا چونکہ ’اظہار دین‘ یعنی جزیرۂ عرب میں غلبہ اسلام کا لازمی تقاضا ہے، اس لیے یہ وعدہ یقیناًپورا ہو کر رہے گا:

لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِنْ شَاآ اللّٰہُ آمِنِیْنَ مُحَلِّقِیْنَ رُءُ وْسَکُمْ وَمُقَصِّرِیْنَ لَا تَخَافُوْنَ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوْا فَجَعَلَ مِنْ دُوْنِ ذَلِکَ فَتْحًا قَرِیْبًا۔ ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُوْلَہُ بِالْہُدَیٰ وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (الفتح ۴۸: ۲۷۔۲۸)

’’یقیناًاللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا کہ اللہ نے چاہا تو تم یقیناًپورے امن وامان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہوگے، سر منڈواتے ہوئے اور سر کے بال کترواتے ہوئے، تمہیں کوئی خوف لاحق نہیں ہوگا۔ وہ ان باتوں کو جانتا ہے جن کو تم نہیں جانتا، پس اس نے اس کے بعد ایک قریبی فتح تمہارے لیے مقدر کر دی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے۔ اور اللہ کافی ہے گواہی دینے والا۔‘‘

قریش کے ساتھ اس معاہدے کے ذریعے سے آپ ایک طرف ان لوگوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہتے تھے جو اسلام کو قبول کرنے کے خواہش مند تھے لیکن قبائلی تعلقات کی وجہ سے قریش اور مسلمانوں کی کشمکش میں کھل کر قریش کی مخالفت مول نہیں لے سکتے تھے اور دوسری طرف آپ مسلمانوں کی قوت اور توجہ کو یکسو کر کے قریش کے علاوہ دیگر مشرک قبائل کی سرکوبی کے لیے مرکوز کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ نے قریش کو معاہدۂ صلح کی پیش کش کرتے ہوئے یہ بات کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر ان پر صاف واضح کر دی کہ یہ صلح مستقل بقاے باہمی کی غرض سے نہیں، بلکہ محض فریقین کی مصلحت کے لحاظ سے عارضی طور پر کی جا رہی ہے۔ آپ نے ان سے کہا:

انا لم نات لقتال احد، انما جئنا لنطوف بہذا البیت، فمن صدنا عنہ قاتلناہ، وقریش قوم قد اضرت بہم الحرب ونہکتہم، فان شاء وا ماددتہم مدۃ یامنون فیہا ویخلون فی ما بیننا وبین الناس، والناس اکثر منہم، فان ظہر امری علی الناس کانوا بین ان یدخلوا فی ما دخل فیہ الناس او یقاتلوا وقد جمعوا، واللہ لاجہدن علی امری ہذا حتی تنفرد سالفتی او ینفذ اللہ امرہ (واقدی، المغازی، ۲/۵۹۳)

’’ہم کسی کے ساتھ لڑنے کے لیے نہیں آئے۔ ہم تو بیت اللہ کا طواف کرنے آئے ہیں۔ ہاں جو ہمیں اس سے روکے گا، اس کے ساتھ ہم جنگ کریں گے۔ جنگ پہلے ہی قریش کو بہت نقصان پہنچا چکی ہے اور اس نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اس لیے اگر وہ چاہیں تو میں ایک مخصوص عرصے کے لیے ان کے ساتھ صلح کرنے کو تیار ہوں جس میں انھیں بھی ہماری طرف سے امن حاصل ہو اور وہ بھی ہمارے اور باقی اہل عرب کے معاملے میں دخل انداز نہ ہوں۔ اہل عرب کی تعداد قریش سے زیادہ ہے۔ سو اگر میں ان پر غالب آ گیا تو قریش کو اختیار ہوگا کہ چاہیں تو سب لوگوں کی طرح اس دین میں داخل ہو جائیں اور چاہیں تو جنگ کریں۔ اس وقت ان کی بکھری ہوئی قوت بھی مجتمع ہوگی۔ بخدا میں اس دین کے غلبے کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا، یہاں تک کہ یا تو (سب لوگ میرا ساتھ چھوڑ دیں اور) میں اکیلا رہ جاؤں اور یا اللہ اپنے فیصلے کو نافذ کر دے۔‘‘

سیدنا عثمانؓ رسول اللہ کے سفیر بن کر اہل مکہ کے پاس گئے تو انھوں نے بھی انہیں یہی پیغام دیا:

قال بعثنی رسول اللہ الیکم یدعوکم الی اللہ والی الاسلام تدخلون فی الدین کافۃ فان اللہ مظہر دینہ ومعز نبیہ واخری تکفون ویلی ہذا منہ غیرکم فان ظفروا بمحمد فذلک ما اردتم وان ظفر محمد کنتم بالخیار ان تدخلوا فی ما دخل فیہ الناس او تقاتلوا وانتم وافرون جامون، ان الحرب قد نہکتکم واذہبت بالاماثل منکم (واقدی، المغازی، ۲/۶۰۰، ۶۰۱)

’’عثمان نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اللہ اور اسلام کی دعوت دے کر تمہارے پاس بھیجا ہے۔ (بہتر یہی ہے کہ) تم سب کے سب اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ بہرحال اپنے دین کو غالب اور اپنے نبی کو سرفراز کریں گے۔ یہ نہیں تو پھر ایک دوسری بات مان لو: تم ہمارے ساتھ جنگ کرنے سے باز آجاؤ اور اسے دوسرے اہل عرب پر چھوڑ دو۔ اگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب آ گئے تو تمہارا مقصد پورا ہو جائے گا۔ اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم غالب آ گئے تو تمہیں اختیار ہوگا۔ چاہو تو تمام لوگوں کی طرح تم بھی اس دین کو قبول کر لینا اور چاہو تو جنگ کر لینا۔ اس وقت تم تعداد کے لحاظ سے بھی کہیں زیادہ ہو چکے ہوگے۔ دیکھو، اس جنگ نے تمہاری کمر بالکل توڑ دی ہے اور تمہارے بہترین لوگ اس کا لقمہ بن چکے ہیں۔‘‘

حدیبیہ کا یہ معاہدۂ صلح ۸ ہجری تک برقرار رہا اور قریش کی طرف سے اس کی کوئی خلاف ورزی اس دوران میں سامنے نہیں آئی۔ ۸ ہجری میں قریش نے معاہدۂ حدیبیہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنو خزاعہ کے خلاف لڑائی میں بنو بکر کو مدد فراہم کی۔ سرداران قریش اس پر نادم ہوئے اور انھوں نے ابو سفیان کو مدینہ بھیجا تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدۂ صلح کی تجدید کر کے آئیں۔ ابو سفیان یہ پیشکش لے کر مدینہ گئے لیکن رسول اللہ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ بہتیرے جتن کرنے کے بعد آخر کار انھوں نے لوگوں میں کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ:

الا انی قد اجرت بین الناس ولا اظن محمدا یخفرنی 

’’لوگو سن لو! میں نے سب لوگوں کے سامنے (قریش اور ان کے حلیفوں کو) امان دی اور مجھے یقین ہے کہ محمد میری دی ہوئی ا س امان کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔‘‘

پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ مجھے امید ہے کہ آپ میری دی ہوئی امان کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: انت تقول ذلک یا ابا سفیان (واقدی، المغازی، ۲/۷۹۴) ’’ابو سفیان، یہ بات تم کہہ رہے ہو (مجھ پر اس کی کوئی ذمہ داری نہیں)‘‘۔ اس کے بعد ابو سفیان ناکام مکہ واپس لوٹ آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد صحابہ کو خفیہ طور پر تیاری کا حکم دیا اور اسی رازداری کی کیفیت میں حملہ آور ہو کر مکہ کو فتح کر لیا اور بیت اللہ کو تمام اصنام واوثان اور مشرکانہ رسوم کے تمام آثار سے پاک کر کے اس کو دین ابراہیمی کی اصل اساس یعنی توحید کے عالمی مرکز کی حیثیت سے بحال کر دیا۔ 

۹ ہجری میں حج کے موقع پر قرآن نے یہ اعلان کیا کہ مشرکین اپنی اعتقادی نجاست کی وجہ سے بیت اللہ میں عبادت تو کجا، اس کے قریب آنے کے حقدار بھی نہیں ہیں، اس لیے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی پھٹکنے نہ پائیں: 

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُواْ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا (التوبہ ۹:۲۸)

’’اے ایمان والو! مشرکین محض ناپاک ہیں، اس لیے اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں۔‘‘

چنانچہ اس سال حج کے موقع پر اس حکم کی باقاعدہ منادی کر کے حرم میں مشرکین کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ (بخاری، رقم ۳۶۹) ۱۰ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے لیے مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور دین ابراہیمی کی روایات کے مطابق مناسک حج کی تعلیم لوگوں کو دی۔ (مسلم، رقم ۲۹۵۰) اس طرح کفر وشرک سے بیت اللہ کی تطہیر اور اس کو توحید کا عالمی مرکز بنانے کا مشن مکمل ہو گیا، چنانچہ آپ نے اس موقع پر یہ اعلان فرمایا کہ:

ان الشیطان قد ایس من ان یعبد فی بلادکم ہذہ ابدا (ترمذی، رقم ۳۰۸۵)

’’شیطان کو اب اس بات کی کوئی امید نہیں رہی کہ جزیرۃ العرب میں دوبارہ کبھی اس کی پوجا کی جائے گی۔‘‘ 

بیت اللہ میں دین توحید کی بحالی کے بعد اگلا مرحلہ شرک اور مظاہر شرک سے سرزمین عرب کی تطہیر کا تھا۔ یہ دراصل اسی ذمہ داری کا تسلسل تھا جو ذریت ابراہیم پر اپنی میراث کے علاقے کو شرک سے پاک رکھنے کے لیے ابتدا ہی سے عائد کی گئی تھی۔ چنانچہ بنی اسرائیل جب مصریوں کی غلامی سے رہا ہو کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں ایک گروہ کی حیثیت سے منظم ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم دیا کہ وہ سرزمین کنعان پر قبضہ کرنے کے لیے، جس کی ملکیت اور وراثت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کی ذریت کے حق میں کیا تھا، اس شہر کے باشندوں کے خلاف قتال کریں اور شہر پر قبضہ کر لیں۔ (المائدہ ۵:۲۰، ۲۱) تورات میں ہے کہ اس وقت سرزمین کنعان میں بہت سی مشرک قومیں آباد تھیں اور بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان سب قوموں کو نیست ونابود کر کے ان کی عبادت گاہوں اور بتوں کو ڈھا دیں اور اس سرزمین سے کفر وشرک کا خاتمہ کر دیں۔ کتاب گنتی میں ہے:

’’جب تم اردن سے پار ہو کر ملک کنعان میں جاؤ تو اس ملک کے سب باشندوں کو اپنے سامنے سے نکال دو۔ ان کی سب تراشی ہوئی مورتوں کو اور ان کے گھڑے ہوئے بتوں کو فنا کرو اور ان کی اونچی جگہوں کو ڈھا دو اور ملک کے مالک بنو اور اس میں بسو، کیونکہ میں نے تمھیں اس کو بطور میراث کے دیا ہے۔‘‘ (۳۳: ۵۰۔۵۳)

استثنا میں ہے:

’’جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کے لیے تو جا رہا ہے پہنچا دے اور تیرے آگے سے ان بہت سی قوموں کو یعنی حتیوں اور جرجاسیوں اور اموریوں اور کنعانیوں اور فرزیوں اور حویوں اور یبوسیوں کو جو ساتوں قومیں تجھ سے بڑی اور زور آور ہیں نکال دے اور جب خداوند تیرا خدا ان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مار لے تو تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا۔ تو ان سے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ ان پر رحم کرنا۔ تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا۔ نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لیے ان کی بیٹیاں لینا کیونکہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں۔ یوں خداوند کا غضب تم پر بڑھکے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کر دیے گا۔ بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرنا کہ ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا۔ ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دینا۔‘‘ (استثنا ۷: ۱۔۵)

تورات کے مطابق بنی اسرائیل کو اس کا پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنی میراث کے علاقے سے باہر بسنے والی اقوام کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر سکتے ہیں، لیکن میراث کے حدود کے اندر وہ کسی مشرک قوم کا وجود گوارا نہ کریں:

’’جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدیک پہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دے اور اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لیے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں۔ ..... ان سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہر نہیں ہیں۔ پر ان قوموں کے شہروں میں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے، کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا رکھنا بلکہ تو ان کو یعنی حتی اور اموری اور کنعانی اور فرزی اور حوی اور یبوسی قوموں کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے تجھ کو حکم دیا ہے، بالکل نیست کر دینا تاکہ وہ تم کو اپنے سے مکروہ کام کرنے نہ سکھائیں جو انھوں نے اپنے دیوتاؤں کے لیے کیے ہیں اور یوں تم خداوند اپنے خدا کے خلاف گناہ کرنے لگو۔‘‘ (استثنا ۲۰:۱۰-۱۸)

بنی اسرائیل ہی کے ایک عظیم پیغمبر اور فرمانروا سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بے نظیر حکومت وسلطنت، مادی واقتصادی قوت اور شاہانہ شان وشوکت سے نوازا تھا۔ قرآن مجید کی تصریح کے مطابق سیدنا سلیمان علیہ السلام نے اپنی اس قوت اور برتری کو اپنے قرب وجوار میں مشرکانہ مذاہب کی پیروی کرنے والی قوموں کی تادیب وتنبیہ اور ان کو سرنگوں کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔ چنانچہ جب انھیں معلوم ہوا کہ قوم سبا سورج پرستی میں مبتلا ہے تو انھوں نے اس کی ملکہ کو خط لکھا:

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیْمِ أَلَّا تَعْلُوا عَلَیَّ وَأْتُونِیْ مُسْلِمِیْنَ (النمل ۲۷:۳۱)

’’اللہ کے نام کے ساتھ جس کی رحمت بے پایاں اور جس کی شفقت ابدی ہے۔ میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور فرماں بردار بن کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ۔‘‘

ملکہ سبا کی طرف سے پس وپیش کیے جانے پر انھوں نے انھیں دھمکی دی کہ:

فَلَنَأْتِیَنَّہُمْ بِجُنُودٍ لَّا قِبَلَ لَہُم بِہَا وَلَنُخْرِجَنَّہُم مِّنْہَا أَذِلَّۃً وَہُمْ صَاغِرُونَ (النمل ۲۷:۳۷)

’’پس ہم ایسے لشکروں کے ساتھ ان پر حملہ کریں گے جن کا مقابلہ کرنے کی تاب ان میں نہیں ہوگی اور ہم ان کو ذلیل اور حقیر بنا کر ان کے ملک سے نکال دیں گے۔‘‘

اسی قانون کے تحت خود بنی اسرائیل کے لیے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ سزا مقرر کر دی تھی کہ اگر ان میں سے کوئی فرد یا گروہ ’شرک‘ یا اس کے مظاہر میں مبتلا ہو تو اسے قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے کوہ طور پر جانے کے بعد جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ جو لوگ اس نجاست سے آلودہ نہیں ہوئے، وہ بچھڑے کی پوجا کرنے والوں کو قتل کریں:

وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ إِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوْا إِلَی بَارِءِکُمْ فَاقْتُلُوْا أَنفُسَکُمْ ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ عِندَ بَارِءِکُمْ (البقرہ ۲:۵۴)

’’اورجب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم، تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اس لیے اپنے پیدا کرنے والے کی طرف توبہ کرو اور اپنے (بھائی بندوں) کو قتل کرو۔ یہ تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے۔‘‘

اسی قانون کے تحت موسوی شریعت میں مشرکانہ اعمال ورسوم میں ملوث ہونے والوں کے لیے موت کی سزامقرر کی گئی تھی۔ تورات میں ہے:

’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا تو بنی اسرائیل سے یہ بھی کہہ دے کہ بنی اسرائیل میں سے یا ان پردیسیوں میں سے جو اسرائیلیوں کے درمیان بود وباش کرتے ہیں، جو کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو مولک کی نذر کرے، وہ ضرور جان سے مارا جائے۔ اہل ملک اسے سنگسار کریں۔‘‘ (احبار ۲۰: ۱، ۲)

بنی اسرائیل میں سلسلہ نبوت کے اختتام کے بعد بنی اسماعیل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت چونکہ ذریت ابراہیم ہی میں چلی آنے والی روایت کا تسلسل تھی، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد جزیرۂ عرب میں ’شرک‘ کے بطور ایک مذہب اور مشرکین کے بطور ایک مذہبی گروہ کے باقی رہنے کی کوئی گنجایش نہیں ہو سکتی تھی اور مشرکین اگر اپنے کفر وشرک پر قائم رہتے تو ان پر موت کی سزاکا نافذ کیا جانا خدا کے قانون کے مطابق بعثت محمدی کا ایک لازمی تقاضا تھا۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بنیادی اقدام تو یہ کیا کہ مختلف مواقع پر باقاعدہ مہمات بھیج کر جزیرۂ عرب میں مختلف مقامات پر قائم مشرکین کے عبادت خانوں کو مسمار کروا دیا۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

  • قریش اور بنو کنانہ نے نخلہ کے مقام پر عزیٰ کی عبادت گاہ قائم کر رکھی تھی اور اس کی تولیت ودربانی کی ذمہ داری بنو ہاشم کے حلیف قبیلہ سلیم کے خاندان بنو شیبان کے پاس تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو بھیج کر اس کو منہدم کرا دیا۔ 
  • بنو ثقیف نے طائف میں لات کی عبادت گاہ بنا رکھی تھی اور اس کے متولی اور خادم بنو معتب تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ بن شعبہ اور ابو سفیان صخر بن حرب کوبھیجا جنھوں نے اس کو گرا کر یہاں ایک مسجد بنا دی۔
  • اوس اور خزرج اور یثرب کے دیگر قبائل نے قدید کے علاقے میں منات کی عبادت گاہ بنا رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں ابو سفیان صخر بن حرب، یا ایک قول کے مطابق علی بن ابی طالب کو بھیج کر اس کو گرا دیا۔ (واقدی کی روایت کے مطابق اس کو سعد بن زید الاشہلی نے گرایا تھا) 
  • قبیلہ دوس، خثعم، بجیلہ اور تبالہ کے علاقے میں دیگر اہل عرب نے ذو الخلصۃ کی عبادت گاہ قائم کر رکھی تھی جس کو وہ کعبہ یمانیہ کے نام سے پکارتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جریر بن عبد اللہ البجلی کو بھیج کر اس کو منہدم کرا دیا۔
  • سلمیٰ اور آجا کے مابین جبل طے کے قریب قبیلہ طے اور ان کے قریبی قبائل نے قلس کی عبادت گاہ بنا رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ابن ابی طالب کو بھیج کر اس کو گرا دیا۔ 
  • رہاط کے مقام پر قبیلہ ہذیل کی سواع کے نام پر قائم کردہ عبادت گاہ کو حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے منہدم کیا۔ (ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ، ۳/۷۱۱۔ تفسیر القرآن العظیم، ۴/۲۵۳، ۲۵۴)

اس کے ساتھ ساتھ معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر قرآن مجید میں سورۃ الفتح نازل ہوئی تو اس میں مشرکین کے خلاف آئندہ جنگ کا ہدف صاف لفظوں میں یہ بیان کیا گیا کہ:

سَتُدْعَوْنَ إِلَی قَوْمٍ أُوْلِیْ بَأْسٍ شَدِیْدٍ تُقَاتِلُونَہُمْ أَوْ یُسْلِمُونَ (الفتح ۴۸:۱۶)

’’جلد ہی تمہیں ایک ایسی قوم کے مقابلے کے لیے بلایا جائے گا جو نہایت جنگجو اور زورآور ہوگی۔ تمہیں ان کے ساتھ لڑنا ہوگا یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں۔‘‘

اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد سورۂ براء ۃ کی وہ ابتدائی آیات نازل کر دی گئیں جن میں بدنیت اور بدعہد مشرک قبائل کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کو کالعدم قرار دیا گیا اور انھیں چار ماہ کی مہلت دے کر یہ کہا گیا کہ وہ یا تو اسلام قبول کر لیں اور یا اہل ایمان کے ہاتھوں جہنم رسید ہونے کے لیے تیار ہو جائیں:

بَرَاء ۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ إِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ فَسِیْحُوا فِی الأَرْضِ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَّاعْلَمُوا أَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَأَنَّ اللّٰہَ مُخْزِیْ الْکَافِرِیْنَ..... فَإِذَا انْسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَاحْصُرُوْہُمْ وَاقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۹:۱-۵)

’’اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں سے براء ت کا اعلان ہے جن سے تم نے معاہدے کر رکھے ہیں۔ سو (اے مشرکو) چار ماہ تک زمین میں چل پھر لو اور جان لو کہ اللہ کے آگے تمہارا کوئی زور نہیں چل سکتا اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کر کے رہے گا۔ .... پھر جب حرام مہینے گزر جائیں (اور چار ماہ کی مدت پوری ہو جائے) تو مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کرو اور انھیں پکڑو اور انھیں گھیرو اور ان کے لیے ہر جگہ گھات لگا کر بیٹھو۔ پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے کی پابندی قبول کر لیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ معاف کرنے والا، مہربان ہے۔‘‘

البتہ اسی سلسلہ بیان میں آیت ۷ میں یہ ہدایت کی گئی کہ حدیبیہ کے مقام پر مشرکین کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا ہے، اس کی پاس داری کی جائے، تا آنکہ مشرکین خود ہی اس کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں۔

قرآن نے اسی موقع پر یہ حکم بھی دے دیا کہ بیت اللہ کے مسلمانوں کے تصرف میں آنے کے بعد جب حج اکبر کا دن آئے تو اس موقع پر پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین سے بھی براء ت کا اعلان کر دیا جائے:

وَأَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُولِہِ إِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الأَکْبَرِ أَنَّ اللّٰہَ بَرِیْءٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُولُہُ فَإِن تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ (التوبہ ۹:۳)

’’اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن بھی اعلان کر دیاجائے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری ہیں۔ پھر (اے مشرکو) اگر تم توبہ کر لو تو یہی تمھارے لیے بہتر ہے اور اگر منہ پھیرو گے تو جان لو کہ تم اللہ کے آگے زور نہیں چلا سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری سنا دو۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ سلم نے اسی حکم کی وضاحت میں ارشاد فرمایا کہ:

امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاۃ ویوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم واموالہم الا بحق الاسلام وحسابہم علی اللہ (بخاری، رقم ۲۴)

’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے قتال کروں جب تک کہ وہ ’لا الٰہ الا اللہ‘ کا اقرار نہ کر لیں۔ پس جو لاالہ الا اللہ کا اقرار کر لے گا، اسے میری طرف سے جان اور مال کی امان حاصل ہو جائے گی اور اس کے اعمال کا حساب اللہ کے سپرد ہوگا۔‘‘

مشرکین عرب کے بہت سے گروہوں نے آپ کے اس اعلان ہی کے نتیجے میں دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا جس کے متعدد شواہد حدیث وسیرت کے ذخیرے میں موجود ہیں:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عجب اللہ من اقوام یجاء بہم فی السلاسل حتی یدخلوا الجنۃ (مسند احمد، رقم ۹۵۰۹)

’’اللہ کو ان لوگوں پر تعجب ہے جن کو بیڑیوں میں جکڑ کر لایا جائے تاکہ جنت میں داخل ہو جائیں۔‘‘

بنو بکر بن وائل کے نام خط میں آپ نے انھیں لکھا:

اما بعد فاسلموا تسلموا (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۲۸۱)

’’اما بعد! اسلام لے آو، بچ جاؤ گے۔‘‘

قبیلہ عبد القیس کا وفد اسلام قبول کرنے کے لیے آیا تو آپ نے ان کے حق میں یوں دعا فرمائی:

اللہم اغفر لعبد القیس اذ اسلموا طائعین غیر کارہین غیر خزایا ولا موتورین اذ بعض قومنا لا یسلمون حتی یخزوا ویوتروا (مسند احمد، رقم ۱۷۱۶۱)

’’اے اللہ، قبیلہ عبدالقیس کی مغفرت فرما دے کیونکہ یہ کسی زبردستی کے بغیر خود اپنی مرضی سے اسلام لے آئے ہیں۔ یہ نہ رسوا ہوئے ہیں اور نہ ان کو کوئی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جبکہ ہماری قوم کے کچھ لوگ اس وقت تک ایمان لانے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک کہ انھیں رسوائی اور جانی ومالی نقصان سے سابقہ نہ پیش آ جائے۔‘‘

اس موقع پر آپ نے انصار سے کہا:

یا معشر الانصار اکرموا اخوانکم فانہم اشباہکم فی الاسلام واشبہ شئ بکم شعارا وابشارا اسلموا طائعین غیر مکرہین ولا موتورین اذ ابی قوم ان یسلموا حتی قتلوا (مسند احمد، رقم ۱۷۱۶۲)

’’اے گروہ انصار، اپنے بھائیوں کا خوب اکرام کرو، کیونکہ یہ (آگے بڑھ کر رضامندی سے) اسلام لانے میں بھی تم سے مشابہ ہیں اور ان کی ظاہری وباطنی حالت بھی تم سے بہت ملتی جلتی ہے۔ انھوں نے جبر واکراہ کے بغیر اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے اس سے انکار کیا یہاں تک کہ انھیں قتل کر دیا گیا۔‘‘

بنو خثعم کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط تحریر فرمایا، ابن سعد نے اس کے الفاظ یہ نقل کیے ہیں:

ومن اسلم منکم طوعا او کرہا فی یدہ حرث .... (الطبقات الکبریٰ ۱/۲۸۶)

’’تم میں سے جنھوں نے اسلام قبول کیا، چاہے طوعاً کیا ہو یا کرہاً، اور ان کے پاس کھیتی ہے .....‘‘

۸ ہجری میں بنو تمیم کا وفد بارگاہ نبوی میں حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ثابت بن قیس انصاری نے اس موقع پر ان کے سامنے ایک تقریر کی، جس میں انہوں نے کہا:

فنحن انصار اللہ ووزراء رسولہ نقاتل الناس حتی یومنوا باللہ فمن آمن باللہ ورسولہ منع منا مالہ ودمہ ومن کفر جاہدناہ فی اللہ ابدا وکان قتلہ علینا یسیرا (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۷۵)

’’ہم اللہ اور اس کے رسول کے مددگار ہیں۔ ہم اس وقت تک لوگوں سے لڑیں گے جب تک کہ وہ اللہ پر ایمان نہ لے آئیں۔ پس جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے گا، اسے ہماری طرف سے جان ومال کی امان حاصل ہوگی۔ اور جو انکار کرے گا، ہم اس کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور اس کو قتل کرنے میں ہمیں کوئی تردد نہیں ہوگا۔‘‘

رفاعہ بن زید جذامی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا تو آپ نے انھیں ان کی قوم کے نام حسب ذیل خط دے کر روانہ کیا:

انی بعثتہ الی قومہ عامۃ ومن دخل فیہم، یدعوہم الی اللہ والی رسولہ، فمن اقبل منہم ففی حزب اللہ وحزب رسولہ ومن ادبر فلہ امان شہرین (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۲/۵۰۲)

’’میں نے رفاعہ کو اس کی ساری قوم اور اس میں (باہر سے آکر) شامل ہونے والوں کی طرف بھیجا ہے تاکہ وہ انھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف دعوت دے۔ تو ان میں سے جو (اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے) آگے بڑھیں گے، انھیں اللہ اور اس کے رسول کی جماعت میں شمار کیا جائے گا اور جو لوگ منہ پھیر لیں تو انھیں دو مہینے کی مہلت ہے۔‘‘

رفاعہ یہ خط لے کر اپنی قوم کے پاس گئے تو انھوں نے ان کی دعوت پر اسلام قبول کر لیا۔

صرد بن عبد اللہ ازدی نے اپنی قوم بنو ازد کے ایک وفد کے ہمراہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تو آپ نے انھیں ان کی قوم کے مسلمانوں کا امیر مقرر کر کے حکم دیا کہ وہ اپنے علاقے کے مشرکین کے ساتھ جہاد کریں:

فامرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی من اسلم من قومہ وامرہ ان یجاہد بمن اسلم من کان یلیہ من اہل الشرک من قبل الیمن (السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۹۵)

صرد بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق یمن کے علاقہ جرش میں مشرک قبائل کامحاصرہ کیا اور انھیں اسلام کی دعوت دی۔ پھر ان میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا، انھیں اپنے ساتھ شامل کر لیا جبکہ انکار کرنے والوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔ پھر ایک جنگی تدبیر سے مشرکین کو قلعے سے نکل کر اپنے تعاقب پر آمادہ کیا اور پلٹ کر ان پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں بہت سے مشرک مارے گئے۔ اس کے بعد اہل جرش کا ایک وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۹۵۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۵/۵۲۶)

۱۰ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کی قیادت میں چار سو آدمیوں پر مشتمل ایک سریہ نجران کے قبیلہ بنو الحارث بن کعب کی طرف بھیجا اور کہا کہ وہ جا کر ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں اور اگر وہ تین دن تک اس دعوت کو قبول نہ کریں تو ان کے ساتھ قتال کریں۔ خالد نے وہاں پہنچ کر اپنے سواروں کو مختلف اطراف میں بھیجا جنھوں نے اس بات کی منادی کی کہ ’یا بنی الحارث اسلموا تسلموا‘۔ (اے بنو الحارث، اسلام لے آؤ، بچ جاؤ گے) اس کے نتیجے میں بنو الحارث نے قتال کی نوبت آنے سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۱۲۶، ۱۲۷۔ ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۲/۵۰۰)

اس ضمن میں بنو ثقیف کے قبول اسلام کی روداد بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ذخیرۂ سیرت کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۸ ہجری میں طائف کا محاصرہ کرنے کے بعد حالات کی مناسبت سے فی الوقت بنو ثقیف سے جنگ کا فیصلہ موخر کر دیا، تاہم اس محاصرے کے دوران میں بنو ثقیف پر یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ رسول اللہ کی مخالفت مول لے کر جزیرۂ عرب میں پر امن طریقے سے رہنا ان کے لیے ناممکن ہے، چنانچہ اشاعت اسلام سے خوفزدہ ہو کر اور اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے انھوں نے طوعاً وکرہاً اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ابن ہشام نے ثقیف کے سردار عمرو بن عبد یالیل کی گفتگو یوں نقل کی ہے:

انہ قد نزل بنا امر لیست معہ ہجرۃ انہ قد کان من امر ہذا الرجل ما قد رایت، قد اسلمت العرب کلہا ولیس لکم بحربہم طاقۃ فانظروا فی امرکم (السیرۃ النبویۃ ۲/۴۵۶)

’’ہمیں ایک ایسی صورت حال میں گرفتار ہو گئے ہیں جس سے کوئی مفر نہیں۔ اس شخص (محمد) کا معاملہ تم دیکھ رہے ہو کہ سارا عرب اسلام قبول کر چکا ہے اور اور تمھارے پاس ان سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں ہے، اس لیے اپنے معاملے میں غور کرو۔‘‘

انا نخاف ہذا الرجل قد اوطا الارض غلبۃ ونحن فی حصن فی ناحیۃ من الارض والاسلام حولنا فاش واللہ لو قام علی حصننا شہرا لمتنا جوعا وما اری الا الاسلام وانا اخاف یوما مثل یوم مکۃ (واقدی، المغازی ۳/۹۶۷)

’’ہم اس شخص سے خوف زدہ ہیں۔ اس نے پوری سرزمین عرب کو روند کر مغلوب کر لیا ہے۔ ہم اس سرزمین کے ایک کونے میں ایک قلعے میں بند ہیں اور ہمارے ارد گرد اسلام پھیل چکا ہے۔ بخدا، اگر وہ ایک مہینے تک ہمارے قلعے کا محاصرہ جاری رکھتے تو ہم بھوکوں مر جاتے۔ مجھے اسلام قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ ورنہ مجھے خدشہ ہے کہ ہمارا حال بھی ایک دن وہی ہوگا جو مکے والوں کا ہوا۔‘‘

چنانچہ اہل طائف کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے بتوں کی حفاظت اور شراب، زنا اور سود کے کاروبار کو جاری رکھنے کے حوالے سے بعض شرطیں منوانا چاہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یکسر مسترد کر دیا۔ یہ وفد واپس طائف پہنچا تو اس کے تاثرات یہ تھے:

فقالوا جئناکم من عند رجل فظ غلیظ یاخذ من امرہ ما شاء قد ظہر بالسیف واداخ العرب ودان لہ الناس ورعبت منہ بنو الاصفر فی حصونہم والناس فیہ اما راغب فی دینہ واما خائف من السیف (المغازی، ۳/۹۶۹)

’’انھوں نے کہا: ہم ایک نہایت درشت اور تند خو آدمی کے پاس سے آ رہے ہیں جو صرف اپنی من مانی کرتا ہے۔ وہ تلوار لے کر اٹھا ہے اور پورے عرب کو اس نے زیر کر لیا ہے۔ لوگ بھی اس کے مطیع بن چکے ہیں اور رومیوں پر اپنے قلعوں میں اس کا رعب طاری ہے۔ اب دو ہی طرح کے لوگ رہ گئے ہیں: کچھ تو اپنی مرضی سے اس کے دین کی طرف راغب ہیں اور کچھ محض تلوار کے ڈر سے اطاعت قبول کر رہے ہیں۔‘‘

فتح مکہ کے بعد اس عمومی تاثر کا اظہار ارباب سیرت نے جگہ جگہ کیا ہے۔ واقدی لکھتے ہیں:

والاسلام یومئذ لم یعم العرب قد بقیت بقایا من العرب وہم یخافون السیف لما فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بمکۃ وحنین (المغازی، ۳/۹۷۴)

’’اسلام ابھی سارے اہل عرب میں نہیں پھیلا تھا بلکہ کچھ لوگ ابھی باقی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور حنین میں مشرکین کے ساتھ جو کیا، اس کے پیش نظر وہ بھی اسلام کی تلوار سے خوف زدہ تھے۔‘‘

مشرکین کے بارے میں آپ کی یہ پالیسی اس قدر واضح تھی کہ جزیرۂ عرب کے مختلف اطراف میں آباد بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی طرف سے کسی خصوصی حکم کے بغیر ازخود مشرکین کو قتل کر نا شروع کر دیا۔ مثلاً تبوک سے واپسی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حمیر کے سرداروں حارث بن عبد کلال، نعیم بن عبد کلال اور نعمان کا خط ملا جس میں انھوں نے آپ کو اپنے اسلام قبول کرنے اور اپنے علاقے میں موجود مشرکوں کو قتل کرنے کی خبر دی۔ آپ نے جواب میں انھیں لکھا:

قد وقع بنا رسولکم ..... وانبانا باسلامکم وقتلکم المشرکین وان اللہ قد ہداکم بہداہ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۹۷)

’’تمھارا قاصد ہمارے پاس پہنچا ہے اور اس نے ہمیں تمھارے اسلام قبول کرنے اور مشرکین کو قتل کرنے کی خبر ہمیں دی ہے اور یہ کہ اللہ نے تمھیں اپنی ہدایت سے نوازا ہے۔‘‘

البتہ آپ نے اس خط میں انھیں تاکید کی کہ کسی یہودی یا نصرانی کو اس کے دین سے نہ ہٹایا جائے، بلکہ اس پر جزیہ عائد کر دیا جائے۔ اسی طرح آپ نے حمیر ہی کے ایک سردار زرعہ ذی یزن کے نام خط میں لکھا:

ان مالک بن مرۃ الرہاوی قد حدثنی انک اسلمت من اول حمیر وقتلت المشرکین فابشر بخیر (السیرۃ النبویۃ ۲/۴۹۸)

’’مالک بن مرہ رہاوی نے مجھے بتایا ہے کہ تم نے حمیر میں سب سے پہلے اسلام قبول کر لیا ہے اور مشرکین کو قتل کیا ہے، سو بھلائی کی خوشخبری قبول کرو۔‘‘

اسی تناظر میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے بادشاہ منذر بن ساویٰ کو خط لکھ کر ہدایت کی کہ مجوس میں سے جو اپنے دین پر قائم رہنا چاہے، اس سے جزیہ وصول کیا جائے تو منافقین نے اس بات کو پراپیگنڈا کا موضوع بنا لیا اور کہا کہ:

زعم محمد انہ انما بعث لقتال الناس کافۃ حتی یسلموا ولا یقبل الجزیۃ الا من اہل الکتاب ولا نراہ الا قد قبل من مشرکی اہل ہجر ما رد علی مشرکی العرب (المدونۃ الکبریٰ ۳/۴۷)

’’محمد نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ وہ سب لوگوں کے ساتھ لڑیں یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں اور یہ کہ وہ اہل کتاب کے علاوہ کسی سے جزیہ قبول نہیں کریں گے، لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے عرب کے مشرکوں سے جو بات (یعنی جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنا) قبول نہیں کی، اہل ہجر کے مشرکوں سے وہی بات قبول کرلی ہے۔‘‘

مزید برآں اہل عرب کے جبراً اسلام قبول کرنے کی ایک بڑی واضح دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوتے ہی عرب کے بیشتر قبائل مرتد ہو گئے اور صحابہ کو دوبارہ جہاد بالسیف کر کے انھیں مطیع بنانا پڑا۔ یہ صورت حال صرف دور دراز کے علاقوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ خود مرکز اسلام یعنی مکہ مکرمہ میں بھی بڑے پیمانے پر لوگ ارتداد پر آمادہ ہو چکے تھے۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۵۵۸) عبد اللہ بن عمر نے ایک موقع پر اس صورت حال کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:

لما مات النبی صلی اللہ علیہ وسلم تشایع الناس وتحزبوا فقامت تلک الناصیۃ فقاتلوا الناس حتی ردوا الناس الی کلمۃ الاسلام وحتی قالوا لا الہ الا اللہ وان نبیکم حق (مسند الشامیین، رقم ۱۶۶۱)

’’جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو لوگ (اسلام کو چھوڑ کر) مختلف گروہوں اور دھڑوں میں بٹ گئے ، چنانچہ آپ کے ساتھیوں کا گروہ اٹھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ قتال کیا یہاں تک کہ انھیں کلمہ اسلام کی طرف واپس لوٹا دیا اور منکرین کو یہ اقرار کرنا پڑا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ تمھارا نبی برحق ہے۔‘‘

اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ تمام قبائل اپنی رضامندی اور اختیار سے دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے تھے تو اتنے وسیع پیمانے پر ان کے دین سے مرتد ہو جانے یا مرکز اسلام کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کا رویہ کسی طرح بھی قابل فہم نہیں رہتا۔ 

صحابہ کرام نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگی اقدامات کی تعبیر اسی پہلو سے کی ہے۔ 

حسان بن ثابت نے اپنے بعض اشعار میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:

اما قریش فانی لن اسالمہم

حتی ینیبوا من الغیات للرشد

ویترکوا اللات والعزی بمعزلۃ

ویسجدوا کلہم للواحد الصمد

ویشہدوا ان ما قال الرسول لہم

حق ویوفوا بعہد اللہ والوکد

(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۲۶۰، ۲۶۱)

’’میں قریش کے ساتھ ہرگز صلح نہیں کروں گا، یہاں تک کہ وہ گمراہی چھوڑ کر سیدھی راہ پر آ جائیں، لات وعزیٰ کی عبادت سے کنارہ کش ہو کر سب کے سب ایک خدا کے سامنے سجدہ کرنے لگیں، اس بات کا اقرار کر لیں کہ رسول نے ان سے جو کہا ہے، وہ حق ہے اور اللہ کے مضبوط عہد کی پاس داری کریں۔‘‘

عباس بن مرداس السلمی نے اپنے قصیدے میں کہا ہے:

فان یہدوا الی الاسلام یلفوا

انوف الناس ما سمر السمیر

وان لم یسلموا فہم اذان

بحرب اللہ لیس لہم نصیر 

(السیرۃ النبویۃ، ۲/۳۸۳)

’’اگر وہ اسلام قبول کر لیں گے تو رہتی دنیا تک لوگوں کے مابین سربلند رہیں گے، لیکن اگر اسلام نہیں لائیں گے تو اللہ کی طرف سے ان کے ساتھ اعلان جنگ ہے جس میں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔‘‘

کعب بن مالک نے بنو ثقیف کو مخاطب کر کے کہا:

فان تلقوا الینا السلم نقبل

ونجعلکم لنا عضدا وریفا

وان تابوا نجاہدکم ونصبر

ولا یک امرنا رعشا ضعیفا

نجاہد ما بقینا او تنیبوا

الی الاسلام اذعانا مضیفا

.......

بکل مہند لین صقیل

یسوقہم بہاسوقا عنیفا

لامر اللہ والاسلام حتی

یقوم الدین معتدلا حنیفا

وتنسی اللات والعزی وود

ونسلبہا القلائد والشنوفا

(السیرۃ النبویۃ، ۲/۴۰۷، ۴۰۸)

’’اگر تم ہمیں صلح کا پیغام دو گے تو ہم قبول کر لیں گے اور تمھیں اپنا معاون بنا کر تمھارے سرسبز وشاداب علاقے سے لطف اندوز ہوں گے، لیکن اگر انکار کرو گے تو ہم پوری ثابت قدمی سے جہاد کریں گے اور ہماری استقامت میں کوئی اضطراب یا کمزوری نہیں ہوگی۔ جب تک ہم زندہ رہیں گے، برسر جنگ رہیں گے تا آنکہ تم اسلام کی طرف رجوع کر لو اور پوری طرح اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دو۔ .... ہماری تیز دھار، پتلی اور صیقل شدہ تلواریں لوگوں کو پوری قوت سے اللہ کے دین، اسلام کی طرف دھکیلتی رہیں گی یہاں تک کہ یہ دین توحید مضبوط اور مستحکم ہو جائے اور لات وعزیٰ اور ود کا نام ونشان مٹ جائے اور ہم ان (بتوں کو پہنائے جانے والے) ہار اور بالیاں ان سے چھین لیں۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سقیفہ بن ساعدہ میں انصار کے اجتماع میں سعد بن عبادہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا:

رزقکم اللہ الایمان بہ وبرسولہ والمنع لہ ولاصحابہ والاعزاز لہ ولدینہ والجہاد لاعداۂ فکنتم اشد الناس علی عدوہ منکم واثقلہ علی عدوہ من غیرکم حتی استقامت العرب لامر اللہ طوعا وکرہا واعطی البعید المقادۃ صاغرا داخرا حتی اثخن اللہ عز وجل لرسولہ بکم الارض ودانت باسیافکم لہ العرب (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۲۱۸)

’’اللہ نے تمھیں یہ توفیق دی کہ تم اس پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور تمھیں ان کی اور ان کے ساتھیوں کی حفاظت، پیغمبر کے لائے ہوئے دین کو غالب اور اس کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ چنانچہ رسول اللہ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے خلاف سب سے زیادہ مضبوطی اور صلابت تم نے ہی دکھائی، یہاں تک کہ اہل عرب طوعاً وکرہاً اللہ کے دین کے تابع ہو گئے اور دور دراز کے قبائل نے بھی ذلت اور پستی کے ساتھ اطاعت قبول کر لی۔ اس طرح اللہ نے تمھارے ذریعے سے اس سرزمین کو پیغمبر کے لیے مغلوب کر دیا اور تمہاری تلواروں کی مدد سے اہل عرب پیغمبر کے مطیع ہو گئے۔‘‘

سیدنا ابوبکر نے ایک موقع پر فرمایا:

ان اللہ بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بہذا الدین فجاہد علیہ حتی دخل الناس فیہ طوعا وکرہا (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۲/۵۲۶)

’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دین دے کر بھیجا، چنانچہ آپ نے اس کے لیے جہاد کیا یہاں تک کہ لوگ خواہی نخواہی اس میں داخل ہو گئے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہونے والے قبائل کے نام اپنے خط میں انھوں نے فرمایا:

ان اللہ تعالی ارسل محمدا بالحق من عندہ الی خلقہ بشیرا ونذیرا وداعیا الی اللہ باذنہ وسراجا منیرا لینذر من کان حیا ویحق القول علی الکافرین فہدی اللہ بالحق من اجاب الیہ وضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باذنہ من ادبر عنہ حتی صار الی الاسلام طوعا وکرہا (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۲۵۰)

’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس سے دین حق دے کر اپنی مخلوق کی طرف بھیجا تاکہ وہ انہیں خوشخبری سنائیں، انذار کریں، اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلائیں، اور ایک روشن چراغ بن کر لوگوں کو حق کی راہ دکھائیں۔ اللہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ رسول ان لوگوں کو انذار کرے جن کے دل زندہ ہیں اور انکار کرنے والوں پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ نافذ ہو جائے۔ چنانچہ جن لوگوں نے اس دین کی طرف رغبت ظاہر کی، اللہ نے انھیں ہدایت عطا کی اور جنھوں نے اس سے اعراض کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے ان کے خلاف لڑائی کی یہاں تک کہ وہ خواہی نخواہی اسلام لانے پر آمادہ ہو گئے۔‘‘

نعمان بن مقرن نے کسراے ایران یزدگرد کے دربار میں یہی بات کہی:

ان اللہ رحمنا فارسل الینا رسولا یدلنا علی الخیر ویامرنا بہ ویعرفنا الشر وینہانا عنہ ووعدنا علی اجابتہ خیر الدنیا والآخرۃ فلم یدع الی ذلک قبیلۃ الا صاروا فرقتین فرقۃ تقاربہ وفرقۃ تباعدہ ولا یدخل معہ فی دینہ الا الخواص فمکث کذلک ما شاء اللہ ان یمکث ثم امر ان ینہد الی من خالفہ من العرب ویبدا بہم ففعل فدخلوا معہ جمیعا علی وجہین مکروہ علیہ فاغتبط وطائع ایاہ فازداد (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۴۱)

’’اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحمت فرمائی اور ہمارے پاس ایک رسول بھیجا جس نے ہمیں خیر کی باتیں بتا کر ان پر عمل کرنے کا اور شر کی باتیں بتا کر ان سے باز رہنے کا حکم دیا اور اس دعوت کو قبول کرنے پر ہم سے دنیا وآخرت کی بھلائی کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اس نے جس قبیلے کے سامنے بھی یہ دعوت پیش کی، وہ دو گروہوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ اس کے قریب ہوگیا جبکہ دوسرے نے اس سے دوری اختیار کرلی۔ (ابتدا میں تو) اس رسول کے دین میں کچھ خاص گروہ ہی شامل ہوئے اور جب تک اللہ نے چاہا، یہی صورت حال رہی۔ پھر اسے حکم ملا کہ وہ اٹھے اور اس دین کی مخالفت کرنے والے اہل عرب کے ساتھ برسرپیکار ہوجائے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا جس کے نتیجے میں اہل عرب سب کے سب اس دین میں داخل ہو گئے۔ ان میں سے جن سے جبراً یہ دین منوایا گیا تھا، وہ لوگوں کے لیے قابل رشک ہوئے اور جو اپنی رضامندی سے داخل ہوئے تھے، ان کی بھلائی میں اور اضافہ ہو گیا۔‘‘

رومی فوج کے سالار جرجہ سے گفتگو کرتے ہوئے خالد بن ولید نے کہا:

انا قبلنا ہذا الامر عنوۃ (البدایہ والنہایہ ۷/۱۳)

’’ہم نے اس دین کو اپنی مرضی کے برعکس قبول کیا تھا۔‘‘

سیدنا ابو ہریرہ  ’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘  کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

خیر الناس للناس تاتون بہم فی السلاسل فی اعناقہم حتی یدخلوا فی الاسلام (بخاری، رقم ۴۱۹۱)

’’تم لوگوں کے لیے اس لحاظ سے ایک بہترین قوم ہو کہ ان کی گردنوں میں طوق ڈال کر انھیں لاتے ہو یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہو جائیں۔‘‘

مشرکین عرب کے معاملے میں اسی قانون کی وجہ سے سیدنا عمر کے ہاں یہ رجحان پیدا ہوا کہ اگر اس حکم کی وجہ ان کا ’عرب‘ ہونا ہے تو پھر اہل عرب سے تعلق رکھنے والے یہود ونصاریٰ اور صابئین وغیرہ کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے کہ اگر وہ اسلام قبول نہ کریں تو انھیں قتل کر دیا جائے، چنانچہ انھوں نے یہ راے ظاہر کی کہ:

ما نصاری العرب باہل کتاب وما تحل لنا ذبائحہم وما انا بتارکہم حتی یسلموا او اضرب اعناقہم (شافعی، الام، ۴/۱۸۳، ۲۸۱)

’’یہ عرب کے مسیحی اہل کتاب نہیں ہیں، اور ان کا ذبیحہ بھی ہمارے لیے حلال نہیں۔ میں انھیں نہیں چھوڑوں گا، یہاں تک کہ یہ اسلام لے آئیں، ورنہ میں انھیں قتل کر دوں گا۔‘‘ 

ایک اور موقع پر انھوں نے فرمایا:

لولا انی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ان اللہ تبارک وتعالی سیمنع الدین بنصاری من ربیعۃ علی شاطئ الفرات ما ترکت عربیا الا قتلتہ او یسلم (ابو عبید، الاموال، ۵۴۲)

’’اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ اللہ تعالیٰ فرات کے کنارے پر آباد بنو ربیعہ کے کچھ مسیحیوں کے ذریعے سے اس دین کی حفاظت کریں گے تو میں کسی عربی کو قتل کیے بغیر نہ چھوڑتا ، الا یہ کہ وہ اسلام قبول کر لے۔‘‘

سیدنا عمر سے اس رجحان کے تحت کوئی عملی اقدام ثابت نہیں۔ البتہ انھوں نے، غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’لا یجتمع بجزیرۃ العرب دینان‘ (موطا، رقم ۱۳۸۸) کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا کہ اگر کوئی غیر مسلم جزیرۂ عرب کے حدود میں رہنا چاہتا ہے تو اسے اسلام قبول کرنا ہوگا۔ مثلاً نصاریٰ بنو تغلب سے معاہدہ کے موقع پر انھوں نے فرمایا:

ان من اسلم منہم فلہ ما للمسلمین وعلیہ ما علیہم ومن ابی فعلیہ الجزاء وانما الاجبار من العرب علی من کان فی جزیرۃ العرب (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۴۰)

’’ان میں سے جو اسلام لے آئیں گے، ان کے حقوق وفرائض مسلمانوں کے برابر ہوں گے۔ اور جو انکار کریں گے، ان پر جزیہ لازم ہوگا۔ ہم اسلام قبول کرنے پر صرف ان اہل عرب کو مجبور کریں گے جو جزیرۃ العرب کی حدود میں رہتے ہوں۔‘‘

ولید بن عقبہ نے اس کے بعد ایک موقع پر بنی تغلب کے بعض نصاریٰ کو قبول اسلام پر مجبور کرنا چاہا تو سیدنا عمرؓ نے ان کو لکھا:

انما ذلک لجزیرۃ العرب لا یقبل منہم فیہا الا الاسلام (تاریخ الامم والملوک، ۴/۵۵)

’’یہ حکم صرف جزیرۃ العرب کے رہنے والوں کے لیے ہے کہ ان سے اسلام کے سوا کوئی اور مذہب قبول نہ کیا جائے۔‘‘

البتہ بعض مواقع پر انھوں نے بالواسطہ دباؤ ڈال کر بنو تغلب کے مسیحیوں کو قبول اسلام پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ زیاد بن جدیر، جنھیں سیدنا عمر نے بنو تغلب کے نصاریٰ سے محاصل کی وصولی کے لیے بھیجاتھا، بیان کرتے ہیں:

وامرنی ان اغلظ علی نصاری بنی تغلب قال انہم قوم من العرب ولیسوا من اہل الکتاب فلعلہم یسلمون (ابو یوسف، الخراج، ۱۳۰)

’’سیدنا عمر نے مجھے حکم دیا کہ میں بنو تغلب کے مسیحیوں کے ساتھ سختی سے پیش آؤں۔ آپ نے کہا کہ یہ اہل کتاب میں سے نہیں بلکہ اہل عرب میں سے ہیں۔ ان کے ساتھ سختی کرو، ہو سکتا ہے یہ اسلام لے آئیں۔‘‘

اسی طرح انھوں نے یہ پابندی بھی عائد کر دی کہ:

لا ندع یہودیا ولا نصرانیا ینصر ولدہ ولا یہودہ فی ملک العرب (مصنف عبدالرزاق ، رقم ۱۹۲۳۰، ۱۹۳۹۰)

’’ہم عرب کی سرزمین میں کسی یہودی یا مسیحی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی اولاد کو بھی یہودی یا نصرانی بنائیں۔‘‘

یہی رجحان خالد بن ولید کے ہاں بھی دکھائی دیتا ہے، چنانچہ انھوں نے قبیلہ بکر بن وائل کے حر بن بحیرا کو اسلام کی دعوت دی اور اس کے تردد ظاہر کرنے پر اسے کہا کہ انکار پر اسے قتل کر دیا جائے گا۔ ازدی نے ’فتوح الشام‘ میں نقل کیا ہے:

فسکت قال اضربوا عنقہ قال تقتلنی ان لم اتبع دینک؟ قال نعم، الست عربیا؟ قال بلی قال فانا لا ندع عربیا لا یدخل فی دیننا الا قتلناہ (فتوح الشام، ۵۰)

’’وہ چپ رہا تو خالد نے کہا کہ اس کی گردن اڑا دو۔ اس نے کہا کہ تم اپنے دین کی پیروی نہ کرنے پر مجھے قتل کر رہے ہو؟ خالد نے کہا ہاں، کیا تم عربی نہیں ہو؟ اس نے کہا، بالکل ہوں۔ خالد نے کہا کہ جو بھی عربی ہمارے دین میں داخل نہ ہو، ہم اسے قتل کیے بغیر نہیں چھوڑتے۔‘‘

جزیرۂ عرب میں رہنے والے اہل عرب کو، اگرچہ وہ اہل کتاب ہوں، قبول اسلام پر مجبور کرنے پر سیدنا عمر اور خالد بن ولید کا یہ اصرار اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ خود مشرکین عرب کے معاملے میں یہ قانون ان کی نظر میں بالکل واضح تھا۔ اکابر تابعین نے بھی مشرکین عرب کے معاملے میں اسی قانون کی تصریح کی ہے۔ حسن بصری کا ارشاد ہے:

قاتل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ہذہ الجزیرۃ من العرب علی الاسلام لم یقبل منہم غیرہ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۶۷۹)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جزیرۂ عرب کے مشرکین کے ساتھ اس بات پر قتال کیا کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔ آپ نے اسلام کے علاوہ ان سے کوئی بات قبول نہیں کی‘‘۔

ابن شہاب زہری فرماتے ہیں:

انزلت فی کفار قریش والعرب وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ وانزلت فی اہل کتاب قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق الی قولہ صاغرون (بلاذری، فتوح البلدان، ۷۵)

’’کفار قریش اور عرب کے بارے میں تو یہ آیت اتری: ’وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ‘ جبکہ اہل کتاب کے بارے میں یہ حکم نازل ہوا: ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق الی قولہ صاغرون‘۔

قتادہ کا قول ہے:

اکرہ ہذا الحی من العرب لانہم کانوا امۃ امیۃ لیس لہم کتاب یعرفونہ فلم یقبل منہم غیر الاسلام (تفسیر الطبری ۳/۱۶)

’’اہل عرب کو مجبور کیا گیا کیونکہ وہ ایک ان پڑھ قوم تھے جن کے پاس کوئی (آسمانی) کتاب نہیں تھی جس سے وہ مانوس ہوں، چنانچہ ان سے اسلام کے علاوہ اور کوئی صورت قبول نہیں کی گئی۔‘‘

ضحاک فرماتے ہیں:

امر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یقاتل جزیرۃ العرب من اہل الاوثان فلم یقبل منہم الا لا الہ الا اللہ او السیف (تفسیر الطبری ۳/۱۶)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب کے بت پرستوں کے خلاف جہاد کریں، چنانچہ آپ نے ان سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنے یا تلوار کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی تیسرا راستہ قبول نہیں کیا۔‘‘


نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام پر ایمان نہ لانے والا دوسرا بڑا گروہ اہل کتاب کا تھا۔ آپ اگرچہ اصلاً عرب کے امیوں میں اٹھائے گئے تھے اور آپ کی بعثت خاصہ کا ہدف یہ تھا کہ انھیں کفر وشرک سے پاک کر کے دوبارہ دین ابراہیمی کا پیروکار بنا دیں اور دنیا کے سامنے اس دین کی گواہی دینے کی ذمہ داری انھیں تفویض کر دیں، تاہم قرآن نے یہ اعلان کیا کہ آپ کو پوری دنیاے انسانیت کی طرف بھی نبی بنا کر بھیجا گیا ہے اور دنیا کے تمام گروہ آپ کی دعوت کے مخاطب اور آپ پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ چنانچہ قرآن نے غیر مبہم لفظوں میں واضح کیا ہے کہ اللہ کے ہاں جو دین قبول کیا جائے گا، وہ اسلام ہی ہے جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا ہے اور اس کی پیروی اختیار کرنا عرب کے امیوں اور اہل کتاب دونوں کے لیے لازم ہے۔ ارشاد ہوا ہے:

إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّٰہِ الإِسْلاَمُ .... وَقُل لِّلَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ وَالأُمِّیِّیْنَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُواْ فَقَدِ اہْتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا عَلَیْْکَ الْبَلاَغُ وَاللّہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ (آل عمران ۳:۱۹، ۲۰)

’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ اور تم اہل کتاب اور ان امیوں سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام لاتے ہو؟ پھر اگر وہ اسلام لے آئیں تو ہدایت پا لیں گے اور اگر منہ موڑیں تو تمھارے ذمے صرف بات کو پہنچا دینا ہے اور اللہ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘

سورۂ اعراف میں ارشاد ہوا ہے:

قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعاً الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ لا إِلَہَ إِلاَّ ہُوَ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الأُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُونَ (الاعراف ۷:۱۵۷، ۱۵۸)

’’کہہ دو کہ اے لوگو، میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں، وہ کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ زندگی اور موت دیتا ہے۔ اس لیے اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ ، یعنی یہ نبی امی جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے، اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔‘‘

قرآن نے اہل کتاب کو مخاطب کر کے صریح لفظوں میں کہا ہے کہ اگر وہ آپ پر ایمان نہیں لائیں گے تو خدا کے عذاب کے مستحق ٹھہریں گے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ آمِنُواْ بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَکُم مِّن قَبْلِ أَن نَّطْمِسَ وُجُوہاً فَنَرُدَّہَا عَلَی أَدْبَارِہَا أَوْ نَلْعَنَہُمْ کَمَا لَعَنَّا أَصْحَابَ السَّبْتِ وَکَانَ أَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُولاً (النساء ۴:۴۷)

’’اے وہ لوگو جنھیں کتاب دی گئی، اس (قرآن) پر ایمان لے آؤ جو ہم نے اس چیز کی تصدیق کے طور پر نازل کیا ہے جو تمہارے پاس موجود ہے، اس سے پہلے کہ ہم چہروں کو مسخ کر دیں اور ان کا رخ ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ان پر اسی طرح لعنت کریں جیسے ہم نے ہفتے کے دن (خدا کی حدود پامال کرنے) والوں پر لعنت کی۔ اور اللہ کا فیصلہ نافذ ہو کر رہتاہے۔‘‘

تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہود نے نہ صرف آپ پر ایمان لانا گوارا نہیں کیا، بلکہ آپ کی پھیلتی ہوئی دعوت کے مستقبل کو بھانپتے ہوئے اس کی مخالفت کے لیے پر تولنا شروع کر دیے اور جزیرۂ عرب پر دین اسلام کی بالادستی کو روکنے کے لیے اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ساز باز سمیت ہر حربہ اختیار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابتداءً ا تو اہل ایمان کو ان سے صرف نظر کرنے کی ہدایت فرمائی، (البقرہ ۲:۱۰۹) تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ اسلام اور اہل اسلام کو زک پہنچانے کے لیے یہود کی تمام سازشیں اور کوششیں بے کار رہیں گی اور وہ مسلمانوں کے مقابلے میں بھی ذلت ومسکنت کے اسی عذاب سے دوچار ہوں گے جو انبیا کی تکذیب کی پاداش میں ان پر قیامت تک کے لیے لازم کر دیا گیا ہے۔ (آل عمران ۳:۱۱۱، ۱۱۲) پھر ایک خاص حد تک عفو ودرگزر سے کام لینے کے بعد سورۂ مائدہ کی آیت ۳۳ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قتال اور محاربہ کی راہ اختیار کرنے والے تمام گروہوں، بالخصوص یہود کی سرکوبی کے لیے نہایت واضح اور متعین ہدایات دے دی گئیں۔ ارشاد ہوا ہے:

إِنَّمَا جَزَاء الَّذِیْنَ یُحَارِبُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَیَسْعَوْنَ فِیْ الأَرْضِ فَسَاداً أَن یُقَتَّلُواْ أَوْ یُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَیْْدِیْہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ یُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِیْ الدُّنْیَا وَلَہُمْ فِیْ الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ (المائدہ ۵: ۳۳)

’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسرجنگ ہو جائیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کریں، ان کی سزا بس یہی ہے کہ ان کو عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے یا سولی چڑھا دیا جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دیے جائیں یا اس سرزمین سے انہیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہ رسوائی تو ان کے لیے دنیا میں مقدر کی گئی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘

قرآن مجید کے اسی حکم کے تحت بنو قریظہ کے بالغ مردوں کو قتل کی جبکہ بنو قینقاع، بنو نضیر، اہل خیبر، اہل فدک اور اہل نجران کو مختلف اوقات میں جلا وطنی کی سزا دی گئی۔ یہود کے یہی قبائل تھے جو عملاً مسلمانوں کے خلاف محاربہ اور فساد کا رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ ۷ ہجری میں خیبر کے فتح ہو جانے کے بعد بحیثیت ایک قوم کے ان کی قوت ٹوٹ گئی اور وہ فتنہ وفساد کی صلاحیت سے بڑی حد تک محروم ہو گئے، چنانچہ عہد رسالت میں غزوۂ خیبر کے بعد مذکورہ گروہوں میں سے کسی کے خلاف عملی اقدام کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ البتہ سورۂ توبہ میں جب مشرکین سے اعلان براء ت کے بعد ان کے قتل عام کا حکم دیا گیا تو اہل کتاب کے بارے میں بھی یہ ہدایت کی گئی کہ چونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعواے نبوت کی حقانیت واضح ہونے کے باوجود آپ پر ایمان نہیں لائے، اس لیے ان کے خلاف قتال کر کے انھیں محکوم بنا لیا جائے اور ذلت ورسوائی کی ایک علامت کے طور پر ان ’جزیہ‘ عائد کر دیا جائے۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ اس مقصد کے تحت اہل کتاب کے خلاف قتال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت یعنی ’اظہار دین‘ ہی کا ایک لازمی حصہ ہے ۔ ارشاد ہوا ہے:

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَلاَ بِالْیَوْمِ الآخِرِ وَلاَ یُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُولُہُ وَلاَ یَدِیْنُونَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَن یَدٍ وَّہُمْ صَاغِرُونَ .... یُرِیْدُونَ أَن یُطْفِؤُواْ نُورَ اللّٰہِ بِأَفْوَاہِہِمْ وَیَأْبَی اللّٰہُ إِلاَّ أَنْ یُّتِمَّ نُورَہُ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ، ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۲۹-۳۳)

’’ان اہل کتاب کے ساتھ جنگ کرو جو نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی قبول کرتے ہیں۔ (ان کے ساتھ جنگ کرو) یہاں تک کہ یہ تمہارے مطیع بن کر ذلت اور پستی کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ ... یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور اپنے مونہوں سے بجھا دیں، لیکن اللہ کافیصلہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا، چاہے کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سارے دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔‘‘

زیر بحث نقطہ نظر کے حامل اہل علم اس حکم کو بھی فتنہ وفساد ہی کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے جملے قتال کے باعث اور سبب کو بیان کرنے کے لیے نہیں، بلکہ محض اس گروہ کے توضیحی اوصاف کے طورپر آئے ہیں۔ الشیخ محمود شلتوت لکھتے ہیں:

’’یہ آیت مسلمانوں کو حکم دیتی ہے کہ وہ اس گروہ کے ساتھ قتال جاری رکھیں جن کی صفات ’لا یومنون باللہ ....‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہیں۔ یہ گروہ اس سے پہلے مسلمانوں کے ساتھ نقض عہد، دعوت اسلام پر حملہ آور ہونے اور اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے جیسے جرائم کا مرتکب ہو چکا تھا جو اس کے ساتھ جنگ کرنے کا سبب بنے۔ یہ آیت ایمان نہ لانے اور آیت میں مذکور دوسری صفات کو قتال کا سبب نہیں قرار دے رہی، بلکہ اس گروہ میں پائی جانے والی ان صفات کا بیان دو غرضوں سے ہوا ہے: ایک، اس کی اعتقادی واخلاقی صورت حال کی منظر کشی کے لیے، اور دوسرے، مسلمانوں کو ان کے خلاف قتال پر ابھارنے کے لیے۔ ..... اگر مقصد یہ ہوتا کہ ان کے ساتھ محض ان کے کفر کی وجہ سے قتال کیا جائے اور یہ کہ کفر ہی قتال کی اصل وجہ ہے تو پھر جزیہ لے کر انہیں اپنے دین پر قائم رہنے کی اجازت دینے کے بجائے اس وقت تک لڑنے کا حکم دیا جاتا جب تک کہ وہ اسلام قبول نہ کر لیں۔‘‘ (القرآن والقتال، ص ۷۴۔۷۷)

تاہم آیت کے الفاظ اس مفہوم میں بالکل صریح ہیں کہ قتال اور جزیہ کی اصل علت ایمان نہ لانا اور دین حق کو قبول نہ کرنا ہے۔ عربیت کی رو سے ان کا کوئی اور مفہوم مراد لینے کی کوئی گنجایش نہیں۔ آیت کا اسلوب اس سے ابا کرتا ہے کہ مذکورہ اوصاف کو حکم کی اصل علت کے بجائے محض توضیحی قرار دیا جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ ’السارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما‘ (چوری کرنے والا مرد ہو یا عورت، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو) میں قتال اور قطع ید کی اصل علت مقاتلہ اور سرقہ نہیں بلکہ کوئی اور چیز ہے اور ان اوصاف کا ذکر یہاں محض توضیحاً کیا گیا ہے۔ چودہ صدیوں میں اہل علم نے ان آیات کا ہمیشہ یہی مفہوم سمجھا ہے۔ یہاں صدر اول کے ایک جلیل القدر صاحب علم کا حوالہ کافی ہوگا۔ عمر بن عبد العزیزؒ نے عدی بن ارطاۃ کے نام اپنے خط میں لکھا:

اما بعد! فان اللہ سبحانہ انما امر ان توخذ الجزیۃ ممن رغب عن الاسلام واختار الکفر عتیا وخسرانا مبینا فضع الجزیۃ علی من اطاق حملہا (ابوعبید، الاموال، ۱۲۱)

’’اما بعد، بے شک اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جو لوگ اسلام سے رو گردانی کریں اور سرکشی اور صریح خسارے میں مبتلا ہو کر کفر کو اختیار کیے رکھیں، ان سے جزیہ وصول کیا جائے، اس لیے جو بھی شخص جزیہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اس پر اسے نافذ کر دو۔‘‘

اس ہدایت کو اہل کتاب کے فتنہ وفساد سے حفاظت کی تدبیر قرار نہیں دیا سکتا، اس لیے کہ ریاست مدینہ کے خلاف فتنہ وفساد کے مرتکب محاربین کی سرکوبی کے لیے نہایت جامع اور مانع ہدایات سورۂ مائدہ کی آیات ۳۲ میں نازل ہو چکی تھیں اور ان کے حد تک کسی نئی ہدایت کی عملاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ آیت جزیہ کا صحیح محل یہی ہے کہ اسے محاربین اور مفسدین کے بجائے غیر محارب اہل کتاب سے متعلق قرار دیا جائے۔ یہ توجیہ عقلاً بھی بالکل موزوں اور حکیمانہ دکھائی دیتی ہے، اس لیے کہ محاربہ کے مرتکب گروہوں کے لیے تو وہی سزا موثر اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہے جو کہ سورہ مائدہ میں بیان ہوئی ہے، لیکن غیر محارب گروہوں کے لیے اتنا کافی تھا کہ انھیں قتل یا جلا وطن کرنے کے بجائے محض مغلوب اور زیر دست بنا لیا جائے اور انھیں اجازت دی جائے کہ وہ جزیہ ادا کر کے اپنے دین پر قائم اور جزیرۂ عرب میں مقیم رہیں۔ 

مزید برآں اگر جزیہ لے کر مغلوب بنانے کا حکم صرف مفسد اور فتنہ پرداز گروہوں کے لیے تھا تو ظاہر ہے کہ غیر جانبدار گروہوں کو اس سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محاربین کے حال کو دیکھتے ہوئے بہت سے غیر جانب دار گروہ بھی اس انجام سے بچنے کے لیے ازخود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور آپ کو جزیہ کی ادائیگی کی پیش کش کی۔ چنانچہ سفر تبوک کے موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن الولید کو بھیج کر دومۃ الجندل کے بادشاہ اکیدر بن عبد الملک کو گرفتار کروایا اور اس نے اسلام قبول کر کے اپنی قوم کی طرف سے جزیہ کی ادائیگی پر مصالحت کر لی تو اس کے بعد قریبی علاقوں کے سردار آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور ازخود جزیہ دینے کی پیش کش کی۔ (طبری، ۳/۱۰۸، ۱۰۹) واقدی کا بیان ہے:

وکانت دومۃ وایلۃ وتیماء قد خافوا النبی صلی اللہ علیہ وسلم لما راوا العرب قد اسلمت وقدم یحنۃ بن رؤبۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکان ملک ایلۃ واشفقوا ان یبعث الیہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کما بعث الی اکیدر واقبل معہ اہل جرباء واذرح فاتوہ فصالحہم فقطع علیہم الجزیۃ جزیۃ معلومۃ (المغازی، ۳/۱۰۳۱)

’’دومہ، ایلہ اور تیما کے لوگوں نے جب دیکھا کہ اہل عرب اسلام لے آئے ہیں تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خوفزدہ ہو گئے اور انہیں خدشہ ہوا کہ کہیں اکیدر کی طرح آپ ان کی طرف بھی کوئی لشکر نہ بھیج دیں۔ چنانچہ ایلہ کا بادشاہ یحنہ بن رؤبہ جربا اور اذرح کے باشندوں کے ہمرراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے ان کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور ان پر جزیہ کی ایک متعین مقدار لازم کر دی۔‘‘

یحنہ بن رؤبہ اور ایلہ کے دیگر سرداروں کو آ پ نے لکھا:

انی لم اکن لاقاتلکم حتی اکتب الیکم فاسلم او اعط الجزیۃ واطع اللہ ورسولہ (الطبقات الکبریٰ ۱/۲۷۷)

’’میں اس وقت تک تمھارے خلاف جنگ نہیں کرنا چاہتا جب تک کہ تمھیں خط نہ لکھ دوں۔ سو اسلام لے آؤ یا جزیہ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت قبول کر لو۔‘‘

۹ ہجری میں نجران کے مسیحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کے سرداروں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جو انھوں نے قبول نہیں کی۔ پھر آپ نے ان کے سرداروں سے کہا:

ہل لکما فی الجزیۃ تودیانہا وانتم صاغرون کما قال اللہ عزوجل فقالا لا طاقۃ لنا بحرب العرب (سنن سعید بن منصور ۳/۱۰۴۵)

’’کیا تم اللہ کے حکم کے مطابق حقارت اور پستی کی حالت میں جزیہ دینے کے لیے آمادہ ہو (یا جنگ کرنا چاہتے ہو؟) انھوں نے کہا کہ ہم میں عرب سے لڑنے کی طاقت نہیں۔‘‘

زیاد بن جہور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام خط لکھا اور فرمایا:

اما بعد فلیوضعن کل دین دان بہ الناس الا الاسلام فاعلم ذلک (مجمع الزوائد ۶/۱۴)

’’اما بعد! اسلام کے سوا ہر اس دین کو جسے لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے، لازماً پست ہو کر رہنا پڑے گا۔ اس بات کو خوب جان لو۔‘‘

ان میں سے کوئی بھی گروہ مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد کا مرتکب نہیں ہوا تھا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ آیت جزیہ میں قتال کا جو حکم دیا گیا، اس سے صرف محارب اور مفسد اہل کتاب کو نہیں بلکہ جزیرۂ عرب کے تمام کافر گروہوں کو مغلوب اور مسلمانوں کے زیر دست بنانا مقصود تھا۔ چنانچہ ذخیرۂ سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب کے بہت سے ایسے گروہوں پر بھی جزیہ نافذ کیا گیا جو کسی بھی حوالے سے مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد کے مرتکب نہیں ہوئے تھے۔ یہ گروہ حسب ذیل ہیں:

بحرین کے مجوس (طبری، ۳/۲۹۔ بلاذری، ۸۶، ۸۷)

عمان کے مجوس (طبری، ۳/۲۹، ۹۵۔ بلاذری، ۸۴)

یمن کے یہود ونصاریٰ (طبری، ۳/۱۲۱، ۱۲۹۔ بلاذری، ۷۵، ۷۶)

تبالہ اور جرش کے اہل کتاب (بلاذری، ۶۶)

نجران کے نصاریٰ (ابو یوسف، الخراج، ۷۸)


صحابہ کا جہاد

اب صحابہ کے جہاد کے معاملے کو دیکھیے:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے روم وفارس کی سلطنتوں کے خلاف جو جنگی اقدامات کیے، جہاد وقتال کے احکام کو محض دفع فساد تک محدود قرار دینے والے اہل علم نے ان کی تشریح بھی اسی تناظر میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں ایک رائے یہ ہے کہ یہ اصل میں ’’اقدامی دفاع‘‘ پر مبنی جنگ (war pre-emptive) تھی جس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ چونکہ ان سلطنتوں کی طرف سے یہ خطرہ موجود تھا کہ وہ اپنے پڑوس میں قائم ہونے والی ایک ابھرتی ہوئی طاقت کو توڑنے یا اس کو کمزور کرنے کے لیے خفیہ یا علانیہ اقدامات کریں گی، اس لیے صحابہ نے حفظ ما تقدم کے طور پر ان کی جانب سے کسی عملی اقدام سے پہلے ہی آگے بڑھ کر ان کی قوت کو توڑ دیا اور اس طرح جزیرۂ عرب کو اس کے دونوں اطراف میں موجود دشمن کے خطرے سے محفوظ کر دیا۔ (وہبہ زحیلی، آثار الحرب فی الفقہ الاسلامی، ص ۱۰۴) اس توجیہ کی رو سے اس اقدام کی اساس اور جذبہ محرکہ کوئی مذہبی جذبہ یا حکم نہیں، بلکہ معروضی حالات میں محض ایک سیاسی ضرورت تھی۔ اسی نوع کی ایک راے یہ ہے کہ جزیرۂ عرب سے باہر ان جنگوں کا آغاز دراصل عرب کے دور دراز علاقوں میں یہود ونصاریٰ اور مشرکین کی انگیخت سے پیدا ہونے والی بغاوتوں کو کچلنے سے ہوا تھا جو بڑھتابڑھتا ان علاقوں کی فتح کو محیط ہو گیا، کیونکہ مسلمانوں کے لیے یک طرفہ طور پر جنگ بند کرنا ممکن نہیں تھا۔ (محمود احمد غازی، اسلام کا قانون بین الممالک، ص ۱۴۲) اسی طرح ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ صحابہ کرام کے جنگی اقدامات دراصل اسلام کی اشاعت اور دعوت وتبلیغ کی راہ میں حائل سیاسی رکاوٹوں کو دور کرنے کے اصول پر مبنی تھے۔ مولانا مودودی نے اس نقطہ نظر کی ترجمانی یوں کی ہے:

’’ان ممالک میں شخصی حکومتیں قائم تھیں اور مستبد فرمانروا اقتدار پر قابض تھے۔ ان کا برسر اقتدار ہونا ہی اشاعت اسلام کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ ان کی موجودگی میں نہ تو اس امر کا امکان تھا کہ دعوت عام باشندگان ملک میں پھیلائی جا سکے اور نہ عوام کو اتنی آزادئ رائے اور آزادئ عمل حاصل تھی کہ اگر وہ اس دعوت حق کو پائیں تو اسے قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔ ان حالات میں حکمرانوں سے نمٹے بغیر نہ اسلام کی اشاعت کماحقہ سرانجام پا سکتی تھی اور نہ اس کے نتائج وثمرات رونما ہو سکتے تھے۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/۱۹۰۔۱۹۲)

مولانا مودودی ہی کے ہاں ایک دوسرا رجحان یہ دکھائی دیتا ہے کہ صحابہ کے ان اقدامات کا مقصد درحقیقت دین ومذہب کا اختلاف یا حکومت وسلطنت کی توسیع نہیں بلکہ ان ممالک کے معاشرتی وسیاسی بگاڑ اور اخلاقی فساد کی اصلاح اور وہاں کے مجبور ومقہور عوام کو جابر حکمرانوں کے استبداد اور بالائی طبقات کے ظلم وستم سے نجات دلانا تھا ، چنانچہ انھوں نے ان اقدامات کو ’مصلحانہ جنگ‘ کا نام دیا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴۵، ۱۴۶)

تاہم مذکورہ تمام توجیہات کے بالکل برعکس حدیث وسیرت کے ذخیرے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ کرام کے ان اقدامات کی شرعی بنیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ خطوط تھے جو آپ نے جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح کی سلطنتوں کے سربراہوں کے نام لکھے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطوط کو ہمارے اہل سیرت بالعموم نے ’دعوتی خطوط‘ کا عنوان دیتے ہیں، حالانکہ ان کے مضمون اور پیش وعقب کے حالات سے واضح ہے کہ ان میں مخاطبین کو محض سادہ طور پر اسلام کی دعوت نہیں بلکہ یہ وارننگ دی گئی تھی کہ ان کے لیے سلامتی اور بقا کا راستہ یہی ہے کہ وہ اس دعوت کو قبول کر لیں، بصورت دیگر انھیں اپنی حکومت واقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مثال کے طور پر قیصر روم کے نام خط میں آپ نے لکھا: ’اسلم تسلم‘ ۔ (بخاری، رقم ۷)

نووی اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

ان قولہ اسلم تسلم فی نہایۃ من الاختصار وغایۃ من الاعجاز والبلاغۃ وجمع المعانی مع ما فیہ من بدیع التجنیس وشمولہ لسلامتہ من خزی الدنیا بالحرب والسبی والقتل واخذ الدیار والاموال ومن عذاب الآخرۃ (شرح مسلم، ص ۱۱۴۴)

’’اسلم تسلم کا جملہ بے حد مختصر لیکن غایت درجہ بلاغت واعجاز کا حامل اور متنوع معانی پر محیط ہے۔ اس میں ’تجنیس‘ کی صنعت بھی بہت عمدہ طریقے سے استعمال ہوئی ہے اور ’تسلم‘ کے لفظ میں جنگ، قید، قتل اور اموال ودیار کے چھین لیے جانے کی صورت میں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب، دونوں سے بچاؤ کا مفہوم شامل ہے۔‘‘

خود قیصر روم نے آپ کے خط کی یہی تعبیر کی۔ چنانچہ اس نے اپنے مشیروں کو بلا کر کہا:

یا معشر الروم ہل لکم فی الفلاح والرشد وان یثبت ملککم فتبایعوا ہذا النبی؟ (بخاری، رقم ۷)

’’اے جماعت روم! کیا تم اس بات کی خواہش رکھتے ہو کہ تمہیں کامیابی اور ہدایت نصیب ہو اور تمہاری سلطنت قائم رہے اور تم اس نبی کی پیروی قبول کر لو؟‘‘

امام ابو عبید کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خط میں قیصر کو اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں جزیہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا۔ آپ نے فرمایا:

انی ادعوک الی الاسلام فان اسلمت فلک ما للمسلمین وعلیک ما علیہم فان لم تدخل فی الاسلام فاعط الجزیۃ فان اللہ تبارک وتعالی یقول: قاتلوا الذین ..... حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون والا فلا تحل بین الفلاحین وبین الاسلام ان یدخلوا فیہ او یعطوا الجزیۃ (الاموال، ۹۳)

’’میں تمھیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں۔ اگر اسلام لے آؤ گے تو تمھارے حقوق وفرائض وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں اور اگر اسلام میں داخل نہ ہونا چاہو تو پھر جزیہ ادا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اہل کتاب سے قتال کرو .... یہاں تک کہ وہ زیردست ہو کر پستی کی حالت میں جزیہ ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں تو پھر اس بات میں رکاوٹ نہ ڈالو کہ اہل روم اسلام میں داخل ہو جائیں یا جزیہ ادا کریں۔‘‘

ابن کثیر کی روایت ہے:

قال: قد نزل ہذا الرجل حیث رایتم وقد ارسل الی یدعونی الی ثلاث خصال: یدعونی ان اتبعہ علی دینہ او علی ان نعطیہ مالنا علی ارضنا والارض ارضنا او نلقی الیہ الحرب (السیرۃ النبویۃ ۴/۲۷)

’’اس نے کہا: تم دیکھ رہے ہو کہ یہ آدمی کس مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس نے مجھے خط لکھا ہے اور تین میں سے ایک بات قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یا تو میں اس کے دین کی پیروی اختیار کر لوں یا ہم اسے مال (یعنی خراج) ادا کریں جبکہ یہ سرزمین ہمارے ہی پاس رہے گی اور یا پھر اس کے ساتھ جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘

حارث بن ابی شمر شاہ غسان کو آپ کا خط ملا تو اس نے بھی اسے اپنے اقتدار کو چیلنج قرار دیتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا:

من ینتزع منی ملکی؟ انا سائر الیہ ولو کان بالیمن جئتہ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۲۶۱)

’’مجھ سے میری بادشاہت کون چھین سکتا ہے؟ میں اس پر چڑھائی کر دوں گا اور اگر وہ یمن میں ہوا تو میں وہاں بھی اس کے پیچھے پہنچوں گا۔‘‘

مقوقس شاہ مصر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے جواب میں قبول اسلام کے بجائے گول مول جواب دے کر معاملے کو ٹالنا چاہتا تو رسول اللہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:

ضن الخبیث بملکہ ولا بقاء لملکہ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۲۶۰، ۲۶۱)

’’اس خبیث نے اپنی بادشاہت کا لالچ کیا لیکن اس کی بادشاہت پھر بھی باقی نہیں رہے گی۔‘‘

خسرو پرویز شاہ ایران نے آپ کا نامہ مبارک پڑھنے کے بعد اسے پھاڑ دیا اور یمن کے حاکم کو لکھا کہ :

لتکفینی رجلا خرج بارضک یدعونی الی دینہ او اودی الجزیۃ (مجمع الزوائد ۸/۲۳۷)

’’اس شخص سے نمٹنا تمھارے ذمے ہے جو تمھاری سرزمین میں ظاہر ہوا ہے اور اس نے مجھے دعوت دی ہے کہ میں اس کا دین قبول کر لوں یا اس کو جزیہ ادا کروں۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:

اما ھولاء فیمزقون واما ھولاء فسیکون لہم بقیۃ (ذہبی، تاریخ الاسلام، المغازی، ص ۳۹۸)

’’ایرانیوں کی سلطنت کے تو پرزے اڑ جائیں گے، البتہ رومیوں کی سلطنت باقی رہے گی۔‘‘

یمامہ کے حاکم ہوذہ بن علی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام کا یہی مطلب سمجھتے ہوئے جواب میں حکومت واقتدار میں شرکت کی شرط رکھی تو آپ نے فرمایا:

لو سالنی سیابۃ من الارض ما فعلت باد وباد ما فی یدیہ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ۱/۲۶۲)

’’اگر وہ مجھ سے سرزمین عرب کی ایک کچی کھجور بھی مانگے تو میں نہیں دوں گا۔ اس کا اور اس کے اقتدار کا انجام بربادی ہے۔‘‘

ہوذہ کی وفات کے بعد مسیلمہ یمامہ کا حاکم بنا تو آپ نے اسے بھی اسلام کی دعوت دی۔ اس نے جواب میں نبوت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ شراکت اقتدار کا سابقہ مطالبہ دہرایا تو آپ نے اس کو لکھا:

بلغنی کتابک الکذب والافتراء علی اللہ وان الارض للہ یورثہا من یشاء من عبادہ والعاقبۃ للمتقین (الطبقات الکبریٰ ۱/۲۷۳)

’’مجھے تمہارا خط ملا جو سراسر جھوٹ اور اللہ کے خلاف بہتان ہے۔ یہ سرزمین اللہ کی ہے اور وہ جس کو چاہے گا، اس کا مالک بنائے گا۔ انجام کار کامیابی متقین ہی کو ملے گی۔‘‘

اس تفصیل سے واضح ہے کہ یہ خطوط دراصل ’الا تعلوا علی واتونی مسلمین‘ (میرے مقابلے میں سرکشی نہ کرو اور فرماں بردار بن کر میرے پاس حاضر ہو جاؤ) کے لہجے میں لکھے گئے تھے اور ان میں مخاطبین کو محض اسلام کی دعوت نہیں گئی تھی، بلکہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرنے یا بصورت دیگر اپنی حکومت واقتدار سے ہاتھ دھونے کی دھمکی دی گئی تھی۔ گویا ان خطوط کی حیثیت ’اتمام حجت‘ کی تھی جس کے بعد ان اقوام کے خلاف جنگی اقدام کی اجازت صحابہ کو حاصل ہو گئی تھی، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مواقع پر صحابہ کو یہ بشارت دی کہ وہ ان سلطنتوں کو فتح کریں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے خزانے ان کے تصرف میں دے دے گا۔ 

مکہ مکرمہ میں جب ابو طالب نے آپ سے پوچھا کہ آپ اپنی قوم سے کیا چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا:

انی ارید منہم کلمۃ واحدۃ تدین لہم بہا العرب وتودی الیہم العجم الجزیۃ (ترمذی، رقم ۳۱۵۶)

’’میں ان سے ایک ہی بات کا مطالبہ کرتا ہوں جس کو مان لینے کے بعد عرب ان کے تابع ہو جائیں گے اور عجم ان کو جزیہ ادا کریں گے۔‘‘

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا ما زوی لی منہا (مسلم، رقم ۵۱۴۴)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق ومغرب کے علاقے دیکھ لیے اور بے شک میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے۔‘‘

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

اذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوزہما فی سبیل اللہ (بخاری، رقم ۲۸۸۸)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی دوسرا کسریٰ پیدا نہیں ہوگا۔ اور جب قیصر کی حکومت (شام کے علاقے سے) ختم ہو جائے گی تو دوبارہ کبھی قائم نہیں ہوگی۔ اور اللہ کی قسم، ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے۔‘‘

غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے فرمایا: 

الا ابشرکم؟ قالوا بلی یا رسول اللہ وہم یسیرون علی رواحلہم فقال ان اللہ اعطانی الکنزین فارس والروم وامدنی بالملوک ملوک حمیر یجاہدون فی سبیل اللہ ویاکلون فیء اللہ (واقدی، المغازی ۳/۱۰۱۱)

’’کیا میں تمھیں خوشخبری نہ دوں؟ صحابہ نے اپنی سواریوں پر چلتے چلتے کہا: یا رسول اللہ، کیوں نہیں۔ آ پ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے دو خزانے عطا فرمائے ہیں۔ ایک فارس کا اور دوسرا روم کا۔ اور اس نے حمیر کے بادشاہوں کے ذریعے سے میری مدد کی ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور اس راہ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کھائیں گے۔‘‘

چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ نے انھی بشارتوں اور وعدوں کے مطابق جزیرۂ عرب کے ارد گرد بسنے والی ان اقوام کے خلاف جہاد کیا۔ اپنے ان اقدامات کی توجیہ خود صحابہ کرام نے اسی زاویہ نگاہ سے کی ہے اور ان کا اپنا موقف بالکل دوٹوک الفاظ میں یہ منقول ہے کہ وہ روم وفارس کی سلطنتوں سے، ان کی پیش کش اور خواہش کے باوجود، مصالحانہ تعلقات پر راضی نہیں تھے اور ہر حال میں ان کے علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، الا یہ کہ یہ اقوام دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ صحابہ کے بیانات سے ان جنگوں کے دو مقاصد واضح طور پر سامنے آتے ہیں: ایک، اللہ کے دین کو غالب کرنا اور اس کے منکروں کو سزا دینا، اور دوسرا، دشمنوں کی سرزمین اور ان کے اموال واملاک پر قبضہ کرنا۔ اس ضمن میں چند شواہد حسب ذیل ہیں:

سیدنا ابوبکر نے اہل روم کے خلاف جہاد میں شرکت کی ترغیب دینے کے لیے اہل یمن کو خط لکھا تو اس میں فرمایا:

ان اللہ کتب علی المومنین الجہاد وامرہم ان ینفروا خفافا وثقالا .... ولا یترک اہل عداوتہ حتی یدینوا الحق ویقروا بحکم الکتاب او یوداوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون (ازدی، فتوح الشام، ۵، ۶)

’’اللہ نے اہل ایمان پر جہاد فرض کیا ہے اور انھیں حکم دیا ہے کہ ہلکے ہوں یا بھاری، جہاد کے لیے نکلیں۔ اس دین کے دشمنوں کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جا سکتا جب تک کہ وہ اس دین کی پیروی اختیار کر کے کتاب اللہ کے حکم پر راضی ہو جائیں یا پھر مطیع بن ذلت اور پستی کی حالت میں جزیہ ادا کرنا قبول کر لیں۔‘‘

ایرانی سپہ سالار رستم نے جنگ قادسیہ سے پہلے مسلمانوں کو کچھ دے دلا کر صلح پر آمادہ کرنے کی کوشش کی اور ان سے کہا کہ دیکھو، تم ہمارے پڑوسی ہو اور تم میں سے ایک جماعت ہماری بادشاہت کے زیر سایہ رہتی تھی۔ ہم ان کا حق ہمسایگی اچھے طریقے سے ادا کرتے تھے، ان پر آنے والی آفتوں کو روکتے تھے اور بہت سی سہولتیں انھیں فراہم کرتے تھے۔ ہم ان کی اور دیگر اہل صحرا کی دیکھ بھال کرتے تھے، اپنی چراگاہوں میں انھیں جانور چرانے دیتے تھے اور اپنے ملک سے انھیں غلہ دے کر بھیجتے تھے اور اپنی سرزمین کے کسی بھی علاقے میں انھیں تجارت کرنے سے نہیں روکتے تھے اور وہ ا س طرح اپنی ضروریات زندگی کا بندوبست کر لیا کرتے تھے۔ طبری کا بیان ہے:

یعرض لہم بالصلح وانما یخبرہ بصنیعہم والصلح یرید ولا یصرح 

’’ان ساری باتوں سے ا س کا مقصد مسلمانوں کو صلح پر آمادہ کرنا تھا، لیکن وہ صاف لفظوں میں صلح کی پیش کش کرنے کے بجائے اپنا حسن سلوک بیان کر کے اس طرف اشارہ کر رہا تھا۔‘‘

اس پیش کش کے جواب میں مسلمان لشکر کے نمائندے زہرہ نے کہا:

بعث اللہ تبارک وتعالی الینا رسولا فدعانا الی ربہ فاجبناہ فقال لنبیہ صلی اللہ علیہ وسلم انی قد سلطت ہذہ الطائفۃ علی من لم یدن بدینی فانا منتقم بہم منہم واجعل لہم الغلبۃ ما داموا مقرین بہ وہو دین الحق لا یرغب عنہ احد الا ذل ولا یعتصم بہ احد الا عز (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۱۷)

’’اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاس اپنا رسول بھیجا جس نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا، پس ہم نے اس کی دعوت قبول کر لی۔پھر اس نے اپنے پیغمبر کو بتایا کہ میں نے اس جماعت کو ان لوگوں پر مسلط کر دیا ہے جو میرے دین کو قبول نہیں کرتے۔ میں ان کے ذریعے سے ان سے انتقام لوں گا اور جب تک یہ خود دین حق کے پیروکار رہیں گے، ان کو غلبہ حاصل رہے گا۔ یہی دین حق ہے۔ جو بھی اس سے منہ موڑے گا، ذلیل ہوگا اور جو اس کو تھام لے گا، سرفراز ہوگا۔‘‘

نعمان بن مقرن نے یزگرد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

وامرنا ان نبدا بمن یلینا من الامم فندعوہم الی الانصاف فنحن ندعوکم الی دیننا وہو دین الاسلام حسن الحسن وقبح القبیح کلہ فان ابیتم فامر من الشر ہو اہون من آخر شر منہ الجزاء فان ابیتم فالمناجزۃ (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۴۱)

’’اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہمارے پڑوس میں جو قومیں رہتی ہیں، ان پر حملہ آور ہو جائیں اور ان کو عدل وانصاف کی دعوت دیں۔ سو اب ہم تمہیں دین کی طرف بلانے آئے ہیں۔ یہ دین اسلام ہے جس نے ہر اچھی چیز کو اچھا اور ہر بری چیز کو برا قرار دیا ہے۔ پس اگر تم انکار کرو گے تو تمہارے پاس دو راستے ہیں جو دونوں ناگوار ہیں، لیکن ان میں سے ایک دوسرے سے بھی زیادہ برا ہے۔ جزیہ دینا قبول کر لو اور اگر اس سے انکار کرو گے تو پھر جنگ ہوگی۔‘‘

ایک دوسرے موقع پر ایرانی سپہ سالا رستم نے مغیرہ بن شعبہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری نظر میں دنیا کی کوئی قوم تم سے زیادہ حقیر نہیں تھی۔ تم سخت بدحالی اور تنگ دستی کی زندگی بسر کرتے تھے اور ہم تمھیں کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور نہ کسی شمار میں لاتے تھے۔ تمہارا حال یہ تھا کہ جب تمہاری سرزمین میں قحط پڑتا اور خشک سالی تم پر مسلط ہو جاتی تو تم ہماری ہی سرزمین کے ایک کونے میں آ کر پناہ لیتے تھے۔ پھر ہم تمہیں کچھ کھجوریں اور جو وغیرہ دے کر رخصت کر دیتے تھے۔ مجھے معلوم ہے کہ اب جو تم حملہ آور ہو رہے ہو تو تمہاری سرزمین کی انہی کلفتوں نے تمہیں اس پر مجبور کیا ہے۔ سو میں تمہارے سردار کو ایک جوڑا، ایک خچر اور ایک ہزار درہم اور تم میں سے ہر ایک کو کافی مقدار میں کھجوریں اور دو دو کپڑے دیے دیتا ہوں۔ اب تم واپس چلے جاؤ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ تمہیں قتل کروں یا قیدی بناؤں۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۲۳)

مغیرہ بن شعبہ نے جواب میں فرمایا:

انا لیس طلبنا الدنیا وانما ہمنا وطلبنا االآخرۃ وقد بعث اللہ الینا رسولا قال لہ انی قد سلطت ہذہ الطائفۃ علی من لم یدن بدینی فانا منتقم بہم منہم واجعل لہم الغلبۃ ماداموا مقرین بہ وہو دین الحق لا یرغب عنہ احد الا ذل ولا یعتصم بہ الا عز (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۳۹)

’’ہم دنیا کی تلاش میں نہیں آئے۔ ہمارا اصل مقصد اور مطمح نظر تو آخرت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پاس اپنا رسول بھیجا اور اس کو یہ بتایا کہ میں نے اس جماعت کو ان لوگوں پر مسلط کر دیا ہے جو میرے دین کو قبول نہیں کرتے۔ میں ان کے ذریعے سے ان سے انتقام لوں گا اور جب تک یہ خود دین حق کے پیروکار رہیں گے، ان کو غلبہ حاصل رہے گا۔ یہی دین حق ہے۔ جو بھی اس سے منہ موڑے گا، ذلیل ہوگا اور جو اس کو تھام لے گا، سرفراز ہوگا۔‘‘

ایک روایت کے مطابق انھوں نے کہا:

امرنا نبینا رسول ربنا ان نقاتلکم حتی تعبدوا اللہ وحدہ او تودوا الجزیۃ واخبرنا نبینا صلی اللہ علیہ وسلم عن رسالۃ ربنا انہ من قتل منا صاروا الی الجنۃ فی نعیم لم یر مثلہا قط ومن بقی منا ملک رقابکم (بخاری، رقم ۲۹۲۵)

’’ہمیں ہمارے رسول نے حکم دیا ہے کہ ہم تمھارے ساتھ جنگ کریں یہاں تک کہ تم ایک خدا کی عبادت کرنے لگ جاؤ یا ہمیں جزیہ ادا کرو۔ ہمارے نبی نے ہمارے خدا سے خبر پا کر ہمیں بتایا ہے کہ ہم میں سے جو لوگ اس لڑائی میں قتل ہو جائیں گے، وہ جنت میں جائیں گے جہاں ایسی نعمتیں ہوں گی جو انھوں نے کبھی نہیں دیکھیں اور جو زندہ رہیں گے، وہ تمہاری گردنوں کے مالک بنیں گے۔‘‘

خالد بن ولید نے اپنے لشکر کو جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے بلاد عجم کے فوائد ومنافع سمجھائے اور ان سے کہا:

الا ترون الی الطعام کرفغ التراب وباللہ لو لم یلزمنا الجہاد فی اللہ والدعاء الی اللہ عز وجل ولم یکن الا المعاش لکان الرای ان نقارع علی ہذا الریف حتی نکون اولی بہ ونولی الجوع والاقلال من تولاہ ممن اثاقل عما انتم علیہ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۳۵۴)

’’تم دیکھتے نہیں کہ وہاں کتنی وافر مقدار میں غلہ میسر ہے؟ بخدا، اگر ہم پر اللہ کی طرف دعوت دینا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا فرض نہ ہوتا اور صرف سامان معاش کی بات ہوتی تب بھی عقل کی بات یہی تھی کہ اس سرسبز وشاداب علاقے پر قبضے کے لیے ہم ان سے لڑیں، تاکہ وہاں کی نعمتوں کے حقدار بنیں اور ان لوگوں کو بھوک اور تنگ دستی میں مبتلا رہنے دیں جو جدوجہد سے کترا کر خود اپنی بدحالی پر راضی ہیں۔‘‘

فارسی جرنیل رستم نے ایک مسلمان سپاہی سے سوال کیا کہ تم کس لیے آئے ہو اور تمہارا مقصود کیا ہے؟ اس نے کہا:

جئنا نطلب موعود اللہ قال وما ہو؟ قال ارضکم وابناؤکم ودماؤکم ان ابیتم ان تسلموا (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۰۸)

’’ہم اللہ کے وعدے کے حصول کے لیے آئے ہیں۔ رستم نے پوچھا، کیسا وعدہ؟ مسلمان نے کہا، وہ یہ ہے کہ اگر تم اسلام لانے سے انکار کرو تو ہم تمہاری سرزمین اور تمہاری اولاد اور تمہاری جانوں کے مالک بن جائیں۔‘‘

۱۶ ہجری میں مسلمانوں نے بہرسیر کا محاصرہ کیا تو وہاں کے حاکم کی طرف سے بھی صلح کا پیغام بھیجا گیا:

ہل لکم الی المصالحۃ علی ان لنا ما یلینا من دجلۃ وجبلنا ولکم ما یلیکم من دجلۃ الی جبلکم؟ اما شبعتم لا اشبع اللہ بطونکم 

’’کیا تم اس شرط پر صلح کرنے پر آمادہ ہو کہ دجلہ سے لے کر ہمارے پہاڑ تک کا علاقہ ہمارا ہو اور دجلہ سے لے کر تمہارے پہاڑ تک کا علاقہ تمہارا؟ اللہ تمہیں کبھی سیر نہ کرے، کیا تمہاری بھوک ابھی مٹی نہیں؟‘‘

صحابہ کا جواب یہ تھا:

انہ لا یکون بیننا وبینکم صلح ابدا حتی ناکل عسل افریذین باترج کوثی (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۷)

’’جب تک ہم افریدین کا شہد کوثیٰ کے لیموں کے ساتھ ملا کر نہ کھا لیں، تمہارے ساتھ کسی قیمت پر صلح نہیں کریں گے۔‘‘

اہل فارس کے سرداروں سے اس صورت حال پر جو تبصرہ منقول ہے، وہ بھی ہر لحاظ سے ایک جارحانہ جنگ کی شکایت ہے۔ انھوں نے آپس میں کہا:

ان محمدا الذی جاء العرب بالدین لم یغرض غرضنا ثم ملکہم ابوبکر من بعد فلم یغرض غرض فارس الا فی غارۃ تعرض لہم فیہا والا فی ما یلی بلادہم من السواد ثم ملک عمر من بعدہ فطال ملکہ وعرض حتی تناولکم وانتقصکم السواد والاہواز واوطاہا ثم لم یرض حتی اتی اہل فارس والمملکۃ فی عقر دارہم وہو آتیکم ان لم تاتوہ فقد اخرب بیت مملکتکم واقتحم بلاد ملککم ولیس بمنتہ حتی تخرجوا من فی بلادکم من جنودہ وتقلعوا ہذین المصرین ثم تشغلوہ فی بلادہ وقرارہ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۱۲۲)

’’محمد جو عرب کے پاس اپنا دین لے کر آئے تھے، انہوں نے تو ہمیں اپنا ہدف نہیں بنایا۔ پھر اس کے بعد ابوبکر اہل عرب کے حاکم بنے تو انہوں نے بھی ہماری طرف رخ نہیں کیا، سوائے ایک چھوٹی سی لڑائی کے جس میں ان کا اہل فارس سے ٹکراؤ ہوا اور انھیں سرزمین عرب کے ساتھ متصل سواد کے علاقے کے علاوہ ہماری سرزمین میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن ان کے بعد جب عمر حکمران ہوا تو اس کی مملکت طول وعرض میں پھیلتی جا رہی ہے، یہاں تک کہ تم بھی اس کی زد میں آ گئے ہو۔ اس نے تم سے سواد اور اہواز کا علاقہ چھین لیا۔ پھر اس پر قناعت کرنے کے بجائے اہل فارس کی سلطنت کے عین قلب میں آ گھسا۔ اور اب اگر تم نے پیش قدمی نہ کی تو وہ یہاں بھی تمہارے پیچھے پہنچ جائے گا۔ اس نے تمہارے دار الحکو مت کو برباد کر دیا ہے اور تمہاری سلطنت کے شہروں میں گھس آیا ہے اور وہ اس پر بھی بس کرنے والا نہیں جب تک کہ تم اپنی سلطنت سے اس کی فوجوں کونکال نہ دو اور یہ دونوں شہر اس سے چھین نہ لو۔ پھر اس کے بعد تم اس کو بھاگنے پر مجبور کر دو اور خود اس کے علاقے میں گھس کر اسے اپنے دفاع میں الجھا دو۔‘‘

رومی جرنیل باہان اور خالد بن ولید کے درمیان جو گفتگو ہوئی، اس میں بھی یہ حقیقت صاف نمایاں ہے:

فقال باہان لخالد ہلم الی امر نعرضہ لکم تنصرفون ونحمل من کان منکم راجلا ونوقر لکم ظہورکم وفی روایۃ ونوقر لکم طعاما واداما والاول اصح ونامر لکم بدنانیر خمسۃ خمسۃ فانا نعلم انکم فی ارض قلیلۃ الخیر وانما حملکم علی المسیر ذلک فقال لہ خالد ما حملنا علی المسیر ما ذکرت من شدۃ العیش فی بلادنا ولکن قاتلنا من وراء نا فی الامم فشربنا دماء ہم فحدثنا انہ لیس من قوم احلی دما من الروم فاقبلنا الیکم لنشرب دماء کم فنظر بعضہم الی بعض فقالوا حق واللہ ما حدثنا عنہم یعنون ما اخبرنا بہ انہم لا ینصرفون الا بقبول الدین او الجزیۃ او الانقیاد لہم شئنا او ابینا (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۵۱، ۵۲)

’’باہان نے خالد سے کہا: میں تمہیں جو پیش کش کر رہا ہوں، اسے مان لو۔ تم واپس چلے جاؤ۔ تم میں سے جو پیدل ہیں، انہیں ہم سواری دے دیتے ہیں اور جن کے پاس سواریاں ہیں، ان کو غلہ اور سالن سے لاد دیتے ہیں اور ہر ایک کو پانچ پانچ دینار دے دیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ تمہاری سرزمین میں مال ودولت کی قلت ہے اور اسی چیز نے تمہیں ہمارے خلاف آمادۂ جنگ کیا ہے۔ خالد نے کہا: نہیں، ہم اپنی سرزمین کی سختیوں سے تنگ آ کر تمہاری طرف نہیں آئے، بلکہ بات یہ ہے کہ ہم نے جب اپنے سوا دوسری قوموں سے جنگ کی اور ان کا خون پیا تو ہمیں بتایا گیا کہ رومیوں سے زیادہ میٹھا اور لذیذ خون کسی کا نہیں۔ سو اب ہم یہاں تمہارا خون پینے آئے ہیں۔ یہ سن کر رومیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہنے لگے کہ ان کے بارے میں ہمیں جو خبر پہنچی تھی، وہ بالکل سچ ہے۔ یعنی ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، یہ اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک یا تو ہم ان کا دین نہ قبول کر لیں یا جزیہ نہ دے دیں یا ان کے مطیع نہ بن جائیں۔‘‘

مسلمانوں کے لشکر نے ابو عبیدہ کی قیادت میں اردن کا محاصرہ کیا تو اہل روم کے ساتھ گفت وشنید کے دوران میں ان کی طرف سے یہ پیش کش کی گئی کہ وہ بلقاء اور اردن کا کچھ علاقہ علاقہ اس شرط پر مسلمانوں کو دے دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ صلح کر لیں اور شام کے باقی علاقوں کو رومیوں سے چھیننے کی کوشش نہ کریں۔ اس کے جواب میں ابو عبیدہ نے ان سے کہا:

امرنا صلی اللہ علیہ وسلم فقال اذا اتیتم المشرکین فادعوہم الی الایمان باللہ وبرسولہ وبالاقرار بما جاء من عند اللہ عز وجل فمن آمن وصدق فہو اخوکم فی دینکم لہ ما لکم وعلیہ ما علیکم ومن ابی فاعرضوا علیہ الجزیۃ حتی یودونہا عن ید وہم صاغرون فان ابوا ان یومنوا او یودوا الجزیۃ فاقتلوہم وقاتلوہم (ازدی، فتوح الشام، ۱۰۹)

’’ہمیں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ جب تم مشرکین کے پاس جاؤ تو انھیں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے اور جو کچھ اللہ کا رسول اللہ کی طرف سے لے کر آیا ہے، اس کا اقرار کرنے کی دعوت دو۔ پھر جو ایمان لے آئے اور تصدیق کر دے، وہ دین میں تمھارا بھائی ہے۔ اس کے حقوق وفرائض وہی ہیں جو تمھارے ہیں۔ اور جو انکار کرے تو اسے جزیہ ادا کرنے کے لیے کہو یہاں تک کہ وہ مطیع بن کر ذلت کی حالت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ پھر اگر وہ ایمان لانے اور جزیہ دینے سے انکار کریں تو انھیں قتل کرو اور ان کے خلاف جنگ کرو۔‘‘

عمرو بن العاص نے مقوقس شاہ مصر کے نمائندوں سے کہا:

ان اللہ عز وجل بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بالحق وامرہ بہ وامرنا بہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وادی الینا کل الذی امر بہ ثم مضی صلوات اللہ علیہ ورحمتہ وقد قضی الذی علیہ وترکنا علی الواضحۃ وکان مما امرنا بہ الاعذار الی الناس فنحن ندعوکم الی الاسلام فمن اجابنا الیہ فمثلنا ومن لم یجبنا عرضنا علیہ الجزیۃ وبذلنا لہ المنعۃ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۱۰۷)

’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دین حق دے کر بھیجا اور ان کو اس کی پیروی پر مامور کیا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے تمام حکم ہم تک پہنچا دیے اور ہمیں ان کی پیروی کی تلقین کی۔ پھر آپ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے بعد اللہ کے حضور تشریف لے گئے اور ہمیں ایک نہایت روشن راستے پر چھوڑ گئے۔ انھوں نے ہمیں جو حکم دیے، ان میں سے یہ بھی ہے کہ اٹھ کر لوگوں پر اس طرح حجت قائم کر دیں کہ ان کے پاس عذر باقی نہ رہے۔ پس اب ہم تمھیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ جو اسے قبول کر لے گا، وہ ہمارا شریک بن جائے گا اور جو انکار کرے گا، ہم اسے یہ پیش کش کریں گے کہ وہ جزیہ ادا کر کے ہماری حفاظت میں آ جائے۔‘‘

علاوہ ازیں صحابہ کے جنگی اقدامات کی زیر بحث تعبیر میں ’جزیہ‘ کی وصولی کا مسئلہ بھی کسی طرح سے فٹ نہیں بیٹھتا، اس لیے کہ مفتوح علاقوں کے غیر مسلموں پر عائد کیے جانے والے اس کے ساتھ ذلت، رسوائی اور محکومی کا تصور لازمی طور پر وابستہ تھا اور مفتوحین پر اس کا نفاذ سزا اور عقوبت کے پہلو سے کیا گیا تھا۔ زیر بحث نقطہ نظر کے قائلین کے نزدیک ’جزیہ‘ کی حیثیت کفر پر قائم رہنے کی سزا یا ذلت ورسوائی کی علامت کی نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ٹیکس ہے جو اسلامی ریاست کے غیر مسلموں سے ان کی جان ومال کی حفاظت اور فوجی خدمات سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کے عوض میں وصول کیا جاتا ہے۔ اس کی دلیل یہ بیان کی جاتی ہے کہ عہد صحابہ میں اس بات کے نظائر موجود ہیں کہ اگر مسلمان کسی علاقے کے غیر مسلموں کی دشمن سے حفاظت کا فریضہ انجام نہ دے سکے تو انھوں نے ان سے وصول کردہ جزیہ انھیں واپس کر دیا۔ اسی طرح بعض مواقع پر جن غیر مسلموں نے اسلامی فوج میں شامل ہو کر مخالف طاقتوں کے ساتھ لڑائی کی، انھیں بھی جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔ (شبلی نعمانی، ’’الجزیہ‘‘، مقالات شبلی ۱/۲۱۰-۲۲۰) 

اس تعبیر کے پس منظر میں یہ خواہش موجود ہے کہ ’جزیہ‘ کو کسی طرح سے مذہبی امتیاز کے تناظر سے الگ کر کے اسے ریاست کے مالیاتی واجبات کے عمومی دائرے میں لے آیا جائے۔ اہل علم کا یہ گروہ بالعموم یہ رائے پیش کرتا ہے کہ ’جزیہ‘ کو تذلیل اور تحقیر کی علامت قرار دینا بعد کے فقہا کی غلطی ہے اور نصوص میں اس کے لیے کوئی بنیاد موجود نہیں۔ تاہم تاریخ وسیرت کے ذخیرے میں موجود شواہد اس رائے کو قبول کرنے میں مانع ہیں اور وہ ’جزیہ‘ کے اسی مفہوم کی تائید کرتے ہیں جو کہ فقہا نے بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر جواد علی اپنی کتاب ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘ میں اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

والجزیۃ من الالفاظ المستعملۃ عند الجاہلیین کذلک بدلیل ورودہا فی القرآن الکریم وقد خصصت فی الاسلام بما یوخذ من اہل الذمۃ علی رقابہم وقد کان الجاہلیون یاخذون الجزیۃ من المغلوبین وکانت عندہم الضریبۃ التی توخذ عن رؤوس المغلوبین یدفعونہا الی الغالب فدفعتہا القبائل المغلوبۃ للقبائل الغالبۃ علی اساس الرؤوس (المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، ۵/۳۰۶)

’’جزیہ ان الفاظ میں سے ہے جو زمانہ جاہلیت میں بھی بعینہ اسی طرح استعمال ہوتا تھا اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ لفظ قرآن مجید میں آیاہے۔ اسلام میں یہ لفظ خاص طور پر اس رقم کے لیے بولا جاتا ہے جو اہل ذمہ سے اشخاص کے لحاظ سے وصول کی جاتی ہے۔ اہل جاہلیت مغلوب ہو جانے والوں سے جزیہ وصول کیا کرتے تھے اور ان کے نزدیک اس کا تصور ایک ایسے ٹیکس کا تھا جو مغلوب گروہ کے افراد سے لر کر غالب گروہ کو دیا جاتا ہے۔ چنانچہ مغلوب قبائل اشخاص کے لحاظ سے غالب قبائل کو جزیہ ادا کیا کرتے تھے۔‘‘

وتدفع القبائل الضعیفۃ اتاوۃ الی القبائل الکبیرۃ او الی الملوک تکون بمثابۃ حق الحمایۃ والاعتراف بالسیادۃ ولہذا کانت القبائل التی لا تدفع اتاوۃ تتباہی وتفتخر لان ذلک یدل علی عزتہا ومنعتہا ویقال ان الاوس والخزرج ابنی قیلۃ لم یودیا اتاوۃ قط فی الجاہلیۃ الی احد من الملوک فلما کتب الیہم تبع یدعوہم الی طاعتہ ویتوعدہم لم یجیبوہ وتحارب معہم ثم ارتحل عنہم وکانت للغطاریف علی دوس اتاوۃ یاخذونہا کل سنۃ حتی ان الرجل منہم کان یاتی بیت الدوسی فیضع سہمہ او نعلہ علی الباب ثم یدخل (المفصل فی تاریخ العرب، ۵/۳۱۱)

’’کمزور قبائل طاقتور قبائل یا بادشاہوں کو جرمانہ ادا کیا کرتے تھے جو ان کی برتری اور سیادت کے اعتراف اور ان کی طرف سے حفاظت وحمایت کا حق حاصل ہونے کے مترادف سمجھا جاتا تھا۔ اسی لیے وہ قبائل جو یہ جرمانہ ادا نہیں کرتے تھے، اس پر فخر کرتے اور دوسروں پر اس بات کو جتاتے تھے کیونکہ یہ بات ان کی عزت وشرف اور ان کی خود مختاری کی دلیل ہوتی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اوس اور خزرج نے زمانہ جاہلیت میں کبھی کسی بادشاہ کو جرمانہ ادا نہیں کیا۔ پھر جب تبع نے ان کو اپنا مطیع بن جانے کا حکم دیا اور ان کو دھمکی دی تو انھوں نے اس کی بات نہیں مانی جس پر اس نے ان کے ساتھ جنگ کی اور پھر ان کے علاقے سے کوچ کر گیا۔ قبیلہ دوس کے ذمے ایک جرمانہ لازم تھا جو وہ ہر سال بنو غطریف کو ادا کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کوئی شخص کسی دوسی کے گھر میں جاتا اور اپنا تیر یا جوتا دروازے کے پاس رکھ کر اندر داخل ہو جاتا تھا۔‘‘

مشہور مستشرق ڈاکٹر ڈینئل ڈینیٹ نے ایرانی نظام سیاست میں جزیہ کی نوعیت واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:

بینما کانت ضریبۃ الراس التی یودیہا ہولاء المحکومون تعتبر من الوجہۃ النظریۃ تعویضا عن الواجبات الملکیۃ الکہنوتیۃ التی کانوا عاجزین عن القیام بہا کانت ہذہ الضریبۃ تعتبر فی الواقع سمۃ للذل وعنوانا للوضاعۃ الاجتماعیۃ (الجزیۃ والاسلام، ترجمہ: الدکتور فوزی فہیم جاد اللہ، ص ۴۷)

’’ان محکوموں پر اشخاص کے اعتبار سے لگایا جانے والا ٹیکس جہاں نظری اعتبار سے ان حاکمانہ اور مذہبی ذمہ داریوں کا بدل سمجھا جاتا تھا جنھیں ادا کرنے سے وہ قاصر تھے، وہاں عملی اعتبار سے اس کی حیثیت ذلت کی ایک علامت اور معاشرتی کہتری کے ایک عنوان کی تھی۔‘‘

صحابہ کے اقوال سے بھی ’جزیہ‘ کا یہ مفہوم پوری صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا عمر نے عتبہ بن غزوان کو بصرہ کا والی بنا کر بھیجا تو انھیں ہدایت کی کہ:

وادع الی اللہ فمن اجابک فاقبل منہ ومن ابی فالجزیۃ عن صغار وذلۃ والا فالسیف فی غیرہ ہوادۃ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۹۳)

’’اور اللہ کی طرف دعوت دو۔ جو اس دعوت قبول کر لے تو سر آنکھوں پر۔ اور جو انکار کرے تو ذلت اور رسوائی کے ساتھ اس سے جزیہ وصول کرو۔ اور یہ بھی نہیں تو پھر تلوار کو حرکت میں لے لاؤ، لیکن اس کی نوبت نہ ہی آنے پائے تو بہتر ہے ۔‘‘

سلمان فارسی نے ایک جنگ میں اہل فارس سے کہا:

فان ابیتم فعلیکم الجزیۃ وخاک بر سر (ابو عبید، الاموال، ۹۶)

’’اگر تم اسلام لانے سے انکار کرو تو تم پر جزیہ عائد کیا جائے گا جو تمھارے سر پر خاک ہوگا۔‘‘

مغیرہ بن شعبہ نے ایرانی سپہ سالا رستم سے جزیہ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا:

وان احتجت الینا ان نمنعک فکن لنا عبدا تودی الجزیۃ عن ید وانت صاغر والا فالسیف ان ابیت (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۵۲۳)

’’اور اگر تم چاہتے ہو کہ ہماری حفاظت میں آجاؤ تو ہمارے تابع فرمان بندے بن جاؤ اور مطیع ہو کر ذلت ورسوائی کی حالت میں جزیہ ادا کرو، اور اگر اس سے بھی انکار کرو گے تو پھر تلوار ہے۔‘‘

حبیب بن مسلمہ نے اہل تفلیس کو جو امان لکھ کر دی، اس کے الفاظ یہ تھے:

ہذا کتاب من حبیب بن مسلمۃ لاہل تفلیس من جرزان ارض الہرمز بالامان علی انفسکم واموالکم وصوامعکم وبیعکم وصلواتکم علی الاقرار بصغار الجزیۃ (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۶۲)

’’یہ نوشت حبیب بن مسلمہ کی طرف سے سرزمین ہرمز میں اہل تفلیس کے لیے ہے۔ انھیں اس شرط پر جان ومال، خانقاہوں، گرجوں اور معبدوں کی امان دی جاتی ہے کہ وہ جزیہ کی ذلت قبول کیے رکھیں گے۔‘‘

تمیم داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی کا ذکر کر کے فرماتے ہیں :

قد عرفت ذلک فی اہل بیتی لقد اصاب من اسلم منہم الخیر والشرف والعز ولقد اصاب من کان منہم کافرا الذل والصغار والجزیۃ (مسند احمد، رقم ۱۶۲۴۴)

’’میں نے یہ پیش گوئی اپنے خاندان میں پوری ہوتے دیکھ لی ہے۔ ان میں سے جو اسلام لائے، ان کو تو خیر اور عزت اور شرف ملا، اور جو کافر رہے، ان پر ذلت اور پستی اور جزیہ مسلط کر دیا گیا۔‘‘

سرزمین شام میں اردن کا علاقہ فتح ہوا تو اسلامی لشکر کے امرا میں اس حوالے سے اختلاف راے پیدا ہو گیا کہ مفتوحین کو غلام بنا کر مجاہدین میں تقسیم کر دیا جائے یا اہل ذمہ بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیا جائے۔ معاملہ سیدنا عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے دوسری راے کی تائید کی اور لکھا:

ان ہولاء یاکلہم المسلمون ما داموا احیاء فاذا ہلکنا وہلکوا اکل ابناؤنا ابناء ہم ابدا ما بقوا وکانوا عبیدا لاہل الاسلام ابدا ما دام دین الاسلام ظاہر فضع عنہم الجزیۃ وکف عنہم السبا وامنع المسلمین من ظلمہم والاضرار بہم واکل اموالہم الا بحقہا (ازدی، فتوح الشام، ۱۲۵)

’’جب تک یہ زندہ رہیں گے، مسلمان ان کی محنت کی کمائی کھائیں گے۔ پھر جب ہم بھی مر جائیں اور یہ بھی تو ہماری نسلیں جب تک رہیں گی، ہمیسہ ان کی نسلوں کی محنت کی کمائی کھاتی رہیں گی اور جب تک اسلام کو غلبہ حاصل رہے گا، یہ ہمیشہ اہل اسلام کے محکوم اور غلام بن کر رہیں گے۔ اس لیے ان پر جزیہ عائد کردو اور انھیں غلام نہ بناؤ اور مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے یا تکلیف دینے اور ان کے اموال کو ناحق کھانے سے روکو۔‘‘

سر زمین شام میں ’رہا‘ کے باشندوں عیاض بن غنم کو پیغام بھیجا کہ وہ ایک متعین رقم کی ادائیگی پر مسلمانوں سے صلح کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں معاذ بن جبل سے مشورہ مانگا گیا تو انھوں نے کہا کہ ان سے متعین رقم کے بجائے اس بات پر صلح کی جائے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق رقم ادا کریں گے۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ:

وان ایسروا ادوہ علی غیر الصغار الذی امر اللہ بہ فیہم (ابو یوسف، الخراج، ۴۰)

’’اگر یہ (بعد میں) خوش حال ہو جائیں (اور پہلے سے طے شدہ تھوڑی رقم دیتے رہیں) تو ذلت کی اس حالت کے بغیر جزیہ ادا کریں گے جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں حکم دیا ہے۔‘‘

عبد اللہ بن عباس کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے پوچھا کہ کیا یہ جائز ہے کہ میں کسی غیر مسلم سے اس کی زمین لے کر اس میں کاشت کاری کروں اور آمدنی سے اس پر عائد ہونے والا جزیہ ادا کر دوں؟ انھوں نے جواب میں فرمایا:

لا تعمد الی ما ولی اللہ ہذا الکافر فتخلعہ من عنقہ وتجعلہ فی عنقک ثم تلا قاتلوا الذین لا یومنون باللہ (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۱۰۷)

’’یہ وبال جو اللہ نے اس کافر پر ڈالا ہے، اس کی گردن سے اتار کر اپنی گردن میں نہ ڈال لو۔ پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت کی: ’’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘‘

سیدنا عمر نے لوگوں کو اہل ذمہ کی اراضی خریدنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

لا تبتاعوہا ولا یقرن احدکم بالصغار بعد اذ نجاہ اللہ منہ (بیہقی، السنن الکبریٰ، رقم ۱۸۱۸۱)

’’ان کی زمینوں کو مت خریدو۔ تم میں سے کوئی شخص اپنے لیے ذلت کا اقرار نہ کرے اس کے بعد کہ اللہ نے اس کو اس سے نجات دی ہے۔‘‘

عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں:

ما احب ان الارض کلہا لی جزیۃ بخمسۃ دراہم اقر علی نفسی بالصغار (مصنف عبدالرزاق، رقم ۱۰۱۰۹)

’’مجھے اس شرط پر ساری زمین بھی مل جائے کہ مجھے صرف پانچ درہم جزیہ ادا کرنا پڑے گا تو میں اسے لینا پسند نہیں کروں گا۔ کیا میں اپنے اوپر ذلت اور رسوائی مسلط کر لوں؟‘‘

معاذ بن جبل نے کہا:

من عقد الجزیۃ فی عنقہ فقد بری مما علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ابوداؤد، رقم ۲۶۷۷)

’’جس نے اپنی گردن میں جزیہ کا طوق ڈالا، وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین اور طریقے سے لا تعلق ہو گیا۔‘‘

قبیصہ بن ذؤیب نے فرمایا:

من اخذ ارضا بجزیتہا فقد باء بما باء بہ اہل الکتابین من الذل والصغار (ابوعبید، الاموال، ۱۵۹)

’’جس نے کوئی زمین اس کے جزیے کے ساتھ خریدی، اس کے حصے میں وہی ذلت اور پستی آئے گی جس سے یہود ونصاریٰ بہرہ یاب ہوئے ہیں۔‘‘

صدر اول میں اس حساسیت کا ثبوت صرف زمین نہیں بلکہ ’جزیہ‘ کے ساتھ وابستہ دوسری چیزوں کے حوالے سے بھی ملتا ہے۔ امام مالک ’الموطا‘ میں بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے ایک موقع پر اپنے غلام اسلم کو حکم دیا کہ وہ جزیہ کے طور پر وصول کی جانے والی ایک اونٹنی کو دوسرے اونٹوں کے ساتھ باندھ دیں تاکہ بوقت ضرورت ان کا گوشت کھایا جا سکے۔ اسلم نے اس معاملے میں شدید تردد کا اظہار کیا:

قال فقلت کیف تاکل من الارض قال فقال عمر امن نعم الجزیۃ ہی ام من نعم الصدقۃ فقلت بل من نعم الجزیۃ فقال عمر اردتم واللہ اکلہا فقلت ان علیہا وسم الجزیۃ فامر بہا عمر فنحرت (الموطا، رقم ۸۰۴)

’’اسلم کہتے ہیں کہ میں نے کہا: آپ اہل ذمہ کے اونٹوں کا گوشت کیسے کھائیں گے؟ سیدنا عمر نے پوچھا کہ یہ جزیہ کی اونٹنی ہے یا زکوٰۃ کی؟ میں نے کہا، جزیہ کی۔ سیدنا عمر نے کہا، بھئی اس کا گوشت کھانے ہی کے لیے تو تم نے وصول کی ہے۔ میں نے کہا کہ اس پر جزیہ کی نشانی لگی ہوئی ہے۔ لیکن سیدنا عمر نے حکم دیا کہ اس کو ذبح کر دیا جائے۔‘‘

’جزیہ‘ کے ساتھ وابستہ ذلت اور محکومی کا یہی تصور تھا جس کی بنا پر عہد صحابہ میں ایسے نظائر ملتے ہیں جب مختلف گروہوں یا قوموں نے اس کے مقابلے میں یا تو جنگ اور قتال کو ترجیح دی، یا مسلمانوں کی سیاسی بالادستی قبول کرنے کے باوجود جزیہ دینے سے انکار کیا اور یا پھر جزیہ کے عار سے بچنے کے لیے اسلام قبول کر لیا۔ یہ نظائر حسب ذیل ہیں:

۵ ہجری میں غزوہ احزاب کے بعد جب یہود بنو قریظہ کو خدشہ ہوا کہ ان کے نقض عہد کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف بھی اقدام کرنے والے ہیں تو انھوں نے اس سلسلے میں باہم مشاورت کی۔ ان میں سے عمرو بن سعدیٰ نامی ایک شخص نے انھیں تجویز دی کہ:

فان ابیتم ان تدخلوا معہ فاثبتوا علی الیہودیۃ واعطوا الجزیۃ فوا اللہ ما ادری یقبلہا ام لا۔ قالوا نحن لا نقر للعرب بخرج فی رقابنا یاخذوننا بہ القتل خیر من ذلک (واقدی، المغازی، ۲/۵۰۴)

’’اگر تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل نہیں ہونا چاہتے تو یہودیت پر قائم رہو اور محمد کو جزیہ ادا کر دو۔ لیکن بخدا، مجھے معلوم نہیں کہ وہ جزیہ قبول کریں گے یا نہیں۔ لوگوں نے کہا: ہم اہل عرب کی یہ برتری تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ ہماری گردنوں پر ٹیکس لگا کر اسے ہم سے وصول کریں۔ اس سے تو قتل ہو جانا بہتر ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ملنے کے بعد قیصر نے اہل روم کے سامنے جو تجاویز رکھیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی:

قال فہلم اعطیہ الجزیۃ کل سنۃ اکسر عنی شوکتہ واستریح من حربہ بما اعطیہ ایاہ قالوا نحن نعطی العرب الذل والصغار بخرج یاخذونہ منا ونحن اکثر الناس عددا واعظمہ ملکا وامنعہ بلدا لا واللہ لا نفعل ہذا ابدا (ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ، ۲/۵۰۶)

’’اس نے کہا تو پھر یہ بات مان لو کہ میں ہر سال محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیہ دے کر ان کی طاقت کا رخ اپنی طرف سے موڑ دوں اور ان کے ساتھ جنگ کرنے سے بچ جاؤں۔ انہوں نے کہا: ہم کیوں یہ ٹیکس دے کر اہل عرب کے سامنے اپنی ذلت اور پستی کا اقرار کریں، جبکہ ہماری تعداد بھی زیادہ ہے، ہماری سلطنت بھی عظیم ہے اور ہمارا علاقہ بھی محفوظ ہے؟ بخدا، تم کبھی ایسا نہ کرنا۔‘‘

مغیرہ بن شعبہ نے ایرانی سپہ سالار رستم کے دربار میں قبول اسلام کی دعوت دینے کے بعد جب جزیہ کا مطالبہ کیا تو اہل فارس کا رد عمل بھی یہی تھا:

فلما قال ادیتم الجزیۃ نخروا وصاحوا وقالوا لا صلح بیننا وبینکم (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۴۹۷)

’’جیسے ہی مغیرہ نے یہ کہا کہ تم جزیہ ادا کرو، اہل فارس نے نتھنے پھلا لیے اور غصے سے چیخنا شروع کر دیا اور کہا کہ ہمارے اور تمھارے مابین کوئی صلح نہیں۔‘‘

سیدنا عمرؓ نے بنو تغلب کے نصاریٰ پر، جو اصل میں عرب تھے، اپنے عہد میں جزیہ عائد کرنا چاہا تو انھوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا:

واللہ لئن وضعت علینا الجزاء لندخلن ارض الروم واللہ لتفضحنا من بین العرب فقال لہم انتم فضحتم انفسکم وخالفتم امتکم فی من خالف وافتضح من عرب الضاحیۃ وتاللہ لتؤدنہ وانتم صغرۃ قماۃ ولئن ہربتم الی الروم لاکتبن فیکم ثم لاسبینکم قالوا فخذ منا شیئا ولا تسمہ جزاء فقال اما نحن فنسمیہ نحن جزاء وسموہ انتم ما شئتم (تاریخ الامم والملوک، ۴/۵۶)

’’بخدا، اگر تم نے ہم پر جزیہ عائد کیا تو سرزمین روم میں داخل ہو جائیں گے۔ بخدا، تم اہل عرب کے مابین ہمیں رسوا کرنا چاہتے ہو۔ سیدنا عمر نے کہا: جزیرۂ عرب کے کناروں پر بسنے والے یہ تمھی لوگ ہو جنھوں نے (اسلام قبول نہ کر کے) اہل عرب سے مختلف طریقہ اپنایا ہے اور اپنے آپ کو خود اس رسوائی کا حق دار بنایا ہے۔ بخدا، تمھیں ذلیل اور پست ہو کر جزیہ دینا ہی پڑے گا۔ اور اگر تم بھاگ کر روم کے علاقے میں چلے گئے تو میں (شاہ روم کو) خط لکھ کر تمہیں واپس مانگ لوں گا اور پھر تمہیں قیدی بنا لوں گا۔ انہوں نے کہا: تم ہم سے رقم لے لو لیکن اسے ’جزیہ‘ کا نام مت دو۔ سیدنا عمر نے کہا، ہم تو اسے ’جزیہ‘ ہی کہیں گے، تم جو نام چاہو، دے لو۔‘‘

ابن ابی ذئب بیان کرتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے بنو کلب اور بنو تغلب کے نصاریٰ سے کہا کہ ہم تم سے صدقہ نہیں لیں گے، بلکہ تمھارے ذمے جزیہ لازم ہے۔ انھوں نے کہا:

اتجعلنا کالعبید؟ قال لا ناخذ منکم الا الجزیۃ (المدونۃ الکبریٰ، ۲/۲۸۳)

’’کیا آپ ہمیں غلاموں کی حیثیت دینا چاہتے ہیں؟ عمر نے کہا کہ ہم تم سے جزیہ ہی لیں گے۔‘‘

عبد الرحمن بن ربیعہ ’الباب‘ پر حملے کی غرض سے اپنی فوج لے کر پہنچے تو وہاں کے بادشاہ شہربراز نے مسلمانوں کی اطاعت قبول کرتے ہوئے ’جزیہ‘ سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کی درخواست پیش کی۔ اس نے کہا:

وانکم قد غلبتم علی بلادی وامتی فانا الیوم منکم ویدی مع ایدیکم وصغوی معکم وبارک اللہ لنا ولکم وجزیتنا الیکم النصر لکم والقیام بما تحبون فلا تذلونا بالجزیۃ فتوہنونا لعدوکم (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۵۶)

’’بلاشبہ تم میرے ملک اور میری قوم پر غالب آچکے ہو۔ آج میں اپنا تعلق تم سے جوڑتا ہوں اور میری حمایت اور ہمدردی تمہارے ساتھ ہے۔ اللہ ہمیں اور تمھیں، دونوں کو برکت دے۔ لیکن ہماری طرف سے تمہارے لیے جزیہ یہ ہوگا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے اور جو ذمہ داری تم ہم پر ڈالو گے، اسے بجا لائیں گے، اس لیے تم جزیہ عائد کر کے ہمیں ذلیل اور اپنے دشمن کے مقابلے میں کمزور نہ کرو۔‘‘

اصفہان کا علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا تو یہاں کے شرفا نے زمین کا لگان دینا تو بخوشی قبول کر لیا لیکن جزیہ کی ذلت سے بچنے کا اور کوئی راستہ نہ پا کر مسلمان ہو گئے۔ بلاذری لکھتے ہیں:

فلما فتحت جی دخلوا فی الطاعۃ علی ان یودوا الخراج وانفوا من الجزیۃ فاسلموا (فتوح البلدان، ۳۲۱)

’’جب جے کا علاقہ فتح ہوا تو یہ لوگ خراج کی ادائیگی پر مسلمانوں کی اطاعت قبول کرنے پر رضامند ہو گئے لیکن جزیہ کے مسئلے پر ناک بھوں چڑھائی اور اسلام لے آئے۔‘‘

مشہور مستشرق ڈاکٹر ڈینئل ڈینیٹ اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ساسانی نظام میں معاشرے کے ممتاز طبقات کو ضریبۃ الراس سے، جو کہ تذلیل اور تحقیر کی علامت سمجھا جاتا تھا، مستثنیٰ رکھا جاتا تھا۔ اصفہان کے یہ شرفا یقیناًاسلامی فتح سے پہلے اس سے مستثنیٰ تھے اور چونکہ عربوں کے زمانے میں بھی ذلت اور حقارت کے حوالے سے اس ٹیکس کی یہی پہچان باقی رہی، اس لیے انھوں نے اس تذلیل وتوہین سے بچنے کے لیے اسلام قبول کر لیا۔‘‘ (الجزیۃ والاسلام، ص ۶۶)

یہی معاملہ اہل قزوین کے ساتھ ہوا۔ براء بن عازب کی قیادت میں مسلمانوں نے ان پر حملہ کیا تو شکست کو سامنے دیکھ کر انہوں نے صلح کی درخواست کی:

فلما راوا ذلک طلبوا الصلح فعرض علیہم ما اعطی اہل ابہر فانفوا من الجزیۃ واظہروا الاسلام (بلاذری، فتوح البلدان ۳۲۹۔ یاقوت حموی، معجم البلدان ۴/۳۴۳)

’’جب انہوں نے یہ صورت حال دیکھی تو مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی۔ امیر لشکر نے ان کے سامنے وہی شرائط رکھیں جن پر اہل ابہر نے صلح کی تھی، لیکن انھوں نے جزیہ پر ناک بھوں چڑھائی اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کر دیا۔‘‘

سیدنا عمر کے عہد میں ایک ذمی نے اسلام قبول کیا تو عامل نے اس سے جزیہ طلب کیا اور کہا کہ تم محض ’جزیہ‘ سے بچنے کے لیے اسلام میں داخل ہوئے ہو۔ اس نے کہا کہ پھر اسلام لانے کی وجہ سے مجھے پناہ ملنی چاہیے۔ معاملہ سیدنا عمر کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے فرمایا، ہاں۔ اسلام لانے کی صورت میں جزیہ سے پناہ حاصل ہو جاتی ہے، اس لیے اس سے جزیہ نہ لیا جائے۔ (الاموال بحوالہ المغنی، ۹/۲۷۴)

صدر اول اور بعد کے فقہا نے بھی ’جزیہ‘ کا یہی مفہوم سمجھا ہے۔ امام مالک ’الموطا‘ میں لکھتے ہیں:

ان الصدقۃ انما وضعت علی المسلمین تطہیرا لہم وردا علی فقراۂم ووضعت الجزیۃ علی اہل الکتاب صغارا لہم (الموطا، رقم ۸۰۷)

’’زکوٰۃ تو مسلمانوں کے اموال کی تطہیر اور ان کے فقرا کی حاجات پورا کرنے کے لیے ان پر فرض کی گئی ہے، جبکہ اہل کتاب پر جزیہ ذلت اور پستی کی ایک علامت کے طور پر عائد کیا گیا ہے۔ ‘‘

امام شافعی فرماتے ہیں:

قال اللہ تعالیٰ حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون فوجدت الکفار فی حکم اللہ ثم حکم رسولہ فی موضع العبودیۃ للمسلمین صنفا متی قدر علیہم تعبدوا وتوخذ منہم اموالہم لا یقبل منہم غیر ذلک وصنفا یصنع ذلک بہم الا ان یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون فاعطاء الجزیۃ اذا لزمہم فہو صنف من العبودیۃ (الام، ۷/۳۴۴)

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ قتال کرو یہاں تک کہ وہ مطیع ہو کر ذلت کے ساتھ جزیہ دینے پر آمادہ ہو جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلے کی رو سے کفار اہل اسلام کے محکومی اور غلام ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ وہ ہے جس پر قدرت حاصل ہونے کی صورت میں اسے غلام بنا لیا جائے اور اس سے اس کے اموال چھین لیے جائیں اور اس کے سوا کوئی طریقہ اختیار نہ کیا جائے، جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جس کے ساتھ یہی سلوک کیا جائے، الا یہ کہ وہ مطیع بن کر ذلت ورسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہو جائے۔ پس ان پر جزیہ کی ادائیگی کا لازم ہونا محکومی اور غلامی کی ایک صورت ہے۔‘‘

اس تفصیل سے واضح ہے کہ صحابہ کرام کا روم وفارس کی سلطنتوں کے خلاف جہاد اسی کشمکش کا ایک تسلسل تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے حق وباطل کے مابین برپا ہوئی تھی اور ان قوموں کے خلاف ان کی تلواریں جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح میں ’اظہار دین‘ کے اسی ہدف کی تکمیل کے لیے نیام سے باہر آئی تھیں جسے قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصود قرار دیا گیا ہے۔ صدر اول کے ایک جلیل القدر فقیہ امام سفیان بن عیینہ نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں واضح کیا ہے کہ:

بعث اللہ تعالیٰ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم باربعۃ سیوف: سیف قاتل بہ بنفسہ عبدۃ الاوثان وسیف قاتل بہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اہل الردۃ قال اللہ تعالی تقاتلونہم او یسلمون وسیف قاتل بہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ المجوس واہل الکتاب۔ قال اللہ تعالیٰ قاتلوا الذین لا یومنون باللہ الآیۃ وسیف قاتل بہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ المارقین والناکثین والقاسطین (سرخسی، المبسوط، ۱۰/۳)

’’اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ ایک تلوار سے آپ نے بذات خود بت پرستوں سے جنگ کی۔ دوسری تلوار سے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اہل ارتداد سے قتال کیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تقاتلونہم او یسلمون۔ تیسری تلوار کے ساتھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجوس اور اہل کتاب کے خلاف معرکہ آرا ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قاتلوا الذین لا یومنون باللہ۔ اور چوتھی تلوار سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دین سے نکل جانے والے سرکش گروہوں (خوارج) کے خلاف قتال کیا۔‘‘


یہ قرآن مجید اور حدیث وسیرت میں جہاد وقتال کے احکام کا اصل تناظر ہے اور اس سے واضح ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کے یہ احکام محض مسلمانوں کے دفاع اور اہل کفر کے فتنہ وفساد کو دفع کرنے کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کے دین کی سربلندی اور شرک کا خاتمہ کرنے کے لیے دیے گئے تھے۔ یہ ایک ’مقدس جنگ‘ (Holy war) تھی جس کا محرک مال ومنال اور سطوت وشوکت کا حصول نہیں، بلکہ خدا کے حکم پر اسی کے ایک مقصد کو پورا کرنا تھا۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی بنیاد پر قرآن نے اس قتال کو ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کا عنوان دیا، اس میں حصہ لینے کو اللہ کے ساتھ ایک سودا قرار دیا، اس میں جان ومال قربان کرنے والوں کو ’انصار اللہ‘ کا لقب دیا اور اس سے گریز کرنے والے اہل ایمان کو جا بجا وعیدیں سنائی ہیں۔ ارشاد ہوا ہے:

کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِتَالُ وَہُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَعَسَی أَن تُحِبُّواْ شَیْْئاً وَہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (البقرہ ۲:۲۱۶)

’’تم پر لڑنا فرض کر دیا گیا ہے، حالانکہ وہ تمھیں ناپسند ہے۔ توقع ہے کہ ایک چیز کو تم ناپسند کرو جبکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اور توقع ہے کہ ایک چیز کو تم پسند کرو جبکہ وہ تمہارے لیے بری ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘

سورہ نساء میں فرمایا:

أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ قِیْلَ لَہُمْ کُفُّوا أَیْْدِیَکُمْ وَأَقِیْمُوا الصَّلاَۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْْہِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ کَخَشْیَۃِ اللّہِ أَوْ أَشَدَّ خَشْیَۃً وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ کَتَبْتَ عَلَیْْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَی أَجَلٍ قَرِیْبٍ قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْلٌ وَالآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّمَنِ اتَّقَی وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِیْلاً (النساء ۴: ۷۷)

’’کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ پھر جب ان پر قتال فرض کر دیا گیا تو اب ان میں سے ایک گروہ اس طرح دشمن سے ڈرنے لگا جیسے اللہ سے ڈرنا چاہیے، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ اور انہوں نے کہا کہ یا اللہ، تو نے کیوں ہم لڑنا فرض کر دیا؟ کیوں نہ تو نے کچھ مدت کے لیے ہمیں مزید مہلت دے دی؟ تم کہہ دو کہ دنیا کا سامان تو بہت تھوڑا ہے جبکہ جو لوگ اللہ سے ڈریں، ان کے لیے آخرت بہت بہتر ہے اور (تمہارے اعمال کے معاملے میں) تمہاری ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔‘‘

سورۂ توبہ میں ارشاد ہوا ہے:

إِنَّ اللّٰہَ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَیْْہِ حَقّاً فِیْ التَّوْرَاۃِ وَالإِنجِیْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْفَی بِعَہْدِہِ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُواْ بِبَیْْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُم بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (التوبہ ۹:۱۱۱)

’’اللہ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس وعدے پر خرید لیے ہیں کہ انھیں بدلے میں جنت ملے گی۔ وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں تو وہ بھی قتل کرتے ہیں اورانھیں بھی قتل کیا جاتا ہے۔ اللہ نے تورات اور انجیل اور قرآن میں اس وعدے کو پورا کرنا اپنے ذمے ٹھہرایا ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنے عہد کو پورا کرنے والا ہو سکتا ہے؟ اس لیے (اے ایمان والو) تم نے جو سودا کیا ہے، اس پر خوش ہو جاؤ اور یہی عظیم کامیابی ہے۔‘‘

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا مَا لَکُمْ إِذَا قِیْلَ لَکُمُ انفِرُوا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الأَرْضِ أَرَضِیْتُم بِالْحَیَاۃِ الدُّنْیَا مِنَ الآخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ قَلِیْلٌ ۔ إِلاَّ تَنفِرُواْ یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ وَلاَ تَضُرُّوہُ شَیْْئاً وَاللّٰہُ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ (التوبہ ۹:۳۸، ۳۹)

’’اے ایمان والو، تمھیں کیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتاہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین کے ساتھ چپک رہتے ہو! کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے ہو؟ تو پھر آخرت میں دنیا کی زندگی کا سامان بہت ہی تھوڑی وقعت رکھے گا۔ اگر تم نہیں نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک عذاب دے گا اور تمھاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدل دے ا اور تم اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘


جماعت صحابہ کی خصوصی حیثیت

گزشتہ باب میں روم وفارس اور جزیرۂ عرب سے متصل دوسری سلطنتوں کے خلاف صحابہ کے جہاد کے حوالے سے جو گفتگو کی گئی ہے، اس سے اگرچہ اصولی طور پر ان اقدامات کی حقیقی نوعیت واضح ہو جاتی ہے، تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس بحث کے چند اہم نکات پر نسبتاً تفصیل سے روشنی ڈالی جائے تاکہ صحابہ کے جنگی اقدامات کا درست تناظر زیادہ نکھر کر سامنے آ جائے۔ یہ نکات ہمارے نزدیک حسب ذیل ہیں:

ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صحابہ کو ’شہادت علی الناس‘ کے خاص منصب پر فائز کیا گیا اور اسی کے تحت انھیں مذکورہ اقوام کے خلاف قتال کا اختیار دیا گیا تھا۔

دوسرے یہ کہ صحابہ کے جنگی اقدامات کے جغرافیائی اہداف محدود اور متعین تھے اور اس دائرے میں بھی وہ جہاد وقتال کے اس سلسلے کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانے کے بجائے محدود سے محدود تر رکھنے کے خواہش مند تھے۔

تیسرے یہ کہ قرآن مجید میں ’اظہار دین‘ کی صورت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا، وہ جزیرۂ عرب اور اس کے بعد روم وفارس کے علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہو جانے سے آخری حد تک مکمل ہو گیا اور اس پیش گوئی کا کوئی جزو تاریخی طور پر تشنہ تکمیل نہیں رہا۔

ذیل میں ہم ان نکات کی وضاحت کریں گے:

شہادت علی الناس

’شہادت علی الناس‘ کے منصب کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ عالم کا پروردگار کسی خاص گروہ سے اپنی وفاداری اور اطاعت کا عہد وپیمان لے کر اسے دین وشریعت کی نعمت سے نوازتا، آزمایش اور ابتلا کے مختلف مراحل سے گزار کر اس کے تزکیہ وتربیت کا اہتمام کرتا اور اس امتحان میں کامیابی پر اسے دنیوی حکومت واقتدار سے بہرہ یاب کر دیتاہے۔ یہ گروہ اپنے اجتماعی وجود کے لحاظ سے یوں سراپا حق اور مجسم عدل وانصاف ہوتا اور اپنی دعوت اور کردار کے ذریعے سے حق کی اس طرح عملی شہادت بن جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں کفر وطغیان کا رویہ اپنانے والی قوموں کو سزا دینے کا اختیار دے دیتا ہے۔ ’شہادت‘ کے منصب پر فائز گروہ کے لیے اس اختیار اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی فتوحات کی حیثیت اللہ کے انعام کی ہوتی ہے اور اسے یہ حق دے دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کی سرزمین میں اس کے میسر کردہ نعمتوں اور وسائل کو اپنے تصرف میں لے آئے، جبکہ مفتوح ومغلوب قوموں کے لیے یہی عمل اللہ کی طرف سزا اور انتقام قرار پاتا ہے۔ 

قرآن مجید اور انبیاے بنی اسرائیل کے صحائف سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے بعد نبوت ورسالت کو ان کی اولاد کے ساتھ مخصوص فرما کر انھیں دنیا کی قوموں پر فضیلت بخشی اور من حیث القوم، اقوام عالم پر حجت تمام کرنے کے لیے منتخب کر لیا۔ ارشاد ہوا ہے:

إِنَّ اللّٰہَ اصْطَفَی آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبْرَاہِیْمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (آل عمران ۳:۳۳)

’’بے شک اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو دنیا والوں پر ترجیح دے کر منتخب کر لیا۔‘‘

آل ابراہیم کی تاریخ کے دور اول میں اس منصب کے حامل بنی اسرائیل تھے جبکہ آخری دور میں یہ ذمہ داری بنی اسماعیل کو سونپی گئی۔ بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا:

یَا بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ اذْکُرُواْ نِعْمَتِیَ الَّتِیْ أَنْعَمْتُ عَلَیْْکُمْ وَأَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (البقرہ ۲:۴۷)

’’اے بنی اسرائیل، میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی اور اس بات کو بھی کہ میں نے جہان والوں پر تمھیں فضیلت بخشی۔‘‘

سورۂ مائدہ میں ہے:

وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ أَنبِیَاء وَجَعَلَکُم مُّلُوکاً وَآتَاکُم مَّا لَمْ یُؤْتِ أَحَداً مِّن الْعَالَمِیْنَ (المائدہ ۵:۲۰)

’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم، اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے تمھارے اندر نبی بھیجے اور تمھیں بادشاہ بنایا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو جہان والوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔‘‘

بنی اسرائیل کے بعد، بنی اسماعیل کے اس منصب پر فائز کیے جانے کا ذکر بھی قرآن نے جگہ جگہ مختلف الفاظ اور اسالیب میں کیا ہے۔ سورۂ حج میں فرمایا:

وَجَاہِدُوا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّۃَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِن قَبْلُ وَفِی ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیْداً عَلَیْْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَاعْتَصِمُوا بِاللّٰہِ ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلیٰ وَنِعْمَ النَّصِیْرُ (الحج ۲۲:۷۸)

’’اور اللہ کے راستے میں اس طرح جدوجہد کرو جیسے جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اسی نے تمھیں چن لیا ہے اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالی۔ اپنے باپ ابراہیم کے دین کے پیروکار بن جاؤ۔ اسی نے اس سے پہلے بھی اور اس زمانے میں بھی تمہیں ’مسلم‘ کا لقب دیا۔ اللہ نے تمھیں چن لیا ہے تاکہ رسول تو تم پر حق کی گواہی دیں اور تم اقوام عالم پر اس کے گواہ بن کر کھڑے ہو جاؤ۔ پس نماز قائم کرتے رہو، زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کے سہارے کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔ وہی تمہارا آقا ہے اور کیا ہی اچھا آقا اور کیسا بہترین مددگار ہے۔‘‘ 

سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے:

وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً (البقرہ ۲:۱۴۳)

’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں درمیان کا ایک گروہ بنایا تاکہ تم لوگوں پر اس دین کے گواہ بن جاؤ اور رسول تم پر اس کی گواہی دے۔‘‘

مذکورہ دونوں مقامات کے سیاق وسباق سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ’شہادت علی الناس‘ کے منصب کا ذکر خاص طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے بنی اسماعیل یعنی صحابہ کے تناظر میں ہوا ہے۔ 

سورۂ بقرہ میں اس کا ذکر ملت ابراہیمی کی ابتدا اور اس کی تاریخ کے آخری دور کے ضمن میں ہوا ہے۔ آیت ۱۲۴ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے منصب امامت کے لیے منتخب کیے جانے کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے کعبہ کی تعمیر کے موقع پر یہ دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں بھی ایک ’امت مسلمہ‘ پیدا ہو اور ان میں ایک رسول مبعوث کیا جائے جو تلاوت آیات اور تعلیم کتاب وحکمت کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کرے۔ اس کے بعد یہود ونصاریٰ کے اس دعوے کی تردید کی گئی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام ان کی ملت کے پیروکار تھے۔ پھر تحویل قبلہ کے واقعہ کا تذکرہ کر کے یہ حقیقت نمایاں کی گئی ہے کہ دین ابراہیمی میں اصل مرکز اور محور کی حیثیت کعبہ معظمہ ہی کو حاصل ہے اور یہود کی یہ خواہش کہ یہ حیثیت مسجد اقصیٰ کو دی جائے، بالکل بے بنیاد ہے۔ تحویل قبلہ کے حکم ہی کے ضمن میں منصب ’شہادت‘ کا ذکر کیا گیا ہے اور صحابہ کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ تمھیں اللہ تعالیٰ نے ایک درمیانی امت بنایا ہے تاکہ اللہ کا رسول تم پر اور تم لوگوں کے سامنے دین حق کی شہادت دو۔ پھر بیت اللہ کو سفر وحضر میں قبلہ مقرر کرنے کی ہدایات دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ سیدنا ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے اپنی ذریت میں جس نبی اور جس امت مسلمہ کے پیدا ہونے کی دعا کی تھی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کی صورت میں عملاً ظہور پذیر ہو چکی ہے۔ آیات کے اس سیاق وسباق سے صاف واضح ہے کہ ’شہادت علی الناس‘ کا منصب خاص طور پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں پیدا ہونے والے اس گروہ کو دیا گیا جس کو ابو الانبیاء نے ’’امۃ مسلمۃ‘‘ کا لقب دیا اور جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث کیے جانے کی دعا کی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس کا مصداق صحابہ کے سوا کوئی دوسری جماعت نہیں ہو سکتی۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:

ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعث فی الامیین الآخذین بالملۃ الاسماعیلیۃ وقدر اللہ فی سابق علمہ انہم ہم القائمون بنصرۃ دینہ وہم شہداء اللہ علی الناس من بعدہ وہم خلفاؤہ فی امتہ (حجۃ اللہ البالغۃ ۱/۵۵۱، ۵۵۲)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امیین میں مبعوث کیا گیا جو ملت اسماعیلی کے پیروکار تھے۔ اللہ نے اپنے علم میں پہلے سے ہی طے فرما دیا تھا کہ یہی امیین آپ کے دین کی مدد کے لیے کھڑے ہوں گے، وہی آپ کے بعد لوگوں پر اللہ کے گواہ ہوں گے اور وہی آپ کی امت میں آپ کی خلافت کی ذمہ داری انجام دیں گے۔‘‘

سورۂ حج میں اس آیت پر سورہ کااختتام ہوا ہے، چنانچہ اس کے صحیح محل کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سورۂ حج کا پورا نظم نگاہوں میں ہو۔ اس سورہ کی ابتدائی ۲۳ آیات میں قیامت کے اثبات اور شرک کی تردید پر دلائل دیے گئے ہیں۔ پھر آیت ۲۴ سے ۳۸ تک بیت اللہ کی تعمیر وتاسیس کی تاریخ اور اس کے مقصد تعمیر کی وضاحت کی گئی ہے۔ آیت ۳۹ تا ۴۱ میں مکہ سے نکالے جانے والے مہاجرین کو ظلم کے خلاف تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے اور ان سے نصرت کا وعدہ کرنے کے ساتھ یہ ذمہ داری ان پر واضح کی گئی ہے کہ جب انھیں سرزمین عرب میں اقتدار مل جائے تو وہ نماز کے قیام، زکوٰۃ کی ادائیگی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں گے۔ 

وَلَیَنصُرَنَّ اللَّہُ مَن یَنصُرُہُ إِنَّ اللَّہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ ۔ الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَۃُ الْأُمُورِ (الحج ۲۲:۴۱، ۴۲)

’’اور اللہ ضرور ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔ بے شک اللہ نہایت قوت والا غالب آنے والا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو اس سرزمین میں اقتدار دیں گے تو نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور بھلائی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔ اور معاملات کا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘

اس کے بعد آیت ۴۲ تا ۷۶ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے منکرین کے مختلف اعتقادی اور عملی رویوں پر تنقید کی گئی اور ان کے طرز عمل کی شناعت واضح کی گئی ہے۔ اسی سلسلہ بیان میں آیت ۵۸ تا ۶۰ میں مہاجرین کو ایک بار پھر فتح ونصرت اور کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔ اس ساری بحث کے بعد سورہ کا اختتام ان آیات پر ہوتا ہے جن میں اہل ایمان کو مخاطب کر کے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا اور ان پر واضح کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’شہداء علی الناس‘ کے منصب پر فائز ہیں۔ 

یہاں بھی دیکھ لیجیے، سورہ میں جس گروہ کے احوال، ذمہ داریاں اور جدوجہد زیر بحث ہے اور جن سے نصرت اور فتح کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ بالکل واضح طور پر صحابہ کرام ہی کی جماعت ہے اور سورہ کے اس مربوط نظام میں اختتامیہ کے طور پر وارد ہونے والی ان آیات کی تفسیر کسی بھی طرح سے اس تناظر سے ہٹ کر نہیں کی جا سکتی۔ پھر آیات کے سیاق کے علاوہ خود آیت کے اندر داخلی طور پر دو شہادتیں، یعنی ’اجتبکم‘ اور ’ملۃ ابیکم ابراہیم ہو سمکم المسلمین‘ ایسی ہیں جو بالکل قطعی طور پر اس کو ذریت ابراہیم کے ساتھ خاص کر دیتی ہیں۔ قرآن مجید نے خود سورہ بقرہ میں اس اشارے کی تفصیل کی ہے اور بتایا ہے کہ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے اپنی ’ذریت‘ میں ایک امت کے پیدا ہونے کی دعا کی تھی اور اس کو ’مسلمہ‘ کا لقب دیا تھا۔ یہ دعا بھی واضح طور پر ’ذریت ابراہیم‘ کے لیے خاص تھی۔ یہ وہ واضح قرائن ہیں جن کی بنا پر اس آیت کا مصداق صحابہ کرام کے علاوہ کسی اور گروہ کو قرار دینا ممکن نہیں۔ امام ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:

وقولہ تعالی (ہو اجتباکم) یدل علی انہم عدول مرضیون وفی ذلک بطلان طعن الطاعنین علیہم اذ کان اللہ لا یجتبی الا اہل طاعتہ واتباع مرضاتہ وفی ذلک مدح للصحابۃ المخاطبین بذلک ودلیل علی طہارتہم (احکام القرآن، ۳/۲۵۱، ۲۵۲)

’’اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’اس نے تمھیں چن لیا ہے‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اللہ کے نزدیک عادل اور پسندیدہ ہیں۔ اس سے ان پر طعن کرنے والوں کا طعن باطل ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو منتخب کرتا ہے جو اس کے فرماں بردار اور اس کی مرضی پر چلنے والے ہوں۔ نیز اس میں صحابہ کی، جو اس آیت کے مخاطب تھے، توصیف وتعریف اور ان کے پاکیزہ ہونے کی دلیل بھی موجود ہے۔‘‘

مذکورہ آیات کے سیاق وسباق کے علاوہ یہی بات قرآن مجید کے عرف سے بھی واضح ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے کسی طالب علم سے یہ بات مخفی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کے مختلف مقامات پر متنوع اسالیب میں جس جماعت کو اللہ تعالیٰ کی منتخب کردہ جماعت قرار دے کر اس کے ایمان وعمل کو نمونہ اور معیار ٹھہرایا گیا ہے، وہ صحابہ ہی کی جماعت ہے۔سورۂ آل عمران میں ارشاد ہوا ہے:

کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ (آل عمران ۳:۱۱۰)

’’تم ایک بہترین گروہ ہو جسے لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘

یہ آیت جس سلسلہ بیان میں آئی ہے، ا س کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ اے اہل ایمان! اللہ سے کماحقہ ڈرو اور اس کی اس نعمت کو یاد رکھو کہ اس نے تمہاری باہمی دشمنیوں کو ختم کر کے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے الفت پیدا کی اور تمھیں بھائی بھائی بنا دیا۔ اس کے بعد سابقہ مذہبی گروہوں کے رویے سے گریز کی تلقین کرتے ہوئے زیر بحث آیت میں اہل ایمان پر ان کی ذمہ داری واضح کی گئی ہے اور اس کے بعد اگلی آیت میں ان سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے مخالف گروہوں پر ہر حال میں غالب رہیں گے:

لَن یَضُرُّوکُمْ إِلاَّ أَذًی وَإِن یُقَاتِلُوکُمْ یُوَلُّوکُمُ الأَدُبَارَ ثُمَّ لاَ یُنصَرُونَ (آل عمران ۳:۱۱۱)

’’یہ زبانی اذیت کے سوا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ اور اگر تم سے لڑنے آئیں گے تو پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔ پھر انھیں کہیں سے مدد بھی میسر نہیں ہوگی۔‘‘

سیاق اور سباق دونوں سے واضح ہے کہ یہاں مخاطب خاص طور پر صحابہ ہی کی جماعت ہے، اس لیے کہ ’خیر امت‘ کا لقب دینے سے پہلے دلوں میں الفت ومحبت پیدا کرنے کی جس نعمت کا ذکر کیا گیا ہے، وہ بھی انھی کو عطا کی گئی تھی اور اس کے بعد جس فتح ونصرت کی بشارت دی گئی ہے، وہ بھی انھی کے لیے خاص ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود حضرات صحابہ کرام نے ’خیر امت‘ کے اعزاز کو اپنے لیے خاص قرار دیا۔ سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں:

لو شاء اللہ لقال انتم فکنا کلنا ولکن قال کنتم فی خاصۃ من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومن صنع مثل صنیعہم کانوا خیر امۃ اخرجت للناس یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر (تفسیر الطبری، ۴/۴۳)

’’اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو یہ فرماتے کہ ’انتم‘ تاکہ ہم سب اس کا مصداق ٹھہرتے، لیکن اس نے ’کنتم‘ کہا ہے جس کا مصداق رسول اللہ صلی اللہ کے مخصوص اصحاب اور وہ لوگ ہیں جو ان کے طریقے پر چلیں۔ رسول اللہ کے یہ اصحاب ہی وہ بہترین جماعت تھے جنھیں لوگوں کی ہدایت کے لیے نکالا گیا اور جو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے تھے۔‘‘

نیز فرماتے ہیں:

تکون لاولنا ولا تکون لآخرنا (تفسیر الطبری، ۴/۴۳)

’’اس آیت کا مصداق ہمارا اولین گروہ تو ہے لیکن بعد میں آنے والے نہیں۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

ہم الذین ہاجروا مع محمد صلی اللہ علیہ وسلم الی المدینۃ (مسند احمد، رقم ۲۳۳۴)

’’یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اصحاب ہیں جنھوں نے آپ کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔‘‘

تابعی مفسر امام ضحاک فرماتے ہیں:

ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاصۃ یعنی وکانوا ہم الرواۃ الدعاۃ الذین امر اللہ المسلمین بطاعتہم (تفسیر الطبری، ۴/۴۴)

’’اس سے مراد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں۔ وہی اس دین کے راوی اور داعی ہیں جن کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔‘‘

ابن عبد البر فرماتے ہیں:

وثبت بہم حجۃ اللہ تعالی علی المسلمین فہم خیر القرون وخیر امۃ اخرجت للناس ثبتت عدالۃ جمیعہم بثناء اللہ عزوجل علیہم وثناء رسولہ علیہ السلام (الاستیعاب، ۱/۱، ۲)

’’صحابہ ہی کے ذریعے اللہ کی حجت (بعد کے) مسلمانوں پر ثابت ہوئی، چنانچہ وہی وہ بہترین گروہ ہیں جنھیں لوگوں کے لیے نکالا گیا۔ ان سب کا عادل ہونا اس تعریف سے ثابت ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے ان کے حق میں بیان فرمائی ہے۔‘‘

ومعلوم ان مواجہۃ رسول اللہ ثم لاصحابہ بقولہ انتم خیرہا اشارۃ الی التقدمۃ فی الفضل الیہم علی من بعدہم (الاستیعاب، ۱/۹)

’’واضح ہے کہ ’انتم‘ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مخاطب کرنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو بعد میں آنے والوں کے مقابلے میں فضیلت حاصل ہے۔‘‘

دوسرے مقامات پر قرآن مجید نے صحابہ ہی کی جماعت کو مخاطب کر کے انھیں سرزمین عرب میں غلبہ اور اقتدار کی بشارت دی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ بنی اسمٰعیل کو ملنے والا حکومت واقتدار دراصل اسی وعدے کا مصداق اور تسلسل ہے جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کی اولاد کے حوالے سے کیا تھا۔ سورۂ نساء میں آل اسماعیل کے خلاف یہود کے حسد اور بغض پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:

أَمْ یَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَی مَا آتَاہُمُ اللّہُ مِن فَضْلِہِ فَقَدْ آتَیْْنَا آلَ إِبْرَاہِیْمَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَآتَیْْنَاہُم مُّلْکاً عَظِیْماً (النساء ۴:۵۴)

’’کیا یہ یہود اللہ کے اس فضل پر جو اس نے ان امیوں کو دیا ہے، ان سے حسد کرتے ہیں؟ تو یقیناًہم نے آل ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور ہم نے ان کو بہت بڑی سلطنت دینے کا فیصلہ بھی کر رکھا ہے۔‘‘

آیت سے واضح ہے کہ حکومت وبادشاہت کا یہ وعدہ خاص طور پر ’آل ابراہیم‘ کے ساتھ کیا گیا تھا جس کا مصداق آخری دور میں صحابہ کرام کی جماعت تھی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’یعنی کیا یہود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب پر اللہ کے فضل وانعام کو دیکھ کر حسد میں مرے جاتے ہیں۔ سو یہ تو بالکل ان کی بے ہودگی ہے کیونکہ ہم نے حضرت ابراہیم کے گھرانے میں کتاب اور علم اور سلطنت عظیم عنایت کی ہے۔ پھر یہود آپ کی نبوت اور عزت پر کیسے حسد اور انکار کرتے ہیں۔ اب بھی تو ابراہیم ہی کے گھر میں ہے۔‘‘ (تفسیر عثمانی، ص ۱۱۳)

سورۂ نور میں زیادہ صریح الفاظ میں ارشاد ہوا ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور ۲۴:۵۵)

’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کیے، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ضرور ان کو اس سرزمین میں اقتدار دے گا جیسا کہ ان سے پہلے والے گروہ کو دیا تھا، اور ان کے لیے اپنے اس دین کو مستحکم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور خوف کی اس حالت کو بدل کر ان کے لیے امن قائم کر دے گا۔ یہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کریں گے، سو وہی لوگ بدکار ہوں گے۔‘‘

سیاق وسباق کے علاوہ خود آیت کے اندر ’الذین آمنوا منکم‘ کے الفاظ اس بات پر نص صریح کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اس وعدے کے مخاطب صرف صحابہ کرام ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

واما من حدث فی زمن الفتنۃ کالرافضۃ الذین احدثوا فی الاسلام فی زمن الفتنۃ والافتراق وکالخوارج المارقین فہولاء لم یتناولہم النص فلم یدخلوا فی من وصف بالایمان والعمل الصالح المذکورین فی ہذہ الآیۃ لانہم اولا لیسوا من الصحابۃ المخاطبین بہذا ولم یحصل لہم من الاستخلاف والتمکین والامن بعد الخوف ما حصل للصحابۃ بل لا یزالون خائفین مقلقلین غیر ممکنین (منہاج السنۃ، ۱/۱۵۷)

’’وہ گروہ جو فتنے کے زمانے میں پیدا ہوئے، مثلاً رافضی جنھوں نے فتنے اور انتشار کے دور میں اسلام میں بدعات گھڑیں اور خوارج جو دین ہی سے نکل گئے، تو یہ لوگ اس آیت کے دائرے میں نہیں آتے جس میں اس گروہ کے لیے ایمان اور عمل صالح کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ اس کی سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ان کا شمار صحابہ میں نہیں ہے جن کو مخاطب کر کے یہ بات کہی گئی تھی اور نہ ان کو اقتدار اور استحکام اور خوف کے بعد امن کی وہ حالتیں حاصل ہوئیں جو صحابہ کو ملی تھیں بلکہ یہ تو ہمیشہ خوف اور بے چینی اور عدم استحکام کی حالت میں رہے۔‘‘

شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:

’’لفظ منکم راجع ست بحاضرین نہ بمسلمین قاطبۃ زیرا کہ اگر جمیع مسلمین مراد می بودند بذکر لفظ منکم با کلمہ الذین آمنوا وعملوا الصالحات تکرار لازم می آمد پس حاصل معنی آنست کہ وعدہ براے جمعی است از شاہدان نزول آیہ کہ تمکین دین بر وفق سعی ایشان واجتہاد وکوشش ایشاں بظہور خواہد رسید۔‘‘ (ازالۃ الخفاء ۱/۱۱)

’’لفظ منکم حاضرین کی طرف راجع ہے نہ کہ تمام مسلمانوں کی طرف۔ کیونکہ اگر تمام مسلمان مراد لیے جائیں تو الذین آمنوا وعملوا الصالحات کے ساتھ منکم کا کلمہ زائد قرار پاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ یہ وعدہ آیت کے نزول کے وقت موجود ایک گروہ سے ہے کیا گیا ہے جس کی کوشش اور محنت سے دین کو غلبہ حاصل ہوگا۔‘‘

اس بحث سے واضح ہے کہ قرآن مجید میں ’شہادت علی الناس‘ کے منصب کا ذکر دراصل صحابہ کے حوالے سے ہوا ہے۔ تاریخ کی رو سے ’شہادت حق‘ کے معیار پر پورا اترنے والی جماعت بھی عملاً صرف صحابہ کرام ہی کی جماعت تھی اور اسی بنیاد پر انہیں استخلاف فی الارض کی دولت عطا فرمائی گئی تھی۔ ’شہادت‘ اور ’خیریت‘ کا منصب اور حکومت واقتدار کا وعدہ، یہ سب کے سب مکمل طور پر باہم مربوط اور ایک ہی حقیقت کے مختلف پہلو ہیں اور قرآن کے ان تمام بیانات کو ایک دوسرے سے الگ کر کے انفرادی طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ 

صحابہ کے جہاد کا متعین اور محدود ہدف

اب دوسرے نکتے کو دیکھیے:

بنی اسرائیل کے لیے حکومت واقتدار کا وعدہ، جیسا کہ ہم اوپر صحف سماوی کے نصوص کی روشنی میں واضح کر چکے ہیں، متعین جغرافیائی حدود کے اندر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی یہ بات بہت وضاحت سے نقل ہوئی ہے کہ آپ کی امت کو خطہ ارضی کے ایک محدود اور متعین علاقے میں حکومت واقتدار عطا کیا جائے گا۔ حضرت ثوبان سے روایت ہے:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا ما زوی لی منہا (مسلم، رقم ۵۱۴۴)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق ومغرب کے علاقے دیکھ لیے اور بے شک میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے۔‘‘

یہ روم اور فارس کی سلطنتوں کا علاقہ تھا اور آپ نے جزیرۂ عرب سے باہر حاصل ہونے والی ان فتوحات کی بشارت ہمیشہ ان دو سلطنتوں یا ان کے زیر اثر علاقوں ہی کے حوالے سے دی۔ امت مسلمہ کو عملاً حاصل ہونے والی فتوحات کا دائرہ روم وفارس کی سلطنتوں سے کہیں وسیع تھا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اہتمام سے ان کا ذکر اپنی پیش گوئیوں میں نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ علاقے اصلاً اور بالذات موعودہ فتوحات میں داخل نہیں تھے بلکہ ان کی نوعیت روم وفارس کی فتوحات کے تتمہ وتکملہ اور ان کے ناگزیر لوازم کی تھی، بلکہ بعض اقوام، مثلاً ترکوں اور اہل حبشہ کے بارے میں آپ نے صحابہ کو اس بات کی وصیت فرمائی کہ وہ ان کے خلاف ازخود جنگ کا اقدام نہ کریں۔ آپ نے فرمایا:

ثم ضربت الثالثۃ فرفعت لی مدائن الحبشۃ وما حولہا من القری حتی رایتہا بعینی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عند ذلک دعوا الحبشۃ ما ودعوکم واترکوا الترک ما ترکوکم (نسائی، رقم ۳۱۲۵)

’’پھر میں نے تیسری مرتبہ ضرب لگائی تو (اس سے اڑنے والی چنگاریوں کی روشنی میں) مجھے حبشہ اور اس کے ارد گرد کی بستیاں دکھائی گئیں یہاں تک میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ ا س موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک اہل حبشہ تمہارے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں، تم بھی نہ کرنا۔ اور ترک بھی جب تک تم سے تعرض نہ کریں، تم ان سے گریز کرنا۔‘‘

یہ روایت مختلف طرق سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۶۸۲۰)، عبد اللہ بن مسعود اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جبکہ اہل حبشہ کے بارے میں آپ کے اس جملے کو سعید بن المسیب نے اپنی ایک مرسل روایت میں نقل کیا ہے۔ (الاموال، ۹۵) اس کی تفصیلی تخریج کے لیے ملاحظہ ہو:

http://www.muslm.net/vb/archive/index.php/t-165484.html

ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ روایت صحابہ کے دور میں معروف تھی، چنانچہ سیدنا معاویہ کو جب اطلاع ملی کہ ان کے ایک کمانڈر نے ترکوں پر حملہ کر کے انھیں ایک لڑائی میں شکست دی ہے تو وہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور اسے لکھا کہ جب تک میرا حکم نہ آئے، ترکوں سے لڑائی نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ترک عربوں کو نکال کر دور دراز علاقے کی طرف دھکیل دیں گے۔ (فتح الباری ۶/۶۰۹) سیدنا عمر کے فوجی کمانڈر احنف بن قیس نے بھی ایک موقع پر ’اترکوا الترک ما ترکوکم‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ترکوں سے جنگ کرنے سے گریز کیا تھا۔ (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۱۲۸) 

ابن رشد لکھتے ہیں:

روی عن مالک انہ قال لا یجوز ابتداء الحبشۃ بالحرب ولا الترک لما روی انہ علیہ الصلاۃ والسلام قال ذروا الحبشۃ ما وذرتکم وقد سئل مالک عن صحۃ ہذا الاثر فلم یعترف بذلک لکن قال لم یزل الناس یتحامون غزوہم (بدایۃ المجتہد ۱/۲۷۹)

’’امام مالک سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ اہل حبشہ اور ترکوں کے خلاف جنگ کی ابتدا کرنا جائز نہیں۔ ان کے اس قول کی وجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ جب تک اہل حبشہ تم سے گریز کرتے رہیں، تم بھی گریز کرتے رہو۔ امام مالک سے اس حدیث کی صحت کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے اس کا اقرار نہیں کیا، بلکہ کہا کہ مسلمان اہل حبشہ کے خلاف جنگ کرنے سے گریز کرتے چلے آ رہے ہیں۔‘‘

اس پس منظر میں یہ بات صحابہ پر بالکل واضح تھی کہ ان کی ذمہ داری اصلاً کوئی عالمگیر اسلامی حکومت قائم کرنا نہیں، بلکہ ایک محدود اور متعین دائرے میں اسلام کا غلبہ قائم کرنا ہے۔ چنانچہ خلفاے راشدین کے عہد میں کیے جانے والے جنگی اقدامات کے بارے میں تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ ان کا ہدف وہی محدود علاقہ تھا جس کو فتح کرنے کی انھیں اجازت دی گئی تھی اور ان اقوام سے آگے انھوں نے ازخود کوئی جارحانہ اقدام کسی قوم کے خلاف نہیں کیا۔ اس ضمن میں تاریخی تفصیلات حسب ذیل ہیں:

سیدنا عمرؓ نے اپنے عہد حکومت میں جہاد وقتال کے اقدامات کو ایک خاص دائرے تک محدود رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن ان کی کوشش اور خواہش کے باوجود معروضی حالات کے باعث اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ دیکھیے:

رومی سلطنت کے خلاف جہاد سے مقصود اصلاً شام کے علاقے پر قبضہ کرنا تھا اور یہ متعین ہدف آغاز ہی سے فریقین پر بالکل واضح تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد فتنہ ارتداد سے نمٹنے کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر نے اپنے مختلف جرنیلوں کی قیادت میں شام کے مختلف علاقوں پر قبضے کے لیے لشکر روانہ کیے تو قیصر روم نے اس موقع پر کوشش کی کہ شام کا علاقہ صلحاً مسلمانوں کے حوالے کر کے مستقل بنیادوں پر ان کی پیش قدمی کو روک دیا جائے۔ اس نے رومی سلطنت کے اہل حل وعقد سے کہا:

ویحکم ان ہولاء اہل دین جدید وانہم لا قبل لاحد بہم فاطیعونی وصالحوہم بما تصالحونہم علی نصف خراج الشام ویبقی لکم جبال الروم وان انتم ابیتم ذلک اخذوا منکم الشام وضیقوا علیکم جبال الروم (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ۷/۵)

’’تمھارا ناس ہو، یہ لوگ ایک نئے دین کے پیروکار ہیں اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے میری بات مان لو اور ان کے ساتھ اس بات پر صلح کر لو کہ شام کا آدھا خراج ان کو ادا کیا جائے گا اور جبال الروم تمھارے لیے محفوظ رہیں گے۔ اگر تم یہ بات نہیں مانو گے تو وہ تم سے شام کا علاقہ بھی لے لیں گے اور جبال الروم میں بھی تمھیں پریشان کیے رکھیں گے۔‘‘ 

حضرت صدیق اکبر کی طرف سے خالد بن ولید کو عراق کے محاذ پر مامور کیا گیا تھا جہاں سے انھیں ضرورت کے تحت شام کے محاذ پر بھیج دیا گیا، لیکن انھیں یہ ہدایت کردی کہ شام کی فتح سے فارغ ہو کر واپس عراق چلے جائیں۔ (البدایہ والنہایہ ۷/۵) اجنادین میں فتح کے بعد خالد بن ولید نے سیدنا ابوبکر کو اس کی اطلاع بھیجی تو جوابی خط میں انھوں نے لکھا:

اجعل السیر دابک الی ان تطا اقصی ارضہم وانزل علی جنۃ الشام الی ان یاذن اللہ تعالیٰ بفتحہا علی یدیک ثم الی حمص والمعرات واطلب انطاکیۃ ..... وان نزلت علی المدینۃ العظمی ذات الجبل المطل انطاکیۃ فان الملک ہناک فان صالحک فصالحہ وان حاربک فحاربہ ولا تدخل الدروب او تکاتبنی بذالک (واقدی، فتوح الشام ۱۳۲)

’’برابر بڑھتے چلے جاؤ یہاں تک کہ ان کی سرزمین کے آخری کنارے تک پہنچ جاؤ۔ شام کے باغات پر جا کر ٹھہرو یہاں تک کہ اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں مفتوح کر دے۔ پھر حمص اور معرات کو فتح کرو اور انطاکیہ کا قصد کرو۔ جب اونچے پہاڑوں والے بہت بڑے شہر انطاکیہ پہنچ جاؤ تو رومیوں کا بادشاہ وہیں ہے۔ اگر وہ صلح کرنا چاہے تو اس سے صلح کر لو اور اگر جنگ کرنا چاہے تو اس سے جنگ کرو۔ پہاڑی دروں میں داخل نہ ہونا جب تک کہ مجھ سے خط وکتابت کر کے مشورہ نہ کر لو۔‘‘

وفات سے قبل انھوں نے سیدنا عمر کو بھی وصیت کی کہ وہ عراق کے محاذ کی طرف بھرپور توجہ دیں اور جیسے ہی شام کا علاقہ فتح ہو جائے، خالد بن ولید کے لشکر کو بھی وہاں سے ہٹا کر عراق کے محاذ پر بھیج دیا جائے، کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی وہاں کی جنگ کا زیادہ تجربہ رکھتے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ، ۷/۱۸) چنانچہ سیدنا عمرؓ نے شام کے مفتوح ہونے کے بعد اس محاذ پر پیش قدمی روک دی اور بنو کنانہ اور بنو ازد کے جنگ جوؤں کی ایک جماعت نے ان کے پاس حاضر ہو کر شام کے محاذ پر لڑنے کی خواہش ظاہر کی تو انھوں نے فرمایا: 

ذلک قد کفیتموہ العراق العراق ذروا بلدۃ قد قلل اللہ شوکتہا وعددہا واستقبلوا جہاد قوم قد حووا فنون العیش (طبری، تاریخ الامم والملوک ۳/۴۶۳)

’’بنو کنانہ اور بنو ازد کے سات سو جنگجو سیدنا عمر کی خدمت میں آئے۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ کس محاذ پر لڑنا پسند کرو گے؟ انہوں نے کہا: شام، جو ہمارے اسلاف کا علاقہ ہے۔ آپ نے کہا، وہاں کا بندوبست ہو چکا ہے۔ تم عراق کی طرف جاؤ۔ اس ملک کو چھوڑ دو جہاں اللہ نے قوت وشوکت اور اسباب ووسائل کم رکھے ہیں۔ اس کے بجائے اس قوم کے ساتھ لڑنے کے لیے روانہ ہو جاؤ جہاں قسم قسم کے اسباب معاش میسر ہیں۔‘‘

۱۶ ہجری میں فتح بیت المقدس کے موقع پر انھوں نے اہل شہر پر یہ شرط عائد کی کہ رومیوں کو تین دن کے اندر شہر سے نکال دیں۔ (البدایہ والنہایہ، ۷/۵۵) اس کی وجہ بھی غالباً یہ تھی کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ شہر میں آباد ان رومیوں کے ذریعے سے رومی سلطنت مسلمانوں کے خلاف موقع بموقع فتنہ انگیزی کی کوشش کرتی رہے۔ یزید بن ابی سفیان کو قیساریہ پر حملے کی ہدایت دیتے ہوئے بھی انھوں نے یہی وجہ بیان کی کہ اس طرح شام کے علاقے میں قیصر روم کی ساری امیدیں دم توڑ جائیں گی:

انہ لا یزال قیصر طامعا فی الشام ما بقی فیہا احد من اہل طاعتہ متبعا ولقد فتحتموہا قطع اللہ رجاء ہ من جمیع الشام (ازدی، فتوح الشام ۲۵۰)

’’اگر شام میں کوئی بھی شخص قیصر کی اطاعت اور اتباع کرنے والے باقی رہے گا تو شام کے بارے میں اس کی خواہش باقی رہے گی اور اگر تم قیساریہ کو بھی فتح کر لو گے تو اللہ پورے شام سے اس کی امیدوں کو ختم کر دے گا۔‘‘

اس محاذ پر دوبارہ پیش قدمی کی اجازت انھوں نے صرف اس وقت دی جب ۱۷ ہجری میں اہل روم نے مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں پر حملہ کرنے کی جرات کی۔ طبری لکھتے ہیں:

اول ما اذن عمر للجند بالانسیاح ان الروم خرجوا وقد تکاتبوا ہم واہل الجزیرۃ یریدون ابا عبیدۃ والمسلمین بحمص (تاریخ الامم والملوک ۴/۵۰)

’’سیدنا عمر نے سب سے پہلے اپنے لشکر کو رومیوں کے علاقے میں گھسنے کی اجازت اس وقت دی جب اہل روم اٹھے اور اہل جزیرہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے انھوں نے حمص میں ابو عبیدہ اور ان کے لشکر پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کیا۔‘‘

شام کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی ابتداء اً مسلم جرنیلوں کے پیش نظر نہیں تھا۔ مثال کے طور پر بلاذری بتاتے ہیں:

کان یزید بن ابی سفیان وجہ معاویۃ الی سواحل دمشق سوی اطرابلس فانہ لم یکن یطمع فیہا (فتوح البلدان ص ۱۳۴)

’’یزید بن ابی سفیان نے معاویہ کو دمشق کے ساحلی علاقوں کی طرف بھیجا، لیکن اطرابلس ان میں شامل نہیں تھا کیونکہ وہ اسے فتح کرنے کی خواہش نہیں رکھتے تھے۔‘‘

رومی حکومت کے زیر تسلط علاقوں میں بحیرۂ روم میں موجود بہت سے جزیرے بھی شامل تھے اور ان پر حملہ آور ہونے کا واحد راستہ سمندر تھا۔ شام کے محاذ کے کمانڈر یزید بن ابی سفیان کی وفات کے بعد ان کے بھائی سیدن معاویہ نے سیدنا عمر کو خط لکھا اور ساحلی علاقوں کی صورت حال بیان کی، تاہم انہوں نے سمندر میں لشکر کشی کی اجازت نہیں دی۔بلکہ لکھا کہ وہاں کے قلعوں کی مرمت کروا کر ان میں فوجیوں کو متعین کرو، نگرانی کے لیے چوکیدار مقرر کرو اور وہاں آگ جلانے کے ضروری انتظامات کرو۔ (بلاذری، فتوح البلدان، ص ۱۳۴، ۱۳۵)

سیدناعثمان کے زمانے میں امیر معاویہ نے ان سے دوبارہ جزیرۂ قبرص کا قریبی محل وقوع بیان کرتے ہوئے اس پر حملے کی اجازت طلب کی تو سیدنا عثمان نے ان کو لکھا:

قد شہدت ما رد علیک عمر رحمہ اللہ حین استامرتہ فی غزو البحر 

’’جب تم نے عمر رحمہ اللہ سے سمندر میں لشکر کشی کی اجازت مانگی تھی اور انہوں نے اس کو مسترد کر دیا تھا تو میں اس موقع پر موجود تھا۔‘‘

تاہم امیر معاویہ اس سلسلے میں مسلسل اصرار کرتے رہے، یہاں تک کہ ۲۷ ہجری میں سیدنا عثمان نے بالآخر ان کو اجازت دے دی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس حملے کے لیے جبراً کسی کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے، بلکہ صرف وہی افراد لشکر میں شریک ہوں جو اپنی رضامندی سے جانا چاہتے ہیں۔ (بلاذری، فتوح البلدان، ص ۱۵۹)

قادسیہ، مدائن اور جلولاء کے معرکوں کے بعد ۱۶ ہجری میں جنوبی عراق کا علاقہ، جس کو عرب مورخین ’سواد‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، مسلمانوں کے قبضے میں آ چکا تھا۔ سعد بن ابی وقاص نے مزید پیش قدمی کی اجازت چاہی تو سیدنا عمر نے انھیں اس سے روک دیا۔ طبری کا بیان ہے:

ثم کتب سعد الی عمر بما فتح اللہ علی المسلمین فکتب علیہ عمر ان قف ولا تطلبوا غیر ذلک فکتب الیہ سعد ایضا انما ہی سربۃ ادرکناہا والارض بین ایدینا فکتب الیہ عمر ان قف مکانک ولا تتبعہم (تاریخ الامم والملوک، ۳/۵۷۹)

’’پھر سعد نے خط لکھ کر سیدنا عمر کو مسلمانوں کو حاصل ہونے والی فتوحات کی خبر دی۔ سیدنا عمر نے جواب میں لکھا کہ بس اب رک جاؤ اور مزید علاقے فتح نہ کرو۔ سعد نے ان کو لکھا کہ یہ تو ایک ریوڑ ہے جس پر ہم نے قابو پا لیا ہے (تو جو شکار ہاتھ میں آیا ہے، اسے کیوں جانے دیں؟) اور زمین ہمارے سامنے پڑی ہوئی (اور فتح کی منتظر) ہے۔ سیدنا عمر نے ان کو دوبارہ یہی لکھا ہے کہ بس، اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور ان کو پیچھا نہ کرو۔‘‘

ایک روایت کے مطابق الفاظ یہ تھے:

اما بعد فقد جاء نی مابین العذیب وحلوان وفی ذلکم ما یکفیکم ان اتقیتم واصلحتم قال وکتب اجعلوا بینکم وبین العدو مفازۃ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۶۰۸)

’’اما بعد، عذیب اور حلوان کا علاقہ میرے قبضے میں آ چکا ہے اور اگر تم اللہ سے ڈرتے اور اصلاح احوال کرتے رہو تو یہ علاقہ تمہارے لیے کافی ہے۔ نیز انہوں نے ان کو لکھا کہ اپنے اور دشمن کے علاقے کے درمیان زمینی فاصلہ رکھو۔‘‘

طبری نے دوسری جگہ لکھا ہے:

وکتبوا الی عمر بفتح جلولاء وبنزول القعقاع حلوان واستاذنوہ فی اتباعہم فابی وقال لوددت ان بین السواد وبین الجبل سدا لا یخلصون الینا ولا نخلص الیہم حسبنا من الریف السواد انی آثرت سلامۃ المسلمین علی الانفال (تاریخ الامم والملوک، ۴/۲۸)

’’انہوں نے سیدنا عمر کو خط لکھ کر جلولاء کے فتح ہونے کی خبر دی اور بتایا کہ قعقاع حلوان کے مقام پر مقیم ہیں۔ نیز انہوں نے دشمن کا پیچھا کرنے کی اجازت مانگی لیکن سیدنا عمر نے انکار کر دیا اور کہا کہ میری یہ خواہش ہے کہ سواد اور جبل کے علاقے کے درمیان کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی ہو جائے جس کو عبور کر کے نہ وہ ہماری طرف آ سکیں اور نہ ہم ان کی طرف جا سکیں۔ ان شاداب خطوں میں سے ہمارے لیے سواد ہی کافی ہے۔ مجھے مال غنیمت کے مقابلے میں مسلمانوں کی سلامتی زیادہ عزیز ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

کانت الکوفۃ وسوادہا والفروج حلوان والموصل وماسبذان وقرقیسیاء ....... ونہاہم عما وراء ذلک ولم یاذن لہم فی الانسیاح (تاریخ الامم والملوک ۴/۵۰)

’’(فتح مدائن کے بعد مسلمانوں کے قبضے میں بس یہ علاقے تھے) کوفہ، سواد ، حلوان، موصل، ماسبذان اور قرقیسیاء۔ اور سیدنا عمر نے ان کو ان سے آگے بڑھنے سے منع کر دیا تھا اور بلاد عجم میں گھسنے کی اجازت نہیں دی تھی۔‘‘

طبری نے یہ بات متعدد جگہوں پر بیان کی ہے کہ سیدنا عمر عراق کے سرسبز وشاداب خطے میں سے صرف سواد کے علاقے پر قناعت کرنا چاہتے تھے:

وکان عمر قد رضی بالسواد من الریف (تاریخ الامم والملوک ۴/۳۱)

’’اور سیدنا عمر عراق کے سرسبز وشاداب علاقوں میں سے صرف سواد کے علاقے پر اکتفا کرنا چاہتے تھے۔‘‘

ابتداء اً اہل فارس نے بھی اس تقسیم کو قبول کر لیا۔ طبری لکھتے ہیں:

وقالوا جمیعا:ولما بلغ اہل فارس قول عمر ورایہ فی السواد وما خلفہ قالوا ونحن نرضی بمثل الذی رضوا بہ (تاریخ الامم والملوک ۴/۳۳)

’’تمام راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ جب اہل فارس تک سواد اور اس سے پیچھے کے علاقے کے بارے میں سیدنا عمر کی رائے پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ہم بھی اس پر راضی ہیں۔‘‘

الجزیرہ کا علاقہ فتح ہو گیا تو یہاں بھی سیدنا عمر نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ پیش قدمی کا سلسلہ کسی طرح سے یہیں رک جائے۔ طبری لکھتے ہیں:

وقد قال عمر حسبنا لاہل البصرۃ سوادہم والاہواز وددت ان بیننا وبین فارس جبلا من نار لایصلون الینا منہ ولا نصل الیہم کما قال لاہل الکوفۃ وددت ان بینہم وبین الجبل جبلا من نار لایصلون الینا منہ ولا نصل الیہم (تاریخ الامم والملوک ۴/۷۹)

’’سیدنا عمر نے کہا: ہم اہل بصرہ کے لیے سواد اور اہواز کا علاقہ کافی ہے۔ کاش ہمارے اور فارس کے علاقے کے درمیان آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا ۔ نہ وہ ہم تک پہنچ پاتے اور نہ ہم ان تک پہنچ پاتے۔ اسی طرح آپ نے اہل کوفہ کے بارے میں کہا تھا کہ کاش ان کے اور جبل کے علاقے کے مابین آگ کا کوئی پہاڑ ہوتا۔ نہ وہ اس طرف آ سکتے اور نہ ہم ادھر جا سکتے۔‘‘

علاء بن الحضرمی سیدنا ابوبکرؓ کے زمانے سے بحرین کے گورنر مقرر تھے۔ سیدنا عمر نے اپنے عہد میں انہیں برقرار رکھا اور ان کو تاکید کی کہ وہ سمندر عبور کر کے فارس کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ تاہم انھوں نے اس حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ طبری کا بیان ہے:

واستعملہ عمر ونہاہ عن البحر فلم یقدر فی الطاعۃ والمعصیۃ وعواقبہما فندب اہل البحرین الی فارس فتسرعوا الی ذلک ..... فحملہم فی البحر الی فارس بغیر اذن عمر وکان عمر لا یاذن لاحد فی رکوبہ غازیا یکرہ التغریر بجندہ استنانا بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبابی بکر لم یغز فیہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا ابوبکر (تاریخ الامم والملوک ۴/۷۹، ۸۰)

’’سیدنا عمر نے ان کو وہاں کا حاکم مقرر کیا اور انھیں سمندر میں مہم جوئی سے منع کیا، لیکن وہ اس حکم کی پابندی یا اس کی خلاف ورزی کی اہمیت اور ان کے نتائج کا ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ کر سکے اور اہل بحرین کو اہل فارس پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی جس پر وہ فوراً تیار ہو گئے۔ چنانچہ وہ سیدنا عمر کی اجازت کے بغیر ان کو لے کر سمندر میں روانہ ہو گئے۔ سیدنا عمر کسی کو بھی لشکر کشی کی غرض سے سمندر کے سفر کی اجازت نہیں دیتے تھے جس کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ وہ اپنے لشکر کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے تھے اور دوسری یہ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر کے طریقے پر قائم رہنا چاہتے تھے کیونکہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے راستے سے لشکر کشی کی اور نہ سیدنا ابوبکر نے۔‘‘

سیدنا عمر کو اس کی اطلاع ملی تو وہ شدید ناراض ہوئے اور عمرو کو ان کے عہدے سے معزول کر کے انہیں حکم دیا کہ وہ سعد بن ابی وقاص کے لشکر میں ان کے ماتحت کی حیثیت سے شریک ہو جائیں۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۸۱)

یاقوت حموی لکھتے ہیں:

ان عمر بن الخطاب اراد ان یتخذ للمسلمین مصرا وکان المسلمون قد غزوا من قبل البحرین توج ونوبندجان وطاسان فلما فتحوہا کتبوا الیہ انا وجدنا بطاسان مکانا لا باس بہ فکتب الیہم ان بینی وبینکم دجلۃ لا حاجۃ فی شئ بینی وبینہ دجلۃ ان تتخذوہ مصرا (معجم البلدان ۱/۴۳۰)

’’عمر بن الخطاب چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے لیے ایک شہر آباد کریں۔ مسلمانوں نے بحرین کی جانب سے توج اور بندجان اور طاسان پر حملہ کیا تھا۔ جب انھوں نے ان علاقوں کو فتح کر لیا تو امیر المومنین کو لکھا کہ ہمیں طاسان میں (شہر بسانے کے لیے) ایک مناسب جگہ مل گئی ہے۔ امیر المومنین نے جواب میں لکھا کہ میرے اور تمھارے درمیان درجلہ حائل ہے اور میں کسی ایسی جگہ پر شہر نہیں بسانا چاہتا جس کے اور میرے درمیان دجلہ حائل ہو۔‘‘

فارس کے علاقے میں عام لشکر کشی کی اجازت سیدنا عمر نے ۱۷ ہجری میں احنف بن قیس کی تجویز پر دی۔ سیدنا عمر کو جب مسلسل اہل فارس کی طرف سے شورش اور بغاوت کی اطلاعات ملیں تو انھوں نے اس کے اسباب کی تحقیق کی۔ ان کا خیال تھا کہ شاید مسلمان عمال وہاں کے باشندوں کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کرتے ہیں جس سے تنگ آ کر وہ بغاوت پر مجبور ہو جاتے ہیں، لیکن تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ بات درست نہیں۔ تاہم اس کے علاوہ بد امنی اور بغاوت کا کوئی اور واضح سبب بھی ان کے سامنے نہ آ سکا۔ اس موقع پر احنف بن قیس نے اصل صورت حال ان کے سامنے رکھی اور کہا:

یا امیر المومنین اخبرک انک نہیتنا عن الانسیاح فی البلاد وامرتنا بالاقتصار علی ما فی ایدینا وان ملک فارس حی بین اظہرہم وانہم لا یزالون یساجلوننا ما دام ملکہم فیہم ولم یجتمع ملکان فاتفقا حتی یخرج احدہما صاحبہ وقد رایت انا لم ناخذ شیئا بعد شئ الا بانبعاثہم وان ملکہم ہو الذی یبعثہم ولا یزال ہذا دابہم حتی تاذن لنا فلنسح فی بلادہم حتی نزیلہ عن فارس ونخرجہ من مملکتہ وعز امتہ فہنالک ینقطع رجاء اہل فارس ویضربون جاشا (طبری،تاریخ الامم والملوک ۴/۸۹)

’’اے امیر المومنین! میں آپ کو اصل بات بتاتا ہوں۔ آپ نے ہمیں مملکت فارس میں دور تک گھسنے سے منع کر رکھا ہے اور ان علاقوں پر اکتفا کرنے کا حکم دیا ہے جو ہمارے قبضے میں ہیں، جبکہ اہل فارس کا بادشاہ زندہ سلامت ان کے مابین موجود ہے اور جب تک وہ رہے گا، اہل فارس ہمارے ساتھ آمادۂ پیکار رہیں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک سرزمین میں دو بادشاہ اتفاق سے رہیں۔ ان میں سے ایک کو لازماً دوسرے کو نکالنا پڑے گا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں اہل فارس کی بغاوتوں ہی کے نتیجے میں ایک کے بعد دوسرے علاقے پر قبضہ کرنا پڑا ہے اور ان تمام بغاوتوں کا سرچشمہ ان کا بادشاہ ہے۔ اور ان کا وطیرہ یہی رہے گا جب تک کہ آپ ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ ہم ان کی مملکت میں گھس کر ان کے بادشاہ کو وہاں سے ہٹا دیں اور اس کی سلطنت اور سربلندی کی جگہ سے اس کو نکال دیں۔ اس صورت میں اہل فارس کی امیدیں ٹوٹ جائیں گی اور وہ پرسکون ہو جائیں گے۔‘‘

سیدنا عمر ان کے اس تجزیے پر مطمئن ہوئے اور اس کے بعد بلاد فارس پر لشکر کشی کی اجازت دے دی۔ 

لما رای عمر ان یزدجرد یبعث علیہ فی کل عام حربا وقیل لہ لایزال ہذا الداب حتی یخرج من مملکتہ اذن للناس فی الانسیاح فی ارض العجم حتی یغلبوا یزدجرد علی ما کان فی یدی کسری (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۳۸)

’’جب سیدنا عمر نے دیکھا کہ یزدگرد ہر سال کوئی نہ کوئی معرکہ کھڑا کر دیتا ہے اور ان کو بتایا گیا کہ اگر اسے اس کی مملکت سے نکالا نہ گیا تو وہ یونہی کرتا رہے گا، تب انھوں نے مسلمانوں کی اجازت دی کہ وہ سرزمین عجم میں گھس جائیں اور یزدگرد سے وہ سارا علاقہ چھین لیں جو اس کے قبضے میں ہے۔‘‘

یزدگرد کے بارے میں لکھا ہے:

وکاتب من مرو من بقی من الاعاجم فی ما لم یفتتحہ المسلمون فدانوا لہ حتی اثار اہل فارس والہرمزان فنکثوا وثار اہل الجبال والفیرزان فنکثوا وصار ذلک داعیۃ الی اذن عمر للمسلمین فی الانسیاح (تاریخ الامم والملوک ۴/۱۶۷)

’’اور اس نے مرو میں بیٹھ کر ان علاقوں کے اہل عجم سے خط وکتابت کی جن کو مسلمانوں نے فتح نہیں کیا تھا۔ انہوں نے اس کی اطاعت قبول کی، یہاں تک اس نے فارس اور ہرمزان کے باشندوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف ابھار کر معاہدہ توڑنے پر آمادہ کر لیا اور حبال اور فیرزان کے لوگ بھی معاہدے سے منحرف ہو گئے۔ اس صورت حال کے باعث سیدنا عمر کو مسلمانوں کو اجازت دینا پڑی کہ وہ بلاد عجم میں دور تک گھس جائیں (اور بغاوتوں کو فرو کریں)۔‘‘

خراسان کے فتح ہونے کی اطلاع ملی تو بھی سیدنا عمر نے اس پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا:

کتب الاحنف الی عمر بفتح خراسان فقال لوددت انی لم اکن بعثت الیہا جندا ولوددت انہ کان بیننا وبینہا بحر من نار فقال علی ولم یا امیر المومنین؟ قال لان اہلہا سینفضون منہا ثلاث مرات فیجتاحون فی الثالثۃ فکان ان یکون ذلک باہلہا احب الی من ان یکون بالمسلمین (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۶۸)

’’احنف نے سیدنا کو خط لکھ کر خراسان کے فتح ہونے کی اطلاع دی تو انہوں نے کہا: میری خواہش تو یہی تھی کہ میں وہاں کوئی لشکر نہ بھیجتا اور میں تو یہ چاہتا تھا کہ اس کے اور ہمارے درمیان آگ کا کوئی سمندر ہوتا (جسے عبور نہ کیا جا سکتا) سیدنا علی نے کہا: اے امیر المومنین، لیکن کیوں؟ سیدنا عمر نے کہا کہ یہاں کے باشندے تین مرتبہ گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوں گے اور تیسری مرتبہ تو بالکل برباد ہو جائیں گے۔ میں چاہتا تھا کہ یہ آفت انھی لوگوں پر آئے اور مسلمان اس سے محفوظ رہیں۔‘‘

نیز انھوں نے احنف بن قیس کو مزید پیش قدمی سے روک دیا:

وکتب عمر الی الاحنف ینہاہ عن العبور الی ما وراء النہر وقال احفظ ما بیدک من بلاد خراسان (البدایہ والنہایہ، ۷/۱۲۷)

’’سیدنا عمر نے احنف کو خط لکھ کر انھیں دریا پار کے علاقے میں داخل ہونے سے روک دیا اور کہا کہ تمہارے زیر نگیں جو خراسان کا علاقہ ہے، بس اسی کو سنبھالو۔‘‘

فارس کی فتوحات کے آخری مراحل میں نعمان بن مقرن نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

قد علمتم ما اعزکم اللہ بہ من ہذا الدین وما وعدکم من الظہور وقد انجز لکم ہوادی ما وعدکم وصدورہ وانما بقیت اعجازہ واکارعہ واللہ منجز وعدہ ومتبع آخر ذلک اولہ (تاریخ الامم والملوک، ۴/۱۳۱)

’’تم اس سربلندی سے بھی اچھی طرح واقف ہو جو اللہ نے تمہیں اس دین کی وجہ سے دی ہے اور غلبہ کے اس وعدے سے بھی جو اس نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔ دیکھو، اللہ نے اپنے وعدے کا بڑا حصہ تو پورا کر دیا ہے اور اب اس کا بس تھوڑا سا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ اور اللہ اپنے وعدے کو یقیناًپورا کرے گا اور پہلے کی طرح آخری حصے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچائے گا۔‘‘

سیدنا عمر نے فرمایا:

رایت انہ لم یبق شئ یفتح بعد ارض کسری (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۷)

’’میرا خیال ہے کہ کسریٰ کی سرزمین کے بعد اب کوئی علاقہ فتح نہیں ہوگا۔‘‘

ابن کثیرؒ نے فتوحات کے معاملے میں سیدنا عمر کی پالیسی ان الفاظ میں واضح کی ہے:

والمقصود ان عمر کان یحجر علی المسلمین ان یتوسعوا فی بلاد العجم خوفا علیہم من العجم حتی اشار علیہ الاحنف بن قیس بان المصلحۃ تقتضی توسعہم فی الفتوحات فان الملک یزدجرد لا یزال یستحثہم علی قتال المسلمین وان لم یستاصل شاو العجم والا طمعوا فی الاسلام واہلہ فاستحسن عمر ذلک منہ وصوبہ واذن للمسلمین فی التوسع فی بلاد العجم ففتحوا بسبب ذلک شیئا کثیرا (البدایہ والنہایہ، ۷/۸۸)

’’مطلب یہ ہے کہ سیدنا عمر نے اہل عجم کے خوف کے باعث مسلمانوں کے اس سے روکے رکھا کہ وہ بلاد عجم میں اپنی فتوحات کا سلسلہ بہت زیادہ پھیلائیں، یہاں تک کہ احنف بن قیس نے انھیں مشورہ دیا کہ مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ فتوحات کی توسیع کی جائے، کیونکہ شاہ فارس یزدگرد مسلسل اپنی قوم کو مسلمانوں کے خلاف قتال پر ابھار رہا ہے اور اگر ان کی ہمت نہ توڑی گئی تو وہ (اپنی سرزمین کے دفاع سے بڑھ کر) خود اسلام اور اہل اسلام کو اپنا نشانہ بنا لیں گے۔ سیدنا عمر نے اس رائے کو پسند کیا اور اس کو درست قرار دے کو مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر بلاد عجم کو فتح کرنے کی اجازت دے دی، جس کے باعث مسلمانوں نے بہت سے علاقے فتح کر لیے۔‘‘

یزدگرد نے مسلمانوں کے مقابلے میں جن بادشاہوں سے مدد چاہی، ان میں سندھ اور چین کے بادشاہوں کے علاوہ تاتاری بادشاہ خاقان بھی شامل تھا۔ چین کے بادشاہ نے تو یزدگرد کی مدد سے معذرت کر لی، تاہم خاقان نے مسلمانوں کے خلاف اسے بھرپور امداد فراہم کی۔ خراسان کی فتح کے بعد وہ یزدگرد کی مدد کے لیے ایک بڑی فوج لے کر آیا اور بلخ کا قبضہ مسلمانوں سے چھڑا لیا۔ پھر مرو الروذ کے مقام پر ایک معرکہ ہوا۔ تیسرے دن تاتاری فوجیں میدان میں نہیں آئیں۔ احنف بن قیس نے ان کا پیچھا کرنے سے گریز کیا:

وقد قال المسلمون للاحنف ما تری فی اتباعہم؟ فقال اقیموا بمکانکم ودعوہم وقد اصاب الاحنف فی ذلک فقد جاء فی الحدیث اترکوا الترک ما ترکوکم (البدایہ والنہایہ، ۷/۱۲۸)

’’مسلمانوں نے احنف سے پوچھا کہ ان کا پیچھا کرنے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا، اپنی جگہ ٹھہرے رہو اور ان کو جانے دو۔ (ابن کثیر کہتے ہیں) احنف کا یہ فیصلہ درست تھا کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ ترک جب تک تمہارے مقابلے میں نہ آئیں، ان سے تعرض نہ کرو۔‘‘

سیدنا عمر نے عبد الرحمن بن ربیعہ کو حکم دیا کہ وہ ترکوں کے خلاف جنگ کریں۔ وہ اپنا لشکر لے کر باب کو توڑ کر ترکوں کے علاقے میں داخل ہو گئے۔ ابتدا میں تو ترکوں پر رعب کی کیفیت طاری ہو گئی تاہم بعد میں انھوں نے شدید مزاحمت کی اور مسلمانوں کو میدان جنگ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ عبدالرحمن بن ربیعہ اس جنگ میں شہید ہو گئے۔ (البدایہ والنہایہ، ۷/۱۲۳، ۱۲۴)

اسی طرح سیدنا معاویہ کو جب اطلاع ملی کہ ان کے ایک کمانڈر نے ترکوں پر حملہ کر کے انھیں ایک لڑائی میں شکست دی ہے تو وہ اس پر سخت ناراض ہوئے اور اسے لکھا کہ جب تک میرا حکم نہ آئے، ترکوں سے لڑائی نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ترک عربوں کو نکال کر دور دراز علاقے کی طرف دھکیل دیں گے۔ (مسند ابی یعلی، ۷۳۷۶)

ایرانیوں کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے لیے جب جنگی مہمات کا ہمہ گیر منصوبہ تیار کیا گیا تو ہندوستان میں ایرانی طاقت کے بعض مراکز بھی زیر غور آئے۔ سندھ اور فارس کے سیاسی تعلقات پر روشنی ڈالتے ہوئے مشہور مورخ قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں:

’’مکران سے سراندیپ تک کے تمام ہندوستانی راجے مہاراجے شاہان ایران کے باج گزار اور وفادار تھے اور حسب ضرورت اپنے اموال اور رعایا سے ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ۱۷ ھ کے بعد دیگر مقامات کے حکمرانوں کی طرح ہندوستان کے یہ راجے مہاراجے بھی ایرانیوں کی مدد اور عربوں سے مقابلے کے لیے دوڑ دھوپ کرنے لگے اور ایک راجہ دوسرے راجہ کے پاس اس بارے میں رائے مشورہ کے لیے خطوط اور آدمی بھیجنے لگا یہاں تک کہ ۲۱ھ میں جنگ نہاوند میں ایرانیوں نے اپنی تمام اندرونی اور بیرونی طاقتیں اسلامی فوج کے مقابلے میں جمع کر لیں جن میں سندھ کے راجے اور یہاں کے سپاہی بھی تھے۔ اس واقعہ کے بعد اسلامی فوج نے اپنے حربی نقشہ میں ایران کے اہم مقامات کی طرح ہندوستان کے ان مقامات اور راجوں کو بھی درج کر لیا جہاں سے ان کے خلاف مدد آنے لگی تھی اور کھل کر عربوں کے مقابلہ میں صف آرائی کی نوبت آ گئی تھی۔‘‘ (خلافت راشدہ اور ہندوستان، ص ۶۹)

’’حالات وواقعات کی کڑی ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا یہ فیصلہ اور مکران پر حملہ کا منصوبہ ہندوستان کے راجوں کی روش کا عین رد عمل تھا تاکہ ایرانی فوجوں کو یہاں سے مدد نہ مل سکے اور نہ ہی باب الابواب سے لے کر سندھ وہند کی فوجی طاقت منظم ہو کر اسلامی فوج کے مقابلے میں آ سکے۔ مگر ایسے حالات پیدا ہوتے رہے کہ اس فیصلہ کے باوجود خلافت کی طرف سے بلاد فارس اور مکران پر فوج کشی کا موقع نہ مل سکا اور مخالف طاقتیں اس مدت میں پورے طور سے منظم ہو کر ۲۱ھ میں جنگ نہاوند میں مسلمانوں کے مقابلے میں ڈٹ گئیں۔ بالفاظ دیگر مسلمانوں کی طرف سے مزید اتمام حجت ہو گئی اور اب ان ایرانی اور ہندوستانی جنگ بازوں سے نبٹنا بالکل ہی ضروری ہو گیا۔‘‘ (ص ۷۰)

ہندوستان کی طرف سے درپیش اس مسلسل خطرے کے باوجود خلفاے راشدین کی حتی الامکان کوشش یہی تھی کہ اسلامی فوج اس معاملے میں الجھنے نہ پائے۔ چنانچہ ۱۵ ہجری میں بحرین کے گورنر عثمان بن ابی العاص نے مرکز سے اجازت کے بغیر سمندر کے ذریعے سے تھانہ اور دیبل کے علاقوں پر حملہ کروایا تو سیدنا عمرؓ نے اس پر شدید ناراضی کا اظہار کیا۔ آپ نے فرمایا:

یا اخا ثقیف حملت دودا علی عود وانی احلف باللہ لو اصیبوا لاخذت من قومک مثلہم (بلاذری، فتوح البلدان ۴۳۸)

’’اے بنو ثقیف کے آدمی! تم نے تو ایک کیڑے کو لکڑی پر چڑھا (کر اسے پانی میں ڈال) دیا۔ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر ان کو کوئی نقصان پہنچتا تو میں تمہاری قوم میں سے اتنے ہی افراد کو قصاص میں قتل کر دیتا۔‘‘

اس وقت تک فارس کا علاقہ مفتوح نہیں ہوا تھا۔ فارس کا سارا علاقہ مفتوح ہو گیا اور اسلامی سلطنت کے حدود سندھ تک پہنچ گئے تو بھی ایرانی شورشوں میں سندھی راجاؤں کے کردار کے باوجود سیدنا عمرؓ نے یہی پالیسی برقرار رکھی۔مثال کے طور پر آپ نے قندابیل کے بارے میں معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ صورت حال لشکر کشی کے لیے موزوں نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا:

لا یسالنی اللہ عن احد بعثتہ الیہا ابدا (عیون الاخبار، بحوالہ خلافت راشدہ اور ہندوستان، ص ۶۲)

’’اللہ تعالیٰ مجھ سے کسی ایسے شخص کے بارے میں سوال نہ کرے جسے میں وہاں بھیجوں۔‘‘

ایک اور موقع پر آپ نے مکران کی صورت حال دریافت کی اور اسی نتیجے پر پہنچے کہ وہاں لشکر کشی نہ کی جائے:

فقدم صحار علی عمر بالخبر والمغانم فسالہ عمر عن مکران وکان لا یاتیہ احد الا سالہ عن الوجہ الذی یجئ منہ فقال یا امیر المومنین ارض سہلہا جبل وماؤہا وشل وتمرہا دقل وعدوہا بطل وخیرہا قلیل وشرہا طویل والکثیر بہا قلیل والقلیل بہا ضائع وما وراء ہا شر منہا فقال اسجاع انت ام مخبر؟ قال لا بل مخبر۔ قال لا واللہ لا یغزوہا جیش لی ما اطعت وکتب الی الحکم بن عمرو والی سہیل الا یجوزن مکران احد من جنودکما واقتصرا علی ما دون النہر (تاریخ الامم والملوک ۴/۱۸۲)

’’صحار فتح کی خبر اور مال غنیمت لے کر سیدنا عمر کے پاس پہنچے تو انہوں نے اس سے مکران کے بارے میں پوچھا۔ اور ان کی عادت تھی کہ جس علاقے سے بھی کوئی آدمی ان کے پاس آتا، وہ اس سے اس طرف کے احوال معلوم کرتے تھے۔ صحار نے کہا کہ وہ ایسی سرزمین ہے جس کے میدان پہاڑوں کی طرح دشوار گزار، پانی بہت تھوڑا، کھجوریں بالکل ردی اور دشمن بڑا بہادر ہے۔ وہاں خیر بہت کم اور شر بہت پھیلا ہوا ہے۔ بہت بڑی تعداد بھی وہاں کم پڑ جائے گی جبکہ تھوڑی تعداد تو بالکل ہی ناکارہ ثابت ہوگی۔ اور اس سے آگے کا علاقہ اس سے بھی بدتر ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمر نے کہا: تم لفظی تک بندی کر رہے ہو یا ٹھیک ٹھیک حالات بتا رہے ہو؟ صحار نے کہا: بالکل صحیح بتا رہا ہوں۔ سیدنا عمر نے کہا: بخدا، جب تک میرا حکم مانا جاتا ہے، کوئی لشکر حملہ کرنے کے لیے وہاں نہیں جائے گا۔ پھر انہوں نے حکم بن عمرو اور سہیل کو خط لکھا کہ تم دونوں میں سے کسی کا لشکر بھی مکران کی سرحد عبور نہ کرے، بلکہ دریا سے اس پار کے علاقے تک محدود رہو۔‘‘

سیدنا عثمان بھی اپنے عہد حکومت کے آخری ایام سے قبل تک اسی پالیسی پر عمل پیرا رہے، تاہم حالات وواقعات نے آخر کار اس ضبط کو توڑ کر سندھ کی فتح کی راہ ہموار کر دی۔ (بلاذری، فتوح البلدان ۴۳۸، ۴۳۹)

مصر کے معاملے کو دیکھیے۔ اس کی فتح کے لیے کیے جانے والے حملے کے بارے میں تاریخی روایتیں دو ہیں:

ایک روایت کے مطابق ۱۸ ہجری میں سیدنا عمر شام کے علاقے جابیہ میں تشریف لائے تو عمرو بن العاص نے انھیں مصر پر حملے کے لیے آمادہ کرنا چاہا اور کہا:

یا امیر المومنین ائذن لی ان اسیر الی مصر وحرضہ علیہا وقال: انک ان فتحتہا کانت قوۃ للمسلمین وعونا لہم وہی اکثر الارض اموالا واعجزہم عن القتال والحرب

’’اے امیر المومنین ! مجھے مصر پر حملے کی اجازت دیجیے۔ انہوں نے سیدنا عمر کو آمادہ کرنے کی بہت کوشش کی اور کہا کہ اگر آپ مصر کو فتح کر لیں گے تو اس سے مسلمانوں کو قوت اور مدد حاصل ہوگی۔ نیز یہ کہ یہ سرزمین مال ودولت سے بھرپور ہے اور وہاں کے لوگ جنگ اور لڑائی کے میدان میں بالکل نکمے ہیں۔‘‘

سیدنا عمر نے مسلمانوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالنا پسند نہ کیا اور اس تجویز کو مسترد کر دیا، تاہم عمرو بن العاص مسلسل ان کے سامنے مصر کی اہمیت اور اس کی فتح میں آسانی کا ذکر کرتے رہے یہاں تک کہ وہ اس کی نیم دلانہ اجازت دینے پر رضامند ہو گئے۔ آپ نے عمرو سے فرمایا:

سر وانا مستخیر اللہ فی مسیرک وسیاتی کتابی الیک سریعا ان شاء اللہ تعالیٰ فان ادرکک کتابی وامرتک فیہ بالانصراف عن مصر قبل ان تدخلہا او شیئا من ارضہا فانصرف وان انت دخلتہا قبل ان یاتیک کتابی فامض لوجہک واستعن باللہ واستنصرہ (سیوطی، حسن المحاضرۃ، ۱/۱۰۶)

’’تم روانہ ہو جاؤ لیکن میں اس معاملے میں اللہ تعالیٰ سے بہتر راہنمائی کی دعا کروں گا۔ جلد ہی میرا خط تمھیں ملے گا۔ پس اگر میں تمھیں واپس پلٹنے کا حکم دوں اور میرا خط تمھیں مصر یا اس کے کسی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے مل جائے تو واپس پلٹ آنا۔ اور اگر میرا خط ملنے سے پہلے تم اس میں داخل ہو چکے ہوئے تو اپنی مہم جاری رکھنا اور اللہ سے مدد اور نصرت کے طالب رہنا۔‘‘

عمرو بن العاص لشکر لے کر روانہ ہو گئے تو مصر میں داخل ہونے سے قبل انھیں سیدنا عمر کا خط ملا جس میں انھوں نے انھیں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا، لیکن عمرو نے اس خدشے کو محسوس کرتے ہوئے خط کو فوراً پڑھنے کے بجائے اس وقت کھولا جب وہ اپنی فوج کے ساتھ مصر میں داخل ہو چکے تھے۔ (Philip K. Hitti, History of the Arabs, p.160) 

دوسری روایت یہ ہے کہ عمرو ابن العاص کو سرے سے سیدنا عمرؓ نے اجازت دی ہی نہیں تھی اور انھوں نے بلا اجازت قدم اٹھایا تھا۔ بلاذری لکھتے ہیں:

قالوا وکان عمرو ابن العاصی حاصر قیساریۃ بعد انصراف الناس من حرب الیرموک ثم استخلف علیہا ابنہ حین ولی یزید بن ابی سفیان ومضی الی مصر من تلقاء نفسہ فی ثلاثۃ آلاف وخمس ماءۃ فغضب عمر لذلک وکتب الیہ یوبخہ ویعنفہ علی افتتانہ علیہ برایہ وامرہ بالرجوع الی موضعہ ان وافاہ کتابہ دون مصر فورد الکتاب علیہ وہو بالعریش (فتوح البلدان، ۲۱۹)

’’اہل تاریخ بتاتے ہیں کہ عمرو بن العاص نے جنگ یرموک سے فارغ ہونے کے بعد قیساریہ کا محاصرہ کر لیا۔ پھر جب یزید بن ابی سفیان واپس چلے گئے تو اپنے بیٹے کو وہاں اپنا نائب بنا کر خود ہی فیصلہ کر کے ساڑھے تین ہزار کا لشکر لے کر مصر کی طرف روانہ ہو گئے۔ سیدنا عمر نے اس پر سخت ناراض ہوکر ان کو خط لکھا اور ان سے پوچھے بغیر ازخود فیصلہ کرنے پر عمرو کو سخت سست کہا اور انہیں حکم دیا کہ اگر یہ خط انھیں مصر پہنچنے سے پہلے مل جائے تو اپنی جگہ پر واپس چلے جائیں۔ عمرو کو یہ خط اس وقت ملا جب وہ عریش میں تھے۔‘‘

مصر سے آگے افریقہ کی فتح کے معاملے میں بھی یہی صورت حال رہی۔ عمرو بن العاص جب مصر کے علاقوں کو فتح کرتے ہوئے ۲۲ ہجری میں اس کے آخری شہر اطرابلس تک پہنچ گئے تو انھوں نے سیدنا عمر کے نام خط میں لکھا:

انا قد بلغنا طرابلس وبینہا وبین افریقیۃ تسعۃ ایام فان رای امیر المومنین ان یاذن لنا فی غزوہا فعل (فتوح البلدان، ص ۲۳۳)

’’ہم طرابلس پہنچ گئے ہیں اور یہاں سے افریقہ تک نو دن کا سفر ہے۔ اگر امیر المومنین مناسب سمجھیں تو ہمیں افریقہ پر حملہ کرنے کی اجازت دے دیں۔‘‘

آپ نے جواب میں لکھا:

لا تدخل افریقیۃ فانہا مفرقۃ لاہلہا غیر مجتمعۃ ماؤہا قاس ما شربہ احد من العالمین الا قست قلوبہم (یاقوت الحموی، معجم البلدان، ۱/۲۲۹)

’’افریقہ کے علاقے میں مت داخل ہونا۔ یہ سرزمین اپنے باشندوں کو اکٹھا نہیں رہنے دیتی بلکہ منتشر کر دیتی ہے۔ اس کے پانی میں ایسی تاثیر ہے کہ دنیا کی جو بھی قوم اسے پیے گی، ان کے دل سخت ہو جائیں گے۔‘‘

سیدنا عثمان نے بھی اپنے عہد میں ابتداء اً افریقہ میں داخل ہونے سے گریز کی پالیسی کو برقرار رکھا، لیکن بعد میں حالات کو دیکھتے ہوئے اس کو فتح کرنے کی اجازت دے دی اور عبد اللہ بن ابی سرح نے ۲۷ یا ۲۸ یا ۲۸ ہجری میں افریقہ پر حملہ کیا۔ (بلاذری، فتوح البلدان ص ۲۳۴)

حبشہ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق صحابہ نے کوئی پیش قدمی نہیں کی۔ اس ضمن میں صرف ایک واقعہ عہد صحابہ کی تاریخ میں رپورٹ ہوا ہے۔ طبری لکھتے ہیں:

وفیہا بعث عمر رضی اللہ عنہ علقمۃ بن مجزز المدلجی الی الحبشۃ فی البحر وذلک ان الحبشۃ کانت تطرفت فی ما ذکر طرفا من اطراف الاسلام فاصیبوا فجعل عمر علی نفسہ الا یحمل فی البحر احدا ابدا (تاریخ الامم والملوک ۴/۱۱۲)

’’۲۰ ہجری میں عمر رضی اللہ عنہ نے علقمہ بن مجزز مدلجی کو سمندر کے راستے سے حبشہ کی طرف بھیجا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اہل حبشہ نے مسلمانوں کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کی تھی۔ تاہم علقمہ کے ساتھ جانے والی یہ جماعت ہلاک ہو گئی جس پر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اوپر لازم کر لیا کہ وہ سمندر کے راستے سے کبھی کوئی لشکر نہیں بھیجیں گے۔‘‘

مذکورہ پالیسی کی پابندی کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت اور بے لچک رویہ سیدنا عمر کا تھا اور ان کی نسبت سے اس کی معنویت اس تناظر میں بالخصوص دو چند ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پیش گوئیوں کی بنا پر اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ ان کی وفات سے مسلمانوں کی قوت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور ان کی قوت وشدت اندر کا رخ کر کے باہمی قتل وقتال کی شکل اختیار کر لے گی۔ (بخاری، رقم ۵۲۵) ایک موقع پر انھوں نے فرمایا:

واللہ لا یفتح بعدی بلد فیکون فیہ کبیر نیل بل عسی ان یکون کلا علی المسلمین (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۶)

’’بخدا، میرے بعد کوئی علاقہ ایسا فتح نہیں ہوگا جس سے مسلمانوں کو کوئی بڑا فائدہ حاصل ہو، بلکہ الٹا اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے بوجھ بن جائے۔‘‘

مذکورہ بالا تاریخی شواہد کی روشنی میں خلفاے راشدین کی جنگی پالیسی کو ہم درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کر سکتے ہیں:

  • جہاد وقتال سے ان کا مقصد اسلامی سلطنت کی غیر محدود توسیع نہیں تھا، بلکہ ان کا ہدف صرف رومی اور فارسی سلطنتیں تھیں۔
  • رومی اور فارسی سلطنتوں کے خلاف جنگ کی اجازت حاصل ہونے کے باوجود وہ ان کے تمام علاقوں پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کے پیش نظر اصلاً صرف شام اور عراق کے علاقے تھے اور وہ ان سے آگے بڑھنا نہیں چاہتے تھے۔
  • ان علاقوں کو فتح کرنے کے بعد جنگ کو روکنے کا فیصلہ وقتی حالات کے تحت نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتے تھے کہ کوئی ایسی رکاوٹ درمیان میں حائل ہو جائے کہ نہ دشمن کی فوجیں مسلمانوں کی طرف آ سکیں اور نہ مسلمان ان تک پہنچ سکیں۔
  • جنگ نہ کرنے کا فیصلہ عددی قلت یا کسی ضعف اور کمزوری یا شکست کے خوف کی بنا پر بھی نہیں تھا، کیونکہ مسلمانوں کو فتح ونصرت کی واضح بشارت حاصل تھی اور ضرورت پیش آنے پر انھوں نے اسی حربی استعداد کے ساتھ فارسی سلطنت کے تمام علاقوں کو فتح کر لیا تھا۔
  • جنگ کو روک دینے کا فیصلہ کرنے کے بعد اسے دوبارہ جاری کرنے کا فیصلہ انھوں نے صرف اس وقت کیا جب انھیں یہ یقین ہو گیا کہ اس کے بغیر دشمن کی طرف سے مسلسل چھیڑ چھاڑ اور جنگی کارروائیوں کے سلسلے کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔
  • روم و فارس یا ان کے زیر اثر علاقوں کے علاوہ دوسری قوموں کے خلاف انھوں نے صرف اس صورت میں اقدام کیا جب انھوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کی مدد کی یا ان کی طرف سے میدان جنگ میں آئے۔ 
  • سمندر کے راستے سے کوئی جنگی مہم بھیجنے کے وہ سرے سے قائل ہی نہیں تھے اور اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر کے طریقے کے منافی اور مسلمانوں کی جانوں کو بلا ضرورت خطرے میں ڈالنے کے مترادف سمجھتے تھے۔

غلبہ دین کا وعدہ اور اس کی تکمیل

قرآن مجید میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ہدف یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے دین کا غلبہ تمام دینوں پر قائم کر دیا جائے۔ 

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۳۳)

’’وہی ذات ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ بات کتنی ہی ناپسند ہو۔‘‘

بعض اہل علم کے ہاں یہ رجحان دکھائی دیتا ہے کہ وہ مذکورہ آیت کو پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے کسی نظری اور اصولی ہدف کا بیان سمجھتے ہیں۔ (ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ج ۲۸، ص ۲۹۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی، تفہیم القرآن، ۲/۱۸۸، ۱۹۰) تاہم قرآن مجید میں یہ آیت تین مقامات پر آئی ہے اور ہر جگہ اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لیے غلبہ اور فتح کی بشارت اور وعدے کی حیثیت سے ہوا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی روشنی میں متعدد مواقع پر جزیرۂ عرب اور روم وفارس کے علاقوں پر اللہ کے دین کے غلبے کی پیش گوئیاں کیں۔ (اس نوع کی بعض روایات پہلے باب میں بیان کی جا چکی ہیں جبکہ مزید تفصیل آئندہ باب میں دیکھی جا سکتی ہے۔) ’لیظہرہ علی الدین کلہ‘ کے اس وعدے کا یہ متعین مصداق صحابہ کرام اور ان کے بعد صدر اول کے اہل علم پر بھی پوری طرح واضح تھا اور وہ اس کی تفسیر اسی مخصوص تناظر میں ایک وعدے کے طور پرکرتے تھے۔ 

ام المومنین عائشہ روایت کرتی ہیں:

سمعت رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم یقول لا یذہب اللیل والنہار حتی تعبد اللات والعزی فقلت یا رسول اللہ ان کنت لاظن حین انزل اللہ (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون) ان ذلک تاما قال انہ سیکون من ذلک ما شاء اللہ ثم یبعث اللہ ریحا طیبۃ فتوفی کل من فی قلبہ مثقال حبۃ خردل من ایمان فیبقی من لا خیر فیہ فیرجعون الی دین آباۂم (مسلم، رقم ۵۱۷۴)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ دن اور رات کا سلسلہ ختم ہونے سے پہلے وہ وقت پھر آئے گا کہ لات اور عزیٰ کی پوجا شروع کر دی جائے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ، جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘ تو میں اس کا مطلب یہ سمجھتی تھی کہ ایک مرتبہ حاصل ہونے کے بعد یہ غلبہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک اللہ چاہے گا، یہ دین غالب رہے گا لیکن پھر اللہ تعالیٰ ایک پاکیزہ ہوا بھیجیں جو ہر اس شخص کو وفات دے دے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ اس کے بعد وہی لوگ رہ جائیں گے جن میں ذرہ برابر خیر نہ ہوگی اور پھر وہ اپنے آباواجداد کے دین کی طرف پلٹ جائیں گے۔‘‘

ایک دوسرے موقع پر ام المومنین حضرت عائشہؓ نے فرمایا:

کان المومنون یفر احدہم بدینہ الی اللہ تعالی والی رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم مخافۃ ان یفتن علیہ فاما الیوم فقد اظہر اللہ الاسلام والیوم یعبد ربہ حیث شاء (بخاری، رقم ۳۶۱۱)

’’اہل ایمان اپنے دین کو بچانے کے لیے اس خوف سے کہ انھیں ستایا نہ جائے، بھاگ کر اللہ اور اس کے رسول کے پا س آ جاتے تھے، لیکن آج تو اللہ نے اسلام کو غلبہ عطا کر دیا ہے اور آج مومن جہاں چاہے، اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے۔‘‘

تمیم داریؓ نے بھی غلبہ دین کے اس وعدے کو جزیرۂ عرب ہی کے تناظر میں سمجھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد: ’لا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر الا ادخلہ اللہ ہذا الدین بعز عزیز او بذل ذلیل‘ نقل کرنے کے بعد انھوں نے کہا کہ:

قد عرفت ذلک فی اہل بیتی لقد اصاب من اسلم منہم الخیر والشرف والعز ولقد اصاب من کان منہم کافرا الذل والصغار والجزیۃ (مسند احمد، رقم ۱۶۲۴۴)

’’میں نے یہ پیش گوئی اپنے خاندان میں پوری ہوتے دیکھ لی ہے۔ ان میں سے جو اسلام لائے، ان کو تو خیر اور عزت اور شرف ملا، اور جو کافر رہے، ان پر ذلت اور پستی اور جزیہ مسلط کر دیا گیا۔‘‘

یہی روایت امام ابن حبان نے مقداد بن الاسود سے نقل کی ہے اور اس پر یہ عنوان قائم کیا ہے: ’ذکر الاخبار عن اظہار اللہ الاسلام فی ارض العرب وجزائرہا‘ (صحیح ابن حبان، رقم ۶۶۹۹)

ایک اور روایت کے مطابق تمیم داری نے قبول اسلام کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ:

یا رسول اللہ ان اللہ مظہرک علی الارض کلہا فہب لی قریتی من بیت لحم قال ہی لک (ابو عبید، الاموال ۳۶۸)

’’یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کو اس ساری سرزمین پر غلبہ عطا فرمانے والے ہیں تو بیت لحم کی بستی مجھے عطا کر دیجیے۔ آپ نے فرمایا وہ تمھاری ہے۔‘‘

سیدنا عمرؓ نے ایک موقع پر حج میں رمل کے طریقے کے بارے میں فرمایا:

فی ما الرملان الآن والکشف عن المناکب وقد اطا اللہ الاسلام ونفی الکفر واہلہ ومع ذلک لا ندع شیئا کنا نفعلہ علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد، رقم ۳۰۰)

’’اب جبکہ اللہ نے اسلام کو استحکام بخش دیا ہے اور کفر اور اہل کفر کا صفایا ہو چکا ہے، طواف کرتے ہوئے تیز چلنے اور کندھوں کو ننگا کرنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی، لیکن اس کے باوجود ہم اس طریقے کو ترک نہیں کریں گے جس پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عمل کیا کرتے تھے۔‘‘

فارس کی فتوحات کا سلسلہ اختتام کے قریب پہنچا تو سیدنا عمرؓ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں اس وعدے کی تکمیل پر اللہ کا شکر ادا کیا:

ان اللہ بعث محمدا بالہدی ووعد علی اتباعہ من عاجل الثواب وآجلہ خیر الدنیا والآخرۃ فقال ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون فالحمد للہ الذی انجز وعدہ ونصر جندہ الا وان اللہ قد اہلک ملک المجوسیۃ وفرق شملہم فلیسوا یملکون من بلادہم شبرا یضیر بمسلم الا وان اللہ قد اورثکم ارضہم ودیارہم واموالہم وابناء ہم لینظر کیف تعملون (البدایہ والنہایۃ، ۷/۱۲۹)

’’بے شک اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دے کر بھیجا اور ان کی اتباع کرنے پر دنیا اور آخرت، دونوں کے اجر وثواب کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اس نے فرمایا کہ ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون‘ ۔ سو اللہ کا شکر ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور اپنے لشکر کی مدد کی۔ دیکھو، اللہ نے مجوسیوں کے بادشاہ کو ہلاک کر کے اس کی قوم کا شیرازہ توڑ دیا ہے۔ اب وہ اپنے ملک کی ایک بالشت بھی ایسی زمین کے مالک نہیں جس سے مسلمانوں کو کوئی ضرر پہنچا سکتا ہو۔ سنو، اللہ نے تمھیں ان کی سرزمین اور ان کے گھروں اور مالوں اور اولاد کا مالک بنا دیا تاکہ تمہارا امتحان لے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟‘‘

حضرت حذیفہ نے ایک موقع پر فرمایا:

ان اللہ بعث محمدا فقاتل بمن اقبل من ادبر حتی اظہر اللہ دینہ (ابن ابی داود، کتاب المصاحف ۱/۱۷۶)

’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا۔ انھوں نے اپنی دعوت پر لبیک کہنے والوں کی مدد سے منہ پھیرنے والوں کے خلاف قتال کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کر دیا۔‘‘

حسن بصری سورۂ احقاف کی آیت: ’وما ادری ما یفعل بی ولا بکم‘  کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

اما فی الآخرۃ فمعاذ اللہ قد علم انہ فی الجنۃ حین اخذ میثاقہ فی الرسل ولکن قال وما ادری ما یفعل بی ولا بکم فی الدنیا اخرج کما اخرجت الانبیاء قبلی او اقتل کما قتلت الانبیاء من قبلی ولا ادری ما یفعل بی ولا بکم امتی المکذبۃ ام امتی المصدقۃ ام امتی المرمیۃ بالحجارۃ من السماء قذفا ام مخسوف بہا خسفا ثم اوحی الیہ (واذ قلنا لک ان ربک احاط بالناس) یقول احطت لک بالعرب ان لا یقتلوک فعرف انہ لا یقتل ثم انزل اللہ عزوجل (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا) یقول اشہد لک علی نفسہ انہ سیظہر دینک علی الادیان ثم قال لہ فی امتہ (وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وما کان اللہ معذبہم وہم یستغفرون) فاخبرہ اللہ ما یصنع بہ وما یصنع بامتہ (تفسیر الطبری، ۲۶/۸)

’’اللہ کی پناہ، اس کا تعلق آخرت سے نہیں ہے۔ جب اللہ نے آپ کے بارے میں انبیا سے میثاق لیا تو یقیناً آپ کے علم میں تھا کہ آپ جنت میں جائیں گے۔ یہ جو آپ نے کہا کہ ’ما ادری ما یفعل بی ولا بکم‘ (پتہ نہیں میرے اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا) تو اس کا مطلب یہ تھا کہ پتہ نہیں مجھے بھی پہلے انبیا کی طرح مکہ سے نکالا جائے گا یا قتل کر دیا جائے گا۔ اور یہ بات کہ معلوم نہیں تمہارا کیا بنے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ پتہ نہیں میری امت میری تکذیب کرے گی یا تصدیق؟ اور کیا اس پر آسمان سے پتھر برسیں گے یا اسے زمین میں دھنسا دیا جائے گا؟ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کہ ’واذ قلنا لک ان ربک احاط بالناس‘ یعنی میں نے اہل عرب کو اس طرح گھیر رکھا ہے کہ تمھیں قتل نہیں کر سکیں گے۔ اس سے رسول اللہ کو پتہ چل گیا کہ آپ قتل نہیں ہوں گے۔ پھر اللہ نے یہ آیت اتاری: ’ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا‘ یعنی اللہ نے یہ بات اپنے ذمے لے لی ہے کہ وہ آپ کے دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے گا۔ پھر آپ کی امت کے بارے میں فرمایا کہ ’وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم وما کان اللہ معذبہم وہم یستغفرون‘ اس طرح اللہ نے آپ کو بتا دیا کہ وہ آپ کے ساتھ اور آپ کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔‘‘

لیظہرہ علی الدین کلہ‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

عن الحسن (ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا) یقول اشہد لک علی نفسہ انہ سیظہر دینک علی الدین کلہ وہذا اعلام من اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم والذین کرہوا الصلح یوم الحدیبیۃ من اصحابہ ان اللہ فاتح علیہم مکۃ وغیرہا من البلدان مسلیہم بذلک عما نالہم من الکآبۃ والحزن بانصرافہم عن مکۃ قبل دخولہموہا وقبل طوافہم بالبیت (تفسیر الطبری، ۲۶/۱۰۹)

’’ھو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا ہے کہ اس نے یہ بات طے کر رکھی ہے کہ وہ آپ کے دین کو تمام دینوں پر غالب کر دے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ان ساتھیوں کے لیے جنھوں نے حدیبیہ کی صلح کو ناپسند کیا تھا، اس بات کی اطلاع ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں مکہ اور دوسرے شہروں کی فتح عطا فرمائے گا اور اس موقع پر مکہ میں داخل ہونے اور بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے واپس پلٹنے سے انھیں جو دکھ اور غم پہنچا ہے، اس کا مداوا اس طریقے سے کر دے گا۔‘‘

عبد اللہ بن سلام نے قتل عثمان کے موقع پر محاصرہ کرنے والوں سے فرمایا:

ان اللہ بعث محمدا صلی اللہ علیہ وسلم بشیرا ونذیرا یبشر بالجنۃ وینذر بالنار فاظہر اللہ من اتبعہ من المومنین علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون (احمد بن حنبل، فضائل الصحابۃ ۱/۴۷۶)

’’اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا۔ آپ جنت کی خوشخبری دیتے اور جہنم سے خبردار کرتے تھے۔ پھر اللہ نے آپ کی پیروی اختیار کرنے والوں اہل ایمان کو تمام ادیان پر غالب کر دیا، اگرچہ مشرکوں کو یہ بات بہت ناپسند تھی۔‘‘

قتادۃ سورۂ صف کی آیت: ’کونوا انصار اللہ کما قال عیسی ابن مریم للحواریین‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

قد کان ذلک بحمد اللہ جاء ہ سبعون رجلا فبایعوہ تحت العقبۃ وآووہ حتی اظہر اللہ دینہ (ابن عبد البر، الاستیعاب ۱/۱۴)

’’اللہ کا شکر ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ آپ کے ستر انصار آئے جنھوں نے گھاٹی کے نیچے آپ سے بیعت کی اور آپ کو ٹھکانا فراہم کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کر دیا۔‘‘

امام شافعی لکھتے ہیں:

قال اللہ تبارک وتعالی: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون ....... فقد اظہر اللہ عزوجل دینہ الذی بعث بہ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الادیان بان ابان لکل من سمعہ انہ الحق وما خالفہ من الادیان باطل واظہرہ بان جماع الشرک دینان دین اہل الکتاب ودین الامیین فقہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الامیین حتی دانوا بالاسلام طوعا وکرہا وقتل من اہل الکتاب وسبی حتی دان بعضہم بالاسلام واعطی بعض الجزیۃ صاغرین وجری علیہم حکمہ صلی اللہ علیہ وسلم وہذا ظہور الدین کلہ۔ قال وقد یقال لیظہرن اللہ عزوجل دینہ علی الادیان حتی لا یدان للہ عزوجل الا بہ وذلک متی شاء اللہ تبارک وتعالی (الام، ۴/۱۷۱)

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون۔ چنانچہ اللہ نے اپنے اس دین کو جو اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا تھا، تمام دینوں پر غالب کر دیا، اس طریقے سے بھی کہ اس نے سب سننے والوں پر واضح کر دیا کہ یہی دین حق ہے اور اس کے سوا باقی تمام ادیان باطل ہیں، اور اس طرح بھی کہ کفر وشرک کے داعی دو بڑے مذہبی گروہوں یعنی اہل کتاب اور امیین عرب میں سے امیین کو تو جبراً وقہراً قبول اسلام پر مجبور کیا جبکہ اہل کتاب میں سے کچھ کو قتل کیا اور کچھ کو قیدی بنایا، یہاں تک کہ ان میں سے کچھ تو اسلام میں داخل ہو گئے اور باقی نے ذلیل ہو کر جزیہ دینا منظور کر لیا اور احکام اسلام کے زیر نگیں آگئے۔ اس طرح تمام دینوں پر غلبے کا وعدہ پورا ہو گیا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو تمام ادیان پر اس طرح غالب کریں گے کہ کسی دوسرے دین کا کوئی پیروکار باقی نہیں رہے گا اور یہ جب اللہ چاہے گا، تب ہوگا۔ ‘‘

امام احمد فرماتے ہیں:

کان النبی یدعو الی الاسلام قبل ان یحارب حتی اظہر اللہ الدین وعلا الاسلام ولا اعرف الیوم احدا یدعی قد بلغت الدعوۃ کل احد والروم قد بلغتہم الدعوۃ وعلموا ما یراد منہم وانما کانت الدعوۃ فی اول الاسلام (ابن قدامہ، المغنی، )

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے پہلے دشمن کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے دین کو غالب کر دیا اور اسلام سربلند ہو گیا۔ میرے خیال میں آج کسی شخص کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ سب تک دعوت پہنچ چکی ہے۔ رومیوں تک بھی دعوت پہنچ چکی ہے اور انھیں معلوم ہے کہ ان سے کیا چیز مطلوب ہے۔ دعوت دینا صرف اسلام کے ابتدائی زمانے میں ضروری تھا۔‘‘

امام ابوبکر الجصاص اس وعدے کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

وقولہ تعالی (لیظہرہ علی الدین کلہ) من دلائل النبوۃ لانہ اخبر بذلک والمسلمون فی ضعف وقلۃ وحال خوف مستذلون مقہورون فکان مخبرہ علی ما اخبر بہ لان الادیان التی کانت فی ذلک الزمان الیہودیۃ والنصرانیۃ والمجوسیۃ والصابءۃ وعباد الاصنام من السند وغیرہم فلم تبق من اہل ہذہ الادیان امۃ الا وقد ظہر علیہم المسلمون فقہروہم وغلبوہم علی جمیع بلادہم او بعضہا وشردوہم الی اقاصی بلادہم فہذا ہو مصداق ہذہ الآیۃ التی وعد اللہ تعالیٰ فیہا اظہارہ علی جمیع الادیان (احکام القرآن، ۳/۴۴۲)

’’اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے دلائل میں سے ایک ہے کیونکہ یہ بات اللہ تعالیٰ نے اس وقت بتائی تھی جب مسلمان ضعف اور قلت اور خوف کی حالت میں لاچار اور دبے ہوئے تھے۔ پھر یہ پیش گوئی بعینہ اسی طرح پوری ہوئی، کیونکہ اس زمانے کے مذہبی گروہ یہی یہود، مسیحی، مجوسی، صابی اور سند وغیرہ کے بت پرست تھے۔ اور ان گروہوں میں سے کوئی گروہ ایسا نہیں تھا جس پر مسلمانوں کو غلبہ نہ نصیب ہوا ہو ۔ چنانچہ مسلمانوں نے یا ان کے سارے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور یا کچھ علاقے چھین کر انھیں اپنے ملک کے دور دراز کونوں میں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ یہ ہے اس آیت کا مصداق جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘

امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں:

وجاہد فی اللہ حق الجہاد وقاتل اہل العناد حتی تمت کلمۃ اللہ عز وجل وظہر امرہ وانقاد الناس للحق اجمعین حتی اتاہ الیقین لا وانیا ولا مقصرا (الابانۃ عن اصول الدیانۃ، ص ۳۵)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا جیسے جہاد کرنے کا حق ہے اور معاندین کے ساتھ جنگ کی یہاں تک اللہ کا فیصلہ پورا ہو گیا، اس کا دین غالب ہو گیا اور سب لوگ حق کے مطیع ہو گئے، یہاں تک کہ آپ کا دم واپسیں آ گیا اور آپ اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ نے اپنے فریضے کی ادائیگی میں نہ کوئی سستی دکھائی اور نہ کوتاہی کی۔‘‘

امام نووی لکھتے ہیں:

فلما کان الفتح واظہر اللہ الاسلام علی الدین کلہ واذل الکفر واعز المسلمین سقط فرض الہجرۃ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا ہجرۃ بعد الفتح (شرح مسلم، ص ۱۲۰۱)

’’پھر جب مکہ فتح ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اسلام کو تمام ادیان پر غالب کر دیا، کفار کو ذلیل اور اہل اسلام کو سربلند کر دیا تو ہجرت کا فریضہ ساقط ہو گیا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد کوئی ہجرت نہیں۔‘‘

امام طحاوی لکھتے ہیں:

قولہ صلی اللہ علیہ وسلم تاکل القری ای یغلبونہم علی قراہم فیفتحونہا وقد کان ذلک منہم علیہ حتی اظہر اللہ تعالی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الدین کلہ وذلک علم جلیل من اعلام نبوتہ فی الیہود والنصاری (المعتصر من المختصر، ۲/۲۰۴)

’’نبی صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے: تاکل القری یعنی اہل ایمان کفار کے علاقوں پر غالب آ جائیں گے اور انھیں فتح کر لیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام ادیان پر غالب کر دیا۔ اور یہ چیز یہود ونصاریٰ کے حق میں آپ کی نبوت کے دلائل میں سے ایک عظیم دلیل ہے۔‘‘

امام ابن تیمیہ نے بھی اس کی تفسیر ایک وعدے کی حیثیت سے کی ہے جو بالفعل پورا ہو چکا ہے:

ثم استخلف عمر فقہر الکفار من المجوس واہل الکتاب واعز الاسلام ومصر الامصار وفرض العطاء ووضع الدیوان ونشر العدل واقام السنۃ وظہر الاسلام فی ایامہ ظہورا بان بہ تصدیق قولہ تعالی ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا وقولہ تعالی وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ........ الفاسقون وقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفی بیدہ لتنفقن کنوزہما فی سبیل اللہ فکان عمر رضی اللہ عنہ ہو الذی انفق کنوزہما (مجموع الفتاویٰ، ۲۵/۲۹۸)

’’حضرت ابوبکر کے بعد عمر خلیفہ بنے اور انھوں نے کفار میں سے مجوس اور اہل کتاب کو زیر نگیں بنایا، اسلام کو سربلند کیا، شہر آباد کیے، وظائف مقرر کیے، دیوان قائم کیا، عدل گستری کی، اور سنت کو قائم کیا۔ ان کے دور حکومت میں اسلام کو ایسا غلبہ نصیب ہوا جس سے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کی صداقت آشکارا ہو گئی جو ان آیات میں بیان ہوا ہے: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ وکفی باللہ شہیدا۔ (وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناپسند ہو)۔ وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم ........ الفاسقون۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے: اذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفی بیدہ لتنفقن کنوزہما فی سبیل اللہ۔ (جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہوگا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہوگا۔ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، ان دونوں بادشاہوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے۔) یہ سیدنا عمر ہی تھے جنھیں ان دونوں کے خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کر نے کا شرف حاصل ہوا۔‘‘ 

مزید لکھتے ہیں:

قولہ ’’قالت الامامیۃ: فاللہ یحکم بیننا وبین ہولاء وہو خیر الحاکمین‘‘ فیقال للامامیۃ ان اللہ حکم بینہم فی الدنیا بما اظہرہ من الدلائل والبینات وبما یظہرہ اہل الحق علیکم فہم ظاہرون علیکم بالحجۃ والبیان وبالید واللسان کما اظہر دین نبیہ علی سائر الادیان ۔ قال تعالیٰ: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ، ومن کان دینہ قول اہل السنۃ الذی خالفتموہم فیہ فانہ ظاہر علیکم بالحجۃ واللسان کظہور دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم علی سائر الادیان ولم یظہر دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم قط علی غیرہ من الادیان الا باہل السنۃ کما ظہر فی خلافۃ ابی بکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم ظہورا لم یحصل لشئ من الادیان وعلی رضی اللہ عنہ مع انہ من الخلفاء الراشدین ومن سادات السابقین الاولین لم یظہر فی خلافتہ دین الاسلام بل وقعت الفتنۃ بین اہلہ وطمع فیہم عدوہم من الکفار والنصاری والمجوس بالشام والمشرق (ذہبی، المنتقیٰ من منہاج السنۃ النبویۃ، ص ۱۸۴)

’’معترض کا یہ قول کہ امامیہ کہتے ہیں کہ ہمارے اور ان کے مابین اللہ ہی فیصلہ کرے گا، اور وہ سب سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، تو اس کے جواب میں امامیہ سے کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ان کے مابین اپنے ظاہر کردہ دلائل وبینات کے ذریعے سے اور اہل حق کو تم پر غلبہ دے کر فیصلہ کر دیا ہے، چنانچہ اہل حق دلیل وبرہان اور طاقت اور زبان، ہر لحاظ سے بالادست ہیں، ایسے ہی جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے دین کو تمام انبیا پر غالب کیا تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ۔ جو لوگ اہل سنت کے دین کے، جس کے تم مخالف ہو، پیروکار ہیں، وہ ایسے ہی تم پر حجت واستدلال میں غالب ہیں جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین تمام ادیان پر غالب ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین دوسرے ادیان پر اہل سنت ہی کے ہاتھوں غالب ہوا جیسا کہ حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں اس کو ایسا غلبہ نصیب ہوا جس دنیا کے کسی دین کو نہیں ہوا۔ جبکہ علی رضی اللہ عنہ اگرچہ خلفاے راشدین میں سے اور سابقین اولین کے بزرگوں میں سے تھے، لیکن ان کے عہد خلافت میں اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہوا بلکہ خود اہل اسلام کے مابین جنگ وجدال برپا ہو گیا اور ا ن کے دشمن کفار اور شام اور مشرق کے نصاریٰ اور مجوس ان کو نقصان پہنچانے کا خواب دیکھنے لگے۔‘‘

ابن کثیر فرماتے ہیں:

ہذا وعد من اللہ تعالیٰ لرسولہ صلوات اللہ وسلامہ علیہ بانہ سیجعل امتہ خلفاء الارض ای ائمۃ الناس والولاۃ علیہم وبہم تصلح البلاد وتخضع لہم العباد ولیبدلنہم من بعد خوفہم امنا وحکما فیہم وقد فعلہ تبارک وتعالی ولہ الحمد والمنۃ ..... ثبت فی الصحیح ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وسیبلغ ملک امتی ما زوی لی منہا فہا نحن نتقلب فی ما وعدنا اللہ ورسولہ وصدق اللہ ورسولہ (البدایہ والنہایہ ۳/۳۰۰، ۳۰۱)

’’یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسول کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ آپ کی امت کو زمین کے حکمران اور اصحاب اقتدار بنائے گا، ان کے ذریعے سے ان ملکوں میں صلاح پیدا ہوگی، لوگ ان کے مطیع ہو جائیں گے اور اللہ ان کے خوف کی جگہ انھیں امن اور لوگوں پر حکومت کا موقع عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ پورا کر دیا اور وہی تعریف اور احسان کا سزاوار ہے۔ .... صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ ویلم نے فرمایا کہ اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق اور مغرب کے علاقے دیکھے اور میری امت کا اقتدار وہاں تک پہنچے گا جہاں تک زمین سمیٹ کر مجھے دکھائی گئی۔ تو دیکھو، اب ہم اللہ اور رسول کے بیان کردہ موعودہ علاقوں میں چل پھر رہے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا۔‘‘

شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:

’’قال اللہ تعالی: لیظہرہ علی الدین کلہ وایں وعدہ بنا بر حکمت الٰہی در زمان آنحضرت بظہور نرسید لاجرم خلفا را بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم منصوب ساخت تا آں موعود منجز گردد‘‘ (ازالۃ الخفاء ۱/۲۰)

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: لیظہرہ علی الدین کلہ ۔ اور یہ وعدہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پورا نہیں ہو سکا، ا س لیے لازمی طور پر اس نے آپ کے بعد خلفاے راشدین کو مقرر کیا تاکہ یہ وعدہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائے۔‘‘

دور اول کے اہل علم کے ہاں آیت کا یہ مفہوم عمومی طور پر واضح ہے، البتہ امام شافعی نے بالکل سرسری طور پر یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ جب اللہ چاہے گا، اسلام کا غلبہ پوری دنیا پر قائم ہو جائے گا۔ (الام، ) بعد کے مفسرین کے یہاں اس بات نے من جملہ دیگر اقوال کے ایک قول کی جبکہ متاخرین کے ہاں اس ایک قول نے بھی رفتہ رفتہ ’واحد‘ قول کی شکل اختیار کر لی اور عام طور پر یہ سمجھا جانے لگا کہ اس وعدے کا عملی ظہور امام مہدی کے ظہور اور سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول کے موقع پر ہوگا۔ ہم نے قرآن مجید میں ان آیات کے سیاق وسباق کی روشنی میں اس وعدے کا جو محل بیان کیا ہے، اس سے واضح ہے کہ یہ درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے حوالے سے اللہ کے اسی غیر متبدل قانون کا بیان ہے جس کے مطابق پیغمبر اور اس کے ساتھی بہرحال اپنے مخالفین پر غالب آ کر رہتے ہیں۔ غلبہ دین کا یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اصلاً جزیرۂ عرب کے حدود میں کیا تھا اور یہ چونکہ آپ کے منصب رسالت کا لازمی تقاضا تھا، اس لیے اس کی تکمیل آپ کی ذات کی حد تک آپ کی حیات مبارکہ ہی میں ہو گئی تھی۔ اس کے بعد صحابہ کرام کو جو فتوحات حاصل ہوئیں، وہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو حاصل ہونے والے غلبے کی توسیع اور تکمیل تھیں، اس لیے وہ بھی ضمناً اس کا مصداق قرار پاتی ہیں، لیکن زمان ومکان کے اس مخصوص دائرے سے باہر نہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس نصرت کا کوئی وعدہ ہے اور نہ اس سے نظری سطح پر کوئی آفاقی ہدف اخذ کیا جا سکتا ہے۔ 


غلبہ دین بطور دلیل نبوت

سابقہ صفحات میں ہم قرآن وحدیث اور سیرت میں زیر بحث موضوع سے متعلق سارے مواد کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان مآخذ میں جہاد وقتال کی دو الگ الگ صورتوں کا ذکر ہوا ہے۔ ایک صورت کا تعلق عمومی انسانی اخلاقیات سے ہے اور اس کے تحت مخصوص حالات میں کسی ظالم گروہ کے خلاف قتال کرنا ہمیشہ کے لیے مشروع ہے، جبکہ دوسری صورت میں اللہ تعالیٰ کے ایک مخصوص قانون یعنی کسی قوم پر اتمام حجت کے بعد اس پر سزا نافذ کرنے کے لیے تلوار اٹھائی جاتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے معاملے میں قتال کی یہ دونوں صورتیں رونما ہوئیں۔ آپ کے مخالفین نے آپ اور آپ کے پیروکاروں کے خلاف ظلم وتشدد کا رویہ اختیار کیا اور طاقت وقوت کے زور پر انھیں ان کے مذہب سے برگشتہ کرنے کی کوشش کی، چنانچہ ان کے ظلم وعدوان اور فتنہ وفساد کو رفع کرنے کے لیے مسلمہ اور ابدی اخلاقیات کی رو سے مسلمانوں کو ان کے خلاف جہاد کرنے کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اسے ان پر فرض قرار دے دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ ایک رسول تھے اور آپ کی بعثت، قانون رسالت کے مطابق، اس مشن کے تحت اور اس کی تکمیل کے پیشگی وعدے کے ساتھ ہوئی تھی کہ آپ کو ہر حال میں اپنے مخالفوں اور منکروں پر غلبہ حاصل ہوگا، اس لیے یہ بات روز اول سے واضح کر دی گئی تھی کہ آپ پر ایمان لانے والوں کے لیے غلبہ اور سرفرازی ، جبکہ مخالفین اور منکروں کے لیے مغلوبیت، رسوائی اور محکومی مقدر کر دی گئی ہے۔ چنانچہ آپ کے جہاد کا یہ ہدف شروع ہی سے واضح کر دیا گیا کہ یہ عام انسانی اخلاقیات کے دائرے میں فتنہ وفساد کے ازالے تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے بڑھ کر خدا کے قانون جزا وسزا کو سرزمین عرب پر رو بہ عمل کرنے کا ذریعہ بھی بنے گا۔

اس ضمن میں متعلقہ نصوص کے داخلی شواہد اور عہد نبوی کے جنگی اقدامات کے اصل پس منظر کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پورے عمل کی توجیہ دفاع اور تحفظ کے اصول پر کرنے کا جو رجحان دور جدید میں پیدا ہوا ہے، اس کا محرک، جو فی نفسہ مخلصانہ اور قابل احترام ہے، بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ غیر مسلم دنیا کے سامنے اسلام اور پیغمبر اسلام کا مثبت تعارف پیش کیا جائے۔ معاصر ذہنی فضا میں ’مثبت تعارف‘ کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام کو امن وسلامتی کا مذہب اور پیغمبر اسلام کو صلح وآشتی کا پیغامبر ثابت کیا جائے۔ ہماری رائے میں اسلام کے تعارف کا یہ پہلو اپنی جگہ بالکل درست ہے، لیکن اس معاملے کا ایک دوسرا اور اس سے زیادہ اہم پہلو بھی ہے جسے اگر پورے توازن کے ساتھ ملحوظ نہ رکھا جائے تو خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی تفہیم کا معاملہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ 

ہم نے قرآن مجید اور صحف سماوی کی روشنی میں قوموں کی جزا وسزا کے اس قانون کا یہ پہلو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مختلف زمانوں میں کفر وشرک اور بدکاری میں مبتلا قوموں کے محاسبہ اور مواخذہ کے لیے خود انسانوں میں سے بعض منتخب گروہوں کو مامور فرماتے رہے ہیں جو خدا کے اذن کے تحت ایک مخصوص دائرۂ اختیار میں بدکار قوموں کے خلاف جنگ کرتے اور قتل، اسارت اور محکومی کی صورت میں انھیں ان کی بد اعمالیوں کی سزا دیتے ہیں۔ اقوام عالم کے سامنے اس منتخب گروہ کی اس خصوصی حیثیت کو علیٰ رؤوس الاشہاد مبرہن کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے خصوصی تائید اور نصرت حاصل ہوتی ہے اور خدا ان کے دشمنوں کو ان کے مقابلے میں ذلیل ورسوا کر کے دنیا کی قوموں پریہ واضح کر دیتا ہے کہ وہ دنیا میں خدا کے نمائندے ہیں اور ان کا اختیار کردہ دین ہی خدا کا پسندیدہ دین ہے۔ تاریخ میں اللہ کے اس قانون کی تفصیلات بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل، دونوں کے حوالے سے محفوظ ہیں۔ یہاں اس کی بعض تفصیلات کا مطالعہ دلچسپی کا موجب ہوگا۔

بنی اسرائیل سے اللہ تعالیٰ نے یہ میثاق لیا تھا کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے دین وشریعت پر خود قائم رہتے ہوئے دنیا کی اقوام کے سامنے شہادت حق کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ دنیا میں سربلند وسرفراز اور اپنے دشمنوں پر غالب رہیں گے، لیکن اس سے انحراف کی صورت میں خدا کی طرف سے ذلت ورسوائی اور مغلوبیت ومحکومی کا عذاب ان پر مسلط کر دیا جائے گا۔ ارشاد ہوا ہے:

وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اذْکُرُواْ نِعْمَۃَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ إِذْ أَنجَاکُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاء کُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاء کُمْ وَفِیْ ذَلِکُم بَلاء مِّن رَّبِّکُمْ عَظِیْمٌ ۔ وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَءِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَءِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراہیم ۱۴:۶،۷)

’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اپنے اوپر اللہ کے احسان کو یاد کرو جب اس نے تمھیں آل فرعون سے نجات دلائی جو تمھیں بد ترین عذاب چکھاتے تھے اور تمھارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑی آزمایش تھی۔ اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ (اے بنی اسرائیل) اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو میں تم پر مزید احسانات کروں گا اور اگر ناشکری کا رویہ اختیار کرو گے تو بے شک میرا عذاب بڑا دردناک ہے۔‘‘

بنی اسرائیل کے ساتھ اس معاملہ کا آغاز ملک مصر سے ان کے خروج سے ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے توحید کی دعوت دیے جانے کے بعد جب فرعون اور اس کی قوم نے ان کی تکذیب کا رویہ اختیار کیا تو ایک خاص عرصے تک انھیں مختلف نشانیاں دکھا کر اور متنوع آزمایشوں میں مبتلا کر کے انھیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی گئی:

وَمَا نُرِیْہِم مِّنْ آیَۃٍ إِلَّا ہِیَ أَکْبَرُ مِنْ أُخْتِہَا وَأَخَذْنَاہُم بِالْعَذَابِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ (الزخرف ۴۳:۴۸)

’’اور ہم ان کو جو بھی نشانی دکھاتے تھے، وہ اپنے سے پہلی نشانی سے بڑی ہوتی تھی۔ اور ہم نے ان کو عذاب میں گرفتار کیا تاکہ وہ پلٹ آئیں۔‘‘

امتحان وابتلا کی مہلت ختم ہونے کے باوجود جب اہل مصر ایمان نہ لائے تو فرعون کو اس کے پورے لشکر سمیت دریاے نیل میں غرق کر دیا گیا۔ وقت کی ایک عظیم سلطنت کی تباہی وبربادی کا یہ عبرت ناک واقعہ اس وقت مصر کے ارد گرد بسنے والی قوموں کے لیے خداے واحد کی قدرت وحقانیت اور بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ منصب فضیلت کی ایک بین دلیل بن گیا:

فَلَمَّا آسَفُونَا انتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَأَغْرَقْنَاہُمْ أَجْمَعِیْنَ ۔ فَجَعَلْنَاہُمْ سَلَفاً وَمَثَلاً لِلْآخِرِیْنَ (الزخرف ۴۳: ۵۵، ۵۶)

’’پس جب انھوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان سب کو غرق کر دیا۔ پھر ہم نے ان کو بعد میں آنے والوں کے لیے عبرت کا ایک نمونہ بنا دیا۔‘‘

وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنَی عَلَی بَنِیْ إِسْرَاءِیْلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہُ وَمَا کَانُواْ یَعْرِشُونَ (الاعراف ۷:۱۳۷)

’’اور بنی اسرائیل کی ثابت قدمی کی بدولت تیرے رب کا مبارک وعدہ ان کے حق میں پورا ہو گیا۔ اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتے اور جو کچھ چھتریوں پر چڑھاتے تھے، ہم نے اس سب کو برباد کر کے رکھ دیا۔‘‘

تورات میں ہے:

’’اور خداوند نے موسیٰ سے فرمایا کہ بنی اسرائیل کو حکم دے کہ وہ لوٹ کر مجدال اور سمندر کے بیچ فی ہخیروت کے مقابل بعل صفوان کے آگے ڈیرے لگائیں۔ اسی کے آگے سمندر کے کنارے کنارے ڈیرے لگانا۔ فرعون بنی اسرائیل کے حق میں کہے گا کہ وہ زمین کی الجھنوں میں آکر بیابان میں گھر گئے ہیں اور میں فرعون کے دل کو سخت کروں گا اور وہ ان کا پیچھا کرے گا اور میں فرعون اور اس کے سارے لشکر پر ممتاز ہوں گا اور مصری جان لیں گے کہ خداوند میں ہوں اور انھوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ (خروج ۱۴:۱۔۴)

ارد گرد کی اقوام پر اس واقعے سے ہیبت، رعب اور دبدبہ کی جو کیفیت طاری ہوئی، اس کا ذکر ان الفاظ تورات میں ہوا ہے:

’’قومیں سن کر تھرا گئی ہیں

اور فلستین کے باشندوں کی جان پر آبنی ہے۔

ادون کے رئیس حیران ہیں۔

موآب کے پہلوانوں کو کپکپی لگ گئی ہے۔

کنعان کے سب باشندوں کے دل پگھلے جاتے ہیں۔

خوف وہراس ان پر طاری ہے۔

تیرے بازو کی عظمت کے سبب سے وہ پتھر کی طرح بے حس وحرکت ہیں۔

جب تک اے خداوند تیرے لوگ نکل نہ جائیں۔

جب تک تیرے لوگ جن کو تو نے خریدا ہے پار نہ ہو جائیں۔

تو ان کو وہاں لے جا کر اپنی میراث کے پہاڑ پر درخت کی طرح لگائے گا۔

تو ان کو اسی جگہ لے جائے گا جسے تو نے اپنی سکونت کے لیے بنایا ہے۔‘‘ (خروج ۱۵: ۱۴۔۱۷)

اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو عطا کی جانے والی اس نصرت اور غلبے کو ان کی پوری تاریخ میں ایک بنیادی حوالے کی حیثیت حاصل رہی۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی سرکشی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ہلاکت مسلط کی گئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اسی کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے عفو ودرگزر کی درخواست کی:

’’پس اگر تو اس قوم کو ایک اکیلے آدمی کی طرح جان سے مار ڈالے تو وہ قومیں جنھوں نے تیری شہرت سنی ہے، کہیں گی کہ چونکہ خداوند اس قوم کو اس ملک میں جسے اس نے ان کو دینے کی قسم کھائی تھی، پہنچا نہ سکا اس لیے اس نے ان کو بیابان میں ہلاک کر دیا۔‘‘ (گنتی ۱۴:۱۶)

موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر جب ارض مقدس کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بعض حکمرانوں نے رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو انھوں نے وہاں بھی اسی بات کا حوالہ دیا:

’’اور موسیٰ نے قادس سے ادوم کے بادشاہ کے پاس ایلچی روانہ کیے اور کہلا بھیجا کہ تیرا بھائی اسرائیل یہ عرض کرتا ہے کہ تو ہماری سب مصیبتوں سے جو ہم پر آئیں واقف ہے کہ ہمارے باپ دادا مصر میں گئے اور ہم بہت مدت تک مصر میں رہے اور مصریوں نے ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے برا برتاؤ کیا اور جب ہم نے خداوند سے فریاد کی تو اس نے ہماری سنی اور ایک فرشتہ کو بھیج کر ہم کو مصر سے نکال لے آیا ہے اور ا ب ہم قادس شہر میں ہیں جو تیری سرحد کے آخر میں واقع ہے، سو ہم کو اپنے ملک میں سے ہو کر جانے کی اجازت دے۔‘‘ (گنتی ۲۰: ۱۴۔۱۷)

موآبیوں کے بادشاہ بلق بن صفور نے بنی اسرائیل کے بڑھتے ہوئے لشکر سے خوف زدہ ہو کر بلعام بن بعور نامی بزرگ ہستی سے یہ درخواست کی کہ وہ موآب کے حق میں کامیابی کی دعا اور بنی اسرائیل کے خلاف بد دعا کرے۔ بلعام نے ان کو جواب دیا:

’’اٹھ اے بلق اور سن۔

اے صفور کے بیٹے! میری باتوں پر کان لگا۔

خدا انسان نہیں کہ جھوٹ بولے

اور نہ وہ آدم زاد ہے کہ اپنا ارادہ بدلے۔

کیا جو کچھ اس نے کہا اسے نہ کرے؟

یا جو فرمایا ہے اسے پورا نہ کرے؟

دیکھ! مجھے تو برکت دینے کا حکم ملا ہے۔

اس نے برکت دی ہے اور میں اسے پلٹ نہیں سکتا۔

وہ یعقوب میں بدی نہیں پاتا

اور نہ اسرائیل میں کوئی خرابی دیکھتا ہے۔

خداوند اس کا خدا اس کے ساتھ ہے

اور بادشاہ کی سی للکار ان کے لوگوں کے بیچ میں ہے۔

خدا ان کو مصر سے نکال کر لیے آ رہا ہے۔

ان میں جنگلی سانڈ کی سی طاقت ہے۔

یعقوب پر کوئی افسون نہیں چلتا

اور نہ اسرائیل کے خلاف فال کوئی چیز ہے۔

بلکہ یعقوب اور اسرائیل کے حق میں اب یہ کہا جائے گا

کہ خدا نے کیسے کیسے کام کیے۔‘‘ (گنتی ۲۳: ۱۸۔۲۳)

شام اور عراق کی جس سرزمین کو بنی اسرائیل کی میراث قرار دیا گیا تھا، اسے فتح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کے اسی قانون کا حوالہ دیا گیا:

قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُونَ أَنْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِمَا ادْخُلُواْ عَلَیْْہِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوہُ فَإِنَّکُمْ غَالِبُونَ وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُواْ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنَ (مائدہ ۵:۲۳)

’’دو آدمیوں نے، جو اللہ سے ڈرنے والوں میں سے تھے اور اللہ نے ان پر انعام کیا تھا، کہا کہ (اے بنی اسرائیل) شہر کے دروازے میں داخل ہو جاؤ۔ پس جب تم داخل ہو جاؤ گے تو تمھی غالب رہو گے۔ اور اگر تم سچ مچ ایمان رکھتے ہو تو اللہ ہی پر بھروسہ رکھو۔‘‘

تورات میں ہے:

’’اگر تم ان سب حکموں کو جو میں تم کو دیتا ہوں جانفشانی سے مانو اور ان پر عمل کرو اور خداوند اپنے خدا سے محبت رکھو اور اس کی سب راہوں پر چلو اور اس سے لپٹے رہو تو خداوند ان سب قوموں کو تمہارے آگے سے نکال ڈالے گا اور تم ان قوموں پر جو تم سے بڑی اور زور آور ہیں، قابض ہوگے۔ جہاں جہاں تمہارے پاؤں کا تلوا اٹکے، وہ جگہ تمہاری ہو جائے گی، یعنی بیابان اور لبنان سے اور دریاے فرات سے مغرب کے سمندر تک تمہاری سرحد ہوگی اور کوئی شخص وہاں تمہارا مقابلہ نہ کر سکے گا کیونکہ خداوند تمہارا خدا تمہارا رعب اور خوف اس تمام ملک میں جہاں کہیں تمہارے قدم پڑیں، پیدا کر دے گا جیسا اس نے تم سے کہا ہے۔‘‘ (استثنا ۱۱: ۲۲-۲۵)

سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دور میں جب بنی اسرائیل کی حکومت واقتدار اپنے عروج کو پہنچے اور انھوں نے اللہ کی یاد کے لیے ایک عظیم الشان عبادت گاہ تعمیر کی تو اسی اصول کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے یہ دعا کی:

’’اب رہا وہ پردیسی جو تیری قوم اسرائیل میں سے نہیں ہ، وہ جب دور ملک سے تیرے نام کی خاطر آئے (کیونکہ وہ تیرے بزرگ نام اور قوی ہاتھ اور بلند بازو کا حال سنیں گے) سو جب وہ آئے اور اس گھر کی طرف رخ کر کے دعا کرے تو تو آسمان پر سے جو تیری سکونت گاہ ہے، سن لینا اور جس جس بات کے لیے وہ پردیسی تجھ سے فریاد کرے، تو اس کے مطابق کرنا تاکہ زمین کی سب قومیں تیرے نام کو پہچانیں اور تیری قوم اسرائیل کی طرح تیرا خوف مانیں اور جان لیں کہ یہ گھر جسے میں نے بنایا ہے، تیرے نام کا کہلاتا ہے۔‘‘ (ا۔ سلاطین ۸: ۱۴۔۴۳)

’’اور یہ میری باتیں جن کو میں نے خداوند کے حضور مناجات میں پیش کیا ہے، دن اور رات خداوند ہمارے خدا کے نزدیک رہیں تاکہ وہ اپنے بندہ کی داد اور اپنی قوم اسرائیل کی داد ہر روز کی ضرورت کے مطابق دے جس سے زمین کی سب قومیں جان لیں کہ خداوند ہی خدا ہے اور اس کے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘ (۱۔ سلاطین ۸: ۵۹، ۶۰)

بنی اسرائیل کو عطا کی جانے والی اسی فضیلت کے اعتراف میں ارد گرد کی سب قومیں ان کی مطیع اور باج گزار ہو گئیں اور ان کو حاصل ہونے والا یہ شرف اللہ کے دین کی دعوت کے پھیلنے کا ذریعہ بن گیا:

’’اور سلیمان دریاے فرات سے فلستیوں کے ملک تک اور مصر کی سرحد تک سب مملکتوں پر حکمران تھا۔ وہ اس کے لیے ہدیے لاتی تھیں اور سلیمان کی عمر بھر اس کی مطیع رہیں۔‘‘ (۱۔ سلاطین ۴:۲۱)

’’اور خدا نے سلیمان کو حکمت اور سمجھ بہت ہی زیادہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندر کے کنارے کی ریت ہوتی ہے۔ اور سلیمان کی حکمت سب اہل مشرق کی حکمت اور مصر کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی۔‘‘ (ا۔ سلاطین ۴: ۲۹، ۳۰)

’’اور سب قوموں میں سے زمین کے سب بادشاہوں کی طرف سے جنھوں نے اس کی حکمت کی شہرت سنی تھی، لوگ سلیمان کی حکمت کو سننے آتے تھے۔‘‘ (۱۔ سلاطین ۴: ۳۴)

’’اور جب سبا کی ملکہ نے خداوند کے نام کی بابت سلیمان کی شہرت سنی تو وہ آئی تاکہ مشکل سوالوں سے اسے آزمائے۔ ....اور اس نے بادشاہ سے کہا کہ وہ سچی خبر تھی جو میں نے تیرے کاموں اور تیری حکمت کی بابت اپنے ملک میں سنی تھی۔ تو بھی میں نے وہ باتیں باور نہ کیں جب تک خود آکر اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ نہ لیا اور مجھے تو آدھا بھی نہیں بتایا گیا تھا کیونکہ تیری حکمت اور اقبال مندی اس شہرت سے جو میں نے سنی، بہت زیادہ ہے۔ خوش نصیب ہیں تیرے لوگ اور خوش نصیب ہیں تیرے یہ ملازم جو برابر تیرے حضور کھڑے رہتے اور تیری حکمت سنتے ہیں۔ خداوند تیرا خدا مبارک ہو جو تجھ سے ایسا خوشنود ہوا کہ تجھے اسرائیل کے تخت پر بٹھایا ہے۔ چونکہ خداوند نے اسرائیل سے سدا محبت رکھی ہے، اس لیے اس نے تجھے عدل اور انصاف کرنے کو بادشاہ بنایا۔‘‘ (۱۔ سلاطین ۱۰: ۱۔۹)

شاہ ارام کے لشکر کے سردار نعمان نے، جو کوڑھی تھا، الیشع کے کہنے پر یردن میں سات غوطے مارے اور اس کا مرض دور ہو گیا۔

’’پھر وہ اپنی جلو کے سب لوگوں سمیت مرد خدا کے پاس لوٹا اور اس کے سامنے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ دیکھ اب میں نے جان لیا کہ اسرائیل کو چھوڑ اور کہیں روئے زمین پر کوئی خدا نہیں۔ اس لیے اب کرم فرما کر اپنے خادم کا ہدیہ قبول کر۔‘‘ (۲۔ سلاطین ۵:۱۵)

بنی اسرائیل کے انبیا، بادشاہ اور اکابر بالعموم اسی بات کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ سے فتح ونصرت کی دعائیں مانگتے تھے:

’’سو اب اے خداوند ہمارے خدا، میں تیری منت کرتا ہوں کہ تو ہم کو اس کے ہاتھ سے بچا لے تاکہ زمین کی سب سلطنتیں جان لیں کہ تو ہی اکیلا خداوند خدا ہے۔‘‘ (۲۔ سلاطین ۱۹: ۱۹)

زبور میں ہے:

’’اے خداوند! اے ہماری سپر!

اپنی قدرت سے ان کو پراگندہ کر کے پست کر دے۔

وہ اپنے منہ کے گناہ اور اپنے ہونٹوں کی باتوں

اور اپنی لعن طعن اور جھوٹ بولنے کے باعث

اپنے غرور میں پکڑے جائیں۔

قہر میں ان کو فنا کر دے۔ فنا کردے تاکہ وہ نابود ہو جائیں۔

اور وہ زمین کی انتہا تک جان لیں

کہ خدا یعقوب پر حکمران ہے۔ (سلاہ)‘‘ (زبور ۵۹: ۱۱۔۱۳)

بابل کی اسیری سے خلاصی بھی بنی اسرائیل کو اسی نصرت الٰہی کے نتیجے میں حاصل ہوئی اور ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کا قانون دینونت دنیا کی قوموں کے سامنے آشکارا ہو گیا:

’’غرض باون دن میں الول مہینے کی پچیسویں تاریخ کو شہر پناہ بن چکی۔ جب ہمارے سب دشمنوں نے یہ سنا تو ہمارے آس پاس کی سب قومیں ڈرنے لگیں اور اپنی ہی نظر میں خود ذلیل ہو گئیں کیونکہ انھوں نے جان لیا کہ یہ کام ہمارے خدا کی طرف سے ہوا۔‘‘ (نحمیاہ ۶: ۱۵، ۱۶)

زبور میں ہے:

’’جب خداوند صیون کے اسیروں کو واپس لایا

تو ہم خواب دیکھنے والوں کی مانند تھے۔

اس وقت ہمارے منہ میں ہنسی

اور ہماری زبان پر راگنی تھی۔

تب قوموں میں یہ چرچا ہونے لگا

کہ خداوند نے ان کے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں۔

خداوند نے ہمارے لیے بڑے بڑے کام کیے ہیں

اور ہم شادمان ہیں۔‘‘ (زبور ۱۲۶: ۱۔۳)

تاہم، جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا ہے، یہ قانون یک طرفہ نہیں تھا، بلکہ خود بنی اسرائیل بھی پوری طرح اس کے اطلاق کی زد میں تھے ۔ قرآن مجید نے ’لئن کفرتم ان عذابی لشدید‘ کے الفاظ میں اسی پہلو کو بیان کیا ہے۔ بائبل میں ہے:

’’اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جاؤ اور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمھارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو ، بلکہ جا کر اور معبودوں کی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لیے مقدس کیا ہے، اپنی نظر سے دور کر دوں گا اور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہوگا اور اگرچہ یہ گھر ایسا ممتاز ہے تو بھی ہر ایک جو اس کے پاس سے گزرے گا، حیران ہوگا اور سسکا رہے گا اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا؟‘‘ ( سلاطین ۱: ۹: ۱۔۹) 

حزقی ایل نبی کی معرفت ارشاد ہوا:

’’اور جب میں ان کو اقوام میں پراگندہ اور ممالک میں تتر بتر کروں گا تب وہ جانیں گے کہ میں خداوند ہوں، لیکن ان میں سے بعض کو تلوار اور کال سے اور وبا سے بچا رکھوں گا تاکہ وہ قوموں کے درمیان جہاں کہیں ہوں، اپنے تمام نفرتی کاموں کو بیان کریں اور وہ معلوم کریں گے کہ میں خداوند ہوں۔‘‘ (حزقی ایل ۱۲: ۱۵، ۱۶)

بابل کے بادشاہ نبوکد نضر نے بنی اسرائیل کے علاقوں پر قبضہ کرنے کا ارادہ کیا تو بنی عمون کے سردار احیور نے اس کے سامنے بنی اسرائیل کی پوری سابقہ تاریخ بیان کی اور ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس خاص معاملے کو واضح کرتے ہوئے کہا:

’’اور جہاں کہیں وہ گئے، بغیر تیر کمان کے اور بغیر ڈھال تلوار کے ان کا خدا ان کے لیے لڑا اور غالب ہوا۔ اور کسی نے ان لوگوں کو مغلوب نہ کیا سوائے اس وقت کے جب کہ انھوں نے خداوند اپنے خدا کی عبادت کو ترک کیا۔ تو جتنی دفعہ انھوں نے اپنے خدا کی بجائے اوروں کی پرستش کی، وہ لوٹ اور تلوار اور ننگ کے حوالے کیے گئے۔ اور جتنی دفعہ انھوں نے اپنے خدا کی عبادت ترک کرنے سے توبہ کی، آسمان کے خدا نے ان کو مقابلہ کرنے کی طاقت دی۔ سو انھوں نے اپنے سامنے کنعانیوں اور یبوسیوں اور فرزیوں اور حتیوں اور حویوں اور اموریوں کے بادشاہوں کو اور تمام جباروں کو جو حشبون میں تھے، مغلوب کیا اور ان کی زمینوں اور ان کے شہروں پر قابض ہوئے۔ اور جب تک وہ اپنے خدا کے سامنے خطا نہیں کرتے تھے، وہ اچھی حالت میں رہتے تھے کیونکہ ان کا خدا بدی سے نفرت کرتا ہے۔ اور چند برس ہوئے کہ انھوں نے اس راہ کی مخالفت کی جس میں چلنے کے لیے ان کے خدا نے ان کو حکم دیا تھا تو وہ لڑائیوں میں بہت قوموں کے سامنے مغلوب ہوئے اور ان میں سے بہت اپنے ملک سے دوسرے ملک میں جلا وطن کیے گئے۔ مگر تھوڑے عرصہ سے وہ خداوند اپنے خدا کی طرف پھرے ہیں اور اپنی پراگندگی سے جہاں کہیں الگ الگ ہو گئے تھے، اکٹھے ہو گئے ہیں اور ان تمام پہاڑوں پر چڑھے ہیں اور پھر یروشلم پر قبضہ کر لیا ہے جہاں ان کا مقدس ہے۔ اب اے میرے آقا، دیکھ کہ اگر ان لوگوں نے اپنے خدا کے حضور بدی کی ہے تو ہم ان پر چڑھ جائیں گے کیونکہ ان کا خدا ان کو تیرے حوالے کر دے گا اور وہ تیری طاقت کے جوے کے نیچے خدمت کریں گے۔ اور اگر ان لوگوں نے اپنے خدا کے حضور بدی نہیں کی تو ان کے خلاف ہماری کچھ طاقت نہیں ہوگی کیونکہ ان کا خدا ان کے لیے لڑے گا اور ہم تمام روئے زمین پر شرم زدہ ہوں گے۔‘‘ (یہودیت ۵: ۱۔۲۵)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے آخری پیغمبر کی حیثیت سے بنی اسماعیل میں مبعوث کیا گیا تو آپ اور آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کو بھی اللہ کی طرف سے نصرت اور کامیابی کی بشارت دی گئی۔ قرآن میں اہل ایمان کے لیے کامیابی وسرفرازی کے وعدے آپ کے تیئس سالہ دور نبوت کے ہر ہر مرحلے میں نہایت وضاحت اور تکرار کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ 

مکی سورتوں میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون بیان کیا گیا کہ اللہ کے رسولوں کے لیے ناکامی یا شکست کا کوئی سوال نہیں اور وہ ہر حال میں مخالفین پر غالب آ کر رہتے ہیں:

وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِیْنَ ۔ إِنَّہُمْ لَہُمُ الْمَنصُورُونَ ۔ وَإِنَّ جُندَنَا لَہُمُ الْغَالِبُونَ (الصافات ۳۷:۱۷۱-۱۷۳)

’’اور ہم اپنے جن بندوں کو رسول بنا کر بھیجتے ہیں، ان کے بارے میں ہمارا یہ فیصلہ پہلے سے طے ہو چکا ہے کہ (دشمنوں کے مقابلے میں) انھی کی مدد کی جائے گی اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب آکر رہے گا۔‘‘

إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُوا فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْأَشْہَادُ (غافر ۴۰:۵۱)

’’یقینی بات ہے کہ اہم اپنے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور اس دن بھی کریں گے جب (خدا کی عدالت میں) گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘

گزشتہ اقوام پر عذاب الٰہی نازل ہونے کے واقعات بیان کر کے فرمایا :

أَکُفَّارُکُمْ خَیْْرٌ مِّنْ أُوْلَءِکُمْ أَمْ لَکُم بَرَاء ۃٌ فِیْ الزُّبُرِ، أَمْ یَقُولُونَ نَحْنُ جَمِیْعٌ مُّنتَصِرٌ، سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ (القمر ۵۴:۴۳-۴۵)

’’کیا تمھارے یہ کفار ان پچھلوں سے بہتر ہیں یا ان کے حق میں صحیفوں میں (عذاب سے) محفوظ رہنے کی کوئی ضما نت لکھی ہوئی ہے؟ کیا یہ کہتے ہیں کہ ہم فتح پانے والا گروہ ہیں؟ عنقریب اس گروہ کو شکست ہوگی اور یہ پیٹھ پھیر کر بھاگیں گے۔‘‘

یہ اعلان کیا گیا کہ اللہ کے اس قانون کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اہل ایمان کی کامیابی بھی یقینی ہے:

فَہَلْ یَنتَظِرُونَ إِلاَّ مِثْلَ أَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِہِمْ قُلْ فَانتَظِرُواْ إِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُنتَظِرِیْنَ ۔ ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ کَذَلِکَ حَقّاً عَلَیْْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِیْنَ (یونس ۱۰:۱۰۲، ۱۰۳)

’’پھر کیا یہ بھی (خدا کے عذاب کے) انھی دنوں کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے پہلے گزر جانے والوں پر آئے؟ کہہ دو کہ پس تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر (جب عذاب آئے گا تو) ہم اپنے رسولوں اور ان پرایمان لانے والوں کو بچا لیتے ہیں۔ اسی طرح ہوگا۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ایمان لانے والوں کو بچا لیں۔‘‘

مکہ مکرمہ ہی میں آپ کو ’الکوثر‘ یعنی بیت اللہ کی تولیت حاصل ہونے کی بشارت دے دی گئی اور کہا گیا کہ آپ کے دشمنوں کا نام ونشان تک مٹ جائے گا:

إِنَّا أَعْطَیْْنَاکَ الْکَوْثَرَ ۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ۔ إِنَّ شَانِءَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ (الکوثر ۱۰۸:۱۔۳)

’’ہم نے تجھے خیر کثیر عطا کر دی۔ سو تم اپنے رب کے لیے نماز بھی پڑھو اور قربانی بھی کرو۔ بے شک تمھارے دشمن ہی کا نام ونشان مٹ کر رہے گا۔‘‘

خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مکی عہد میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مصائب وتکالیف کا شکوہ کیا تو آپ نے فرمایا:

واللہ لیتمن ہذا الامر حتی یسیر الراکب من صنعاء الی حضر موت لا یخاف الا اللہ او الذئب علی غنمہ ولکنکم تستعجلون (بخاری، رقم ۳۳۴۳)

’’بخدا اس دین کا غلبہ اس طرح اپنے درجہ کمال کو پہنچے گا کہ ایک سوار صنعا سے حضرموت تک سفر کرے گا اور اسے یا خدا کا خوف ہوگا یا اس بات کا کہ بھیڑیا اس کی بکریوں کو نہ کھا جائے، لیکن بات یہ ہے کہ تم لوگ عجلت کا مظاہرہ کر رہے ہو۔‘‘

مکی دور میں ہی ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے مکہ میں آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایت کی کہ:

یا ابا ذر اکتم ہذا الامر وارجع الی بلدک فاذا بلغک ظہورنا فاقبل (بخاری، رقم ۳۵۲۲)

’’ابو ذر، اس معاملے کوچھپائے رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جاؤ۔ پھر جب تمھیں ہمارے غالب آجا نے کی خبر پہنچے تو آ جانا۔‘‘

بیعت عقبہ کے موقع پر انصار نے اسی یقین کے پیش نظر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہرحال غلبہ حاصل ہو کر رہے گا، آپ سے یہ یقین دہانی حاصل کی کہ اس کے بعد آپ انھیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم کے پاس واپس نہیں چلے جائیں گے:

یا رسول اللہ ان بیننا وبین الرجال حبالا وانا قاطعوہا یعنی الیہود فہل عسیت ان نحن فعلنا ذلک ثم اظہرک اللہ ان ترجع الی قومک وتدعنا؟ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۱/۴۰۲)

’’یا رسول اللہ! ہمارے اور یہود کے مابین تعلقات ہیں جنھیں (آپ کا ساتھ دینے کے لیے) ہم توڑ دیں گے، لیکن کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم یہ کر لیں اور پھر اللہ آپ کو (قریش پر) غلبہ عطا کر دے تو آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم کے پاس چلے جائیں؟‘‘

سفر ہجرت کے موقع پر سراقہ بن مالک نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر کا پیچھا کر کے انھیں گرفتار کرنے کی کوشش کی، لیکن قریب پہنچنے پر ان کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں دھنس گئے اور وہ اپنی کوشش میں ناکام رہے۔ اس پر انھیں یقین ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غلبہ پا کر رہیں گے:

فعرفت حین رایت ذلک انہ قد منع منی وانہ ظاہر (السیرۃ النبویۃ ۱/۴۴۲)

’’یہ دیکھ کر میں نے جان لیا کہ آپ کو مجھ سے محفوظ کر دیا گیا ہے اور یہ کہ آپ غالب ہو کر رہیں گے۔‘‘

سراقہ نے آپ نے درخواست کی کہ آپ کو امان نامہ لکھ دیا جائے جو آپ نے قبول فرما لی۔ فتح مکہ کے موقع پر سراقہ یہی امان نامہ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر اسلام قبول کر لیا۔

مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد جب اہل ایمان کو قتال کا حکم دے دیا گیا تو انھیں بشارت دی گئی کہ مسلمانوں کو اس جنگ میں خدا کی تائید حاصل ہے، اس لیے وہ کمزوری دکھاتے ہوئے ازخود دشمن کے ساتھ صلح کی خواہش کا اظہار نہ کریں:

فَلَا تَہِنُوا وَتَدْعُوا إِلَی السَّلْمِ وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّہُ مَعَکُمْ وَلَن یَتِرَکُمْ أَعْمَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۵)

’’سو تم کمزوری دکھا کر صلح کی دعوت نہ دو جبکہ بہرحال تم ہی غالب رہو گے۔ اور اللہ تمھارے ساتھ ہے اور وہ تمھارے اعمال کا بدلہ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔‘‘

سورۂ بقرہ کی آیات ۱۹۲، ۱۹۳ میں بھی قریش کے خلاف قتال کا حکم ایسے اسلوب میں دیا گیا ہے کہ گویا اس کے نتیجے میں قریش کے برپا کردہ فتنے کا خاتمہ اور اللہ کا دین کا غلبہ ایک قضاے مبرم ہے:

وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّی لاَ تَکُونَ فِتْنَۃٌ وَیَکُونَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ (البقرہ ۲:۱۹۳)

’’اور ان کے ساتھ جنگ کرو یہاں تک فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔‘‘

یہی اعلان مختلف اسالیب میں قرآن میں جگہ جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔ سورۂ صف میں ارشاد ہوا ہے:

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (الصف ۶۱:۹)

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرک اس بات کو کتنا ہی ناپسند کرتے رہیں۔‘‘

إِنَّ الَّذِیْنَ یُحَادُّونَ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَءِکَ فِیْ الأَذَلِّیْنَ، کَتَبَ اللّٰہُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِیْ إِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ (المجادلہ ۵۸:۲۰، ۲۱)

’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسر پیکار ہیں، وہی ذلیل ہو کر رہیں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں اور میرے رسول ہر حال میں غالب آئیں گے۔ بے شک اللہ بے حد قوت والا، غالب آنے والا ہے۔‘‘

اہل کفر اور اہل ایمان کے مابین پہلا معرکہ بدرمیں ہوا۔ اس جنگ میں قریش کی صف اول کی قیادت کو تہ تیغ کر کے نہ صرف قریش کو ان کے حتمی انجام کی تصویر دکھا دی گئی بلکہ رسول اللہ کے مخالف دوسرے گروہوں کو بھی اس سے عبرت حاصل کرنے کی نصیحت کی گئی۔ قرآن مجید نے اسی لیے غزوۂ بدر کو ’یوم الفرقان‘ یعنی حق وباطل کے مابین فیصلہ کن معرکے کا دن قرار دیا (الانفال ۸:۴۱) اور کہا کہ منکرین حق کے تمام گروہ اس واقعے میں اپنے انجام کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ ارشاد ہے:

قُل لِّلَّذِیْنَ کَفَرُواْ سَتُغْلَبُونَ وَتُحْشَرُونَ إِلَی جَہَنَّمَ وَبِءْسَ الْمِہَادُ ، قَدْ کَانَ لَکُمْ آیَۃٌ فِیْ فِءَتَیْْنِ الْتَقَتَا فِءَۃٌ تُقَاتِلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَأُخْرَی کَافِرَۃٌ یَرَوْنَہُم مِّثْلَیْْہِمْ رَأْیَ الْعَیْْنِ وَاللّہُ یُؤَیِّدُ بِنَصْرِہِ مَن یَشَاءُ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَعِبْرَۃً لَّأُوْلِیْ الأَبْصَارِ (آل عمران ۳: ۱۲، ۱۳)

’’تم ان منکروں سے کہہ دو کہ عنقریب تم مغلوب کر دیے جاؤ گے اور تمہیں دھکیل کر جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ تمہارے لیے ان دو گروہوں میں جن کی آپس میں مڈبھیڑ ہوئی، عبرت کی ایک بڑی نشانی تھی ۔ ایک گروہ تو مومن تھا جو اللہ کے راستے میں لڑ رہا تھا جبکہ دوسرا کافر تھا جو طاغوت کے لیے برسر پیکار تھا، اور انہیں مسلمان اپنی آنکھوں سے اپنے سے دوگنا دکھائی دے رہے تھے۔ اور اللہ جس کی چاہے اپنی مدد سے تائید کرتا ہے۔ بے شک اس میں آنکھیں رکھنے والوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے۔‘‘

تاریخ وسیرت بھی قرآن مجید کے اس بیان کی تائید کرتے ہیں۔ واقدی کا بیان ہے:

فلما قدم بالاسری اذل اللہ بذلک رقاب المشرکین والمنافقین والیہود ولم یبق بالمدینۃ یہودی ولا منافق الا خضع عنقہ لوقعۃ بدر ..... وفرق اللہ فی صبحہا بین الکفر والایمان وقالت الیہود فی ما بینہا ہو الذی نجدہ منعوتا واللہ لا تفرع لہ رایۃ بعد الیوم الا ظہرت (المغازی، ۱/۱۲۱)

’’جب آپ قیدیوں کو گرفتار کرکے لائے تو اللہ نے اس کی وجہ سے مشرکوں اور منافقوں اور یہودیوں کے سرنگوں کر دیے اور مدینے میں کوئی یہودی یا منافق ایسا نہ رہا جس کی گردن واقعہ بدر کے بعد جھک نہ گئی ہو۔ اس روز اللہ نے کفر اور ایمان کے مابین امتیاز قائم کر دیا اور یہود آپس میں کہنے لگے کہ یہ وہی پیغمبر ہے جس کی صفات تمہاری کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں۔ بخدا، آج کے بعد وہ جب بھی جنگ کا علم لہرائے گا، غلبہ اسی کو نصیب ہوگا۔‘‘

غزوۂ احد کے بعد مدینہ منورہ کے یہود اور منافقین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے خلاف اعتراضات کیے تو سیدنا عمر نے آپ سے اجازت طلب کی کہ ان یہودیوں اور منافقوں کو قتل کر دیں۔ آپ نے فرمایا:

یا عمر ان اللہ مظہر دینہ ومعز نبیہ وللیہود ذمۃ فلا اقتلہم (المغازی، ۱/۳۱۸)

’’اے عمر! اللہ یقیناًاپنے دین کو غالب اور اپنے نبی کو سرفراز کرے گا، لیکن یہود کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اس لیے میں انھیں قتل نہیں کروں گا۔‘‘

غزوۂ احد ہی کے موقع پر ابو سفیان نے جاتے ہوئے مسلمانوں کو آئندہ سال اسی وقت بدر الصفراء کے مقام پر آ کر لڑنے کا چیلنج دیا تھا۔ مقررہ وقت پر جب ابو سفیان کی پھیلائی ہوئی افواہوں کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف کی کیفیت ہونے لگی اور اندیشہ ہوا کہ وہ لڑائی کے لیے نہیں نکلیں گے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ:

یا رسول اللہ ان اللہ مظہر دینہ ومعز نبیہ وقد وعدنا القوم موعدا ونحن لا نحب ان نتخلف عن القوم فیرون ان ہذا جبن منا عنہم فسر لموعدہم (المغازی، ۱/۳۸۷)

’’یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غالب اور اپنے نبی کو سرفراز کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ہم نے اپنے دشمن کے ساتھ ایک وقت مقرر کیا تھا اور ہم اس کو پسند نہیں کرتے کہ لڑائی سے پیچھے ہٹیں اور دشمن یہ سمجھے کہ یہ ہماری بزدلی ہے، اس لیے آپ مقررہ مقام کی طرف روانہ ہو جائیے۔‘‘

اس کے بعد مسلمانوں کی قوت اور اسلام کی دعوت میں مسلسل وسعت پیدا ہوتی رہی اور قریش کی رسوائی اور ہزیمت کا دائرہ بھی اسی تناسب سے پھیلتا رہا۔ صورت حال پر نظر رکھنے والے ذہین لوگوں کو فتح مکہ سے قبل ہی اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ آخر کار قریش پر غالب آ کر رہیں گے۔ چنانچہ ۵ ہجری میں غزوۂ احزاب کے موقع پر قریش نے پورے عرب سے قبائل کو جمع کر کے مدینہ پر حملے کا ارادہ کیا تو حارث بن عوف نے اپنے قبیلہ بنو غطفان کو اس مہم میں شریک ہونے سے منع کیا اور ان سے کہا:

تفرقوا فی بلادکم ولا تسیروا الی محمد فانی اری ان محمدا امرہ ظاہر لو ناواہ من بین المشرق والمغرب لکانت لہ العاقبۃ (الواقدی، المغازی، ۲/۴۴۳)

’’اپنے علاقے میں منتشر ہو جاؤ اور محمد پر حملے کے لیے مت جاؤ۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ محمد کا دین غالب آ کر رہے گا۔ اگر مشرق سے مغرب تک سارے انسان اس کے مقابلے میں آجائیں تو بھی فتح اسی کو حاصل ہوگی۔‘‘

عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں کہ وہ قریش کی طرف سے بدر، احد اور خندق میں شریک ہوئے۔ اس کے بعد انھیں قریش کی مغلوبیت کا یقین ہو گیا۔کہتے ہیں:

فقلت فی نفسی کم اوضع؟ واللہ لیظہرن محمد علی قریش فخلفت مالی بالرہط وافلت یعنی من الناس فلم احضر الحدیبیۃ ولا صلحہا (المغازی، ۲/۷۴۱، ۷۴۲)

’’میں نے اپنے جی میں کہا: میں کب تک اس لاحاصل تگ ودو میں شریک رہوں گا؟ بخدا، محمد کو قریش پر غلبہ حاصل ہو کر رہے گا۔ چنانچہ میں نے اپنا مال واسباب اپنے قبیلے ہی میں چھوڑا اور لوگوں سے پیچھا چھڑا کر نکل گیا۔ چنانچہ میں حدیبیہ کے معاہدہ صلح کے موقع پر موجود نہیں تھا۔‘‘

عمرو اس کے بعد حبشہ چلے گئے۔ نجاشی شاہ حبشہ نے ایک موقع پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی تو عمرو قبول حق کی طرف متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں:

قلت فی نفسی عرف ہذا الحق العرب والعجم وتخالف انت؟ قلت اتشہد ایہا الملک بہذا؟ قال نعم اشہد بہ عند اللہ یا عمرو فاطعنی واتبعہ واللہ انہ لعلی الحق ولیظہرن علی کل دین خالفہ کما ظہر موسی علی فرعون وجنودہ (المغازی، ۲/۷۴۳)

’’میں نے اپنے دل میں کہا: ارے، اس حق کو تو عرب اور عجم کے لوگ پہچانتے ہیں اور تو ابھی تک مخالف ہے؟ میں نے بادشاہ سے پوچھا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو؟ اس نے کہا، اے عمرو، میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ گواہی دیتا ہوں، اس لیے میری بات مان لو اور اس نبی کی اطاعت اختیار کر لو۔ بخدا وہ حق پر ہے اور اپنی مخالفت کرنے والے ہر دین پر اسی طرح غالب آ کر رہے گا جیسے موسیٰ کو فرعون اور اس کے لشکر کے مقابلے میں غلبہ حاصل ہوا تھا۔‘‘

ہرقل کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نامہ مبارک پہنچنے پر اس نے ابو سفیان کو بلا کر ان سے گفتگو کی۔ اس گفتگو کے بعد ابو سفیان نے اپنے تاثرات یوں بیان کیے:

فلما ان خرجت مع اصحابی وخلوت بہم قلت لہم قد امر امر ابن ابی کبشۃ ہذا ملک بنی الاصفر یخافہ قال ابو سفیان واللہ ما زلت ذلیلا مستیقنا بان امرہ سیظہر حتی ادخل اللہ قلبی الاسلام وانا کارہ (بخاری، رقم ۲۷۲۳)

’’پھر جب میں اور میرے ساتھی اس کے دربار سے نکل کر تنہائی میں بیٹھے تو میں نے ان سے کہا: ابو کبشہ کے بیٹے کا معاملہ تو ہمارے بس سے باہر ہو گیا ہے۔ یہ دیکھو، رومیوں کا بادشاہ بھی اس سے خوف زدہ ہے۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ بخدا، اس وقت سے مجھے پکا یقین ہو گیا کہ محمد غالب آ کر رہیں گے، یہاں تک آخر کار اللہ نے میرے دل میں اسلام کو داخل کر دیا، حالانکہ میں اس کو ناپسند کرتا تھا۔‘‘

خالد بن الولید کہتے ہیں:

لما اراد اللہ بی من الخیر ما اراد قذف فی قلبی حب الاسلام وحضرنی رشدی وقلت قد شہدت ہذہ المواطن کلہا علی محمد فلیس موطن اشہدہ الا انصرف وانا اری فی نفسی انی موضع فی غیر شئ وان محمد سیظہر (المغازی، ۲/۷۴۶)

’’جب اللہ نے میرے ساتھ بھلائی کا ارادہ کیا تو میرے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی اور مجھے ہدایت کی بات سوجھ گئی۔ میں نے کہا: میں محمد کے خلاف ان تمام جنگوں میں شریک رہا ہوں اور کوئی جنگ ایسی نہیں ہوتی کہ جس میں شریک ہونے کے بعد میں پلٹوں اور میرے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ میں ایک بے فائدہ جدوجہد میں مصروف ہوں اور محمد بہرحال غالب آکر رہیں گے۔‘‘

فتح مکہ کے بعد بنو ہوازن اور بنو ثقیف نے مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس موقع پر بنو ہوازن میں سے دو قبیلے بنو کعب اور بنو کلاب ان کے ساتھ شریک نہ ہوئے۔ ان میں سے ایک سردار ابن ابی البراء نے بنو کلاب کو اس جنگ میں شریک ہونے سے منع کیا اور ان سے کہا کہ:

واللہ لو ناوا محمدا من بین المشرق والمغرب لظہر علیہ (المغازی، ۳/۸۸۶)

’’بخدا، اگر مشرق سے مغرب تک سب لوگ محمد کے مقابلے میں آ جائیں، تب بھی محمد ہی غالب رہیں گے۔‘‘

غزوۂ حنین کے موقع پر جب دوران سفر میں ایک مشرک نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سویا ہوا پا کر آپ پر تلوار سونت لی۔ اس موقع پر آپ نے اس شخص کو معاف کر دیا اور ابو بردہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:

ان اللہ مانعی وحافظی حتی یظہر دینہ علی الدین کلہ (المغازی، ۳/۸۹۲)

’’بے شک اللہ میری حفاظت کرے گا ، یہاں تک کہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کر دے۔‘‘

غزوۂ حنین میں شکست کی کیفیت کو خود بنو ثقیف کے بعض لوگوں نے یوں بیان کیا:

فتفرقت جماعتنا فی کل وجہ وجعلت الرعدۃ تسحقنا حتی لحقنا بعلیاء بلادنا فان کان لیحکی عنا الکلام ما کنا ندری بہ مما کان بنا من الرعب فقذف اللہ الاسلام فی قلوبنا (المغازی ۳/۹۰۷)

’’ہمارا لشکر تمام اطراف میں تتر بتر ہو گیا اور کپکپی ہم پر اس طرح طاری ہوئی کہ کسی کام کا نہ چھوڑا۔ آخر کار ہم گرتے پڑتے اپنے علاقے کی سخت اور سنگین زمین تک پہنچ گئے۔ لوگ ہمیں وہ باتیں بتاتے تھے جو اس موقع پر ہمارے مونہوں سے نکلیں لیکن رعب اور ہیبت کی وجہ ہمیں خود کچھ پتہ نہیں تھا کہ ہم کیا بول رہے ہیں۔ اس کے بعد اللہ نے ہمارے دلوں میں اسلام قبول کرنے کا خیال ڈال دیا۔‘‘

مسلمانوں کے غلبہ اور قریش کی ہزیمت کا یہ عمل فتح مکہ کی صورت میں اپنے نقطہ کمال کو پہنچا اور قریش کے اس انجام نے تردد اور شکوک وشبہات کی اس کیفیت کا بالکل خاتمہ کر دیا جس میں جزیرۂ عرب کے اکثر قبائل اس سے پہلے مبتلا تھے۔ چنانچہ پورے عرب نے آپ کے سامنے تسلیم وانقیاد کی گردن جھکا دی۔ عمرو بن سلمہ بتاتے ہیں:

کانت العرب تلوم باسلامہم الفتح فیقولون اترکوہ وقومہ فان ان ظہر علیہم فہو نبی صادق فلما کانت وقعۃ اہل الفتح بادر کل قوم باسلامہم (بخاری، رقم ۳۹۶۳)

’’اہل عرب اسلام لانے کے لیے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے۔ چنانچہ وہ کہتے تھے کہ محمد اور ان کے قبیلے کے مابین فیصلہ ہو لینے دو۔ اگر محمد غالب آ گئے تو وہ سچے نبی ہیں۔ پھر جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قبیلہ اسلام قبول کرنے کے لیے لپکنے لگا۔‘‘

ابن اسحاق کا بیان ہے:

وانما کانت العرب تربص باسلامہا امر ہذا الحی من قریش لان قریشا کانوا امام الناس وہادیہم واہل البیت والحرم وصریح ولد اسماعیل بن ابراہیم وقادۃ العرب لا ینکرون ذلک وکانت قریش ہی التی نصبت الحرب لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وخلافہ فلما افتتحت مکۃ ودانت لہ قریش ودوخہا الاسلام عرفت العرب انہ لا طاقۃ لہم بحرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا عداوتہ فدخلوا فی دین اللہ کما قال اللہ عز وجل افواجا یضربون الیہ من کل وجہ (ابن کثیر، السیرۃ النبویۃ، ۴/۷۶)

’’سارا عرب اسلام قبول کرنے کے لیے قریش کا انجام طے ہونے کا انتظار کر رہا تھا، کیونکہ قریش لوگوں کے پیشوا ورہنما، حرم اور بیت اللہ کے متولی اور اسماعیل علیہ السلام کی خالص نسل سے تھے اور عرب کی قیادت کے منصب پر فائز تھے جس کو کوئی چیلنج کرنے والا نہیں تھا۔ اور یہ قریش ہی تھے جو حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف برسرپیکار تھے۔ پھر جب مکہ فتح ہو گیا اور اسلام نے قریش کو زیر کر کے اپنا مطیع بنا لیا تو اہل عرب جان گئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ اور دشمنی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق وہ ہر جانب سے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور گروہ در گروہ اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔‘‘

اس پوری داستان سے، ظاہر ہے کہ ارد گرد کی اقوام بے خبر نہیں تھیں، چنانچہ جزیرۂ عرب میں اسلام کے غالب ہونے کے نتیجے میں اسلام کی حقانیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعواے نبوت کی صداقت ان اقوام پر بھی پوری طرح واضح ہو گئی۔ ابن سعد کی ’الطبقات الکبریٰ‘ (۱/ ۲۵۸-۲۶۳) اور دیگر تاریخی مآخذ میں درج تفصیلات کے مطابق اس کی مختصر روداد حسب ذیل ہے:

عمرو بن امیۃ الضمری کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی شاہ حبشہ کے نام دعوت اسلام کا خط دے کر بھیجا۔ اس نے آپ کے خط کو آنکھوں سے لگایا، تخت سے اتر کر نہایت تواضع کے ساتھ زمین پر بیٹھ گیا اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ پھر اس نے اپنے قبول اسلام کی باقاعدہ تحریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لکھی اور کہا کہ اگر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو سکتا تو ہو جاتا۔ 

دحیہ کلبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک لے کر قیصر روم کے پاس گئے تو اس نے علامات کو پہچان کر نہ صرف خود آپ کی نبوت کی تصدیق کی بلکہ اپنی قوم کو بھی آپ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ لیکن مسیحی علما اور سرداروں کی جانب سے شدید رد عمل دیکھ کر اسے خوف ہوا کہ وہ اس بات پر وہ خود قیصر کی اطاعت قبول کرنے سے بھی انکار کر دیں گے، چنانچہ اس نے اپنی بادشاہت کو بچانے کی خاطر اسلام قبول کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس موقع پر قیصر نے ابو سفیان کو بلا کر، جو اتفاق سے اس وقت شام میں موجود تھے، آپ کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ان معلومات کی روشنی میں اس نے یہ پیش گوئی کی کہ یوشک ان یملک موضع قدمی ہاتین (بخاری، رقم ۲۷۲۳) یعنی عنقریب یہ علاقہ بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں ہوگا جو اس وقت میرے زیر نگیں ہے۔ 

حاطب بن ابی بلتعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقوقس شاہ مصر کے نام مکتوب مبارک دے کر بھیجا۔ اس نے خط پڑھ کر اچھے کلمات کہے اور نہایت ادب اور احترام سے آپ کے خط کو محفوظ کر لیا۔ اس نے دو نہایت قیمتی لونڈیاں اور ایک سفید گدھا تحفے کے طور پر آپ کی خدمت میں بھیجے اور جوابی خط میں لکھا کہ یہ بات تو میرے علم میں تھی کہ ایک نبی نے مبعوث ہونا ہے، البتہ میرا گمان یہ تھا کہ شاید وہ شام میں مبعوث ہوگا۔ تاہم اس نے آپ کی طرف سے قبول اسلام کی دعوت کے جواب میں یہ عذر پیش کیا کہ قبطی قوم اس معاملے میں میری بات نہیں مانے گی۔ اس نے پیش گوئی کی کہ:

وسیظہر علی البلاد وینزل اصحابہ من بعدہ بساحتنا ہذہ حتی یظہروا علی ما ہہنا (الاصابۃ، ۴/۱۹۶۷)

’’انھیں ملکوں پر غلبہ نصیب ہوگااور ان کے بعد ان کے ساتھی ہمارے اس علاقے میں آئیں گے یہاں تک کہ یہاں بھی ان کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔‘‘

اس نے مزید کہا:

وستکون لہ العاقبۃ حتی لا ینازعہ احد ویظہر دینہ الی منتہی الخف والحافر (الاصابہ، ۴/۱۹۶۸)

’’انجام کار سرفرازی انھی کا مقدر ہے یہاں تک کہ کوئی ان کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھے گا اور جہاں تک گھوڑے اور اونٹ پہنچ سکتے ہیں، وہاں تک ان کا دین غالب ہوگا۔‘‘

عبد اللہ بن حذافہ سہمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط لے کر خسرو شاہ ایران کے پاس گئے۔ اس نے نہایت تکبر کے ساتھ آپ کا والا نامہ پھاڑ دیا اور یمن میں اپنے گورنر باذان کو لکھا کہ دو آدمی بھیج کر اس مدعی نبوت کے بارے میں معلومات حاصل کرو۔ باذان کے قاصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے ان سے کہا کہ ایک دن ٹھہر جاؤ اور کل دوبارہ میرے پاس آنا۔ اگلے دن وہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اطلاع دی کہ میرے رب نے گزشتہ رات تمہارے آقا کو خود اس کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھوں قتل کروا دیا ہے۔ قاصد یہ اطلاع لے کر یمن واپس گئے تو باذان اور اس کے ماتحت عرب فارسی نسل کے لوگوں نے صورت حال کی تصدیق کرنے کے بعد اسلام قبول کر لیا۔

حارث بن ابی شمر شاہ غسان کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجاع بن وہب کو خط دے کر بھیجا۔ پہلے پہل تو اس نے متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کے لیے لشکر کو تیار ہونے کا حکم دیا۔ تاہم قیصر روم نے اس کو اس ارادے سے منع کیا جس کے بعد حارث نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کا انعام واکرام کر کے اسے رخصت کر دیا۔ حارث کی وفات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جانشین جبلہ بن ایہم کو دوبارہ اسلام کی دعوت بھیجی جو اس نے قبول کر لی۔ 

بحرین میں فارسی سلطنت کے زیر سایہ حکومت کرنے والے بادشاہ منذر بن ساویٰ کے نام خط دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاء بن الحضرمی کو بھیجا تو اس نے آپ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے بعد اہل ایمان کو جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح کی سلطنتوں کا اقتدار حاصل ہونے کی بشارتیں بھی مختلف مواقع پر ایک تسلسل کے ساتھ دیں۔ اس نوعیت کی روایات کتب حدیث میں کثرت سے نقل ہوئی ہیں۔ یہاں ان میں سے اہم روایات نقل کی جاتی ہیں:

تمیم داری روایت کرتے ہیں : 

سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لیبلغن ہذا الامر ما بلغ اللیل والنہار ولا یترک اللہ بیت مدر ولا وبر الا ادخلہ اللہ ہذا الدین بعز عزیز او بذل ذلیل عزا یعز اللہ بہ الاسلام وذلا یذل اللہ بہ الکفر (مسند احمد، رقم ۱۶۲۴۴)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا: یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات کا سلسلہ موجود ہے۔ اور اللہ تعالیٰ شہروں اور دیہات کا کوئی گھر ایسا نہیں چھوڑے گا جس میں یہ دین داخل نہ ہو جائے۔ کچھ لوگ عزت پائیں گے اور کچھ ذلیل ہوں گے۔ عزت تو اللہ تعالیٰ اسلام کو بخشیں گے جبکہ ذلت اہل کفر کا نصیب بنے گی۔‘‘

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقہا ومغاربہا وان امتی سیبلغ ملکہا ما زوی لی منہا (مسلم، رقم ۵۱۴۴)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی اور میں نے اس کے مشرق ومغرب کے علاقے دیکھ لیے اور بے شک میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے۔‘‘

ابو ہریرہ سے روایت ہے:

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا ہلک کسری فلا کسری بعدہ واذا ہلک قیصر فلا قیصر بعدہ والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوزہما فی سبیل اللہ (بخاری، رقم ۲۸۸۸)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسریٰ ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی دوسرا کسریٰ پیدا نہیں ہو گا۔ اور جب قیصر کی حکومت (شام کے علاقے سے) ختم ہو جائے گی تو دوبارہ کبھی قائم نہیں ہوگی۔ اور اللہ کی قسم، ان دونوں کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ کیے جائیں گے۔‘‘

سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ خندق کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ بشارت دی:

ہذہ فتوح یفتحہا اللہ علیکم بعدی یا سلمان، لتفتحن الشام ویہرب ہرقل الی اقصی مملکتہ وتظہرون علی الشام فلا ینازعکم احد، ولتفتحن الیمن ولیفتحن ہذا المشرق ویقتل کسری بعدہ (المغازی، ۲/۴۵۰)

’’اے سلمان، یہ وہ فتوحات ہیں جو تمھیں میرے بعد حاصل ہوں گے۔ شام فتح ہوگا اور ہرقل بھاگ کر اپنی مملکت کے پرلے کنارے کی طرف چلا جائے گا اور تمہیں شام پر غلبہ حاصل ہوگا اور کوئی اسے تم سے چھیننے کی کوشش نہیں کرے گا۔ اور یمن بھی لازماً فتح ہوگا اور یہ مشرق کے علاقے بھی تمہارے قبضے میں آئیں گے جس کے بعد کسریٰ قتل کر دیا جائے گا۔‘‘

غزوۂ تبوک کے موقع پر آپ نے فرمایا: 

الا ابشرکم؟ قالوا بلی یا رسول اللہ وہم یسیرون علی رواحلہم فقال ان اللہ اعطانی الکنزین فارس والروم وامدنی بالملوک ملوک حمیر یجاہدون فی سبیل اللہ ویاکلون فیء اللہ (المغازی، ۳/۱۰۱۱)

’’کیا میں تمھیں خوشخبری نہ دوں؟ صحابہ نے اپنی سواریوں پر چلتے چلتے کہا: یا رسول اللہ، کیوں نہیں۔ آ پ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے دو خزانے عطا فرمائے ہیں۔ ایک فارس کا اور دوسرا روم کا۔ اور اس نے حمیر کے بادشاہوں کے ذریعے سے میری مدد کی ہے جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اور اس راہ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت کھائیں گے۔‘‘

عدی بن حاتم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا:

اما انی اعلم ما الذی یمنعک من الاسلام تقول انما اتبعہ ضعفۃ الناس ومن لا قوۃ لہ وقد رمتہم العرب اتعرف الحیرۃ قلت لم ارہا وقد سمعت بہا قال فوا الذی نفسی بیدہ لیتمن اللہ ہذا الامر حتی تخرج الظعینۃ من الحیرۃ حتی تطوف بالبیت فی غیر جوار احد ولیفتحن کنوز کسری بن ہرمز قال قلت کسری بن ہرمز قال نعم کسری بن ہرمز ولیبذلن المال حتی لا یقبلہ احد قال عدی بن حاتم فہذہ الظعینۃ تخرج من الحیرۃ فتطوف بالبیت فی غیر جوار ولقد کنت فی من فتح کنوز کسری بن ہرمز والذی نفسی بیدہ لتکونن الثالثۃ لان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قد قالہا (مسند احمد، رقم ۱۷۵۴۸)

’’سنو، مجھے معلوم ہے کہ تمہارے اسلام لانے میں کیا چیز مانع ہے۔ تم یہ سوچتے ہو کہ اس کی پیروی تو بس کچھ کمزور اور بے حیثیت لوگوں نے ہی اختیار کی ہے اور پورا عرب ان کے مقابلے پر کھڑا ہے۔ کیا تم حیرہ کو جانتے ہو؟ میں نے کہا، میں نے دیکھا تو نہیں لیکن اس کے بارے میں سنا ہے۔ آپ نے فرمایا، پس اللہ کی قسم ہے کہ اس دین کا غلبہ اس طرح قائم ہوگا کہ حیرہ سے ایک عورت اونٹ پر سوار ہو کر تن تنہا بیت اللہ کا حج کرنے آئے گی اور کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح ہوں گے ۔ میں نے تعجب سے پوچھا: کسریٰ بن ہرمز کے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، کسریٰ بن ہرمز کے۔ اور مال اتنا وافر ہو جائے گا کہ کوئی اس کو لینے والا نہیں ملے گا۔ عدی بن حاتم کہتے ہیں: یہ دیکھو، حیرہ سے خاتون تن تنہا سوار ہو کر آتی ہے اور بیت اللہ کا حج کرتی ہے۔ اور میں خود ان لشکر میں شامل تھا جس نے کسریٰ بن ہرمز کے خزانے فتح کیے۔ اور بخدا، تیسری پیش گوئی بھی پوری ہو کر رہے گی، کیونکہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔‘‘

عباس بن عبد المطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:

یظہر ہذا الدین حتی یجاوز البحار وحتی تخاض البحار بالخیل فی سبیل اللہ تبارک وتعالی (تفسیر القرطبی ۱/۱۸)

’’اس دین کو غلبہ نصیب ہوگا یہاں تک کہ اس کے حدود سمندروں سے آگے چلے جائیں گے اور اللہ کے راستے میں سمندروں میں گھوڑے دوڑا دیے جائیں گے۔‘‘

عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اذا فتحت علیکم فارس والروم ای قوم انتم؟ قال عبد الرحمن بن عوف نقول کما امرنا اللہ (مسلم، رقم ۵۲۶۲)

’’عبد اللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم فارس اور روم کو فتح کر لو گے تو پھر کیا کرو گے؟ عبد الرحمن بن عوف نے کہا: ہم وہی کریں گے جو اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے۔‘‘

ابو ذر بیان کرتے ہیں:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکم ستفتحون مصر وہی ارض یسمی فیہا القیراط فاذا فتحتموہا فاحسنوا الی اہلہا فان لہم ذمۃ ورحما او قال ذمۃ وصہرا (صحیح مسلم، رقم ۴۶۱۵)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم مصر کو فتح کرو گے اور یہ وہ سرزمین ہے جس کے سکے کا نام قیراط ہے۔ پس جب تم اس کو فتح کر لو تو وہاں کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنا، کیونکہ (ان کا دہرا حق ہوگا) وہ اہل ذمہ بھی ہوں گے اور ان کے ساتھ رشتے داری بھی ہے۔‘‘

بخاری میں سفیان بن ابی زہیر سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تفتح الیمن فیاتی قوم یبسون فیتحملون باھلیہم ومن اطاعہم والمدینۃ خیر لہم لو کانوا یعلمون وتفتح الشام فیاتی قوم یبسون فیتحملون باھلیہم ومن اطاعہم والمدینۃ خیر لہم لو کانوا یعلمون وتفتح العراق فیاتی قوم یبسون فیتحملون باھلیہم ومن اطاعہم والمدینۃ خیر لہم لو کانوا یعلمون (بخاری، رقم ۱۷۷۶۔ مسلم، رقم ۱۳۸۸)

’’یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ (اونٹوں کو) ہانکتے ہوئے آئیں گے اور اپنے اہل خانہ کو اور جو ان کی بات مانیں گے، انھیں بٹھا کر (یمن کی طرف) لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے۔ اور شام فتح ہوگا تو کچھ لوگ (اونٹوں کو) ہانکتے ہوئے آئیں گے اور اپنے اہل خانہ کو اور جو ان کی بات مانیں گے، انھیں بٹھا کر (شام کی طرف) لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے۔ اور عراق فتح ہوگا تو کچھ لوگ (اونٹوں کو) ہانکتے ہوئے آئیں گے اور اپنے اہل خانہ کو اور جو ان کی بات مانیں گے، انھیں بٹھا کر (شام کی طرف) لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے۔‘‘

عقبۃ بن عامر روایت کرتے ہیں:

سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ستفتح علیکم ارضون ویکفیکم اللہ فلا یعجز احدکم ان یلہو باسہمہ (مسلم، رقم ۱۹۱۷)

’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے سنا کہ عنقریب بہت سے علاقے تمھارے ہاتھوں مفتوح ہوں گے اور اللہ تمھاری مدد کے لیے کافی ہوگا، اس لیے تم میں سے کوئی اس سے عاجز نہ رہے کہ (لڑائی کی تیاری کی غرض سے) اپنے تیروں سے کھیلتا رہے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام انھی بشارتوں کی روشنی میں اس یقین کے ساتھ ان قوموں کے خلاف میدان میں اترے کہ اللہ کی طرف سے فتح ونصرت ان کے لیے مقدر کر دی گئی ہے۔ تاریخ میں ان کے جو بیانات نقل ہوئے ہیں، ان سے صاف واضح ہے کہ وہ اپنے جنگی اقدامات کی تعبیر اسی وعدۂ الٰہی کی روشنی میں کرتے اور ان میں کامیابی کو اللہ کی طرف سے فتح ونصرت کے وعدے کی بنا پر یقینی خیال کرتے تھے۔ چنانچہ اہل فارس کی طرف لشکر روانہ کرنے سے پہلے سیدنا عمر نے مسلمانوں سے خطاب کیا اور فرمایا:

ان الحجاز لیس لکم بدار الا علی النجعۃ ولا یقوی علیہ اہلہ الا بذلک این الطراء المہاجرون عن موعود اللہ سیروا فی الارض التی وعدکم اللہ فی الکتاب ان یورثکموہا فانہ قال لیظہرہ علی الدین کلہ واللہ مظہر دینہ ومعز ناصرہ ومولی اہلہ مواریث الامم این عباد اللہ الصالحون (طبری، ۳/۴۴۵)

’’حجاز تمہارا مستقر نہیں بن سکتا جب تک کہ تم وسائل معاش کی تلاش میں باہر نہ نکلو۔ اہل حجاز کے یہاں رہنے کا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو اللہ کے وعدے کو حاصل کرنے کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر پردیسی بننا چاہتے ہیں؟ اس سرزمین میں گھس جاؤ جس کی ملکیت کا وعدہ اللہ نے تمہارے ساتھ اپنی کتاب میں کیا ہے۔ اس نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے دین کو دوسرے تمام دینوں پر غالب کر دے گا۔ اور اللہ یقیناًاپنے دین کو غالب اور اس کے ماننے والوں کو سرفراز کرے گا اور اس کے پیروکاروں کو قوموں کی سلطنتیں عنایت کرے گا۔ اللہ کے نیک بندے کہاں ہیں؟‘‘

یرموک کے معرکے کے موقع پر معاذ بن جبل نے مسلمانوں کو اسی وعدہ الٰہی کی یاد دہانی کرائی:

الم تسمعوا لقول اللہ وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم فاستحیوا رحمکم اللہ من ربکم ان یراکم فرارا من عدوکم (ابن کثیر، البدایہ والنہایہ ۷/۸، ۹)

’’کیا تم نے اللہ کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ: وعد اللہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات لیستخلفنہم فی الارض کما استخلف الذین من قبلہم۔ اس لیے اللہ تم پررحم کرے، اس بات پر اللہ سے حیا کرنا کہ وہ تمھیں تمھارے دشمن کے سامنے سے فرار ہوتا ہوا دیکھے۔‘‘

سعد بن ابی وقاص نے ایک موقع پر لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

ان اللہ ہو الحق لا شریک لہ فی الملک ولیس لقولہ خلف قال اللہ جل ثناؤہ ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثہا عبادی الصالحون ان ہذا میراثکم وموعود ربکم وقد اباحہا لکم منذ ثلاث حجج فانتم تطعمون منہا وتاکلون منہا وتقتلون اہلہا وتجبونہم وتسبونہم الی ہذا الیوم (طبری، ۳/۵۳۱)

’’بے شک اللہ ہی کی ذات حق ہے۔ کائنات کی پادشاہی میں اس کا کوئی شریک نہیں اور جو کچھ اس نے فرمایا، اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ’اور ہم نے (بنی اسرائیل کو) یاددہانی کرانے کے بعد زبور میں یہ بات لکھ دی تھی کہ اس سرزمین کی ملکیت اور وراثت میرے نیک بندوں کو ملے گی۔ سو یہ تمہاری ملکیت اور تمہارے ساتھ تمہارے رب کا وعدہ ہے۔ اس نے اس سرزمین کو تین سال سے تمہارے لیے مباح کر رکھا ہے ۔ پس تم آج کے دن تک اس میں سے کھلا بھی رہے ہو، خود بھی مستفید ہو رہے ہو، یہاں کے لوگوں سے ٹیکس بھی وصول کر رہے ہو اور انھیں قیدی بھی بنا رہے ہو۔‘‘

صحابہ کو اس بات کا بھی پورا احساس تھا کہ ان کی کامیابی کا دارومدار قلت وکثرت اور مادی اسباب ووسائل پر نہیں، بلکہ دین حق کے ساتھ ان کی وابستگی اور صبر واستقامت پر ہے۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر نے شام کے محاذ پر اپنی افوا ج کو لکھا:

انتم انصار اللہ واللہ ناصر من نصرہ وخاذل من کفرہ ولن یوتی مثلکم عن قلۃ ولکن من تلقاء الذنوب فاحترسوا منہا (البدایہ والنہایہ ۷/۵)

’’تم اللہ کے مددگار ہو اور جو اللہ کی مدد کرے، اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور جو اس کا انکار کرے، اسے تنہا چھوڑ دیتا ہے۔ تمھارے جیسا گروہ کبھی تعداد کے کم ہونے کی وجہ سے مغلوب نہیں ہوگا، بلکہ صرف گناہوں کی وجہ سے شکست کھائے گا، اس لیے گناہوں سے بچتے رہو۔‘‘

عمرو بن العاص نے یرموک کے موقع پر اسلامی لشکر سے کہا:

لقد سمعت ان المسلمین سیفتحونہا کفرا کفرا وقصرا قصرا فلا یہولنکم جموعہم ولا عددہم فانکم لو صدقتموہم الشد لتطایروا تطایر اولاد الحجل (البدایہ والنہایہ ۷/۱۰)

’’میں نے سنا ہے کہ مسلمان ان علاقوں کو ایک ایک بستی اور ایک ایک محل کر کے فتح کرتے رہیں گے، اس لیے دشمن کے بڑے بڑے لشکر اور ان کی تعداد تمھاری ہمت کو پست نہ کرنے پائے ، کیونکہ اگر تم دل جمعی سے ان پر حملہ کرو گے تو وہ یوں منتشر ہو کر بھاگیں گے جیسے چکور کے بچے بھاگتے ہیں۔‘‘

سیدنا علیؓ نے ایک موقع پر فرمایا:

ان ہذا الامر لم یکن نصرہ ولا خذلانہ بکثرۃ ولا قلۃ ہو دینہ الذی اظہر وجندہ الذی اعزہ وامدہ بالملائکۃ حتی بلغ ما بلغ فنحن علی موعود من اللہ واللہ منجز وعدہ وناصر جندہ (البدایہ والنہایہ ۷/۱۰۷)

’’اس دین کی فتح یا شکست کا مدار تعداد کی کثرت یا قلت پر نہیں۔ یہ اللہ کا دین ہے جس کو اس نے غالب کا ہے اور اللہ کا لشکر ہے جس کی تائید اور نصرت اس نے فرشتوں کے ذریعے سے کی ہے یہاں تک کہ یہ اس عروج کو پہنچ گیا ہے۔ ہم اللہ کے وعدے کے سہارے پر لڑتے ہیں اور اللہ اپنے وعدے کو پورا کرنے والا اور اپنے لشکر کی مدد کرنے والا ہے۔‘‘

صحابہ کفار کے ساتھ ان معرکوں میں اپنی نصرت وکامیابی کو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر کردہ ان خاص واقعات کا نمونہ سمجھتے تھے جو اللہ تعالیٰ اپنی دینونت کے اظہار کے لیے وقتاً فوقتاً دنیا میں رونما فرماتا رہتا ہے:

معرکہ یرموک کے موقع پر خالد بن ولید نے اپنے لشکر سے کہا:

ان ہذا یوم من ایام اللہ لا ینبغی فیہ الفخر ولا البغی اخلصوا جہادکم واریدوا اللہ بعملکم (البدایہ والنہایہ ۷/۷)

’’یہ اللہ (کے فیصلوں کے ظہور) کے دنوں میں سے ایک دن ہے۔ اس میں نے نہ فخر کا اظہار مناسب ہے اور نہ سرکشی۔ اپنے جہاد کو خالص رکھو اور اپنے عمل سے اللہ کی رضا حاصل کرنے کی نیت رکھو۔‘‘

اسی موقع پر ابو سفیان نے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

اللہ اللہ انکم دارۃ العرب وانصار الاسلام وانہم دارۃ الروم وانصار الشرک اللہم ان ہذا یوم من ایامک اللہم انزل نصرک علی عبادک (البدایہ والنہایہ ۷/۹)

’’اللہ اللہ، تم اہل عرب اور اسلام کے مددگار ہو اور تمھارے دشمن رومی ہیں جو شرک کے مددگار ہیں۔ اے اللہ، یہ تیرے (فیصلے ظاہر ہونے کے) دنوں میں سے ایک دن ہے۔ اے اللہ، اپنے بندوں پر اپنی مدد نازل فرما۔‘‘

ان فتوحات کو لوگوں کی نظر میں نصرت الٰہی کا نشان بنانے کے حوالے سے صحابہ کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا عمرؓ نے اس کے برعکس تاثر کی نفی کے لیے خالد بن ولید جیسے بلند پایہ جرنیل کو امارت سے معزول کر دیا۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انھوں نے فرمایا:

انی لم اعزل خالدا عن سخطۃ ولا خیانۃ ولکن الناس فتنوا بہ فاحببت ان یعلموا ان اللہ ہو الصانع (البدایہ والنہایہ ۷/۸۱)

’’میں نے خالد کو کسی بات پر ناراض ہو کر یا اس کی کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا، بلکہ لوگ اس کی (بہادری اور جنگی مہارت کے) دھوکے میں مبتلا ہو گئے تھے، اس لیے میں نے پسند کیا کہ لوگ جان لیں کہ کامیابی دلانے والی ذات اللہ ہی کی ہے۔‘‘

صحابہ کی ان کی فتوحات اور کامیابیوں کے پیچھے نصرت الٰہی کا یہ عامل ان کے دشمنوں پر بھی پوری طرح واضح تھا اور وہ اسے تسلیم کرتے تھے۔ چنانچہ اجنادین کے معرکہ سے پہلے رومی لشکر کے امیر قیقلان نے صحابہ کے حالات کو جانچنے کے لیے ایک آدمی بھیجا جس نے واپس آ کر اسے بتایا کہ:

وجدت قوما رہبانا باللیل فرسانا بالنہار واللہ لو سرق فیہم ابن ملکہم لقطعوہ او زنی لرجموہ فقال لہ القیقلان واللہ لئن کنت صادقا لبطن الارض خیر من ظہرہا (البدایہ والنہایہ ۷/۷)

’’میں نے ایسی قوم دیکھی ہے جو رات کو راہب بن جاتے ہیں اور دن کو گھڑ سوار۔ بخدا، اگر ان کے بادشاہ کا بیٹا بھی چوری کرے گا تو وہ اس کا ہاتھ کاٹ دیں گے اور اگر بدکاری کرے گا تو اسے سنگسار کر دیں گے۔ قیقلان نے کہا کہ بخدا اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو (ان سے لڑنے کے بجائے) زمین کا پیٹ اس کی پشت سے بہتر ہے۔‘‘

ہرقل نے صحابہ کے مقابلے میں رومی لشکر کے شکست کھانے کے بعد اس کے اسباب پر غور کیا۔ اس نے اپنے لشکر سے پوچھا کہ کیا مسلمان تمہارے جیسے ہی انسان نہیں ہیں؟ انہوں نے کہا، ہمارے ہی جیسے ہیں۔ ہرقل نے کہا کہ تعداد ان کی زیادہ ہے یا تمہاری؟ انھوں نے کہا کہ ہر معرکے میں ہماری تعداد ان سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اس نے پوچھا کہ پھر تم شکست کیوں کھا جاتے ہو؟ اس پر ایک بزرگ سردار نے کہا:

من اجل انہم یقومون اللیل ویصومون النہار ویوفون بالعہد ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر ویتناصفون بینہم ومن اجل انا نشرب الخمر ونزنی ونرکب الحرام وننقض العہد ونغصب ونظلم ونامر بالسخط وننہی عما یرضی اللہ ونفسد فی الارض فقال انت صدقتنی (البدایہ والنہایہ ۷/۱۵)

’’اس لیے کہ وہ راتوں کو قیام کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہیں۔ وہ عہد کو پورا کرتے، نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں اور آپس میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔ اور ہم شراب پیتے، بدکاری کرتے، حرام کا ارتکاب کرتے، عہد توڑتے، غصب اور ظلم کرتے، اللہ کو ناراض کرنے والی باتوں کا حکم دیتے اور اس کو راضی کرنے والے کاموں سے منع کرتے اور زمین میں فساد کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا: تم نے مجھے درست وجہ بتائی ہے۔‘‘

فارسی سپہ سالار ہرمزان نے بھی سیدنا عمرؓ کے سامنے اپنی شکست کی وجہ یہی بیان کی اور کہا:

یا عمر انا وایاکم فی الجاہلیۃ کان اللہ قد خلی بیننا وبینکم فغلبناکم اذ لم یکن معنا ولا معکم فلما کان معکم غلبتمونا (البدایہ والنہایہ ۷/۸۷۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۵۲۴۹)

’’اے عمر، جاہلیت کے دور میں اللہ ہمارے اور تمھارے مابین کوئی مداخلت نہیں کرتا تھا۔ سو چونکہ وہ نہ تمھارے ساتھ تھا اور نہ ہمارے ساتھ، اس لیے ہم تم پر غالب تھے۔ پھر جب وہ تمھارے ساتھ ہو گیا تو تم ہم پر غالب آ گئے ہو۔‘‘

دوسری روایت کے مطابق اس نے کہا:

کنا نحن وانتم فی الجاہلیۃ لم یکن لنا ولا لکم دین فکنا نعدکم معشر العرب بمنزلۃ الکلاب فاذا اعزکم اللہ بالدین وبعث رسولہ منکم لم نطعکم (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۲۶۳)

’’جاہلیت کے دور میں نہ ہمارا کوئی دین تھا نہ اور نہ تمھارا، سو اے قوم عرب، ہم تمھیں کتوں کے برابر شمار کرتے تھے۔ پھر جب اللہ نے اپنے دین کے ذریعے تمھیں عزت دی اور اپنا رسول تم میں سے مبعوث کیا تو ہم نے تمھاری اطاعت نہ کی۔‘‘

ایرانی سردار سیاہ نے ایک موقع پر اپنے ساتھیوں سے کہا:

ان ہولاء بعد الشقاء والذلۃ ملکوا اماکن الملوک الاقدمین ولا یلقون جندا الا کسروہ واللہ ما ہذا عن باطل ودخل فی قلبہ الاسلام وعظمتہ (البدایہ والنہایہ ۷/۸۹)

’’یہ لوگ اپنی بد حالی اور ذلت کے بعد اب پرانے بادشاہوں کی سلطنتوں کے مالک بن گئے ہیں اور جو بھی لشکر ان سے ٹکراتا ہے، یہ اسے پاش پاش کر دیتے ہیں۔ بخدا اگر یہ باطل پر ہوتے تو انھیں یہ سرفرازی نہ ملتی۔ اس کے دل میں اسلام کا دبدبہ اور عظمت جاگزیں ہو گئی۔‘‘

حاصل بحث

نبی صلی اللہ علیہ وسلم عام معنوں میں کوئی داعی، واعظ اور مبلغ نہیں تھے، بلکہ خدا کے آخری پیغمبر تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اور آپ پر ایمان لانے والے صحابہ کو ’شہادت علی الناس‘ کے منصب پر فائز کیا گیا تھا اور حق وباطل کے امتیاز کو علیٰ رؤوس الاشہاد واضح کر دینے کے لیے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ مخالفین کی تمام کوششوں، کاوشوں اور سازشوں کے علی الرغم آپ کا دین ان سب پر غالب آ کر رہے گا:

ہُوَ الَّذِیْ أَرْسَلَ رَسُولَہُ بِالْہُدَی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہُ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہِ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُونَ (التوبہ ۹:۳۳)

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرک اس بات کو کتنا ہی ناپسند کرتے رہیں۔‘‘

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوا مِنکُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْناً یَعْبُدُونَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْْئاً وَمَن کَفَرَ بَعْدَ ذَلِکَ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور ۲۴:۵۵)

’’اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ ہرحال میں انھیں اس سرزمین میں اسی طرح اقتدار عطا کرے گا جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کیا اور ان کے لیے ان کے دین کو لازماً مستحکم کر دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو یقیناًامن سے بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی انکار کریں تو وہی بدکار ہیں۔‘‘

یہ ایک وعدۂ الٰہی تھا جو تاریخ کی پوری روشنی میں نہایت شان کے ساتھ ظہور پذیر ہوا اور اس نے رہتی دنیا تک نبی عربی کے دعواے نبوت کی صداقت کو تاریخ کے صفحات پر ثبت کر دیا۔ ابن قیم نے، دیکھیے، اس استدلال کو کس شان سے واضح کیا ہے:

’’ایک مسیحی عالم کے ساتھ میرا مناظرہ ہوا۔ دوران گفتگو میں، میں نے اس سے کہا: تم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر اعتراض نہیں کر سکتے جب تک کہ خود خدا کی ذات پر اعتراض نہ کرو اور عظیم ترین ظلم، حماقت اور فساد کی نسبت اس کی طرف نہ کرو۔ اس نے کہا: یہ بات کیسے لازم آتی ہے؟ میں نے کہا: اس سے بھی بڑھ کر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرنے کے لیے تمھیں خود خدا کے وجود ہی کا انکار کرنا پڑے گا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر محمد، جیسا کہ تم کہتے ہو، سچے نبی نہیں تھے بلکہ ایک ظالم بادشاہ تھے تو دیکھو انھیں اس کا پورا موقع ملا کہ وہ خدا پر افترا کریں اور ان باتوں کی نسبت خدا کی طرف کریں جو خدا نے نہیں کہیں۔ پھر یہ موقع انھیں مسلسل حاصل رہا اور مسلسل حلال وحرام کے فیصلے کرتے رہے، فرائض مقرر کرتے اور احکام شریعت متعین کرتے رہے، سابقہ ملتوں کو منسوخ کرتے رہے، اور انبیاء سابقین کے پیروکاروں کو قتل کرتے اور ان کی گردنیں مارتے رہے، ان کی کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بناتے رہے اور ان کے اموال اور دیار کو بطور غنیمت حاصل کرتے رہے، حالانکہ وہ اہل حق تھے، اور اس میں یہاں تک گئے کہ ساری سرزمین عرب فتح کر لی۔ وہ یہ سارے کام یہ کہہ کر کرتے رہے کہ انھیں اللہ نے اس کا حکم دیا ہے اور خدا کو ان سے محبت تھے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کو دیکھتے رہے اور یہ بھی کہ وہ اہل حق اور رسولوں کے پیروکاروں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔ محمد خدا کی طرف ۲۳ سال تک اس جھوٹ کی نسبت کرتے رہے اور اللہ اس سب کے باوجود ان کی تائید ونصرت کرتا رہا، ان کے امر کو غالب کرتا رہا اور مدد کے وہ اسباب انھیں فراہم کرتا رہا جو انسانی طاقت سے باہر ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ وہ ان کی دعاؤں کو قبول کرتا اور ان کے دشمنوں کو، ان کی طرف سے کوئی کارروائی کیے بغیر، ہلاک کرتا رہا۔ کبھی پیغمبر کی دعا کے نتیجے میں اور کبھی آپ کی دعا کے بغیر ہی ازخود ان کا قلع قمع کرتا رہا۔ اس کے باوجود خدا محمد کی ہر اس حاجت کو پورا کرتا رہا جو انھوں نے اس سے مانگی، ان سے اچھے اچھے وعدے کرتا رہا اور پھر ان وعدوں کو اس کامل، اعلیٰ اور بہترین طریقے سے پورا کرتا رہا جس میں کسی وعدے کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ سب کچھ ہوا، جبکہ تمہارے بقول محمد نے انتہا درجے کے جھوٹ، افترا اور ظلم سے کام لیا، کیونکہ جو شخص خدا پر جھوٹ باندھے اور مسلسل باندھتا رہے، اس سے بڑا جھوٹا کوئی نہیں ہو سکتا، اور جو شخص اللہ کے نبیوں اور رسولوں کی شریعتوں کو باطل کر دے، ان کو زمین سے ختم کر دے اور ان کی جگہ اپنی مرضی کی شریعت لے آئے، اور اللہ کے اولیاء اور جماعت اور اس کے رسولوں کے پیروکاروں کو قتل کرے، اس سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس سارے کام میں خدا کی نصرت محمد کو مسلسل حاصل رہی اور خدا ان سب کاموں کو برقرار رکھتا رہا۔ اس نے نہ ان کا ہاتھ پکڑا اور نہ ان کی گردن کاٹی، جبکہ وہ خود اپنے رب کی طرف سے یہ وحی بیان کرتا رہا کہ ’’اس سے بڑا ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہے، حالانکہ اس کی طرف کوئی وحی نہ آئی ہو، اور جو کہے کہ میں بھی اس طرح کا کلام اتاروں گا جیسا کہ خدا نے اتارا۔‘‘ 

اب تمھیں، جو محمد کو جھوٹا کہتے ہو، دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑے گی: 

یا تو یہ کہو کہ دنیا کا نہ کوئی خالق ہے اور نہ پروردگار، کیونکہ اگر دنیا کا کوئی صاحب قدرت وحکمت صانع اور مدبر ہوتا تو وہ اس جھوٹے پیغمبر کا ہاتھ پکڑ لیتا اور اس کا سخت مقابلہ کرتا اور اس کو ظالموں کے لیے ایک نمونہ عبرت بنا دیتا، اس لیے کہ جب دنیا کے بادشاہوں کے شایان شان یہی ہے تو زمین وآسمان کے رب اور احکم الحاکمین کے لیے کیوں نہیں؟

اور یا پھر خدا کی طرف ایسے اوصاف کی نسبت کرو جو ا س کے شایان شان نہیں، مثلاً ناانصافی، حماقت ، ظلم، مخلوق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گمراہ کرنا، بلکہ ایک جھوٹے کی نصرت کرنا اور اس کو زمین میں اقتدار عطا کرنا، اس کی دعاؤں کو قبول کرنا، اس کی وفات کے بعد بھی اس کے امر کو قائم رکھنا، اور ا س کے کلمہ کو ہمیشہ غالب رکھنا، اس کی دعوت کو اور نسل در نسل علیٰ رؤوس الاشہاد ہر مجمع اور مجلس میں اس کی نبوت کی گواہی کو ظاہر کرنا۔ کیا یہ کام احکم الحاکمین اور ارحم الراحمین کا ہو سکتا ہے؟ پس تم نے محمد کی نبوت کا انکار کر کے خود رب العالمین کی ذات میں بہت بڑا عیب نکالا ہے اور اس پر شدید اعتراض کیا ہے بلکہ اس کے وجود کا بالکلیہ انکار کر دیا ہے۔

ہمیں اس سے انکار نہیں کہ دنیا میں بہت سے جھوٹے نمودار ہوئے، انھیں کچھ قوت وشوکت بھی ملی، لیکن انھیں اپنا مشن پورا کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ زیادہ مہلت ملی، بلکہ اللہ نے اپنے رسولوں اور ان کے پیروکاروں کو ان پر غالب کر دیا جنھوں نے اس کا نام ونشان مٹا دیا اور اس کی جڑ کاٹ دی اور اس کا مٹھ مار دیا۔ جب سے دنیا قائم ہے، خدا کا یہی طریقہ چلا آ رہا ہے یہاں تک کہ وہ اس زمین اور اس کے باسیوں کا وارث بن جائے۔

جب اس نے میری یہ بات سنی تو کہنے لگا: اس بات سے خدا کی پناہ کہ ہم محمد کو ظالم یا جھوٹا کہیں، بلکہ سب منصف مزاج اہل کتاب یہ مانتے ہیں کہ جو شخص محمد کے طریقے پر چلے اور ان کی پیروی کرے، وہ آخرت میں اہل نجات اور اہل سعادت میں سے ہوگا۔ میں نے کہا : لیکن جس کو تم جھوٹا کہتے ہو، کیا اس کے طریقے اور نقش قدم پر چلنے والا اہل نجات اور اہل سعادت میں سے ہو سکتا ہے؟ اب اسے یہ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہ رہا کہ محمد اللہ کے رسول تھے، لیکن اس نے کہا کہ وہ ہماری طرف مبعوث نہیں کیے گئے۔ میں نے کہا: تمھیں اس بات کی تصدیق بھی کرنی پڑے گی کیونکہ محمد کا یہ دعویٰ تواتر سے ثابت ہے کہ میں رب العالمین کی طرف سے دنیا کے تمام لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں، چاہے وہ اہل کتاب ہوں یا امی۔ اور آپ نے اہل کتاب کو بھی اپنے دین کی دعوت دی اور ان میں سے جنھوں نے آپ کے دین کو قبول نہیں کیا، آپ نے ان کے ساتھ قتال کیا یہاں تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جزیہ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ 

’’اس پر وہ کافر لاجواب ہو گیا اور فوراً وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔‘‘ (زاد المعاد، ۶۲۵، ۶۲۶)

خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عرب کے یہود نے آپ کی رسالت کے انکار کی مجال نہ پا کر یہی دوغلا موقف اختیار کیا تھا کہ آپ اللہ کے نبی تو ہیں لیکن آپ کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا صرف عرب کے امیوں پر لازم ہے جبکہ اہل کتاب اس سے مستثنیٰ ہیں۔ بعد کے ادوار میں عرب اور عراق کے نصاریٰ بھی بالعموم اسی موقف کے قائل رہے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۱۵۱، ۱۵۲۔ ابو اللیث السمرقندی، فتاویٰ النوازل، ص ۲۰۸۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ، ۲۸/۶۲۶) تاہم مغربی کلیسا نے مغربی عوام کی ناواقفیت اور جہالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقائق کو مسخ کرنے کی روش اپنائی اور اسلام اور پیغمبر اسلام کی ایسی تصویر کشی کی جس کے نتیجے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا پیغمبر تو کجا، ایک شریف اور مہذب انسان ماننا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ زمانے کی گردش نے علم اور معلومات کے تبادلے میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا اور اسلام کی تاریخ اہل مغرب کے لیے بھی روشنی میں آ گئی تو اسلام کے خلاف مغرب کے اجتماعی لاشعور میں موجود تعصب نے ایک علمی رنگ اختیار کر لیا۔ مطالعہ اسلام اور مطالعہ سیرت کے حوالے سے استشراق کی ساری تحریک کا ہدف دو لفظوں میں بیان کیجیے تو وہ یہ ہے کہ اسلام کے دور اول کی تاریخ کی مذہبی اور پیغمبرانہ تعبیر کو اس کی علمی واستدلالی بنیادوں سے محروم کر کے پیغمبر اسلام کو دنیا کے عام سیاسی مدبرین اور قومی قائدین کی صف میں لا کھڑا کیا جائے اور ان کی سرگزشت کی توجیہ نفسیات، عمرانیات اور تاریخ کے عام اصولوں کے تحت کی جائے۔ چنانچہ اس وقت پوری مغربی اسکالر شپ یا تو اس دور کے تاریخی ریکارڈ کو ہی، جو قرآن مجید، حدیث اور سیرت کے ذخیروں میں محفوظ ہے، سرے سے غیر مستند قرار دینے پر مصر ہے اور یا اس ذخیرے کو اصولاً قابل استدلال مان کر اس میں غیر معمولی طور پر نمایاں مذہبی عنصر کی توجیہ یہ کرتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش نظر مقصد کے لیے مذہب کو محض ایک مفید نفسیاتی اور جذباتی وسیلے کے طور پر استعمال کیا اور یہ کہ وہ بلند پایہ قائد اور مدبر تھے اور ان کو حاصل ہونے والی کامیابی سراسر ان کی اعلیٰ حکمت عملی اور حکیمانہ تدبیروں کا نتیجہ تھی۔ 

یہ زاویہ نگاہ اہل مغرب کی تو مجبوری ہے، اس لیے کہ اس کے بغیر وہ پیغمبر اسلام کے دعواے نبوت کے حق میں تاریخ کی سب سے بڑی شہادت کا سامنا نہیں کر سکتے، لیکن افسوس یہ ہے کہ تاریخ کے اس نازک دور میں، جب سیرت نبوی کے اس پہلو کو زیادہ قوت اور زیادہ واضح استدلال کے ساتھ نمایاں کرنے کی ضرورت تھی، مسلم اسکالر شپ نے اہل مغرب کے پراپیگنڈا سے مرعوب ہو کر کم وبیش اجتماعی طور پر ذہنی پسپائی کا رویہ اختیار کر لیا، چنانچہ گزشتہ ڈیڑھ صدی سے عرب وعجم کے نامی گرامی اہل علم عہد نبوی اور عہد صحابہ کے واقعات کی تعبیر نو میں مصروف ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا جہاد محض ’دفاعی‘ نوعیت کا تھا یا اس کا مقصد مخالفین کے فتنہ وفساد کو رفع کرنا تھا اور کفر و اسلام کی کشمکش سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس ضمن میں دور از کار تاویلات کے ایسے ایسے نمونے پیش کیے گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ‘ (بخاری، رقم ۲۷۲۷) کو ’دفاعی جہاد‘ کے دائرے میں لانے کے لیے ایک تاویل یہ کی گئی ہے کہ ’اقاتل‘ کا لفظ ہی یہ بتاتا ہے کہ اس حدیث میں ازخود جنگ کا اقدام کرنے کا نہیں بلکہ جنگ کا اقدام کرنے والے کفار کے خلاف لڑنے کا ذکر ہے۔ الدکتور سعید رمضان البوطی لکھتے ہیں:

’’اقاتل کا لفظ افاعل کے وزن پر ہے اور جانبین کے اس فعل میں شریک ہونے پر دلالت کرتا ہے، چنانچہ یہ لفظ اسی وقت بولا جا سکتا ہے جبکہ دونوں جانبوں سے لڑائی کی جا رہی ہو، بلکہ درحقیقت اس کا اطلاق ہوتا ہی اس صور ت میں ہے جب کوئی شخص اس آدمی کے مد مقابل آئے جس نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ ’مقاتل‘ کہتے ہی اس شخص کو ہیں جو زیادتی کا آغاز کرنے والا کا مقابلہ کرے۔ جو شخص لڑائی کا آغاز کرتا ہے، اس کو تو ’مقاتل‘ کہا ہی نہیں جا سکتا، بلکہ اس کو ’قاتل‘ کہا جاتا ہے جس نے یا تو قتل کے ارادے سے حملہ کیا یا بالفعل کسی کو قتل کر دیا۔ فعل میں اشتراک کا مفہوم اس وقت تک پیدا ہی نہیں ہوتا جب تک کہ دوسرا فریق مقابلہ اور دفاع کے لیے اٹھ نہ کھڑا ہو۔‘‘

حالانکہ عربی زبان کی معمولی شدبد رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ اس میں ’قَاتَلَ‘ کا فعل جس طرح جوابی اقدام کے لیے آتا ہے، اسی طرح جنگ کا آغاز کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ قرآن وحدیث میں اس استعمال کی ان گنت مثالیں موجود ہیں، مثلاً: فان قاتلوکم فاقتلوھم (البقرہ ۲:۱۹۱)، ولو قاتلکم الذین کفروا لولوا الادبار (الفتح ۴۸:۲۲)، انما ینہاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین (الممتحنہ ۶۰:۹)۔

ان تمام مواقع پر دیکھ لیجیے، کفار کی طرف سے جنگ کی ابتدا کو بیان کرنے کے لیے یہی باب مفاعلہ استعمال ہوا ہے۔ علاوہ ازیں یہ سوال الگ جواب طلب ہے اگر اس حدیث میں دفاعی جنگ ہی کا بیان ہے تو اس کی غایت قبول اسلام کیوں متعین کی گئی ہے اور یہ کہنے پر کیوں اکتفا نہیں کی گئی کہ ’’جب تک کفار فتنہ وفساد سے باز نہ آجائیں؟‘‘

اسی روایت کی ایک اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ اس کا تعلق عین حالت جنگ سے ہے اور مراد یہ ہے کہ اگر جنگ کے دوران کوئی کافر کلمہ پڑھ لے تو اس کے خلاف لڑائی روک دی جائے۔ مولانا شمس الحق افغانی لکھتے ہیں:

’’غلط فہمی اس حدیث کے عدم فہم سے واقع ہوئی جس میں ارشاد ہے: امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الہ الا اللہ فاذا قالوہا عصموا منی دماء ہم واموالہم (ترجمہ) ’’میں مامور ہوں کہ لوگوں سے لڑوں اس وقت تک کہ توحید کا اعتراف کریں۔ جب یہ اعتراف کریں تو میری طرف سے ان کی جان ومال محفوظ ہووے‘‘۔ اس سے مستشرقین نے یہ غلط نظریہ جمایا کہ مسلمان تلوار ہاتھ میں گھماتا ہے اور کافر سے یہ کہتا ہے کہ اسلام لاؤ ورنہ تمہارے لیے تلوار ہے۔ ہم آیات واحادیث سے اس کی تردید کر چکے ہیں۔ حدیث مذکور کا تعلق میدان جنگ سے ہے کہ جب عین دوران جنگ میں کوئی کافر لاالہ الا اللہ کہہ دے تو رک جاؤ اور اس سے مت لڑو، اگرچہ جان بچانے کے لیے کہے اور دل سے نہ کہے۔‘‘ (مقالات افغانی، ۱/۷۷، ۷۸)

تاہم یہ بھی ایک بالکل بے معنی تاویل ہے جس کو حدیث کا اسلوب بیان قبول کرنے سے صاف انکار کرتا ہے۔ اس میں غیر مبہم طریقے سے قتال کو اللہ کا حکم اور قبول اسلام کو اس کی غایت قرار دیا گیا ہے۔ اگر وہی بات کہنا پیش نظر ہوتی جو مذکورہ تاویل میں کہی گئی ہے تو الفاظ غالباً یہ ہوتے: ’امرت ان لا اقتل من قال لا الہ الا اللہ‘ (مجھے حکم دیا گیا ہے کہ جو لا الٰہ الا اللہ کہہ دے، اسے قتل نہ کروں) ۔ علاوہ ازیں یہ توجیہ کرتے ہوئے روایت کے پورے متن کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ پوری حدیث یوں ہے:

امرت ان اقاتل الناس حتی یشہدوا ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ ویقیموا الصلاۃ ویوتوا الزکاۃ فاذا فعلوا ذلک عصموا منی دماء ہم واموالہم الا بحق الاسلام وحسابہم علی اللہ (بخاری، رقم ۲۴)

اب اس حکم کو حالت جنگ سے متعلق قرار دینے کی صورت میں ایک عجیب اور بے تکی بات بن جائے گی، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میدان جنگ میں اس شخص کو قتل نہیں کیا جائے گا جو لا الہ الا اللہ کہہ دے، نماز ادا کرے اور زکوٰۃ دے دے۔ چونکہ قتل سے بچنا ان شرائط کے پورا کرنے پر موقوف ہے اور اس کا فیصلہ بھی فوری ہونا ہے، ا س لیے زیر بحث توجیہ کی رو سے یہ لازم ہوگا کہ اگر کوئی کافر عین میدان جنگ میں ’قتل‘ سے بچنا چاہتا ہے تو نہ صرف فوری طور پر کلمہ پڑھ لے، بلکہ نماز بھی ادا کرے اور زکوٰۃ بھی دے دے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بالکل بے تکی اور غیر معقول بات ہے۔

ہماری رائے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے جہاد کو قرآن وسنت کے نصوص اور ذخیرۂ سیرت کی روشنی میں اس کے اصل تناظر میں سمجھا جائے اور معترضین کو مطمئن کرنے کی غرض سے کوئی رنگ آمیزی کیے بغیر اسے بے کم وکاست پیش کیا جائے۔ خاتمہ بحث کے طورپر یہاں مولانا مودودی کا ایک برمحل اقتباس درج کرنا مناسب دکھائی دیتا ہے:

’’میں اس طریقہ سے اصولی اختلاف رکھتا ہوں کہ ہم اپنے عقائد واصول کو دوسروں کے نقطہ نظر کے مطابق ڈھال کر پیش کریں۔ ..... زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے عقائد اور احکام کو، اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کر دیں اور جو دلائل ہم ان کے حق میں رکھتے ہیں، انھیں بھی صاف صاف بیان کر دیں، پھر یہ بات خود لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیں کہ خواہ وہ انھیں قبول کریں یا نہ کریں۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۱۶- ۱۷)


مخالف استدلالات کا جائزہ

گزشتہ صفحات میں ہم نے قرآن مجید اور حدیث وسیرت کی روشنی میں عہد نبوی میں جہاد وقتال کی نوعیت پر تفصیلی گفتگو کی ہے جو ہمیں اس نتیجے تک پہنچاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا جہاد صرف دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ اور اقدامی بھی تھا اور اس کا محرک صرف کفار کے فتنہ وفساد کا خاتمہ نہیں بلکہ ان کو دائرۂ اسلام میں لانا یا ان کو مغلوب کر کے ان پر اسلام اور اہل اسلام کی بالادستی قائم کرنا بھی تھا۔ تاہم یہ بحث تشنہ رہے گی اگر ان استدلالات وشبہات کا سنجیدگی سے جائزہ نہ لیا جائے جو اس حوالے سے بالعموم پیش کیے جاتے ہیں۔ 

دفع فساد کے اصول پر نصوص کی توجیہ

زیر بحث نقطہ نظر کے حامل اہل علم اپنے اس موقف کے حق میں کہ قرآن میں قتال سے متعلق وارد ہونے والے احکام کی اساس منکرین حق کا کفر نہیں، بلکہ ان کا فتنہ وفساد تھا، قتال سے متعلق نصوص سے بعض داخلی شواہد پیش کرتے ہیں۔

اس ضمن پہلی اور اہم ترین نص سورۂ براءۃ کی وہ آیات ہیں جن میں مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ حکم جس سلسلہ بیان میں آیا ہے، وہ سورۂ براءۃ کی ابتدائی ۱۶ آیات میں پھیلا ہوا ہے۔ اس حکم سے متعلق آئندہ سطور میں کی جانے والی علمی بحث کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ پورا سلسلہ بیان اجمالاً پیش نظر رہے:

۱۔ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس بات کا اعلان کر دیا جائے کہ مشرکین کے ساتھ کیے جانے والے تمام معاہدے اب کالعدم ہیں اور اس اعلان کے بعد انھیں فیصلہ کرنے کے لیے صرف چار ماہ کی مہلت حاصل ہوگی۔ (آیت ۱، ۲)

۲۔ حج اکبر کے دن مشرکین سے براء ت کے اعلان کی عام منادی کی جائے۔ (آیت ۳)

۳۔ جن مشرکین نے معاہدہ کرنے کے بعد نقض عہد نہیں کیا، ان کے ساتھ مقررہ مدت تک معاہدے کی پاسداری کی جائے۔ (آیت ۴)

۴۔ آیت ۱و۲ میں جن مشرکین سے معاہدے توڑنے کا اعلان کیا گیا اور انھیں چار ماہ کی مہلت دی گئی ہے، اشہر حرم گزرنے کے بعد وہ جہاں ملیں، انھیں قتل کر دیا جائے، الا یہ کہ وہ توبہ کر کے دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ (آیت ۱، ۲، ۵)

۵۔ اگر کوئی مشرک امان طلب کرے تو اسے امان دے دی جائے تاکہ وہ اللہ کا کلام سن سکے۔ پھر اس کو اس کے مامن تک پہنچا دیا جائے۔ (آیت ۶)

۶۔ مشرکین کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ انھوں نے محض موقع پرستی کے جذبے کے تحت یہ معاہدے کیے ہیں اور جیسے ہی انھیں موقع ملے گا، یہ کسی عہد وپیمان کا لحاظ کیے بغیر مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار ہو جائیں گے۔ اہل ایمان کے لیے ان کے ساتھ بھائی چارے کا تعلق قائم کرنے کی صورت بس یہی ہے کہ یہ کفر وشرک سے توبہ کر کے ایمان لے آئیں اور نماز وزکوٰۃ کا اہتمام کریں۔ البتہ مسجد حرام کے پاس جن مشرکین سے مسلمانوں نے معاہدہ کیا ہے، وہ جب تک معاہدے پر قائم رہیں، مسلمان بھی اس کی پاس داری کریں۔ (آیت ۷ ۔۱۰)

۷۔ جو مشرکین ابھی تک عہد پر قائم ہیں، اگر وہ نقض عہد کریں تو ان کے خلاف بھی قتال کیا جائے تاکہ اس کے ذریعے سے ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو اور مسلمان اپنے انتقام کی آگ بجھا سکیں۔ (آیت ۱۱۔۱۵)

۸۔ نسبی تعلق داریوں اور قرابتوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مشرکین کے خلاف جہاد کا حکم مسلمانوں کے لیے ایک امتحان اور آزمایش کی حیثیت رکھتا ہے جس پر سچے اہل ایمان کو لازماً پورا اترنا ہوگا۔ (آیت ۱۶)

مذکورہ سلسلہ بیان میں مرکز ومحور کی حیثیت آیت ۵ میں دیے جانے والے اس حکم کو حاصل ہے:

فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْْثُ وَجَدتُّمُوہُمْ وَخُذُوہُمْ وَاحْصُرُوہُمْ وَاقْعُدُوا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلاَۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃَ فَخَلُّوا سَبِیْلَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ: ۵)

’’پھر جب حرام مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ، قتل کر ڈالو اور ان کو پکڑو اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو۔ پھر اگر یہ شرک سے تائب ہو جائیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔ بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

روایتی تشریح کی رو سے یہ حکم کفر وایمان کے تناظر میں وارد ہوا ہے اور مشرکین کے لیے قتل کی سزا ان کے اسلام قبول نہ کرنے کے جرم کی پاداش میں بیان ہوئی ہے، لیکن زیر بحث نقطہ نظر کے مطابق اس حکم کی وجہ مشرکین کا ایمان نہ لانا نہیں بلکہ نقض عہد اور فتنہ وفساد پر مبنی ان کا رویہ تھا۔ اس استنباط کی تائید میں محولہ بالا آیات سے تین قرائن پیش کیے گئے ہیں:

ایک یہ کہ آیت ۴ میں مشرکین کے ان گروہوں کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے جنھوں نے معاہدہ کرنے کے بعد نہ خود مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے اور نہ کسی دوسرے فریق کی اس معاملے میں مدد کی ہے:

إِلاَّ الَّذِیْنَ عَاہَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنقُصُوکُمْ شَیْْئاً وَلَمْ یُظَاہِرُوا عَلَیْْکُمْ أَحَداً فَأَتِمُّوا إِلَیْْہِمْ عَہْدَہُمْ إِلَی مُدَّتِہِمْ إِنَّ اللّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ (براء ۃ: ۴)

’’البتہ جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا اور اس کے بعد انھوں نے اس معاہدے کی کسی بات کی خلاف ورزی نہیں کی اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی گروہ کے ساتھ تعاون کیا، ان کے ساتھ مقررہ مدت تک معاہدے کی پابندی کرو۔ بے شک اللہ عہد وپیمان کی پاس داری کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘

اسی طرح آگے آیت ۷ میں ’الا الذین عاہدتم عند المسجد الحرام فما استقاموا لکم فاستقیموا لہم‘ کے الفاظ میں دوبارہ اس کی تاکید کی گئی ہے کہ معاہدہ کرنے والے مشرکین جب تک اپنے معاہدے کی پاس داری کرتے رہیں، ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت ۱ میں جن مشرکین سے اعلان براء ت اور آیت ۵ میں انھیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہ نقض عہد کے مرتکب ہوئے تھے اور اس کی سزا کے طور پرانھیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ (سید مودودی، الجہاد فی الاسلام، ۶۷۔ شبلی نعمانی، سیرت النبی، ۱/۳۳۹)

دوسرا یہ کہ آیت ۶ میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کو امان دینے کی ہدایت کی ہے جو مسلمانوں سے اس کے طالب ہوں۔ چنانچہ فرمایا ہے:

وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتَّی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُونَ (آیت ۶)

’’اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص تم سے امان طلب کرے تو اس کو امان دے دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔ پھر اس کو اس کی امن کی جگہ پہنچا دو۔ یہ اس لیے کہ یہ ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے۔‘‘

گویا اگر مشرکین کا کفر وشرک ان کو قتل کرنے کی وجہ ہوتا تو ظاہر ہے کہ امان طلب کرنے پر ان کو امان نہ دی جاتی۔

تیسرا یہ کہ آیت ۸، ۱۰ اور ۱۳ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے ساتھ معاہدے توڑنے اور قتال کرنے کی یہ علت خود بیان فرمائی ہے کہ یہ معاہدوں کو توڑنے والے اور مسلمانوں کے مقابلے میں کسی رشتہ وپیمان کا لحاظ نہ کرنے والے ہیں۔ ارشاد ہے:

لاَ یَرْقُبُونَ فِیْ مُؤْمِنٍ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُعْتَدُونَ (براء ۃ: ۱۰)

’’یہ مشرکین کسی بھی مومن کے معاملے میں نہ کسی عہد کی پاس داری کرتے ہیں اور نہ کسی ذمہ کی اور یہی زیادتی کرنے والے ہیں۔‘‘

أَلاَ تُقَاتِلُونَ قَوْماً نَّکَثُواْ أَیْْمَانَہُمْ وَہَمُّواْ بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَہُم بَدَؤُوکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ (براء ۃ: ۱۳)

’’کیا تم اس قوم سے نہیں لڑو گے جنھوں نے اپنی قسمیں اور پیمان توڑ دیے اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انھوں نے ہی تمہارے خلاف جنگ کا آغاز کیا؟‘‘

(الدکتور محمد سعید رمضان البوطی، الجہاد فی الاسلام، ص ۵۵۔۵۸، ۹۸۔۱۰۰)

اس نقطہ نظر کے استدلال کی وضاحت کے بعد اب ہم اس کا تنقیدی جائزہ لیں گے۔

پہلے استدلال کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ چونکہ قرآن نے معاہدے کی پابندی کرنے والے مشرکین کے خلاف اقدام کی ممانعت کی ہے، اس لیے جن مشرکین کے خلاف اقدام کا حکم دیا گیا، اس کی وجہ اس کے سوا کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ معاہدات کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے فتنہ وفساد کی روش پر مصر تھے۔

یہ استدلال بظاہر وزنی دکھائی دیتا ہے، تاہم متعلقہ آیات پر غور کرنے سے اس کی کمزوری بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ سورہ براء ۃ کی ابتدائی آیات کا تدبر کی نگاہ سے مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں مشرکین سے اعلان براء ت کے دو الگ الگ مرحلوں کا ذکر ہوا ہے۔ پہلے مرحلے کا ذکر ’براءۃ من اللہ ورسولہ‘ کے الفاظ میں آیت ۱ میں ہوا ہے جبکہ دوسرے اور حتمی مرحلے کا ذکر آیت ۳ میں ’واذان من اللہ ورسولہ‘ کے الفاظ سے کیا گیا ہے۔ مفسرین نے چونکہ عام طور پر ان آیات کا زمانہ نزول ۹ ہجری کو قرار دیا ہے، اس لیے وہ اعلان براء ت کے ان دو الگ الگ مرحلوں کی طرف متوجہ نہیں ہو سکے اور نتیجتاً یہ سمجھ لیا گیا کہ ’واذان من اللہ ورسولہ‘ درحقیقت ’براءۃ من اللہ ورسولہ‘ ہی کا تکرار ہے۔ حالانکہ اول تو یہ دونوں حکم متصلاً ایک ہی مقام پر واو عطف کے ساتھ الگ الگ بیان ہوئے ہیں اور اس اسلوب کو محض تکرار پر محمول کرنا بے فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ پھر یہ کہ دونوں حکموں میں مذکور قیود بھی اسی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ انھیں دو الگ الگ حکم سمجھا جائے۔ مثال کے طور پر پہلے حکم کا تعلق ’الذین عاہدتم من المشرکین‘ یعنی ان مخصوص مشرک قبائل سے ہے جن کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ تھا، جبکہ دوسرا حکم عمومی طور پر ’الناس‘ یعنی جزیرہ عرب کے تمام لوگوں سے متعلق ہے۔ اسی طرح پہلے حکم میں اعلان براء ت کا ذکر کسی زمانی قید کے بغیر ہوا ہے جو اس کے فوری ابلاغ کا متقاضی ہے، جبکہ دوسرے اعلان براء ت کے بارے میں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اس کا اہتمام حج اکبر کے موقع پر کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آیت ۳ میں حج اکبر کے دن جن مشرکین سے براء ت کا اور پھر آیت ۵ میں ان کے قتل عام کا حکم دیا گیا ہے، یہ وہ معاہد مشرکین نہیں جن کے ساتھ معاہدے توڑنے کا حکم پہلی آیت میں دیا گیا ہے، بلکہ ان سے مراد پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین ہیں۔

اگر ہمارا یہ تجزیہ درست ہے تو پھر ’واذان من اللہ ورسولہ‘ کے حکم کی توجیہ دفع فساد یا نقض عہد کے اصول کی روشنی میں ہرگز نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ فتنہ وفساد کرنے والے گروہوں سے اعلان براء ت تو بہت عرصہ پہلے کیا جا چکا تھا اور حج اکبر کے موقع پر اسے اس اہتمام کے ساتھ دہرانے کی کوئی حکمت نہیں تھی۔ چنانچہ یہ دوسرا حکم لازماً کفر وایمان کے تناظر میں تھا۔ پھر چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس حکم کو پہلے حکم کے حتمی انجام کے طور پر یہاں بیان کیا ہے، اس لیے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پہلے حکم کی علت اور وجہ بھی اصل میں نقض عہد نہیں بلکہ کفر وایمان کا مسئلہ ہے۔

ایک اور پہلو سے ان ہدایات کا جائزہ لیجیے:

قرآن نے مشرکین سے جو اعلان براء ت کیا ہے، اگر اس کی بنیادی وجہ نقض عہد کے اصول کو مانا جائے تو بظاہر دو صورتیں سامنے آتی ہیں:

ایک یہ کہ جن مشرکین سے اعلان براء ت کیا گیا، وہ بالفعل معاہدے کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے تھے۔

دوسرے یہ کہ وہ بالفعل تو خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، لیکن ان کی طرف سے اس کا اندیشہ محسوس کرتے ہوئے مسلمانوں کو پیشگی اعلان براء ت کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

پہلی صورت کی نفی خود قرآن کے الفاظ سے ہو جاتی ہے، چنانچہ آیت ۱ کے الفاظ یہ ہیں: 

بَرَاءۃٌ مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ إِلَی الَّذِیْنَ عَاہَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِکِیْن

’’جن مشرکوں سے تم نے معاہدے کر رکھے ہیں، اللہ اور اس کا رسول کی طرف سے ان سے براء ت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ ‘‘

الفاظ کی دلالت اس بات پر بالکل واضح ہے کہ معاہدہ توڑنے کا اقدام مشرکین کی طرف سے نہیں ہوا، بلکہ اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ بالفعل نقض عہد کے مرتکب ہوئے ہوں، ان کے نقض عہد کی بنیاد پر ان سے اعلان براء ت کرنے کے لیے یہ اسلوب بدیہی طورپر موزوں نہیں۔ یہ بات آئندہ آیات سے بھی واضح ہوتی ہے۔ چنانچہ آیت ۷،۸ میں مشرکین کے ساتھ معاہدے توڑنے کے فیصلے پر ایک اشکال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ:

کَیْْفَ یَکُونُ لِلْمُشْرِکِیْنَ عَہْدٌ عِندَ اللّہِ وَعِندَ رَسُولِہِ..... کَیْْفَ وَإِن یَظْہَرُوا عَلَیْْکُمْ لاَ یَرْقُبُواْ فِیْکُمْ إِلاًّ وَلاَ ذِمَّۃً یُرْضُونَکُم بِأَفْوَاہِہِمْ وَتَأْبَی قُلُوبُہُمْ وَأَکْثَرُہُمْ فَاسِقُونَ 

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مشرکین بالفعل نقض عہد کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، البتہ ان کا ذہنی رویہ اور رجحان یہی تھا کہ جیسے ہی انھیں مسلمانوں کو زک پہنچانے کا موقع ملے گا، وہ معاہدوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے ایسا کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔

اگر دوسری صورت کے مطابق یہ مانا جائے کہ ان مشرکین کے خلاف اقدام کی اصل وجہ ان کی طرف سے بالفعل نقض عہد نہیں بلکہ اس ضمن میں ان کے وہ ارادے اور عزائم تھے تو سورۂ براء ۃ کی زیر بحث آیات ہی کی روشنی میں اس چیز کو بھی اقدام کی وجہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نقض عہد کے ارادوں اور عزائم کے معاملے میں قریش کا معاملہ باقی مشرکین سے کسی طرح مختلف نہیں تھا، چنانچہ قرآن نے اسی تناظر میں آیت ۱۲ میں ان کے ذہنی رجحانات اور ارادوں کی نقاب کشائی بھی کر دی ہے۔ اس کے باوجود آیت ۷ میں اللہ تعالیٰ نے قریش کے بارے میں، جنھوں نے حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کے ساتھ دس سال کا ناجنگ معاہدہ کیا تھا، یہ ہدایت کی ہے کہ جب تک وہ بالفعل اپنے معاہدے کو توڑ نہ دیں، مسلمان بھی اپنے معاہدے پر قائم رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن مشرکین کے معاہدوں کو قرآن نے علی الفور ازخود کالعدم قرار دیا ہے، اس کی اصل وجہ ان کی طرف سے نقض عہد کے اندیشے کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

اعلان براءت کی اصل وجہ مشرکین کی طرف سے بالفعل نقض عہد کو قرار دیا جائے یا نقض عہد کے اندیشے کو، دونوں صورتوں میں چند مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک سوال یہ ہے کہ ان مشرکین کو چار ماہ کی مہلت کس مقصد کے لیے دی گئی؟ اگر اس کا مقصد مشرکین کو غور وفکر کا موقع دینا تھا تاکہ وہ دوبارہ معاہدہ کر لیں یا کیے ہوئے معاہدوں کے حقیقی معنوں میں پابند ہو جائیں تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انھی معاہدوں کو دوبارہ قائم کرنا یا انھیں برقرار رکھنا ہی مقصود تھا تو اس کے لیے سرے سے ان معاہدوں سے اعلان براء ت کی کیا ضرورت تھی؟ اس صورت میں تو معاہدوں کے خاتمے کا اعلان کرنے کے بجائے مشرکین کو اس بات کی تنبیہ کرنا زیادہ مناسب تھا کہ وہ اپنے رویے سے باز آ جائیں اور معاہدوں کی پاس داری کریں اور اگر ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو چار ماہ کے بعد یہ معاہدے کالعدم سمجھے جائیں گے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔

اس ضمن میں سب سے اہم اور بنیادی اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اگر ان مشرکین کا قصور نقض عہد یا نقض عہد کے عزائم تھے تو اس کی پاداش میں انھیں دائرۂ اسلام میں داخل ہو جانے کا الٹی میٹم اور اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں انھیں قتل کرنے کی ہدایت کیوں کی گئی؟ اس سوال کی اہمیت اس نکتے کی روشنی میں دوچند ہو جاتی ہے کہ جس وقت قرآن نے ان مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا، اس وقت وہ بالفعل اور علانیہ مسلمانوں کے خلاف برسر جنگ نہیں تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ ان کو قتل کرنے کے لیے اشہر حرم کے گزر جانے کی ہدایت کی گئی ہے، جبکہ اشہر حرم میں بالفعل حملہ آور ہونے والوں کے خلاف جنگ کی اجازت قرآن اس سے پہلے بقرہ کی آیت ۱۹۴ میں صریح طور پر دے چکا ہے۔ چنانچہ اگر اس حکم کا بنیادی مقصد محض دفع فساد کو قرار دیا جائے تو یہ الجھن کسی طرح حل نہیں ہوتی کہ قرآن اس حکم کو مشرکین سے فتنہ وفساد کی قوت چھین لینے اور انھیں بے دست وپا کر دینے تک محدود کیوں نہیں رکھتا اور اس سے بڑھ کر صرف قبول اسلام ہی کو ان کے لیے کیوں لازم قرار دیتا ہے؟

اگر یہ کہا جائے کہ ان گروہوں کے فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے یہ ضروری تھا کہ انھیں کفر وشرک کے دائرے سے نکال کر دائرۂ اسلام میں داخل کر لیا جائے تو بھی اس سے اشکال حل نہیں ہوتا۔ اول تو اس لیے کہ اگر وہ دل سے مسلمانوں کے دشمن تھے تو ظاہر ہے کہ منافقین کی طرح بظاہر اسلام قبول کر لینے کے باوجود ان کی ریشہ دوانیاں ختم نہ ہوتیں اور وہ درپردہ مسلمانوں کی نقصان پہنچانے کی کوششوں میں مصروف رہتے اور یہ صورت بدیہی طور پر زیادہ خطرناک ہوتی کیونکہ چھپا دشمن بہرحال کھلے دشمن سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ایسی صورت میں مشرکین کا اسلام قبول کر لینا ان کے فتنہ وفساد سے تحفظ کی ضمانت کیسے بن سکتا تھا؟ کیا ان میں سے شر پسند گروہ اسلام قبول کر لینے کے باوجود درون خانہ سازشیں نہیں کر سکتے تھے اور کیا وہ اس کے بعد موقع ملنے پر دوبارہ کفر کی طرف نہیں لوٹ سکتے تھے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عملاً بہت سے گروہوں نے اس کی کوشش بھی کی؟ 

پھر یہ کہ اگر اس حکم کو محض دفع فساد کے تناظر میں دیکھا جائے تو مشرکین اور اہل کتاب کے لیے تجویز کیے جانے والی حکمت عملی میں باہمی فرق کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مشرکین کو تو فتنہ وفساد کے جرم میں قتل کرنے کا حکم ہے، لیکن اہل کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ وہ جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں؟ اس کے برعکس قتال کے اس حکم کو کفر وایمان کے تناظر میں دیکھیے تو اس فرق کی وجہ معقول ہو جاتی ہے۔ مشرکین کا کفر محض کفر نہیں بلکہ ’شرک‘ تھا، اس لیے ان کے لیے سزا بھی سخت تجویز ہوئی، جبکہ اہل کتاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر ہونے کے باوجود توحید کے قائل تھے، چنانچہ انھیں محض جزیہ نافذ کرنے کی سزا دی گئی۔

ان وجوہ سے ہمارے نزدیک آیت ۴ اور پھر آیت ۷ میں معاہدوں کی پاس داری کرنے والے مشرکوں کو ’فاقتلوا المشرکین‘ کے حکم سے مستثنیٰ قرار دینے سے استنباط کسی طرح درست نہیں ہے کہ جن مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے، ان کا اصل جرم نقض عہد تھا۔ اصل یہ ہے کہ ان آیات کے نزول کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں مشرکین عرب پانچ گروہوں میں تقسیم تھے:

ایک وہ جنھوں نے آپ کے ساتھ کبھی مصالحانہ تعلقات قائم نہیں کیے، بلکہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے جان ومال پر تعدی کرتے رہے۔

دوسرے وہ جنھوں نے آپ کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا اور پھر توڑ دیا۔ 

تیسرے وہ جنھوں نے ایک محدود مدت کے لیے صلح کا معاہدہ کیا اور پھر اس پر قائم رہے۔ 

چوتھے وہ جن کے ساتھ وقت کی کسی تحدید کے بغیر صلح کے معاہدے کیے گئے اور ان کی طرف سے کوئی خلاف ورزی سامنے نہیں آئی۔ 

پانچویں وہ جنھوں نے نہ صلح کا معاہدہ کیا اور نہ مسلمانوں کے خلاف کسی ظلم وعدوان ہی کے مرتکب ہوئے۔

سورۂ براءت کی مذکورہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے تیسرے گروہ کے سوا، جس کے ساتھ موقت معاہدہ کیا گیا تھا، باقی تمام گروہوں کے ساتھ کیے جانے سابقہ معاہدوں کی تنسیخ اور آئندہ کوئی بھی معاہدہ کرنے پر پابندی کا اعلان کیا ہے اور اس کا مقصد ان کے فتنہ وفساد کا خاتمہ نہیں بلکہ یہ بات تھی کہ الٹی میٹم دیے جانے کے بعد بھی اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتے تو ان کے خلاف قتل عام کا اقدام کیا جا سکے۔ ان میں سے پہلے، دوسرے اور پانچویں گروہ کے خلاف اقدام کرنے میں چونکہ کوئی معاہدہ مانع نہیں تھا، اس لیے ان کا ان آیات میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ البتہ تیسرے اور چوتھے گروہ کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے اس اقدام میں ایک اخلاقی رکاوٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔ چنانچہ جن گروہوں کے ساتھ غیر موقت معاہدے کیے گئے تھے اور ان کو نبھانا کسی طرح سے ممکن نہیں تھا، ان کے ساتھ معاہدوں کو از خود ختم کر دیا گیا، جبکہ تیسرے گروہ کے ساتھ اس وجہ سے معاہدے کی پاس داری کی ہدایت دی گئی کہ یہ معاہدہ محض ایک محدود اور متعین عرصے کے لیے موثر تھا جس کو فریق مخالف کی طرف سے کسی عہد شکنی کے بغیر ازخود توڑنا معاہدے کی اخلاقیات کے منافی تھا۔ تاہم عہد شکنی یا مدت کے پورا ہو جانے کی صورت میں یہ گروہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوتا جو دوسرے گروہوں کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ 

گویا صورت حال یہ نہیں کہ قرآن مجید نقض عہد کا ارتکاب کرنے والے مشرکین کو قتل کرنے کا حکم دے رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ وہ پہلے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ازخود توڑنے کا اعلان کر رہا ہے اور پھر ایک خاص وقت تک مہلت دینے کے بعد یہ کہہ رہا ہے کہ اگر وہ اس دوران میں ایمان نہیں لائیں گے تو ان کا قتل عام کیا جائے گا۔ قرآن نے یہاں ان مشرکین کے خلاف اقدام کی وجہ ان کا معاہدے کی خلاف ورزی کرنا نہیں بتایا بلکہ ان کے سابقہ طرز عمل اور ان کے اصل عزائم کے تناظر میں ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو ازخود کالعدم قرار دے کر انھیں چار ماہ کی مہلت دی ہے اور اس کے بعد انھیں قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل کی اصل وجہ کچھ اور ہے اور ایسی سنگین ہے کہ قرآن اس کے لیے ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کی، جس کی انھوں نے بالفعل خلاف ورزی بھی نہیں کی، رعایت بھی انھیں دینے کے لیے تیار نہیں۔ پھر اس نے اشہر حج گزرنے کے بعد ان کے قتل عام کا حکم دیا ہے جبکہ اس سے بچنے کی صورت صرف یہ بیان کی ہے کہ وہ اسلام قبول کر لیں۔

’الا الذین عاہدتم من المشرکین‘ سے جس گروہ کا استثنا بیان کیا گیا ہے، اس کے ساتھ معاہدہ چونکہ محض ایک مخصوص مدت کے لیے تھا، اس لیے یہ مناسب سمجھا گیا کہ اس کے پورا ہونے تک ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ ان کے علاوہ باقی تمام مشرکین کو الٹی میٹم دے دیا گیا اور چونکہ غیر موقت معاہدات اس حکم پر عمل درآمد میں مانع تھے، اس لیے ان سے صاف صاف براء ت کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ ’الا الذین عاہدتم من المشرکین‘ کا اسلوب صاف بتا رہا ہے کہ اس کی حیثیت ایک استثنا کی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جو مشرکین کبھی مسلمانوں کے خلاف برسر پیکار نہیں رہے اور انھوں نے صلح کے معاہدے کرنے کے بعد کبھی خفیہ یا علانیہ معاہدے کی خلاف ورزی یا مسلمانوں کے خلاف کسی کی مدد نہیں کی، ان کے خلاف قتل کا اقدام ایفاے عہد کے اخلاقی اصول کے منافی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، اس لیے ان کے ساتھ قرار دادہ مدت تک معاہدے کی پاس داری کی جائے۔ چنانچہ اس استثنا سے قتل مشرکین کی اصل وجہ اخذ کرنا، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، اسالیب کلام کی رو سے کسی طرح درست نہیں۔ 

اب دوسرے استدلال کو لیجیے: 

آیت ۶ میں ’وان احد‘ کے الفاظ میں قتل عام کے حکم سے بعض افراد کے لیے جو استثنا بیان کیا گیا ہے، اس کا مقصد خود قرآن مجید نے ’حتی یسمع کلام اللہ‘ اور ’ذلک بانہم قوم لا یعلمون‘ کے الفاظ سے بالکل صاف بیان کر دیا ہے۔ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ جو مشرک مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد میں ملوث نہ ہو، اسے قتل سے مستقل طور پر مامون کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ چونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ انفرادی حیثیت سے بعض افراد پر اللہ کا پیغام واضح طریقے سے ابھی نہ پہنچا ہو، اس لیے اگر کوئی فرد اس معاملے میں غور کرنے کے لیے مہلت مانگے تو اسے امان دے دی جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مشرک اللہ کے پیغام کو سمجھنے کے لیے امان طلب نہ کرے تو اس کا مقدر بھی یہی تھا کہ اسے تہہ تیغ کر دیا جائے۔ یہ چیز بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ قتل عام کے زیر بحث حکم کا تعلق فتنہ وفساد سے نہیں بلکہ دین وعقیدہ سے ہے۔ 

تیسرے استدلال کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ سورۂ براء ۃ کی زیربحث آیات کو ان کے پورے سیاق وسباق کے ساتھ سمجھ لیا جائے۔ 

سورۂ براءۃ کی ابتدائی ۲۸ آیات کا دقت نظر سے مطالعہ کیجیے تو واضح ہوگا کہ یہ دو حصوں میں تقسیم ہیں: 

پہلی ۶ آیات میں مشرکین کے حوالے سے اصل حکم بیان ہوا ہے اور ان میں مرکزی نکتہ، جس کے گرد یہ پورا سلسلہ بیان گھومتا ہے، آیت ۵ میں بیان ہوا ہے، یعنی یہ کہ مشرکین اگر اسلام قبول نہیں کرتے تو انھیں قتل کے انجام سے دوچار کر دیا جائے۔ اس کے سیاق وسباق میں بیان ہونے والے باقی تینوں احکام اسی کے لواحق اور متعلقات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ قتل عام کے اس آخری اقدام سے قبل آیت ۱ میں مسلمانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مشرکین کے ساتھ کیے جانے والے معاہدوں کی پابندی سے بری الذمہ ہونے کا اعلان کر دیں۔ پھر چونکہ یہ حکم اپنے عموم کے لحاظ سے پورے جزیرۂ عرب کو محیط ہے، اس لیے آیت ۳ میں حج اکبر کے موقع پر اس کی عام منادی کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ کسی بھی حوالے سے غلط فہمی یا خفا کا امکان نہ رہے۔ ا س کے باوجود چونکہ امکان تھا کہ انفرادی سطح پر بعض مشرکین تک اسلام کی دعوت اس وقت تک واضح اور موثر طریقے سے نہ پہنچی ہو، اس لیے آیت ۶ میں کہا گیا کہ اگر کوئی مشرک دعوت اسلام پر غور کرنے کی غرض سے امان طلب کرے تو اسے امان دے دی جائے۔ 

اصل حکم اپنے متعلقات کے ساتھ یہاں مکمل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد آیت ۷ سے ۲۸ تک دراصل ان نفسیاتی موانع کا بیان ہے جو مسلمانوں کی جانب سے اس اقدام پر عمل درآمد کی راہ میں حائل تھے۔ یہ موانع جن کا قرآن مجید نے ان آیات میں ازالہ کیا ہے، بنیادی طور پر تین تھے:

ایک یہ کہ جو مشرک قبائل سب سے پہلے اس حکم کی زد میں آتے، ان کے ساتھ مسلمانوں کے نسبی تعلقات اور نہایت عزیز قرابت داریاں قائم تھیں اور عربوں کے مخصوص مزاج اور روایات کے پس منظرمیں ان کے خلاف اس نوعیت کے اقدام کا حکم، فی الواقع، ایک کڑی آزمایش کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک طرف تو یہ بات واضح فرمائی کہ جب یہ قبائل دین دشمنی کی بنیاد پر تمھارے ساتھ کسی رشتے داری اور قرابت کا لحاظ نہیں رکھتے اور اس بات کی تاک میں ہیں کہ جیسے ہی موقع ملے، ہر قسم کے عہد وپیمان کو بالاے طاق رکھ کر تمہارے خلاف برسر جنگ ہو جائیں تو تم آخر کس بنیاد پر ان کے لیے ہمدردی اور قرابت کے جذبے کا اظہار کر رہے ہو۔ (آیت ۹۔۱۳) دوسری طرف یہ واضح کیا کہ اللہ کے دین اور اس کے احکام کے مقابلے میں اپنی نسبی قرابتوں اور رشتہ داریوں کو ترجیح دینا ایمان کے منافی ہے اور اگر مسلمان ایسا کریں گے تو وہ خود بھی اللہ کے عذاب کی زد میں آ جائیں گے۔ (آیت ۱۶، ۲۳، ۲۴)

دوسرا یہ کہ ان میں سے بالخصوص قریش عرب میں یہ شرف اور اعزاز بھی رکھتے تھے کہ انھیں بیت اللہ کی تولیت اور دربانی کامنصب حاصل تھا اور اس کے ہوتے ہوئے ان کے خلاف اقدام جنگ حقیقتاً ایک بڑی نفسیاتی رکاوٹ کی حیثیت رکھتا تھا۔ قرآن مجید نے اس کا ازالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بیت اللہ کی تولیت کا حق صرف اور صرف سچے اہل ایمان کو حاصل ہے اور شرک کے ساتھ کیا گیا کوئی عمل، چاہے وہ بیت اللہ کی دربانی اور حاجیوں کی خدمت جیسے اعلیٰ اعمال ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کے ہاں قابل قبول نہیں۔ (آیت ۱۷۔۲۲)

تیسرا یہ کہ پورے عرب کے خلاف جنگ چھیڑ دینے کا حکم بہرحال نہایت صبر وہمت اور جرات وشجاعت کا متقاضی تھا اور کمزور اہل ایمان کے دل میں یہ اشکال پیدا ہونے لگا تھا کہ مسلمان اس عظیم ذمہ داری سے آخر کیسے عہدہ برآ ہوں گے۔ قرآن مجید نے اس کے جواب میں واضح فرمایا ہے کہ اہل ایمان کو اس سے پہلے بھی ہر موقع پر اللہ کی نصرت حاصل رہی ہے اور اگر وہ ثابت قدم رہ کر اس ذمہ داری کو ادا کریں گے تو آئندہ کے مراحل میں بھی وہ نصرت خداوندی سے محروم نہیں رہیں گے۔ (آیت ۲۵۔۲۷)

اس تفصیل سے واضح ہے کہ آیت ۷ سے ۲۷ تک خطاب اس عمومی تناظر میں نہیں ہوا جس میں پہلی ۶ آیات وارد ہوئی ہیں، بلکہ ان میں بعض ایسی مخصوص الجھنوں سے تعرض کیا گیا ہے جن کا تعلق پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین کے بجائے ان کے بعض مخصوص گروہوں، بالخصوص قریش سے تھا۔ اس مخصوص تناظر کی وجہ سے ظاہر ہے کہ کلام کے اس حصے میں مشرکین کے اوصاف وحالات بھی وہی بیان ہوئے ہیں جو ان مخصوص گروہوں میں پائے جاتے تھے۔ مذکورہ نقطہ نظر کی غلطی یہ ہے کہ اس میں پہلی ۶ آیات میں خطاب کے عمومی رخ اور اس کے بعد کی آیات کے مخصوص دائرۂ تخاطب میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا اور اس دوسرے حصے میں موجود بعض قرائن وشواہد کی بنا پر، جو بلاشبہ مشرکین کے بعض مخصوص گروہوں ہی سے متعلق ہیں، پہلے حصے کے عمومی حکم کی تعبیر بھی اسی تناظر میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ایسا کرتے ہوئے کلام کی نہایت اہم داخلی دلالتوں کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ 

کیف یکون للمشرکین عہد‘ سے شروع ہونے والے سلسلہ بیان کے اس مخصوص تناظر کے واضح قرائن کلام کے اندر موجود ہیں۔ ایک یہ کہ اس میں مشرکین کے ساتھ معاہدے توڑنے کی جو وجہ بیان کی گئی ہے، وہ تمام معاہد قبائل میں پائی ہی نہیں جاتی تھی اور کچھ قبائل اس اعلان کے وقت یقیناًایسے بھی موجود تھے جن کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ کبھی بھی معاندانہ نہیں رہا تھا اور نہ ان سے اس قسم کا کوئی خدشہ آئندہ محسوس ہو رہا تھا۔ دوسرا یہ کہ اس حکم میں استثنا بیان کرتے وقت ’الا الذین عاہدتم عند المسجد الحرام‘ کے الفاظ سے صرف قریش اور معاہدۂ حدیبیہ میں شریک دوسرے قبائل کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر ’کیف یکون للمشرکین عہد‘ کے الفاظ جزیرۂ عرب کے مجموعی تناظر میں لیے جائیں تو مذکورہ استثنا میں معاہدۂ حدیبیہ پر ارتکاز کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، ا س لیے کہ اس معاہدے کے علاوہ بھی بعض قبائل کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موقت معاہدے کیے تھے اور انھیں بھی آیت ۴ کے حکم کے مطابق اس وقت تک امان حاصل تھی جب تک کہ معاہدوں کی مدت نہ گزر جائے یا وہ نقض عہد کا ارتکاب نہ کر ڈالیں۔ اسی وجہ سے ۹ ہجری میں حج اکبر کے دن قرآن مجید کے حکم کے مطابق جب اعلان براء ت کی عام منادی کرائی گئی تو اس میں یہ کہا گیا کہ ’من کان بینہ وبین رسول اللہ عہد فلہ عہدہ الی مدتہ‘۔ ظاہر ہے کہ اس سے یہ دیگر قبائل ہی مراد تھے، کیونکہ قریش تو معاہدۂ حدیبیہ کو اس سے عرصہ دراز قبل توڑ چکے تھے۔ اس پس منظر میں دیکھیے تو مذکورہ آیت میں ان تمام معاہدات سے قطع نظر کرتے ہوئے صرف معاہدۂ حدیبیہ پر ارتکاز کرنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ ’کیف یکون للمشرکین عہد‘ سے شروع ہونے والا سلسلہ بیان ان مخصوص قبائل کے تناظر میں وارد ہوا ہے جن کے خلاف اقدام جنگ کرنے میں، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، کچھ نفسیاتی اور معاشرتی موانع حائل ہو رہے تھے۔ 

اس نکتے کا حاصل یہ ہے کہ ’لایرقبون فی مومن الا ولا ذمۃ‘ اور ’الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانہم‘ میں مشرکین بحیثیت مجموعی سرے سے زیر بحث ہی نہیں، اس لیے کہ تمام مشرکین پر اس وصف کا انطباق ہو ہی نہیں سکتا۔ ان آیات میں دراصل قریش کی حالت بیان کی گئی ہے جن کے ساتھ حدیبیہ میں دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا تھا۔ قرآن مجید نے ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ اب تک تو یہ معاہدے پر قائم ہیں اور جب تک یہ معاہدے پر قائم رہیں، تم بھی اس کی پاس داری کرو، لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے یہ حقیقت بھی واضح کر دی ہے کہ یہ صرف مجبوری کی حالت میں معاہدے کی پابندی کر رہے ہیں، ورنہ جیسے ہی ان کو موقع ملے گا، یہ تمام عہد وپیمان پس پشت ڈال کر دوبارہ مسلمانوں کے خلاف برسر جنگ ہو جائیں گے۔ یہ امکانی صورت بیان کر کے قرآن مجید نے فرمایا ہے کہ اگر عہد شکنی ان کی طرف سے سامنے آئے تو پھر معاہدے کی مدت پوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ان ائمہ کفر کے خلاف فوری اقدام کر کے ان کو نقض عہد کا مزہ چکھا دیا جائے۔ اس پس منظر میں فتنہ وفساد اور نقض عہد کو قتال کی علت قرار دینے کی بات محض جزوی حد تک ہی درست ہو سکتی ہے۔ یعنی مشرکین کو قتل کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، اس کی وجہ بعض صورتوں میں یہ بھی ہے کہ انھوں نے نقض عہد کیا۔ گویا نقض عہد حکم کی ایک اضافی وجہ ہے نہ کہ اصل اور بنیادی سبب۔ اس بات کو مانے بغیر سورہ کے آغاز میں معاہدوں سے براء ت کے اعلان اور پھر حج اکبر کے موقع پر اس کی منادی کے بعد مشرکین کے قتل عام کے احکام کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی۔

یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ وان نکثوا ایمانہم کا تقابل اس سے نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے معاہدوں پر قائم رہیں، بلکہ اس کے بجائے اس کا تقابل ’فان تابوا واقاموا الصلوۃ وآتوا الزکوۃ‘ سے کیا گیا ہے۔ اس طرح قرآن نے اپنے بلیغ اسلوب میں یہ واضح کر دیا ہے کہ مشرکین سے اصل مطلوب یہی ہے کہ وہ کفر وشرک سے تائب ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں ان کے ساتھ قتال کیا جائے گا، البتہ جب تک وہ اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے، انھیں جان ومال کا تحفظ حاصل ہے۔ تاہم اگر وہ اپنے معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو اس وقتی امان سے بھی اپنے آپ کو خود محروم کرلیتے ہیں۔

بعض حنبلی فقہا نے یہ استدلال پیش کیا ہے کہ ’الا تقاتلون قوما نکثوا ایمانہم‘ اور ’یخرجون الرسول وایاکم‘ اور ’فان قاتلوکم فاقتلوہم‘ میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ صراحت کے ساتھ ان کے شر وفساد کو علت بتایا ہے، جبکہ اگر کفر علت ہوتا تو مذکورہ امور کو جو کفر سے کم تر ہیں، بطور علت کے بیان کرنا غیر موزوں ہے۔ (ابن عقیل، کتاب الفنون ۱۲۸، ۳۹۱) حالانکہ بالبداہت واضح ہے کہ پیغمبر کی نفس تکذیب کم تر جرم ہے جبکہ صد عن سبیل اللہ اور پیغمبر کے ساتھ محاربہ اور فتنہ وفساد کہیں زیادہ سنگین جرم ہے اور بلاغت کے اسالیب یہ تقاضا کرتے ہیں کہ جب سزا کی فرد جرم بیان کی جائے تو کم تر نہیں بلکہ بڑے جرم کا حوالہ دیا جائے۔ مزید برآں مذکورہ آیات میں بنیادی مقصود اہل ایمان میں کفار سے براء ت کا جذبہ اور ان کے خلاف جہاد وقتال کے لیے تحریک پیدا کرنا ہے، نہ کہ مشرکین کے عذاب کی اصل وجہ بیان کرنا۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی گروہ کی فرد قرارداد جرم بیان کرنے کا مقصد اس کے خلاف اقدام کی ترغیب دینا ہو تو بلاغت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کے جرم کے سنگین ترین اور شنیع ترین نتائج کا حوالہ دیا جائے اور اس کے طرز عمل کے ان پہلووں کو نمایاں کیا جائے جو نفسیاتی طور پر مخاطب میں مطلوب جذبہ عمل کو انگیخت کرنے کا زیادہ موثر ذریعہ بن سکیں۔ جہاں تک کفار کے عذاب خداوندی کے مستحق بننے کی اصل قانونی وجہ کا تعلق ہے تو اس کے بیان کا موقع وہ مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے انبیا اور ان کے قوموں کے بارے میں اپنے قانون کو براہ راست موضوع بنایا ہے، چنانچہ انھیں نظر انداز کر کے عذاب کی اصل وجہ ان مقامات سے اخذ کرنا جہاں اس کا بیان سرے سے مقصود ہی نہیں، علمی لحاظ سے کسی طرح درست نہیں۔

قتال اور دین کے معاملے میں جبر واکراہ

اس ضمن میں اصولی نوعیت کا ایک بنیادی استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جہاں تک جہاد وقتال کی پہلی صورت کا تعلق ہے تو اس کے جواز پر عقلی واخلاقی لحاظ سے کوئی سنجیدہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ ظلم وعدوان اور جارحیت کے خاتمے اور اپنی جان ومال اور سرزمین کے دفاع کے لیے برسرجنگ ہونے کو، بعض راہبانہ اور غیر عملی فلسفوں سے قطع نظر، دنیا بھر میں ہمیشہ جائز بلکہ بعض حالات میں واجب سمجھا گیا ہے۔ البتہ دوسری صورت، جس میں کسی گروہ کی طرف سے کی جانے والی جارحیت یا ظالمانہ اقدام کی بنا پر نہیں بلکہ کفر پر قائم رہنے کی پاداش میں کفار ومشرکین کو قتل کرنے یا انھیں محکوم ومغلوب بنانے کے لیے تلوار اٹھانے کا حکم دیا گیا ہے، اپنے ظاہر کے لحاظ سے خود دین وشریعت ہی کے نصوص میں بیان ہونے والی ان ہدایات کے ساتھ ٹکراتا اور ان کی نفی کرتی ہے جن میں دین ومذہب کے معاملے میں انسان کے ارادۂ واختیار کی آزادی کی اہمیت اجاگر کی گئی اور اس حوالے سے کسی قسم کے جبر واکراہ کو اللہ تعالیٰ کی اسکیم کے منافی قرار دیا گیا ہے۔ 

قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ واضح کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں امتحان اور آزمایش کے لیے بھیجا ہے اور اس مقصد کے لیے اسے حق کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری آزادی بخشی ہے۔ ارادہ واختیار کی یہ آزادی دنیا میں رشد وہدایت کے باب میں اللہ تعالیٰ کی اسکیم کا بنیادی ضابطہ ہے اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملے میں کسی قسم کے جبر واکراہ کا طریقہ اختیار نہیں فرمایا۔ ارشاد ہے:

لاَ إِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَہَا وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ (البقرہ ۲:۲۵۶ )

’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔ یقیناًہدایت کا راستہ گمراہی کے راستے سے ممتاز ہو چکا ہے۔ سو جو طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک نہایت مضبوط رسی تھام لی جو ٹوٹنے والی نہیں۔ اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘

قرآن مجید کی رو سے ایمان کے معاملے میں اصل اعتبار انسان کے اپنے ارادۂ واختیار کا ہے۔چنانچہ کسی انسان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اس معاملے میں کسی دوسرے انسان کو جبر واکراہ کے ساتھ ایمان واسلام کی راہ پر لانے کی کوشش کرے اور نہ اس طرح کے ایمان کو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وقعت حاصل ہے: 

وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْنَ ۔ وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُون (یونس ۱۰: ۹۹، ۱۰۰)

’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو زمین پر بسنے والے سب لوگ ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرنا چاہتے ہو تاکہ وہ ایمان لے آئیں؟ اور کسی انسان کے بس میں یہ نہیں کہ وہ اللہ کے اذن کے بغیر ایمان لے آئے۔ (اللہ اس کی توفیق ان کو دیتا ہے جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں) اور جو لوگ اپنی عقل کو استعمال نہیں کرتے، ان پر (کفر وشرک) کی گندگی مسلط کر دیتا ہے۔‘‘

ارادۂ واختیار کی اسی آزادی کی بنا پر انسانوں کا مختلف مذہبی گروہوں میں تقسیم رہنا اللہ تعالیٰ کے قانون آزمایش کا ایک لازمی تقاضا ہے، اور ان اختلافات کا حتمی فیصلہ خود اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کریں گے۔ ارشاد ہوا ہے:

وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَلاَ یَزَالُونَ مُخْتَلِفِیْنَ، إِلاَّ مَن رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَلِکَ خَلَقَہُمْ وَتَمَّتْ کَلِمَۃُ رَبِّکَ لأَمْلأنَّ جَہَنَّمَ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ (ہود۱۱: ۱۱۸، ۱۱۹)

’’اور اگر تیرا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو (دین ومذہب کے لحاظ سے) ایک ہی گروہ بنا دیتا، لیکن یہ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے، سوائے ان کے جن پر تیرے رب کی رحمت ہو۔ اور اللہ نے انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے۔ اور تیرے رب کا یہ فیصلہ پورا ہو کر رہے گا کہ میں جہنم کو جن اور انسان، دونوں مخلوقوں سے بھر دوں گا۔‘‘

جن لوگوں کو حق کی روشنی میسر آ جائے، ان کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ لوگوں تک اس کو واضح طریقے سے پہنچا دیں۔اس سے آگے کفار کے محاسبہ اور ان کے خلاف داروگیر کا کوئی اختیار ان کو نہیں دیا گیا۔ اس ضمن میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات قرآن مجید نے بہت وضاحت سے بیان کی ہے کہ آپ کے ذمے بس اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دینا ہے اور اس سے آگے کوئی ذمہ داری آپ پر عائد نہیں ہوتی:

فَذَکِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَکِّرٌ لَّسْتَ عَلَیْْہِم بِمُصَیْْطِر (الغاشیہ ۸۸: ۲۱، ۲۲)

’’پس تم نصیحت کرتے رہو۔ تمہارا کام بس نصیحت کرنا ہے۔ تمھیں ان کو زبردستی منوانے کے لیے نہیں بھیجا گیا۔‘‘

وَلَوْ شَاءَ اللّٰہُ مَا أَشْرَکُواْ وَمَا جَعَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً وَمَا أَنتَ عَلَیْْہِم بِوَکِیْلٍ (الانعام ۶: ۱۰۷)

’’اور اگر اللہ چاہتا تو یہ شرک نہ کر سکتے۔ اور ہم نے تمھیں ان پر داروغہ نہیں بنایا اور نہ ہی تم پر انھیں منوانے کی ذمہ داری ہے۔‘‘

فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ حَفِیْظاً إِنْ عَلَیْْکَ إِلَّا الْبَلَاغُ (الشوریٰ ۴۲: ۴۸)

’’پھر اگر یہ منہ موڑیں تو ہم نے تمھیں ا ن کی داروگیر کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا۔ تمھارے ذمے تو بس بات کو پہنچا دینا ہے۔‘‘

دوسرا اہم استدلال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اگر کفار کو اسلام قبول نہ کرنے کے جرم میں قتل کر دینے یا سیاسی لحاظ سے مغلوب ومحکوم بنانے کو درست تسلیم کر لیا جائے تو وہ نصوص بے معنی قرار پاتے ہیں جن میں محارب اور غیر محارب کفار کے مابین امتیاز کرنے اور جو گروہ مسلمانوں کے ساتھ کسی زیادتی کے مرتکب نہ ہوئے ہوں، ان کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ ممتحنہ میں ارشاد ہوا ہے:

لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ قَاتَلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَأَخْرَجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلیٰ إِخْرَاجِکُمْ أَن تَوَلَّوْہُمْ وَمَن یَتَوَلَّہُمْ فَأُوْلَءِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنہ ۶۰:۸، ۹)

’’جن لوگوں نے دین کے معاملے میں تمہارے ساتھ لڑائی نہیں کی اور نہ تمہیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے، اللہ تمہیں ان کے ساتھ حسن تعلق اور انصاف کا رویہ اختیار کرنے سے نہیں روکتا۔ اللہ تو انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ تو تمھیں صرف ان لوگوں سے دوستی قائم کرنے سے منع کرتا ہے جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ جو لوگ ان کے ساتھ دوستی گانٹھیں گے، درحقیقت وہی ظالم ہیں۔‘‘

قرآن مجید نے اسی اصول کی توسیع جنگ اور قتال کے دائرے تک کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ اگر دشمنوں کا کوئی گروہ اپنی قوم کے سیاسی اور معاشرتی دباؤ کے تحت مسلمانوں کے خلاف میدان جنگ میں تو آ گیا ہو، لیکن لڑائی میں شریک نہ ہو بلکہ مسلمانوں کے ساتھ صلح کا خواہش مند ہو تو اس پر تلوار اٹھانے کا کوئی اختیار اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نہیں دیا ہے: 

فَإِنِ اعْتَزَلُوکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوکُمْ وَأَلْقَوْاْ إِلَیْْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّہُ لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سَبِیْلا (النساء ۴: ۹۰)

’’پھر اگر وہ تمہارے مقابلے پر آنے سے گریز کریں اور تم سے نہ لڑیں اور تمہیں صلح کا پیغام دیں تو اللہ نے تمہیں ان کے خلاف اقدام کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا۔‘‘

سورۂ انفال میں ہدایت کی گئی ہے کہ اگر کوئی محارب گروہ بھی صلح اور امن کی پیش کش کرے تو غدر اور نقض عہد کے خدشات کے باوجود اس کی اس پیش کش کو قبول کر لیا جائے۔ ارشاد ہوا ہے:

وَإِن جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّہِ إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ وَإِن یُرِیْدُوا أَن یَخْدَعُوکَ فَإِنَّ حَسْبَکَ اللّہُ ہُوَ الَّذِیَ أَیَّدَکَ بِنَصْرِہِ وَبِالْمُؤْمِنِیْنَ (الانفال ۸:۶۱، ۶۲)

’’اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو۔ بے شک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ (صلح کا پیغام دے کر) تمھیں دھوکہ دینا چاہتے ہیں تو اللہ تمھیں کافی ہے۔ وہی ہے جس نے اپنی مدد سے بھی تمہاری تائید کی اور اہل ایمان کے ذریعے سے بھی۔‘‘

مذکورہ نقطہ نظر کے استدلال کی وضاحت کے بعد اب ہم اس کا تنقیدی جائزہ لیں گے: 

مذکورہ استدلال میں دین کے معاملے میں جبر واکراہ کی نفی اور غیر محارب کفار کے ساتھ مصالحانہ تعلقات کا جواز بیان کرنے والے جن نصوص سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کا جو حکم دیا گیا، اس کی اصل وجہ ان گروہوں کا ایمان نہ لانا نہیں بلکہ فتنہ وفساد اور شر انگیزی تھا، قرآن مجید میں ان کا صحیح محل اور سیاق وسباق اس تعبیر کو قبول کرنے سے مانع ہے۔ 

ان میں سے پہلے اصول یعنی ایمان کے معاملے میں جبر واکراہ کو لیجیے: 

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگرچہ عمومی طور پر ہدایت یافتہ اور غیر ہدایت یافتہ گروہوں کی تقسیم کے قائم رہنے کو اپنی اسکیم کا ایک حصہ قرار دیا ہے اور اس ضمن میں اختلاف کا حتمی فیصلہ قیامت کے دن ہی ہوگا، تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی کہ وہ اس دنیا میں حق کے واضح ہونے کے باوجود ایمان نہ لانے والوں کو کوئی سزا نہیں دے گا۔ اس کے برعکس سزا وجزا کا قانون اللہ نے یہ بنایا ہے کہ انسانوں کو ان کے اعمال کا پورا اور کامل بدلہ تو آخرت میں ملے گا، لیکن جزا وسزا کا کچھ نہ کچھ ظہور اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور اس کے تحت افراد یا گروہوں خدا کی پکڑ میں آ جاتے ہیں۔ یہ طریقہ رسولوں کے مخاطبین کے باب میں خاص اہتمام کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے اور جب رسالت کے منصب پر فائز کسی ہستی کے مخاطب اتمام حجت کے بعد اس کے انکار پر مصر رہیں تو ان پر قیامت صغریٰ اسی دنیا میں برپا ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا یہ قانون بیان کرتا ہے کہ جب وہ کسی قوم میں اپنے رسول کو مبعوث کرتا ہے تو دلائل وبراہین کی وضاحت اور ایک مخصوص عرصے تک مہلت دیے جانے کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں وہ قوم اسی دنیا میں خدا کے عذاب کی مستحق بن جاتی ہے جو اپنے مقررہ وقت پر لازماً اس قوم پر نازل ہو کر رہتا ہے۔ 

جہاں تک دین کے معاملے میں جبر واکراہ کی نفی کا تعلق ہے تو قرآن مجید میں یہ بات کہیں بھی اس مفہوم میں نہیں کہی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کفر کی پاداش میں کسی کو سزا دینے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رکھا۔ قرآن مجید میں اس بات کا ذکر یا تو تکوینی جبر واکراہ کی نفی کے پہلو سے ہوا ہے اور یا انسانوں کے دائرۂ اختیار کی تحدید کے لیے۔ پہلے مفہوم کی آیات میں مقصود کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا توتمام انسانوں کو تکوینی طور پر صاحب ایمان بنا دیتا، یعنی ان میں سے کسی کو کفر یا ایمان میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار ہی حاصل نہ ہوتا۔ قرآن مجید اس کی وجہ یہ بیان کرتا ہے کہ ایمان خدا کی ایک نعمت ہے جو وہ ناقدروں اور اندھوں بہروں کو جبراً نہیں دیتا۔ اس کے مستحق خدا کے قانون کے مطابق وہی لوگ قرار پاتے ہیں جو اپنے دل ودماغ کو قبول حق کے لیے اور اپنی آنکھوں اور کانوں کو خدا کی نشانیوں پر غور کرنے کے لیے کھلا رکھتے ہیں۔ گویا ہدایت اورایمان کے لیے تکوینی سطح پر جبر واکراہ کی نفی سے مقصود اہل کفر کے اس دنیا میں سزا اور مواخذہ سے بری ہونے کا بیان نہیں، بلکہ ایمان کی توفیق کا ایک بنیادی شرط یعنی خدا کی دی ہوئی ہوئی علم وعقل کی صلاحیتوں کے صحیح استعمال سے مشروط ہونے کا بیان ہے۔ 

قرآن مجید میں یہی بات دوسرے مقامات پر بھی اس طرح وضاحت سے بیان ہوئی ہے کہ اس کے مدعا ومفہوم میں کوئی ابہام باقی نہیں رہتا۔ سیدنا نوح نے اپنی قوم سے فرمایا:

یَا قَوْمِ أَرَأَیْْتُمْ إِن کُنتُ عَلَی بَیِّنَۃٍ مِّن رَّبِّیَ وَآتَانِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِہِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْْکُمْ أَنُلْزِمُکُمُوہَا وَأَنتُمْ لَہَا کَارِہُونَ (ہود ۱۱:۲۸)

’’اے میری قوم، دیکھو اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر قائم ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت عطاکی ہے لیکن تمہاری نگاہیں اس کا ادراک کرنے سے عاجز ہیں تو کیا ہم اسے زبردستی تمھارے سر تھوپ دیں گے جب کہ تم اس کو پسند نہیں کرتے؟‘

سورۂ یونس میں ارشاد ہوا ہے:

وَلَوْ شَاء رَبُّکَ لآمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُوا مُؤْمِنِیْنَ ۔ وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللّہِ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُونَ ۔ قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا تُغْنِیْ الآیَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ یُؤْمِنُونَ ۔ فَہَلْ یَنتَظِرُونَ إِلاَّ مِثْلَ أَیَّامِ الَّذِیْنَ خَلَوْاْ مِن قَبْلِہِمْ قُلْ فَانتَظِرُواْ إِنِّیْ مَعَکُم مِّنَ الْمُنتَظِرِیْنَ ۔ ثُمَّ نُنَجِّیْ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُواْ کَذَلِکَ حَقّاً عَلَیْْنَا نُنجِ الْمُؤْمِنِیْنَ (یونس ۱۰:۹۹ -۱۰۲)

’’اور اگر تمہارا رب چاہتا تو زمین میں جتنے لوگ ہیں، وہ سب کے سب ایمان لے آتے (لیکن اس نے ایسا نہیں چاہا) تو کیا تم لوگوں پر جبر کرنا چاہتے ہو یہاں تک کہ وہ مومن بن جائیں؟ کسی انسان کے بس میں نہیں کہ وہ ایمان لے آئے، مگر اللہ کے اذن سے۔ اور (وہ اس کی توفیق انھی کو دیتا ہے جو اپنی عقل سے کام لیں جبکہ) جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے، ان پر (کفر وشرک کی) گندگی مسلط کر دیتا ہے۔ کہہ دو کہ غور کرو ان نشانیوں پرجو آسمانوں اور زمین میں ہیں، لیکن جو لوگ ایمان نہیں لانا چاہتے، یہ نشانیاں اور عذاب کی دھمکیاں ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ پھر کیا یہ بھی (خدا کے عذاب کے) انھی دنوں کا انتظار کر رہے ہیں جو ان سے پہلے گزر جانے والوں پر آئے؟ کہہ دو کہ پس تم بھی انتظار کرو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔ پھر (جب عذاب آئے گا تو) ہم اپنے رسولوں اور ان پرایمان لانے والوں کو بچا لیتے ہیں۔ اسی طرح ہوگا۔ ہم پر لازم ہے کہ ہم ایمان لانے والوں کو بچا لیں۔‘‘

یہ درحقیقت زجروتوبیخ کا ایک اسلوب ہے جس کا مقصد استحقاق ہدایت کی اہلیت کا معیار بیان کرنا ہے، نہ کہ اس دنیا میں سزا اور مواخذہ کی نفی۔ ان دونوں باتوں کا محل بالکل الگ الگ ہے اور ان کو نظر انداز کرتے ہوئے محض الفاظ کے ظاہری اشتراک کی بنیاد پر ایک محل کی بات کو دوسرے اور بالکل مختلف محل کی بات سمجھ لینا اسالیب بلاغت سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی استاذ اپنے شاگردوں سے کہے کہ امتحان میں کامیابی حاصل کر کے اگلی جماعت میں ترقی کا مستحق قرار پانے کے لیے ہم کسی سے جبراً محنت نہیں کروائیں گے، بلکہ جو طالب علم خود اپنے شوق اور لگن اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرے گا، ترقی بھی اسی کا حق ہوگی، اور اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ استاذ صاحب امتحان میں ناکام ہونے والوں کے لیے مواخذہ اور داروگیر سے بری ہونے کا اعلان فرما رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ استنتاج بالکل بے محل ہوگا، چنانچہ سورۂ یونس کی جو آیات ہم نے اوپر نقل کی ہیں، ان میں قرآن مجید نے ’ولو شاء ربک لآمن من فی الارض کلہم جمیعا‘ سے تکوینی عدم اکراہ کو بیان کیا ہے، لیکن اس کے بعد ’فہل ینتظرون الا مثل ایام الذین خلوا من قبلہم‘ سے منکرین حق کے مواخذہ کے قانون کا بھی ذکر کیا ہے اور اس طرح یہ واضح کر دیا ہے کہ جبر واکراہ کی نفی سے اس کی مراد درحقیقت کیا ہے۔(1)

یہی صورت حال ان آیات کی ہے جہاں عدم اکراہ کا اصول انسانوں کے دائرۂ اختیار کو بیان کرنے کے لیے بیان کیا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا گیا ہے کہ آپ کو کفار پر داروغہ بنا کر مسلط نہیں کیا گیا۔ ان میں سے کم وبیش ہر مقام پر یہ واضح کیا گیا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دینے کے بعد انھیں اس کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کا بھی غیر مبہم اعلان کر دیا گیا کہ انکار حق پر اللہ تعالیٰ ان کافروں کا محاسبہ لازماً کریں گے:

رَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِکُمْ إِنْ یَّشَأْ یَرْحَمْکُمْ أَوْ إِنْ یَّشَأْ یُعَذِّبْکُمْ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْْہِمْ وَکِیْلاً (بنی اسرائیل ۱۷:۵۴)

’’تمہارا رب تمھارے بارے میں بہتر جانتا ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو تم پر رحمت کرے گا اور چاہے گا تو تمھیں سزا دے گا۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تمھیں ان پر مسلط کر کے نہیں بھیجا۔‘‘

وَإِن مَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُہُمْ أَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِنَّمَا عَلَیْْکَ الْبَلاَغُ وَعَلَیْْنَا الْحِسَاب (الرعد ۱۳:۴۰)

’’اور چاہے ہم تمھیں اس عذاب کی ایک جھلک دکھا دیں جس کی ہم انھیں دھمکی دیتے ہیں یا تمھیں وفات دے دیں، تمہارے ذمے بس پہنچا دینا ہے اور محاسبہ کرنا ہمارے ذمے ہے۔‘‘

أَفَأَنتَ تُسْمِعُ الصُّمَّ أَوْ تَہْدِیْ الْعُمْیَ وَمَن کَانَ فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ، فَإِمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَإِنَّا مِنْہُم مُّنتَقِمُونَ، أَوْ نُرِیَنَّکَ الَّذِیْ وَعَدْنَاہُمْ فَإِنَّا عَلَیْْہِم مُّقْتَدِرُونَ (الزخرف ۴۳:۴۰، ۴۲)

’’تو کیا تم بہروں کو سنا سکتے ہو یا اندھوں کو اور ان لوگوں کو راہ دکھا سکتے ہو جو کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہوں؟ پھر اگر ہم تمھیں لے جائیں گے تو یقیناًہم ان سے انتقام لیں گے۔ یا اگر تمھیں وہ عذاب دکھانا چاہیں گے جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے تو بے شک ہمیں ان پر پوری پوری قدرت حاصل ہے۔‘‘

آیات سے صاف واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو تو یہ حق نہیں دیا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اس کے اختیار کردہ مذہب سے بزور قوت برگشتہ کرنے کی کوشش کرے یا اس پر اسے سزا دے، لیکن اللہ تعالیٰ یہ اختیار رکھتے ہیں کہ وہ اتمام حجت کے بعد بھی دین حق کو قبول نہ کرنے والوں کو سزا دیں۔ 

تکوینی طور پر انسانوں کو ابتدا ءً ایمان پر مجبور نہ کرنا اور پھر وضوح حق کے بعد ایمان نہ لانے پر انھیں سزا کا مستحق قرار دینا، یہ دونوں اصول عدل وحکمت پر مبنی ہیں اور ان میں باہم کوئی منافات نہیں۔ چونکہ انسان کو اس دنیا میں بھیجنے سے اس کا امتحان اور آزمایش مقصود ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو تکوینی طور پر اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ وہ اس پر ایمان لائیں، بلکہ انھیں اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان یا کفر میں سے کوئی بھی راستہ اختیار کرنے کی آزادی دی ہے۔ اس امتحان وآزمایش کے بامعنی اور منصفانہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ دار الامتحان میں انسانوں کو کوئی بھی عقیدہ وعمل اختیار کرنے کی آزادی ہو اور انھیں بالجبر کسی نقطہ نظر سے برگشتہ کرنے یا کسی مخصوص عقیدہ ومذہب کو اختیار کرنے کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔ تاہم اس سے یہ کسی طرح لازم نہیں آتا کہ اس دنیا میں انسانوں کے مواخذہ ومحاسبہ کا امکان ہی ختم ہو جائے، اس لیے کہ عدم اکراہ کا اصول جزا وسزا کے قانون کی نفی کے لیے نہیں، بلکہ اس جزا وسزا کو ایک معقول اور اخلاقی اصول بنانے کے لیے درکار ارادہ واختیار کی آزادی کی شرط کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی سرکشی اور عناد کی صورت میں اس سے باز پرس کا کوئی اختیار ہی اپنے پاس نہیں رکھا اور اسے ایک شتر بے مہار بنا کر دنیا میں بھیج دیا ہے، بلکہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں پر اپنے فضل واحسان اور نقمت وعذاب کا فیصلہ تحکم کے طریقے پر نہیں، بلکہ عدل وانصاف کے مطابق امتحان اور آزمایش کے اصول پر کرتا ہے۔ غور کیجیے تو خدائی قانون کے یہ دونوں پہلو باہم بالکل متوافق اور ایک ہی مقصد کو پورا کرنے کے لیے خدا کی اسکیم کا حصہ ہیں، اس لیے کہ آزادی دیے بغیر انسان کو امتحان میں ڈالنا تو یقیناًغیر معقول ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کسی فرد یا گروہ کو قبول حق کے معاملے میں تکوینی طور پر مجبور نہیں کیا، لیکن ظاہر ہے کہ ارادہ واختیار کی یہ آزادی مطلق نہیں بلکہ محدود ہے ، چنانچہ اس آزادی کے غلط استعمال پر اس کی جزا وسزا کا فیصلہ کرنا کسی طرح بھی اس کے منافی نہیں اور اتمام حجت کے بعد انکار کرنے والوں کو سزا دینا نہ صرف خالق کائنات کا حق بلکہ اس کے قانون عدل وانصاف کا لازمی تقاضا ہے۔

زیر بحث زاویہ نگاہ کی غلطی یہ ہے کہ جن آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے معاملے میں تکوینی جبر کی نفی کی ہے، وہ انھیں خدا کے قانونی اختیار کی نفی پر محمول کرتا اور ان سے یہ نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان قبول نہ کرنے پر کسی کو سزا بھی نہیں دے سکتے۔ اسی طرح یہ زاویہ نگاہ اس دائرۂ اختیار میں جو خدا کو انسانوں پر حاصل ہے اور اس دائرۂ اختیار میں جو انسانوں کو انسانوں کے بارے میں دیا گیا ہے، فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا اور ایک اخلاقی پابندی جو درحقیقت انسانوں کے لیے بیان کی گئی ہیں، اس سے یہ نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے بھی انھی کی پابندی لازم کر رکھی ہے اور وہ ان کے خلاف نہ کوئی فیصلہ کر سکتا ہے اور نہ کوئی حکم دے سکتا ہے، حالانکہ قرآن مجید کے نصوص میں انبیا کی قوموں کے مواخذہ اور ان پر عذاب الٰہی نازل کیے جانے کا قانون بار بار اور پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی رو سے کسی قوم میں پیغمبر کی بعثت محض ایک داعی حق کی بعثت نہیں ہوتی، بلکہ اس قوم کے لیے فیصلے کی گھڑی ہوتی ہے اور پیغمبر کے مبعوث ہونے کے بعد قوم کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں: یا تو وہ پیغمبر کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے اس پر ایمان لا کر نجات پائے اور یا اس کے دعوے کو تسلیم نہ کرے اور خدا کے عذاب کا نشانہ بن جائے۔ ارشاد ہوا ہے:

وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَاء رَسُولُہُمْ قُضِیَ بَیْْنَہُم بِالْقِسْطِ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُونَ (یونس ۱۰:۴۷)

’’ہر گروہ میں ایک رسول بھیجا گیا۔ پھر جب ان کا رسول آ گیا تو ان کے مابین بالکل انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا گیا اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔‘‘

اس ضمن میں ایک شبہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ انبیا کی قوموں پر عذاب نازل ہونے کی وجہ محض ان کا ایمان نہ لانا نہیں بلکہ انبیا اور ان کی پیروی اختیار کرنے والے اہل ایمان کو اذیتیں اور تکالیف پہنچانا تھا، تاہم قرآن مجید کے بیانات سے اس مفروضے کی تائید نہیں ہوتی۔ اس میں شبہ نہیں کہ انبیا کی قوموں نے بالعموم اپنے رسولوں کومحض جھٹلا دینے پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس کے ساتھ انھیں اور ان کے پیروکاروں کو ایذا رسانی اور تعذیب کا نشانہ بھی بنایا جو ان کے جرم کو زیادہ سنگین اور قابل مواخذہ بنا دیتا ہے، تاہم قرآن مجید میں رسولوں کے انذار کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے، اس سے واضح ہے کہ رسولوں پر ان قوموں کو ایمان لانے کی دعوت دی اور نفس انکار وتکذیب پر انھیں خدا کے عذاب کی وعید سنائی:

قُلْ أَرَأَیْْتُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتاً أَوْ نَہَاراً مَّاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ ۔ أَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُم بِہِ آلآنَ وَقَدْ کُنتُم بِہِ تَسْتَعْجِلُونَ (یونس ۱۰:۵۰، ۵۱)

’’کہہ دو کہ تم بتاؤ اگر اللہ کا عذاب تم پر را ت کو سوتے میں یا دن کو آ گیا تو وہ کیا چیز ہے جس کی ان مجرموں کو جلدی ہے؟ کیا پھر جب وہ عذاب آن پڑے گا تو تب تم ایمان لاؤ گے؟ کیا اب (ایمان لاتے ہو) جبکہ تم تو اس عذاب کے جلد آنے کا مطالبہ کر رہے تھے؟‘‘

انعام میں ہے:

وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِیْنَ إِلاَّ مُبَشِّرِیْنَ وَمُنذِرِیْنَ فَمَنْ آمَنَ وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ وَالَّذِیْنَ کَذَّبُواْ بِآیَاتِنَا یَمَسُّہُمُ الْعَذَابُ بِمَا کَانُواْ یَفْسُقُونَ (الانعام ۶:۴۸، ۴۹)

’’اور ہم رسولوں کو اسی لیے بھیجتے ہیں کہ وہ بشارت دیں اور انذار کریں۔ پھر جو لوگ ایمان لے آئے اور (اپنے اعمال کو) درست کر لیا، ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غم زدہ ہوں گے۔ لیکن جو ہماری آیات کو جھٹلائیں، ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے عذاب آ لیتا ہے۔‘‘

سورۂ فاطرمیں فرمایا:

إِنَّا أَرْسَلْنَاکَ بِالْحَقِّ بَشِیْراً وَنَذِیْراً وَإِن مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ ۔ وَإِن یُکَذِّبُوکَ فَقَدْ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ جَاءتْہُمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ وَبِالزُّبُرِ وَبِالْکِتَابِ الْمُنِیْرِ ۔ ثُمَّ أَخَذْتُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَکَیْْفَ کَانَ نَکِیْرِ (فاطر ۳۵:۲۴ - ۲۶)

’’ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بھیجا، بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا۔ اور کوئی گروہ ایسا نہیں جس میں کوئی آگاہ کرنے والا نہ گزرا ہو۔ اور اگر یہ لوگ تمھیں جھٹلاتے ہیں تو ان سے پہلے لوگوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا۔ ان کے پاس بھی ان کے رسول واضح دلائل اور صحائف اور ایک روشن کتاب لے کر آئے تھے۔ پھر میں نے کفر کرنے والوں کو پکڑا تو کیسی تھی میری سزا!‘‘

قرآن مجید سے یہ بھی واضح ہے کہ اگرچہ پیغمبر کی تکذیب، اس کی دعوت کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے اور اہل ایمان کو تعذیب وایذا کا نشانہ بنانے والے اصلاً قوم کے سردار اور بارسوخ لوگ ہوتے تھے، لیکن جب خدا کا عذاب آیا تو قوم کے صرف وہی افراد اس سے نجات پا سکے جو پیغمبر پر ایمان لا کر اس کا ساتھ اختیار کر چکے تھے۔ چنانچہ سیدنا نوح کی قوم کے معدودے چند افرادکے سوا ساری قوم طوفان میں غرق ہو گئی، حتیٰ کہ خود ان کی اپنی بیوی اور بیٹا بھی اس سے بچ نہ سکے۔ (ہود ۱۱:۴۲، ۴۳۔ التحریم ۶۶:۱۰)

قرآن نے ان قوموں کے بحیثیت قوم عذاب کا نشانہ بننے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ انھوں نے پیغمبر کی پیروی اختیار کرنے کے بجائے اپنی قوم کے سرکش جباروں کی بات مانی اور ان کی پیروی میں پیغمبر اور اس لائی ہوئی نشانیوں کو جھٹلا دیا۔ قوم عاد کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:

وَتِلْکَ عَادٌ جَحَدُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْاْ رُسُلَہُ وَاتَّبَعُواْ أَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ وَأُتْبِعُوا فِی ہَذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَلا إِنَّ عَاداً کَفَرُوا رَبَّہُمْ أَلاَ بُعْداً لِّعَادٍ قَوْمِ ہُودٍ (ہود ۱۱:۵۸، ۶۰)

’’اور یہ عاد کے لوگ تھے جنھوں نے اپنے رب کی نشانیوں کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کے نافرمانی کی اور ہر ہٹ دھرم جبار کے طریقے کی پیروی کی۔ ان پر اس دنیا میں بھی لعنت مسلط کی گئی اور آخرت میں بھی۔ سنو، عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا۔ سنو، ہود کی قوم عاد کے لیے بربادی مقدر ہوئی۔‘‘

قرآن نے ان قوموں کی بربادی کا وجہ ان کا ایمان نہ لانا ہی بیان کی ہے:

وَلَقَدْ أَہْلَکْنَا الْقُرُونَ مِن قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُواْ وَجَاء تْہُمْ رُسُلُہُم بِالْبَیِّنَاتِ وَمَا کَانُواْ لِیُؤْمِنُواْ کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ (یونس ۱۰:۱۳)

’’اور یقیناً ہم نے تم سے پہلی قوموں کو بھی ہلاک کیا جب انھوں نے ظلم کیا۔ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے لیکن وہ ایمان لانے پر آمادہ نہ ہوئے۔ اسی طرح ہم مجرم قوموں کو سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘

سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ انبیا کے منکرین جب ان کی طرف سے پیش کردہ دلائل وبراہین پر غور کرنے سے گریز کرتے اور محض ہٹ دھرمی کی بنا پر ان کی تکذیب کا رویہ اختیار کیے رکھتے ہیں تو ایک خاص وقت تک آزمانے کے بعد اللہ تعالیٰ ان سے ایمان کی توفیق ہی سرے سے سلب کر لیتے ہیں اور خدا کے اس فیصلے کے بعد ہر قسم کی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود انھیں ایمان لانا نصیب نہیں ہوتا۔ ارشاد ہوا ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ حَقَّتْ عَلَیْْہِمْ کَلِمَتُ رَبِّکَ لاَ یُؤْمِنُونَ ۔ وَلَوْ جَاءَ تْہُمْ کُلُّ آیَۃٍ حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الأَلِیْمَ (یونس ۱۰:۹۶-۹۷)

’’بے شک وہ لوگ جن پر تیرے رب کا فیصلہ لازم ہو جائے، چاہے ان کے پاس ہر نشانی آ جائے، وہ اس وقت تک ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے جب تک کہ دردناک عذاب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔‘‘

اسی بنیاد پر جب انبیا اپنی مخاطب قوموں کے ایمان سے مایوس ہو گئے تو انھوں نے خدا سے دعا کی کہ اب وہ ایمان کی توفیق سے محروم کر دے تاکہ خدا کے عذاب کا فیصلہ ان پر نافذ ہو جائے۔ چنانچہ سیدناموسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی کہ:

رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَی أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَی قُلُوبِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُواْ حَتَّی یَرَوُاْ الْعَذَابَ الأَلِیْمَ (یونس ۱۰:۸۸)

’’اے ہمارے رب، ان کے اموال کو تباہ کر دے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے تاکہ جب تک یہ دردناک عذاب کو سامنے نہ پا لیں، ایمان نہ لانے پائیں۔‘‘

سیدنا نوح نے بددعا کی کہ:

رَّبِّ إِنَّہُمْ عَصَوْنِیْ وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ یَزِدْہُ مَالُہُ وَوَلَدُہُ إِلَّا خَسَاراً.... وَقَدْ أَضَلُّوا کَثِیْراً وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِیْنَ إِلَّا ضَلَالاً (نوح ۷۱:۲۱-۲۴)

’’اے میرے رب، انھوں نے میری نافرمانی کی اور ان لوگوں کی پیروی اختیار کی جن کے مال اور اولاد نے ان کے گھاٹے میں ہی اضافہ کیا ہے۔ ..... انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے، اور تو ان ظالموں کی گمراہی میں ہی اضافہ فرمانا۔‘‘

قرآن نے اس ضمن میں انبیا کی قوموں کے علاوہ خود ان کے افراد خانہ کے حوالے سے بھی اللہ تعالیٰ کے اس قانون کی وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ سیدنا نوح کا ایک بیٹا اہل ایمان کے ساتھ کشتی میں سوار نہ ہونے پر خود اپنے والد کے سامنے طوفان کے عذاب کا شکار ہو گیا اور سیدنا نوح نے جب اس پر بارگاہ الٰہی میں شکوہ کیا تو انھیں تنبیہ کی گئی کہ ایمان نہ لانے کے باعث وہ بھی خدا کے عذاب کا مستحق تھا، اس لیے وہ پدرانہ شفقت سے مغلوب ہو کر اللہ تعالیٰ سے کوئی ناروا مطالبہ نہ کریں:

قَالَ یَا نُوحُ إِنَّہُ لَیْْسَ مِنْ أَہْلِکَ إِنَّہُ عَمَلٌ غَیْْرُ صَالِحٍ فَلاَ تَسْأَلْنِ مَا لَیْْسَ لَکَ بِہِ عِلْمٌ إِنِّیْ أَعِظُکَ أَن تَکُونَ مِنَ الْجَاہِلِیْنَ (ہود ۱۱:۴۶)

’’اللہ نے فرمایا کہ اے نوح، وہ تمہارے اہل میں سے نہیں تھا۔ اس کے عمل نیک نہیں تھے۔ سو تو مجھ سے اس چیز کا سوال نہ کر جس کا تجھے علم نہیں۔ میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جاہلوں میں سے نہ ہو جا۔‘‘

سیدنا لوط کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی قوم پرخدا کا عذاب آنے سے پہلے اپنے اہل خانہ کو لے کر رات کے اندھیرے میں اپنی بستی سے نکل جائیں تو ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ اپنی بیوی کا ساتھ لے کر نہ جائیں، کیونکہ ایمان نہ لانے کی وجہ سے وہ بھی خدا کے عذاب کی مستحق ہے اور اسی انجام کا شکار ہوگی جو ان کی قوم کے لیے مقدر کیا جا چکا ہے:

فَأَسْرِ بِأَہْلِکَ بِقِطْعٍ مِّنَ اللَّیْْلِ وَلاَ یَلْتَفِتْ مِنکُمْ أَحَدٌ إِلاَّ امْرَأَتَکَ إِنَّہُ مُصِیْبُہَا مَا أَصَابَہُمْ (ہود ۱۱:۸۱)

’’اپنے گھر والوں کو لے کر رات کے کسی پہر میں روانہ ہو جا اور تم میں سے کوئی پلٹ کر پیچھے نہ دیکھے۔ ہاں، اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے جانا۔ بے شک اس پر بھی وہی عذاب آئے گا جو پوری قوم پر آنے والا ہے۔‘‘

قرآن مجید کے نزدیک ان قوموں کا اصل جرم خدا کی آیات پر غور نہ کرنا اور خداکی دی ہوئی علم وعقل کی صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنا ہے۔ قرآن نے یہ بات غیر مبہم انداز میں واضح کی ہے کہ انبیا کی یہ قومیں جس جرم کی وجہ سے اصلاً عذاب کی مستحق قرار پائیں، وہ یہ تھا کہ انھوں نے انبیا ورسل کی دعوت اور ان کے پیش کردہ دلائل وبینات پر غور نہیں کیا اور نتیجتاً ان پر ایمان لانے کے بجائے ان کی تکذیب پر مصر رہے: 

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْہُم مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَمِنْہُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْْہِ الضَّلالَۃُ فَسِیْرُواْ فِیْ الأَرْضِ فَانظُرُواْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ (النحل ۱۶:۳۶)

’’اور یقیناًہم نے ہر قوم میں ایک رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔ سو ان میں سے کچھ تو ایسے تھے جنھیں اللہ نے ہدایت دی اور کچھ وہ تھے جن پر گمراہی مسلط ہو گئی۔ تو تم زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟‘‘

کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو الْأَوْتَادِ، وَثَمُودُ وَقَوْمُ لُوطٍ وَأَصْحَابُ الأَیْْکَۃِ أُوْلَئِکَ الْأَحْزَابُ، إِن کُلٌّ إِلَّا کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ (ص ۳۸:۱۲ -۱۴)

’’ان سے پہلے قوم نوح اور قوم عاد اور میخوں والے فرعون اور قوم ثمود اور قوم لوط اور جنگل والوں نے بھی (پیغمبروں کو) جھٹلایا۔ یہی ہیں (منکروں) کے گروہ۔ ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا جس پر میرا عذاب ان پر مسلط ہو گیا۔‘‘

سیدنا نوح نے اپنی قوم کے بارے میں فرمایا:

رَبِّ إِنَّ قَوْمِیْ کَذَّبُونِ ۔ فَافْتَحْ بَیْْنِیْ وَبَیْْنَہُمْ فَتْحاً وَنَجِّنِیْ وَمَن مَّعِیْ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ (الشعراء ۲۶:۱۷۷، ۱۱۸)

’’اے میرے رب، بے شک میری قوم نے مجھے جھٹلا دیا ہے۔ سو تو میرے اور ان کے درمیان واضح فیصلہ فرما دے اور مجھے اور میرے ساتھ جو اہل ایمان ہیں، انھیں (اپنے عذاب سے) بچا لے۔‘‘

فرعون اور آل فرعون کے بارے میں ارشاد ہوا ہے:

فَلَمَّا جَاء تْہُمْ آیَاتُنَا مُبْصِرَۃً قَالُوا ہَذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ۔ وَجَحَدُوا بِہَا وَاسْتَیْْقَنَتْہَا أَنفُسُہُمْ ظُلْماً وَعُلُوّاً فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ (النمل ۲۷:۱۳، ۱۴)

’’پھر جب ان کے پاس ہماری روشن نشانیاں آئیں تو انھوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ انھوں نے ظلم اور سرکشی سے کام لیتے ہوئے ان نشانیوں کو جھٹلا دیا حالانکہ ان کے دل ان کا یقین کر چکے تھے۔ سو دیکھو کہ مفسدین کا انجام کیسا ہوا۔‘‘

یہی بات ’فَکَذَّبُوہُ فَأَہْلَکْنَاہُمْ‘ اور ’فَکَذَّبُوہُ فَأَخَذَہُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّۃِ‘ کے الفاظ میں قوم عاد اور قوم شعیب کے بارے میں بیان ہوئی ہے۔ (الشعراء ۲۶:۱۳۹، ۱۸۹) 

قرآن مجید نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ پیغمبر کی قوم کو مختلف جسمانی اور معاشی تکالیف میں مبتلا کرتے ہیں تاکہ وہ متنبہ ہو کر اللہ کی طرف رجوع کریں، لیکن جب وہ کوئی سبق نہیں سیکھتے تو ان پر مال ودولت اور سامان عیش کی فراوانی کر دی جاتی ہے، یہاں تک کہ وہ غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر اچانک خدا کا عذاب ان پر آن پڑتا ہے:

وَلَقَدْ أَرْسَلنَا إِلَی أُمَمٍ مِّن قَبْلِکَ فَأَخَذْنَاہُمْ بِالْبَأْسَاء وَالضَّرَّاء لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُونَ فَلَوْلا إِذْ جَاء ہُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُواْ وَلَکِن قَسَتْ قُلُوبُہُمْ وَزَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْْطَانُ مَا کَانُواْ یَعْمَلُونَ فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْءٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہُم بَغْتَۃً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُونَ فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (الانعام ۶:۴۲ -۴۵)

’’اور یقیناً ہم نے تم سے پہلے بہت سی امتوں کی طرف رسول بھیجے تو انھیں جسمانی اور مالی تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی اختیار کریں۔ تو کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ عاجزی کرتے۔ مگر ان کے دل سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے سامنے خوب صورت بنا دیا۔ پھر جب انھوں نے یاد دہانی کی ان باتوں کو فراموش کر دیا جو انھیں کی گئی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے۔ یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر جو ان کو دی گئیں، خوش ہو گئے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا اور پھر ناگہاں وہ مایوس ہو کر رہ گئے۔ پھر ان لوگوں کی جنھوں نے ظلم کیا، جڑکاٹ دی گئی اور تعریف کا سزاوار اللہ،جہانوں کا پروردگار ہی ہے۔‘‘

قرآن کی رو سے عذاب الٰہی کے یہ واقعات عبرت کی غرض سے رونما کیے جاتے ہیں تاکہ دنیا کے باقی لوگ ان سے سبق سیکھیں اور الٰہی ہدایت کے انکار اور اس کو جھٹلانے سے باز رہیں، چنانچہ ان قوموں پر دنیا میں آنے والے عذاب کو وہ آخرت کے عذاب کی ایک نشانی اور یاد دہانی قرار دیتا ہے جس سے واضح ہے کہ دنیا کے عذاب کا باعث اور علت بھی وہی ہے جس کی بنیاد پر آخرت میں اہل کفر عذاب الٰہی کے سزاوار قرار پائیں گے:

وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیْمٌ شَدِیْدٌ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لآیَۃً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الآخِرَۃِ ذَلِکَ یَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّہُ النَّاسُ وَذَلِکَ یَوْمٌ مَّشْہُودٌ (ہود ۱۱:۱۰۲، ۱۰۳)

’’اور تیرے رب کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے جب وہ بستیوں کو اس وقت پکڑتا ہے جب وہ ظلم کرتی ہیں۔ بے شک اس کی گرفت بہت دردناک اور سخت ہے۔ اس میں نشانی ہے ان کے لیے جو آخرت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ یہ وہ دن ہے جب میں سب لوگوں کو جمع کیا جائے گااور یہ وہ دن ہے جب سب (خدا کے سامنے) حاضر ہوں گے۔‘‘

منکرین حق کے مواخذہ کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کی مذکورہ تفصیلات پیش نظر رہیں تو وہ الجھن بالکل رفع ہو جاتی ہے جس کا سامنا زیر بحث زاویہ نگاہ کو ہے، یعنی یہ کہ جب دین کے معاملے میں جبر واکراہ درست نہیں تو پھر کفار کے خلاف قتال کا باعث ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے کو کیونکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم نے قرآن مجید میں ان آیات کے سیاق وسباق کی روشنی میں واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں اپنے لیے مقرر کردہ کسی قانون یا اپنے اوپر عائد کردہ کسی پابندی کا ذکر نہیں کیا جس سے یہ اخذ کیا جا سکے کہ وہ رسولوں کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد ایمان نہ لانے والوں کو بھی اس دنیا میں کسی سزا کا مستوجب نہیں ٹھہرائے گا، بلکہ محض اس معیار کو بیان کیا ہے جو اس کے نزدیک تکوینی سطح پر ہدایت اور ایمان کی توفیق بخشنے کے لیے شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ مزید یہ کہ قرآن میں اہل حق کی ذمہ داری کو ’بلاغ مبین‘ تک محدود قرار دینے کی جو بات بیان ہوئی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ازخود اپنے اجتہاد سے کسی فرد یا گروہ کو سزا کا مستحق قرار دے کر اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے۔ کسی فرد یا قوم پر حجت کے تمام ہو جانے اور پھر اس کے بعد اس کو عذاب کا مستحق قرار دینے کا معاملہ سرتا سر خدا کے علم اور اس کے ارادے پر منحصر ہے اور کسی انسان، حتیٰ کہ کسی قوم کی طرف مبعوث کیے جانے والے پیغمبر کو بھی اس کا اختیار حاصل نہیں۔ پیغمبر سمیت ہر داعی حق کی ذمہ داری بس یہ ہے کہ وہ حق کا پیغام بے کم وکاست لوگوں تک پہنچا دے، الا یہ کہ خود اللہ تعالیٰ پیغمبر یا اس کے ساتھیوں کو کسی فرد یا گروہ کے خلاف اقدام کرنے کا حکم یا اجازت دے دیں۔ عذاب کے سزاوار قرار پانے والے گروہوں کی تحدید وتعیین سے لے کر ان کو دی جانے والی مہلت کے خاتمے اور ان پر سزا کے نفاذ تک کے تمام فیصلے براہ راست بارگاہ الٰہی سے صادر ہوتے ہیں جبکہ اہل ایمان اس حکم پر محض فرمان الٰہی کی تعمیل میں عمل پیرا ہوتے اور اللہ کے فیصلے کو اسی کے حکم سے اسی فرد یا گروہ پر نافذ کرنے کے پابند ہوتے ہیں جس پر نافذ کرنے کا انھیں اختیار دیا گیا ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ ایک خدائی فیصلہ ہوتا ہے جس کی تنفیذ کے لیے انسانی ہاتھ وہی کردار ادا کرتے ہیں جو تدبیر امور کے وسیع تر دائرے میں خدا کے فرشتے خدا کے فیصلوں کی تنفیذ کے لیے ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کر کے ’لیس لک من الامر شئ او یتوب علیہم او یعذبہم‘ (آل عمران ۳:۱۲۸) اور ’انما علیک البلغ وعلینا الحساب‘ (الرعد ۱۳:۴۰) کے الفاظ میں اصولی طور پر بھی اس بات کو واضح فرمایا ہے اور منکرین حق کے خلاف قتال کے احکام کے ضمن میں بھی جگہ جگہ اس کی وضاحت کی ہے کہ یہ جنگ دراصل خدا کا عذاب ہے جسے ان پر نازل کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے سپرد کی ہے۔ یہ تصریحات حسب ذیل ہیں:

مکہ مکرمہ میں تیرہ سال تک دعوت وتبلیغ کے بعد بھی قریش من حیث القوم آپ پر ایمان نہ لائے تو اتمام حجت کے بعد ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ فرما دیا گیا۔ تاہم بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے تحت ان کو کلیتاً نابود کر دینے کے بجائے ایک تدریج کے ساتھ ان کے ضدی اور معاند عناصر کا صفایا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ اس ضمن میں مکی دور میں ہی مشرکین کو عذاب الٰہی کی ممکنہ صورتوں میں سے ایک صورت یہ بتا دی گئی کہ اہل حق کی قوت بازو منکرین کو ان کے کفر کا مزہ چکھا دے:

قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلَی أَن یَبْعَثَ عَلَیْْکُمْ عَذَاباً مِّن فَوْقِکُمْ أَوْ مِن تَحْتِ أَرْجُلِکُمْ أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعاً وَیُذِیْقَ بَعْضَکُم بَأْسَ بَعْضٍ انظُرْ کَیْْفَ نُصَرِّفُ الآیَاتِ لَعَلَّہُمْ یَفْقَہُونَ ۔ وَکَذَّبَ بِہِ قَوْمُکَ وَہُوَ الْحَقُّ قُل لَّسْتُ عَلَیْْکُم بِوَکِیْلٍ ۔ لِّکُلِّ نَبَإٍ مُّسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ (الانعام ۶:۶۵۔۶۷)

’’کہہ دو کہ وہ اس پر قادر ہے کہ چاہے تو تم پر تمہارے اوپر سے یا نیچے سے تم پر کوئی عذاب مسلط کر دے یا تمہارے مختلف گروہ بنا کر تمھیں آپس میں بھڑا دے اور ایک دوسرے کی پکڑ کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم کس کس انداز سے نشانیوں کو بیان کرتے ہیں تاکہ یہ سمجھ جائیں۔ اور تیری قوم نے اس عذاب کو جھٹلا دیا حالانکہ اس کا آنا لازم ہے۔ تم کہہ دو کہ میں اس کو منوانے کے لیے تم پر مسلط نہیں کیا گیا۔ ہر عذاب کے آنے کا وقت بالکل مقرر ہے اور عنقریب تم جان لو گے۔‘‘

یہ عذاب ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کے بعد مسلمانوں کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نازل ہونا شروع ہوا۔ 

ہجرت مدینہ کے بعد اہل کفر کے خلاف لڑائی کے باقاعدہ آغاز سے پہلے سورۂ محمد میں مسلمانوں سے کہا گیا کہ جب میدان جنگ میں ان کا دشمن سے آمنا سامنا ہو تو وہ اچھی طرح ان کی گردنیں ماریں اور پھر خوب خون ریزی کے بعد ان کو باندھ کر قیدی بنا لیں۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ یہ دراصل اللہ تعالیٰ کا انتقام ہوگا جو وہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے کفار سے لے گا:

فَإِذا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّی إِذَا أَثْخَنتُمُوہُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنّاً بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّی تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَہَا ذَلِکَ وَلَوْ یَشَاءُ اللَّہُ لَانتَصَرَ مِنْہُمْ وَلَکِن لِّیَبْلُوَ بَعْضَکُم بِبَعْضٍ وَالَّذِیْنَ قُتِلُوا فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ فَلَن یُضِلَّ أَعْمَالَہُمْ (محمد ۴۷:۴)

’’پھر جب کفار کے ساتھ تمھاری مڈبھیڑ ہو تو خوب ان کی گردنیں مارو۔ یہاں تک کہ جب اچھی طرح ان کی خون ریزی کر چکو تو انھیں مضبوط باندھ لو۔ پھر اس کے بعد یا تو احسان کر کے چھوڑ دینا ہے یا فدیہ لے کر رہا کر دینا۔ (ان کے ساتھ لڑائی جاری رکھو) یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار ڈال دے۔ اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے انتقام لے لیتا، لیکن (اس نے تمھیں اس کا حکم دیا ہے) تاکہ وہ تم میں سے بعض کو بعض کے ذریعے آزمائے۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں گے، اللہ ان کے اعمال کو ہرگز اکارت نہیں جانے دے گا۔‘‘

مشرکین قریش پر یہ عذاب بالفعل غزوۂ بدر میں نازل ہوا۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ عذاب کے اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تکوینی لحاظ سے مداخلت کرتے ہوئے ان تمام اسباب کو ختم کر دیا جو اس معرکے کے بپا ہونے میں رکاوٹ بن سکتے تھے۔ مثال کے طور پر ایسے حالات پیدا کر دیے گئے کہ بعض اہل ایمان کی خواہش کے برعکس، شام سے لوٹنے والے قریش کے تجارتی قافلے کے بجائے مکے سے آنے والے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کا ٹکراؤ ناگزیر ہو گیا:

وَإِذْ یَعِدُکُمُ اللّہُ إِحْدَی الطَّاءِفَتِیْْنِ أَنَّہَا لَکُمْ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَیْْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُونُ لَکُمْ وَیُرِیْدُ اللّہُ أَن یُحِقَّ الحَقَّ بِکَلِمَاتِہِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِیْنَ ۔لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُونَ (الانفال ۸:۷، ۸)

’’اور جب اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک سے تمھارا واسطہ پڑے گا، اور تم یہ پسند کرتے تھے کہ کیل کانٹے کے بغیر آنے والا قافلہ تمھیں ملے، لیکن اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ وہ اپنے کلمات کے ذریعے سے حق کو سربلند کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ کر رکھ دے۔‘‘

إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَہُم بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوَی وَالرَّکْبُ أَسْفَلَ مِنکُمْ وَلَوْ تَوَاعَدتَّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِیْ الْمِیْعَادِ وَلَکِن لِّیَقْضِیَ اللّہُ أَمْراً کَانَ مَفْعُولاً (الانفال ۸:۴۲)

’’اور اگر تم باہم طے کر کے لڑائی کے لیے نکلتے تو مقررہ وقت یا جگہ پر اکٹھے نہ پہنچتے، لیکن اللہ نے یہ اس لیے کیا کہ ایک طے شدہ فیصلے کو نافذ کر دے۔‘‘

اسی طرح دونوں گروہوں کو میدان جنگ میں اترنے پر آمادہ کرنے کے لیے دونوں کی تعداد کو بھی ایک دوسرے کی نگاہ میں کم کر کے دکھایا گیا:

إِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلاً وَلَوْ أَرَاکَہُمْ کَثِیْراً لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِیْ الأَمْرِ وَلَکِنَّ اللّہَ سَلَّمَ إِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ۔ وَإِذْ یُرِیْکُمُوہُمْ إِذِ الْتَقَیْْتُمْ فِیْ أَعْیُنِکُمْ قَلِیْلاً وَیُقَلِّلُکُمْ فِیْ أَعْیُنِہِمْ لِیَقْضِیَ اللّہُ أَمْراً کَانَ مَفْعُولاً وَإِلَی اللّہِ تُرْجَعُ الأمُورُ (الانفال ۸:۴۳، ۴۴)

’’جب اللہ نے خواب میں تمھیں ان کی تعداد تھوڑی دکھائی۔ اگر وہ تمھیں ان کی تعداد زیادہ دکھاتا تو تمھاری ہمت پست ہو جاتی اور تم اس معاملے میں باہم نزاع کرنے لگ جاتے، لیکن اللہ نے (تمھیں اس آزمائش سے) بچا لیا۔ بے شک وہ دلوں کیفیت کو خوب جانتا ہے۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو کہ تمہارا آمنا سامنا ہوا تو اللہ انھیں تمہاری نگاہوں میں تھوڑا کر کے اور ان کی نظروں میں تمھاری تعداد کو کم کر کے دکھا رہا تھا تاکہ اللہ اس فیصلے کو رو بہ عمل کر دے جس کو بہرحال ہونا ہی تھا۔‘‘

بدر کے معرکے میں قریش کے بڑے بڑے سردار مسلمانوں کے ہاتھوں تہ تیغ ہوئے۔ اگرچہ عام انسانی اخلاقیات کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کے پاس اس جنگ کا پورا پورا جواز موجود تھا، لیکن قرآن مجید نہایت اصرار کے ساتھ اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ یہ درحقیقت اللہ کا عذاب تھا جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے نتیجے میں اہل ایمان کے ہاتھوں قریش پر نازل کیا گیا:

ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ شَآقُّواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَمَن یُشَاقِقِ اللّہَ وَرَسُولَہُ فَإِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ۔ ذَلِکُمْ فَذُوقُوہُ وَأَنَّ لِلْکَافِرِیْنَ عَذَابَ النَّارِ (الانفال ۸:۱۳، ۱۴)

’’اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کی راہ اختیار کی اور جو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ دشمنی کرے گا تو بے شک اللہ نہایت سخت سزا دینے والا ہے، سو اب اس عذاب کو چکھو۔ اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بے شک منکروں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔‘‘

قرآن نے اسی پہلو سے غزوۂ بدر میں مشرکین کی ذلت اور رسوائی کو فرعون اور دوسرے منکرین حق پر نازل ہونے والے عذاب کے مثل قرار دیا ہے:

کَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ کَفَرُواْ بِآیَاتِ اللّہِ فَأَخَذَہُمُ اللّہُ بِذُنُوبِہِمْ إِنَّ اللّہَ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (الانفال ۸:۵۲)

’’ان کا حال بھی وہی ہے جو آل فرعون اور ان سے پہلی قوموں کا تھا۔ انھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تو اللہ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان پر گرفت کی، اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔‘‘

اس واقعے کے بعد اس حوالے سے قریش کو بالواسطہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

وَإِذْ قَالُوا اللَّہُمَّ إِن کَانَ ہَذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِندِکَ فَأَمْطِرْ عَلَیْْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ اءْتِنَا بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ ۔ وَمَا کَانَ اللّہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنتَ فِیْہِمْ وَمَا کَانَ اللّہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ ۔ وَمَا لَہُمْ أَلاَّ یُعَذِّبَہُمُ اللّہُ وَہُمْ یَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا کَانُواْ أَوْلِیَاء ہُ إِنْ أَوْلِیَآؤُہُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ وَلَکِنَّ أَکْثَرَہُمْ لاَ یَعْلَمُونَ (الانفال ۸:۳۲۔۳۴)

’’اور یاد کرو جب انھوں نے کہا کہ اے اللہ، اگر یہی دین تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور دردناک عذاب ہم پر مسلط کر دے۔ (اس سے پہلے تو) اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ تم ان کے مابین موجود تھے اور نہ اللہ انھیں اس حال ہی میں سزا دے سکتا تھا کہ وہ گناہوں کی معافی مانگ رہے ہوں۔ (لیکن اب ہجرت کے بعد) اس میں کیا رکاوٹ تھی کہ اللہ ان پر عذاب نازل کرتا، جبکہ وہ مسجد حرام سے بھی روکتے ہیں حالانکہ وہ اس کی تولیت کے حقدار بھی نہیں۔ اس کے حقیقی متولی تو صرف پرہیز گار ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

قرآن مجید نے غزوۂ بدر کے تناظر میں یہ بات بھی واضح فرمائی ہے کہ چونکہ اس بات کا علم اللہ ہی کو ہے کہ منکرین میں سے کن کی صلاحیت ایمان بالکل سلب ہو چکی ہے اور کن کے حق میں ابھی ایمان لانے کا امکان موجود ہے، اس لیے قریش کے لشکر میں سے کچھ لوگ تو تہ تیغ کر دیے گئے لیکن باقی کو بچ کر واپس جانے کا موقع دیا گیا ہے:

لِیَقْطَعَ طَرَفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَوْ یَکْبِتَہُمْ فَیَنقَلِبُواْ خَآءِبِیْنَ ۔ لَیْْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْْءٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْْہِمْ أَوْ یُعَذَّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ (آل عمران ۳:۱۲۸)

’’تاکہ اللہ کافروں کی جماعت کے ایک حصے کو کاٹ ڈالے یا ان کو بری طرح رسوا کر دے تاکہ وہ نامراد واپس پلٹ جائیں۔ (اے پیغمبر) اس معاملے میں تمھارے پاس کوئی اختیار نہیں۔ اللہ خود ہی یا ان پر نظر عنایت کرے گا اور یا انھیں عذاب دے گا، کیونکہ یہ ظالم ہیں۔‘‘

جہاد وقتال کے آخری مرحلے میں جب سورۂ توبہ میں مشرکین کو ایمان نہ لانے پر قتل کرنے کا حکم دیا گیا تو اس موقع پر بھی اس اقدام کی یہ حیثیت واضح کی گئی۔ ارشاد ہوا ہے:

فَإِن تُبْتُمْ فَہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَإِن تَوَلَّیْْتُمْ فَاعْلَمُواْ أَنَّکُمْ غَیْْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ (التوبہ ۹:۳)

’’پھر اگر تم ایمان لے آؤ تو یہی تمہارے لیے بہتر ہے، اور اگر اس سے گریز کرو گے تو جان لو کہ اللہ کی گرفت سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے اور ان کافروں کے ایک دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔‘‘

فرمایا:

قَاتِلُوہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللّٰہُ بِأَیْْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنصُرْکُمْ عَلَیْْہِمْ وَیَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ، وَیُذْہِبْ غَیْْظَ قُلُوبِہِمْ وَیَتُوبُ اللّٰہُ عَلَی مَن یَشَاءُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ (التوبہ ۹:۱۴، ۱۵)

’’ان سے لڑو تاکہ اللہ تمھارے ہاتھوں انھیں عذاب دے اور انھیں رسوا کرے اور ان کے خلاف تمھیں فتح عطا فرمائے اور مومنوں کے دلوں کو تسکین بخشے اور ان (کافروں) کے دلوں کے غیظ کو بھی دور کر دے۔ ہاں اللہ جس پرچاہے گا، عنایت فرمائے گا اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔‘‘

اکابر مفسرین نے بھی مشرکین عرب کے ساتھ کیے جانے والے جہاد وقتال کی تفسیر اسی مخصوص تناظر میں کی ہے۔ ابن زید فرماتے ہیں:

(فمہل الکافرین امہلہم رویدا) قال مہلہم فلا تعجل علیہم ترکہم حتی لما اراد الانتصار منہم امرہ بجہادہم وقتالہم والغلظۃ علیہم (تفسیر الطبری، ۳۰/۱۵۰)

’’فمہل الکافرین امہلہم رویدا کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مہلت دو اور ان کے خلاف جلدی نہ کرو۔ اللہ نے ان کو چھوڑے رکھا، یہاں تک کہ جب ان سے انتقام لینا چاہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے ساتھ جہاد کرنے اور سخت رویہ اپنانے کا حکم دیا۔‘‘

امام رازی لکھتے ہیں:

فان قیل لما کان حضورہ فیہم مانعا من نزول العذاب علیہم فکیف قال قاتلوہم یعذبہم اللہ بایدیکم قلنا المراد من الاول عذاب الاستیصال ومن الثانی العذاب الحاصل بالمحاربۃ والمقاتلۃ (مفاتیح الغیب، ۱۵/۱۵۸)

’’اگر یہ سوال کیا جائے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی قوم کے اندر موجود ہونا ان پر عذاب کے نازل ہونے میں رکاوٹ تھا تو پھر یہ کیوں کہا گیا کہ تم ان سے لڑو تاکہ اللہ تمھارے ہاتھوں سے ان پر عذاب نازل کرے؟ تو ہم اس کے جواب میں کہیں گے کہ جس عذاب کی نفی کی گئی ہے، وہ قریش کو بالکلیہ نابود کر دینے کا عذاب ہے، جبکہ جس عذاب کا حکم دیا گیا ہے، اس سے مراد جنگ اور قتال کے ذریعے سے حاصل ہونے والا عذاب ہے۔‘‘

انہ تعالی لما بین ما انزلہ باہل بدر من الکفار عاجلا وآجلا کما شرحناہ اتبعہ بان بین ان ہذہ طریقتہ وسنتہ فی الکل فقال کداب آل فرعون والمعنی عادۃ ہولاء فی کفرہم کعادۃ آل فرعون فی کفرہم فجوزی ہولاء بالقتل والسبی کما جوزی اولئک بالاغراق (۱۵/۱۸۰)

’’اللہ تعالیٰ جب اس عذاب کی وضاحت کر چکے جو انھوں نے اہل بدر پر فی الفور یا بالمآل نازل کیا تو اس کے بعد اب فرمایا کہ (حق کے منکر) ہر گروہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا کہ ’کداب آل فرعون‘ جس کا معنی یہ ہے کہ انھوں نے بھی کفر میں وہی طریقہ اختیار کیا جو آل فرعون نے کیا تھا، اس لیے جیسے ان کو غرق کر دینے کی سزا دی گئی تھی، ان کو بھی قتل اور قید کی صورت میں سزا دی گئی ہے۔‘‘

مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں:

’’قرآن کریم میں اقوام ماضیہ کے جو قصے بیان فرمائے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی قوم کفر وشرارت اور انبیاء علیہم السلام کی تکذیب وعداوت میں حد سے بڑھ جاتی تھی تو قدرت کی طرف سے کوئی تباہ کن آسمانی عذاب ان پر نازل کیا جاتا تھا جس سے ان کے سارے مظالم اور کفریات کا دفعۃً خاتمہ ہو جاتا تھا۔ فکلا اخذنا بذنبہ فمنہم من ارسلنا علیہ حاصبا ومنہم من اخذتہ الصیحۃ ومنہم من خسفنا بہ الارض ومنہم من اغرقنا وما کان اللہ لیظلمہم ولکن کانوا انفسہم یظلمون (عنکبوت رکوع ۴) کوئی شبہ نہیں کہ عذاب کی یہ اقسام بہت سخت مہلک اور آیندہ نسلوں کے لیے عبرت ناک تھیں لیکن ان صورتوں میں معذبین کو دنیا میں رہ کر اپنی ذلت ورسوائی کا نظارہ نہیں کرنا پڑتا تھا اور نہ آیندہ کے لیے توبہ ورجوع کا کوئی امکان باقی رہتا تھا۔ مشروعیت جہاد کی اصلی غرض وغایت یہ ہے کہ مکذبین ومتعنتین کو حق تعالیٰ بجائے بلاواسطہ عذاب دینے کے اپنے مخلص وفادار بندوں کے ہاتھ سے سزا دلوائے۔ سزا دہی کی اس صورت میں مجرمین کی رسوائی اور مخلصین کی قدر افزائی زیادہ ہے۔ وفادار بندوں کا نصرت وغلبہ علانیہ ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے دل یہ دیکھ کر ٹھنڈے ہوتے ہیں کہ جو لوگ کل تک انہیں حقیر وناتواں سمجھ کر ظلم وستم اور استہزا وتمسخر کا تختہ مشق بنائے ہوئے تھے، آج خدا کی تائید ورحمت سے انہی کے رحم وکرم یا عدل وانصاف پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔ کفر وباطل کی شوکت ونمائش کو دیکھ کر جو اہل حق گھٹتے رہتے تھے یا جو ضعیف ومظلوم مسلمان کفا ر کے مظالم کا انتقام نہ لے سکنے کی وجہ سے دل ہی دل میں غیظ کھا کر چپ ہو رہتے تھے، جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ سے ان کے قلوب تسکین پاتے تھے اور آخری بات یہ ہے کہ خود مجرمین کے حق میں بھی سزا دہی کا یہ طریقہ نسبۃً زیادہ نافع ہے کیونکہ سزا پانے کے بعد بھی رجوع وتوبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ حالات سے عبرت حاصل کر کے بہت سے مجرموں کو توبہ نصیب ہو جائے، چنانچہ حضور پرنور صلعم کے زمانہ میں ایسا ہی ہوا کہ تھوڑے دنوں میں سارا عرب صدق دل سے دین الٰہی کا حلقہ بگوش ہو گیا۔‘‘ (تفسیر عثمانی، ص ۲۵۰، ۲۵۱)

دوسری جگہ فرماتے ہیں:

’’نزول توراۃ کے بعد دنیا میں ایسے غارت کے عذاب کم آئے۔ بجائے اہلاک سماوی کے جہاد کا طریقہ مشروع کر دیا گیا، کیونکہ کچھ لوگ احکام شریعت پر قائم رہا کیے۔‘‘ (تفسیر عثمانی، ص ۵۱۹)

مولانا وحید الدین خان لکھتے ہیں:

’’درحقیقت یہ اشاعت اسلام کی جدوجہد نہیں بلکہ منکرین رسالت کے اوپر اس خدائی فیصلہ کا ظہور تھا جس کو قرآن میں امر اللہ، حکم اللہ ، وعد اللہ وغیرہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور جو ’’احقاق حق‘‘ اور ’’ابطال باطل‘‘ کے لیے ہوتا ہے۔ یہ اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے اسلام کے اصولوں کو منوانے کی کوشش نہیں تھی، بلکہ حقیقۃً اسلام کے اصولوں کو نہ ماننے کی سزا تھی جو زمین وآسمان کے مالک کی طرف سے ایک مخصوص شکل میں ان کے اوپر نافذ کی گئی تھی۔ یہ سزا ہر اس انسان کو لازماً ملنے والی ہے جو خدا کی ہدایت کو ماننے سے انکار کر دے۔ فرق صرف یہ ہے عام انسانوں کو قیامت میں ملے گی اور رسول کے براہ راست مخاطبین کو دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔ (ولنذیقنہم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر (سجدہ ۲۱)

یہ صحیح ہے کہ اس فیصلہ الٰہی کے نفاذ سے من جملہ اور فائدوں کے، اسلام کو تبلیغی اور توسیعی فائدے بھی حاصل ہوئے، مگر یہ اس کے دیگر نتائج تھے، جس طرح ہر واقعہ کے بہت سے دیگر نتائج واثرات ہوتے ہیں۔ جہاں تک حکم کی اصولی نوعیت کا تعلق ہے، وہ وہی تھی جو اوپر مذکور ہوئی۔‘‘ (تعبیر کی غلطی، ص ۱۱۵، ۱۱۶)

قرآن مجید نے اسی پہلو سے انسانی دائرۂ اختیار کی تحدید عہد رسالت کے منافقین کے حوالے سے بھی واضح کی ہے۔ منافقین بھی منکرین حق کا ایک گروہ تھا جو بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے گروہ میں شامل ہو کردرحقیقت ان کے خلاف سازشوں اور ریشہ دوانیوں میں مصروف تھا۔ بظاہر ایمان لے آنے کی وجہ سے انھیں دوسرے گروہوں کے مقابلے میں زیادہ مہلت دی گئی، تاہم اصولی طور پر وہ بھی خدا کے عذاب کے مستحق تھے اور قرآن مجید میں بار بار یہ دھمکی دی گئی کہ اگر وہ اپنی روش سے باز نہ آئے تو خدا کے قانون کے مطابق وہ بھی اہل ایمان کے ہاتھوں خدا کے عذاب کی گرفت میں آ جائیں گے:

لَءِن لَّمْ یَنتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیْہَا إِلَّا قَلِیْلاً ۔ مَلْعُونِیْنَ أَیْْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیْلاً ۔ سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً (الاحزاب ۳۳:۶۲)

’’اگر یہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینے میں فتنہ انگیزی کرنے والے گروہ باز نہ آئے تو ہم تمھیں ان کے خلاف بھڑکا دیں گے، پھر ان کے لیے مدینے میں تمھارے ساتھ رہنے کا موقع کم ہی ہوگا۔ یہ ملعون قرار دیے جائیں گے اور جہاں ملیں گے، ان کو پکڑا جائے گا اور بدترین طریقے سے قتل کر دیا جائے گا۔‘‘

لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں سزا دینے کی کوئی صریح اجازت نازل نہیں ہوئی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تک بطور ایک گروہ کے متحرک ہونے کے باوجود ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اہل ایمان قرآن کے الفاظ میں ’وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِکُمْ أَن یُصِیْبَکُمُ اللّہُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِہِ أَوْ بِأَیْْدِیْنَا‘ (توبہ ۹:۵۲) کی کیفیت میں اس کے منتظر رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کب اس کی اجازت ملتی ہے۔ چنانچہ آپ کی وفات کے موقع پر سیدنا عمر کو اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں اسی لیے تردد پیش آیا تھا کہ منافقین کے اس گروہ پر عملاً یہ سزا ابھی تک نافذنہیں ہوئی تھی اور چونکہ اس کا فیصلہ وحی ہی کی بنیاد پر کیا جا سکتا تھا، اس لیے ان کے خیال میں منافقین کو ان کے انجام سے دوچار کیے بغیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف نہیں لے جا سکتے تھے۔ انھوں نے اس موقع پر کہا:

واللہ ما مات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا یموت حتی یقطع ایدی اناس من المنافقین کثیر وارجلہم (دارمی، رقم ۱۶۱۶)

’’بخدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال نہیں ہوا اور جب تک آپ منافقین میں سے بہت کے ہاتھ پاؤں نہ کاٹ لیں، آپ کا انتقال نہیں ہو سکتا۔‘‘

اس موقع پر سیدنا عمر اور عمومی طور پر صحابہ کی جماعت کو یہی اشکال اپنی اس ذمہ داری کے حوالے سے بھی پیش آیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں ’شہادت علی الناس‘ کے منصب پر فائز کر کے جزیرۂ عرب سے باہر کی اقوام پر اتمام حجت کرنے کے ضمن میں ان پر عائد کی تھی۔ طبری کی روایت ہے:

لما بویع ابوبکر فی السقیفۃ وکان الغد جلس ابوبکر علی المنبر فقام عمر فتکلم قبل ابی بکر فحمد اللہ واثنی علیہ بما ہو اہلہ ثم قال ایہا الناس انی قد کنت قلت لکم بالامس مقالۃ ما کانت الا عن رایی وما وجدتہا فی کتاب اللہ ولا کانت عہدا عہدہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکنی قد کنت اری ان رسول اللہ سیدبر امرنا حتی یکون آخرنا (تاریخ الامم والملوک ۳/۲۱۰)

’’جب سقیفہ بنی ساعدہ میں ابوبکر کی بیعت کر لی گئی اور اگلا دن ہوا تو ابوبکر آکر منبر پر بیٹھ گئے۔ ابوبکر کے بات کرنے سے پہلے عمر اٹھے اور انہوں نے گفتگو کی۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد انہوں نے کہا: اے لوگو، کل میں نے تم سے ایک بات کہی تھی جو سراسر میری اپنی رائے تھی۔ نہ میں نے اس کو کتاب اللہ میں پایا اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایسا کوئی وعدہ کیا تھا۔ بس میرا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے امور کی دیکھ بھال کرتے رہیں گے اور ہم سب کے دنیا سے جانے کے بعد ہی آپ کا انتقال ہوگا۔‘‘

ابن حبان کی روایت ہے:

اما بعد فانی قد قلت لکم امس مقالۃ لم تکن کما قلت وانی واللہ ما وجدتہا فی کتاب انزلہ اللہ ولا فی عہد عہدہ الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکنی کنت ارجو ان یعیش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی یدبرنا یقول حتی یکون آخرنا فاختار اللہ جل وعلا لرسولہ الذی عندہ علی الذی عندکم (ابن حبان، رقم ۶۶۲۰۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۹۷۵۶)

’’اما بعد! میں نے کل تم سے ایک بات کہی تھی جو حقیقت میں اس طرح نہیں تھی جیسے میں نے کہی۔ بخدا میں نے وہ نہ تو اللہ کی اتاری ہوئی کتاب میں پائی اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد میں جو آپ نے مجھ سے فرمایا ہو۔ البتہ مجھے یہ توقع تھی کہ نبی صلی للہ علیہ وسلم ہمارے معاملات کی تدبیر کے لیے زندہ رہیں گے، یعنی ہم سب کے بعد دنیا سے رخصت ہوں گے، لیکن اللہ نے اپنے رسول کے لیے تمھارے قرب کے بجائے اپنے قرب کو پسند کیا۔‘‘

بعد میں ایک موقع پر انھوں نے عبد اللہ بن عباس کے سامنے قرآن مجید میں اپنے اس استنباط کا ماخذ بھی بیان کیا۔ ابن عباس بیان کرتے ہیں:

واللہ انی لامشی مع عمر فی خلافتہ وہو عامد الی حاجۃ لہ وفی یدہ الدرۃ وما معہ غیری قال وہو یحدث نفسہ ویضرب وحشی قدمہ بدرتہ قال اذ التفت الی فقال یابن عباس ہل تدری ما حملنی علی مقالتی ہذہ التی قلت حین توفی اللہ رسولہ؟ قال قلت لا ادری یا امیر المومنین انت اعلم قال واللہ ان حملنی علی ذلک الا انی کنت اقرا ہذہ الآیۃ (وکذلک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا) فو اللہ انی کنت لاظن ان رسول اللہ سیبقی فی امتہ حتی یشہد علیہا بآخر اعمالہا فانہ للذی حملنی علی ان قلت ما قلت (تاریخ الامم والملوک، ۳/۲۱۱)

’’بخدا، ایک دن میں سیدنا عمر کی خلافت کے زمانے میں ان کے ساتھ چل رہا تھا اور وہ اپنے کسی کام سے جا رہے تھے اور درہ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور میرے علاوہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کیے جاتے تھے اور اپنا درہ اپنے دائیں پاؤں پر مارتے جاتے تھے۔ اچانک میری طرف پلٹے اور کہنے لگے، اے ابن عباس! کیا تمھیں پتہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر میں نے جو بات کہی، اس کا سبب کیا تھا؟ میں نے کہا، اے امیر المومنین، مجھے پتہ نہیں، آپ بہتر جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا، بخدا! اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں قرآن مجید میں جب یہ آیت پڑھتا تھا کہ ’وکذلک جعلناکم امۃ وسطا لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا‘ تو اس کا مطلب میں یہ سمجھتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے مابین موجود رہیں گے اور اس بات کے گواہ بنیں گے کہ اس امت نے اپنی ذمہ داری کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔ بس یہی چیز تھی جس نے مجھے وہ بات کہنے پر آمادہ کیا جو میں نے اس موقع پر کہی۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر یہ رویہ نہ صرف سیدنا عمر کا تھا بلکہ صحابہ کا عمومی رد عمل بھی یہی تھا۔ ابوسلمہ بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں:

اقتحم الناس علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی بیت عائشۃ ینظرون الیہ فقالوا: کیف یموت وہو شہید علینا ونحن شہداء علی الناس فیموت ولم یظہر علی الناس؟ لا واللہ ما مات ولکنہ رفع کما رفع عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم ولیرجعن وتوعدوا من قال انہ مات ونادوا فی حجرۃ عائشۃ وعلی الباب: لا تدفنوہ فان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یمت (ابن سعد، الطبقات الکبری، ۲/۲۷۱)

’’ام المومنین عائشہ کے حجرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے لیے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ آپ کیسے انتقال کر سکتے ہیں جبکہ آپ ہم پر گواہ ہیں اور ہمیں لوگوں پر گواہ بنایا گیا ہے؟ تو کیا لوگوں پر غلبہ قائم ہونے سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے؟ بخدا نہیں، آپ کا انتقال نہیں ہوا، بلکہ آپ کو اسی طرح کچھ عرصے کے لیے اٹھایا گیا ہے جیسے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو اٹھایا گیا، اور آپ لازماً واپس آئیں گے۔ اور انہوں نے ان لوگوں کو ڈانٹنا شروع کر دیا جو کہہ رہے تھے کہ آپ کا انتقال ہو گیا ہے۔ انہوں نے ام المومنین کے حجرے میں اور دروازے پر یہ اعلان کیا کہ آپ کو دفنانا مت، کیونکہ آپ کا انتقال نہیں ہوا۔‘‘

چونکہ ’شہادت علی الناس‘ کے منصب کی رو سے صحابہ کرام پر دنیا کی اقوام کے سامنے حق کی گواہی دینے اور ان پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے کی ذمہ داری عائد کی گئی تھی اور یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے مطابق ایک مخصوص جغرافیائی دائرے میں ایک محدود مدت کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا، اس لیے صحابہ کا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن قوموں کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر ان پر حجت تمام کر دی اور ’شہادت علی الناس‘ کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ان کے خلاف جنگ کا اقدام کرنے کی اجازت دے دی ہے، اسے خود اپنی زندگی میں اور اپنی نگرانی میں مکمل کرائیں گے، لیکن آپ کی وفات سے یہ بات ان پر واضح ہوئی کہ ان کا یہ استنباط درست نہیں تھا۔ اس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی اہل ایمان کو بھی منکرین حق کے خلاف قتال کا حق انسانی دائرۂ میں اختیار میں نہیں، بلکہ خدا کے دیے ہوئے اذن کے تحت خدا ہی کے نامزد کردہ گروہوں کے خلاف دیا گیا تھا اور منکرین حق کے خلاف اقدام کے حوالے سے انسانی دائرۂ اختیار کی تحدید اور خدا کے اذن کی شرط صحابہ کرام پر پوری طرح واضح تھی۔

اوپر کی سطور میں ہم نے جو بحث کی ہے، اس سے فقہا اور مفسرین کے اس عام نقطہ نظر کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جس کی رو سے منکرین حق کے خلاف قتال کے احکام نازل ہونے کے بعد وہ تمام نصوص جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دینی ذمہ داری کو ابلاغ وتبلیغ تک محدود قرار دیا یا محارب وغیر محارب کفار کے مابین فرق کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، کالعدم اور منسوخ قرار پا گئی ہیں اور اب اہل ایمان کی دینی وشرعی ذمہ داری کی تعیین وتحدید میں ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ ہم نے واضح کیا ہے کہ یہ ہدایات عام انسانی اخلاقیات کے دائرے میں اہل ایمان کی ذمہ داری اور اس کے حدود کا تعین کرتی ہیں اور اس دائرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان اول وآخر اسی کے پابند تھے کہ دین کے معاملے میں کسی فرد یا گروہ تک حق کا پیغام پہنچا دینے کے بعد اس کے ساتھ جبر واکراہ کا طریقہ ہرگز اختیار نہ کریں، نیز اہل ایمان کے دشمن گروہوں اور غیر جانب دار کفار کے مابین فرق کو ملحوظ رکھیں اور اگر کوئی گروہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتا ہے تو اس کے ساتھ بر وقسط ہی کا معاملہ کیا جائے، بلکہ اگر کوئی گروہ میدان جنگ میں آ جانے کے باوجود مسلمانوں کے خلاف قتال پر آمادہ نہیں بلکہ صلح کی طرف مائل ہے تو اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ عمومی انسانی اخلاقیات کے دائرے میں ان ہدایات میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اور یہ پوری طرح محکم اور قیامت تک کے لیے قابل عمل ہیں۔ صحابہ اور تابعین کے ہاں حکم کے اس تغیر کے لیے ’نسخ‘ کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جو لفظ کے لغوی اور ظاہری مفہوم کے لحاظ سے درست ہے، لیکن اس کو متاخرین کے اصطلاحی مفہوم یعنی ’’حکم کے بالکلیہ ازالہ‘‘ کے اعتبار سے نسخ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ’نسخ‘ کا معنی کسی حکم کو اپنی اصل اساس کے اعتبار سے کالعدم قرار دینے یا اس میں تخصیص وتحدید پیدا کر دینا ہے۔ اس اعتبار سے دین میں جبر واکراہ کی نفی کرنے اور کفارکے ساتھ مصالحانہ تعلقات کی اجازت دینے والے نصوص ’نسخ‘ کے دائرے میں آ ہی نہیں سکتے، اس لیے کہ وہ ایک اخلاقی اصول پر مبنی ہیں جن میں نسخ واقع نہیں ہو سکتا۔ یہ درحقیقت ایک مخصوص صورت حال میں ایک اخلاقی اصول پر دوسرے اخلاقی اصول کی ترجیح کا مسئلہ ہے جس سے پہلے اخلاقی اصول کے فی نفسہ کالعدم قرار پانے کا نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے مثال کے طور پر سیدنا خضر نے خدا کے حکم پر ایک بے گناہ بچے کو قتل کر دیا۔ جہاں تک عام انسانی اخلاقیات کا تعلق ہے، وہ اس کا فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں تھے اور سیدنا موسیٰ نے اسی بنا پر ان کے اس عمل پر اعتراض کیا تھا، لیکن خدا کی طرف سے اس لڑکے کو قتل کرنے کا حکم ملنے کے بعد ان کے لیے عام اخلاقی اصول کے بجائے خدا کے حکم کی پیروی کرنا لازم ہو گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے ایک عمومی اخلاقی اصول کے طور پر قتل نفس کی حرمت پر کوئی زد نہیں پڑی۔ یہ حرمت اپنی جگہ پہلے کی طرح برقرار رہی اور سیدنا خضر اس لڑکے کے علاوہ دوسرے انسانوں کے حوالے سے اسی کے پابند تھے۔ بالکل یہی معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد انکار حق پر قائم رہنے والے گروہوں کاتھا۔ عام انسانی اخلاقیات کی رو سے مسلمان ان میں سے صرف ان گروہوں کے خلاف جنگ کا اختیار رکھتے تھے جو فتنہ وفساد کے مرتکب ہوں۔ ان کے علاوہ باقی گروہوں کے خلاف انھیں کوئی اقدام کرنے کا حق حاصل نہیں تھا اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنی مصلحت کے لحاظ سے ان میں سے جس گروہ کے ساتھ مصالحانہ تعلقات قائم کرنا چاہتے، کر سکتے تھے بلکہ ان میں سے جو گروہ ان کے ساتھ بر وقسط کا رویہ اپناتے، ان کے ساتھ بر وقسط ہی کا معاملہ کرنے کے پابند بھی تھے۔ تاہم جب اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے تحت یہ فیصلہ فرمایا کہ پیغمبر کی طرف سے حجت تمام کر دیے جانے کے باوجود جن گروہوں نے کفر پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ خدا کے عذاب کے مستحق ہیں جو خدا نے اہل ایمان کی تلواروں کے ذریعے سے ان پر نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اب اہل ایمان خدا کے اس فیصلے کے تحت، نہ کہ عمومی اخلاقی اصولوں کے فی نفسہ منسوخ ہو جانے کی وجہ سے، اس کے پابند تھے کہ کفارکے ساتھ مصالحانہ تعلقات کوختم کر کے ان کے ساتھ جنگ کریں اور ان میں جس گروہ کے لیے خدا نے قتل یا محکومی کی صورت میں جو سزا مقرر کی ہے، وہ کسی رو رعایت کے بغیر اس پر نافذ کر دیں۔ یہ حکم اللہ تعالیٰ کے ایک خصوصی قانون پر مبنی تھا جس کے مطابق وہ اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے اتمام حجت کے بعد منکرین حق کو قتل واسارت یا محکومی کی صورت میں ان کے کفر کی سزا دیتا ہے۔ یہ معاملہ سر تا سر اللہ کے فیصلے اور اس کے اذن پر منحصر ہوتا ہے اور اس میں کسی انسان کو اپنے تئیں کوئی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس پرامن اور صلح جو کفار کے ساتھ مصالحانہ تعلقات کی اجازت عام انسانی اخلاقیات پر مبنی ہے اور اس دائرے میں اس میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا بلکہ وہ شریعت کے ایک محکم حکم کی حیثیت رکھتی ہے۔ 


فقہی روایت کا ارتقا

قرآن مجید میں عہد نبوی کے مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کے جو احکام دیے گئے، ان کے حوالے سے صحابہ ہی کے دور میں بہت سی اہم فقہی بحثیں پیدا ہوئیں جن کی علمی تنقیح کا سلسلہ بعد کی مسلم علمی روایت میں بھی جاری رہا۔ یہ بحثیں ان احکام کی علت اور ان کے دائرۂ اطلاق کی تعیین اور ان کی تعمیم وتخصیص کے حوالے سے متنوع علمی رجحانات اور زاویہ ہاے نگاہ کی نشان دہی کرتی ہیں اور جہاد وقتال سے متعلق نصوص کے ضمن میں امت مسلمہ کے فہم اور فکری ارتقا کو علمی سطح پر سمجھنے میں بے حد مددگار ہیں۔ یہاں ہم ان میں سے اہم بحثوں کا مطالعہ کریں گے۔

قتل اور جزیہ میں سے اصل حکم کی تعیین

جہاد وقتال کے حوالے سے قرآن وحدیث کے جو نصوص اوپر نقل کیے گئے ہیں،ان میں اسلام قبول نہ کرنے والے کفار کے لیے دو طرح کی سزائیں بیان ہوئی ہیں۔ مشرکین کے بارے میں حکم دیا گیا ہے کہ انھیں قتل کر دیا جائے، جبکہ اہل کتاب کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان سے قتال کر کے انھیں جزیہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے۔ ان دونوں حکموں کی تعبیر وتشریح اور ان کے دائرۂ اطلاق کی تعیین کے حوالے سے صحابہ کے دور ہی میں مختلف زاویہ ہاے نگاہ سامنے آ گئے تھے۔ چنانچہ سیدنا عمر کے عہد میں فارس کے علاقے مفتوح ہوئے تو ایک سوال یہ سامنے آیا کہ مجوس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ سیدنا عمر ان پر جزیہ نافذ کرنے کے معاملے میں تردد کا شکار رہے اور جب تک ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل سے ایک واضح نظیر نہیں آ گئی، وہ اس پر مطمئن نہیں ہوئے۔ ابن ابزیٰ کی روایت ہے:

لما ہزم المسلمون اہل فارس قال عمر اجتمعوا۔ فقال ان المجوس لیسوا اہل کتاب فنضع علیہم ولا من عبدۃ الاوثان فنجری علیہم احکامہم فقال علی بل ہم اہل کتاب (ابن حجر، فتح الباری، ۶/۲۶۱، ۲۶۲)

’’جب مسلمانوں نے اہل فارس کو شکست دے دی تو سیدنا عمر نے صحابہ سے کہا کہ (مشورہ کے لیے) اکٹھے ہو جاؤ۔ پھر فرمایا کہ (بات یہ ہے کہ) مجوس نہ تو اہل کتاب ہیں کہ ہم ان پر جزیہ عائد کریں اور نہ بت پرست ہی ہیں کہ ہم ان پر ان کے احکام جاری کر دیں۔ سیدنا علی نے کہا، ان کا شمار اہل کتاب ہی میں ہوتا ہے۔‘‘

دوسری روایت کے الفاظ یوں ہیں:

لما رجع المہاجرون من بعض غزواتہم بلغہم نعی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فقال بعضہم لبعض ای الاحکام تجری فی المجوس وانہم لیسوا باہل کتاب ولیسوا من مشرکی العرب فقال علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قد کانوا اہل کتاب (تفسیر الطبری، ۳۰/۱۳۲)

’’جب مہاجرین ایک معرکے سے واپس آئے تو انھیں سیدنا عمر کی طرف سے جمع ہونے کا پیغام ملا۔ (اس مجلس میں) ان کی اس بات پر بحث ہوئی کہ مجوس کے بارے میں کون سے احکام جاری ہوں گے؟ وہ نہ تو اہل کتاب میں سے ہیں اور نہ عرب کے مشرکین میں سے۔ سیدنا علی نے کہا کہ یہ اصل میں اہل کتاب ہی تھے۔‘‘

جعفر بن محمد اپنے والد سے نقل کرتے ہیں:

کان للمہاجرین مجلس فی المسجد فکان عمر یجلس معہم فیہ ویحدثہم عن ما ینتہی الیہ من امر الآفاق فقال یوما ما ادری کیف اصنع بالمجوس فوثب عبد الرحمن بن عوف فقال اشہد علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال سنوا بہم سنۃ اہل الکتاب (بلاذری، فتوح البلدان، ۲۷۶)

’’مسجد نبوی میں مہاجرین کی ایک مجلس ہوا کرتی تھی جس میں سیدنا عمر بھی ان کے ساتھ بیٹھتے تھے اور مملکت کے اطراف کی تازہ صورت حال سے انھیں آگاہ کرتے تھے۔ ایک دن انھوں نے کہا کہ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں مجوس کے معاملے میں کیا طریقہ اختیار کروں۔ یہ سن کر عبد الرحمن بن عوف فوراً بولے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے ساتھ وہی معاملہ کرو جو اہل کتاب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‘‘

مصنف عبد الرزاق کی روایت میں ہے کہ آپ نے اس تردد کی وجہ بھی بیان فرمائی اور کہا:

ما ادری ما اصنع فی ہولاء القوم الذین لیسوا من العرب ولا من اہل الکتاب (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۹۲۵۳)

’’میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس قوم کے معاملے میں، جو نہ اہل عرب میں سے ہیں اور نہ اہل کتاب میں سے، کون سا طریقہ اختیار کروں۔‘‘

مصنف عبد الرزاق کی ایک اور روایت میں ہے:

ولم یکن عمر یرید ان یاخذ الجزیۃ من المجوس حتی شہد عبد الرحمن بن عوف ان النبی صلی اللہ علیہ اخذہا من مجوس ہجر (مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۸۷۴۸۔ مسند احمد، رقم ۱۵۹۳)

’’سیدنا عمر مجوس سے جزیہ نہیں لینا چاہتے تھے یہاں تک عبد الرحمن بن عوف نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ وصول کیا تھا۔‘‘

سیدنا عمر کے ذہن میں اس تردد کا پیدا ہونا قابل فہم ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مجید نے قتال اور جزیہ کا حکم بیان کرتے ہوئے صرف اہل کتاب کا ذکر کیا ہے، حالانکہ ان کے علاوہ دوسرے گروہ مثلاً مجوس او ر صابئین بھی جزیرۂ عرب میں موجود تھے۔ مزید برآں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اقوام کے سربراہوں کو خط لکھ کراسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں جنگ کی دھمکی دی تھی، ان میں کسریٰ بھی شامل تھا جو فارس کی عظیم سلطنت کا سربراہ تھا۔ اس کے باوجود قرآن مجید میں جزیہ کا ذکر صرف اہل کتاب کے حوالے سے کیا جانا اپنے اندر یہ احتمال رکھتا تھا کہ اس حکم کو اہل کتاب ہی کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے، تاہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے واضح ہوا کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ 

شافعی اور حنبلی فقہا نے سیدنا عمر کے اس تردد سے یہ اخذ کیا ہے کہ جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی رعایت صرف اہل کتاب کے لیے ہے اور سیدنا عمر کو مجوس کے حوالے سے یہ تردد تھا کہ آیا وہ اہل کتاب میں شامل ہیں یا نہیں۔ گویا اگر مجوس کا اہل کتاب سے خارج ہونا ثابت ہو جاتا تو سیدنا عمر مشرکین کی طرح انھیں بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور کرتے۔ (الام، ۴/۱۷۴۔ المغنی، ۹/۱۷۳۔ مسئلہ ۷۴۳۷) تاہم، ہم واضح کر چکے ہیں کہ سیدنا عمر ’فاقتلوا المشرکین‘ کے حکم کو صرف عرب اور سرزمین عرب کی حد تک جائز سمجھتے تھے اور جزیرۂ عرب سے باہر اس حکم کو کسی حال میں قابل اطلاق نہیں سمجھتے تھے۔ اس تناظرمیں پر جزیہ عائد کرنے میں ان کے تردد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جزیہ کا حکم بھی صرف ان قوموں پر نافذ کرنا چاہتے تھے جن کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول سے اس کی اجازت ثابت ہو۔ مزید برآں روایات میں اس سارے معاملے کی جو تفصیل منقول ہے، وہ بھی شوافع اور حنابلہ کے مفروضے کی تائید نہیں کرتی، کیونکہ رواۃ نے ان کے اس طرز عمل کو جن الفاظ سے تعبیر کیا ہے، وہ یہ نہیں ہیں کہ ’’انھیں مجوس کو قتل کرنے میں تردد تھا‘‘ بلکہ یہ ہیں کہ انھیں مجوس سے ’’جزیہ وصول کرنے‘‘ میں تردد تھا۔ اس لیے ہماری رائے میں سیدنا عمر کے موقف کی زیادہ قرین قیاس تعبیر یہ ہے کہ وہ سورۂ براء ۃ کے احکام کو اصلاً عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ کے ساتھ خاص سمجھتے تھے جن کے بارے میں وہ قرآن مجید میں وارد ہوئے ہیں جبکہ ان کی تعمیم کے لیے کسی مستقل دلیل کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ 

بہرحال مجوس سے عملاً جزیہ قبول کر لینے کے باوجود نظری سطح پر اس حوالے سے اشکال باقی رہا اور سیدنا عمر کے فیصلے کے باوجود بعض صحابہ اس پر مطمئن نہیں تھے،چنانچہ ابو موسیٰ اشعری کا قول یہ نقل ہوا ہے کہ:

لولا انی رایت اصحابی یاخذون منہم الجزیۃ ما اخذتہا (ابو عبید، الاموال، ۱۱۰)

’’اگر میرے ساتھیوں نے مجوس سے جزیہ لینے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو میں ان سے جزیہ نہ لیتا۔‘‘

سیدنا علیؓ کے زمانے میں بعض لوگوں نے یہی اشکال دوبارہ ان کے سامنے پیش کیا تو انھوں نے مجوس کو آیت جزیہ کے دائرۂ اطلاق میں شامل کرنے کی ایک باقاعدہ علمی توجیہ کر کے انھیں مطمئن کیا۔ روایت ہے کہ مستورد بن علقمہ اور فروۃ بن نوفل اشجعی ایک مجلس میں بیٹھے تھے کہ فروہ بن نوفل نے کہا: ’ان ہذا الامر عظیم یوخذ من المجوس الجزیۃ ولیسوا باہل کتاب‘ (یہ تو بہت سنگین بات ہے۔ مجوس سے جزیہ وصول کیا جا رہا ہے حالانکہ وہ اہل کتاب میں سے نہیں ہیں)۔ مستورد نے غصے سے ان کو کہا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ پر اعتراض کر رہے ہو۔ فوراً توبہ کرو، ورنہ میں تمھیں قتل کر دوں گا۔ پھر وہ ان کو لے کر سیدنا علی کے پاس چلے گئے اور یہ بات ان کے سامنے بیان کی۔ سیدنا علی نے انہیں بتایا کہ مجوس سے اس لیے جزیہ لیا جاتا ہے کہ یہ بھی اصل میں اہل کتاب تھے: ’ان المجوس کانوا اہل کتاب یعرفونہ وعلم یدرسونہ‘ لیکن ان میں اللہ کی شریعت سے انحراف یوں پیدا ہوا کہ ان کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن کے ساتھ زنا کر ڈالا۔ جب یہ بات لوگوں میں پھیلی اور بادشاہ کا محاسبہ کیا جانے لگا تو اس نے اپنی بادشاہت کو بچانے کے لیے دین میں تحریف کر دی اور کہا کہ بہنوں کے ساتھ نکاح جائز ہے کیونکہ حضرت آدم کے بیٹوں اور بیٹیوں کے باہمی نکاح کے ذریعے سے ہی نسل انسانی آگے پھیلی تھی۔ اس کے بعد اس کے حامیوں نے مخالفوں کو قتل کر دیا اور مسخ شدہ دین کو فروغ عام حاصل ہوتا چلا گیا۔ (ابو یوسف، الخراج، ۱۴۰۔ مصنف عبد الرزاق، رقم ۱۰۰۲۹)

اس کے بعد بھی مختلف گروہوں کے مذہبی عقائد کے فرق کے تناظر میں ان پر جزیہ عائد کرنے یا نہ کرنے کا سوال کسی نہ کسی صورت میں سامنے آتا رہا۔ مثلاً حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ اموی گورنر زیاد کو بتایا گیا کہ صابئین قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتے اور اپنے مال کا پانچواں حصہ (زکوٰۃ کے طور پر) خرچ کرتے ہیں۔ اس پر زیاد نے چاہا کہ ان پر عائد کردہ جزیہ ان سے ساقط کر دے، لیکن بعد میں اسے بتایا گیا کہ وہ فرشتوں کی پوجا کرتے ہیں تو اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۷/۱۷۳، رقم ۱۳۷۶۸)

بعد کی فقہی روایت میں اس حوالے سے تین مختلف آرا سامنے آئیں:

فقہا کے ایک گروہ نے مشرکین اور اہل کتاب کے مابین فرق کو تسلیم نہیں کیا اور یہ قرار دیا کہ کسی امتیاز کے بغیر تمام کفار سے جزیہ لے کر انھیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہ رائے امام مالکؒ ، امام اوزاعی اور بعض دوسرے فقہا سے منقول ہے۔ (ابن قدامہ، المغنی، ۹/۲۶۶) البتہ ابن القاسم کی روایت کے مطابق امام مالک خاص قریش کی حد تک جزیہ قبول کرنے کو جائز نہیں سمجھتے، جبکہ باقی اہل عرب سے جزیہ قبول کرنا ان کے نزدیک جائز ہے۔ (فتح الباری، ۶/۲۵۹) 

اس رائے کے حق میں مذکورہ فقہا کا استدلال فقہی کتابوں میں واضح طور پر نقل نہیں ہوا۔ امام شافعی نے ’الام‘ میں کسی کی طرف نسبت کیے بغیر یہ استدلال نقل کیا ہے کہ آیت جزیہ نے ’فاقتلوا المشرکین‘ کے حکم کو منسوخ کر دیا ہے۔ (الام، ۴/۱۷۳) اس استدلال کی رو سے صورت معاملہ یہ قرار پاتی ہے کہ اسلام قبول نہ کرنے والے مشرکین عرب کو ابتداءاً تو قتل کرنے کا حکم دیا گیا تھا، لیکن بعد میں آیت جزیہ کے تحت انھیں جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دے دی گئی، تاہم مشرکین عرب نے من حیث الجماعت اسلام قبول کر لیا اور ان سے جزیہ لینے کی نوبت عملاً نہیں آئی۔ (اس راے پر تفصیلی بحث ہم نے اپنے مقام پر مستقل عنوان کے تحت کی ہے۔)

اہل علم کے ایک دوسرے گروہ نے، جن میں شافعی، احمد بن حنبل اور ابن حزم جیسے ائمہ شامل ہیں، زیر بحث نصوص میں سے ’فاقتلوا المشرکین‘ کو اس باب میں اصل اور اساس قرار دیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کفار کو قبول اسلام پر مجبور کرنے اور انکار کی صورت میں ان کو قتل کر دینے کا حکم شریعت کے اصل اور مقصود بالذات حکم کی حیثیت رکھتا ہے اور اپنی علت ونوعیت کے لحاظ سے اصلاً اس کا اطلاق دنیا کے تمام کفار پر ہوتا ہے۔ البتہ اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ اور مجوس کو چونکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے پیغمبر نے خاص رعایت دیتے ہوئے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی ہے، اس لیے وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ (الاحکام ابن حزم ۵/۱۰۴، ۱۰۵۔ ابن القیم، احکام اہل الذمہ، ۱/۹۱)

اس نقطہ نظرکے حامل اہل علم مجوس سے جزیہ قبول کرنے کی توجیہ کے ضمن میں مختلف الرائے ہیں۔ ایک راے یہ ہے کہ مجوس بھی اہل کتاب میں سے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ان کے پاس جو آسمانی کتاب اور شریعت تھی، وہ ضائع ہو گئی۔ (شافعی، الام) اس کے برعکس بعض دوسرے اہل علم مجوس کو اہل کتاب میں شامل نہیں سمجھتے اور ان کے نزدیک مجوس سے جزیہ قبول کرنے کا ماخذ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، ورنہ اگر سنت سے یہ ثابت نہ ہوتا تو مجوس کا حکم بھی وہی ہوتا جو مشرکین کا ہے۔ (ابوعبید، الاموال، ص ۱۰۹۔ الماوردی، الحاوی الکبیر، ۱۸/۳۳۹)

فقہا کے تیسرے گروہ نے، جس کی نمائندگی احناف کرتے ہیں، قتل اور جزیہ کے حکموں کا باہمی تعلق اس کے بالکل برعکس متعین کیا اور کفار کے حوالے سے شریعت کا اصل حکم ’جزیہ‘ کو قرار دیا ہے، جبکہ مشرکین کو قتل کرنے کا حکم ان کے نزدیک مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہے۔ ان کے علاوہ باقی تمام کفار کو، خواہ وہ مشرک ہوں یا کتابی، جزیہ لے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت ہے۔ ایک روایت کے مطابق امام احمد کا مسلک بھی یہی ہے۔ (ابن قدامہ، المغنی، ۹/۲۶۶) 

سیدنا عمر کے جو ارشادات ہم نے باب اول میں نقل کیے ہیں، ان سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ اسلام یا قتل میں سے ایک کے انتخاب کو شریعت کا اصل اور قابل تعمیم حکم نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اس کا دائرۂ اطلاق ان کے نزدیک اہل عرب اور جزیرۂ عرب تک محدود تھا۔ یہی رجحان بعض تابعین کے ہاں بھی ملتا ہے۔ چنانچہ امام زہری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کے مشرکین سے تو نہیں، لیکن دوسری اقوام کے بت پرستوں سے بھی جزیہ قبول کیا۔ (مصنف عبد الرزاق، ۱۰۰۹۱) حسن بصری بھی قتل کے حکم کو ’اہل ہذہ الجزیرۃ من العرب‘ یعنی جزیرۂ عرب کے مشرکین کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۱۲۶۷۹) یہی رائے قتادہ اور ضحاک سے بھی منقول ہے۔ (تفسیر الطبری ۳/۱۶) 

احناف کا کہنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجوس سے جزیہ قبول کیا ہے، حالانکہ وہ اہل کتاب میں شامل نہیں بلکہ دو خداؤں یعنی یزداں اور اہرمن کا قائل ہونے کی وجہ سے اہل شرک کے زمرے میں آتے ہیں۔ ان سے جزیہ قبول کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ’فاقتلوا المشرکین‘ کا حکم مشرکین عرب کے ساتھ خاص ہے جبکہ باقی تمام مشرکین سے جزیہ وصول کرنا جائز ہے۔ (سرخسی، المبسوط ۱۰/۱۱۹)

ابن القیم اس موقف کی حکمت ومعنویت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جہاد وقتال سے مقصود دنیا سے کفر وشرک کا بالکلیہ خاتمہ نہیں، بلکہ اللہ کے دین کو باطل ادیان کے مقابلے میں غالب کرنا ہے اور یہ مقصد جزیہ وصول کرنے کی صورت میں بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ جزیہ وصول کرنے میں فریقین کی مصلحت ملحوظ ہے۔ اہل اسلام کو اس طرح مالی فائدہ حاصل ہوتا ہے جو اسلام کے لیے قوت وعزت اور کفار کے لیے ذلت اور کمزوری کا ذریعہ بنتا ہے، جبکہ اہل کفر کو زندہ رکھنے سے یہ امید باقی رہتی ہے کہ وہ دعوت اسلام سے متعارف ہونے کے نتیجے میں کسی نہ کسی وقت اسلام قبول کر لیں جو اس سے بہتر ہے کہ انھیں قتل کر کے جہنم رسید کر دیا جائے ۔ (احکام اہل الذمہ، ۱/۹۹)

مشرکین عرب کے لیے خاص طور سے قتل کا حکم دیے جانے کی توجیہ فقہاے احناف یہ کرتے ہیں کہ چونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم خود اہل عرب کے اندر سے مبعوث کیے گئے اور اللہ تعالیٰ نے براہ راست انھی کی زبان میں اپنا کلام نازل فرمایا، اس وجہ سے ان پر حق پوری طرح واضح ہو چکا تھا اور اس کے بعد ان کو پیغمبر کی تکذیب کی سزا کے معاملے میں کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی تھی۔ سرخسی لکھتے ہیں:

فانہم قرابۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والقرآن نزل بلغتہم ولم یراعوا حق ذلک حین اشرکوا (المبسوط، ۱۰/۹۸)

’’وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار تھے اور قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ جب انھوں نے شرک کو اختیار کیے رکھا تو انھوں نے پیغمبر کی قرابت اور قرآن کے اپنی زبان میں نازل ہونے کے حق کی رعایت نہیں کی۔‘‘

آلوسیؒ اس نکتے کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

ان کفرہم قد تغلظ لما ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نشا بین اظہرہم وارسل الیہم وہو علیہ الصلاۃ والسلام من انفسہم ونزل القرآن بلغتہم وذلک من اقوی البواعث علی ایمانہم فلا یقبل منہم الا السیف او الاسلام زیادۃ فی العقوبۃ علیہم (روح المعانی، ۱۰/۷۹)

’’ان کا کفر کئی وجوہ سے سنگین تر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھی کے مابین زندگی کے مختلف مراحل گزارے، آپ انھی کا ایک فرد تھے اور انھی کی طرف مبعوث ہوئے تھے، اور قرآن مجید بھی انھی کی زبان میں نازل ہوا۔ یہ تمام امور ان کے ایمان لانے کے نہایت قوی محرکات کا درجہ رکھتے ہیں، ا س لیے (انکار کی صورت میں) ان کو سزا بھی سنگین تر ملی ہے، چنانچہ ان سے تلوار یا اسلام کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘

فقہاے احناف کے اس کلاسیکی استدلال کو دور جدید میں مولانا حمید الدین فراہیؒ اور ان کے مکتبہ فکر نے نئے اسلوب میں پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انبیا کی براہ راست مخاطب بننے والی قوموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت چلی آ رہی ہے کہ اگر وہ ایمان نہ لائیں تو اس دنیا میں ہی اس پر خدا کا عذاب آ جاتا ہے اور مشرکین عرب کے بارے میں دیا جانے والا حکم دراصل رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی اسی خاص سنت پر مبنی تھا۔ مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

’’قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ شریعت الٰہی نے ان غیر مسلموں میں، جن پر براہ راست کسی رسول کے ذریعے سے خدا نے اپنے دین کی حجت پوری کی ہے اور ان غیر مسلموں میں جن پر براہ راست کسی رسول کے ذریعے سے نہیں بلکہ عام اہل حق کے واسطے سے حجت تمام کی گئی ہے، فرق کیا ہے۔ ...... قرآن مجید میں مختلف انبیاء علیہم السلام کی اپنی قوموں کے مشرکین کے ساتھ کشمکش کے جو واقعات بیان ہوئے ہیں، ان سے یہ بات منکشف ہوتی ہے کہ غیر مسلموں کے ان دونوں گروہوں میں سے پہلے کے بارے میں خدائی دستور یہ رہا ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی رسول کے ذریعے سے حق واضح کر دیا ہے اور تبلیغ ودعوت کی جو شرطیں ایک رسول کے لیے اس کے ہاں مقرر ہیں، وہ پوری ہو چکی ہیں تو اس کے بعد اس قوم کے کفار ومشرکین (غیر مسلموں) کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جینے کی مزید مہلت نہیں دی ہے۔ ایسے لوگوں کو پھر لازماً مٹایا گیا ہے اور ان کی تباہی کے لیے حسب حالات مندرجہ ذیل دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت نمودار ہوئی ہے:

۱۔ اگر اس قوم کی اکثریت اتمام حجت کے باوجود دعوت حق کے انکار اور اس کی مخالفت پر جمی رہ گئی ہے اور صرف گنتی کے چند نفوس ہی اس کے اندر سے حق کا ساتھ دینے والے نکلے ہیں تو اسے اسلام یعنی اپنے اور اس کائنات کے خالق ومالک اور رب کی بے آمیز اطاعت وبندگی یا عذاب الٰہی میں سے ایک کے انتخاب کا حکم دے دیا گیا ہے اور اگر اس نے اسلام کی جگہ عذاب الٰہی ہی کو اختیار کیا ہے تو زمین یا آسمان سے کسی عذاب الٰہی نے نمودار ہو کر ان کو فنا کر دیا ہے، چنانچہ نوح، ہود، لوط اور شعیب علیہم السلام کی قوموں کے ساتھ، جن کی سرگزشتیں قرآن میں بیان ہوئی ہیں، یہی صورت پیش آئی۔

۲۔ اگر اس قوم میں سے ایک معتد بہ حصہ حق (رسول) کا ساتھ دینے والوں ا بھی نکل آیا ہے تو اس صورت میں لازماً اہل حق اور اہل باطل کے درمیان کشمکش برپا ہوئی ہے اور اتمام حجت کے سارے مراحل طے ہو جانے کے بعد بھی ان میں سے جو لوگ ایمان نہیں لائے ہیں، انہیں اہل حق کی طرف سے اسلام یا تلوار میں سے ایک کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور اگر انھوں نے اسلام کے بجائے تلوار ہی کو منتخب کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی تلوار سے ہی ان کو صفحہ ہستی سے محو کر دیا ہے۔ اہل حق کی تلوار بھی دراصل خدائی تازیانوں میں سے ایک تازیانہ ہے کیونکہ خدا کا رسول جو کچھ بھی کرتا ہے، براہ راست اللہ کی ہدایت وراہنمائی میں کرتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین عرب کے درمیان جو صورت پیش آئی، وہ یہی دوسری صورت تھی۔‘‘ (اسلامی ریاست، ۷۶۔۱۷۸)

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

’’یہ بات یاد رکھیے کہ قریش کا معاملہ ذرا خاص ہے، اس لیے کہ سنت الٰہی کے مطابق جس قوم کی طرف براہ راست رسول کی بعثت ہوتی ہے تو کامل اتمام حجت کے بعد دو ہی راستے باقی رہ جاتے ہیں۔ یا تو عذاب الٰہی سے ہلاک ہو جائیں یا پھر اہل ایمان کی تلوار سے ان کا خاتمہ ہو، بشرطیکہ اہل ایمان جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ عاد وثمود وغیرہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ہلاک ہوئے، اس لیے کہ ان کے زمانے میں جو رسول آئے، ان کو اتنے اہل ایمان نہ مل سکے کہ وہ جہاد کرنے کی پوزیشن میں ہوتے، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے قوت عطا فرما دی تھی، اس لیے آپ نے مشرکین عرب کے ساتھ جہاد کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر بھی اس اعلان کے ساتھ جہاد کیا۔ اب ان کے لیے صرف اسلام ہے یا تلوار، اس لیے کہ ان پر حجت تمام ہو چکی تھی۔‘‘ (تدبر، مارچ ۲۰۰۴، ص ۲۴)

یہاں یہ نکتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ فقہی کتابوں میں ’فاقتلوا المشرکین‘ کی تحدید یا تعمیم سے متعلق نظری سطح پر اختلاف راے پائے جانے کے باوجود امت مسلمہ میں عملاً احناف ہی کے نقطہ نظر کو قبول عام حاصل ہوا ہے اور تاریخ میں چند شاذ مثالوں کے علاوہ عام طور پر کفار کے کسی بھی گروہ کو، چاہے وہ بالکل واضح طور پر شرک اور بت پرستی کے قائل ہوں، اس پر مجبور نہیں کیا گیا کہ وہ اسلام قبول کر لیں، ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ مثال کے طورپر تاریخ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں عربوں نے سندھ کو فتح کیا تو ہندو مذہب اور اس کی عبادت گاہوں کو اسی طرح تحفظ دیا گیا جیسے اہل کتاب کی عبادت گاہوں کو دیا جاتا ہے۔ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:

’’عربوں نے سندھ میں قدم رکھنے کے ساتھ ایک منٹ بھی اس کے فیصلہ میں توقف نہیں کیا کہ ان اقسام میں سے ہندوؤں کا مرتبہ اسلامی حکومت میں کیا ہے؟ .... سندھ کو فتح کرتے ہوئے جب عرب سپہ سالار محمد بن قاسم سندھ کے مشہور شہر الرور (الور) پہنچا تو شہر والوں نے کئی مہینہ تک حملہ آوروں کا پرزور مقابلہ کیا۔ پھر صلح کی اور اس میں دو شرطیں پیش کیں۔ اول یہ کہ شہر کا کوئی آدمی قتل نہ کیا جائے، دوسرے یہ کہ ان کے بت خانوں سے کوئی تعرض نہ کیا جائے۔ محمد بن قاسم نے جس وقت ان شرطوں کو قبول کیا تو یہ الفاظ کہے:

ما البد الا ککنائس النصاری والیہود وبیوت نیران المجوس

ترجمہ: ’’ہندوستان کا بت خانہ بھی عیسائیوں اور یہودیوں کی عبادت گاہوں اور مجوس کے آتش کدوں ہی کی طرح ہے۔‘‘

سندھ کی سب سے قدیم عربی تاریخ کے فارسی ترجمہ چچ نامہ میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ہے:

’’محمد بن قاسم نے برہمن آباد (سندھ) کے لوگوں کی درخواست قبول کر لی اور ان کو اجازت دی کہ سندھ کی اس اسلامی سلطنت میں اسی حیثیت میں رہیں جس حیثیت میں عراق اور شام کے یہودی، عیسائی اور پارسی رہتے ہیں۔‘‘ (چچ نامہ، تاریخ الیٹ جلد اول ص ۱۸۶)

’’ایک عرب فاتح کی زبان کی یہ وہ اہم تصریح ہے کہ اس نے ہندوؤں کو وہی حیثیت دی جو بظن غالب کسی آسمانی تعلیم کے پیروؤں کی اسلامی قانون میں ہے اور ان کے بت خانوں کو بھی وہی درجہ دیا جو اہل کتاب یا مشابہ اہل کتاب کے معبدوں اور عبادت گاہوں کا اسلام میں ہے۔‘‘ (عرب وہند کے تعلقات، ص ۱۷۹، ۱۸۰)

اتمام حجت پر مبنی احکام

فقہا کے مابین اس حوالے سے عمومی اتفاق راے پایا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی نیابت میں آپ کے صحابہ نے جن اقوام اور گروہوں کے خلاف جہاد وقتال کا اقدام کیا، ان پر یقینی طور پر اتمام حجت ہو چکا تھا اور آپ کے دعواے نبوت کی صداقت دور اول کی اسلامی سلطنت کے دائرے میں بسنے والے اہل کتاب پر بالخصوص واضح تھی، چنانچہ وہ بالعموم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرتے ہوئے آپ کی بعثت کو اہل عرب کے لیے خاص قرار دے کر اپنے آپ کو آپ پر ایمان لانے سے مستثنیٰ قرار دیتے تھے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر ۱/۱۵۱، ۱۵۲۔ ابو اللیث السمرقندی، فتاویٰ النوازل ۲۰۸۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاویٰ ۲۸/۶۲۶) 

امام شافعی فرماتے ہیں:

قال اللہ تبارک وتعالی قاتلوا الذین لا یومنون .... وہم صاغرون، قال فکان بینا فی الآیۃ واللہ تعالی اعلم ان الذین فرض اللہ عزوجل قتالہم حتی یعطوا الجزیۃ الذین قامت علیہم الحجۃ بالبلوغ فترکوا دین اللہ عزوجل واقاموا علی ما وجدوا علیہ آباء ہم من اہل الکتاب (الام، ۴/۱۷۵)

’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’قاتلوا الذین لا یومنون ...... صاغرون‘۔ آیت سے یہ بات واضح ہے کہ جن اہل کتاب کے خلاف اللہ تعالیٰ نے قتال کر کے انھیں جزیہ کی ادائیگی پر مجبور کرنے کا حکم دیا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن تک حق پہنچنے کے بعد حجت قائم ہو چکی تھی اور انھوں نے اللہ کے دین کو چھوڑ کر اپنے آباؤ واجداد کے دین پر قائم رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔‘‘

اگر کفار کے خلاف قتال کا یہ حکم اتمام حجت کے اصول پر مبنی اور اس کے ساتھ مشروط تھا تو ایک بنیادی سوال یہ سامنے آتا ہے کہ پیغمبر کی طرف سے ایک مرتبہ اتمام حجت متحقق ہونے کے بعد کیا یہ زمان ومکان اور حالات کی تبدیلی سے متاثر ہوتا ہے یا تغیر کے اثرات سے بالاتر رہتا ہے؟ اور اگر متاثر ہوتا ہے تو پھر مختلف گروہوں اور ان کے احوال و ظروف میں پایا جانے والا تفاوت اتمام حجت کی کیفیت اور اس پر متفرع ہونے والے احکام پر بھی اثرانداز ہوتا ہے یا نہیں؟ دوسرے لفظوں میں اگر کسی گروہ پر اتمام حجت کا تحقق یقینی نہ ہو تو کیا پھر بھی اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا جائے گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مخاطب کفار کے ساتھ کیا؟ 

فقہی روایت کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اہل علم کے ہاں یہ احساس موجود رہا ہے کہ اتمام حجت کی جو کیفیت اور فضا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے مخصوص دائرۂ تخاطب میں پائی جاتی تھی، وہ آفاقی نہیں، بلکہ محدود ہے۔ اسی طرح اتمام حجت پر متفرع ہونے والے احکام کی تحدید وتخصیص کے حوالے سے بھی صدر اول ہی سے علمی بحثیں موجود رہی ہیں۔ چنانچہ اوپر کی سطور میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ مشرکین کو قتل کرنے اور اہل کتاب سے ’جزیہ‘ وصول کرنے کے احکام کے حوالے سے یہ سوال دور صحابہ ہی میں زیر بحث آ گیا کہ ان کی کس حد تک تعمیم کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح مرتد پر سزاے موت کے نفاذ کو لازم نہ سمجھنے کی راے بھی ابتدا ہی سے موجود رہی ہے، چنانچہ سیدنا عمر اور ابراہیم نخعی سے اس کے لیے عمر قید کی متبادل سزا تجویز کرنا منقول ہے اور ابن حزم کے بیان کے مطابق فقہا کا ایک گروہ بھی یہی راے رکھتا ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ’’حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث‘‘ میں اس نقطہ نظر کی وضاحت میں لکھا ہے:

’’مرتد کے لیے سزاے موت کے لازم ہونے کے بجاے کسی متبادل سزا کا امکان تسلیم کرنے کا رجحان، بہت محدود دائرے میں سہی، صدر اول کے اہل علم کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ چنانچہ کتب فقہ میں ایک گروہ کی، جن میں ابراہیم نخعی شامل ہیں، یہ راے نقل ہوئی ہے کہ مرتد کو کسی مخصوص مدت تک نہیں، بلکہ مدت العمر توبہ کا موقع دیا جائے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسے قتل نہ کیا جائے۔ ابراہیم نخعی کی اس راے کو غالباً مخالف راے کے عمومی شیوع کے تناظر میں محض ان کا تفرد قرار دے کر زیادہ غور وفکر کا مستحق نہیں سمجھا گیا اور اسی وجہ سے فقہی لٹریچر میں اس موقف کی بحث و تمحیص کے حوالے سے زیادہ علمی مواد نہیں پایا جاتا، تاہم ہمارے خیال میں یہ راے محض ابراہیم نخعی کا تفرد نہیں ہے، بلکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے بلند مرتبت فقیہ کے ہاں بھی یہ رجحان دکھائی دیتا ہے اور کم از کم ان جیسی شخصیت کی طرف نسبت کے ناتے سے یہ راے ہر لحاظ سے توجہ اور اعتنا کی مستحق ہے۔ 

انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب تستر فتح ہوا تو ابو موسیٰ اشعری نے مجھے سیدنا عمر کے پاس بھیجا۔ میں پہنچا تو سیدنا عمر نے مجھ سے دریافت کیا کہ جحیفہ اور اس کے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ یہ بنو بکر بن وائل سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد تھے جو مرتد ہو کر کفار کے ساتھ جا ملے تھے۔ انس کہتے ہیں کہ سیدنا عمر نے بڑی کرید کرتے ہوئے ان افراد کے بارے میں پوچھا، لیکن میں نے تین مرتبہ ان کی توجہ اس موضوع سے ہٹانے کے لیے کوئی دوسری بات چھیڑ دی۔ آخر ان کے اصرار پر میں نے بتایا کہ انھیں گرفتار کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ اس پر سیدنا عمر نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ انس نے کہا کہ یہ لوگ جو مرتد ہوکر کفار کے ساتھ جا ملے تھے، کیا ان کے لیے قتل کے علاوہ کوئی اور صورت بھی ممکن تھی؟ سیدنا عمر نے کہا کہ ہاں، میں انھیں اسلام کی طرف واپس آنے کی دعوت دیتا اور اگر وہ انکار کرتے تو انھیں قید میں ڈال دیتا۔

روایت سے واضح ہے کہ سیدنا عمر اس راے کے حق میں عمومی رجحان رکھتے تھے اور انس بن مالک بھی اس سے پیشگی واقف تھے۔ چنانچہ انھوں نے پہلے اس موضوع پر گفتگو کو ٹالنے اور پھر ابوموسیٰ اشعری کے اقدام کا دفاع کرنے کی کوشش کی جس پر سیدنا عمر نے اپنی مذکورہ راے ظاہر کی۔ ابن حزم نے نقل کیا ہے کہ فقہا کا ایک گروہ مرتد کو قتل کرنے کے بجاے مدت العمر توبہ کا موقع دینے کا قائل رہا ہے اور انھوں نے اس گروہ کے مستدل کے طور پر سیدنا عمر کے مذکورہ واقعے ہی کا حوالہ دیا ہے۔

ابن عبد البر نے سیدنا عمر کی اس راے کو جمہور فقہا کے موقف پر محمول کرتے ہوئے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اگر وہ قید میں ڈالنے کے بعد بھی اسلام قبول نہ کرتے تو سیدنا عمر انھیں قتل کر دیتے، تاہم اس کے لیے انھوں نے کلام سے کوئی داخلی قرینہ پیش نہیں کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتد کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے سیدنا عمر اس سے مختلف کوئی بات نہیں کہہ سکتے، حالانکہ ازروے علت سیدنا عمر کی یہ راے ارشاد نبوی کے خلاف نہیں۔ اگرچہ روایت میں ان کی اس راے کا استدلال نقل نہیں ہوا، لیکن یہ قیاس کرنا غالباً غلط نہیں ہوگا کہ وہ مرتد کے دل میں اسلام کی حقانیت کے حوالے سے واقعی شکوک وشبہات کا امکان تسلیم کرتے ہوئے اتمام حجت کے پہلو سے اس کو قتل کی سزا دینے میں تردد محسوس کرتے اور اس کے بجاے اسے مدت العمر توبہ کا موقع دینے کو شریعت کے منشا کے زیادہ قریب تصور کرتے ہیں۔

بعض روایات اور آثار میں مرتد ہونے والی عورت کو قتل کے حکم سے مستثنیٰ قرار دینے کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو من جملہ دوسرے احکامات کے یہ حکم بھی دیا کہ اگر کوئی عورت اسلام سے پھر جائے تو اسے اسلام کی دعوت دو۔ اگر وہ توبہ کرلے تو قبول کرلو اور اگر انکار کردے تو اس سے جبراً توبہ کراؤ۔ اسی طرح ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت مرتد ہوگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل نہیں کیا۔

ایک روایت کے مطابق سیدنا علی کے زمانے میں کچھ لوگ مرتد ہو گئے تو حضرت علی نے ان میں سے بالغ مردوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا۔ عبداللہ ابن عباس کا فتویٰ یہ نقل ہوا ہے کہ اگر عورتیں اسلام سے مرتد ہوجائیں تو انھیں قتل نہیں کیاجائے گا، بلکہ انھیں محبوس کر کے اسلام کی دعوت دی جائے گی اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ فقہاے تابعین میں سے زہری، ابراہیم نخعی، قتادہ، عطاء، حسن بصری، خلاس اور عمر بن عبد العزیز سے مرتد ہونے والی عورت کو قتل کرنے کے بجاے قید کرنے یا لونڈی بنا لینے جیسی متبادل سزائیں دینا مروی ہے۔ اس کے برعکس بعض دیگر روایات میں مرتد ہونے والی عورتوں کو قتل کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ 

ہمارے نزدیک اگر ارتداد کی سزا کو اتمام حجت کے نکتے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو خواتین پر اس سزا کو نافذ کرنے اور انھیں اس سے مستثنیٰ قرار دینے کے دونوں طریقے قابل فہم ہو جاتے ہیں۔ قتل چونکہ کسی بھی جرم کی آخری سزا ہوتی ہے جس کے بعد اصلاح یا توبہ کا کوئی موقع باقی نہیں رہ جاتا، اس لیے کوئی فرد اگر کسی بھی درجے میں رعایت کا مستحق ہو تو اس پر یہ سزا نافذ کرنے کے بجاے کوئی متبادل سزا تجویز کرنا اور توبہ واصلاح کے دروازے کو اس کے لیے کھلا رکھنا ایک قابل فہم اور معقول بات ہے۔ خواتین کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ انسانی تاریخ میں بالعموم انھیں مردوں اور بالخصوص اپنے خاندان کے مردوں کے رجحانات اور اثرات سے آزاد ہو کر اپنی عقل وفہم اور صواب دید کے مطابق خود کوئی فیصلہ کرنے کے مواقع حاصل نہیں رہے اور مذہبی، معاشرتی اور سیاسی معاملات میں انھیں مردوں ہی کے تابع سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ صورت حال اس بات کی مقتضی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد انکار حق کے معاملے میں انھیں مردوں کے ساتھ یکساں درجے کا مجرم نہ سمجھا جائے، بلکہ ان کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے زیادہ احتیاط ملحوظ رکھی جائے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اتمام حجت کے تحقق کا اطمینان حاصل ہونے کی صورت میں خواتین کو قتل کرنے، جبکہ اس میں شک وشبہ پائے جانے کی صورت میں کوئی متبادل سزا نافذ کرنے کے دونوں طریقے درست قرار پاتے ہیں۔‘‘ (حدود وتعزیرات: چند اہم مباحث، ۲۲۲-۲۲۶)

اتمام حجت سے متعلق اس نکتے کی توضیح فقہا کی بیان کردہ اس شرط سے بھی ہوتی ہے کہ کفار کے کسی گروہ کے خلاف قتال کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو۔ (الام، ۴/۲۳۹۔ المغنی ۹/مسئلہ ۷۳۳۶) یہاں یہ نکتہ توجہ طلب ہے کہ فقہاے احناف جنگ سے پہلے دعوت کے ضابطے کو اصولاً تسلیم کرنے کے باوجود عملاً دونوں طرح کے کفار میں کوئی قانونی فرق تسلیم نہیں کرتے، چنانچہ ان کے نزدیک کسی کافر تک اسلام کی دعوت پہنچی ہو یا نہ پہنچی ہو، دونوں صورتوں میں اس کی جان کی حرمت یکساں ہے اور اگر کسی مسلمان نے کسی ایسے کافر کو قتل کر دیا جس تک دعوت نہیں پہنچی تھی تو اس پر اس کی دیت لازم نہیں۔ تاہم امام شافعی کی رائے اس سے مختلف ہے۔ وہ نہ صرف اس امکان کو تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں ایسی اقوام موجود ہوں جن تک اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو بلکہ وہ، احناف کی رائے کے برخلاف، ان اقوام کے افراد کی انفرادی جانوں کی حرمت کے معاملے کو بھی ان قوموں سے مختلف قرار دیتے ہیں جن تک دعوت اسلام پہنچ چکی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

لا اعلم احدا لم تبلغہ الدعوۃ الیوم الا ان یکون من وراء عدونا الذین یقاتلونا امۃ من المشرکین فلعل اولئک ان لا تکون الدعوۃ بلغتہم وذلک مثل ان یکونوا خلف الروم او الترک او الخزر امۃ لا نعرفہم فان قتل احد من المسلمین احدا من المشرکین لم تبلغہ الدعوۃ وداہ ان کان نصرانیا او یہودیا دیۃ نصرانی او یہودی وان کان وثنیا او مجوسیا دیۃ المجوسی (الام، ۴/۲۳۹)

’’میں نہیں سمجھتا کہ آج کوئی ایسا آدمی ہو جس تک دعوت نہ پہنچ چکی ہو۔ ہاں اگر ہمارے ساتھ برسر جنگ دشمن سے آگے کے علاقے میں کفار کا کوئی گروہ ہو تو ان کے بارے میں ممکن ہے کہ انھیں دعوت نہ پہنچی ہو۔ مثلا رومیوں یا ترکوں یا خزر سے پیچھے کوئی گروہ ہو جسے ہم نہ جانتے ہوں۔ پس اگر مسلمانوں میں سے کوئی آدمی کفار میں سے کسی ایسے آدمی کو قتل کر دے جس تک دعوت نہیں پہنچی تو وہ اس کی دیت ادا کرے گا۔ اگر مقتول عیسائی یا یہودی ہو تو عیسائی یا یہودی کی دیت اور اگر وہ بت پرست یا مجوسی ہو تو مجوسی کی دیت لازم ہوگی۔‘‘

غور کیا جائے تو اس نکتے کا نہایت گہرا تعلق ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘ کے حکم قرآنی کے عموم وخصوص کی بحث سے ہے اور امام شافعیؒ کے مذکورہ استنباط سے کسی حد تک یہ بات جھلکتی ہے کہ وہ اس حکم کے اصل پس منظر اور علت کو اس امر میں مانع محسوس کرتے ہیں کہ حکم کو اس کے ظاہر کے لحاظ سے تمام کفار کے لیے عام قرار دیا جائے۔ بعض شافعی فقہا نے اس سے آگے بڑ ھ کر یہ بھی قرار دیا ہے کہ اسلام کی دعوت پہنچے بغیر جن کفار کو قتل کیا جائے، ان کی دیت مسلمانوں ہی کے برابر ہوگی۔ ماوردی اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسانوں کی جان اصل میں محفوظ اور محترم ہے، جبکہ مباح الدم انھی کفارکو قرار دیا جا سکتا ہے جن کی طرف سے اسلام کے خلاف معاندت کا رویہ ظاہر ہو جائے۔ (الحاوی الکبیر، ۱۲/۳۱۳) فقہا بالعموم کسی غیر مسلم تک اسلام کی دعوت پہنچ جانے اور اس کے اسلام قبول نہ کرنے کو ہی اسلام کے خلاف محاربہ اور عناد کے ہم معنی قرار دیتے ہیں۔ یہ بات کلاسیکی فقہی دور میں اپنا ایک محل رکھتی تھی، لیکن ظاہر ہے کہ اسے ابدی طور پر درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جب صدر اول میں مختلف گروہوں کے حوالے سے اتمام حجت کی کیفیت میں تفاوت محسوس کیا جا رہا تھا تو ظاہر ہے کہ بعد کے زمانوں میں لازمی طور پر اس میں مزید تغیر رونما ہوا۔ چنانچہ امام غزالی نے پانچویں صدی میں یہ رائے ظاہر کی تھی کہ غیر مسلموں کا ایک گروہ تو یقیناًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی حقانیت سے پوری طرح واقف ہے اور اس کے انکار کے نتیجے میں خدا کے عذاب کا مستحق ٹھہرے گا، لیکن وہ غیر مسلم جنھوں نے سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہی نہیں سنا یا نام تو سنا ہے، لیکن آپ کی نبوی حیثیت اور پیغمبرانہ کمالات واوصاف سے کماحقہ آگاہ نہیں ہیں، ان کے بارے میں یہی امید ہے کہ وہ رحمت الٰہی کے دائر ے میں شامل ہو کر نجات پا جائیں گے۔ لکھتے ہیں:

ان اکثر نصاری الروم والترک فی ہذا الزمان تشملہم الرحمۃ ان شاء اللہ تعالیٰ اعنی الذین ہم فی اقاصی الروم والترک ولم تبلغہم الدعوۃ فانہم ثلاثۃ اصناف صنف لم یبلغہم اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اصلا فہم معذورون وصنف بلغہم اسمہ ونعتہ وما ظہر علیہ من المعجزات وہم المجاورون لبلاد الاسلام والمخالطون لہم وہم الکفار الملحدون وصنف ثالث بین الدرجتین بلغہم اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم ولم یبلغہم نعتہ وصفتہ بل سمعوا ایضا منذ الصبا ان کذابا ملبسا اسمہ محمد ادعی النبوۃ کما سمع صبیاننا ان کذابا یقال لہ المقفع بعثہ اللہ تحدی بالنبوۃ کاذبا فہولاء عندی فی اوصافہ فی معنی الصنف الاول فانہم مع انہم لم یسمعوا اسمہ سمعوا ضد اوصافہ وہذا لا یحرک داعیۃ النظر فی الطلب (فیصل التفرقۃ، مجموعۃ رسائل الامام الغزالی، ۳/۹۶)

’’اس زمانے میں روم کے مسیحیوں اور ترکوں کی اکثریت ان شاء اللہ، اللہ کی رحمت کے دائرے میں شامل ہوں گے۔ میری مراد وہ لوگ ہیں جو سلطنت روم اور ترکوں کے دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں اور ان تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی۔ یہ تین قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے سرے سے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سنا۔ یہ تو معذور ہیں۔ دوسرے وہ جن تک آپ کا نام اور اوصاف اور آپ کے حق میں ظاہر ہونے والے اوصاف پہنچے ہیں اور وہ اسلامی ممالک کے پڑوس میں رہتے ہیں اور مسلمانوں سے ان کا میل ملاپ رہتا ہے۔ یہ لوگ کافر اور بے دین ہیں۔ تیسرا گروہ ان دونوں کے درمیان ہے۔ ان تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو پہنچا ہے، لیکن آپ کے حالات واوصاف نہیں پہنچے، بلکہ انھوں نے بچپن سے یہ سن رکھا ہے کہ (نعوذ باللہ) محمد نام کے ایک جھوٹے اور فریبی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، ایسے ہی جیسے ہمارے بچوں نے سن رکھا ہے کہ مقفع نامی ایک کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ یہ گروہ میرے نزدیک اپنے حالات کے لحاظ سے پہلے گروہ کے حکم میں ہے، کیونکہ ان تک نہ صرف یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی تعارف نہیں پہنچا بلکہ انھوں نے اس کے الٹ سن رکھا ہے اور یہ چیز (ان میں اسلام کے بارے میں) تلاش اور جستجو کا داعیہ پیدا نہیں کرتی۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ دور جدید کی اسلامی ریاستوں میں ارتدادکی سزا کے ضمن میں بہت سے مسلم اہل علم اور مفکرین نے اجتہادی زاویہ نگاہ اختیار کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اتمام حجت کے لیے جو معاون اور سازگار فضا اور جو اسباب ومحرکات اسلام کے دور اول میں موجود تھے، کیا وہ آج بھی اسی طرح موجود ہیں اور کیا معروضی تناظر میں اس سزا کا اطلاق خود حکم کی علت کی رو سے درست ہوگا؟ (نجات اللہ صدیقی، اسلام، معاشیات اور ادب، ۴۱۴) مولانا مودودی بھی، جنھوں نے ارتداد پر سزاے موت کا بھرپور دفاع کیا ہے، یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ دور جدید میں اسلامی تعلیم وتربیت کے نظام میں نقص اور کافرانہ تعلیم وتربیت کے اثرات کے تحت نئی نسلوں میں اسلام سے فکری انحراف کا میلان اس درجے میں پھیل چکا ہے کہ انھیں قانون ارتداد کے تحت جبراً دائرۂ اسلام میں مقید رکھنے سے ’’اسلام کے نظام اجتماعی میں منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہو جائے گی جس سے ہر وقت ہر غداری کا خطرہ رہے گا۔‘‘ (مرتد کی سزا، ۷۵) ایسے لوگوں کو جبراً اسلام کا پابند بنانے پر مولانا کی تشویش کا اصل پہلو تو وہی ہے جو انھوں نے بیان کیا ہے، تاہم اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ دور جدید میں وضوح حق اور اتمام حجت کی کیفیت کے حوالے سے ان کے احساسات کیا ہیں۔ مولانا نے غالباً اسی احساس کے تحت مرتد کے لیے ملک بدر کرنے کی متبادل سزا کا امکان تسلیم ،بلکہ تجویز کیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر نظری فقہی بحثوں سے صرف نظر کر لیا جائے تو اہل علم اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے اس قانون کے نفاذ پر اصرار نہیں کیا، بلکہ مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی کی روایت ہے کہ مولانا مفتی محمود نے انھیں بتایا کہ اسلامی قانون سازی کے ایک مرحلے جب انھوں نے اسلام سے ارتداد کو قانونی طور پر مستوجب قتل قرار دینے کی تجویز پیش کی تو جماعت اسلامی نے اس سے اختلاف کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ ایسا کرنے سے غیر مسلم ممالک کو بھی مذہب کی تبدیلی پر پابندی لگانے کی بنیاد مل جائے گی اور اس سے اسلام کی دعوت وتبلیغ کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوں گی۔ (مقدمہ فتا ویٰ مفتی محمود، جلد ۵)

اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں شعبہ فقہ وقانون کے استاذ محمد مشتاق احمد کی روایت کے مطابق، ڈاکٹرمحمود احمد غازی نے انھیں بتایا کہ جب وہ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے تو انھوں نے اس بات کی کوشش کی کہ توہین رسالت کی سزا سے متعلق قانون میں مسلم اور غیر مسلم کے مابین تفریق کرتے ہوئے یہ قرار دیا جائے کہ اس جرم کے ارتکاب پر غیر مسلم کو تو تعزیری طو رپر موت کی سزا دی جا سکے گی، جبکہ مجرم کے مسلمان ہونے کی صورت میں چونکہ یہ جرم ارتداد کے ہم معنی ہے، اس لیے اسے موت کی سزا دی جائے گی۔ اس تجویز سے ڈاکٹر غازی کا منشا یہ تھا کہ اس طرح جزوی طور پر ارتداد کی سزا بھی رو بعمل ہو جائے گی، لیکن کونسل کی سطح پر ان کی یہ تجویز بھی قبول نہیں کی گئی۔

اس تناظر میں احکام قتال کی تعمیم یا تحدید کے ضمن میں بھی اس نکتے کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطب کفار سے متعلق دیے جانے والے احکام ایک مخصوص اساس پرمبنی تھے تو ان کی علی الاطلاق تعمیم نہیں کی جا سکتی۔

قتال کی علت: حنفی فقہا کا نقطہ نظر

سورۂ براءۃ کی زیربحث آیات میں، جیسا کہ ہم نے واضح کیا، مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف قتال کا حکم ان کے ایمان نہ لانے کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔ اگر ان احکام کی تعمیم ان کے پورے پس منظر کے ساتھ کرتے ہوئے ان نصوص کو جہاد وقتال کے عمومی حکم کے لیے ماخذ بنایا جائے تو لازماً یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا بھر کے کفار کے خلاف امت مسلمہ کے جہاد کی علت بھی ان کا کفر وشرک ہے، چنانچہ حنبلی اور شافعی فقہا صریحاً قتال کا سبب کفار کے کفر کو قرار دیتے اور جہاد کا مقصد انھیں اس کی سزا دینا بیان کرتے ہیں۔ (ابن العربی، احکام القرآن، ۱/۱۵۵) گویا ان کی راے میں جہاد کا مقصد ایمان واسلام کی اشاعت اور کفر وشرک کی بیخ کنی کرنا اور اہل کفر کو ان کے کفر کی سزا دینا ہے۔ تاہم فقہاے احناف کے ہاں اس ضمن میں ایک مختلف رجحان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ہم نے ’’جھلک دکھائی دینے‘‘ کی تعبیر اس لیے اختیارکی ہے کہ احناف کے موقف میں بعض پیچیدگیاں اور تضادات پائے جاتے ہیں، اس لیے ان کی طرف کسی واضح اور غیر مبہم موقف کی نسبت کرنے کے بجائے یہ بہتر ہوگا کہ ان پیچیدگیوں کا تجزیہ کیا جائے۔ 

جہاں تک قتل مشرکین کے حکم کا تعلق ہے، احناف کا نقطہ نظر اس معاملے میں واضح ہے۔ وہ اس کا باعث مشرکین کے کفر ہی کو قرار دیتے ہیں، تاہم اسے شریعت کا کوئی عمومی حکم نہیں سمجھتے، بلکہ مشرکین عرب کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جب وہ عہد رسالت کے تناظر میں اہل کتاب کے خلاف قتال کر کے ان پر جزیہ عائد کرنے کے حکم کا ذکر کرتے ہیں تو اس کی وجہ بھی ان کے کفر کو قرار دیتے اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس قتال کا مقصد منکرین حق کو ان کے کفر کی سزا دینا تھا۔ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:

فہذہ الآیات کلہا انزلت قبل لزوم فرض القتال وذلک قبل الہجرۃ وانما کان الغرض الدعاء الی الدین حینئذ بالحجاج والنظر فی معجزات النبی صلی اللہ علیہ وسلم وما اظہرہ اللہ علی یدہ وان مثلہ لا یوجد مع غیر الانبیاء ...... ثم لما ہاجر الی المدینۃ امرہ اللہ تعالیٰ بالقتال بعد قطع العذر فی الحجاج وتقریرہ عندہم حین استقرت آیاتہ ومعجزاتہ عند الحاضر والبادی والدانی والقاصی بالمشاہدۃ والاخبار المستفیضۃ التی لا یکذب مثلہا (احکام القرآن، ۱/۶۰)

’’ابتدا میں مقصود یہ تھا کہ دین کی دعوت دلائل وبراہین کی روشنی میں دی جائے اور لوگوں کو آمادہ کیا جائے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہونے والے معجزات پر غور کریں اور یہ دیکھیں کہ اس طرح کے نشانات آپ کے سوا کسی پیغمبر کو عطا نہیں کیے گئے۔ ..... پھر ہجرت مدینہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو قتال کا حکم دیا، کیونکہ جب آپ کو ملنے والے نشانات ومعجزات ہر شہری اور بدوی اور دور ونزدیک کے ہر شخص پر براہ راست مشاہدہ یا ناقابل تردید مستفیض اطلاعات کے ذریعے سے ثابت ہو گئے تو اب دلیل وبرہان ان پر بالکل واضح ہو گئی اور اس پہلو سے ان کے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہا۔‘‘

تاہم شریعت کے ایک عمومی حکم کے طور پر جہاد وقتال کی علت کی تعیین کے حوالے سے احناف کے ہاں بیک وقت دو مختلف بلکہ مخالف رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف وہ قرار دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی نیابت میں آپ کی امت بھی اس بات کی مکلف ہے کہ ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘ کے اصول پر دنیا میں حق کی اشاعت اور باطل کی سرکوبی کے لیے جدوجہد کرے۔ سرخسی لکھتے ہیں:

فاما بیان المعاملۃ مع المشرکین فنقول الواجب دعاؤہم الی الدین وقتال الممتنعین منہم من الاجابۃ لان صفۃ ہذہ الامۃ فی الکتب المنزلۃ الامر بالمعروف والنہی عن المنکر وبہا کانوا خیر الامم قال اللہ تعالیٰ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس الآیۃ وراس المعروف الایمان باللہ تعالیٰ فعلی کل مومن ان یکون آمرا بہ داعیا الیہ واصل المنکر الشرک فہو اعظم ما یکون من الجہل والعناد لما فیہ من انکار الحق من غیر تاویل فعلی کل مومن ان ینھی عنہ بما یقدر علیہ (المبسوط ۱۰/۲)

’’کفار ومشرکین کو دین حق کی دعوت دینا اور ان میں سے جو اسے قبول کرنے سے انکار کریں، ان کے ساتھ قتال کرنا واجب ہے، اس لیے کہ آسمانی کتابوں میں اس امت کی خصوصیت ’امر بالمعروف‘ اور ’نہی عن المنکر‘ بیان ہوئی ہے اور اسی وجہ سے یہ امت، تمام امتوں سے بہتر قرار پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘ (تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو) ۔ ’معروف‘ کا سب سے بنیادی حکم اللہ پر ایمان ہے، چنانچہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا پر ایمان کی دعوت دینے والا ہو۔ اسی طرح سب سے بڑا ’منکر‘ شرک ہے، کیونکہ یہ جہالت اور عناد اور کسی تاویل کے بغیر حق کا انکار کرنے کی بدترین شکل ہے۔ پس ہر مومن اپنی استطاعت کی حد تک اس سے روکنے کا مکلف ہے۔‘‘

علاؤ الدین الکاسانی لکھتے ہیں:

ان الایمان وان وجب علیہم قبل بلوغ الدعوۃ بمجرد العقل فاستحقوا القتل بالامتناع لکن اللہ تبارک وتعالیٰ حرم قتالہم قبل بعث الرسول علیہ الصلاۃ والسلام وبلوغ الدعوۃ ایاہم فضلا منہ ومنۃ قطعا لمعذرتہم بالکلیۃ .....ان القتال مافرض لعینہ بل للدعوۃ الی الاسلام والدعوۃ دعوتان دعوۃ بالبنان وہی القتال ودعوۃ بالبیان وہو اللسان (بدائع الصنائع ۷/۱۰۰)

’’اگرچہ انسانوں پر پیغمبروں کی دعوت پہنچنے سے پہلے محض عقل کی رو سے ایمان لانا واجب تھا اور ایمان نہ لانے کی صورت میں وہ قتل کے مستحق تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کی دعوت کے لوگوں تک پہنچنے سے پہلے لوگوں پر فضل واحسان کرتے ہوئے ان کے ساتھ قتال کو حرام قرار دیا، تاکہ ان کے پاس انکار کے لیے بالکلیہ کوئی عذر باقی نہ رہے۔ قتال کو محض برائے قتال فرض نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مقصد اسلام کی طرف دعوت دینا ہے جس کی دو صورتیں ہوتی ہیں: ایک بزور بازو یعنی قتال، اور دوسری زبانی دعوت وتبلیغ۔‘‘

اسی تناظر میں وہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ جہاد سے کفر اور اہل کفر کی تحقیر وتذلیل مقصود ہے اور ’جزیہ‘ اسی تحقیر وتذلیل، زیردستی اور محکومی کے لیے ایک ظاہری اور محسوس علامت (Visible Symbol) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے جہاد کے نتیجے میں مفتوح ہونے والے اہل کفر پر اس مقصد کے تحت عائد کیا جاتا ہے کہ اہل اسلام کے مقابلے میں ان کی محکومانہ حیثیت واضح رہے۔ اس طرح انھیں ایک طرف اپنے کفر پر قائم رہنے کی سزا دی جاتی ہے اور دوسری طرف اس سے یہ توقع پیدا ہوتی ہے کہ ذلت اور عار کا یہ احساس انھیں بالآخر قبول اسلام پر آمادہ کر دے گا۔

ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:

لیس اخذ الجزیۃ منہم رضا بکفرہم ولا اباحۃ لبقاۂم علی شرکہم وانما الجزیۃ عقوبۃ لہم لاقامتہم علی الکفر ..... امہالہم بالجزیۃ جائز فی العقل اذ لیس فیہ اکثر من تعجیل بعض عقابہم المستحق بکفرہم وہو ما یلحقہم من الذل والصغار باداۂا (احکام القرآن، ۳/۱۰۳)

’’کفار سے جزیہ لینے کا مطلب ان کے کفر پر رضامندی یا ان کے اپنے شرک پر قائم رہنے کو جائز قرار دینا نہیں ہے۔ جزیہ تو ان کے لیے ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا ہے۔ عقلی طور پر بھی جزیہ لے کر ان کو مہلت دینا جائز ہے کیونکہ اس طریقے سے اس سے زیادہ تو کچھ نہیں کیا جاتا کہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے جس سزا کے مستحق تھے، اس کا کچھ حصہ اس عار اور ذلت کی صورت میں یہیں ان پر نافذ کر دیا جاتا ہے جو جزیہ کی ادائیگی سے انھیں لاحق ہوتا ہے۔‘‘

سرخسی نے اگرچہ یہ وضاحت کی ہے کہ کفار سے قتال کا مقصد اصلاً ان سے مال وصول کرنا نہیں، بلکہ انھیں ’باحسن الوجوہ‘ دین کی طرف دعوت دینا ہے، کیونکہ عقدذمہ کی پابندی قبول کر کے وہ قتال سے دست کش ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد مسلمانوں کے مابین مقیم ہونے کی وجہ سے انھیں اسلام کے محاسن سے واقف ہونے اور دعوت اسلام سے روشناس ہونے کا موقع ملے گا جس سے اس کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں کہ جب تک وہ اپنے کفر پر مصر رہیں، اس وقت تک اہل ایمان کی سربلندی اور اہل کفر کی ذلت کو نمایاں کرنے کے لیے ان پر جزیہ عائد رہے۔ لکھتے ہیں:

انہ اذا سکن دار الاسلام فمادام مصرا علی کفرہ لا یخلوا عن صغار وعقوبۃ وذلک بالجزیۃ التی توخذ منہ لیکون ذلک دلیلا علی ذل الکافر وعز المومن (المبسوط، ۱۰/۷۷، ۷۸)

’’کافر اگر دار الاسلام میں مقیم ہے تو جب تک وہ اپنے کفر پر اصرار کرتا رہے، اسے سزا اور ذلت کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس سے جزیہ وصول کیا جائے تاکہ کافر کی ذلت اور اہل ایمان کی عزت نمایاں نظر آئے۔‘‘

سرخسی نے اہل حرب کے استرقاق کو بھی ان کے کفر کی عقوبت قرار دیا ہے کہ جب انھوں نے اللہ کی وحدانیت کا انکار کیا تو اللہ نے انھیں اپنے بندوں کا غلام بنا دیا۔ (المبسوط ۸/۴۹۱، ۱۲/۲۷۱) 

یہ ایک نہایت واضح اور غیر مبہم رجحان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا اور مذکورہ پہلے رجحان کی کم وبیش نفی کرتا ہوا ایک دوسرا رجحان احناف کے ہاں اس ضمنی بحث میں نظر آتا ہے کہ آیا جنگ کے دوران میں کفار کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو، جو عملاً جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے، قتل کرنا جائز ہے یا نہیں؟ شافعی اور حنبلی فقہا کی راے یہ ہے کہ ایسا کرنا درست ہے، کیونکہ قتال کی وجہ ’کفر‘ ہے جو مذکورہ افراد میں بھی پایا جاتا ہے، لیکن فقہاے احناف قتال کی علت کفار کے ’کفر‘ کو قرار دینے سے اختلاف کرتے اور یہ قرار دیتے ہیں کہ قتال کا مقصد کفار کو ان کے ’کفر‘ کی سزا دینا نہیں، بلکہ ان کے فتنہ وفساد اور محاربہ سے تحفظ حاصل کرنا ہے، اس لیے جو افراد اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے یا کسی معذوری کی بنا پر جنگ کی صلاحیت نہیں رکھتے، انھیں قتل نہیں کیا جا سکتا۔ 

یہاں فقہاے احناف اپنے استدلال کو واضح کرتے ہوئے نفس قتال کی مشروعیت کا نکتہ چھیڑ کر اپنے موقف میں ایک غیر ضروری الجھاؤ پیدا کر لیتے ہیں۔ اگر وہ قتال کی علت کے بجائے یہاں محض اس کی غایت کے حوالے سے اپنا استدلال پیش کرتے اور یہ کہتے کہ اصل مقصود کفار کو قتل کرنا اور کفر کو ختم کر دینا نہیں بلکہ کفر اور اہل کفر کو مغلوب کرنا ہے، اس لیے قتل صرف ان لوگوں کو کیا جائے گا جو بالفعل جنگ میں شریک ہوں تو یہ استدلال ان کے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہوتا، تاہم وہ یہاں قتال کی علت کی بحث بھی چھیڑ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ قتال کی وجہ اہل کفر کا محاربہ ہے، اس لیے قتل انھی لوگوں کو کیا جائے گا جو حرابہ کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ بدیہی طور پر اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ کفار کے خلاف جنگ کا آغاز اس وقت کیا جائے گا جب وہ محاربہ کی ابتدا کریں گے، بلکہ یہ ہوتی ہے کہ جب مسلمان اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے نکلیں گے تو کفار لازماً اس کی راہ میں مزاحم ہوں گے اور ان کے اس ’محاربہ‘ کو ختم کرنے کے لیے انھیں قتل کرنا پڑے گا، تاہم استدلال کا یہ مقدمہ ایسا ہے کہ اس کے نتیجے میں عقلی طور پر کفار کے خلاف قتال کی ابتدا کو بھی ان کی طرف سے محاربہ ہی پر منحصر مانناپڑتا ہے۔ اس عقلی نتیجے کو مزید تقویت اس سے ملتی ہے کہ احناف اپنے موقف کی وضاحت کے لیے ایک اہم اصولی نکتہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیا کی تعلیمات کی رو سے یہ دنیا دار الامتحان ہے جبکہ جزا وسزا کا معاملہ اصلاً آخرت کے دن پر موقوف رکھا گیا ہے، چنانچہ کفر وایمان کا معاملہ اصلاً خدا اور بندے کے مابین ہے اور اس کا فیصلہ دار الجزاء میں خود کائنات کا پروردگار ہی کرے گا۔ دنیا میں قصاص کے طور پر یا دفع فساد کے لیے تو کسی انسان کی جان لینے کی اجازت دی گئی ہے، لیکن کفر وشرک کی پاداش میں کسی کو قتل جیسی انتہائی سزا دے دینا دار الابتلاء اور دار الجزاء کی مذکورہ تقسیم کے منافی ہے۔ *

سرخسی لکھتے ہیں:

ان تبدیل الدین واصل الکفر من اعظم الجنایات ولکنہا بین العبد وبین ربہ فالجزاء علیہا موخر الی دار الجزاء وما عجل فی الدنیا سیاسات مشروعۃ لمصالح تعود الی العباد کالقصاص لصیانۃ النفوس وحد الزنا لصیانۃ الانساب والفرش وحد السرقۃ لصیانۃ الاموال وحد القذف لصیانۃ الاعراض وحد الخمر لصیانۃ العقول (المبسوط، ۱۰/۱۱۰)

’’کفر پر قائم رہنا یا اس کی طرف پلٹ جانا اگرچہ سب گناہوں سے بڑا گناہ ہے، لیکن وہ انسان اور اس کے رب کا معاملہ ہے اور ایسے گناہ کی سزا روز قیامت کے لیے موخر رکھی گئی ہے۔ دنیا میں جس بات کی اجازت دی گئی ہے، وہ کچھ تدبیری سزائیں ہیں جن کا تعلق انسانوں کے فائدے سے ہے، مثلاً جانوں کی حفاظت کے لیے قصاص، نسب اور فراش کے تحفظ کے لیے زنا کی سزا، مال کی حرمت قائم رکھنے کے لیے چوری کی سزا، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے حد قذف اور عقل کی حفاظت کے لیے شراب کی سزا۔‘‘

ابن نجیم لکھتے ہیں:

ان الاصل تاخیر الاجزیۃ الی دار الآخرۃ اذ تعجیلہا یخل بمعنی الابتلاء وانما عدل عنہ دفعا لشر ناجز وہو الحراب (البحر الرائق ۵/۱۳۹)

’’اصل تو یہ ہے کہ (کسی بھی عمل کی) جزا وسزا کو آخرت پر ہی موقوف رکھا جائے، کیونکہ دنیا میں جزا وسزا کو جاری کرنا آزمائش کے اصول میں خلل ڈالتاہے۔ تاہم اس اصول کو چھوڑ کر دنیا میں جزا وسزا کا طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ ایک فوری شر یعنی حرابہ کو دورکیا جا سکے۔‘‘

ابن الہمام فرماتے ہیں:

ان الاصل فی الاجزیۃ بان تتاخر الی دار الجزاء وہی الدار الآخرۃ فانہا الموضوعۃ للاجزیۃ علی الاعمال الموضوعۃ ہذہ الدار لہا فہذہ دار اعمال وتلک دار جزاۂا وکل جزاء شرع فی ہذہ الدار ما ہو الا لمصالح فی ہذہ الدار کالقصاص وحد القذف والشرب والزنا والسرقۃ شرعت لحفظ النفوس والاعراض والعقول والانساب والاموال (فتح القدیر ۶/۷۲)

’’جزا وسزا میں اصل یہ ہے کہ اسے دار الجزاء یعنی آخرت کے قائم ہونے تک موخر رکھا جائے، کیونکہ آخرت ان اعمال کی جزا کے لیے قائم کی جائے گی جو اس دنیا میں کیے جاتے ہیں۔ یہ دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء۔ چنانچہ دنیا میں جو بھی سزا مشروع کی گئی ہے، وہ درحقیقت اس دنیا میں ہی مقصود چند مصالح کے لیے کی گئی ہے، جیسا کہ قصاص کو جانوں کی، حد قذف کو آبرو کی، حد شرب کو عقل کی ، حد زنا کو نسب کی اور حد سرقہ کو مال کی حفاظت کے لیے مشروع کیا گیا ہے۔‘‘

حنفی فقہا قتال سے متعلق قرآن مجید کے نصوص کی توجیہ بھی اسی اصول کی روشنی میں کرتے ہیں۔ مثلاً سرخسی لکھتے ہیں کہ کفار کو قتل کرنے کی اصل علت، مذکورہ اصول کی روشنی میں، ان کا کفر نہیں بلکہ فتنہ وفساد ہے، البتہ اس فتنہ وفساد کا اصل باعث بھی چونکہ ان کا کفر ہے، اس لیے نصوص میں بعض جگہ ان کے قتل کی وجہ کفر کو اور بعض جگہ فساد کو قرار دیا گیا ہے:

ان اللہ تعالی قصر علی العلۃ فی بعض المواضع بقولہ تعالی فان قاتلوکم فاقتلوہم وعلی السبب الداعی الی العلۃ فی بعض المواضع وہو الشرک (المبسوط، ۱۰/۱۱۰)

’’اللہ تعالیٰ نے بعض مقامات پر اصل علت کے بیان پر اکتفا کی ہے، جیسا کہ فرمایا کہ اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو، اور بعض جگہ اس علت (یعنی قتال) کے سبب یعنی شرک کا ذکر کیا ہے جو کفار کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر آمادہ کرتا ہے۔‘‘

کفار کے فتنہ وفساد ہی کو قتال کی اصل وجہ قرار دینے کا یہ موقف بعد کے حنفی فقہا کے ہاں زیادہ صراحت سے ملتا ہے۔ ابن الہمام ’فتح القدیر‘ میں لکھتے ہیں:

ان قتالنا المامور بہ جزاء لقتالہم ومسبب عنہ وکذا قولہ تعالی وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ای لا تکون منہم فتنۃ للمسلمین عن دینہم بالاکراہ بالضرب والقتل وکان اہل مکۃ یفتنون من اسلم بالتعذیب حتی یرجع عن الاسلام علی ما عرف فی السیر فامر اللہ سبحانہ بالقتال لکسر شوکتہم فلا یقدرون علی تفتین المسلم عن دینہ (فتح القدیر، ۵/۴۳۷، ۴۳۸)

’’کفار کے ساتھ ہمیں قتال کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ ان کی طرف سے کی جانے والی لڑائی کا بدلہ اور اس کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، یعنی وہ مسلمانوں کو زدوکوب یا قتل کر کے انھیں بالجبر ان کے دین سے برگشتہ نہ کر سکیں۔ جیسا کہ کتب سیرت میں معروف ہے، اہل مکہ اسلام لانے والوں کو اذیت دیتے تھے تاکہ وہ اپنے دین سے واپس پلٹ جائیں، اس لیے اللہ نے حکم دیا کہ ان کی قوت اور طاقت کو توڑ دو تاکہ وہ کسی مسلمان کو اذیت دے کر اس کے دین سے ہٹا نہ سکیں۔ ‘‘

ابن الہمام نے یہی بات جزیہ کی نوعیت واضح کرتے ہوئے بیان کی ہے:

والشر الذی یتوقع بسبب الکفر الحرابۃ والفتنۃ عن الدین الحق ..... فکانت عقوبۃ دنیویۃ علی کفرہ الذی ہو سبب لحرابتہ دفعا لہا باضعافہ باخذہا منہ وبدلا عن نصرتہ الفائتۃ بکفرہ (فتح القدیر ۶/۵۴)

’’کفر کی وجہ سے جس شر کا اندیشہ ہے، وہ یہ ہے کہ کفار (مسلمانوں کے ساتھ) جنگ کریں گے اور انھیں دین حق سے برگشتہ کرنے کی کوشش کریں گے، چنانچہ جزیہ کافر کے اس کفر پر دنیوی سزا کی حیثیت رکھتا ہے جو اس کے (مسلمانوں کے خلاف) برسر جنگ ہونے کا محرک ہے اور کافر سے جزیہ لینے کا مقصد یہ ہے کہ اس کی قوت کو کمزور کر کے اس کی طرف سے محاربہ کو روکا جا سکے اور چونکہ کافر ہونے کی وجہ سے وہ (جنگی امور میں) مسلمانوں کی مدد نہیں کرتا (جبکہ اس کا دفاع مسلمانوں کی ذمہ داری ہے)، اس لیے (جزیہ کی صورت میں) اس سے اس کا عوض وصول کیا جائے۔‘‘

صاحب ہدایہ عقد ذمہ کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ہو دفع شر الحراب (۲/۱۶۳)

’’اس کا مقصد حرابہ کے شر کو دور کرنا ہے۔‘‘

حنبلی اصولی اور فقیہ ابن عقیل نے بھی اس مسئلے میں احناف کے موقف کو قتل اور قتال کے باب میں شرعی اصولوں کے ساتھ زیادہ ہم آہنگ قرار دیا ہے اور اس حوالے سے بعض حنبلی علما کا یہ استدلال نقل کیا ہے کہ کفر دراصل حق اللہ ہے جس کی سزا دار التکلیف میں نہیں دی جا سکتی۔ (کتاب الفنون، ۳۷، ۳۹۱) 

احناف نے اس ضمن میں نصوص سے جو استدلال پیش کیا ہے، وہ فقہا کی اس عمومی روش کا نتیجہ ہے کہ وہ الگ الگ مواقع اور گروہوں سے متعلق نصوص کو ان کے سیاق وسباق کی روشنی میں سمجھنے کے بجائے تمام نصوص کو جہاد وقتال کے احکام کا عمومی بیان تصور کرتے ہوئے ان سب سے یکساں استدلال کرتے ہیں۔ بقرہ کی آیات جن میں ’قاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم‘ اور ’فان قاتلوکم فاقتلوہم‘ کے جملے آئے ہیں، دراصل قریش سے متعلق ہیں اور حکم اس مرحلے سے متعلق ہے جب مقصود اصلاً ان کے فتنہ وفساد کو رفع کرنا اور بیت اللہ سے ان کے قبضہ کو ختم کرنا تھا۔ اس کے بعد مشرکین قریش اور ان کے علاوہ عمومی طور پر مشرکین عرب کے لیے حتمی حکم سورۂ توبہ میں دیا گیا جو رفع فساد تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس میں اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں ان کے لیے قتل کیے جانے کی سزا بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ بقرہ کی آیات سے احناف کا یہ استدلال برمحل نہیں بنتا کہ یہاں قتال کی علت محاربہ کو قرار دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اصل ماخذ آیت جزیہ ہے جس میں فتنہ وفساد کو نہیں بلکہ صریحاً کفر کو قتال کی علت قرار دیا گیا ہے۔ 

بہرحال استدلال کی اس خامی سے قطع نظر، احناف کی اس تعلیل پر بعض اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ احناف کی یہ تعلیل بدیہی طور پر آیت جزیہ میں بیان ہونے والی تعلیل سے مختلف ہے، کیونکہ آیت میں صراحت کے ساتھ قتال کا باعث اہل کتاب کے کفر کو اور قتال کا مقصد انھیں محکوم بنا کر ذلت اور رسوائی کی صورت میں انھیں سزا دینے کو قرار دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قتل مشرکین کے حکم کی طرح احناف نے آیت جزیہ کے حکم کی تعمیم بھی، فی الواقع، نہیں کی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے حکم کو تو انھوں نے اس کی اساس اور نتیجے، دونوں کے لحاظ سے مشرکین عرب کے ساتھ خاص مان لیا ہے، جبکہ دوسرے حکم کو نتیجے کے لحاظ سے عام مانتے ہوئے اسے اس کی اصل علت، یعنی کفر سے مجرد کر دیا ہے جس پر وہ نص قرآنی کی رو سے مبنی تھا۔ ظاہر ہے کہ اس سے اصل حکم کی تعمیم نہیں ہوئی، کیونکہ وہ صرف اس صورت میں متحقق ہوگی جب قرآن کے بیان کے مطابق قتال کی علت یہ مانی جائے کہ کفار نہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نہ اللہ اور اس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ دین حق کی پیروی اختیار کرتے ہیں۔ یہ احناف کے نقطہ نظر کا ایک لازمی تقاضا ہے، تاہم نہ تو اصولی طور پر اس کی کوئی باقاعدہ تصریح ان کے ہاں ملتی ہے اور اس کے واقعی مضمرات اور اس سے نکلنے والے بعض لازمی نتائج احناف کے ہاں آغاز ہی میں واضح ہو سکے ہیں۔ 

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قتال کی علت فتنہ وفساد ہے تو ایسے کفار کے خلاف قتال کا اقدام کرنا کیونکر جائز ہے جو اہل اسلام کے خلاف فتنہ وفساد کا ارتکاب نہیں کرتے؟ اور کفار کی طرف سے کسی جارحیت کی ابتدا کے بغیر ان کے خلاف قتال کرنے کو نہ صرف مشروع بلکہ فرض کفایہ کیونکر قرار دیا گیا ہے؟ مزید یہ کہ کفار کے فساد سے بچنے کے لیے ان کو مسلمانوں کا محکوم بنانا کیوں ضروری ہے اور اگر ان کی طرف سے معاہدے کی پابندی کا اطمینان ہو تو ان کی سیاسی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے صلح کی گنجایش کیوں نہیں؟ 

تیسرا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اگر کفر کی سزا کا معاملہ آخرت پر موخررکھا گیا ہے اور کسی کافر کو اس کے کفر کی سزا اس دنیا میں دینے کا اختیار مسلمانوں کے پاس نہیں ہے تو قتال کے ذریعے سے اہل کفر کو مغلوب کر کے ان پر ’جزیہ‘ عائد کرنا، جو احناف کی تصریح کے مطابق ان کے کفر پر عقوبت اور سزا کی حیثیت رکھتا ہے، کس اصول پر روا ہے؟ جہاں تک احناف کا جزیہ کو ’عقوبت‘ قرار دینے کا تعلق ہے تو ان کی یہ بات درست ہے۔ قرآن مجید نے ’جزیہ‘ لینے کا حکم جس سیاق میں دیا ہے، اس سے صاف واضح ہے کہ اس کی اصل نوعیت ذلت ورسوائی اور محکومی کی ایک علامت کی ہے جسے ایمان نہ لانے کی سزا کے طور پر اہل کتاب پر نافذ کیا گیا۔ کلاسیکل فقہی نقطہ نظر میں ’جزیہ‘ کی حکمت ومعنویت اسی تصور کے تحت واضح کی گئی ہے اور تمام فقہا اس معاملے میں یک زبان ہیں کہ اہل ذمہ پر ’جزیہ‘ عائد کرنے کا مقصد ان کو ان کو ذلت وحقارت کا احساس دلانا اور اس طرح انھیں ان کے کفر کی سزا دینا ہے۔ اب اس نکتے کی موجودگی میں اگر احناف قتال کی مشروعیت کا سبب کفر کے بجاے فتنہ وفساد کو قرار دیتے ہیں تو ان کے موقف کی تفصیل کچھ یوں بنتی ہے:

’’انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی آزادی کے مطابق یہ حق حاصل ہے کہ وہ جو عقیدہ چاہیں، اپنائیں اور جس مذہب کو چاہیں، اختیار کریں۔ ہم ان کے اس حق میں کوئی مداخلت کرنے یا اسلام قبول کرنے کے معاملے میں ان پر جبر واکراہ کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ یہ ان کا اور اللہ کا معاملہ ہے اور اس معاملے میں روز قیامت کو وہی ان کا محاسبہ کرے گا۔ البتہ دنیا میں ملنے والی اس آزادی کو استعمال کرتے ہوئے اگر بنی نوع انسان اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے پیروکار بنیں گے تو انھیں اس کی سزا دینا ہمارا فرض ہے، چنانچہ ہم اس اعلان کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو جائیں گے کہ ’یا تو اسلام قبول کر لو اور یا پھر اپنی سیاسی خود مختاری سے دستبردار ہو کر ذلت اور پستی کے ساتھ ہماری محکومی قبول کر لو‘‘ ۔

یہ سب سوالات اہم اور بنیادی نوعیت کے ہیں، تاہم دور متوسط کے حنفی فقہا کے ہاں یہ بحث چونکہ ایک ضمنی مسئلے یعنی اہل کفر کے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے جواز یا عدم جواز کے تحت پیدا ہوئی ہے اور اسی دائرے تک محدود رہی ہے، اس لیے وہ اس کے اصولی مضمرات اور اس سے اپنے موقف میں در آنے والے داخلی تضادات سے کوئی تعرض نہیں کرتے اور جہاد وقتال کا مقصد دعوت اسلام اور اعلاء کلمۃ اللہ کے ساتھ ساتھ دفع حرابہ کو قرار دینے، نیز کفر کی جزا کو اصلاً آخرت پر موقوف ماننے اور اس کے ساتھ ساتھ جزیہ کو اہل کفر کے لیے عقوبت قرار دینے کے دونوں مواقف کو یکساں اطمینان کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ البتہ متاخرین کے ہاں ان الجھنوں کا احساس زیادہ واضح دکھائی دیتا ہے اور متعدد حنفی اہل علم نے مذکورہ سوالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاد کی ترمیم واصلاح شدہ تعبیرات پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن کی چند آرا کا تذکرہ یہاں دلچسپی کا باعث ہوگا۔ 

(i) صاحب تفسیر مظہری قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے ’ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض‘ کی تفسیر میں انھوں نے لکھا ہے:

فیہ دلیل علی ان العلۃ لافتراض الجہاد دفع الفساد (۱/۳۲۵)

’’اس آیت میں اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد کے فرض ہونے کی علت فساد کو دفع کرنا ہے۔‘‘

لا اکراہ فی الدین‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

ان الامر بالقتال والجہاد لیس لاجل الاکراہ فی الدین بل لدفع الفساد من الارض فان الکفار یفسدون فی الارض ویصدون عباد اللہ عن الہدی والعبادۃ فکان قتلہم کقتل الحیۃ والعقرب والکلب العقور بل اہم من ذلک ومن ثم جعل اللہ تعالیٰ غایۃ قتلہم اعطاء الجزیۃ حیث قال حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون ولاجل ہذا نہی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن قتل الولدان والنساء والمشائخ والرہبان والعمیان والزمنی الذین لا یتصور منہم الفساد فی الارض (تفسیر مظہری ۱/۳۳۶)

’’جہاد وقتال کا حکم دین کے معاملے میں جبر کرنے کے لیے نہیں بلکہ زمین سے فساد کو ختم کرنے کے لیے دیا گیا ہے، کیونکہ کفار زمین میں فساد کرتے اور اللہ کے بندوں کو راہ ہدایت اور اللہ کی بندگی سے روکتے ہیں، اس لیے ان کو قتل کرنا اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ضروری ہے جیسے سانپ، بچھو اور کاٹنے والے کتے کو قتل کرنا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جنگ کی غایت یہ بتائی ہے کہ وہ جزیہ دے دیں، چنانچہ فرمایا: حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وہم صاغرون۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی لیے بچوں، عورتوں، بوڑھوں، راہبوں، اندھوں اور معذوروں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ وہ زمین میں فساد نہیں کر سکتے۔‘‘

صاحب تفسیر مظہری کی یہ بھی رائے ہے کہ اگر مصلحت ہو تو کفار کے ساتھ صلح کا معاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے اور جن کفار کے ساتھ موقت یا ابدی معاہدۂ صلح کیا جائے، ان کے خلاف قتال کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ ’وان جنحوا للسلم‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

لا وجہ لتخصیصہا باہل الکتاب وبالقول لکونہا منسوخۃ بل الامر للاباحۃ والصلح جائز مشروع ان رای الامام فیہ مصلحۃ (۴/۱۰۹)

’’اس ہدایت کو نہ تو اہل کتاب کے ساتھ مخصوص کرنے کی کوئی وجہ ہے اور نہ منسوخ قرار دینے کی۔ یہ حکم اباحت کے لیے ہے اور اگر امام صلح کرنے میں مصلحت دیکھے تو ایسا کرنا جائز اور مشروع ہے۔‘‘

الا الذین عاہدتم من المشرکین‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

انما امرتم بنبذ العہد الی الناکثین او بقتال من لا عہد بینکم وبینہم من المشرکین لا بقتال المعاہدین مدۃ معلومۃ او موبدۃ غیر ناکثین (۴/۱۳۸)

’’تمھیں عہد شکنی کرنے والوں سے معاہدہ توڑ دینے کا یا ان مشرکین کے ساتھ جنگ کا حکم دیا گیا ہے جن کے ساتھ تمھارا کوئی معاہدہ نہ ہو، نہ کہ ان کفار کے ساتھ لڑنے کا جنھوں نے مخصوص مدت یا ہمیشہ کے لیے تمھارے ساتھ معاہدہ کیا ہو اور پھر عہد شکنی نہ کی ہو۔‘‘

یہ موقف اس پہلو سے روایتی حنفی موقف سے مختلف ہے کہ اس میں کفار کے ساتھ ابدی معاہدۂ صلح کا امکان بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ 

(ii) مولانا شبیر احمد عثمانی فرماتے ہیں:

’’کوئی شبہہ نہیں کہ کسی آدمی کو عمداً قتل کر ڈالنا بڑی سخت چیز ہے مگر قرآن نے جس کو فتنہ کہا ہے، وہ قتل سے بھی بڑھ کر سخت ہے۔ والفنتہ اشد من القتل، والفتنۃ اکبر من القتل۔ یہ فتنہ دین حق سے ہٹنے یا ہٹائے جانے کا فتنہ ہے جس پر واحذرہم ان یفتنوک عن بعض ما انزل اللہ الیک میں متنبہ کیا گیا ہے ..... اسی فتنہ کے روکنے اور مٹانے کے لیے وہ جارحانہ اور مدافعانہ جہاد بالسیف شروع کیا گیا ہے۔ .... پس اسلام کا سارا جہاد وقتال خواہ ہجوم کی صورت میں ہو یا دفاع کی، صرف مرتد بننے یا بنانے والوں کے مقابلے میں ہے جس کی غرض یہ ہے کہ فتنہ ارتداد یا اس کے خطرہ سے مومنین کی حفاظت کی جائے اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے کہ مرتدین کا جو مجسم فتنہ ہیں، استیصال ہو اور مرتد بنانے والوں کے حملوں اور تدبیروں اور ان کی شوکت وقوت کو جس سے وہ مسلمانوں کے ایمان کو موت کی دھمکی دے سکتے ہیں، ہر ممکن طریقہ سے روکا جائے یا توڑا جائے۔ چنانچہ کفار اگر جزیہ دے کر اسلامی رعایا بننے یا مسلمانوں کے امن میں آ جانے یا باہمی مصالحت اور معاہدہ کی وجہ سے مسلمانوں کو عملاً مطمئن کر دیں کہ وہ ان کے دین میں کوئی رخنہ اندازی نہ کریں گے اور ان کے غلبہ اور شوکت کی وجہ سے مسلمانوں کو مرتد بنائے جانے کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے گا تو ایسی اقوام کے مقابلے میں مسلمانوں کو ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔ ..... پس جہاد بالسیف خواہ ہجومی ہے (یعنی بطریق حفظ ما تقدم) یا دفاعی (یعنی بطریق چارہ سازی) صرف مومنین کی حفاظت کے لیے اور یہ ایک ایسا فطری حق ہے جس سے کوئی عقل مند اور مہذب انسان مسلمانوں کو محروم نہیں کر سکتا۔‘‘ (الشہاب ص ۳۵۔۳۷)

مولانا عثمانی کا یہ موقف ایک نہایت بنیادی نکتے میں روایتی حنفی نقطہ نظر سے مختلف ہے۔ وہ یہ کہ روایتی موقف میں کفار کے ساتھ صلح اور ان سے جزیہ وصول کرنے کو دو مساوی اختیارات کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ فقہا کے نزدیک اصل اور مقصود حکم کفار کو زیر دست کر کے ان سے جزیہ وصول کرنا ہے، جبکہ اس کے بغیر صلح کرنے کی صرف اس صورت میں اجازت ہے جب مسلمان اپنی کمزوری یا کسی دوسری مصلحت کے باعث ایسا نہ کر سکتے ہوں۔ مولانا عثمانی نے، اس کے برعکس، دونوں حکموں کو مساوی درجے میں ذکر کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم جزیہ دے کر مسلمانوں کے زیر نگیں آنا چاہیں یا اس کے بغیر ہی صلح کا معاہدہ کر کے امن وامان کی یقین دہانی کرا دیں، ان میں سے ہر صورت ان کے نزدیک اختیار کی جا سکتی ہے۔ 

(iii) مولانا اشرف علی تھانوی نے مذکورہ نکتے سے اتفاق ظاہر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روایتی موقف میں ایک طرف ’کفر‘ کو قتال کی علت نہ ماننے اور دوسری طرف ’جزیہ‘ کو عقوبۃ علی الکفر قرار دینے سے جو تضاد پیدا ہوتا ہے، اسے ’جزیہ‘ کو غیر مسلموں کی جان ومال کی حفاظت کا عوض قرار دے کر اس تضاد کو رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’مخالفین اسلام کے اس شبہ کا ازالہ کہ اسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے، اصولی جواب تو خود اسلام کے قانون سے ظاہر ہے جس کے بعض ضروری دفعات یہ ہیں: (۱) قتال میں عورت اور اپاہج اور شیخ فانی اور اندھے کا قتل باوجود ان کے بقاء علی الکفر کے جائز نہیں۔ اگر سیف اکراہ علی الاسلام کے لیے ہوتی تو ان کو ان کی حالت پر کیسے چھوڑا جاتا؟ (۲) جزیہ مشروع کیا گیا۔ اگر سیف جزاء کفر ہوتی تو باوجود بقاء علی الکفر کے جزیہ کیسے مشروع ہوتا؟ (۳) پھر جزیہ بھی سب کفار پر نہیں، چنانچہ عورت پر نہیں، اپاہج اور نابینا پر نہیں، رہبان پر نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مثل سیف کے جزیہ بھی جزائے کفر نہیں، ورنہ سب کفار کو عام ہوتا۔ جب جزیہ کہ سیف سے اخف ہے، جزائے کفر نہیں تو سیف جو کہ اشد ہے، کیسے جزائے کفر ہوگی؟ (۴) اگر کسی وقت مسلمانوں کی مصلحت ہو تو کفار سے صلح بلاشرط مالی بھی جائز ہے۔ (۵) اگر حالات وقتیہ مقتضی ہوں تو خود مال دے کر بھی صلح جائز ہے۔ ان اجزاء کی دونوں دفعات سے معلوم ہوا کہ جزیہ جس طرح جزائے کفر نہیں، جیسا کہ دفعہ ۳ سے معلوم ہوا، اسی طرح وہ مقصود بالذات بھی نہیں، ورنہ دفعات مذکور مشروع نہ ہوتے تو ضرور اس کی کوئی ایسی علت ہے جو ان دفعات کے ساتھ جمع ہو سکتی ہے اور وہ حسب تصریح حکمائے امت کما فی الہدایہ وغیرہا سیف کی غرض اعزاز دین ودفع فساد ہے اور جزیہ کی غرض یہ ہے کہ جب ہم ہر طرح ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس حفاظت میں اپنی جان ومال صرف کرتے ہیں تو اس کا صلہ یہ تھا کہ وہ بھی حاجت کے وقت ہماری نصرت بالنفس ہی کرتے، مگر ہم نے ان کو قانوناً اس سے بھی سبک دوش کر دیا، اس لیے کم از کم ان کو کچھ مختصر ٹیکس مالی ادا کرنا چاہیے تاکہ یہ نصرت بالمال اس نصرت بالنفس کا من وجہ بدل ہو جاوے۔یہ اغراض ہیں سیف اور جزیہ کے اور یہی وجہ ہے کہ جب اعداء دین سے احتمال فساد کا نہیں رہتا تو سیف مرتفع ہو جاتی ہے جس کے تحقق کی ایک صورت قبول جزیہ ہے، ایک صورت صلح ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ جو لوگ نصرت بالنفس پر، جو کہ ان پر عقلاً واجب تھی، قادر نہیں، ان سے نصرت بالمال بھی معاف کر دی گئی ہے۔ البتہ چونکہ احتمال فساد کا موثوق بانتفاء عادۃً موقوف ہے حکومت وسلطنت پر چنانچہ تمام ملوک وسلاطین کا، گو وہ اہل ملل بھی نہ ہوں، یہ اجماعی مسئلہ ہے، اس لیے ایسی کسی صورت کو بحالت اختیار گوارا نہیں کیا گیا جس میں اسلام کی قوت وشوکت کو صدمہ پہنچے۔‘‘ (بوادر النوادر ص ۵۰۸، ۵۰۹)

آخری سطور میں بیان کردہ نکتے کی انھوں نے ایک دوسری جگہ توضیح کی ہے۔ فرماتے ہیں:

’’جہاد اسلام کی مدافعت اور حفاظت خود اختیاری کے لیے ہے ..... اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ جہاد میں ابتدا نہ کی جائے۔ خود ابتدا کرنے کی غرض بھی یہی مدافعت وحفاظت ہے کیونکہ بدون غلبہ کے احتمال ہے مزاحمت کا، اسی مزاحمت کے انسداد کے لیے اس کا حکم کیا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو مدافعت غایت ہے جہاد کی، وہ عام ہے مزاحمت واقع فی الحال کی مدافعت کو اور مزاحمت متوقعہ فی الاستقبال کی مدافعت کو۔‘‘ (الافاضات الیومیہ، جلد ششم ملفوظ ۴۹۷)

مولانا کی اس راے میں ایک مزید قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلام کے سیاسی غلبہ، اعلاء کلمۃ اللہ اور کفر اور اہل کفر کے اذلال کو بالذات مقصود قرار دینے کے بجاے جہاد کو علی الاطلاق لازم قرار دینے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ ’’احتمال فساد کا موثوق بانتفاء عادۃً موقوف ہے حکومت وسلطنت پر‘‘ جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ چونکہ تجربہ اور عادت سے یہ معلوم ہوا ہے کہ فتنہ وفساد کے خواہاں گروہوں کو جب تم حکومت واقتدار کے زور پر محکوم نہ بنا لیا جائے، ان کو ان کی روش سے باز رکھنا ممکن نہیں، اس لیے حصول مقصد کا قابل اعتماد طریقہ یہی ہے کہ کفار کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں لے آیا جائے۔ 

مولانا تھانوی کے اس موقف میں یہ سوال پھر تشنہ جواب رہ جاتا ہے کہ انھوں نے قتال کے حکم کو کفار کی طرف سے فتنہ وفساد کے واقعی یا متوقع امکان کے ساتھ مشروط کیے بغیر محض اس امکان کے پیش نظر مطلق قرار دیا ہے کہ کفار مستقبل میں کسی وقت بھی فتنہ وفساد پر آمادہ ہو سکتے ہیں، جبکہ قرآن مجید نے واضح طور پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسے گروہوں کی نشان دہی کی ہے جو کسی بھی لحاظ سے مسلمانوں کے معاند یا دشمن نہیں اور ان کے اس غیر جانبدارانہ رویے ہی کی بنیاد پر ان کے ساتھ فتنہ پرداز گروہ سے مختلف رویہ اختیار کرنے کی تلقین بھی کی ہے۔ ایسے گروہ اور اقوام ہر زمانے میں نہ صرف پائے جا سکتے ہیں بلکہ حقیقتاً پائے بھی جاتے ہیں، چنانچہ یہ اشکال جوں کا توں باقی رہتا ہے کہ فتنہ وفساد اور عداوت وعناد کی علت واقعہ کے لحاظ سے نہ پائے جانے کی صورت میں کسی غیر مسلم قوم کے خلاف تلوار اٹھانے کا کیا اخلاقی جواز پیش جا سکتا ہے؟ 

(iv) بعض معاصر اہل علم نے یہ راے یہ پیش کی ہے کہ جہاد دراصل دعوت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور چونکہ کسی کافر حکومت کا دنیا میں برسر اقتدار رہنا اور دنیاوی قوت وشوکت سے بہرہ ور ہونا بذات خود لوگوں کے قبول اسلام میں ایک رکاوٹ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے کفار کے اقتدار اور سیاسی خود مختاری کے خاتمہ کا مطلب دراصل دعوت اسلام کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ کا خاتمہ ہے۔ مولانا محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

’’تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ صرف اسی کا نام نہیں کہ غیر مسلم حکومت تبلیغ پر قانونی پابندی عائد کر دے، بلکہ کسی غیر مسلم حکومت کا مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پر شوکت ہونا بذات خود دین حق کی تبلیغ کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ آج دنیا کے بیشتر ممالک میں تبلیغ پر کوئی قانونی پابندی عائد نہیں، لیکن چونکہ دنیا میں ان کی شوکت اور دبدبہ قائم ہے، اس لیے اسی شوکت اور دبدبے کی وجہ سے ایک ایسی عالمگیر ذہنیت پیدا ہو گئی ہے جو قبول حق کے راستے میں تبلیغ پر قانونی پابندی لگانے سے زیادہ بڑی رکاوٹ ہے۔ لہٰذا کفار کی اس شوکت کو توڑنا جہاد کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے، تاکہ اس شوکت کی بنا پر جو نفسیاتی مرعوبیت لوگوں میں پیدا ہو گئی ہے، وہ ٹوٹے اور قبول حق کی راہ ہموار ہو جائے۔ جب تک یہ شوکت اور غلبہ باقی رہے گا، لوگوں کے دل اس سے مرعوب رہیں گے اور دین حق کو قبول کرنے کے لیے پوری طرح آمادہ نہ ہو سکیں گے، لہٰذا جہاد جاری رہے گا۔‘‘ (فقہی مقالات، ص۳/۳۰۱)

یہ توجیہ بھی بہرحال روایتی فقہی نقطہ نظر سے بہت حد تک مختلف ہے۔ فقہا نہ تو دعوت اسلام کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ کے طور پر شوکت کفر کے ازالے کو جہاد کا باعث قرار دیتے ہیں اور نہ وہ قوت وشوکت کے حامل اور غیر حامل کفار میں کسی فرق کے قائل ہیں، جبکہ مولانا کو اپنی توجیہ کے ایک منطقی نتیجے کے طور پر اس فرق کو تسلیم کرنا پڑا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ہاں! اگر اسلام اور مسلمانوں کو ایسی قوت وشوکت حاصل ہو جائے جس کے مقابلے میں کفار کی قوت وشوکت مغلوب ہو یا کم از کم وہ فتنے پیدا نہ کر سکے جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے تو اس حالت میں غیر مسلم ممالک سے پرامن معاہدوں کے ذریعے مصالحانہ تعلقات قائم رکھنا جہاد کے احکام کے منافی نہیں۔ اسی طرح جب تک کفر کی شوکت توڑنے کے لیے ضروری استطاعت مسلمانوں کو حاصل نہ ہو، اس وقت تک وسائل قوت کو جمع کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے ملکوں سے پر امن معاہدے بھی بلاشبہ جائز ہیں۔ گویا غیر مسلم ملکوں سے معاہدے دو صورتوں میں ہو سکتے ہیں:

(۱) جن ملکوں کی قوت وشوکت سے مسلمانوں کی قوت وشوکت کو کوئی خطرہ باقی نہ رہا ہو، ان سے مصالحانہ اور پرامن معاہدے کیے جا سکتے ہیں جب تک وہ دوبارہ مسلمانوں کی شوکت کے لیے خطرہ نہ بنیں۔

(۲) مسلمانوں کے پاس جہاد بالسیف کی استطاعت نہ ہو تو استطاعت پیدا ہونے تک معاہدے کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ (فقہی مقالات، ۳/۳۰۶، ۳۰۷)

(v) قتال کی علت دفع محاربہ کو قرار دیا جائے یا دعوت اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے ازالے کو، عقلی طور پر نفس ’کفر‘ کو اس کی علت ماننے سے گریز کے بعد مختلف غیر مسلم گروہوں میں عملی امتیاز قائم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، چنانچہ دور جدید کے بعض حنفی اہل علم نے یہی نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ کفار کے خلاف قتال صرف اس صورت میں کیا جائے گا جب وہ عملاً کسی جارحیت کے مرتکب ہوں یا ان کی جانب سے اس کا کوئی حقیقی اور واقعی خطرہ موجود ہو۔ فتاویٰ دار العلوم دیوبند کے مرتب مولانا مفتی ظفیر الدین لکھتے ہیں:

’’کیا ان آیتوں میں کفر وشرک کا یہ مزاج صاف نہیں جھلکتا ہے کہ یہ عہد شکن، دوسرے دین کو برا کہنے والے، جنگ وجدال میں پہل کرنے والے، قتل وخون ریزی کے دل دادہ اور مجسم فتنہ وفساد ہیں، جن کی نگاہوں میں نہ قسم اور عہد وپیمان کی کوئی قیمت ہے، نہ فضائل اخلاق کے لیے کوئی اصول ہے، طاقت پا کر وہ سب کر گزرتے ہیں جس سے انسانیت اپنا سر پیٹ لیتی ہے۔ ان حالات میں جب ایک طرف سے یہ ساری چیزیں پائی جائیں، کیا یہ مناسب ہوگا کہ دوسری طرف والے ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہیں اور فتنہ وفساد کو کچلنے کی جدوجہد نہ کریں؟ ایک سلیم الطبع انسان اس فیصلہ پر مجبور ہوگا کہ جب ایسا وقت آئے تو مقابلہ کرنا اور ظلم وتعدی کا گلا گھونٹنا صرف ایک قوم کے لیے مفید نہیں بلکہ پوری کائنات انسانی پر احسان عظیم ہے۔ مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ سارے کافر اسی مزاج کے ہوتے ہیں۔ یقیناًان کے یہاں بھی کچھ لوگ سمجھ دار، رحم دل اور دور اندیش ہوتے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ ایسے ہوں، ان سے رواداری اور احسان کا برتاؤ کیا جائے۔ ....... معلوم ہوا کہ کافروں کے جو ممالک یا ان کی جو جماعتیں محارب ومخالف کی حیثیت نہیں رکھتی ہیں، ان سے تعلقات بہتر رکھے جائیں گے اور جو ممالک یا جماعتیں محارب ومخالف ہوں گی، ان میں اسلام اور مسلمانوں کو برداشت کرنے کا جذبہ نہیں ہوگا، ان سے اجتناب اور بوقت ضرورت مقابلہ کیا جائے گا۔‘‘ (اسلام کا نظام امن، ص ۱۳۶، ۱۳۷)

’’جو لوگ مسلمانوں کے خلاف صف آرا ہوں، یا دین کی تبلیغ میں مزاحم ہوں، یا اس طرح کی کوئی اور چیز ان میں مسلمانوں اور ان کے مذہب کے خلاف پائی جائے، ایسے لوگوں کو بخشنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ قوت اگر ہے تو بہرحال ان کا مقابلہ کیا جائے گا، لیکن اگر وہ کسی طرح بھی اسلام اور پیروان اسلام کے لیے نقصان دی نہیں ہے اور یہ مظالم اور مردم آزاری میں مبتلا نہیں تو خواہ مخواہ ان سے جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر ان کی طرف سے اس طرح کا کوئی خطرہ یا اندیشہ ہے کہ وہ قتال سے باز نہیں آئیں گے اور یہ کہ دیر سویر فتنہ فساد کریں گے تو پھر جہاد کی اجازت ہوگی۔‘‘ (اسلام کا نظام امن، ص ۱۲۶)

حنفی مکتبہ فکر کے ایک دوسرے جید عالم مولانا شمس الحق افغانی غیر محارب کفار کے ساتھ صلح وامن کی تعلیم دینے والی آیات کو، کلاسیکل فقہی نقطہ نظر کے برعکس، منسوخ قرار نہیں دیتے ، چنانچہ ان سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’خداوند تعالیٰ کا یہ ارشاد: وان جنحوا للسلم فاجنح لہا (انفال) ’’اگر کفار کا محارب فریق صلح کے لیے جھک جائے تو تم بھی جھک جاؤ‘‘ اور یہ کیوں نہ فرمایا گیا کہ ’’اسلام یا تلوار‘‘؟ لا ینہاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروہم وتقسطوا الیہم ان اللہ یحب المقسطین۔ تم کو اللہ ان کفار کے متعلق جو تم سے دین کی وجہ سے نہیں لڑے اور نہ تم کو تمھارے گھروں سے نکالا، اس سے نہیں روکتا کہ ان کفار سے تم احسان کرو اور ان کافروں سے منصفانہ سلوک کرو۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ ان کافروں سے ایسا کیوں نہ کہا گیا کہ اسلام لاؤ ورنہ تلوار ہے۔ سورہ نساء میں خدا کا حکم قرآنی ہے: ’’فان اعتزلوکم ولم یقاتلوکم والقوا الیکم السلم فما جعل اللہ لکم علیہم سبیلا۔ ’’اگر وہ کفار تم سے کنارہ کریں پھر نہ لڑیں اور وہ تمھارے سامنے صلح کا پیغام ڈالیں تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان پر حملہ کرنے کی راہ نہیں دی ہے‘‘۔ قرآن حکیم اس قسم کے مضامین سے پر ہے۔‘‘ (مقالات افغانی، ۱/۷۸، ۷۹)

اس وقت امت مسلمہ نے بحیثیت مجموعی عالمی سیاست اور قانون بین الاقوام کے دائرے میں اسی نقطہ نظر کو اختیار کر لیا ہے، چنانچہ عالم اسلام کے تمام ممالک دنیا کے اس سیاسی وقانونی نظام کا حصہ ہیں جس کی نمائندگی بین الاقوامی سطح پر اقوام متحدہ کا ادارہ کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں طاقت کے استعمال کے حوالے سے دو اصول واضح طور پر طے کیے گئے ہیں: 

ایک یہ کہ اقوام عالم کی مذہبی آزادی اور سیاسی خود مختاری کو مسلمہ اصول کی حیثیت حاصل ہے، چنانچہ اقوام متحدہ کے قیام کے مقاصد کے ذیل میں لکھا ہے:

’’قوموں کے مابین انسانوں کے حق خود ارادیت اور مساوی حقوق کے اصول کے احترام پر مبنی دوستانہ تعلقات کا فروغ ، اور عالمی امن کو استحکام دینے کے لیے دیگر مناسب اقدامات کرنا۔

معاشی، سماجی، ثقافتی یا انسانی نوعیت کے بین الاقوامی مسائل کے حل، انسانی حقوق کے احترام کی حوصلہ افزائی اور فروغ، اور نسل، جنس، زبان یا مذہب کی تفریق کے بغیر تمام انسانوں کے لیے بنیادی آزادیوں کے حصول کے لیے بین الاقوامی سطح پر باہمی تعاون حاصل کرنا۔‘‘ (آرٹیکل ۱، شق ۲ و ۳)

نیز لکھا ہے:

’’تمام رکن ممالک اپنے بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ملک کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال یا دھمکی سے باز رہیں گے۔ اسی طرح وہ کوئی بھی ایسا انداز اختیار نہیں کریں گے جو اقوام متحدہ کے مقاصد سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔‘‘ (آرٹیکل ۲، شق ۴)

دوسرے یہ کہ اقوام کے باہمی تنازعات میں طاقت اور اسلحہ کے استعمال کا جواز صرف ’دفاع‘ کی حد تک محدود ہے:

’’تمام رکن ممالک اپنے بین الاقوامی تنازعات کو پر امن ذرائع سے اس انداز میں حل کریں گے کہ عالمی امن، تحفظ اور انصاف کو خطرہ لاحق نہ ہو۔‘‘ (آرٹیکل ۲، شق ۳ )

’’اگر اقوام متحدہ کے کسی رکن ملک کے خلاف مسلح حملہ ہوتا ہے تو اس چارٹر کی کوئی شق انفرادی یا اجتماعی دفاع کے حق پر اثر انداز نہیں ہوگی، جب تک کہ سلامتی کونسل عالمی وامن وحفاظت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اقدامات نہ کر لے۔ دفاع کے حق کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بھی ملک جو اقدامات کرے، ان کی فوری طور پر سلامتی کونسل کو اطلاع دی جائے گی اور یہ اقدامات اس چارٹر میں دیے گئے سلامتی کونسل کے اس اختیار اور ذمہ داری کو متاثر نہیں کر سکیں گے کہ وہ عالمی امن وامان کو قائم رکھنے یا بحال کرنے کے لیے کسی بھی وقت ایسا ایکشن لے سکتی ہے جسے ضروری خیال کیا جائے۔‘‘ (آرٹیکل ۵۱)

اقوام متحدہ کے مذکورہ چارٹر پر تمام مسلمان ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں اور مسلم ممالک کے اہل علم کی ایک عمومی تائید بھی اس معاہدے کو حاصل ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کی بعض شقوں کے حوالے سے عالم اسلام کے مختلف حلقوں کی جانب سے بعض تحفظات وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ہمارے علم میں اسلام کا نمائندہ سمجھے جانے والا کوئی ذمہ دار مذہبی حلقہ یا شخصیت ایسی نہیں ہے جس نے جنگ کے جواز اور قوت وطاقت کے استعمال کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اختیار کردہ مذکورہ موقف کو اسلامی فلسفہ جنگ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کی ہو یا اس بات کی وضاحت مناسب سمجھی ہو کہ اس معاہدے میں شریک ہونے کا جواز محض معروضی حالات کی حد تک ہے اور جیسے ہی مسلمانوں کو مناسب قوت حاصل ہوگی، اس سے براء ت کا اعلان واجب ہو جائے گا۔

جہاد کے توسیعی اہداف؟

جہاد کے کلاسیکی تصور میں اعلاء کلمۃ اللہ کو ہدف اور غایت قرار دے کر اس کے حصول کے لیے جہاد کو فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے، تاہم یہ تصور پورے معمورۂ ارضی پر اسلام کا غلبہ قائم کرنے یا دوسرے لفظوں میں ایک عالمگیر اسلامی ریاست قائم کرنے کو اپنا ہدف قرار نہیں دیتا۔ فقہا کی تصریحات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ جہاد کے ذریعے اسلامی سلطنت کی توسیع کو زمان ومکان میں محدود مانتے ہے اور ابتدائی صدیوں میں توسیع سلطنت کا یہ سلسلہ جس جگہ پہنچ کر فطری طور پر رک گیا تھا، اصلاً اسی کی حفاظت اور دفاع کو جہاد کا ہدف قرار دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے فقہا کے نزدیک عمل جہاد کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے محض علامتی اقدامات پر اکتفا کرنا کافی ہے۔ چنانچہ جہاد کے فرض کفایہ کی ادائیگی کی صورت وہ یہ بتاتے ہیں کہ مسلم حکمران سال میں کم از کم ایک دفعہ حملہ آور ہو کر دشمن کے علاقے میں داخل ہو جائے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ جب تک وہ علاقہ فتح نہ ہو جائے، مسلمان اس محاذ پر مسلسل داد شجاعت دیتے رہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں:

واقل ما یجب علیہ ان لا یاتی علیہ عام الا ولہ فیہ غزو حتی لا یکون الجہاد معطلا فی عام الا من عذر واذا غزا عاما قابلا غزا بلدا غیرہ ولا یتابع الغزو علی بلد ویعطل من بلاد المشرکین غیرہ (الام، ۴/۱۶۸)

’’اس فریضے کی ادائیگی کی کم سے کم صورت یہ ہے کہ کوئی سال ایسا نہ گزرے جس میں دشمن پر حملہ نہ کیا جائے، تاکہ کسی عذر کے بغیر جہاد کا عمل معطل نہ رہے۔ اور جب حکمران آئندہ سال حملہ کرے تو کسی دوسرے علاقے پر کرے اور ایسا نہ کرے کہ ایک ہی علاقے پر بار بار حملہ کرتا رہے اور اس کے علاوہ کفار کے دوسرے علاقوں کو نظر انداز کر دے۔‘‘

یہ جزئیہ اس حوالے سے قابل غور ہے کہ اس میں جہاد کو کسی مخصوص غایت مثلاً کفار کے علاقوں پر غلبہ حاصل کرنے کے ساتھ وابستہ کر کے مسلسل پیش قدمی کو لازم قرار دینے کے بجائے نفس ’قتال‘ کو بذات خود ایک مقصد قرار دے کر اس کی ادائیگی کا ایک طریقہ بتلا دیا گیا ہے۔ اس جزئیے کا مفہوم بین السطور یہ ہے کہ چونکہ قتال مسلمانوں پر لازم کیا گیا ہے، اس لیے اس فریضے کی ادائیگی کے لیے سال میں ایک دفعہ کفار پر حملہ آور ہو جانا کافی ہے۔ کفار کے علاقوں پر مسلسل قبضہ کرتے چلے جانا اور اسلامی سلطنت کی پیہم توسیع ان فقہا کے پیش نظر نہیں ہے۔ اس صورت میں یہ بس ایک علامتی کارروائی بن جاتی ہے جس کا مقصد قتال کے حکم کو محض اس کے ظاہر کے لحاظ سے پورا کر دینا ہے۔ 

فقہاے متاخرین کی کتب میں اس جزئیے میں بھی مزید ترمیم کر دی گئی اور یہ کہا گیا کہ ’قتال‘ کا فرض کفایہ ادا کرنے کی صورت صرف یہی نہیں کہ دشمن کے علاقے میں داخل ہو کر اس پر حملہ کیا جائے، بلکہ اگر مسلم حکومت محض اپنی سرحدوں پر فوج کی تعیناتی کا اہتمام کرلے تو بھی یہ فرض ادا ہو جائے گا۔ شہاب الدین الرملی اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:

ویسقط ہذا الفرض باحد امرین اما ان یشحن الامام الثغور بالرجال المکافئین للعدو فی القتال ویولی علی کل نفر امینا کافیا یقلدہ امر الجہاد وامور المسلمین واما ان یدخل علی دار الکفر غازیا بنفسہ بالجیوش او یومر علیہم من یصلح لذلک واقلہ مرۃ فی کل سنۃ (فتاویٰ شہاب الدین الرملی، بہامش فتاویٰ ابن حجر المکی، ۴/۴۴، ۴۵)

’’جہاد کا فرض کفایہ دو میں سے کسی ایک صورت میں ادا ہو جائے گا۔ ایک یہ کہ حکمران سرحدوں پر اتنی فوج جمع کر دے جو لڑائی میں دشمن کا مقابلہ کر سکیں اور ہر گروہ پر ایک ذمہ دار مقرر کر دے جس کو جہاد اور مسلمانوں کے دوسرے امور کی ذمہ داری سونپ دی جائے۔ دوسری یہ کہ حملہ کرتے ہوئے کفار کے علاقے میں داخل ہو جائے، چاہے بذات خود لشکر کی قیادت کرتا ہوا جائے یا کسی اہل آدمی کو ان کا امیر بنا کر بھیج دے۔ اس دوسری صورت میں سال میں کم سے کم ایک دفعہ حملہ کرنا ضروری ہے۔‘‘

اسی رجحان کی جھلک فقہا کے ہاں پیدا ہونے والی اس بحث میں بھی دکھائی دیتی ہے کہ کیا جنگ کرنے سے پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دینے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اکابر اہل علم کی رائے یہ تھی کہ اس کی ضرورت باقی نہیں رہی:

قال احمد کان النبی یدعو الی الاسلام قبل ان یحارب حتی اظہر اللہ الدین وعلا الاسلام ولا اعرف الیوم احدا یدعی قد بلغت الدعوۃ کل احد والروم قد بلغتہم الدعوۃ وعلموا ما یراد منہم وانما کانت الدعوۃ فی اول الاسلام (ابن قدامہ، المغنی، مسئلہ ۷۴۳۶)

’’امام احمد فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے پہلے دشمن کو اسلام کی دعوت دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اللہ نے دین کو غالب کر دیا اور اسلام سربلند ہو گیا۔ میرے خیال میں آج کسی شخص کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں، کیونکہ سب تک دعوت پہنچ چکی ہے۔ رومیوں تک بھی دعوت پہنچ چکی ہے اور انھیں معلوم ہے کہ ان سے کیا چیز مطلوب ہے۔ دعوت دینا صرف اسلام کے ابتدائی زمانے میں ضروری تھا۔‘‘

وقد قال بعض الفقہاء والتابعین: انہ لیس احد من اہل الشرک ممن یبلغہ جنودنا الا وقد بلغتہ الدعوۃ وحل للمسلمین قتالہم من غیر دعوۃ (ابو یوسف، الخراج، ص ۲۰۷)

’’بعض فقہا اور تابعین نے فرمایا ہے کہ جن اہل کفر تک ہمارے لشکر پہنچ چکے ہیں، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس تک دعوت نہ پہنچ چکی ہو۔ اب مسلمانوں کے لیے دعوت دیے بغیر ان کے ساتھ قتال کرنا جائز ہے۔‘‘

یہ نکتہ اس پہلو سے قابل غور ہے کہ مذکورہ فقہا نے جس طرح سے اسلام کی دعوت کو عام قرار دے کر مزید اس کا اہتمام کرنے کو غیر ضروری قرار دیا ہے، اس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ جہاد وقتال میں ان کے پیش نظر ساری دنیا کے کفار نہیں، بلکہ وہ مخصوص قومیں ہیں جن تک ایک تسلسل کے ساتھ اسلام کی دعوت پہنچ چکی تھی، اس لیے کہ ساری دنیا کے غیر مسلموں تک، بالخصوص جنوبی ایشیا، مغربی یورپ اور وسطی وجنوبی افریقہ کے علاقوں میں، اسلام کی دعوت ان فقہا کے زمانے میں نہیں پہنچی تھی۔ چنانچہ یہ دعویٰ کہ ’’تمام لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہے‘‘، صرف اسی صورت میں درست مانا جا سکتا ہے جب اس کو بعض مخصوص قوموں کے تناظر میں دیکھا جائے۔

ابن حجر نے فرضیت جہاد کی نوعیت متعین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حین حیات میں مسلمانوں پر عائد ہونے والی ذمہ داری اور آپ کے بعد اس فریضے کی ادائیگی کا حکم مختلف ہے۔ آپ کی حیات میں کچھ گروہ مثلاً انصار اور مہاجرین اس ذمہ داری کے لیے خاص طورپر مسؤل تھے، جبکہ باقی لوگوں کے لیے یہ فرض کفایہ کی حیثیت رکھتا تھا، تاہم آپ کے بعد فقہا کے مشہور قول کے مطابق یہ فرض کفایہ ہے جس کی ادائیگی کا طریقہ جمہور کے نزدیک یہ ہے کہ سال میں ایک مرتبہ کسی نہ کسی محاذ پر کفار کے خلاف جنگ کی جائے یا جب بھی ممکن ہو، ان کے خلاف اقدام کیا جائے۔ ہاں اگر دشمن کسی علاقے پر حملہ آور ہو جائے تو اس صورت میں حکمران جن لوگوں کو اس کے لیے منتخب کرے گا، ان پر فرض عین ہو جائے گا۔ بحث کے آخر میں ابن حجر نے اپنا جو رجحان بیان کیا ہے، وہ توجہ طلب ہے۔ لکھتے ہیں:

والذی یظہر انہ استمر علی ما کان علیہ فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی ان تکاملت فتوح معظم البلاد وانتشر الاسلام فی اقطار الارض ثم صار الی ما تقدم ذکرہ (فتح الباری ۶/۳۸)

’’قرین قیاس بات یہ ہے کہ جہاد کی فرضیت کا معاملہ اسی حالت پر رہا جیسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھا، یہاں تک کہ بڑے بڑے ممالک فتح ہو گئے اور اسلام زمین کے اطراف واقطار میں پھیل گیا۔ اس کے بعد اس کے فرض ہونے کی نوعیت وہ ہو گئی جس کا ابھی ذکر کیا گیا۔‘‘

مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ کلاسیکی علمی وفقہی روایت میں پوری دنیا پر اسلام کے غلبے کو جہاد کا ہدف قرار نہیں دیا گیا، البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی احادیث کی روشنی میں یہ بات ایک پیش گوئی کی حیثیت سے ضرور بیان کی جاتی ہے جو سیدنا مسیح علیہ السلام کے نزول اور امام مہدی کے ظہور کے زمانے میں پوری ہوگی۔ اس حوالے سے علامہ انور شاہ کشمیری کی رائے کا ذکر بھی یہاں دلچسپی کا باعث ہوگا جو اس عام رائے کو غلط قرار دیتے ہیں جس کے مطابق سیدنا مسیح کے نزول ثانی کے موقع پر ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ روایات میں اس موقع پر ساری سرزمین پر اسلام کے غالب آنے کا جو ذکر ہوا ہے، اس سے مراد پوری روے زمین نہیں، بلکہ شام اور اس کے گرد ونواح کا مخصوص علاقہ ہے جہاں ان کا ظہور ہوگا اور جو اس وقت اہل اسلام اور اہل کفر کے مابین کشمکش اور جنگ وجدال کا مرکز ہوگا۔ لکھتے ہیں:

ان الغلبۃ المعہودۃ انما ہی بالارض التی ینزل بہا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام لا علی البسیطۃ کلہا وما ذالک الا من تبادر الاوہام فقط (فیض الباری، ۴/ ۳۴۳)

’’جس غلبے کا حدیث میں ذکر ہوا ہے، وہ اس سرزمین میں ہوگا جہاں حضرت عیسیٰ نازل ہوں گے، نہ کہ پورے کرۂ ارضی پر۔ یہ خیال بس یوں ہی لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو گیا ہے۔‘‘

دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک اور جلیل القدر محدث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ہاں بھی یہی رجحان دکھائی دیتا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 

’’امام مہدی کی پیدائش اور آمد سے پہلے دنیا میں جو ظلم وجور ہوگا، اللہ کے فضل وکرم سے اقتدار میں آنے کے بعد زیر اثر علاقہ میں وہ عدل وانصاف قائم کریں گے اور نا انصافی کو نیست ونابود کر دیں گے۔‘‘ (ارشاد الشیعہ، ص ۱۹۵) 

’’دجال لعین کے قتل کے بعد جس علاقہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اقتدار ہوگا، وہاں بغیر اسلام کے اورکوئی مذہب باقی نہ رہے گا۔‘‘ (ایضاً، ص ۲۰۱)

جہاد کی فرضیت

جمہور فقہا کا نقطہ نظر یہ رہا ہے کہ جہاد کا آغاز کرنے کے لیے کفار کی طرف سے کسی جارحیت یا اشتعال انگیز رویے (Provocation) کا پایا جانا ضروری نہیں، بلکہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کے جارحانہ عزائم نہ رکھتی ہو، تب بھی اس کے ساتھ برسر جنگ ہونا مسلمانوں پر واجب ہے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۱۸۸) ابن الہمام لکھتے ہیں:

وقتال الکفار ..... واجب وان لم یبدء ونا لان الادلۃ الموجبۃ لہ لم تقید الوجوب ببداء تہم (فتح القدیر ۱۲/۳۸۵)

’’کفار کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے، اگرچہ وہ ہمارے خلاف اس کا آغاز نہ کریں، کیونکہ جہاد کو واجب کرنے والے دلائل میں اس کے وجوب کو اس سے مشروط نہیں کیا گیا کہ پہل کفار کی طرف سے کی گئی ہو۔‘‘

اسی طرح کسی کافر قوم کے ساتھ صلح کا دائمی معاہدہ فلسفہ جہاد کے منافی ہے، لہٰذا کفار کے ساتھ ’مہادنہ‘ یعنی برابری کی سطح پر صلح کے تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اور اگر کوئی غیر مسلم قوم اس کی خواہاں ہو تو اس کی پیش کش قبول نہیں کی جائے گی۔ (الشیبانی، کتاب السیر والخراج والعشر، ۱۵۴) ہاں، اگر مسلمان ان کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں یا کوئی دوسری سیاسی یا مذہبی مصلحت پیش نظر ہو تو دو شرطوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے:

ایک یہ کہ معاہدہ محدود مدت کے لیے ہو، کیونکہ دائمی صلح کی صورت میں جہاد کا بالکلیہ ترک کر دینا لازم آتا ہے۔ اس صورت میں بعض فقہا کے نزدیک چار مہینے سے زیادہ مدت کے لیے صلح نہیں کی جا سکتی، بعض کے نزدیک اس کی مدت زیادہ سے زیادہ دس سال ہے، جبکہ بعض کی رائے میں حالات ومصالح کے لحاظ سے کسی بھی مخصوص مدت کے لیے صلح کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے، البتہ کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کم سے کم مدت کے لیے معاہدۂ صلح کی پابند ی اختیار کی جائے۔ (ابن قدامہ، المغنی، ۹/۷۵۹۰، ۷۵۹۱ ۔ نیز دیکھیے الام ۴/۲۰۴) 

دوسری یہ کہ صلح کا معاہدہ محض اس وقت تک برقرار رکھا جائے گا جب تک کہ وہ مصلحت جس کے پیش نظر صلح کی گئی ہے، باقی ہو یا مسلمانوں کی جنگی استعداد جہاد کی متحمل نہ ہو۔ صورت حال تبدیل ہونے پر معاہدۂ صلح کو ختم کر کے کفار کے خلاف اقدام کرنا لازم ہے۔ (سرخسی، المبسوط، ۱۰/۸۶) 

تاہم مذکورہ رائے کے برعکس فقہا کے ایک گروہ کی رائے یہ بھی رہی ہے کہ جو کفار مسلمانوں کے خلاف جنگ کی ابتدا نہ کریں، ان کے خلاف قتال فرض نہیں۔ مثال کے طور پر طبری نے ’کتب علیکم القتال‘ (البقرہ ۲: ۲۱۶) کے تحت جلیل القدر تابعی مفسر عطاء رحمہ اللہ کی یہ رائے تھی کہ مسلمانوں پر جہاد فرض نہیں اور مذکورہ قرآنی حکم صرف صحابہ کے ساتھ خاص تھا۔ اسی طرح عمرو بن دینار کی رائے بھی یہی تھی کہ کفار پر حملہ کرنا واجب نہیں:

عن ابن جریج قال قلت لعطاء اواجب الغزو علی الناس فقال ہو وعمرو بن دینار ما علمناہ (جصاص، احکام القرآن ۳/۱۱۳)

’’ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا کفار پر حملہ آور ہونا مسلمانوں پر واجب ہے؟ تو عطاء اور عمرو بن دینار دونوں نے کہا کہ ہماری رائے میں واجب نہیں ہے۔‘‘

سفیان ثوری سے یہ رائے منقول ہے کہ کفار جب تک مسلمانوں کے خلاف قتال کی ابتدا نہ کریں، ان کے خلاف جنگ کرنا لازم نہیں۔ امام محمد ’السیر الکبیر‘ میں لکھتے ہیں:

کان الثوری یقول القتال مع المشرکین لیس بفرض الا ان تکون البدایۃ منہم فحینئذ یجب قتالہم دفعا لظاہر قولہ فان قاتلوکم فاقتلوہم وقولہ وقاتلوا المشرکین کافۃ کما یقاتلونکم کافۃ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۱۸۷)

’’سفیان ثوری کہتے تھے کہ جب تک کفار جنگ کا آغاز نہ کریں، ان کے ساتھ لڑنا فرض نہیں۔ ہاں اگر وہ حملہ کریں تو پھر دفاع میں ان سے لڑنا فرض ہے۔ ان کا استدلال اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے ہے کہ ’’پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انھیں قتل کرو‘‘ اور ’’تم بھی مل کر مشرکین سے لڑو جیسے وہ مل کر تم سے لڑتے ہیں۔‘‘

ان حضرات اور جمہور کے مابین نکتہ اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے جصاص لکھتے ہیں:

وہذا ہو موضع الخلاف بین الفقہاء فی فرض الجہاد فحکی عن ابن شبرمۃ والثوری فی آخرین ان الجہاد تطوع ولیس بفرض (احکام القرآن، ۳/۱۱۳)

’’جہاد کی فرضیت کے باب میں یہ نکتہ فقہا کے مابین محل نزاع ہے، چنانچہ ابن شبرمہ، ثوری اور بعض دیگر اہل علم سے یہ رائے منقول ہے کہ کہ جہاد محض مستحب ہے، فرض نہیں۔‘‘

دوسری جگہ لکھتے ہیں:

موضع الخلاف بینہم انہ متی کان بازاء العدو مقاومین لہ ولا یخافون غلبۃ العدو علیہم ہل یجوز للمسلمین ترک جہادہم حتی یسلموا او یودوا الجزیۃ فکان من قول ابن عمر وعطاء وعمرو بن دینار وابن شبرمۃ انہ جائز للامام والمسلمین ان لا یغزوہم وان یقعدوا عنہم وقال آخرون علی الامام والمسلمین ان یغزوہم ابدا حتی یسلموا او یودوا الجزیۃ (احکام القرآن، ۳/۱۱۴)

’’فقہا کے مابین اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب مسلمانوں کا پلہ دشمن کے برابر ہو اور انھیں دشمن سے مغلوب ہونے کا خدشہ بھی نہ ہو تو کیا مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ انھیں قبول اسلام یا جزیہ کی ادائیگی پر مجبور کرنے کے لیے جہاد نہ کریں؟ ابن عمر، عطا، عمرو بن دینار اور ابن شبرمہ کی رائے یہ ہے کہ اس صورت میں بھی مسلمانوں اور ان کے حکمران کے لیے جائز ہے کہ وہ کفار پر حملہ نہ کریں اور آرام سے بیٹھے رہیں، جبکہ دوسرے فقہا کی رائے میں مسلمانوں اور ان کے حکمران پر ان کے ساتھ جنگ کرنا ہمیشہ واجب ہے یہاں تک کہ وہ یا تو اسلام لے آئیں یا جزیہ دینے کے لیے تیار ہو جائیں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ اہل علم ان آیات کو جن میں غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے، منسوخ نہیں سمجھتے۔ ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں:

ومن الناس من یقول ان ہذہ الآیات غیر منسوخۃ وجائز للمسلمین ترک قتال من لا یقاتلہم من الکفار اذ لم یثبت ان حکم ہذہ الآیات فی النہی عن قتال من اعتزلنا وکف عن قتالنا منسوخ وممن حکی عنہ ان فرض الجہاد غیر ثابت ابن شبرمۃ وسفیان الثوری (احکام القرآن ۲/۲۲۲)

’’بعض علما کی رائے یہ ہے کہ یہ آیات منسوخ نہیں ہیں اور مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ جو کفار ان کے ساتھ جنگ نہیں کرتے، ان کے خلاف نہ لڑیں، کیونکہ یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں کہ ان آیات میں مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے گریز کرنے والے کفار کے خلاف نہ لڑنے کا جو حکم دیا گیا ہے، وہ منسوخ ہو چکا ہے۔ جن اہل علم سے جہاد کے فرض نہ ہونے کی رائے منقول ہے، ان میں ابن شبرمہ اور سفیان ثوری شامل ہیں۔‘‘

ابن رشد اس اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فاما ہل تجوز المہادنۃ؟ فان قوما اجازوہا ابتداء من غیر سبب اذا رای ذلک الامام مصلحۃ للمسلمین وقوم لم یجیزوہا الا لمکان الضرورۃ الداعیۃ لاہل الاسلام من فتنۃ او غیر ذلک .... وسبب اختلافہم فی جواز الصلح من غیر ضرورۃ معارضۃ ظاہر قولہ تعالی فاذا انسلخ الاشہر الحرم فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم وقولہ تعالی قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر لقولہ تعالیٰ وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ فمن رای ان آیۃ الامر بالقتال حتی یسلموا او یعطوا الجزیۃ ناسخۃ لآیۃ الصلح قال لا یجوز الصلح الا من ضرورۃ ومن رای ان آیۃ الصلح مخصصۃ لتلک قال الصلح جائز اذا رای ذلک الامام وعضد تاویلہ بفعلہ ذلک صلی اللہ علیہ وسلم وذلک ان صلحہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الحدیبیۃ لم یکن لموضع الضرورۃ (بدایۃ المجتہد، ۱/۲۸۳، ۲۸۴) 

’’رہا یہ سوال کہ کیا کفار سے صلح کرنا جائز ہے تو ایک گروہ کی رائے میں اگر حکمران اسے مسلمانوں کے حق میں مناسب سمجھے تو کسی مجبوری کے بغیر ازخود بھی کفار سے صلح کرنا جائز ہے۔ ایک دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ اہل اسلام کو نقصان پہنچنے کے خدشے یا اس طرح کی کسی دوسری مجبوری کے بغیر صلح کرنا درست نہیں۔ اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ’فاقتلوا المشرکین‘ اور ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘ کے ارشادات الٰہی بظاہر اس دوسری آیت سے ٹکراتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ‘۔ سو جن فقہا کی رائے میں قتال کا حکم دینے والی آیات نے صلح کی آیت کو منسوخ کر دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ کسی مجبوری کے بغیر کفار سے صلح جائز نہیں۔ اور جن اہل علم کے خیال میں صلح کی آیت قتال کے مذکورہ احکام کے لیے مخصص ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر حکمران مناسب سمجھے تو صلح کرنا جائز ہے۔ نیز یہ آیات کے اس مفہوم کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی پیش کرتے ہیں، کیونکہ حدیبیہ کی صلح آپ نے کسی مجبوری کے تحت نہیں کی تھی۔‘‘

امام طبری بھی غالباً اس رائے کے حق میں رجحان رکھتے ہیں، چنانچہ سورۂ انفال کی آیت ’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا‘ میں کفار کی طرف سے صلح کی پیش کش قبول کرنے کرنے کی جو اصولی ہدایت دی گئی ہے، امام طبری اس کو کسی ایک مخصوص صورت میں محصور نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک اہل کتاب کے ساتھ صلح کی صورتیں تین میں سے کوئی ایک ہو سکتی ہے: یا تو یہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں یا جزیہ ادا کر کے دار الاسلام کے باشندے بن جائیں اور یا مسلمانوں کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر لیں۔ لکھتے ہیں:

(وان جنحوا للسلم فاجنح لہا) وان مالوا الی مسالمتک ومتارکتک الحرب اما بالدخول فی الاسلام واما باعطاء الجزیۃ واما بموادعۃ ونحو ذلک من اسباب السلم والصلح (فاجنح لہا) یقول فمل الیہا وابذل لہم ما مالوا الیہ من ذلک وسالوکہ (تفسیر الطبری، ۱۰/۴۱)

’’وان جنحوا للسلم فاجنح لہا کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ آپ کے ساتھ جنگ کو چھوڑ کر صلح کرنے پر آمادہ ہوں، چاہے اسلام میں داخل ہو کر یا جزیہ ادا کر کے یا صلح کا باہمی معاہدہ کر کے اور اسی طرح صلح کے طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار کر کے، تو آپ بھی اس پر آمادہ ہو جائیں اور کفار آپ سے صلح کا جو مطالبہ کرتے ہیں، اسے قبول کر لیں۔‘‘

مذکورہ اہل علم کا جو استدلال مذکورہ عبارتوں میں نقل ہوا ہے، وہ دو حوالوں سے تشنہ ہے:

ایک یہ کہ اگر جہاد فرض نہیں ہے تو پھر ’فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم‘، ’قاتلوا الذین لا یومنون باللہ‘ اور اس مفہوم کی دیگر آیات کا مطلب کیا ہے جو صراحتاً جہاد کی فرضیت پر دلالت کر رہی ہیں؟ عطاء رحمہ اللہ سے ان آیات کی یہ توجیہ تو منقول ہے کہ ان کے مخاطب خاص صحابہ ہی تھے، لیکن یہ بات واضح نہیں کہ ان کے نزدیک اس تخصیص کی بنیاد کیا ہے۔

دوسرا یہ کہ اگر یہ اہل علم اپنے موقف کی بنیاد ’فان اعتزلوکم فلم یقاتلوکم‘ کے حکم قرآنی کو بناتے ہیں تو اس میں تو غیر محارب کفار کے ساتھ جہاد کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، جبکہ یہ حضرات، منقول استدلال کے مطابق، اس کو ممنوع نہیں بلکہ جائز مانتے ہیں۔ چنانچہ جصاص کا یہ تبصرہ بالکل درست ہے کہ اس موقف کی رو سے بھی زیر بحث حکم کو لازماً منسوخ ماننا پڑے گا۔

مذکورہ اہل علم کی آرا چونکہ اپنے پورے استدلال کے ساتھ تفصیلی صورت میں ہمارے سامنے نہیں ہیں، اس لیے ہم یقین کے ساتھ یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ان کے نزدیک مذکورہ سوالات کی کیا توجیہ ہوگی۔ یہاں ان آرا کا حوالہ محض اس امر کی نشان دہی کے لیے دیا گیا ہے کہ صلح وامن کی ہدایات کو منسوخ یا مخصوص حالات کے ساتھ محدود ماننے کے عام فقہی رجحان کے برخلاف ، ان نصوص کو محکم اور قابل عمل ماننے کا علمی زاویہ نگاہ بھی ماضی میں موجود رہا ہے، اگرچہ اس کو مین اسٹریم فقہی لٹریچر میں کوئی خاص نمائندگی حاصل نہیں ہو سکی۔

جزیہ کے نفاذ میں لچک اور رعایت

قرآن مجید میں جزیہ عائد کرنے کا حکم اصلاً جزیرۂ عرب کے اہل کتاب کے حوالے سے بیان ہوا ہے۔ اگرچہ ان کے علاوہ دوسرے گروہوں پر بھی اشتراک علت کی بنا پر جزیہ کا نفاذ درست تھا، تاہم قرآن مجید میں اس کی تصریح نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بہرحال ایک اجتہادی معاملہ تھا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مجوس اور اہل کتاب کے بہت سے گروہوں سے جزیہ وصول کیا، وہاں مصلحت اور تالیف قلب کے پیش نظر بعض مخصوص گروہوں کو اس سے مستثنیٰ بھی قرار دیا۔ مثال کے طورپر تیسری صدی ہجری کے محدث عبد اللہ بن محمد بن جعفر انصاری نے اپنی کتاب ’طبقات المحدثین باصبہان‘ میں ذکر کیا ہے کہ سیدنا سلمان فارسیؓ کے بھائی ذو فروخ کی نسل میں سے غسان نامی ایک شخص کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لکھا گیا ایک عہد نامہ موجود ہے جو سیدنا علی نے رجب ۹ ہجری میں آپ کے حکم پر لکھا اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی کی مہر بھی موجود ہے۔ تحریر کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عہد نامہ سلمان فارسیؓ کی درخواست پر ان کے اہل خاندان کے نام لکھا۔ اس تحریر میں لکھا ہے کہ:

قد دفعت عنہم جز الناصیۃ والجزیۃ والحشر والعشر وسائر المون والکلف (طبقات المحدثین باصبہان ۱/۲۳۲)

’’میں نے انھیں پیشانی کے بال کاٹنے، جزیہ ادا کرنے، حشر، عشر اور ساری مالی ذمہ داریوں اور ادائیگیوں سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔‘‘ 

ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ کیا مجوس اہل کتاب ہیں؟ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا کہ گھوڑے کی پوجا کرنے والے؟ عطا نے کہا:

وجد کتاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لہم زعموا بعد اذ اراد عمر ان یاخذ الجزیۃ منہم فلما وجدہ ترکہم قال قد زعموا ذلک (مصنف عبد الرزاق، ۱۰۰۲۳)

’’جب سیدنا عمر نے ان سے جزیہ لینا چاہا تو انھوں نے کہا کہ ان کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نوشتہ موجود ہے (جس میں انھیں جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے)۔ جب سیدنا عمر نے یہ تحریر دیکھی تو انھیں چھوڑ دیا۔‘‘

تیسری نظیر مصر کی ہے۔ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کو فتح مصر کی بشارت دی تو ان سے فرمایا کہ اس سرزمین کے باشندوں کے ساتھ تمہاری رشتہ داری ہے، اس لیے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ ابو ذر بیان کرتے ہیں:

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکم ستفتحون مصر وہی ارض یسمی فیہا القیراط فاذا فتحتموہا فاحسنوا الی اہلہا فان لہم ذمۃ ورحما او قال ذمۃ وصہرا (صحیح مسلم، رقم ۴۶۱۵)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب تم مصر کو فتح کرو گے اور یہ وہ سرزمین ہے جس کے سکے کا نام قیراط ہے۔ پس جب تم اس کو فتح کر لو تو وہاں کے باشندوں سے اچھا سلوک کرنا، کیونکہ (ان کا دہرا حق ہوگا) وہ اہل ذمہ بھی ہوں گے اور ان کے ساتھ رشتے داری بھی ہے۔‘‘

زہری کی ایک مرسل روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’لو عاش ابراہیم لوضعت الجزیۃ عن کل قبطی‘ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ ۱/۱۴۴) صحابہ نے اس وصیت پر یوں عمل کیا کہ حضرت ماریہ قبطیہ کی بستی کے لوگوں کو جزیہ سے مستثنیٰ قرار دے دیا۔ بلاذری بتاتے ہیں :

عن الشعبی ان علی بن الحسین او الحسین نفسہ کلم معاویۃ فی جزیۃ اہل قریۃ ام ابراہیم ابن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بمصر فوضعہا عنہم وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوصی بالقبط خیرا (فتوح البلدان، ص ۲۲۶)

’’شعبی بتاتے ہیں کہ علی بن الحسین یا خود سیدنا حسین نے مصر میں ماریہ قبطیہ کی بستی والوں کے بارے میں سفارش کی تو معاویہ نے ان سے جزیہ ساقط کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قبطیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے تھے۔‘‘

تاہم امام ابوعبید نے اسے جزیۃ الرؤوس کے بجائے خراج پر محمول کیا ہے۔ (الاموال، ص ۱۷۴)

صحابہؓ کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالعموم رومی اور فارسی سلطنتوں یا ان کے زیر اثر علاقوں کے ساتھ جزیہ کی وصولی کے بغیر صلح پر آمادہ نہیں ہوئے، چنانچہ مقوقس شاہ مصر نے عمرو بن العاص کو اس صلح کی پیش کش کی تو انھوں نے اس دھمکی کے ساتھ اسے مسترد کر دیا کہ ’قد علمتم ما فعلنا بملککم الاکبر ہرقل‘ (البدایہ والنہایہ ۷/۹۹) تاہم مخصوص علاقوں اور اقوام کے معاملے میں انھوں نے جزیہ کے حوالے سے نسبتاً لچک دار رویہ اختیار کیا۔ اس حوالے سے تاریخ میں متعدد نظیریں ہمیں ملتی ہیں:

عہد صحابہ میں بنو تغلب کے نصاریٰ نے جب اصرار کیا کہ وہ اہل عجم کی طرح ’جزیہ‘ ادا نہیں کریں گے بلکہ ان سے صدقہ یا زکوٰۃ وصول کی جائے تو سیدنا عمرؓ نے ابتداء ان کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، تاہم یہ دیکھتے ہوئے کہ بنو تغلب شام کی سرحد کے قریب آباد ہیں اور دشمن کے مقابلے میں ان کے تعاون کی مسلمانوں کو اشد ضرورت ہے، انھوں نے مصلحت اور مجبوری کے تحت ان کے رؤوس پر ’جزیہ‘ عائد کرنے کے بجائے ان کے اموال میں سے صدقہ وصول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ اس سے معاملے کی حقیقی نوعیت بالکل مختلف ہو گئی تھی، تاہم انھوں نے ان سے یہ کہنا مناسب سمجھا کہ تم اسے جو چاہو نام دے لو، ہم تم سے وصول کی جانے والی رقم کو ’جزیہ‘ ہی کہیں گے۔ (بلاذری، فتوح البلدان ۱/۲۱۶) 

اسی نوعیت کی مثال جزیرۂ قبرص کی ہے جہاں کے باشندوں سے اس شرط پر صلح طے پائی کہ وہ مسلمانوں کو بھی جزیہ ادا کریں گے اور قیصر روم کو بھی۔ طبری نے نقل کیا ہے: 

ان صلح قبرس وقع علی جزیۃ سبعۃ آلاف دینار یودونہا الی المسلمین فی کل سنۃ ویودون الی الروم مثلہا لیس للمسلمین ان یحولوا بینہم وبین ذلک (الکامل فی التاریخ ۴/۲۶۲)

’’قبرص کی صلح اس شرط پر طے پائی کہ اہل قبرض سالانہ سات ہزار دینار مسلمانوں کو اور اتنی ہی رقم رومی سلطنت کو ادا کریں گے اور مسلمانوں کو اس میں رکاوٹ ڈالنے کا اختیار نہیں ہوگا۔‘‘

جزیہ، جیسا کہ ہم تفصیل سے واضح کر چکے ہیں، اس دور میں سیاسی محکومی اور اطاعت کی علامت تھا۔ ظاہر ہے کہ ایک علاقے کے باشندوں کے لیے بیک وقت دو متحارب سلطنتوں کی سیاسی حاکمیت کو قبول کرنا ممکن نہیں۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جزیرۂ قبرص کو اسلامی سلطنت کا ایک باقاعدہ حصہ بنانے کے بجائے اس سے صرف ایک علامتی رقم وصول کرنے پر اکتفا کر لی گئی۔ 

تیسری مثال جرجومہ شہر کے باسیوں کی ہے جو بیاس اور بوقا کے مابین معدن الزاج کے قریب جبل لکام پر واقع تھا۔ یہ شہر انطاکیہ کے بطریق کے ما تحت تھا۔ سیدنا ابو عبیدہؓ نے جب ان پر لشکر کشی کی تو انھوں نے لڑائی سے گریز کرتے ہوئے صلح کی پیش کش کی۔ مسلمانوں نے ان شرائط پر ان سے صلح کر لی کہ وہ جبل لکام میں مسلمانوں کے مددگار اور جاسوس اور ہتھیار فراہم کرنے والے بن کر رہیں گے اور یہ کہ ان سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور یہ کہ جب وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر دشمن سے جنگ کریں تو جن افراد کو وہ قتل کریں، ان کا سازوسامان بطور انعام ان کو دے دیا جائے گا۔ (فتوح البلدان، ص ۱۶۶)

ان لوگوں کے ساتھ طے شدہ اس شر ط کو بعد کے خلفا نے بھی برقرار رکھا۔ ۸۹ ہجری میں شہر کے باسیوں نے بد عہدی کی تو ولید بن عبد الملک نے دوبارہ اس شہر کو فتح کیا اور صلح میں یہ طے کیا کہ:

ولا یوخذ منہم ولا من اولادہم ونساۂم جزیۃ وعلی ان یغزوا مع المسلمین فینفلوا اسلاب من یقتلونہ مبارزۃ (فتوح البلدان، ص ۱۶۸)

’’ان سے اور ان کے بیوی بچوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جنگ کریں تو میدان جنگ میں دشمن کے جن افراد کو وہ قتل کریں گے، ان کا سامان انھیں دے دیا جائے گا۔‘‘

بعد میں کسی عامل نے ان پر جزیہ کی ادائیگی لازم کی تو انھوں نے یہ معاملہ عباسی خلیفہ واثق باللہ کے عہد حکومت میں اس کے سامنے پیش کیا اور اس نے سابقہ معاہدے کے مطابق انھیں اس سے مستثنیٰ قرار دیا۔(فتوح البلدان، ص ۱۶۸)

سرزمین مصر میں رومیوں کے مقبوضہ علاقے سے آگے بڑھ کر نوبہ کے علاقے پر عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح نے حملہ کیا تو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ باہم گفت وشنید سے ایک تجارتی معاہدہ کے ساتھ صلح کا معاملہ طے پا گیا۔ 

فسالوہ الصلح والموادعۃ فاجابہم الی ذلک علی غیر جزیۃ لکن علی ہدنۃ ثلث ماءۃ راس فی کل سنۃ وعلی ان یہدی المسلمون الیہم طعاما بقدر ذلک (فتوح البلدان، ص ۲۳۵)

’’انھوں نے صلح کا مطالبہ کیا جسے عبد اللہ بن ابی سرح نے منظور کر لیا۔ طے یہ پایا کہ وہ جزیہ نہیں دیں گے، البتہ صلح کی شرط یہ ہوگی کہ وہ ہر سال تین سو غلام مسلمانوں کے حوالے کریں گے اور مسلمان ان کی قیمت کے برابر انھیں غلہ دے دیں گے۔‘‘

امام لیث بن سعد نے ا س صلح کی نوعیت یوں بیان کی ہے:

انما الصلح بیننا وبین النوبۃ علی ان لا نقاتلہم ولا یقاتلوننا وانہم یعطوننا رقیقا ونعطیہم طعاما (ابو عبید، الاموال، ۲۳۶)

’’ہمارے اور اہل نوبہ کے مابین صلح اس بات پر ہوئی ہے کہ نہ وہ ہم سے لڑیں گے اور نہ ہم ان سے، اور یہ کہ وہ ہمیں غلام مہیا کریں گے اور ہم اس کے عوض میں انھیں آٹا دیں گے۔‘‘

اسی طرح بعض گروہوں کو اس شرط پر جزیہ سے مستثنیٰ قرار دینے کی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ وہ جنگوں میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے۔ (یاقوت حموی، معجم البلدان، ۲/۱۲۱)

اہل مصر میں سے ایک قبطی نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو یہ پیش کش کی کہ اگر اسے اور اس کے اہل خانہ کو جزیہ سے مستثنیٰ کر دیا جائے تو وہ انھیں ایک ایسی جگہ بتا سکتا ہے جو سمندر کے راستے سے مصر کو مکہ اور مدینہ سے ملا دیں گی اور لوگ کشتیوں سے سفر کر کے وہاں جا سکیں گے۔عمرو بن العاص نے سیدنا عمر کو خط لکھ کر اس کی اجازت طلب کی تو انھوں نے اس کی اجازت دے دی۔ (فتوح مصر واخبارہا، ۱/۲۸۷)

جہاں تک بعد کی فقہی روایت کا تعلق ہے تو فقہا بالعموم اہل ذمہ کے لیے ’جزیہ‘ کی ادائیگی کو لازم قرار دیتے ہیں۔ ’جزیہ‘ ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا اور اسلام کے مقابلے میں ان کی ذلت ورسوائی کی علامت ہے اور اپنی اس علامتی اہمیت ہی کی وجہ سے مسلمانوں کے مقابلے میں اہل ذمہ کی محکومانہ حیثیت کو واضح کرتا ہے۔ فقہا اس کی حکمت یہ بتاتے ہیں کہ جن کفار نے دین حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے، وہ مسلمانوں کے زیردست رہتے ہوئے ہردم اپنی پستی اور محکومی کا مشاہدہ کریں اور انھیں احساس ہو کہ یہ ان کے کفر پر قائم رہنے کی سزا ہے۔ اس طرح ان میں یہ داعیہ پیدا ہوگا کہ وہ اس ذلت سے بچنے کے لیے کفر وشرک کو چھوڑ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔ (الموسوعۃ الفقہیہ، ’جزیہ‘، ۱۵/۱۵۸۔ ابن العربی، احکام القرآن، ۲/۴۸۱) یہ مقصد چونکہ ’جزیہ‘ ہی کے ذریعے سے حاصل ہو سکتا ہے، اس لیے فقہا یہ کہتے ہیں کہ اگر غیر مسلم ’جزیہ‘ کی ادائیگی کے بغیر پر امن تعلقات قائم کرنے کی پیش کش کریں تو قبول نہیں کی جائے گی۔ (جصاص، احکام القرآن، ۳/۴۲۸) حتیٰ کہ اگر اس شرط پر صلح کے لیے آمادہ ہوں کہ ان کو قیدی بنائے بغیر اور مسلمانوں کے ذمہ میں داخل کر کے ان سے جزیہ وصول کیے بغیر انھیں اپنے علاقے سے جلا وطن کر دیا جائے تو بھی مذکورہ شرط پر صلح کرنا جائز نہیں۔ البتہ اگر مسلمان قتال کر کے ان سے جزیہ وصول کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو مذکورہ شرط پر صلح کی جا سکتی ہے۔ (جصاص، احکام القرآن، ۳/۴۲۸) اسی بنا پر فقہا سیدنا عمر کے اس فیصلے کو جوانھوں نے بنو تغلب کے نصاریٰ کے بارے میں کیا، بنو تغلب ہی کے ساتھ مخصوص مانتے ہیں اور ان کے علاوہ کسی اور غیر مسلم گروہ سے ’جزیہ‘ کے بجائے صدقہ کی وصولی کو جائز نہیں سمجھتے۔ (سرخسی، المبسوط ۳/۲۵۸) جبکہ جصاص وغیرہ کی راے میں یہ بھی درحقیقت ’جزیہ‘ ہی تھا۔ (احکام القرآن ۶/۴۸۶) 

تاہم ایک رائے یہ بھی موجود ہے کہ اگر عملی صورت حالات کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ اسی شرط پر صلح کرنے پر مجبور کر رہی ہو کہ ان سے جزیہ کے بجائے زکوٰۃ لی جائے تو ایسا کرنا جائز ہے۔ ابن قدامہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان بنی تغلب کانوا ذوی قوۃ وشوکۃ لحقوا بالروم وخیف منہم الضرر ان لم یصالحوا ولم یوجد ہذا فی غیرہم فان وجد ہذا فی غیرہم فامتنعوا من اداء الجزیۃ وخیف الضرر بترک مصالحتہم فرای الامام مصالحتہم علی اداء الجزیۃ باسم الصدقۃ جاز ذلک اذا کان الماخوذ منہم بقدر ما یجب علیہم من الجزیۃ او زیادۃ (المغنی، ۹/۲۷۷)

’’بنو تغلب قوت وشوکت کے حامل تھے اور اہل روم کے ساتھ مل گئے تھے، اور اگر ان کے ساتھ صلح نہ کی جاتی تو ان کی جانب سے نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا۔ یہ وجہ کسی اور گروہ میں نہیں پائی جاتی۔ ہاں، اگر کسی اور میں بھی یہ وجہ پائی جائے اور وہ جزیہ دینے سے انکار کریں اور ان کے ساتھ صلح نہ کرنے کی صورت میں ضرر کا خدشہ ہو اور حکمران صدقہ کے نام سے ان سے جزیہ وصول کرنے پر صلح کرنے کو مناسب سمجھے تو ایسا کرنا اس کے لیے جائز ہے، بشرطیکہ ان سے وصول کی جانے والی رقم جزیہ کے مساوی یا اس سے زیادہ ہو۔‘‘ 

اس ضمن میں ایک فقہی رائے یہ بھی ہے کہ اگر غیر مسلم جزیہ کے بجائے صدقہ کے نام سے رقم ادا کرنا چاہیں تو پھر بنو تغلب کی نظیر کے مطابق ان سے دوہری رقم وصول کی جانی چاہیے۔ (ماوردی، الاحکام السلطانیۃ، ۱۸۴)

اس پس منظر میں امام شافعیؒ کے ہاں اس حوالے سے پایا جا نے والا توسع کا رویہ خاص طور پر قابل توجہ ہے، اس لیے کہ وہ مجبوری کی کسی حالت کے بغیر عام حالات میں بھی خاص ’جزیہ‘ کے نام سے کسی رقم کی وصولی کو لازم نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک اگر غیر مسلم کسی بھی شکل میں اتنی رقم کی ادائیگی پر آمادہ ہوں جو جزیہ کے مساوی ہو تو ان کے ساتھ صلح جائز ہے۔ فرماتے ہیں:

فاذا غزا الامام قوما فلم یظہر علیہم حتی عرضوا علیہ الصلح علی شئ من ارضہم او شئ یودونہ عن ارضہم فیہ ما ہو اکثر من الجزیۃ او مثل الجزیۃ فان کانوا ممن توخذ منہم الجزیۃ واعطوہ ذلک علی ان یجری علیہم الحکم فعلیہ ان یقبلہ منہم (الام، ۴/۱۸۲)

’’جب امام کسی قوم پر حملہ کرے اور ان پر غالب آنے سے پہلے ہی وہ اس شرط پر صلح کی پیش کش کر دیں کہ اپنی سرزمین یا اس کی پیداوار کا کچھ حصہ، جو قیمت میں جزیہ سے زیادہ یا اس کے مساوی ہو، مسلمانوں کو دیں گے تو اس صورت میں اگر وہ قوم ایسی ہو جس سے جزیہ لینا جائز ہے اور اس کے ساتھ وہ یہ شرط بھی مان لیں کہ ان پر مسلمانوں کا حکم جاری ہوگا تو امام پر لازم ہے کہ ان کی یہ پیش کش قبول کر لے۔‘‘

واذا صالحوہم علی ان الارض کلہا للمشرکین فلا باس ان یصالحہم علی ذلک ویجعلوا علیہم خراجا معلوما اما شئ مسمی یضمنونہ فی اموالہم کالجزیۃ واما شئ مسمی یودی عن کل زرع من الارض کذا من الحنطۃ او غیرہا اذا کان ذلک اذا جمع مثل الجزیۃ او اکثر (الام، ۴/۱۸۲)

’’اور کفار اس شرط پر صلح کرنا چاہیں کہ زمین ساری کی ساری ان کی ملکیت ہوگی تو صلح کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس صورت میں ان پر ایک متعین خراج عائد کر دیا جائے، خواہ وہ ان کے اموال میں جزیہ کی شکل میں کوئی متعین رقم ہو یا زمین کی پیداوار مثلاً گندم یا کسی اور فصل کی کوئی متعین مقدار ، بشرطیکہ اس کی مجموعی قیمت جزیہ کے مساوی یا اس سے زیادہ ہو۔‘‘

اس صورت میں اصل مقصد محض ایک مخصوص رقم کی وصولی قرار پاتا ہے اور اس کی وہ علامتی اہمیت، جس کے پیش نظر قرآن مجید میں اصلاً اسے منکرین حق پر عائد کرنے کا حکم دیا گیا، ثانوی ہو جاتی ہے ، کیونکہ جزیہ کے اصل تصور کی رو سے حقارت اور ذلت کے بغیر وصول کی جانے والی کسی بھی رقم کو ’جزیہ‘ نہیں کہا جا سکتا۔ جصاص لکھتے ہیں:

ومتی اخذناہا علی غیر ہذا الوجہ لم تکن جزیۃ لان الجزیۃ ہی ما اخذ علی وجہ الصغار (احکام القرآن، ۳/۱۰۱)

’’اگر ہم ذلت اور عار کے بغیر وصول کریں گے تو وہ ’جزیہ‘ نہیں ہوگا کیونکہ ’جزیہ‘ کہتے ہی اس رقم کو ہیں جو ذلت اور حقارت کے ساتھ وصول کی جائے۔‘‘

جزیہ کے نفاذ کے سلسلے میں ہندوستان میں قائم ہونے والی مسلم سلطنتوں میں جو طریقہ اختیار کیا گیا، وہ بھی اس کی فقہی حیثیت متعین کرنے کے ضمن میں اہم نظیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر ہم نے سیدنا عمر کے فقہی رجحان کی وضاحت کرتے ہوئے یہ اخذ کیا ہے کہ وہ قتل مشرکین اور نفاذ جزیہ میں سے کسی بھی حکم کو اصلاً قابل تعمیم نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ انھوں نے مجوس سے اس وقت تک جزیہ وصول نہیں کیا جب تک ان کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ نہیں آ گیا۔ یہ رجحان کہ اہل کتاب اور مجوس کے علاوہ دوسرے غیر مسلم گروہوں سے جزیہ لینا ضروری نہیں، اگرچہ فقہی بحثوں کا باقاعدہ حصہ نہیں بن سکا، تاہم کم از کم ہندوستان کی حد تک یہ اصول عملاً مان لیا گیا۔ چنانچہ عرب فاتحین کی طرف سے تو بعض علاقوں کے باشندوں سے جزیہ وصول کیے جانے کی مثالیں ملتی ہیں، (اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، مقالہ ’’جزیہ‘‘، ۷/۲۴۷) لیکن ہندوستان میں باقاعدہ قائم ہونے والی مسلم حکومتوں میں بعض مخصوص ادوار مثلاً فیروز شاہ تغلق اور اورنگ زیب عالمگیر کے دور حکومت کے علاوہ عمومی طور پر اہل اقتدار نے یہاں کے غیر مسلموں پر جزیہ نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مقالہ نگار نے لکھا ہے:

’’دہلی کی اسلامی سلطنت میں جزیہ عائد کرنے کا تذکرہ شاذ ونادر ہی ملتا ہے، تاہم جزیہ اور خراج کے الفاظ اس عہد سے متعلق کتب تاریخ میں ملتے ہیں، لیکن شرعی لحاظ سے نہیں، بلکہ عرفی لحاظ سے مالیے کا مفہوم ادا کرنے کے لیے۔ مثلاً امیر حسن سجزی (م ۷۲۲ھ) صاحب فوائد الفواد (طبع دہلی ۱۸۶۵، ص ۷۶، طبع نولکشور ۱۹۰۸ء، ص ۸۱) کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عہد میں ا س ٹیکس کو بھی جزیہ کہا جاتا تھا جو ہندو راجہ مسلمانوں سے وصول کرتے تھے۔ البتہ فیروز شاہ تغلق نے اپنے عہد حکومت میں یہ حکم دیا تھا کہ بیت المال کی آمدنی کے ذرائع صرف وہی ہوں گے جو شرع محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور دینی کتابیں ان پر شاہد ہیں۔‘‘ (اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، مقالہ ’’جزیہ‘‘، ۷/۲۴۷، ۲۴۸)

اے بی ایم حبیب اللہ اپنی فاضلانہ تصنیف میں لکھتے ہیں:

’’یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ ابتدائی دور کے روزنامچوں نے مفتوحہ ہندوؤں پر نافذ کیے جانے والے جزیے کا ذکر کہیں نہیں کیاہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ عام ٹیکس وصول نہیں کیا جا تا تھا۔ اس بات کا جواز ضرور ہے کہ اس وقت جزیے کی اصطلاح کے معنی محض انفرادی طورپر لیے جانے والے امدادی محصول کے نہیں تھے جیسا کہ آج بھی سمجھا جاتا ہے یا بعد کے آنے والے مورخین نے اس کی تشریح کی تھی۔ اس قسم کے ٹیکس کا سب سے پہلا نفاذ فیروز خلجی نے کیا تھا جس نے ہندوؤں پر یہ ٹیکس عائد کرنا تسلیم کیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ عملی طور پر اس ٹیکس کو ہمیشہ اس کی تمام باریکیوں اور ضوابط کے ساتھ نہیں نافذ کیا گیا تھا۔‘‘ 

(ہندوستان میں مسلم حکومتوں کی اساس، مترجم: مسعود الحق، ص ۳۲۳، ۳۲۴)

فیروز شاہ کے زمانے میں ’جزیہ‘ عائد کیے جانے کا ذکر ’تاریخ فیروز شاہی‘ کے مصنف سراج عفیف نے یوں بیان کیا ہے:

’’فیروز شاہ سے پیشتر کسی بادشاہ کے عہد میں غیر مسلم رعایا پر جزیہ نہیں عائدکیا گیا تھا اور ان فرماں روایان قدیم نے اس محصول کو معاف کر دیا تھا۔ فیروز شاہ نے تمام علما ومشایخ کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ یہ عام غلطی ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ غیر مسلم افراد سے جزیہ نہیں وصول کیا جاتا۔‘‘ (تاریخ فیروز شاہی، مترجم: محمد فدا علی طالب، ص ۲۶۰)

فیروز شاہ نے علماے شریعت ومشایخ طریقت کے مشورے سے ہندوؤں پر جزیے کے نفاذ کا اعلان کیا، تاہم اس کے مشیروں کی ’ثقاہت‘ کا اندازہ دو باتوں سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک یہ کہ انھوں نے پجاریوں سے جزیہ لینے پر اصرار کیا، حالانکہ عبادت گاہوں میں مقیم پروہتوں اور پجاریوں کو جزیہ سے مستثنیٰ رکھنے کی روایت اسلامی تاریخ میں آغاز ہی سے چلی آ رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ انھی علما ومشایخ کے مشورے پر فیروز شاہ نے ایک مندر کے پروہت کو مندر قائم کرنے اور اس میں بتوں کی پرستش کرنے پر آگ میں زندہ جلا دیا۔ سراج عفیف کا بیان ہے:

’’ایک راست گفتار مخبر نے بادشاہ کو اطلاع دی کہ دہلی قدیم میں ایک ناہنجار بت پرست پیدا ہوا ہے جس نے اپنے خاص مکان میں مندر بنایا ہے اور ہر قوم اور ہر طبقے کے اشخاص پرستش کے لیے اس شخص کے مکان میں جاتے ہیں۔ اس زنار دار نے ایک مہرہ چوبیں بنایا ہے اور اس کو مختلف اقسام کے نقش سے درست کر دیا ہے اور تمام ہندو معین روز اس کے قریب جمع ہو کر پرستش کرتے ہیں۔‘‘ (ص ۲۵۸)

’’علما ومشایخ ومفتیان شرع نے تمام کیفیت معلوم کرنے کے بعد مسئلہ شرعی بیان فرمایا اور عرض کیا کہ شرع شریف کا حکم یہ ہے کہ پیشتر اس زنار دار کو اسلام لانے کی ہدایت کی جائے۔ اگر قبول نہ کرے تو اس کو زندہ جلا دیا جائے۔ ..... زنار دار نے اضطراب کی حالت میں سینہ سے آہ کھینچی اور اس درمیان میں سر کے جانب سے بھی آگ بے حد روشن ہوئی اور یہ شخص جل کر خاک سیاہ ہو گیا۔‘‘ (ص ۲۵۹)

سلطان علاؤ الدین نے اپنے عہد میں قاضی مغیث الدین بیانوی سے ہندوؤں کے متعلق شرعی احکام دریافت کیے تو انھوں نے بتایا کہ امام ابوحنیفہ کے علاوہ باقی ائمہ کے نزدیک ہندوؤں سے جزیہ قبول کرنا جائز نہیں اور ان کے لیے حکم یہ ہے کہ اگر وہ اسلام نہ لائیں تو انھیں قتل کر دیا جائے۔ ’’آب کوثر‘‘ کے مصنف نے سلطان کا جواب یوں نقل کیا ہے:

’’سلطان علاؤ الدین قاضی مغیث کے جواب پر بہت ہنسا اور کہا کہ یہ باتیں جو تم نے کہیں، میں نہیں جانتا۔ مجھے صرف اتنا پتا ہے کہ خوط اور مقدم (یعنی دیہات کے ہندو نمبردار وغیرہ) اچھے اچھے کپڑے پہنتے ہیں۔ ولایتی کمانوں سے تیر اندازی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ محاربہ کرتے اور شکار کھیلتے ہیں،لیکن جہاں خراج، جزیہ، کری (مکانوں کے ٹیکس) اور چرائی (یعنی چراگاہوں کے ٹیکس) کا تعلق ہے، وہ ایک چیتل بھی ادا نہیں کرتے۔‘‘ (شیخ محمد اکرم، آب کوثر، ص ۱۶۴)

اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے دور حکومت میں شریعت اسلامی کی ترویج کی جو کوششیں کیں، ان کے ضمن میں ہندووں پر جزیہ عائد کرنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ (اردو دائرۂ معارف اسلامیہ، ۷/ ۲۴۸) غیر مسلموں کے حوالے سے عالمگیر کا طرز عمل مورخین میں ہمیشہ زیر بحث رہا ہے اور اگرچہ بعض مسلم اہل علم نے ا س کے جملہ اقدامات کا دفاع کرنے کی کوشش کی ہے، (ریاست علی ندوی، عہد اسلامی کا ہندوستان، ۲۸۹-۳۰۸) لیکن مسلم مورخین ہی میں اس کے برعکس رجحان کے حامل ایسے اہل علم موجود ہیں جو عالمگیر کو کسی نہ کسی حد تک غیر روادارانہ رویے کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ (مثلاً دیکھیے: سعید احمد اکبر آبادی، مختصر تاریخ اسلام۔ شیخ محمد اکرام: رود کوثر) چنانچہ جزیہ کے اجرا سے متعلق اس کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا سید محمد میاں لکھتے ہیں کہ:

’’جزیہ لینے میں اورنگ زیب نے اجتہادی غلطی کی۔‘‘

مزید لکھتے ہیں:

’’واقعہ یہ ہے کہ جزیہ کا اجرا ہوا ہی نہیں۔ جس کو جزیہ کہا جاتا ہے، وہ جزیہ ہی نہ تھا۔‘‘ (علماء ہند کا شاندار ماضی، ۱/۵۷۳)

ہندوستان کے بعض دوسرے علاقوں میں بھی کبھی جزیہ عائد کرنے اور کبھی اسے موقوف کر دینے کا ذکر تاریخ میں ملتا ہے۔ مثلاً کشمیر کے فرماں روا سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے بارے میں مورخین بتاتے ہیں کہ اس نے ہندوؤں سے جزیہ لینا موقوف کر دیا تھا اور گاؤ کشی بند کرا دی تھی۔ (’’مسلمانوں کی علمی بے تعصبی‘‘، مشمولہ: مقالات شبلی، ص ۱۰۵۔ جاوید اقبال، زندہ رود ۱/۷)

کلاسیکی فقہی روایت چونکہ بنیادی طور پر صدر اول میں جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح میں قائم ہونے والی اسلامی سلطنت کے قانونی تعامل اور فقہی نظائر پر مبنی ہے، اس لیے دور دراز علاقوں مثلاً ہندوستان میں اختیار کیے جانے والے فقہی اجتہادات کو اس میں کوئی جگہ نہیں مل سکی، چنانچہ اس روایت کے تسلسل میں خود ہندوستان میں تصنیف کی جانے والی فقہی کتابوں میں بھی اسلامی ریاست کے غیر مسلم باشندوں کے لیے ’اہل ذمہ‘ کے عنوان سے دوسرے درجے کے شہریوں کی مخصوص حیثیت مقرر کی گئی اور ان کے لیے ’جزیہ‘ کی ادائیگی کے علاوہ مخصوص امتیازی قوانین کی پابندی بھی لازم قرار جاتی رہی ہے۔ کلاسیکی روایت کے مطابق غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلق کی آئیڈیل صورت عقد ذمہ ہی ہے جس میں ان پر جزیہ کی ادائیگی اور دیگر شرائط کی پابندی لازم ہو اور وہ کفر واسلام کے اعتقادی تناظر میں اہل اسلام کے محکوم اور ان کے مقابلے میں ذلیل اور پست ہو کر رہیں۔ فقہا کے نزدیک یہ اصول تمام غیر مسلموں پر لاگو ہوتا ہے، خواہ وہ جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہوئے ہوں یا صلح کے کسی معاہدے کے تحت مسلمانوں کے زیرنگیں آئے ہوں یا دار الحرب کی شہریت سے دستبردار ہو کر دار الاسلام میں قیام پذیر ہونا چاہتے ہوں۔ تاہم یہ تصور فقہی اورنظری بحثوں میں زندہ رہنے کے باوجود، خلافت عثمانیہ کے ایک بڑی اور مستحکم سیاسی طاقت کے طور پر رونما ہونے کے بعد بتدریج تغیر پذیر ہوتا چلا گیا۔ سلطنت عثمانیہ نے بدلتے ہوئے عالمی حالات اور سیاسی وقانونی تصورات کے تحت جہاں یورپی جمہوریت کے دوسرے بہت سے تصورات کو اپنے نظام میں جگہ دی، وہاں سلطنت کی غیر مسلم رعایا کے لیے مذہب اور نسل کی تفریق کے بغیر مساوی شہری اور مذہبی حقوق سے بہرہ مند ہونے کا حق بھی تسلیم کیا اور مختلف معاہدوں میں یورپی طاقتوں کو اس کی باقاعدہ یقین دہانی کرائی۔ (دیکھیے: الدکتور عبد العزیز محمد الشناوی، ’الدولۃ العثمانیۃ دولۃ اسلامیۃ مفتری علیہا‘ ، ۱/۹۶۔۹۸۔ ماجد خدوری، مقدمہ کتاب السیر للشیبانی۔ معاہدۂ پیرس کے متن کے لیے، جو ۳۰ مارچ ۱۸۵۶ ء کو طے پایا، ملاحظہ ہو:

http://www.polisci.ucla.edu/faculty/wilkinson/ps123/trea) 

عثمانی خلیفہ سلطان عبد المجید اول نے ۱۸ فروری ۱۸۵۶ء کو ’’خط ہمایوں‘‘ کے نام سے ایک فرمان جاری کیا جس کے تحت ’جزیہ‘ کے پرانے قانون کو، جو غیر مسلموں کے دوسرے درجے کے شہری ہونے کے لیے ایک علامت کی حیثیت رکھتا تھا، ختم کر کے اس کی جگہ ’’بدل عسکری‘‘ کے نام سے ایک متبادل ٹیکس نافذ کیا گیا جو اقلیتوں کی مساوی شہری حیثیت کے جدید جمہوری تصورات کے مطابق تھا۔

(Norman Stillman, The Jews of Arab Lands in Modern Times, http://www.nitle.org/)

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد دنیا کے سیاسی نظام میں رونما ہونے والی تبدیلیوں نے مسلمانوں کے غلبہ اور تفوق اور اس کے تحت پیدا ہونے والے قانونی وسیاسی تصورات کو بالکل تبدیل کر دیا ہے۔ بیسویں صدی میں یورپی نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کی جو قومی ریاستیں وجود میں آئیں، ان میں سے کسی میں بھی، چاہے وہ مذہبی ریاستیں ہوں یا سیکولر، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ کی قانونی حیثیت نہیں دی گئی اور نہ ان پر جزیہ نافذ کیا گیا ہے۔ ان میں سعودی عرب، ایران، اور طالبان کی ٹھیٹھ مذہبی حکومتیں بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی، جہاں اسلام مملکت کا سرکاری مذہب اور قانون سازی کا اعلیٰ ترین ماخذ ہے، غیر مسلموں کو ’اہل ذمہ‘ قرار نہیں دیا گیا اور نہ اہل علم کی جانب سے اس کا مطالبہ ہی کبھی سامنے آیا ہے، حتیٰ کہ سید سلیمان ندوی، مولانا مفتی محمد شفیع اور سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے اہل علم نے بھی اپنی تحریروں میں نظری طور پر جزیہ کے قانون کی وضاحت کرنے کے باوجود جب ۱۹۵۲ء میں ۳۱ سرکردہ علما کے ساتھ مل کر اسلامی ریاست کے لیے رہنما ۲۲ دستوری نکات مرتب کیے تو ان میں غیر مسلموں کی قانونی حیثیت پر گفتگو کرتے ہوئے ’جزیہ‘ کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ 

معاصر تناظرمیں اسلامی ریاست کے عملی ڈھانچے اور اس کے خط وخال کو موضوع بحث بنانے والے اہل علم نے بھی بالعموم اس موقف سے اتفاق کو ضروری نہیں سمجھا اور یہ نقطۂ نظر عام ہے کہ جدید اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کی حیثیت ’اہل ذمہ‘ کی نہیں ہے، چنانچہ ان پر جزیہ عائد کرنے پر اصرار نہیں کیا جا سکتا، تاہم اس نقطہ نظر کے ترجمان اہل علم کے ہاں روایتی فقہی تصور سے اختلاف کی بنیاد کے حوالے سے مختلف رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً ایک نقطہ نگاہ یہ ہے کہ عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر اسلامی ریاست کے باشندوں کے مدنی حقوق میں امتیاز کا رویہ مخصوص تاریخی اسباب کا نتیجہ تھا اور سیدنا عمر نے اس وقت کی معاصر اقوام میں محکوم ومفتوح قوموں کے لیے رائج قانونی نظام ہی کو اہل ذمہ پرنافذ کر دیا تھا۔ (سید سلیمان ندوی، ’’کیا اسلام میں تجدید کی ضرورت ہے؟‘‘، مشمولہ ’’اسلامی تہذیب وثقافت‘‘، ۱/۱۰۴، شائع کردہ خدا بخش اورئنٹل پبلک لائبریری پٹنہ) تاہم یہ بات درست دکھائی نہیں دیتی، کیونکہ ’اہل ذمہ‘ اور ان کی مخصوص محکومانہ حیثیت کے فقہی تصور، بالخصوص انھیں محکوم بنا کر ان پر جزیہ عائد کرنے کی نہایت واضح اساسات خود قرآن وسنت کے نصوص میں پائی جاتی ہیں اور اگر جدید معاشرے میں اس کا تسلسل ضروری نہیں تو بھی شرعی و عقلی طور پر اس تصور کی توجیہ تاریخی نہیں، بلکہ مذہبی بنیادوں پر کی جانی چاہیے۔ 

اس ضمن میں ایک رائے یہ سامنے آئی ہے کہ جزیہ عائد کیے جانے کا حکم اصلاً اسلامی ریاست کے ایسے غیر مسلم باشندوں کے لیے ہے جو جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہوئے ہوں یا جنھوں نے صلح کا معاہدہ کرتے وقت ’جزیہ‘ کی ادائیگی کی شرط منظور کی ہو۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:

’’اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جبکہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدہ کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں، اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/۲۴۶)

سید حامد عبد الرحمن الکاف لکھتے ہیں:

’’معاصر اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کے قانونی اور مدنی حقوق کے بارے میں وہی پرانا موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ وہ ’’ذمی‘‘ ہیں اور انھیں ’’جزیہ‘‘ ادا کر کے فوجی خدمات سے اپنے آپ کو مستثنیٰ کرنا ہے۔ یہ موقف ان دستوری اور قانونی دور رس تبدیلیوں کے عدم ادراک کا نتیجہ ہے جو خود مسلم معاشروں میں صدیوں تک بیرونی سامراج کی حکومت کے بعد وقوع پذیر ہوئی ہیں۔ ان معاشروں کی مسلم اکثریت اور غیر مسلم اقلیت دونوں سامراج کے مظالم اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ دونوں ہی نے سامراجی نظاموں سے گلو خلاصی کی خاطر برابر کی جدوجہد کی اور قربانیاں دی ہیں۔ جب آزادی مل گئی تو مسلم اکثریت کیونکر اور کس طرح اچانک حاکم اور غیر مسلم اقلیتیں محکوم بن گئیں؟ حالانکہ جنگ آزادی میں دونوں برابر کے شریک تھے اور سامراج کے ظلم وستم کا دونوں ہی خمیازہ بھگت رہے تھے۔

ان تاریخی تبدیلیوں کو نہ سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس آیت کے معنی ومفہوم کو بھی نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو ’’آیت جزیہ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ .......آیت بالا صاف صاف جنگ کے بعد شکست خوردہ لوگوں پر جزیہ عائد کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس طرح جزیہ جنگ میں شکست کا نتیجہ ہوا۔ بالفاظ دیگر جنگ کے بغیر اور شکست کے بغیر نہ تو جزیہ فرض ہی کیا جا سکتا ہے اور نہ وصول ہی کیا جا سکتا ہے۔ صلح کے معاہدے کی شرائط میں یہ کوئی شکل ہو تو یہ بالکل الگ بات ہے۔ یہ صلح اور اس کی شرائط کا نتیجہ ہے نہ کہ جنگ کا۔ بات چیت میں شرائط پر اتفاق اسی وقت ہوتا ہے جب فریقین لین دین اور سودے بازی کریں، ورنہ بات چیت ناکام ہو جاتی یا کم از کم رک جاتی ہے۔ بعد میں، سیاسی فضا سازگار ہونے پر، اسے پھر شروع کیا جاتا ہے۔ جنگ آزادی کے طویل عرصوں میں مسلمانوں نے سامراجی طاقتوں اور حکومتوں سے جاں گسل کش مکش کی بلکہ بعض وقت ان سے جنگ بھی کی۔ بہرحال انھوں نے اپنے ہی ملک کی غیر مسلم اقلیتوں سے جنگ نہیں کی تھی اور نہ ان کو شکست دی تھی اور نہ ان پر فتح ہی پائی تھی کہ ان کو ’’ذمی‘‘ قرار دے کر جزیہ عائد کیا جا سکتا۔ اس وجہ سے اس آیت کے احکام کا اطلاق مسلمان ممالک کی موجودہ صورت حال پر نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ (ماہنامہ ترجمان القرآن، دسمبر ۲۰۰۲، ص ۶۵، ۶۶)

تاہم نہ تو اس رائے میں قرآن مجید کی آیت سے کیا جانے والا استدلال درست ہے اور نہ فقہی ذخیرے میں اس طرح کی کوئی قید بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید کے حکم سے واضح ہے کہ اہل کتاب پر ’جزیہ‘ کرنے کے لیے قتال کو بطور ایک شرط کے ذکر نہیں کر رہا، بلکہ جزیہ کے نفاذ کو مقصود قرار دے کر ان اہل کتاب کے خلاف قتال کا حکم دے رہا ہے جو اس کو ادا کرنے سے انکار کریں۔ اس سے یہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ جو اہل کتاب قتال کے بغیر صلح کریں، ان پر جزیہ عائد نہ کیا جائے، چنانچہ نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حوالے سے مفتوح اور غیر مفتوح گروہوں میں کوئی فرق کیا ہے اور نہ صحابہ نے، بلکہ تاریخی بیانات سے واضح ہے کہ صحابہ صلح کے لیے پہلی شرط ہی یہ پیش کرتے تھے کہ ’اسلام قبول کرو یا جزیہ دو۔‘

ایک اور رائے یہ ہے کہ ’جزیہ‘ کے قانون میں فی ذاتہ یہ گنجایش موجود ہے کہ اگر اسلامی ریاست کے غیر مسلم معاہدین اس حوالے سے کسی حساسیت کا شکار ہوں تو ازروے مصلحت ان پر جزیہ کے نفاذ پر اصرار نہ کیا جائے۔ فقہا کے ہاں، بنو تغلب کے نصاریٰ کے ساتھ کیے جانے والے معاملے کی روشنی میں، ایک رائے یہ موجود رہی ہے کہ اگر عملی صورت حالات کسی غیر مسلم گروہ کے ساتھ اسی شرط پر صلح کرنے پر مجبور کر رہی ہو کہ ان سے جزیہ کے بجائے زکوٰۃ لی جائے جس کی مقدار جزیہ کے مساوی ہو تو ایسا کرنا جائز ہے۔ (ابن قدامہ المغنی، ۹/۲۷۷۔ ماوردی، الاحکام السلطانیۃ، ۱۸۴) مولانا امین احسن اصلاحی نے اس معاملے میں مزید وسعت پیدا کرتے ہوئے اسے ایک عمومی ضابطہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

’’اگر وہ اس بات پرمصر ہوں کہ ان پر بھی اسی طرح کے مالی واجبات عائد کیے جائیں جو مسلمانوں پر عائد ہیں تو حکومت ان سے اپنی صواب دید کے مطابق اس شرط پر بھی معاہدہ کر سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو یوں سمجھیے کہ اگر جزیہ کی ادائیگی میں وہ عار اور ذلت محسوس کریں تو ان کو اس سے مستثنیٰ کر کے ان کے لیے کوئی اور مناسب شکل اختیار کی جا سکتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن، ۵/۵۶۱)

یہی نقطہ نظر الدکتور یوسف القرضاوی نے اختیار کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’موجودہ دور میں اسلامی ممالک کے غیر مسلم (اہل کتاب) ’جزیہ‘ نہیں دیتے بلکہ اس لفظ پر بھی ناک بھوں چڑھاتے ہیں تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ جزیہ کے بدلے بطور ٹیکس ان سے زکوٰۃ لی جائے، اگرچہ نام اس کا زکوٰۃ نہ ہو مگر شرح زکوٰۃ کی ہو۔ بنی تغلب کے عیسائیوں کے بارے میں حضرت عمر کا جو موقف محدثین، مورخین اور فقہاے اسلام نے بیان کیا ہے، اس سے ہمیں اس معاملے کا اصل صورت حال اور مصلحت کے پیش نظر جائزہ لینے کی گنجایش نظر آتی ہے۔ (فقہ الزکوٰۃ، مترجم: ساجد الرحمن صدیقی، ۱/۱۳۶)

’’اس فیصلے کے پیش نظر دور جدید میں اگر اسلامی ممالک میں غیر مسلموں پر جزیہ کی جگہ کوئی ایسا ٹیکس عائد کر دیا جائے جو مسلمانوں پر اسلامی نظام کی جانب سے عائد شدہ دو فرائض کے مساوی درجے کا ہو۔ یعنی مسلمان ایک فریضہ -جہاد- میں جان کی قربانی دیتے ہیں اور دوسرے فریضہ -زکوٰۃ- میں مال کی قربانی دیتے ہیں تو کیا ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا؟ اگر مسلمانوں کے اور غیر مسلموں کے مشورے سے غیر مسلموں پر ایسا کوئی ٹیکس عائد کیا جائے اور اس کو زکوٰۃ اور صدقہ کا نام بھی نہ دیا جائے، جیسا کہ حضرت عمرؓ نے ان کے مطالبے پر دے دیا تھا تو کیا یہ اقدام جائز نہیں ہوگا؟‘‘ (ایضاً ص ۱۳۸)

بعض دیگر اہل علم اس ضمن میں عملی حالات کی رعایت اور ’مصلحت‘ کے عمومی اصول کو بنیاد بناتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے یوں کی ہے:

’’دور جدید میں قائم ہونے والی اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے سیاسی اور مدنی حقوق کا مسئلہ بھی نازک اور اہم ہے اور اگرچہ تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اس بارے میں خاصا حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا ہے مگر عام ذہنوں پر مغرب کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا کافی اثر ہے۔ موجودہ موقف یہ ہے کہ رائے دہندگی اور مجالس قانون ساز کی رکنیت نیز دوسرے مدنی حقوق میں ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ برتا جائے گا، البتہ یہ مجالس ازروے دستور اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ قرآن وسنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتیں۔ اسلامی ریاست کا صدر مملکت لازماً مسلمان ہوگا اور اس کی شوریٰ صرف مسلمانوں پر مشتمل ہوگی۔ غیر مسلموں سے جزیہ لینا ضروری نہیں اور انھیں فوجی خدمات سے مستثنیٰ رکھنا مناسب ہوگا۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص ۴۱۹)

’’مسلمانوں اور اسلام کے کسی اہم مفاد کو مجروح کیے بغیر غیر مسلموں کو ان تمام سیاسی اور مدنی حقوق کی ضمانت دی جا سکتی ہے جو دور جدید کی کسی ریاست کے شہریوں کو حاصل ہوتے ہیں یا جن کا شمار مجلس اقوام متحدہ نے بنیادی انسانی حقوق میں کیا ہے۔ اپنے موقف کی تعیین اور اس کے بیان میں مزاج عصر کی رعایت رکھنے میں اس حد تک کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا جس حد تک نہ کسی متعین شرعی حکم کی خلاف ورزی لازم آتی ہو نہ اسلام اور مسلمانوں کا کوئی اہم مفاد مجروح ہوتا ہو۔ 

اس بارے میں مسلم ممالک میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے موقف کی تعیین میں دنیا کی رائے عامہ اور غیر مسلم ممالک میں بسنے والی مسلمان اقلیتوں کے مفاد ومصالح کی رعایت رکھنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ دنیا میں اسلام کے مجموعی مفاد کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو جملہ سیاسی اور مدنی حقوق اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے آزادانہ مواقع حاصل ہوں۔ زیر غور مسئلہ میں، شریعت کی حدود کے اندر رہتے ہوئے فراخ دلانہ پالیسی اختیار کرنے اور اس کو مزاج عصر سے مناسبت رکھنے والے انداز میں سامنے لانے سے اس مفاد کے تحفظ میں مدد ملے گی۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، ص ۴۲۰)

خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے لیے مسلمان شہریوں کے مساوی سیاسی ومعاشرتی حقوق تسلیم کرنے کا اصول صرف جزیہ کے اسقاط تک محدود نہیں رہا، بلکہ بعض دوسرے اہم امتیازات کے حوالے سے بھی کلاسیکی فقہی قوانین پرنظر ثانی کی گئی۔ مثال کے طو پر فقہا نے مسلمان کے خلاف کسی غیر مسلم کی گواہی کو اس بنیاد پر ناقابل قبول قرار دیا ہے کہ اس سے مسلمانوں پر غیر مسلموں کی بالادستی قبول کرنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں، تاہم ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں فقہی ذخیرے میں بیان ہونے والے، گواہ کے مطلوبہ اوصاف میں سے مسلمان ہونے کی شرط حذف کر دی گئی ہے۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، مادۃ ۱۶۸۶، ۱۷۰۰۔۱۷۰۵) جدید جمہوری تصورات کے تحت قائم ہونے والی بعض اسلامی ریاستوں، مثلاً پاکستان میں اسی کے مطابق قانون سازی کی گئی ہے اور حدود وقصاص کے علاوہ کسی معاملے میں مسلم اور غیر مسلم گواہوں کے مابین تفریق نہیں کی گئی۔

اسی طرح روایتی فقہی تصور میں قاضی کا مسلمان ہونا اس منصب کے لیے اہلیت کی بنیادی شرائط میں شمار کیا گیا ہے اور ایک اسلامی ریاست میں کسی غیر مسلم کے منصب قضا پر فائز ہونے کی کوئی گنجایش تسلیم نہیں کی گئی۔ تاہم ’’مجلۃ الاحکام العدلیہ‘‘ میں قاضی کے مطلوبہ اوصاف کے ضمن میں، کلاسیکی فقہی موقف کے برعکس، اس کے مسلمان ہونے کی شرط کا سرے سے کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ (مجلۃ الاحکام العدلیہ، مادۃ ۱۷۹۲۔ ۱۷۹۴) اسی بنیاد پر بہت سے مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو منصب قضا پر فائز کرنے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے۔ (وہبہ الزحیلی، الفقہ الاسلامی وادلتہ ۶/۷۴۴) مثال کے طور پر پاکستان میں دستوری طور پر صدر اور وزیر اعظم کے لیے تو مسلمان ہونے کی شرط موجود ہے، لیکن کسی دوسرے منصب کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ غیر مسلم ججوں کا اعلیٰ ترین مناصب پر تقرر عملاً بھی قبول کیا گیا ہے اور کم از کم ایک قانونی ایشو کے طور پر یہ مسئلہ کبھی نہیں اٹھایا گیا، بلکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ۲۰۰۷ء اپنی سفارشات میں باقاعدہ یہ تجویز کیا ہے کہ ’’قانون کی باقاعدہ تدوین کے بعد جج کے مسلمان ہونے کی شرط غیر ضروری ہے۔ غیر مسلم جج بھی قانون کو پوری طرح سمجھ لینے کے بعد ہر نوعیت کے مقدمات کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘ (’’حدودوتعزیرات: اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا جائزہ‘‘، شائع کردہ اسلامی نظریاتی کونسل حکومت پاکستان، ۹)

جاوید احمد غامدی کا نقطہ نظر

گزشتہ سطور میں ہم نے امت مسلمہ کی علمی وفقہی روایت کے بعض ایسے پہلووں کا ذکر کیا ہے جن سے واضح ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اپنے دور میں منکرین حق کے خلاف جو قتال کیا، اس کی خاص نوعیت اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج کو اہل علم کسی نہ کسی زاویے سے عمومی طور پر محسوس کرتے چلے آ رہے ہیں۔ تاہم اس بحث کو بالعموم چونکہ فقہی تناظر میں دیکھا گیا اور اس کو نسخ وتخصیص کی فنی اصطلاحات کے اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی، اس وجہ سے الجھن برقرار رہی اور ہر دور میں اہل علم اس کے حل کے لیے نئی سے نئی توجیہات پیش کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔ اس کے برعکس مولانا حمید الدین فراہی نے اس سارے معاملے کو پہلی مرتبہ فقہی اصطلاحات کے محدود اور ناکافی دائرے سے نکال کر قرآن مجید میں بیان کردہ سنن الٰہیہ کے دائرے میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی۔ مولانا نے رسولوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی ایک خاص سنت کو قرآن مجید سے دریافت کیا اور اس کے روبہ عمل ہونے کے مختلف مراحل نصوص کی روشنی میں متعین کیے۔ اس بحث کو بعد میں ان کے طریقے پر قرآن مجید پر غور کرنے والے اہل علم، مثلاً مولانا امین احسن اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے مزید منقح کیا اور اس کی روشنی میں احکام قتال کی ایک نئی تعبیر پیش کی۔ رسولوں کے باب میں زیر بحث سنت الٰہی کی وضاحت فراہی مکتب فکر کے نمائندہ تینوں اہل علم، مولانا فراہی، مولانا اصلاحی اور جاوید احمد غامدی نے کی ہے۔ ان حضرات کے ہاں اس حوالے سے اجمال وتفصیل کا فرق بھی موجود ہے اور مولانا فراہی سے جاوید احمد غامدی تک اس قانون کی تشریح وتفصیل میں ایک ارتقا بھی واقع ہوا ہے جس کے لیے ان اہل علم کی تصانیف کا براہ راست مطالعہ مفید ہوگا۔ 

جناب جاوید احمد غامدی نے اپنی مختلف تحریروں میں عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کے مختلف پہلووں پر جو بحث کی ہے، اس کا حاصل درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ منصب رسالت پر فائز کوئی ہستی جب کسی قوم میں مبعوث کر دی جاتی ہے تو اس فیصلے کے ساتھ کی جاتی ہے کہ رسول اور اس کے پیروکار اپنے مخالفوں پر بہرحال غالب آ کر رہیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جزیرہ نماے عرب میں مبعوث کیا گیا تو اس سنت الٰہی کے مطابق یہ دوٹوک اعلان کر دیا گیا کہ آپ کی مخالفت کرنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کے لیے مغلوبیت اور محکومیت مقدر ہو چکی ہے۔

۲۔ اس غلبے کے حصول کی حکمت عملی میں دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ ’جہاد وقتال‘ بھی ایک لازمی عنصر کے طور پر شامل تھا، چنانچہ یہ ہدف ’ویکون الدین للہ‘ کے الفاظ میں آغاز ہی میں واضح کر دیا گیا تھا۔ البتہ اس وعدے کا عملی ظہور دو مرحلوں میں ہوا۔ جزیرۂ عرب کی حد تک تو اس دین کو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں غالب کر دیا گیا، چنانچہ مدنی عہد نبوت میں غلبہ دین کی جدوجہد مختلف ادوار سے گزرنے کے بعد جب اپنے آخری مراحل کو پہنچی تو باطل ادیان پر دین حق کے غلبہ کی دو صورتیں متعین طور پر واضح کر دی گئیں۔ مشرکین کے لیے تو لازم کیا گیا کہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں، ورنہ انھیں قتل کر دیا جائے گا، جبکہ اہل کتاب سے کہا گیا کہ وہ جزیہ دے کر مسلمانوں کی محکومی اور زیردستی قبول کر لیں۔ جزیرۂ عرب سے باہر روم، فارس اور مصر کی سلطنتوں تک اس غلبے کی توسیع کی ذمہ داری صحابہ کرام پر عائدکی گئی جنھیں اس مقصد کے لیے ’شہادت علی الناس‘ کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔

۳۔ قانون رسالت کی رو سے پیغمبر کی مخاطب اقوام پر مذکورہ سنت الٰہی کا نفاذ خدا کے براہ راست اذن کے تحت کیا جاتا ہے اور اس میں انسانوں حتیٰ کہ پیغمبروں کے اجتہادی فیصلے کا بھی کوئی دخل نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ رسول اور اس کے پیروکاروں کا یہ غلبہ پوری دنیا کی قوموں پر نہیں، بلکہ ان مخاطبین پر ہوتا ہے جن پر اتمام حجت کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا نافذ کرنے کا اذن مل جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبعین نے جو جہاد کیا، وہ غلبہ دین کے اسی وعدے کی تکمیل کے لیے اور انھی اقوام تک محدود تھا جن کے خلاف اقدام کی اجازت اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تھی اور جن کی تعیین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سربراہوں کو خطوط لکھ کر، کر دی تھی۔ چنانچہ اسلامی تاریخ کے صدر اول میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیروکاروں کے ہاتھوں جزیرۂ عرب اور روم وفارس کی سلطنتوں پر دین حق کا غلبہ قائم ہو جانے کے بعد غلبہ دین کے لیے جہاد وقتال کے حکم کی مدت نفاذ خود بخود ختم ہو چکی ہے۔ یہ شریعت کا کوئی ابدی اور آفاقی حکم نہیں تھا اور نہ اس کا ہدف پوری دنیا پر تلوار کے سائے میں دین کا غلبہ اور حاکمیت قائم کرنا تھا۔ اس کے بعد قیامت تک کے لیے جہاد وقتال کا اقدام دین کے معاملے میں عدم اکراہ اور غیر محارب کفار کے ساتھ جنگ سے گریز کے ان عمومی اخلاقی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی کیا جائے گا جو قرآن مجید کے نصوص میں مذکور ہیں۔

اس ضمن میں جناب جاوید احمد غامدی کی متعلقہ تصریحات حسب ذیل ہیں:

قرآن مجید کو ’’پیغمبر کی سرگزشت انذار‘‘ کا عنوان دیتے ہوئے انھوں نے عہد نبوی وعہد صحابہ میں جہاد وقتال کے مخصوص پس منظر اور ان احکام کی تحدید وتخصیص کی علمی اساس کو یوں واضح کیا ہے:

’’اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگزشت انذار ہے۔ اسے شروع سے آخر تک پڑھیے۔ یہ حقیقت اس کے ہر صفحے پر ثبت نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محض ایک مجموعہ قانون وحکمت نہیں، بلکہ پیغمبر کے لیے اپنی قوم کو انذار کا ذریعہ بنا کر نازل کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

واوحی الی ہذا القرآن لانذرکم بہ ومن بلغ (الانعام ۶:۱۹)

’’اور میری طرف سے یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے میں تمھیں انذار کروں اور ان کو بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق معلوم ہے کہ آپ نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتے ہیں اور اپنی طرف سے وحی والہام کے ذریعے سے ان کی رہنمائی کرتے ہیں، انھیں نبی کہا جاتا ہے۔ لیکن ہر نبی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ رسول بھی ہو۔ رسالت ایک خاص منصب ہے جو نبیوں میں سے چند ہی کو حاصل ہوا ہے۔ قرآن میں اس کی تفصیلات کے مطابق رسول اپنے مخاطبین کے لیے خدا کی عدالت بن کر آتا ہے اور ان کا فیصلہ کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار، انذار عام، اتمام حجت اور ہجرت وبراء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہو جاتی ہے، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا ہے اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامت صغریٰ برپا کر دی جاتی ہے۔ اس دعوت کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں: ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھ بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں اور اسے کوئی دار الہجرت بھی میسر نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ وہ معتد بہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کسی سرزمین میں اس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتے ہیں۔ ....... نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ کی طرف سے انذار، انذار عام، اتمام حجت، ہجرت وبراء ت اور اپنے مخالفین وموافقین کے لیے جزا وسزا کی یہ سرگزشت ہی قرآن کا موضوع ہے۔ اس کی ہر سورہ اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہے اور اس کے تمام ابواب اسی لحاظ سے مرتب کیے گئے ہیں۔ قرآن کی شرح وتفسیر میں جو چیزیں اس رعایت سے اس کے ہر طالب علم کے پیش نظر رہنی چاہییں، وہ یہ ہیں:

اولاً، اس کی ہر سورہ میں تدبر کر کے اس کا زمانہ نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے انھی مراحل کے لحاظ سے اس طرح متعین کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ مثال کے طور پر، یہ زمانہ انذار میں نازل ہوئی ہے یا زمانہ ہجرت وبراء ت اور جزا وسزا میں، اور اس کی ہر آیت کامدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔

ثانیاً، اس کی ہر سورہ کے بارے میں یہ طے کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطب اصلاً زمانہ رسالت کے مشرکین ہیں، اہل کتاب ہیں، منافقین ہیں یا پیغمبر اور اس کے ساتھیاہل ایمان یا ان مخاطبین کی کوئی خاص جماعت۔ اسی طرح طے کرنا چاہیے کہ تبعاً ان میں سے کس کی طرف اور کہاں کوئی التفات ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لام تعریف کا معہود اور ہر تعبیر کا مصداق پھر اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔

ثالثاً، اس میں غلبہ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد وقتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اورکیا چیز اسی انذار رسالت کے مخاطبین کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے جو اب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔‘‘ (میزان، ص ۴۸، ۴۹)

’’قرآن میں یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر الفاظ عام ہیں، لیکن سیاق وسباق کی دلالت پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ ان سے مراد عام نہیں ہے۔ قرآن ’الناس‘ کہتا ہے، لیکن ساری دنیا کا تو کیا ذکر، بارہا اس سے عرب کے سب لوگ بھی اس کے پیش نظر نہیں ہوتے۔ وہ ’علی الدین کلہ‘ کی تعبیر اختیار کرتا ہے، لیکن اس سے دنیا کے سب ادیان مراد نہیں لیتا۔ وہ ’المشرکون‘ کے الفاظ استعمال کرتا ہے، لیکن انھیں سب شرک کرنے والوں کے معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ وہ ’ان من اہل الکتاب‘ کے الفاظ لاتا ہے، لیکن اس سے پورے عالم کے اہل کتاب مراد نہیں ہوتے۔ وہ ’الانسان‘ کے لفظ سے اپنا مدعا بیان کرتا ہے، لیکن اس سے ساری اولاد آدم کا ذکر مقصود نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کا عام اسلوب ہے جس کی رعایت اگر ملحوظ نہ رہے تو قرآن کی شرح ووضاحت میں متکلم کا منشا بالکل باطل ہو کر رہ جاتا ہے اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے، لہٰذا ناگزیر ہے کہ اس معاملے میں قرآن کے عرف اور اس کے سیاق وسباق کی حکومت اس کے الفاظ پر ہر حال میں قائم رکھی جائے۔‘‘ (میزان ص ۲۳، ۲۴)

جزیرۂ عرب سے باہر صحابہ کے جہاد کی نوعیت اور اس کی شرعی اساس کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 

’’قرآن نے بتایا ہے کہ شہادت کا یہ منصب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بھی اسی طرح حاصل تھا۔ لہٰذا آپ پر ایمان لانے کے بعد وہ جب ’’خیر امت‘‘ بن کر اٹھے تو ان کے ذریعے سے یہ جزیرہ نماے عرب سے باہر کی اقوام پر بھی قائم ہو گئی۔ قرآن نے صراحت کی ہے کہ ذریت ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا تھا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔‘‘ (اشراق، مئی ۲۰۰۳، ۴۱، ۴۲)

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت جزیرہ نماے عرب سے باہر قریب کی تمام قوموں کے سامنے بھی پیش کر دی اور ان کے سربراہوں کو خط لکھ کر ان پر واضح کر دیا کہ اب اسلام ہی ان کے لیے سلامتی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ تھے کہ خدا کی جو حجت آپ کے ذریعے سے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر قائم ہوئی ہے، وہ آپ کے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے جزیرہ نما سے باہر کی ان قوموں پر بھی قائم ہو جائے گی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بعد دنیا ہی میں جزا وسزا کے قانون کا اطلاق ان قوموں پر بھی کیا جائے۔ چنانچہ یہی ہوا اور جزیرہ نما میں اپنی حکومت مستحکم کر لینے کے بعد صحابہ کرام اس اعلان کے ساتھ ان اقوام پر حملہ آور ہو گئے کہ اسلام قبول کرو یا زیردست بن کر جزیہ دینے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اس کے سوا اب زندہ رہنے کی کوئی صورت تمھارے لیے باقی نہیں رہی۔‘‘ (میزان، ص ۶۰۱)

جاوید احمد غامدی کے نزدیک یہ اقدامات چونکہ دراصل ایک سنت الٰہی کا نفاذ تھے، اس لیے ان سے شریعت کا کوئی عمومی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:

’’اس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:

ایک، ظلم وعدوان کے خلاف،

دوسرے، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔

پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اس کے تحت جہاد اسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اس دنیا میں ہمیشہ اس کے براہ راست حکم سے اور انھی ہستیوں کے ذریعے سے رو بہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر فائز کرتا ہے۔ ...... اس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب ان رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر پوری ہوتی ہے تو ان کے منکرین پر اسی دنیا میں عذاب آ جاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی۔ پھر اس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور ان کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی۔ چنانچہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو جس طرح ظلم وعدوان کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا، اسی طرح اس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسان کے ہاتھوں سے انجام پایا۔ اسے ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’یعذبہم اللہ بایدیکم‘ (اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے سزا دے گا) کے الفاظ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔‘‘ (میزان، ص ۵۷۹، ۵۸۰)

’’یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الٰہی کے عین مطابق اور ایک فیصلہ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی اقوام پر نازل کیا گیا۔ لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق ان اقوام کے بعد اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے قتال کی ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے، اور وہ ظلم وعدوان کے خلاف جنگ ہے۔ اللہ کی راہ میں قتال اب یہی ہے۔ اس کے سوا کسی مقصد کے لیے بھی دین کے نام پر جنگ نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (میزان، ص ۶۰۱)


مولانا مودودی کی تعبیر جہاد

عصر حاضر کے ممتاز عالم اور مفکر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جہاد سے متعلق اسلامی شریعت کے تصور اور اس کے احکام کی تعبیر وتشریح کو ایک خاص زاویے سے موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا نقطہ نظر اس حوالے سے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ انھوں نے فقہا کے روایتی موقف کے مطابق جہاد وقتال کے اس ہدف سے تو اتفاق کیا ہے کہ اس کے ذریعے سے دنیا کی غیر مسلم اقوام پر اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کر دی جائے، تاہم اس کی فکری اور فلسفیانہ اساس کے ضمن میں انھوں نے فقہا سے مختلف ایک متبادل تعبیر پیش کی ہے۔ مولانا نے اپنے فہم کے مطابق اسلام کے فلسفہ جہاد کو ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے اپنی ابتدائی تصنیف میں بھی واضح کیا ہے اور اس کے بعد مختلف تحریروں میں اور بالخصوص ’’تفہیم القرآن‘‘ کے اہم مقامات پر بھی اس کے مختلف پہلووں کی وضاحت کی ہے۔ اس سارے مواد کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مولانا کے فکر وفہم میں ایک ارتقا پایا جاتا ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ میں پیش کی گئی تعبیر اور ’’تفہیم القرآن‘‘ وغیرہ میں اختیار کیے گئے نقطہ نظر میں زاویہ نگاہ کے لحاظ سے جوہری فرق پایا جاتا ہے۔ یہاں ہم ان کی تحریروں سے سامنے آنے والے ان مختلف زاویہ ہاے نگاہ کا الگ الگ مطالعہ کریں گے۔

’الجہاد فی الاسلام‘

’الجہاد فی الاسلام‘ میں مولانا نے بنیادی طور پر اسلام کے تصور جہاد کی عقلی واخلاقی توجیہ کو موضوع بنایا ہے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اخلاقیات کے مسلمہ اصولوں کے تحت جہاد کے اس تصور پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ مولاناواضح کرتے ہیں کہ جہاں تک ایمان وعقیدہ اور دین ومذہب کا تعلق ہے تو وہ سراسر انسان کے اپنے ارادہ واختیار پر مبنی ہے اور اس معاملے میں جبر واکراہ کا طریقہ ناجائز ہے۔ اس ضمن میں قرآن مجید میں دی جانے والی ہدایات میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا اور یہ ہدایات بدستور قابل عمل اور محکم ہیں۔ چنانچہ کسی شخص یا گروہ کو اسلام قبول نہ کرنے کے جرم میں تہہ تیغ نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس بنا پر اس کے خلاف اقدام جنگ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے نزدیک جہاد وقتال کے لیے وجہ جواز اور نظری اساس دین ومذہب کا اختلاف نہیں، بلکہ معروف اور مسلمہ انسانی اخلاقیات ہے۔ اس ضمن میں مولانا کے استدلال کو حسب ذیل مقدمات کی صورت میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱۔ انسانی تمدن کی بنیاد انسانی جان کی حرمت پر قائم ہے اور انسان کے تمدنی حقوق میں سب سے پہلا حق اس کے زندہ رہنے کا حق ہے۔ یہ نہ صرف تمدن کی تشکیل اور اس کی بقا وارتقا کے لیے ناگزیر ہے، بلکہ کسی فائدے یا عداوت کی خاطر کسی دوسرے انسان کی جان لے لینا فی نفسہ ایک بدترین اخلاقی جرم ہے۔ انسانی جان کی حرمت کا یہ اصول دنیا کے تمام مذاہب، اخلاقی تعلیمات اور تہذیبوں میں مانا گیا ہے اور قرآن مجید نے ناحق کسی ایک انسان کی جان لینے کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ (ص ۲۳، ۲۴)

۲۔ انسانی جان کو حاصل یہ حرمت مطلق نہیں بلکہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ انسان معاشرت اور تمدن میں جائز حدود کے اندر زندگی بسر کرے اور دوسرے انسانوں کے جان ومال، حقوق ومفادات اور آزادی پر دست درازی نہ کرے۔ اگر کوئی انسان ان حدود کو پامال کر کے کسی کی جان پر تعدی کرے یا فتنہ وفساد کا مرتکب ہو تو اس کی جان کو تحفظ حاصل نہیں رہتا بلکہ فتنہ وفساد کے خاتمے کے لیے اس کے شر سے تعرض کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ قصاص یعنی جان کے بدلے میں جان لینے کا طریقہ اسی اصول پر مبنی ہے اور اس کے بغیر دنیا میں شر وفساد کی جڑ کاٹنا، حق داروں کے حقوق کو محفوظ رکھنا اور سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں رکھنا ممکن نہیں۔ (ص ۲۹۔۳۳)

۳۔ سرکشی، تعدی اور فتنہ وفساد کا مرض جس طرح افراد میں پیدا ہو سکتا ہے، اسی طرح گروہ اور جماعتیں بھی اس کی مرتکب ہو سکتی ہیں، چنانچہ قصاص کا یہ قانون جس طرح افراد کے لیے ہے، گروہوں او رجماعتوں کے لیے بھی ہے۔ اگر کوئی گروہ طاقت اور قوت کے بل بوتے پر دوسرے گروہوں کی مال ودولت اور تجارت ومعیشت کو برباد کرنے کی کوشش کرے یا کمزور اور پست طبقات پر اپنی بالادستی قائم کر کے انھیں ظلم وستم کا نشانہ بنائے یا جہانگیری اور کشور ستانی کے شوق میں دوسری قوموں کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کرے یا بندگان خدا سے اپنے ارادے اور ضمیر کے مطابق عقیدہ ومذہب کے اختیار کرنے کی آزادی چھین لے تو اس کے خلاف جنگ کرنا اور اس کے ظلم وستم کا خاتمہ کر دینا ایک اخلاقی فرض کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ (ص ۳۴۔۳۶)

۴۔ اس بنیادی مقدمے کے تحت اسلامی شریعت میں دو صورتوں میں جنگ کو مشروع قرار دیا گیا ہے: ایک مدافعانہ جنگ اور دوسری مصلحانہ جنگ۔ مدافعانہ جنگ کا مطلب واضح ہے، یعنی یہ کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے حملوں اور ظلم وزیادتی کی مدافعت کی جائے اور مسلمانوں کے جان ومال اور دین ومذہب کو ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا جائے۔ جنگ کی دوسری صورت ’مصلحانہ جنگ‘ ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی اخلاقی تطہیر اور انسانی تمدن سے بدی، شر، منکرات اور فتنہ وفساد کا خاتمہ کرنا ہے۔ 

۵۔ مذکورہ دو صورتوں میں سے پہلی صورت میں جنگ کی نظری وجہ بھی مسلم اور واضح ہے اور اس پر مبنی شرعی حکم یعنی اپنے خلاف ہونے والی جارحیت کو روکنا اور دشمن سے اس کا انتقام لینا بھی انسانوں کے مابین متفق علیہ اور غیر متنازع فیہ ہے، البتہ دوسری صورت میں جنگ کا مقصد تو معروف اور مسلمہ اخلاقی تصورات سے متعلق ہے، لیکن اس مقصد کے لیے جنگ کا جائز ہونا اسلام کی ایک منفرد تعلیم ہے جو بذات خود اخلاقیات کے ایک اعلیٰ اور بے غرض تصور پر مبنی ہے۔ مولانا کی راے میں امت مسلمہ پر یہ ذمہ داری اس کے مقصد وجود کے لحاظ سے عائد ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ’خیر امت‘ کا لقب دیا ہے اور اس کی ذمہ داری یہ بیان کی ہے کہ وہ اپنی قومی حیثیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ چنانچہ اگر منکرات کے شیوع اور برائیوں کے فروغ کے نتیجے میں دنیا کی قوموں کی اخلاقی، مادی اور روحانی زندگی برباد ہو رہی ہو تو ایک طرف نیکی کے ساتھ محبت اور بدی کے ساتھ نفرت اور دوسری طرف بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی او رخیر خواہی کا جذبہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ مسلمان اقوام عالم کی اصلاح کے لیے ہر قسم کی صلاحیت اور قوت و طاقت کو استعمال میں لائیں اور بدی کو مٹانے اور نیکی کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔

۶۔ اقوام عالم کی اصلاح کا یہ ہدف محض وعظ ونصیحت اور دعوت وتبلیغ کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ انسانی تمدن میں اجتماعی سطح پر پیدا ہونے والی تمام اخلاقی خرابیوں کا منبع اور مصدر ایک فاسد نظام حکومت ہوتا ہے۔ ایسا نظام حکومت حق شناسی اور خدا ترسی جیسے اوصاف سے محروم ہوتا ہے اور برائیوں کو پیدا کرنے اور ان کو بقا اور تسلسل دینے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ چنانچہ بدی کے استیصال اور بدکاری کے دفع وانسداد کے لیے ضروری ہے کہ محض دعوت وتبلیغ سے آگے بڑھ کر جنگ وقتال کے ذریعے سے ایسی تمام حکومتوں کو مٹا دیا جائے اور ان کی جگہ خوف خدا اور انسان دوستی پر مبنی ایک عادلانہ ومنصفانہ نظام حکومت قائم کیا جائے جس کا نصب العین نیکی کو پروان چڑھانا اور بدی کو مٹانا ہو اور جس کے کارکنان صرف انسانیت کی بہتری اور خدا کی خوشنودی کے لیے عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۱۷، ۱۲۰)

مولانا مودودی کے اصولی نقطہ نظر کی وضاحت کے بعد اب ہم بحث کے بنیادی اور اہم نکات کے حوالے سے اس کا ایک تنقیدی جائزہ لیں گے:

۱۔ سب سے پہلا اور اہم سوال یہ ہے کہ مولانا سورۃ براء ۃ میں مشرکین کو قتل کرنے اور اہل کتاب سے جزیہ وصول کرنے کے احکام کا کیا محل بیان کرتے ہیں۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ ان نصوص میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے باجود آپ پر ایمان نہ لانے والے گروہوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزا بیان کی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان احکام کے پس منظر میں عقیدہ ومذہب کا اختلاف واضح طور پر کارفرما ہے۔ تاہم ’الجہاد فی الاسلام‘ میں مولانا نے ان نصوص کی تعبیر کرتے ہوئے حکم کی اس اساس کی واضح طور پر نفی کی اور اس کی تشریح کفر وایمان کی اساس پر کرنے والے اہل علم کے موقف کو غلط ٹھہرایا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اسلام کی تلوار ایسے لوگوں کی گردنیں کاٹنے کے لیے تو ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں ۔اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس تیزی میں وہ حق بجانب نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ ظالم نہیں ہیں، جو بدکار نہیں ہیں، جو صد عن سبیل اللہ نہیں کرتے، جو دین حق کو مٹانے اور دبانے کی کوشش نہیں کرتے، جو خلق خدا کے امن واطمینان کو غارت نہیں کرتے، وہ خوہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کے دینی عقائد خواہ کتنے ہی باطل ہوں، اسلام ان کی جان ومال سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ان کے لیے اس کی تلوار کند ہے اور اس کی نظروں میں ان کا خون حرام ہے۔‘‘ الجہاد فی الاسلام ص ۱۵۶)

ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

’’مذہب کے معنی عام اصطلاح کے اعتبار سے بجز اس کے اور کیا ہیں کہ وہ چند عقائد اور چند عبادات اور مراسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے مذہب کو واقعی ایک پرائیویٹ معاملہ ہی ہونا چاہیے۔ آپ کو اختیار ہے کہ جو عقیدہ چاہیں رکھیں اور آپ کا ضمیر جس کی عبادت کرنے پر راضی ہو، اس کو جس طرح چاہیں پکاریں۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی جوش اور سرگرمی آپ کے اندر اس مذہب کے لیے موجود ہے تو آپ دنیا بھر میں اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے پھریے اور دوسرے عقائد والوں سے مناظرے کیجیے۔ اس کے لیے تلوار ہاتھ میں پکڑنے کا کون سا موقع ہے؟ کیا آپ لوگوں کو مار مار کر اپنا ہم عقیدہ بنانا چاہتے ہیں؟ یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ آپ اسلام کو عام اصطلاح کی رو سے ایک ’’مذہب‘‘ قرار دے لیں، اور یہ پوزیشن اگر واقعی اسلام کی ہو تو جہاد کے لیے حقیقت میں کوئی وجہ جواز ثابت نہیں کی جا سکتی۔‘‘ (تفہیمات ۱/۷۶)

اس بنیادی نکتے کی روشنی میں انھوں نے سورۂ براء ۃ کے حکم ’فاقتلوا المشرکین‘ کا ذکر ’’دغا بازی وعہد شکنی کی سزا‘‘ کے زیر عنوان مدافعانہ جنگ کی ایک ذیلی صورت کے طور پر کیا ہے اور اس کی اساس عقیدہ ومذہب کے بجائے مشرکین کے فتنہ وفساد اور نقض عہد کو قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم عرب کے تمام مشرکین کے بارے میں نہیں، بلکہ صرف ان مشرکوں سے متعلق تھا جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف بار بار نقض عہد اور فتنہ وفساد کا ارتکاب کیا تھا۔ (ص ۶۷۔۷۰) مولانا یہاں قتل کے حکم کو بھی کوئی حتمی اور متعین حکم نہیں سمجھتے، بلکہ ان کی رائے میں حکم کامقصد یہ ہے کہ ’’جو لوگ بار بار بد عہدی ودغا بازی کریں اور جن کے عہد واقرار کاکوئی اعتبار نہ رہے اور جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں اخلاق وانسانیت کے کسی آئین کا لحاظ نہ رکھیں، ان سے دائمی جنگ کا حکم ہے اور صرف اسی صورت میں ان سے صلح ہو سکتی ہے کہ وہ توبہ کریں اور اسلام لے آئیں، ورنہ ا ن کے اثر سے اسلام اور دار الاسلام کو محفوظ رکھنے کے لیے قتل، گرفتاری، محاصرہ اور ایسی ہی دوسری جنگی تدابیر اختیار کرتے رہنا ضروری ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۷۰) ’واحصروہم‘ کا ترجمہ انھوں نے یہ کیا ہے کہ ’’اور انھیں گھیر کر محصور کرو (تاکہ بلاد مسلمین میں نہ آ سکیں)‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۶۸) ’فاقتلوا المشرکین‘  کی مذکورہ توجیہ ہی کا نتیجہ ہے کہ مولانا جزیہ قبول کرنے کے معاملے میں مشرکین عرب اور باقی کفار میں کوئی فرق تسلیم نہیں کرتے اور ان کے نزدیک کفا رکے تمام گروہوں سے جزیہ وصول کر کے انھیں اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۶۳، ۱۶۴) 

جہاں تک اہل کتاب سے قتال کر کے ان سے جزیہ وصول کرنے کا حکم ہے تو مولانا نے اسے ’مصلحانہ جنگ‘ کے لیے ماخذ قرار دیا ہے اور اس کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ ’’اگر وہ دین حق کو نہیں مانتے تو انھیں اس امر کی آزادی تو دی جا سکتی ہے کہ ماتحت رہ کر اپنے غلط عقائد اور طریقوں پر قائم رہیں، لیکن اس امر کی آزادی نہیں دی جا سکتی کہ اپنے باطل قوانین کو نافذ کر کے اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد برپا کریں۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۱۲۱) مولانا اس حکم کا محرک بھی کفر وایمان کے اختلاف کو تسلیم نہیں کرتے، چنانچہ انھوں نے آیت میں بیان ہونے اہل کتاب کے اوصاف یعنی ’لا یومنون باللہ ولا بالیوم الآخر.....‘‘ کو قتال کا باعث ماننے کے بجاے محض ان ’’خصوصیات‘‘ کا بیان قرار دیا ہے جن کی وجہ سے اہل کتاب ’’فتنہ وفساد برپا کرنے لگے‘‘۔ (ص ۱۲۱) حکم کی غایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’قتال کا یہ حکم کسی مذہبی عداوت کی بنا پر نہیں ہے، ورنہ یہ نہ ہوتا کہ اطاعت قبول کرنے سے پہلے جن کے ساتھ جنگ کرنا ضروری ہے، انھی کی جان ومال، اطاعت قبول کرنے کے بعد اس طرح قابل احترام ہو جائے، حالانکہ اطاعت کرنے والوں کے ساتھ مذہبی عداوت کی بھڑاس نکالنا زیادہ آسان ہے۔ علیٰ ہذا القیاس یہ بات بھی بعید از عقل ہے کہ اس حکم قتال کا مقصد محض جزیہ حاصل کرنا ہو۔ کیونکہ چند درہم سالانہ کے عوض اتنی بڑی ذمہ داری اپنے اوپر لے لینا کہ ان کی حفاظت کے لیے ہر دشمن کے سامنے اپنا سینہ سپر کر دیا جائے، کسی طمع پر مبنی نہیں ہو سکتا۔ ..... پس ادائے جزیہ پر قتال کی اباحت ختم کر دینے اور قبول جزیہ کے بعد قیام عدل وامن کی تمام ذمہ داریاں اپنے اوپر لے لینے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جنگ کا مقصد دراصل ان لوگوں کو فتنہ وفساد سے روکنا اور امن وآئین کا پابند بنانا ہے اور ان پر جزیہ کے نام سے ٹیکس عائد کرنا صرف اس لیے ہے کہ وہ اس حفاظت وصیانت کے مصارف میں شرکت کریں جو انھیں بہم پہنچائی جاتی ہے، اور اطاعت وانقیاد پر قائم رہیں۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۲۳)

’’ٹھیک اسی لمحہ سے اس کا خون حرام ہو جاتا ہے، اس کے مال اور اس کی آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر لازم ہو جاتی ہے اور اسلام کی پرامن حکومت میں اس کو پوری آزادی دے دی جاتی ہے کہ تمام جائز طریقوں سے اپنی دولت، اپنی صنعت وتجارت، اپنے علوم وآداب، اپنے تہذیب وتمدن، غرض اپنی اجتماعی وانفرادی زندگی کے ہر شعبے میں ترقی کرے اور انسانیت کے بلند سے بلند مدارج تک پہنچنے کے لیے جن جن وسائل کی ضرورت ہو، انھیں آزادی کے ساتھ استعمال کرے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۲۶، ۱۲۷)

’جزیہ‘ کو ذلت اور رسوائی کی علامت اور کفار کے کفر کی سزا قرار دینے کے فقہی موقف سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’غیر مسلموں پر جو جزیہ عائد کیا جاتا ہے، وہ درحقیقت کوئی سزا نہیں ہے، بلکہ اس کا مدعا صرف یہ ہے کہ امن وآئین کے پابند ہوں، رضا ورغبت کے ساتھ قانون عدل کی اطاعت کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق اس حکومت کے مصارف ادا کریں جو انھیں پر امن زندگی بسر کرنے کا موقع دیتی ہے، ظلم وتعدی سے محفوظ رکھتی ہے، انصاف کے ساتھ حقوق تقسیم کرتی ہے، قوت والوں کو کمزوروں پر ظلم کرنے سے روکتی ہے، کمزوروں کو قوت والوں کا غلام بنانے سے بچاتی ہے، اور تمام سرکش عناصر کو اخلاق وانسانیت کے حدود کا پابند بناتی ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۲۵)

اس تفصیل سے واضح ہے کہ مولانا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے جہاد سے متعلق جملہ نصوص اور واقعات کی توجیہ اصلاً ان کی منصوص اساس سے ہٹ کر بلکہ اس کی نفی کرتے ہوئے کی ہے اور اس ضمن میں ان کا نقطہ نظر متعلقہ نصوص کے علاوہ مسلمہ فقہی موقف سے بھی بالکل مختلف ہے، اس لیے کہ فقہا جہاد کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ اور اعزاز دین کو قرار دیتے ہیں اور اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ کفر اسلام کے مقابلے میں سربلند ہو کر نہیں بلکہ ذلیل اور پست ہو کر رہے اور کفار کو سیاسی لحاظ سے اس طرح خود مختار، مجتمع اور طاقت ور ہونے کا موقع نہ ملے کہ وہ اہل اسلام کے خلاف فتنہ وفساد کا بازار گرم کر سکیں۔ گویا فقہا جہاد کے باب میں کفر وایمان کے اختلاف کو ظلم وعدوان اور فتنہ وفساد سے علیحدہ ایک مستقل علت اور وجہ جواز قرار دیتے ہیں اور ان کی رائے میں مشرکین کو قتل کرنے کا حکم بھی ایمان نہ لانے کی بنیاد پر دیا گیا تھا اور اہل کتاب پر محکومی ومغلوبیت کی سزا بھی دین حق کی پیروی اختیار نہ کرنے ہی کی پاداش میں مسلط کی گئی تھی، جبکہ مولانا مودودی کی تعبیر کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ ایک مخصوص ’عقیدے‘ کی حیثیت سے اسلام کو بالجبر لوگوں سے منوانا یا اس کے نہ ماننے پر انھیں کوئی سزا دینا اپنے لیے کوئی وجہ جواز نہیں رکھتا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا جنگ کی وجہ فتنہ کو قرار دیتے ہوئے ’وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ‘ کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں، لیکن اس سے اگلے جملے ’ویکون الدین للہ‘ سے کوئی تعرض نہیں کرتے، حتیٰ کہ متعدد مقامات پر اس آیت کو نقل کرتے ہوئے انھوں نے ’ویکون الدین للہ‘ کا جملہ کاٹ کر اسے نقل کیا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۴۰، ۱۰۴، ۱۲۶) جبکہ ’کلمۃ اللہ ہی العلیا‘ کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ ’’کافروں کے خود ساختہ قوانین کا منسوخ ہو جانا اور ان کی جگہ اللہ کے اس قانون عدل کا بول بولا ہونا جو بنی نوع انسان کے درمیان ہر قسم کے شیطانی امتیازات کو مٹا کر صرف حق وباطل اور بدی وتقویٰ کا امتیاز قائم کرتا ہے اور ظالموں کے سوا ہر شخص کو امن وآزادی کی خوشخبری دیتا ہے۔‘‘ (ص ۱۲۶) 

اہل ذمہ کے حوالے سے عہد صحابہ اور بعد کی فقہی روایت میں جو قوانین اور احکام بیان ہوئے ہیں، ان کی تعبیر میں بھی مولانا کا طرز فکر معروضی نہیں۔ مثال کے طور پر صحابہ نے آیت جزیہ میں ’وہم صاغرون‘ سے استنباط کرتے ہوئے اپنے دورمیں مفتوح ہونے والے غیر مسلموں کے لیے بہت سے امتیازی قوانین اور علامات مقرر کی تھیں جس کا مقصد انھیں توہین وتحقیر کا احساس دلانا تھا۔ مولانا ان کے اس اقدام کی توجیہ بالکل الٹ کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

’’اس میں شک نہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانہ کے بعض معاہدات میں اس قسم کی شرط موجود ہے کہ اہل الذمہ ایک خاص قسم کا لباس نہ پہنیں اور مسلمانوں سے مشابہت نہ اختیار کریں۔ .... امام ابویوسف نے بھی اپنی کتاب الخراج میں اس قسم کے احکام بیان کیے ہیں کہ ذمیوں کو مسلمانوں کے ساتھ وضع قطع میں مشابہت اختیار نہ کرنی چاہیے۔ یہ سب احکام بلاشبہ ہمارے ائمہ سے منقول ہیں، لیکن ان کا مقصد دراصل تحقیر نہیں ہے بلکہ مختلف ملتوں کے لوگوں کو باہم خلط ملط ہونے سے روکنا ہے۔ چنانچہ جس طرح ذمیوں کو مسلمانوں کے ساتھ تشبہ اختیار کرنے سے روکا گیا ہے، اسی طرح مسلمانوں کو بھی ذمیوں کے مشابہ بن کر رہنے سے منع کر دیا گیا ہے۔ لباس کے تشبہ میں جو مفاسد پوشیدہ ہیں، ان سے اسلام غافل نہیں ہے۔ خصوصیت کے ساتھ محکوم قوموں میں اکثریہ عیب پیدا ہو جایا کرتا ہے کہ وہ اپنے قومی لباس اور اپنی قومی معاشرت کو ذلیل سمجھنے لگتے ہیں اور حاکم قوم کا لباس اور طرزمعاشرت اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ...... نفسیات محکومیت کے اس نکتہ کو ائمہ اسلام خوب سمجھتے تھے، اس لیے نھوں نے اہل الذمہ کو تشبہ بالمسلمین سے منع کر کے ان کی تذلیل وتحقیر نہیں کی بلکہ ان کی قومی عزت وشرافت کو برقرار رکھا۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۲۹۸-۳۰۱)

’’بد قسمتی سے فقہاے متاخرین نے بھی اس کی غرض تحقیر ہی سمجھی ہے اور اسی لیے اپنی کتابوں میں لکھ دیا ہے کہ ہذا لاظہار آثار الذلۃ علیہم، لیکن ائمہ سلف سے اس قسم کا کوئی قول منقول نہیں ہے۔‘‘ (حاشیہ ص ۳۰۰)

اسی طرح صحابہ کے دور میں مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلموں پر یہ پابندی لگائی گئی تھی کہ وہ مسلمانوں کے شہروں میں اپنے مذہبی شعائر کا علانیہ اظہار نہ کریں اور انھیں اپنی عبادت گاہوں تک محدود رکھیں۔ اس کا مقصد بھی واضح طور پر مذہبی تناظر میں اہل ذمہ کو ان کی محکومیت اور مذہبی آزادی کی محدودیت کا احساس دلانا تھا، لیکن مولانا فرماتے ہیں کہ:

’’امصار مسلمین میں یہ قیود عائد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تصادم کے مواقع پیدا نہ ہوں۔ افسوس ہے کہ بعد کے لوگوں نے اس کا منشا کچھ اور سمجھا۔‘‘ (ہامش ص ۲۹۱)

مولانا نے صلحاً مسلمانوں کے زیر نگیں آنے والے اور جنگ میں مفتوح ہونے والے اہل ذمہ کے احکام اس انداز سے بیان کیے ہیں کہ صلح کا معاہدہ کرنے والوں پر جزیہ کا نفاذ غیر لازم قرار پاتا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’فقہاے اسلام نے صلحاً فتح ہونے والی قوموں کے متعلق کسی قسم کے قوانین مقرر نہیں کیے اور صرف یہ عام قاعدہ بیان کر کے چھوڑ دیا کہ ان کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل شرائط صلح کے مطابق ہوگا۔ ..... ظاہر ہے کہ صلح نامہ کے لیے قواعد واصول معین نہیں کیے جا سکتے۔ وقت اور موقع کے لحاظ سے جیسی شرائط مناسب ہوں گی، وہی طے کر لی جائیں گی۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۲۷۶، ۲۷۷)

اس کی تائید میں مولانا نے ابو یوسف کی کتاب الخراج سے نقل کیا ہے کہ ’یوخذ منہم ما صولحوا علیہ ویوفی لہم ولا یزاد علیہم‘، لیکن یہ ایک بالکل غیر متعلق بات ہے، کیونکہ اس میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ اہل صلح کے ساتھ جو بھی شرائط طے کی جائیں ، انھیں پورا کیا جائے۔ اس سے یہ نتیجہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ فقہا کے نزدیک صلح کا تمام تر دار ومدار اہل ذمہ کی رضامندی پر ہے اور مسلمان اپنی طرف سے صلح کے لیے کسی شرط پر اصرار نہیں کر سکتے۔ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ غیر مسلم خواہ صلحاً مسلمانوں کی سیاسی بالادستی کو قبول کریں یا جنگ کے نتیجے میں مفتوح ہو کر، ان پر جزیہ کا نفاذ ضروری ہے، چنانچہ اگر غیر مسلم ’جزیہ‘ کی ادائیگی کے بغیر پر امن تعلقات قائم کرنے کی پیش کش کریں تو قبول نہیں کی جائے گی، حتیٰ کہ اگر وہ اس شرط پر صلح کے لیے آمادہ ہوں کہ ان کو قیدی بنائے بغیر اور مسلمانوں کے ذمہ میں داخل کر کے ان سے جزیہ وصول کیے بغیر انھیں اپنے علاقے سے جلا وطن کر دیا جائے تو بھی مذکورہ شرط پر صلح کرنا جائز نہیں۔ ہاں اگر مسلمان قتال کر کے ان سے جزیہ وصول کرنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو مذکورہ شرط پر صلح کی جا سکتی ہے۔ (جصاص، احکام القرآن، ۳/۴۲۸)

عقد ذمہ کی نوعیت بیان کرتے ہوئے مولانا نے بدائع الصنائع کی ایک عبارت کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’عقد ذمہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے یعنی وہ اسے باندھنے کے بعد پھر توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں، لیکن دوسری جانب ذمیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں، اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔‘‘ (ص ۲۸۹) مولانا کے اسلوب سے اس بات کا مطلب یہ مفہوم ہوتا ہے کہ جیسے اہل ذمہ کے عقد ذمہ کو توڑنے پر مسلمان کوئی اعتراض نہیں کر سکتے، حالانکہ یہ بات بدیہی طور پر غلط ہے۔ فقہا کی مراد یہ ہے کہ اگر کوئی ذمی مسلمان ہونا چاہے یا دار الحرب میں منتقل ہونا چاہے تو عقد ذمہ اس میں مانع نہیں ہوگا، لیکن اگر وہ اپنے علاقے میں اپنی سیاسی خود مختاری قائم کرنا چاہیں تو انھیں اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ مولانا نے بدائع الصنائع کی جو عبارت نقل کی ہے، اسی میں دو تین سطروں کے بعد یہ صراحت ہے کہ ’والثالث ان یغلبوا علی موضع فیحاربون‘۔ (تیسری صورت یہ ہے کہ اہل ذمہ کسی علاقے پر اپنا غلبہ قائم کر لیں۔ اس صورت میں ان کے خلاف جنگ کی جائے گی۔)

مولانا نے جزیہ کو عہد وپیمان کی پابندی کی علامت ثابت کرنے کے لیے امام ابن تیمیہ کی ایک عبارت بھی نقل کی ہے اور اس کا بالکل غلط ترجمہ کیا ہے۔ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ ’والمراد باعطاۂا التزامہا بالعقد‘ ۔ اس کا درست مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب کے جزیہ ادا کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بالفعل جزیہ کی رقم حوالے کر دیں، بلکہ یہ ہے کہ معاہدہ کر کے اس کی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کر لیں، اگرچہ بالفعل ادائیگی سال گزرنے کے بعد ہی ہو۔ مولانا مودودی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے: ’’یعنی اس سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ عقد معاہدہ پر قائم رہیں۔ جس طرح تمام حکومتوں کے قوانین میں ٹیکس دیتے رہنا وفاداری وپابندی قانون کی دلیل ہے اور نہ ادا کرنا بے وفائی وغداری کی، اسی طرح جزیہ دیتے رہنا بھی پابندئ عہد کی دلیل ہے اور اس کا ادا نہ کرنا نقض عہد کا ہم معنی۔‘‘ (ص ۲۳، ۱۲۴) یہ بات اپنی جگہ درست ہی کیوں نہ ہو، لیکن امام ابن تیمیہ نے مذکورہ عبارت میں یہ بات نہیں کہی۔ اگر مولانا کا بیان کردہ مفہوم ہی مراد ہوتا تو ’والمراد باعطاۂا التزامہا بالعقد‘ کے بجائے ’والمراد باعطاۂا التزام العقد‘ یا اس کے ہم معنی الفاظ ہوتے۔

بعض جگہ مولانا نے اہل ذمہ کے قانونی احکام کے حوالے سے فقہی رجحانات میں سے ایک رجحان کو، جو ان کے اختیار کردہ زاویہ نظر سے ہم آہنگ ہے، یوں بیان کیا ہے جیسے وہ اسلامی قانون کا کوئی متفقہ مسئلہ ہو۔ مثلاً لکھتے ہیں کہ ’’ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتیٰ کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام ص ۲۸۹) حالانکہ فقہا کا ایک بڑا گروہ توہین رسالت کو عہد ذمہ کے لیے ناقض قرار دیتا ہے (ابن القیم، احکام اہل الذمہ ۳/۱۳۷۸۔ ابن حزم، المحلیٰ ۱۳/۲۴۰) بلکہ صحابہ کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر اہل ذمہ میں سے کوئی شخص کسی عام مسلمان کی توہین و تذلیل کا مرتکب ہوتا تو وہ اس کو بھی نقض عہد کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس پر موت کی سزا نافذ کر دیتے تھے، چنانچہ ایک ذمی نے ایک مسلمان خاتون کو سواری سے گرا دیا جس سے اس کا پردہ کھل گیا، پھر اس نے اس کے ساتھ جماع کرنے کی کوشش کی۔ سیدنا عمر کے سامنے یہ مقدمہ پیش کیا گیا تو انھوں نے اسے سولی چڑھانے کا حکم دے دیا اور فرمایا کہ ہم نے تمھارے ساتھ اس بات پر معاہدہ نہیں کیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، رقم۲۸۸۳۷۔ مصنف عبد الرزاق، رقم۱۰۱۶۷)

اسی طرح لکھتے ہیں کہ ’’ذمی کے خون کی قیمت مسلمان کے خون کے برابر ہے۔ اگر کوئی مسلمان ذمی کو قتل کرے گا تو اس کا قصاص اسی طرح لیا جائے گا جس طرح مسلمان کے قتل کرنے کی صورت میں لیا جاتا ہے۔ ..... اگر مسلمان کسی ذمی کو بلا ارادہ قتل کر دے تو اس کی دیت بھی وہی ہوگی جو مسلمان کو خطاء قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔‘‘ (ص ۲۸۷، ۲۸۸) حالانکہ ذمی کے بدلے میں مسلمان کو قتل کرنے اور اس کی دیت کے مسلمان کے مساوی ہونے کا مسئلہ نہ صرف فقہا کے مابین اختلافی ہے بلکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین سے بھی اس ضمن میں دونوں طرح کے آثار مروی ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے ہماری کتاب: حدود وتعزیرات۔چند اہم مباحث، ۱۰۷-۱۲۲)

اسی زاویہ نظر کے تحت مولانا نے بعض فقہی احکام کی توجیہ میں معذرت خواہانہ انداز اختیار کیا ہے۔ مثلاً لکھتے ہیں:

’’مفتوحین کے بارے میں اسلام نے فاتح قوم کا یہ حق تسلیم کیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان کے تمام ہتھیار اٹھانے والے مردوں کو قتل کر دے، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لے اور ان کی املاک پر قبضہ کر لے، لیکن طریق اولیٰ یہ بتایا ہے کہ ان کو بھی ذمی بنا لیا جائے اور اسی حال پر رہنے دیا جائے جس پر وہ جنگ سے پہلے تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس زمانہ کا عام دستور ہی یہ تھا کہ مفتوحوں کو غلام بنا لیتے، ان کی املاک پر قبضہ کر لیتے اور شہروں کی تسخیر کے بعد قتل عام کر کے ان کی جنگی طاقت کو فنا کر دیتے تھے۔ اسلام کے لیے اس عام وقتی ذہنیت کو دفعۃً بدل دینا مشکل تھا۔ وقت کی روح سے جنگ کرنا اس کے طریق اصلاح کے خلاف تھا۔ اس لیے اس نے ایک طرف رواجوں اور دستوروں سے متاثر دماغوں کو مطمئن کرنے کے لیے پچھلے طریقے کو لفظاً برقرار رکھا اور دوسری طرف رسول اکرم اور آپ کے صحابہ نے اپنی رہنمائی سے مسلمانوں میں اتنی فراخ حوصلگی اور فیاضی کی اسپرٹ پیدا کر دی کہ انھوں نے خود ہی اس اجازت سے فائدہ اٹھانا پسند نہ کیا اور رفتہ رفتہ ایک دوسرا جوابی رواج ایسا پیدا ہو گیا جس نے پچھلے رواج کو عملاً منسوخ کر دیا۔‘‘ (ص ۲۸۳)

اس تناظر میں مولانا کا یہ دعویٰ، جو انھوں نے کتاب کے مقدمے میں کیا ہے، دلچسپ بن جاتا ہے کہ جہاد کے اسلامی تصور کو واضح کرتے ہوئے انھوں نے معترضین کے اعتراضات سے کوئی تاثر قبول نہیں کیا اور نہ اس کا جواب دیتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

’’میں اس طریقہ سے اصولی اختلاف رکھتا ہوں کہ ہم اپنے عقائد واصول کو دوسروں کے نقطہ نظر کے مطابق ڈھال کر پیش کریں۔ ..... زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے دین کے عقائد اور احکام کو، اس کی تعلیمات اور اس کے قوانین کو ان کے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کر دیں اور جو دلائل ہم ان کے حق میں رکھتے ہیں، انھیں بھی صاف صاف بیان کر دیں، پھر یہ بات خود لوگوں کی عقل پر چھوڑ دیں کہ خواہ وہ انھیں قبول کریں یا نہ کریں۔ ...... میں نے خصوصیت کے ساتھ اس امر کا التزام رکھا ہے کہ کہیں اپنے یا دوسرے لوگوں کے ذاتی خیالات کو دخل نہیں دیا، بلکہ تمام کلی وجزئی مسائل خود قرآن مجید سے اخذ کر کے پیش کیے ہیں اور جہاں کہیں ان کی توضیح کی ضرورت پیش آئی ہے، احادیث نبوی، معتبر کتب فقہیہ اور صحیح ومستند تفاسیر سے مدد لی ہے تاکہ ہر شخص کو معلوم ہو جائے کہ آج دنیا کا رنگ دیکھ کر کوئی نئی چیز پیدا نہیں کی گئی ہے بلکہ جو کچھ کہا گیا ہے، سب اللہ اور اس کے رسول اور ائمہ اسلام کے ارشادات پر مبنی ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ۱۶- ۱۹)

۲۔ مولانا کی زیر بحث تعبیر کے علمی محرک کا تجزیہ کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ فقہا کے روایتی موقف سے ہٹ کر قتال کے حکم کی توجیہ خالص مذہبی واعتقادی اساس کے بجاے عدل وانصاف کے قیام اور فتنہ وفساد کے ازالہ کے عمومی اخلاقی اصول پر کی جائے اور اسی کی روشنی میں عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کا جواز بھی ثابت کیا جائے۔ چنانچہ انھوں نے اپنی بیان کردہ اساس ’’ازالہ فتنہ وفساد‘‘ سے مطلوبہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے مختلف قرآنی آیات میں لفظ ’’فساد‘‘ کے استعمالات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظام تمدن وسیاست کا فساد، قوموں کی اخلاقی حالت کا بگاڑ اور جابر وسرکش اور بدکار حکمرانوں کی اطاعت اختیار کرنا، یہ سب امور قرآن کی رو سے اقوام عالم کے خلاف قتال کی مشروعیت کا باعث ہیں اور امت مسلمہ کی منصبی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے باطل نظام ہاے حکومت کے خاتمے کے لیے جہاد کرے۔ (الجہاد فی الاسلام، ۱۰۴-۱۱۷) سادہ لفظوں میں مولانا کے استدلال کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ قرآن مجید نے ’فساد فی الارض‘ کو تلوار اٹھانے کے لیے وجہ جواز قرار دیا ہے، اس لیے فساد فی الارض کی مذکورہ تمام صورتوں کا خاتمہ جہاد کی غرض وغایت اور اسلامی حکومت کا فریضہ ہے۔ 

اس استدلال میں جو بنیادی مغالطہ پایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں معنوی حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے لفظ کے اشتراک سے حکم کا اشتراک اخذ کر لیا گیا ہے۔ جہاں تک ’فساد‘ کا تعلق ہے تو یقیناًقرآن مجید میں اس کا مفہوم کہیں زیادہ وسیع ہے اور دوسرے انسانوں پر ظلم وتعدی کرنے کے علاوہ بھی اس کی بہت سی دوسری صورتیں ہو سکتی ہیں۔ قرآن مجید نے بعض مقامات پر اس تعبیر کو ایک جامع مفہوم میں استعمال کیا ہے، جبکہ دوسرے مقامات پر اس کی مختلف ذیلی صورتوں پر اس لفظ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ لیکن قرآن مجید نے جہاں جہاد کی مشروعیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ’فتنہ‘ اور ’فساد‘ کا ذکر کیا ہے، وہاں سیاق وسباق سے صاف واضح ہے کہ یہاں فتنہ اور فساد کو جس مفہوم میں قتال کے لیے وجہ جواز کہا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے جان ومال اور مذہب پر تعدی کا رویہ اختیار کرے اور خدا کے عطا کردہ انسانی، معاشرتی اور مذہبی حقوق اس سے چھیننے کی کوشش کرے۔ مثلاً مظلوم مسلمانوں کی فریاد پر ان کی مدد کو فرض قرار دیتے ہوئے ارشاد ہوا ہے:

وَإِنِ اسْتَنصَرُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُم مِّیْثَاقٌ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ ۔ وَالَّذیْنَ کَفَرُواْ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوہُ تَکُن فِتْنَۃٌ فِیْ الأَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ (الانفال ۷۲، ۷۳)

’’اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، سوائے اس صورت کے کہ وہ کسی ایسی قوم کے خلاف مدد مانگیں جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے خوب دیکھ رہا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اگر تم (ان کے مقابلے میں) اہل ایمان کی مدد نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بہت بڑا فساد پھیل جائے گا۔‘‘

سرکش گروہوں کے فتنہ وفساد کا ازالہ دوسرے گروہوں سے کیے جانے کی تکوینی سنت کا ذکر یوں کیا گیا ہے:

فَہَزَمُوہُم بِإِذْنِ اللّہِ وَقَتَلَ دَاوُودُ جَالُوتَ وَآتَاہُ اللّہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہُ مِمَّا یَشَاءُ وَلَوْلاَ دَفْعُ اللّہِ النَّاسَ بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الأَرْضُ وَلَکِنَّ اللّہَ ذُو فَضْلٍ عَلَی الْعَالَمِیْنَ (البقرہ ۲:۲۵۱)

’’چنانچہ بنی اسرائیل نے اللہ کے حکم سے دشمنوں کو شکست دے دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا۔ اور اللہ نے اسے بادشاہت اور حکمت عطا کی اور جن امور سے چاہا، اسے علم دیا۔ اور اگر اللہ نے لوگوں میں سے بعض کو بعض کے ذریعے دفع کرنے کا قانون جاری نہ کیا ہوتا تو زمین فساد کا گہوارہ بن جاتی، لیکن اللہ دنیا والوں پر فضل فرمانے والا ہے۔‘‘ 

اہل ایمان کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دیتے ہوئے فرمایا گیا:

أُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرٌ ۔ الَّذِیْنَ أُخْرِجُوا مِن دِیَارِہِمْ بِغَیْْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن یَقُولُوا رَبُّنَا اللَّہُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعْضَہُم بِبَعْضٍ لَّہُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْہَا اسْمُ اللَّہِ کَثِیْراً (الحج ۳۹، ۳۰)

’’جن اہل ایمان کے ساتھ جنگ کی جاتی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ بھی لڑائی کریں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ناحق ان کے گھروں سے نکال دیا گیا، محض اس جرم میں کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہے۔ اور اگر اللہ ایک گروہ (کے ظلم وعدوان کو) دوسرے گروہ کے ذریعے سے دفع نہ کرے تو خانقاہوں، گرجوں، کنیسوں اور مسجدوں جیسے مقامات، جن میں اللہ کو کثرت سے یاد کیا جاتا ہے، گرا دیے جاتے۔‘‘

مولانا نے ان آیات سے قتال کی مشروعیت کی وجہ بجا طور پر فتنہ وفساد اخذ کی ہے، لیکن یہ متعین کرنے کے لیے کہ یہاں کس نوعیت کے ’فساد‘ کو قتال کی مشروعیت کی علت قرار دیا گیا ہے، انھوں نے آیات کے سیاق وسباق سے مدد لینے کے بجائے قرآن مجید میں ان آیات کی تلاش شروع کر دی جن میں ’فساد‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ’فساد‘ اس عمومی اور وسیع مفہوم کے اعتبار سے قتال کی مشروعیت کا باعث ہے۔ ایسا کرتے ہوئے مولانا نے زبان کے اس عام اسلوب کو نظر انداز کر دیا ہے کہ اپنے مفہوم میں عموم اور وسعت رکھنے والا ایک لفظ جب کسی مخصوص مقام پر استعمال ہوتا ہے تو وہاں اس کے دائرۂ اطلاق میں آنے والی تمام صورتیں لازماً مراد نہیں ہوتیں، بلکہ وہ اس کے مختلف افراد میں سے ایک فرد اور اس کلی مفہوم کے جزئیات میں سے ایک جزئی بھی ہو سکتی ہے، چنانچہ اگر کسی جگہ اس کی کسی ایک صورت کے لیے کوئی حکم بیان کیا جائے تو اس کا اطلاق اس کی باقی تمام صورتوں میں کیا جانا ضروری نہیں۔ مثال کے طور پر قرآن نے فساد فی الارض کو کسی انسان کے قتل کی وجہ جواز بتایا ہے۔ (مائدہ ۵:۳۲) بالبداہت واضح ہے کہ اس سے فساد کی تمام صورتیں مراد نہیں ہیں اور مثال کے طور پرچوری کو، جس پر صریحاً فساد فی الارض کا اطلاق کیا گیا ہے (یوسف ۱۲:۷۳)، مستوجب قتل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح آیت محاربہ میں ’ویسعون فی الارض فسادا‘ سے مراد ماپ تول میں کمی اور چوری کے جرائم نہیں ہیں، حالانکہ ان پر بھی فساد فی الارض کا اطلاق خود قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ (ہود ۱۱:۸۵) بالکل اسی طرح اگر قرآن نے ’فساد فی الارض‘ کی ایک مخصوص صورت میں جنگ کو جائز قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مخصوص نوعیت کے فساد کے ازالے کے لیے تلوار اٹھانا ہی موزوں اور موثر ہے۔ اس سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن ہر اس چیزکو جہاد وقتال کا باعث قرار دے رہا ہے جس پر قرآن مجید کی آیات میں لفظ ’فساد‘ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا نے قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں ’فساد‘ کی تشریح کرتے ہوئے ان پہلووں کو تو بیان کیا ہے جو ان کے پیش نظر نکتے کو واضح کرنے کے لیے مفید ہیں، لیکن قرآن ہی کے ایسے استعمالات سے صرف نظر کر لیا ہے جو ان کے اپنے قائم کردہ مقدمے، یعنی یہ کہ کفر اور شرک اور گمراہانہ اعتقادات جہاد کی مشروعیت کی وجہ نہیں ہیں، کی نفی کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کی اصطلاح میں ’فساد فی الارض‘ اصلاً خدا کی بندگی اور اطاعت کے مقابلے میں انحراف اور سرکشی کے مفہوم میں بولا جاتا ہے اور انبیا کی تعلیمات کے ساتھ کفر اور ان کی تکذیب کو بھی ’فساد‘ قرار دیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ یونس میں ہے:

بَلْ کَذَّبُواْ بِمَا لَمْ یُحِیْطُواْ بِعِلْمِہِ وَلَمَّا یَأْتِہِمْ تَأْوِیْلُہُ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِن قَبْلِہِمْ فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظَّالِمِیْنَ ۔ وَمِنہُم مَّن یُؤْمِنُ بِہِ وَمِنْہُم مَّن لاَّ یُؤْمِنُ بِہِ وَرَبُّکَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ (آیت ۳۹، ۴۰)

’’بلکہ انھوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کے علم کا یہ احاطہ نہیں کر سکے اور جس کی اصل حقیقت ابھی تک ان کے سامنے نہیں آئی۔ ان سے پہلے لوگوں نے بھی اسی طرح جھٹلایا تھا، تو دیکھو کہ ظالموں کا انجام کیسا ہوا۔ اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اس پر ایمان نہیں لاتے اور تیرا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔‘‘

نمل کی آیت ۱۴ میں فرعون اور آل فرعون کو کھلی نشانیاں سامنے آجانے کے بعد ان کا انکار کرنے کی بنیاد پر ’مفسدین‘ کہا گیا ہے۔ سورۂ آل عمران میں سیدنا مسیح کی الوہیت کے حوالے سے نصاریٰ کے عقیدے کی تردید کرنے کے بعد ارشاد ہوا ہے:

إِنَّ ہَذَا لَہُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ وَمَا مِنْ إِلَہٍ إِلاَّ اللّہُ وَإِنَّ اللّہَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّہَ عَلِیْمٌ بِالْمُفْسِدِیْنَ (آیت ۶۲، ۶۳)

’’بے شک یہی (اس معاملے) کا مبنی بر حقیقت بیان ہے۔ اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ ہی غالب اور حکمت والا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر یہ منہ موڑیں تو اللہ مفسدوں کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘

سورۂ اعراف میں کہا گیا ہے کہ خدا کے ساتھ خلق وامر میں کسی کو شریک سمجھنا اور اس سے اپنی مرادیں مانگنا بھی ’فساد فی الارض‘ ہے۔ ارشاد ہوا ہے:

أَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَکَ اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ۔ ادْعُواْ رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَۃً إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ وَلاَ تُفْسِدُواْ فِیْ الأَرْضِ بَعْدَ إِصْلاَحِہَا وَادْعُوہُ خَوْفاً وَطَمَعاً إِنَّ رَحْمَتَ اللّہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (آیت ۵۴ تا ۵۶)

’’سن لو، کائنات کی تخلیق اور تدبیر امور اللہ ہی کے لیے ہے۔ بہت بابرکت ہے اللہ جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔ اپنے رب کو پکارو عاجزی سے اور چپکے چپکے۔ بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد نہ کرو اور اللہ کو پکارو اس سے خوف کرتے اوراس سے توقع رکھتے ہوئے۔ بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘

اب اگر مولانا کے طریق استدلال کی رو سے یہ کہا جائے کہ قرآن جب قتال کی مشروعیت کی وجہ ’فساد‘ کو قرار دیتا ہے تو اس سے مراد بگاڑ کی ہر وہ صورت ہوتی ہے جس پر قرآن میں ’’فساد‘‘ کا اطلاق ہوا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ خود کفر وشرک کاخاتمہ یا اس کے علم برداروں کو اس کی سزا دینا بھی جہاد کے محرکات میں شامل ہے، جبکہ مولانا کی ساری توجیہ کا مطمح نظر ہی یہ ہے کہ ایمان واعتقاد کی گمراہیوں کو جہاد کے محرکات اور اہداف سے الگ رکھا جائے۔

بالفرض یہ تسلیم کر لیا جائے کہ قرآن عمومی مفہوم میں فساد کی ہر صورت کے ازالے کے لیے قتال کو مسلمانوں پر فرض کرنا چاہتا ہے، تب بھی اس سے وہ نتیجہ کسی طرح نہیں نکلتا جو مولانا نکالنا چاہتے ہیں، یعنی یہ کہ دنیا کی تمام قوموں سے ان کا حق خود اختیاری چھین کر انھیں اسلامی اقتدار کے تابع کر دیا جائے۔ قرآن کی رو سے قتال کا ہدف یہ ہے کہ فتنہ اور فساد ختم ہو جائے۔ اگر مولانا کے مفروضے کے مطابق یہ تسلیم کر لیا جائے کہ دنیا کی تمام قومیں کسی نہ کسی صورت میں فتنہ وفساد میں مبتلا ہیں جس کے ازالے کے لیے قتال ضروری ہے تو بھی زیر بحث نصوص میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں کہ اس مقصد کے حصول کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ جو قوم بھی اس کی مرتکب ہو، اسے حق خود اختیاری سے محروم کر دیا جائے۔(2)

دفع فتنہ وفساد کے اصول سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قرآن مجید کی تصریحات کے برعکس ہے، اس لیے کہ قرآن نے اس اصول کے تحت قتال کے جو اطلاقی احکام بیان کیے اور جو تحدیدات عائد کی ہیں، وہ واضح طور پر یہ بتاتی ہیں کہ قرآن دنیا میں فساد کے وجود کو علی الاطلاق قتال کی مشروعیت کی وجہ قرار نہیں دینا چاہتا، بلکہ اس کے نزدیک یہ اجازت ایک مخصوص نوعیت کے فساد کے ازالے کے لیے اور ایک محدود دائرے میں دی گئی ہے اور وہ اس کا نتیجہ لازماً قوموں کے حق خود اختیاری کی نفی یا کسی عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کی صورت میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ چنانچہ سورۂ انفال کی آیات ۷۲، ۷۳ میں، جو اوپر نقل کی گئی ہیں، یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کچھ افراد دار الکفر میں مقیم ہوں اور اہل کفرکے ظلم وستم کا شکار ہوں تو ان کی امداد دو باتوں کوملحوظ رکھتے ہوئے دار الاسلام کے باسیوں پر فرض ہے: ایک یہ کہ وہ ان سے دین کے معاملے میں مدد کے طالب ہوں اور دوسری یہ کہ کافر قوم کے ساتھ مسلمانوں کا صلح کامعاہدہ نہ ہو۔ 

یہ دونوں قیدیں بے حد اہم ہیں۔ ان میں سے پہلی قید یہ واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی، اہل کفر کے نظم اجتماعی کے تحت زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کو ظلم وستم سے بچانے کا فیصلہ ان کی نصرت اور ہمدردی کے جذبے سے ازخود نہیں بلکہ مظلوم فریق کی طرف سے مدد طلب کیے جانے پر ہی کرے گا۔ یہ ایک بے حد حکیمانہ ہدایت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مظلوم فریق صبر اور تحمل کے ساتھ اپنے حالات کا مقابلہ خود کرنا چاہتا اور اپنے لیے داخلی سطح پر کوئی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتا ہے یا کسی وجہ سے بیرونی مداخلت کو قرین مصلحت نہیں سمجھتا یا مسلمانوں کے جس گروہ سے مدد کی توقع کی جا سکتی ہے، اس سے مدد لینے کو مناسب نہیں سمجھتا یا قومی اور قبائلی عصبیت کے زیر اثر اپنی قوم کے حق خوداختیاری کو زیادہ قابل ترجیح سمجھتا ہے تو اسے اس کا فیصلہ کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے جسے نظر انداز کرتے ہوئے اسے ظلم وستم سے بچانے کی کوئی ذمہ داری قرآن مجید مسلمانوں کے کسی آزاد اور با اختیار نظم اجتماعی پر عائد نہیں کرنا چاہتا۔ 

دوسری قید یہ واضح کرتی ہے کہ خود حفاظتی کے دائرے سے باہر اس اختیار کا توسیعی استعمال دنیا میں بسنے والی مختلف قوموں کے حق خود اختیاری اور قوموں کے باہمی تعلقات کی کلیتاً نفی کرتے ہوئے نہیں، بلکہ ان کالحاظ رکھتے ہوئے کیا جائے گا۔ یہ ہدایت اس تناظر میں بطور خاص قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید نے سورۂ انفال کی آیت میں ۵۸ یہ اجازت دی ہے کہ اگر مسلمانوں کو اپنے ساتھ معاہدہ کرنے والا کسی غیر مسلم گروہ سے بد عہدی کا خدشہ بھی ہو تو اس کے ساتھ معاہد ہ توڑا جا سکتا ہے، جبکہ یہاں دار الکفر کے مسلمانوں کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان پر بالفعل ظلم ہو رہا ہو اور وہ مسلمانوں سے مدد کے طالب ہوں، تب بھی معاہدے کی پاس داری کی جائے گی اور مظلوموں کی مدد کے لیے کوئی جنگی اقدام نہیں کیا جائے گا۔ 

پھر قرآن نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ فتنہ کے خاتمے کا طریقہ لازماً یہی نہیں کہ اہل کفر پر مسلمانوں کی حکومت قائم کر دی جائے، بلکہ اگر مظلوم مسلمانوں کو ان کے چنگل سے آزادی دلا کر کسی دوسرے علاقے کی طرف منتقل کر دیا جائے تو قرآن کا منشا اس صورت میں بھی پورا ہو جاتا ہے۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہوا ہے:

وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْراً (النساء ۴:۷۵)

’’تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے راستے میں اور کفار کی چیرہ دستی کا شکار ان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو چھڑانے کے لیے قتال نہیں کرتے جو یہ دعائیں مانگتے ہیں کہ یا اللہ، ہمیں اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور اپنی جناب سے ہمارے لیے کوئی مددگار اور اپنے پاس سے ہمارے لیے کوئی حامی بھیج دے۔‘‘

آیت سے واضح ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کی مدد کی جو صورت اہل ایمان سے مطلوب تھی، وہ ظالموں سے حکومت چھین کر انھیں اسلامی اقتدار کا تابع بنا دینا نہیں، بلکہ مظلوموں کو اس علاقے سے نکال کر انھیں دارالامن تک پہنچانا تھا۔ یہی بات سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعے سے بھی واضح ہوتی ہے جنھوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم وستم سے نجات دلانے کے لیے سرزمین مصر پر اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تحت اس سے صرف یہ مطالبہ کیا کہ وہ بنی اسرائیل کو آزاد کر کے اس ملک سے جانے دے۔ یہ فرعون تھا جس نے اپنی قوم کی عصبیت کو ابھارنے کے لیے سیدنا موسیٰ کے پیغام کو سیاسی رنگ دیا اور کہا کہ موسیٰ دراصل مصر کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ خود مولانا مودودی لکھتے ہیں:

’’وہ حضرت موسیٰ کی معقول ومدلل تقریر اور پھران کے معجزے کو دیکھ کر یہ سمجھ گیا تھا کہ نہ صرف اس کے اہل دربار بلکہ اس کی رعایا کے بھی عوام وخواص اس سے متاثر ہوئے بغیرنہ رہ سکیں گے۔ اس لیے اس نے جھوٹ اور فریب اور تعصبات کی انگیخت سے کام نکالنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس نے کہا یہ معجزہ نہیں جادو ہے اور ہماری سلطنت کا ہر جادوگر اسی طرح لاٹھی کو سانپ بنا کر دکھا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو ذرا دیکھو، یہ تمہارے باپ دادا کو گمراہ اور جہنمی ٹھیراتا ہے۔ اس نے کہا کہ لوگو، ہوشیار ہو جاؤ، یہ پیغمبر ویغمبر کچھ نہیں ہے، اقتدارکا بھوکا ہے۔ چاہتا ہے کہ یوسف کے زمانے کی طرح پھر بنی اسرائیل یہاں حکمراں ہو جائیں اور قبطی قوم سے سلطنت چھین لی جائے۔ ان ہتھکنڈوں سے وہ دعوت حق کو نیچا دکھانا چاہتا تھا۔‘‘ (تفہیم القرآن ۳/۱۰۰) 

قرآن کی بیان کردہ مذکورہ تحدیدات فتنہ وفساد کی اس صورت یعنی مذہبی ایذا رسانی کے خاتمے حوالے سے ہیں جسے وہ قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم قرار دیتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مولانا مودودی نے فتنہ وفساد کی ایسی صورتوں کے خاتمے کے لیے جو اس سے کئی درجہ کم سنگین ہیں --مثلاً رعایا میں نسلی امتیاز قائم کرنا اور ان میں پھوٹ ڈالنا، ناجائز اور غلط قوانین جاری کرنا، تجارتی کاروبار میں بے ایمانی کرنا اور شاہراہوں پر ڈاکے ڈالنا، ان روابط وتعلقات کو خراب کرنا جو انسانی تمدن کی بنیاد ہیں، اور حاکمانہ طاقت کو ظلم وستم اور غارت گری کے لیے استعمال کرنا وغیرہ-- قوموں کے حق خود اختیاری کی نفی اور عالمگیر اسلامی حکومت کے قیام کا جو نتیجہ اخذ کیا ہے، وہ قرآن کے مدعا سے کس قدر متجاوز ہے۔

۳۔ مولانا کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کا بیان کردہ یہ مقدمہ کہ دنیا کے باطل نظام ہا ے حکومت اسلام کی نظر میں فی نفسہ اپنا کوئی قانونی جواز نہیں رکھتے، جہاد سے متعلق نصوص میں تصریحاً بیان نہیں ہوا۔ چنانچہ انھوں نے اس مقدمے کو قرآن مجید کی چند دیگر آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے درج ذیل نصوص سے استدلال کیا ہے:

وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸)

’’اگر تم حق سے منہ پھیرو گے تو اللہ تمھارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کرے گا اور وہ لوگ تم جیسے نہیں ہوں گے۔‘‘

إِلاَّ تَنفِرُواْ یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ وَلاَ تَضُرُّوہُ شَیْْئاً (التوبہ ۹:۳۹)

’’اگر تم راہ الٰہی میں جہاد کے لیے نہ نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک مصائب میں مبتلا کرے گا اور تمھارے بدلے دوسری قوم کو کھڑا کر دے گا اور تم اس کا کچھ نہ بگاڑ سکو گے۔‘‘

إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ وَیَأْتِ بِآخَرِیْنَ (النساء ۴:۱۳۳)

’’لوگو! اگر خدا چاہے تو تمھیں ہٹا دے اور دوسرے دوسرے لوگوں کو تمھاری جگہ لے آئے۔‘‘

وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِیْ الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ (الانبیاء ۲۱:۱۰۵)

’’ہم نے زبور میں نصیحت کے بعد لکھ دیا کہ ’’زمین‘‘ کے وارث میرے صالح بندے ہوں گے۔‘‘

مذکورہ آیات سے استدلال کرتے ہیں لکھتے ہیں:

’’اس معنی کی آیات قرآن میں بکثرت آئی ہیں او ران سب کا منشا یہ ہے کہ حکومت اور بادشاہی کا حق صلاحیت کے ساتھ مشروط ہے۔ جو قوم صلاحیت کھو دیتی ہے، وہ اس حق کو بھی کھو دیتی ہے، اور جو صلاحیت اپنے اندر پیدا کر لیتی ہے، وہ اس حق کو بھی حاصل کر لیتی ہے۔ ‘‘ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۴۷)

تاہم یہ تمام آیات زیر بحث نکتے سے قطعاً غیر متعلق ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی مولانا کا دعویٰ، یعنی یہ کہ اگر دنیا میں کوئی قوم فساد اور بگاڑ کا شکار ہو جائے تو وہ اپنا آزادانہ نظم حکومت قائم کرنے کے حق سے محروم ہو جاتی ہے، نہ تو تصریحاً بیان ہوا ہے اور نہ وہ استنباطاً اس مقدمے کے لیے ماخذ بن سکتی ہیں۔ ان میں سے سورۂ نساء کی آیت ’ان یشا یذہبکم ایہا الناس ویات بآخرین‘ جس سلسلہ بیان میں آئی ہے، وہ یوں ہے:

وَلَقَدْ وَصَّیْْنَا الَّذِیْنَ أُوتُواْ الْکِتَابَ مِن قَبْلِکُمْ وَإِیَّاکُمْ أَنِ اتَّقُواْ اللّہَ وَإِن تَکْفُرُواْ فَإِنَّ لِلّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَانَ اللّہُ غَنِیّاً حَمِیْداً۔ وَلِلّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَکَفَی بِاللّہِ وَکِیْلاً۔ إِن یَشَأْ یُذْہِبْکُمْ أَیُّہَا النَّاسُ وَیَأْتِ بِآخَرِیْنَ وَکَانَ اللّٰہُ عَلَی ذَلِکَ قَدِیْراً (النساء ۴:۱۳۱ - ۱۳۳)

’’اور یقیناً ہم نے ان لوگوں کو بھی جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی، یہ تاکید کی تھی اور تمھیں بھی کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ اور اگر تم کفر کرو گے تو (اللہ کا کچھ نہیں بگڑے گا، کیونکہ) اللہ ہی کے لیے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ بے نیاز، تعریف کا سزاوار ہے۔ اور اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہی بطور کارساز کافی ہے۔ اے لوگو، اگر وہ چاہے تو تمھیں لے جائے اور (تمھاری جگہ) دوسروں کو لے آئے اور اللہ اس پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘

آیت سے واضح ہے کہ یہاں نہ تو سیاسی معنوں میں کسی قوم سے دنیوی اقتدار چھین کر صالحین کے سپرد کیے جانے کا مسئلہ زیر بحث ہے اور نہ امت مسلمہ کے لیے اس ضمن میں کوئی قانونی اختیار بیان کیا گیا ہے۔ مقصود کلام یہ واضح کرنا ہے کہ خدا اپنی بادشاہی میں کسی قوم یا گروہ کا محتاج نہیں، بلکہ زمین وآسمان کا مالک اور سب سے بے نیاز ہے۔ وہ اگر کسی قوم کو کسی مقصد کے لیے منتخب کرتا ہے تو اس سے مقصود اس کو آزمانا اور کامیابی کی صورت میں اپنے انعام کا مستحق بنانا ہوتا ہے اور اگر وہ قوم راہ راست سے انحراف کا طریقہ اختیار کرے تو خدا بڑی بے نیازی سے اسے ہٹا کر کسی دوسری قوم کو اس کی جگہ دے دیتا ہے۔ مولانا مودودی ’تفہیم القرآن‘ میں اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’تمھیں اور تمھاری طرح پچھلے تمام انبیا کی امتوں کو ہمیشہ یہی ہدایت کی جاتی رہی ہے کہ خدا ترسی کے ساتھ کام کرو۔ اس ہدایت کی پیروی میں تمھاری اپنی فلاح ہے، خدا کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر تم اس کی خلاف ورزی کرو گے تو پچھلی تمام امتوں نے نافرمانیاں کر کے خدا کا کیا بگاڑ لیا ہے جو تم بگاڑ سکو گے۔ اس فرماں رواے کائنات کو نہ پہلے کسی کی پروا تھی نہ اب تمہاری پروا ہے۔ اس کے امر سے انحراف کرو گے تو وہ تم کو ہٹا کر کسی دوسری قوم کو سربلند کر دے گا اور تمہارے ہٹ جانے سے اس کی سلطنت کی رونق میں کوئی فرق نہ آئے گا۔‘‘ (تفہیم القرآن ۱/۴۰۵)

یہی معاملہ سورۂ محمد کی آیت ۳۸ اور سورۂ توبہ کی آیت ۳۹ کا ہے۔ یہاں بھی نہ تو نافرمان اور بدکار قومیں مخاطب ہیں اور نہ دنیوی حکومت واقتدار کی اہلیت کا مسئلہ زیر بحث ہے۔ توبہ میں اس آیت کا سیاق یہ ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ مَا لَکُمْ إِذَا قِیْلَ لَکُمُ انفِرُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَی الأَرْضِ أَرَضِیْتُم بِالْحَیَاۃِ الدُّنْیَا مِنَ الآخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِیْ الآخِرَۃِ إِلاَّ قَلِیْلٌ ۔ إِلاَّ تَنفِرُواْ یُعَذِّبْکُمْ عَذَاباً أَلِیْماً وَیَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ وَلاَ تَضُرُّوہُ شَیْْئاً وَاللّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْر (التوبہ ۹:۳۷، ۳۸)

’’اے ایمان والو، تمھیں کیا ہے کہ جب تم سے کہا جاتاہے کہ اللہ کے راستے میں نکلو تو تم بوجھل ہو کر زمین کے ساتھ چپک رہتے ہو! کیا تم آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر راضی ہو گئے ہو؟ تو پھر آخرت میں دنیا کی زندگی کا سامان بہت ہی تھوڑی وقعت رکھے گا۔ اگر تم نہیں نکلو گے تو اللہ تمھیں دردناک عذاب دے گا اور تمھاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدل دے ا اور تم اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔‘‘

سورۂ محمد میں ارشاد ہوا ہے:

ہَاأَنتُمْ ہَؤُلَاء تُدْعَوْنَ لِتُنفِقُوا فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ فَمِنکُم مَّن یَبْخَلُ وَمَن یَبْخَلْ فَإِنَّمَا یَبْخَلُ عَن نَّفْسِہِ وَاللَّہُ الْغَنِیُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَاء وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ (محمد ۴۷:۳۸)

’’سو دیکھو، تم تو یہ ہو کہ تمھیں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے تو تم میں سے کچھ بخل کرتے ہیں۔ اور جو بخل کرتا ہے، وہ اپنے ہی نقصان کے لیے کرتا ہے۔ اللہ تو بے نیاز ہے اور تم ہی محتاج ہو۔ اور اگر تم منہ موڑ لو گے تو اللہ تمھاری جگہ کسی دوسری قوم کو بدل دے گا، پھر وہ تمھارے جیسے نہیں ہوں گے۔‘‘

صاف واضح ہے کہ دونوں مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اہل ایمان کو مخاطب کر کے انھیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ جہاد سے اعراض اختیار کریں گے تو خدا ان کی جگہ کسی اور گروہ کو اس خدمت کے لیے منتخب کرلے گا۔ مولانا مودودی لکھتے ہیں:

’’یعنی خدا کا کام کچھ تم پر منحصر نہیں ہے کہ تم کرو گے تو ہوگا ورنہ نہ ہوگا۔ درحقیقت یہ تو خدا کا فضل واحسان ہے کہ وہ تمھیں اپنے دین کی خدمت کا زریں موقع دے رہا ہے۔ اگر تم اپنی نادانی سے اس موقع کو کھو دو گے تو خدا کسی اور قوم کو اس کی توفیق بخش دے گا اور تم نامراد رہ جاؤ گے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/۱۹۵)

جہاں تک سورۂ انبیاء کی آیت: ’ان الارض یرثہا عبادی الصلحون‘ کا تعلق ہے تو تفہیم القرآن میں اس آیت کے تحت مولانا مودودی نے ہی ان لوگوں کے نقطہ نظر کی واضح تردید کی ہے جو اس آیت سے دنیوی حکومت واقتدار کے حوالے سے خدا کے قانون اور ضابطے کو اخذ کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’ہر آیت کے صحیح معنی صرف وہی ہو سکتے ہیں جو سیاق وسباق سے مناسبت رکھتے ہوں۔ اگر یہ غلطی نہ کی جاتی تو آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا تھا کہ اوپر سے جو مضمون مسلسل چلا آ رہا ہے، وہ عالم آخرت میں مومنین صالحین اور کفار ومشرکین کے انجام سے بحث کرتا ہے۔ اس مضمون میں یکایک اس مضمون کے بیان کرنے کا آخر کون سا موقع تھا کہ دنیا میں وراثت زمین کا انتظام کس قاعدے پر ہو رہا ہے۔ تفسیر کے صحیح اصولوں کو ملحوظ رکھ کر دیکھا جائے تو آیت کا مطلب صاف ہے کہ دوسری تخلیق میں، جس کا ذکر اس سے پہلے کی آیت میں ہوا ہے، زمین کے وارث صرف صالح لوگ ہوں گے اور اس ابدی زندگی کے نظام میں موجودہ عارضی نظام زندگی کی سی کیفیت برقرار نہ رہے گی کہ زمین پر فاسقوں اور ظالموں کو بھی تسلط حاصل ہو جاتا ہے۔‘‘ (۳/۱۹۰، ۱۹۱)

مولانا نے بعض آیات سے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ قرآن مجید نے ہلاک کی جانے والی قوموں کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی شمار کیا ہے کہ وہ جابر اور سرکش حکمرانوں کی پیروی کیا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر قوم عاد کے بارے میں فرمایا گیا ہے:

وَاتَّبَعُواْ أَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ (ہود ۱۱:۵۹)

’’اور انھوں نے ہر سرکش اور ہٹ دھرم کی پیروی اختیار کر لی۔‘‘

اسی طرح حضرت صالح نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ:

وَلَا تُطِیْعُوا أَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ، الَّذِیْنَ یُفْسِدُونَ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ (الشعراء ۲۶:۱۵۲)

’’اور تم حد سے بڑھ جانے والوں کے معاملے کی اطاعت نہ کرو، جو زمین میں فساد مچاتے ہیں اور اصلاح نہیں کرتے۔‘‘

سورۂ کہف میں ارشاد ہوا ہے:

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطاً (الکہف ۱۸:۲۸)

’’اور تم اس کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے‘‘

مولانا ان آیات سے یہ اخذ کرنا چاہتے ہیں کہ جابر وظالم حکمرانوں کی حکومت کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں رکھتی اور اس کی اطاعت پر قائم رہنا بھی فساد کے زمرے میں آتا ہے۔ (الجہاد فی الاسلام ص ۱۱۸، ۱۱۹) تاہم یہ تمام آیات بھی زیر بحث نکتے سے غیر متعلق ہیں اور ان میں سے کسی میں بھی حکومت اور نظام حکومت کا معاملہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں۔ ان میں سے پہلی آیت میں بتایا گیا ہے کہ قوم عاد نے واضح نشانیاں سامنے آ جانے کے باوجود اللہ کے رسولوں کی بات ماننے کے بجائے اپنے ضدی اور متکبر لیڈروں کی روش پر چلنے کو ترجیح دی اور اس کے نتیجے میں خدا کے عذاب کی مستحق قرار پائی۔ پوری آیت یوں ہے:

وَتِلْکَ عَادٌ جَحَدُواْ بِآیَاتِ رَبِّہِمْ وَعَصَوْاْ رُسُلَہُ وَاتَّبَعُواْ أَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ

’’اور یہ عاد تھے جنھوں نے اپنے رب کی آیات کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر سرکش اور ہٹ دھرم کی پیروی اختیار کر لی۔‘‘

صاف واضح ہے کہ ’اتباع امر‘ کی تعبیر یہاں نظام حکومت کی پیروی کے معنی میں نہیں، بلکہ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے اور ان کی اطاعت اختیار کرنے کے بالمقابل اپنے لیڈروں کی ہٹ دھرمی میں ان کا ساتھ دینے کے مفہوم میں استعمال ہوئی ہے۔

یہی معاملہ حضرت صالح سے متعلق آیات کا ہے۔ وہ سیاسی مفہوم میں قوم کو یہ دعوت نہیں دے رہے کہ وہ اپنے موجود سیاسی نظم کی اطاعت سے دست کش ہو کر ان کے ہاتھ پر سمع وطاعت کی بیعت کر لے، بلکہ نہایت دردمندی کے ساتھ یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ انھوں نے ایمان واخلاق کی جو تعلیم خدا کے حکم سے ان کے سامنے پیش کی ہے، قوم اسے قبول کر لے اور اپنے سرکش اور خداکے باغی سرداروں کی پیروی میں اسے ٹھکرانے کی روش اختیار نہ کرے۔ 

جہاں تک سورۂ کہف کی آیت ۲۸ کا تعلق ہے تو اسے زیر بحث نکتے کے ضمن میں پیش کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مولانا اپنے مقدمے کی تائید کے لیے کوئی مضبوط نقلی دلیل نہ پا کر انتہائی غیر متعلق آیات کو بطور دلیل نقل کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ اس آیت میں نہ تو حکومت واقتدار کا مسئلہ زیر بحث ہے اور نہ کوئی غیر مسلم قوم مخاطب ہے جسے ’فاسد نظام حکومت ‘ کی اطاعت سے دست کش ہونے کا حکم دیا جا رہا ہو۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ آپ اپنے مدعوین میں سے ان لوگوں کو اپنی توجہ اور عنایت کا زیادہ مستحق سمجھیں جو خدا کی یاد میں مصروف رہتے ہیں اور ان کو نظر انداز کرتے ہوئے خداکی یاد سے غافل اور اپنی خواہشات میں مست ہو جانے والے بے پروا لوگوں کی زیادہ فکر نہ کریں۔ ارشاد ہوا ہے:

وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ رَبَّہُم بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُونَ وَجْہَہُ وَلَا تَعْدُ عَیْْنَاکَ عَنْہُمْ تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطاً (الکہف ۱۸:۲۸)

’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ وابستہ کیے رکھو جو اپنے رب کی رضا حاصل کرنے کے لیے صبح اور شام اس کو پکارتے ہیں۔ اور تم دنیا کی زندگی کی زینت کی خواہش سے ان سے صرف نظر نہ کرو اور نہ اس شخص کی بات نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے‘‘

صاف واضح ہے کہ ’لا تطع من اغفلنا قلبہ‘ کا جملہ یہاں ’واصبر نفسک مع الذین یدعون ربہم‘ کے تقابل میں استعمال ہوا ہے اور ’لا تطع‘ کامفہوم یہاں کسی حکمران کی اطاعت کرنا نہیں، بلکہ کسی کی فکر میں مبتلا رہنا یا اس کی بات کو اہمیت دینا ہے۔ خود مولانا مودودی نے ’تفہیم القرآن‘ میں اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’یعنی اس کی بات نہ مانو، اس کے آگے نہ جھکو، اس کا منشا پورانہ کرو اور اس کے کہے پر نہ چلو۔ یہاں ’’اطاعت‘‘ کا لفظ اپنے وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن ۳/۲۳)


اوپر کی سطور میں مولانا مودودی کے نقطہ نظر کا جو تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مولانانے مستقل اور متباین نظری اساسات پر مبنی جہاد وقتال کی دو الگ الگ صورتوں کو گڈمڈ کر کے انھیں ایک ہی اساس یعنی فتنہ وفساد کے تحت واضح کرنے کی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہادکا مبینہ مقصدحاصل کرنے کے لیے دنیا کی تمام غیر مسلم حکومتوں کا خاتمہ اور عالمگیر اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے۔ اس کے لیے ایک طرف انھیں ان نصوص کی غیر متبادر تاویل کرنی پڑی جو کفروایمان کے تناظر میں قتال کا حکم دیتی ہیں اور دوسری طرف فتنہ وفساد کے مفہوم میں ایسی وسعت پیدا کرنی پڑی جس کے نتیجے میں جہاد کی عالمگیریت کا اصول اخذ کیا جا سکے۔ تاہم جیسا کہ ہم نے واضح کیا، اعتقادی اساس کو چھوڑ کر مولانا نے فتنہ وفساد کے اخلاقی اصول پر جہاد کی تعمیم کرنے کی جو کوشش کی ہے، وہ منطقی استدلال کے لحاظ سے نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔ 

مزید برآں ’الجہاد فی الاسلام‘ چونکہ مولانا کی ابتدائی علمی کاوش ہے اور اس کا مطمح نظر بھی اسلام کے فلسفہ جہادکو عقلی لحاظ سے برتر ثابت کرنا ہے، اس وجہ سے اس کا انداز تحریر خطیبانہ ہے، حتیٰ کہ علمی استدلال پیش کرتے ہوئے ہوئے بھی منطقی معیار پر مقدمات کی توضیح کے بجاے زیادہ تر خطیبانہ طرز استدلال سے کام لیا گیا ہے۔ اسی رجحان کے زیر اثر مولانا بہت سے اہم پہلووں پر توجہ نہیں دے سکے۔ مثلاً ان کی تعبیر اعتراض کے اصل نکتے کا سرے سے کوئی جواب ہی نہیں دیتی، کیونکہ معترضین کا اصل اعتراض یہ نہیں کہ اقوام عالم کے خلاف جنگ کے لیے اسلام جو محرک اور داعیہ متعین کرتا ہے، وہ غیر اخلاقی ہے، بلکہ یہ ہے کہ اسلام دنیا کے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لیے آزادی اور خود مختاری کا حق تسلیم نہیں کرتا، جبکہ مولانا کی توجیہ کی رو سے یہ نتیجہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے، اس لیے کہ ان کی پیش کردہ تعبیر اس نتیجے کو بعینہ تسلیم کرتے ہوئے صرف یہ واضح کرتی ہے کہ اسلام کے اس تصور کا محرک ہوس ملک گیری یا مذہبی جبر کا کوئی غیر اخلاقی جذبہ نہیں، بلکہ اقوام عالم کی اخلاقی حالت کو سدھارنے اور ان کے تمدن اور معاشرت کی اصلاح کا ایک نہایت اعلیٰ اور پاکیزہ اخلاقی جذبہ ہے۔ 

مزید برآں مولانا نے اپنی تعبیر پر پیدا ہونے والے بعض نہایت بنیادی سوالات سے یا تو تعرض ہی نہیں کیا اور یا اس طرح سرسری طورپر ان کا ذکر کیا ہے کہ اسے ’عدم تعرض‘ کہنا ہی زیادہ موزوں ہے۔ 

مثلاً ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی قوموں کی اصلاح کے لیے اگر امت مسلمہ کو یہ اختیار دیا ہے تو کیا وہ کوئی فرشتوں کی جماعت ہے جو بالکل بے غرضی کے ساتھ تاقیامت دوسری قوموں کی اصلاح کی یہ خدمت انجام دیتی رہے گی؟ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ اقوام عالم میں پیدا ہونے والے جس بگاڑ اور فساد کی اصلاح کی ذمہ داری مولانا کے نزدیک امت مسلمہ کو تفویض کی گئی ہے، کیا خود امت مسلمہ اس کا شکار ہونے سے محفوظ کر دی گئی ہے؟ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ اقتدار پانے کے بعد انسان بے لگام ہو جاتا اور اس کی جبلت کے فسادات کو ظہور پذیر ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ یہ ایک مشترک انسانی کمزوری ہے جس سے دنیا کا کوئی گروہ، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، مستثنیٰ نہیں۔ یہ صرف ایک نظری بات نہیں، بلکہ تاریخ کی عملی شہادت بھی یہی ہے اور نہ صرف بنی اسرائیل بلکہ خود بنی اسماعیل کی تاریخ بھی اس کی گواہ ہے۔ اب اگر کسی غیر مسلم گروہ کی حکومت کو، اقتدار سے منتج ہونے والے فساد کے پیش نظر ختم کرنا جائز ہے تو سوال یہ ہے کہ اس کی جگہ ایک مسلم حکومت کا قیام بھی تو انسانوں ہی کے ہاتھوں ہونا ہے۔ آخر اس کی کیا ضمانت ہے کہ الٰہی شریعت اور دین کی حامل قوم اقتدار پانے کے بعد انھی اخلاقی فسادات اور قبائح کا شکار نہیں ہوگی؟ 

اس سوال کا جو جواب مولانا نے دیا ہے، وہ دلچسپ ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اسلام کے اس عقیدہ کے مطابق حکومت کی اچھائی کامعیار نہ اس کا قومی اور خود اختیاری ہونا ہے اور نہ اس کی برائی کامعیار اجنبی یا غیر خود اختیاری ہونا۔ اصل سوال صرف یہ ہے کہ حکومت کا نظام عادلانہ اور حق پرستانہ ہے یا نہیں؟ اگر پہلی صورت ہے تو اسلام اس کومٹانے کی کوشش تو درکنار، ایسے ارادہ کو بھی گناہ اور ظلم عظیم سمجھتا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں وہ ایک ظالمانہ نظام حکومت کو مٹا کر ایک سچا عادلانہ نظام حکومت قائم کرنا اولین فرض قرار دیتا ہے۔ قومی اور اجنبی کے سوال سے اس نے نفیاً یا اثباتاً کوئی تعرض نہیں کیا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک حکومت کے اچھے یابرے ہونے کے سوال پر اس کے قومی ہونے یا نہ ہونے کا کوئی اثر نہیں ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ غیر قومی حکومت عموماً ظالم وجابر ہوتی ہے، کیونکہ ایک قوم دوسری قوم پر حکومت قائم ہی اس لیے کرتی ہے کہ اسے غلام بنا کر اپنی مصلحت کے لیے استعمال کرے اور اس کے برعکس قومی حکومت میں اصلاح پذیری کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن باوجود اس کے یہ ضروری نہیں ہے کہ قومی حکومت ہر حال میں بہتر ہو اور غیر قومی حکومت کسی حال میں عادل نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ایک قوم پر خود اس کے اپنے سرکش افراد شیطان کی طرح مسلط ہو جائیں اور اسے اپنی شخصی اغراض کا غلام بنا کر تباہ وبرباد کر دیں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قوم کو غیر قوم کے نیک نفس اور بے غرض مصلحین ظلم واستبداد کے پنجہ سے رہائی دلائیں اور اس کے لیے مادی واخلاقی ترقی کی راہیں کھول دیں۔ پس حکومت کی خوبی کا اصلی معیار اس کا عادل وصالح ہونا ہے اور اس کی برائی کا اصلی معیار غیر عادل اور غیر صالح ہونا۔ ‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴۵، ۱۴۶)

بدیہی طور پر مولانا کی اس نکتہ آفرینی سے حقیقی اور عملی سوال کا جواب نہیں ملتا، اس لیے کہ اصل سوال یہ ہے کہ آیا امت مسلمہ فرشتوں کی جماعت ہے جو جہاد کی اصل اسپرٹ کے ساتھ بالکل بے غرضی سے اقوام عالم کی یہ خدمت انجام دیتی رہے گی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو قرآن وحدیث کی اخلاقی نصیحتوں کے علاوہ اسے کشور ستانی اور جہانگیری کے جذبے سے دنیا کی اقوام کو تاراج کرنے سے روکنے کا عمل اور حقیقت کی دنیا میں کیا بندوبست کیا جائے گا؟ 

یہ سوال بھی مولانا کے سامنے ہے کہ جن منکرات کے خاتمے کے لیے وہ امت مسلمہ کو دنیا میں ’خدائی فوجدار‘ کی حیثیت دینا چاہتے ہیں، جب ان کی اخلاقی برائی کا شعور انسانوں میں عمومی طورپر موجود ہے اور ہر قوم مختلف سماجی اداروں کی مدد سے ان کے سدباب کا اہتمام کرتی ہے تو کیا اسلام کسی قوم کا یہ حق تسلیم نہیں کرتا کہ وہ اپنی اصلاح کی کوشش خود کرے؟ مولانا اس کے جواب میں لکھتے ہیں:

’’اس سے یہ مطلب نکالنا صحیح نہیں ہے کہ اسلام قومی حکومت کا دشمن ہے۔ وہ ہر قوم کے اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے احوال کی اصلاح خود کرے۔ مگر جب کسی قوم کے اعمال بگڑ جائیں، اس کی اخلاقی حالت خراب ہو جائے اور وہ اپنے شریر ومفسد لوگوں کی پیروی واطاعت اختیار کر کے ذلت ومسکنت کی پستیوں میں گر جائے تو اسلام کے نزدیک اس قوم کو حکومت خود اختیاری کا حق باقی نہیں رہتا اور دوسرے لوگوں کو جو اس کے مقابلہ میں اصلح ہوں، اس پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۴۶)

لیکن مولانا اس نکتے پرکوئی روشنی نہیں ڈالتے کہ اس امر کا فیصلہ کس بنیاد پر کیا جائے گا کہ فلاں قوم اب اپنے احوال کی اصلاح خود کرنے کے قابل نہیں رہی اور امت مسلمہ کو اس پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہو گیا ہے؟ 

مولانا کے نقطہ نظر سے یہ سوال بھی تشنہ جواب رہتا ہے کہ نہی عن المنکر کے اصول کے تحت کیا ایک مسلم حکومت اس بات کا بھی حق رکھتی ہے کہ اگر کوئی دوسری مسلم حکومت اخلاقی بگاڑ کا شکار ہو تو اس کے خلاف جنگ کر کے اس سے حکومت واقتدار چھین لے؟

اس سوال کا بھی کوئی جواب مولانا نے نہیں دیا کہ ان کے تصور کی رو سے قانون بین الاقوام کی بنیاد کیا ہوگی؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنگ کا مقصد کسی مخصوص مذہب کی توسیع نہیں بلکہ دنیا سے فتنہ وفساد کا خاتمہ اور عدل کا قیام ہے جو ایک عام انسانی اخلاقی اصول ہے تو اس کے تحت اقوام عالم کی اصلاح کا حق دنیا کی ہر اس قوم کو حاصل ہونا چاہیے جو اس کا جذبہ اور اہلیت رکھتی ہو اور اس مشن کو لے کر دنیا کی اصلاح کے لیے اٹھ کھڑی ہو سکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’حق‘ قابل اعتماد صورت میں صرف مسلمانوں کے پاس ہے، اس لیے وہی یہ حق رکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ نکتہ اقوام عالم کے مابین مسلمہ نہیں، بلکہ امت مسلمہ کا مذہبی عقیدہ ہے۔ پس اگر مسلمانوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے اخلاقی تصور کے مطابق دنیا کی اصلاح کے لیے تلوار لے کر نکل کھڑے ہوں تو دنیا کی دوسری طاقتوں کو اسی بنیاد پر یہ حق کیوں حاصل نہیں؟ کیا اس صورت میں Might is right بین الاقوامی قانون کی بنیاد قرار نہیں پاتا؟ اگر مغرب اپنے اخلاقی وتہذیبی تصورات کو بزور قوت دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کرے تو اسے کس بنیاد پر غیر اخلاقی قرار دیا جا سکتا ہے؟

مولانا اس بات کو ملحوظ نہیں رکھتے کہ ان کا بیان کردہ اصول ایک دو دھاری تلوار ہے جو خود مسلمانوں کے خلاف بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ یعنی اگر کوئی مسلم ریاست بھی جبر واستبداد کے نظام پر مبنی ہو تو کسی غیر مسلم ریاست کے لیے جو عدل وانصاف کا بول بالا کرنا چاہتی ہو، اسی اصول کی رو سے یہ جائز ہوگا کہ وہ مسلم حکومت کا خاتمہ کر کے اپنی سیاسی بالادستی میں عدل وانصاف کے قیام کی کوشش کرے۔ اگر یہ کہا جائے کہ نہیں، اس کے بجائے اسے صرف سیاسی اور اخلاقی ذرائع کو بروئے کار لانا چاہیے اور مسلم قوم کے لیے اپنی سیاسی خود مختاری کو قائم رکھتے ہوئے داخلی طور پر اصلاح کا حق برقرار رہنے دینا چاہیے تو یہی بات غیر مسلم قوم کے بارے میں بھی کہنی چاہیے۔ 

یہ نہایت سنجیدہ اور عملی سوالات ہیں، لیکن مولانانے ان میں سے کسی کو سنجیدہ بحث کا موضوع نہیں بنایا۔

اس کے ساتھ مولانا کے موقف اور استدلال میں یکسوئی اور consistencyکا قابل لحاظ فقدان پایا جاتا ہے اور تضاد اور منطقی مغالطوں یا خلط مبحث کی مثالیں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طو رپر مولانا ایک طرف مذہبی عداوت اور کفر وایمان کو قتال کی مشروعیت کا باعث تسلیم نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ جہاد کا مقصد تلوار کے زور پر اسلام کی توسیع واشاعت کرنا نہیں، لیکن دوسری طرف اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے حوالے سے تلوار کے کردار کو تسلیم بھی کرتے بلکہ اسے ضروری قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: 

’’ہم یہ بتا دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کو تلوار سے ایک گونہ تعلق ضرور ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جہاں تک تبلیغ دین الٰہی کی حد ہے، اس میں تلوار کا کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن اس تبلیغ کے ساتھ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن کے تعاون سے دنیا میں اسلام کی اشاعت ہوتی ہے، اور وہ یقیناًتلوار کی اعانت سے بے نیاز نہیں ہیں۔ ......اگر اسلام صرف چند عقائد کا مجموعہ ہوتا اور اللہ کو ایک کہنے، رسالت کو برحق ماننے، یوم آخر اورملائکہ پر ایمان لانے کے سوا انسان سے وہ کوئی اور مطالبہ نہ کرتا تو شاید شیطانی طاقتوں سے اس کو کچھ زیادہ جھگڑنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون بھی ہے، ایسا قانون جو انسان کی عملی زندگی کو اوامر ونواہی کی بندشوں میں کسنا چاہتا ہے، اس لیے اس کا کام صرف پند وموعظت ہی سے نہیں چل سکتا، بلکہ اسے نوک زبان کے ساتھ نوک سنان سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اس کے عقائد سے سرکش انسان کو اتنا بعد نہیں ہے جتنا اس کے قوانین کی پابندی سے انکار ہے۔ وہ چوری کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دیتا ہے۔ وہ زنا کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے کوڑوں کی مار کا حکم سناتا ہے۔ وہ سود کھانا چاہتا ہے اور اسلام اس کو فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ کا چیلنج دیتا ہے۔ وہ حرام وحلال کی قیود سے نکل کر نفس کے مطالبات پورے کرنا چاہتا ہے اور اسلام ان قیود سے باہر نفس کے کسی حکم کی پیروی نہیں کرنے دیتا۔ اس لیے نفس پرست انسان کی طبیعت اس سے متنفر ہوتی ہے اور اس کے آئینہ قلب پر گناہ گاری کا ایسا زنگ چڑھ جاتا ہے کہ اس میں صداقت اسلام کے نور کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔ ‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۷۳)

اس فلسفے کی رو سے اسلام کی اشاعت کے لیے کافرانہ سوسائٹی کے پورے اخلاقی اور معاشرتی نظام کو چیلنج کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ اس کے بغیر اسلام کی تخم ریزی کا عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ مولانا بھی اس نتیجے کو تسلیم کرتے ہیں:

’’جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے، جس طرح ہر تہذیب کے قیام میں ہوتا ہے۔ تبلیغ کا کام تخم ریزی ہے اور تلوار کا کام قلبہ رانی۔ پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے تاکہ اس میں بیج کو پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہو جائے، پھر تبلیغ بیج ڈال کر آب پاشی کرتی ہے تاکہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کامقصود حقیقی ہے۔ ہم کو دنیا کی پوری تاریخ میں کسی ایسی تہذیب کا نشان نہیں ملتا جس کے قیام میں ان دونوں عناصر کا حصہ نہ ہو۔ تہذیب کی کسی خاص شکل کا کیا ذکر ہے، خود تہذیب کا قیام ہی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک قلبہ رانی اور تخم پاشی کے یہ دونوں عمل اپنا اپنا حصہ ادا نہ کریں۔ کوئی شخص جو انسانی فطرت کا رمز شناس ہے، اس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہے کہ جماعتوں کی ذہنی واخلاقی اصلاح کے سلسلے میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے جب کہ قلب وروح کو خطاب کرنے سے پہلے جسم وجان کو خطاب کرنا پڑتا ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۷۵)

تضاد اور پریشان خیالی ہی کی ایک مثال یہ ہے کہ مولانا نے انسان کی جان سے تعرض کرنے کا جواز ’قصاص‘ کے اصول کو قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جو فرد یا گروہ دوسرے انسانوں کے جان ومال یا آزادی راے پر تعدی کرے، اس کو اس سے روکنے کے لیے یا اس سے بدلہ لینے کے لیے اس کے خلاف تلوار اٹھائی جا سکتی ہے۔ ’قصاص‘ کو جہاد کی مشروعیت کا بنیادی نکتہ ماننے کایہ نتیجہ بھی مولانا خود بیان کرتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی ظلم وعدوان نہ پائے جانے کی صورت میں کسی گروہ کے خلاف تلوار اٹھانا بھی جائز نہیں۔ لکھتے ہیں:

’’یہ تعلیم جنگ کو ہر قسم کے دنیوی مقاصد سے پاک کر دیتی ہے۔ شہرت وناموری کی طلب، عزت وفرمانروائی کی خواہش، مال ودولت اورحصول غنائم کی طمع، شخصی وقومی عداوت کا انتقام، غرض کوئی دنیوی غرض ایسی نہیں ہے جس کے لیے جنگ جائز رکھی گئی ہو۔ ان چیزوں کو الگ کر دینے کے بعد جنگ محض ایک خشک وبے مزہ اخلاقی ودینی فرض رہ جاتی ہے جس کے مہالک وخطرات میں مبتلا ہونے کی ازخود خواہش تو کوئی کر ہی نہیں سکتا، اور اگر دوسرے کی طرف سے فتنہ کی ابتدا ہو تب بھی صرف اس وقت مقابلہ کے لیے تلوار اٹھا سکتا ہے جب کہ اصلاح حال اور دفع ضرر کے لیے تلوار کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ باقی نہ رہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۲۲۱، ۲۲۲)

’’اسلام کی تلوار ایسے لوگوں کی گردنیں کاٹنے کے لیے تو ضرور تیز ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں یا اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں ۔اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس تیزی میں وہ حق بجانب نہیں ہے۔ لیکن جو لوگ ظالم نہیں ہیں، جو بدکار نہیں ہیں، جو صد عن سبیل اللہ نہیں کرتے، جو دین حق کو مٹانے اور دبانے کی کوشش نہیں کرتے، جو خلق خدا کے امن واطمینان کو غارت نہیں کرتے، وہ خواہ کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور ان کے دینی عقائد خواہ کتنے ہی باطل ہوں، اسلام ان کی جان ومال سے کچھ تعرض نہیں کرتا۔ ان کے لیے اس کی تلوار کند ہے اور اس کی نظروں میں ان کا خون حرام ہے۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۵۶)

لیکن اس کے بعد اسی اصول کی تفریع کرتے ہوئے مولانا اس سے ’مصلحانہ جنگ‘ کا جواز اخذ کر لیتے ہیں جو کسی ظلم وعدوان یا فتنہ وفساد کے خلاف نہیں، بلکہ عمومی سطح پر کسی معاشرے کی اخلاقی اصلاح اور اس میں نیکی کے تصورات واقدار کو فروغ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ نتیجہ کسی طرح ان کے بنیادی مقدمے پر متفرع نہیں ہوتا، کیونکہ خود مولانا کی توضیح کے مطابق رفع فساد اور قصاص کو انسانی جان سے تعرض کا بنیادی اصول ماننے کا تقاضا یہ ہے کہ جو قومیں مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد کی مرتکب نہ ہوں، ان کے خلاف تلوار اٹھانا حرام قرار پائے۔

مولانا نے مفتوح قوموں کے لیے ’مصلحانہ جہاد‘ کے جو فوائد اور مصالح بیان کیے ہیں، وہ بھی بے حد مبالغے پر مبنی ہیں۔ عہد صحابہ کی فتوحات سے متعلق جو کچھ مواد تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے، اس میں اس بات کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا کہ انھوں نے ان مقبوضات کے معاشرتی، تمدنی یا معاشی ڈھانچے میں کوئی بڑی تبدیلی کی ہو۔ عام طور پر صرف اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ مفتوح قومیں پابندی کے ساتھ سالانہ جزیہ ادا کرتی رہیں، مسلمانوں کے مقابلے میں دشمن کا ساتھ نہ دیں، اپنے علاقے میں آنے والے مسلمانوں کو قیام وطعام کی مناسب سہولیات فراہم کریں اور اپنے اور مسلمانوں کے مابین معاشرتی امتیاز کو مٹانے کی کوشش نہ کریں۔

بالعموم ان علاقوں میں پہلے سے قائم نظم حکومت کو بھی نہیں چھیڑا گیا، بلکہ سابق حکمرانوں اور امرا ہی کو برقرار رکھتے ہوئے ان سے سیاسی اطاعت کا وعدہ لے لیا گیا۔ ان علاقوں پر مرکز اسلام کی طرف سے مقرر کردہ مسلمان عمال کی ذمہ داری بس یہ تھی کہ وہ محاصل وصول کر کے ان کو مدینہ بھیجنے کا انتظام کر دیں۔ اس ضمن میں رومی حکومت کے زیر اثر جزیرۂ قبرص کے ساتھ معاہدۂ صلح خاص طور پر دلچسپ ہے۔ سیدنا معاویہ کے عہد میں اس جزیرے کے باشندوں پر کوئی مسلمان عامل مقرر کیے بغیر اور جزیرے کو اسلامی حکومت کا باقاعدہ جغرافیائی حصہ بنائے بغیر محض اس شرط پر صلح کر لی گئی کہ وہ مسلمانوں کو سالانہ جزیہ کرتے رہیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں اس بات سے نہیں روکا جائے گا کہ وہ اتنی ہی رقم رومی حکومت کو بھی بطور خراج ادا کرتے رہیں۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک ۴/۲۶۲)

عملاً جو کچھ ہوا، وہ صرف یہ تھا کہ یہ علاقے سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کے زیر نگیں آ گئے اور یہاں سے وصول ہونے والے محاصل اسلامی حکومت کے خزانے میں جمع ہونے لگے۔ اس سے جہاد کا وہ مقصد تو بالکل واضح طور پر حاصل ہو گیا جو فقہا بیان کرتے ہیں، یعنی یہ کہ اہل کفر کے مقابلے میں مسلمانوں کی سربلندی قائم ہو جائے، لیکن مولانا مودودی نے اس سے بڑھ کر اس سیاسی غلبے کے جو مقاصد بیان کیے ہیں، مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں وہ محض ایک افسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ صحابہ کی حکمرانی ظاہر ہے کہ اپنے اخلاقی معیار کے لحاظ سے بہرحال جابر ومستبد حکومتوں سے ہزار درجہ بہتر تھی اور رعایا کی فلاح وبہبود کو انھوں نے اپنے طرز حکمرانی کا ایک لازمی جزو قرار دیا تھا، لیکن یہ بہرحال ان کے اقدامات کا ایک نتیجہ تھا نہ کہ اصل غرض اور مقصد۔ خود حضرات صحابہ نے کہیں اپنے اقدامات کی غرض وغایت یہ نہیں بیان کی۔ ہم صحابہ کے بیانات کی روشنی میں تفصیل سے واضح کر چکے ہیں کہ ان فتوحات کی حیثیت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والے انعام کی جبکہ مفتوح قوموں کے لیے یہ دین حق کو قبول نہ کرنے پر سزا اور انتقام کی تھی۔

’الجہاد فی الاسلام‘ کے علاوہ مولانا کی بعض دوسری تحریروں میں صحابہ کرام کے جنگی اقدامات کی توجیہ کے حوالے سے بعض دوسرے رجحانات کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ان ممالک میں شخصی حکومتیں قائم تھیں اور مستبد فرمانروا اقتدار پر قابض تھے۔ ان کا برسر اقتدار ہونا ہی اشاعت اسلام کے رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ ان کی موجودگی میں نہ تو اس امر کا امکان تھا کہ دعوت عام باشندگان ملک میں پھیلائی جا سکے اور نہ عوام کو اتنی آزادئ رائے اور آزادئ عمل حاصل تھی کہ اگر وہ اس دعوت حق کو پائیں تو اسے قبول کر کے اس پر عمل پیرا ہو سکیں۔ ان حالات میں حکمرانوں سے نمٹے بغیر نہ اسلام کی اشاعت کماحقہ سرانجام پا سکتی تھی اور نہ اس کے نتائج وثمرات رونما ہو سکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سلاطین کے نام اپنے مکتوبات مبارکہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر تم یہ دعوت قبول نہ کرو گے یا ہماری اطاعت تسلیم نہ کرو گے تو اپنی رعایا کی گمراہی کا وبال بھی تمہارے سر ہوگا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے اس عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کسی ملک میں ایسی حکومت قائم ہو جس کے ہوتے عوام کے لیے یہ عملاً ناممکن ہو کہ وہ دعوت اسلام کو سن کر قبول کر سکیں تو ایسی حکومت کو رستے سے ہٹانا ضروری ہے۔ اس حکومت کو ہٹانا دراصل عوام الناس کو عقیدہ وعمل کی آزادی بخشنے کا ہم معنی ہے۔ اس کا مقصود یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جائے بلکہ اس کا مقصود صرف یہ ہے کہ ملک کے سیاسی نظام سے ان تمام موانع کا خاتمہ کر دیا جائے جو حق کے ادراک اور اس کے اتباع میں مزاحم ہوتے ہیں۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/۱۹۰۔۱۹۲)

اس استدلال کی رو سے انھوں نے جہاد کو ایک مذہب کے بالجبر غلبہ کے بجائے آزادی مذہب کی فضا پیدا کرنے کا ضامن قرار دیا ہے۔

’تفہیم القرآن‘

آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ’تفہیم القرآن‘ میں مولانا نے جہاد سے متعلق نصوص کی تعبیر کس زاویے سے کی ہے۔

پہلے مشرکین سے متعلق حکم کو لیجیے:

’الجہاد فی الاسلام‘ میں مولانا نے اس حکم کو نقض عہد کا ارتکاب کرنے والے مشرکین کے ساتھ خاص قرار دیا تھا اور یہ نقطہ نظر اختیار کیا تھا کہ اس مخصوص گروہ کے علاوہ عرب کے باقی مشرکین کو جزیہ دے کر اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت حاصل تھی، تاہم ’تفہیم القرآن‘ میں انھوں نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ یہ حکم مشرکین کے بعض مخصوص گروہوں کے خلاف نہیں، بلکہ پورے جزیرۂ عرب کے مشرکین کے بارے میں دیا گیا تھا۔ البتہ اس حکم کے محرک اور اس کی اصل غرض وغایت کے حوالے سے روایتی فقہی نقطہ نظر سے مولانا کا اختلاف برقرار ہے۔ ان کے نزدیک مشرکین عرب کو قتل کرنے کا حکم اسلام کو بالجبر ان پر مسلط کرنے کی غرض سے نہیں، بلکہ جزیرۂ عرب کو کفر وشرک سے کلیتاً پاک کر کے خالصتاً اسلام کا مرکز بنا دینے اور ان فتنہ انگیز عناصر کی سرکوبی کے لیے دیا گیا تھا جو مستقبل میں کسی بھی موقع پر اس کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ لکھتے ہیں:

’’اب چونکہ عرب کا نظم ونسق بالکلیہ اہل ایمان کے ہاتھ میں آ گیا تھا اور تمام مزاحم طاقتیں بے بس ہو چکی تھیں، اس لیے وہ پالیسی واضح طور پر سامنے آ جانی چاہیے تھی جو عرب کو مکمل دار الاسلام بنانے کے لیے اختیار کرنی ضروری تھی۔ چنانچہ وہ حسب ذیل صورت میں پیش کی گئی:

الف۔ عرب سے شرک کو قطعاً مٹا دیا جائے اور قدیم مشرکانہ نظام کا کلی استیصال کر ڈالا جائے تاکہ مرکز اسلام ہمیشہ کے لیے خالص اسلامی مرکز ہو جائے اور کوئی دوسرا عنصر اس کے اسلامی مزاج میں نہ تو خلل انداز ہو سکے اور نہ کسی خطرے کے موقع پر اندرونی فتنہ کا موجب بن سکے۔ اسی غرض کے لیے مشرکین سے براء ت اور ان کے ساتھ معاہدوں کے اختتام کا اعلان کیا گیا۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۲/۱۷۲)

’’اس اعلان براء ت سے عرب میں شرک اور مشرکین کا وجود گویا عملاً خلاف قانون (Outlaw) ہو گیا اور ان کے لیے سارے ملک میں کوئی جائے پناہ نہ رہی، کیونکہ ملک کا غالب حصہ اسلام کے زیر حکم آ چکا تھا۔ یہ لوگ تو اپنی جگہ اس بات کے منتظر تھے کہ روم وفارس کی طرف سے اسلامی سلطنت کو جب کوئی خطرہ لاحق ہو، یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا جائیں تو یکایک نقض عہد کر کے ملک میں خانہ جنگی برپا کر دیں۔ لیکن اللہ اور اس کے رسول نے اس کی ساعت منتظرہ آنے سے پہلے ہی بساط ان پر الٹ دی اور اعلان براء ت کر کے ان کے لیے اس کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہ رہنے دیا کہ یا تو لڑنے پر تیار ہو جائیں اور اسلامی طاقت سے ٹکرا کر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں، یا ملک چھوڑ کر نکل جائیں، یا پھر اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو اور اپنے علاقہ کو اس نظم وضبط کی گرفت میں دے دیں جو ملک کے بیشتر حصہ کو پہلے ہی منضبط کر چکا ہے۔‘‘ (۲/۱۷۵)

وان احد من المشرکین استجارک‘ کی تشریح میں لکھتے ہیں:

’’فاجرہ حتی یسمع کلام اللہ سے مراد یہ ہے کہ ان کو اپنی پناہ میں لے کر اللہ کا کلام سناؤ، اگر وہ اس طرح وعظ ونصیحت حاصل کریں اور اسلام قبول کر لیں تو بہتر ہے، اور اگر ان کے دل اسلام کے لیے نہ کھلیں تو ان کو قتل نہ کرو بلکہ امن وعافیت کے ساتھ ان کو ان کے وطن تک پہنچا دو۔‘‘ (الجہاد فی الاسلام، ص ۲۷۳)

اس توجیہ کی رو سے ’فاقتلوا المشرکین‘ کا مذکورہ حکم دین ومذہب کے اختلاف پر نہیں بلکہ ایک سیاسی مصلحت پر مبنی حکم قرار پاتا ہے۔ گویا مشرکین کو قتل کرنا اصلاً مقصود نہیں تھا، بلکہ اس کی ضرورت جزیرۂ عرب کو کفر وشرک اور فتنہ انگیز عناصر سے پاک کر کے خالصتاً اسلام کا مرکز بنا دینے کے حوالے سے پیدا ہوئی تھی۔ اس توجیہ پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں، ان کا ذکر ہم اپنے مقام پر کریں گے۔ بہرحال، قتل مشرکین کے اس حکم کا محرک اور ہدف جو بھی ہو، مولانا کی تعبیر سے اتنی بات واضح ہے کہ وہ اسے ایک مخصوص دائرے اور مخصوص نوعیت کا حکم سمجھتے ہیں جس سے عمومی نوعیت کا کوئی شرعی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ 

دنیا کی غیر مسلم اقوام کے خلاف جہاد کے حوالے سے شریعت کے عمومی حکم کے لیے مولانا نے ’قاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ‘ اور آیت جزیہ کو ماخذ بنایا ہے اور اس حکم کی نظریاتی اساس یہ متعین کی ہے کہ اسلام شخصی اعتقاد اور رسمی عبادت کے دائرے میں تو کفر وشرک کو گوارا کر لیتا ہے، لیکن کسی ایسے نظام حکومت کا وجود اسے قبول نہیں جس میں خدائی قانون کے علاوہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کی عمل داری قائم ہو۔ اسی تناظر میں انھوں نے تفہیم القرآن میں ’حتی لا تکون فتنۃ‘ میں وارد لفظ ’فتنہ‘ کی بھی نئی تشریح کی ہے۔ اس سے پہلے الجہاد فی الاسلام میں انھوں نے ’فتنہ‘ کا مصداق حسب ذیل صورتوں کو قرار دیا تھا:

۱۔ کمزوروں پر ظلم کرنا، ان کے جائز حقوق سلب کرنا، ان کے گھر بار چھین لینا اور انھیں تکلیفیں پہنچانا۔

۲۔ جبر واستبداد کے ساتھ حق کو دبانا اور قبول حق سے لوگوں کو روکنا۔

۳۔ صد عن سبیل اللہ، یعنی اسلام قبول کرنے سے لوگوں کو روکنا، مسلمانوں کو زبردستی مرتد بنانے کی کوشش کرنا اور مسلمانوں کے لیے اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کو مشکل بنا دینا۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۶۶)

۴۔ لوگوں کو گمراہ کرنا اور حق کے خلاف خدع وفریب اور طمع واکراہ کی کوششیں کرنا۔

۵۔ غیر حق کے لیے جنگ کرنا اور ناجائز اغراض کے لیے قتل وخون اور جتھہ بندی کرنا۔

۶۔ پیروان حق پر باطل پرستوں کا غلبہ اور چیرہ دستی۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۱۰۶۔۱۰۹)

ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی بھی وجہ مخصوص معنوں میں مذہبی یا اعتقادی وجہ نہیں ہے۔ تاہم تفہیم القرآن میں مولانا نے اپنے بدلے ہوئے زاویہ نگاہ کے تحت ’فتنہ‘ کے مفہوم میں توسیع پیدا کی ہے اور اس صورت حال کو بھی اس کا مصداق قرار دیا ہے جب خدا کی حاکمیت کے بجائے انسانوں کی حاکمیت قائم ہو اور خدا کے قانون کے بجائے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین جاری ونافذ ہوں۔ لکھتے ہیں:

’’سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر ’’فتنے‘‘ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پھر جب ہم لفظ ’’دین‘‘ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی ’’اطاعت‘‘ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالاتر مان کر اس کے احکام وقوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی وفرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا ممکن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مطمح نظر یہ ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو جس میں بندے صرف قانون الٰہی کے مطیع بن کر رہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۱/۱۵۱)

مولانا کا یہ نقطہ نظر الوہیت، ربوبیت اور توحید کی اس مخصوص تشریح پر مبنی ہے جس کی رو سے قرآن مجید کا تصور توحید صرف مابعد الطبیعیاتی اعتقادات، مافوق الاسباب امور کی تدبیر اور رسوم عبادت کے دائرے تک محدود نہیں، بلکہ خدا کی الوہیت، ربوبیت اور حاکمیت دنیا کے قانونی وسیاسی دائرے میں بھی ’’توحید‘‘ کا تقاضا کرتی ہے ۔ مولانا نے اپنے اس تصور کی تفصیلی وضاحت اپنی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ اور تفہیم القرآن کے مختلف مقامات پر کی ہے اور ہمارے ناقص فہم کے مطابق اسی تصور نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ دنیا سے غیر الٰہی اور طاغوتی نظاموں کو مٹانے کے لیے جہاد کیا جائے گا۔ تفہیم القرآن میں انھوں نے جہاد کے احکام کی وضاحت اسی پہلو سے کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’کافر، مشرک، دہریے، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمایش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اسے یہ حق ہرگز نہیں کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو رفع کرنے کے لیے حسب موقع او رحسب امکان، تبلیغ اور شمشیر، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا، ب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آ جائیں۔‘‘ (تفہیم القرآن ۱/۱۵۱)

آیت جزیہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’عرب میں اسلام کا مشن پایہ تکمیل کو پہنچ جانے کے بعد دوسرا اہم مرحلہ جو سامنے تھا، وہ یہ تھا کہ عرب کے باہر دین حق کا دائرۂ اثر پھیلایا جائے۔ اس معاملہ میں روم وایران کی سیاسی قوت سب سے بڑی سد راہ تھی اور ناگزیر تھا کہ عرب کے کام سے فارغ ہوتے ہی اس سے تصادم ہو۔ نیز آگے چل کر دوسرے غیر مسلم سیاسی وتمدنی نظاموں سے بھی اسی طرح سابقہ پیش آنا تھا۔ اس لیے مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ عرب کے باہر جو لوگ دین حق کے پیرو نہیں ہیں، ان کی خود مختارانہ فرماں روائی کو بزور شمشیر ختم کر دو تا آنکہ وہ اسلامی اقتدار کے تابع ہو کر رہنا قبول کر لیں۔ جہاں تک دین حق پر ایمان لانے کا تعلق ہے، ان کو اختیار ہے کہ ایمان لائیں یا نہ لائیں، لیکن ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ جس آزادی کے استعمال کا انھیں اختیار دیا جا سکتا ہے، وہ بس اسی حد تک ہے کہ خود اگر گمراہ رہنا چاہتے ہیں تو رہیں، بشرطیکہ جزیہ دے کر اسلامی اقتدار کے مطیع بنے رہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۲/۱۷۲)

جزیہ کی نوعیت اور اس کا مقصد واضح کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے:

’’یہ جزیہ وہ چیز ہے جس کے لیے بڑی بڑی معذرتیں انیسویں صدی عیسوی کے دور مذلت میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی ہیں اور اس دور کی یادگار کچھ لوگ اب بھی موجود ہیں جو صفائی دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن خدا کا دین اس سے بہت بالا وبرتر ہے کہ اسے خدا کے باغیوں کے سامنے معذرت پیش کرنے کی کوئی حاجت ہو۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ جو لوگ خدا کے دین کو اختیار نہیں کرتے اور اپنی یا دوسروں کی نکالی ہوئی غلط راہوں پر چلتے ہیں، وہ حد سے حد بس اتنی ہی آزادی کے مستحق ہیں کہ خود جو غلطی کرنا چاہتے ہیں، کریں، لیکن انہیں اس کا قطعاً کوئی حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر کسی جگہ بھی اقتدار وفرمانروائی کی باگیں ان کے ہاتھوں میں ہوں اور وہ انسانوں کی اجتماعی زندگی کا نظام اپنی گمراہیوں کے مطابق قائم کریں اور چلائیں۔ یہ چیز جہاں کہیں ان کو حاصل ہو، فساد رونما ہوگا اور اہل ایمان کا فرض ہوگا کہ ان کو اس سے بے دخل کرنے اور انھیں نظام صالح کا مطیع بنانے کی کوشش کریں۔ اب رہا یہ سوال کہ یہ جزیہ آخر کس چیز کی قیمت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اس آزادی کی قیمت ہے جو انھیں اسلامی اقتدار کے تحت اپنی گمراہیوں پر قائم رہنے کے لیے دی جاتی ہے، اور اس قیمت کو اس صالح نظام حکومت کے نظم ونسق پر صرف ہونا چاہیے جو انھیں اس آزادی کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور ان کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ اور اس کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جزیہ ادا کرتے وقت ہر سال ذمیوں میں یہ احساس تازہ ہوتا رہے گا کہ خدا کی راہ میں زکوٰۃ دینے کے شرف سے محرومی اور اس کے بجائے گمراہیوں پر قائم رہنے کی قیمت ادا کرنا کتنی بڑی بد قسمتی ہے جس میں وہ مبتلا ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۲/۱۸۸)

ان اقتباسات میں جہاد کا جو فلسفہ اور اس کی نظری اساس بیان کی گئی ہے، وہ واضح طور پر ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ اور اس موضوع پر مولانا کی بعض دوسری تحریروں سے مختلف ہے۔ سابقہ تحریروں میں مولانا کا ذہنی رجحان یہ رہا ہے کہ جہاد کی نظری اساس مذہبی مخاصمت یا دوسرے الفاظ میں کفر وایمان کے اختلاف کو قرار دینے کے بجائے کفار کے فتنہ وفساد کے خاتمہ یا تبلیغ اسلام کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا دور کرنے یا انسانوں کے مابین مسلمہ اخلاقی اصولوں کی بالادستی قائم کرنے کو قرار دیا جائے۔ اس توجیہ سے ان کا مقصود تو کسی حد تک حاصل ہو جاتا ہے، لیکن اس کو قبول کرنے میں رکاوٹ یہ ہے کہ نصوص اس کی تائید نہیں کرتے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ جہاد کے حوالے سے زیر بحث نصوص مذکورہ وجوہ میں سے کسی وجہ کے تحت نہیں بلکہ صریحاً اسلام اور کفر وایمان کے تناظر میں جہاد کا حکم دیتی ہیں، چنانچہ اس وجہ کو نظر انداز کر کے کی جانے والی کوئی بھی تطبیق اصل سوال سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔ تفہیم القرآن کے مذکورہ اقتباسات سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی پر بھی بالآخر اس زاویہ نگاہ کی کمزوری واضح ہو چکی تھی، چنانچہ یہاں انھوں نے متعلقہ نصوص کی واضح دلالتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جہاد کا مقصد اسلامی نظام زندگی کی بالادستی قائم کرنے کو قرار دیا ہے جو بہرحال عمومی اخلاقی اصولوں پر مبنی نہیں بلکہ بداہۃً ایک خالص اعتقادی اور مذہبی مقصد ہے۔ 

تاہم مولانا نے یہاں فقہا کی کلاسیکی تعبیر کو بعینہ اختیار نہیں کیا، بلکہ ایک نئی تعبیر پیش کی ہے جو ایک اہم نکتے میں فقہی تعبیر سے مختلف ہے۔ فقہا کے نزدیک ’اعلاء کلمۃ اللہ‘ اور غلبہ اسلام سے مراد قانون وشریعت کی سطح پر غیر مسلموں کے قوانین اور رواجوں کا خاتمہ نہیں، بلکہ نظری واعتقادی تناظر میں علامتی طور پر اسلام اور کلمہ اسلام کی بالادستی قائم کرنا ہے۔ فقہا شرعی قوانین کی تنفیذ کو جہاد کا مقصد نہیں قرار دیتے، بلکہ ان کے ہاں یہ مسئلہ جہاد کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ایک ضمنی صورت حال کی حیثیت سے زیر بحث آتا ہے جس کا وہ اپنے اپنے اجتہاد کے مطابق حل تجویز کرتے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض کے نزدیک تمام شرعی قوانین کی پابندی اہل ذمہ پر لازم ہے، بعض کے نزدیک صرف معاملات یعنی نکاح وطلاق، بیع وشرا اور حدود وتعزیرات سے متعلق قوانین ان پر نافذ کیے جائیں گے جبکہ بعض کے نزدیک وہ ان تمام معاملات میں اپنے مذہبی قوانین پر عمل کے لیے آزاد ہیں۔ چونکہ فقہا کے نزدیک غیر مسلموں پر شرعی احکام کا نفاذ جہاد کا اصل مقصد نہیں، اس لیے اگر ان میں سے کسی کی رائے میں شریعت کا کوئی ایک بھی قانون غیر مسلموں پرلاگو نہ ہوتا ہو تب بھی اس سے ان کے فلسفہ جہاد پر کوئی زد نہیں پڑتی، کیونکہ ان کے تصور کے مطابق اسلام کی سربلندی مسلمانوں کی سیاسی بالادستی اور غیر مسلموں کی محکومیت کی صورت میں اس کے بغیر بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ تاہم مولانا مودودی کی تعبیر کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک چونکہ جہاد کا اصل محرک اور مقصد ہی اسلام کے اجتماعی نظام زندگی اور اس کے احکام وقوانین کی فرماں روائی قائم کرنا ہے، اس لیے ایک منطقی نتیجے کے طور پر انھیں یہ کہنا چاہیے کہ اسلام نے اجتماعی زندگی کے مختلف پہلووں یعنی معاشرت، معیشت اور سیاست وغیرہ سے متعلق جو اصول اور قوانین بیان کیے ہیں، وہ اسلامی ریاست کے تمام باشندوں کے لیے بلا تفریق مذہب واجب الاطاعت ہوں گے، لیکن مولانا مودودی اس کے قائل نہیں اور وہ اپنے تصور کے مطابق اسلامی نظام زندگی کے عملی نفاذ کو صرف ان لوگوں تک محدود سمجھتے ہیں جو اعتقادی سطح پر اس کی دعوت کو قبول کر لیں۔ چنانچہ تفہیم القرآن میں انھوں نے جہاں بھی اقامت دین کے حوالے سے انبیا کے مشن کی وضاحت کی ہے، اس میں اس مقصد کو ایمان لانے والوں تک ہی محدود کیا گیا ہے۔ لااکراہ فی الدین کے تحت لکھتے ہیں:

’’یہاں ’’دین‘‘ سے مراد اللہ کے متعلق وہ عقیدہ ہے جو اوپر آیت الکرسی میں بیان ہوا ہے اور وہ پورا نظام زندگی ہے جو اس عقیدے پر بنتا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’اسلام‘‘ کا یہ اعتقادی اور اخلاقی وعملی نظام کسی پر زبردستی نہیں ٹھونسا جا سکتا۔ یہ ایسی چیز ہی نہیں ہے جو کسی کے سر جبراً منڈھی جا سکے۔‘‘ (تفہیم القرآن، ۱/۱۹۶)

یہی وجہ ہے کہ وہ پبلک لا سے متعلق چند قوانین کے علاوہ اسلامی شریعت کے بیشتر معاشرتی احکام سے غیر مسلموں کو مستثنیٰ قرار دیتے ہیں اور ان کے نزدیک غیر مسلموں کے تمام معاشرتی ومذہبی قوانین کو تحفظ کی ضمانت حاصل ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر غیر مسلم معاشروں اور ممالک کے حوالے سے مسلمانوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟ اس کا جواب انھوں نے ’’شہادت حق‘‘ کے عنوان سے اپنی ایک تحریر میں دیا ہے اور اس ذمہ داری کو محض حق کی علانیہ گواہی دے دینے تک محدود رکھا ہے۔ اس طرح مولانا کی زیر بحث توجیہ ایک شدید داخلی تضاد کا شکار ہو جاتی ہے، کیونکہ وہ جس نکتے کو جہاد کی اصل اساس اور ہدف قرار دیتے ہیں، اسے عملاً اور نتیجتاً قبول نہیں کرتے اور غیر مسلموں کو اپنے ان بیشتر گمراہانہ طور طریقوں، رواجوں اور قوانین پر کاربند رہنے کی اجازت دیتے ہیں جن کے خاتمے کو جہاد کی مشروعیت کا مقصد بتایا گیا تھا۔ اب اگر جہاد کے ذریعے سے ان معاشرتی وقانونی رواجوں کا خاتمہ نہیں ہوتا اور قانون ونظام کے دائرے میں خدائی قوانین کی حاکمیت غیر مسلموں پر قائم نہیں ہوتی تو جہاد کا مقصد عملاً غیر خدائی احکام وقوانین کی فرماں روائی کو ختم کرنا نہیں بلکہ محض ان کو ماننے والوں سے حکومت واقتدار چھین لینا قرار پاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مولانا کی بیان کردہ توجیہ کی پوری عمارت ہی منہدم ہو جاتی ہے، کیونکہ اگر جہاد کا اصل ہدف یہی ہے تو اس کے لیے احکام وقوانین کی فرماں روائی کا حوالہ دینے اور اسے اس کے مقصود اور غایت کے طور پر بیان کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی اور اس کے بجائے کلاسیکی فقہی تعبیر زیادہ موزوں دکھائی دیتی ہے۔ 

ایک امکان یہ ہو سکتا ہے کہ مولانا غیر مسلم حکومت کے خاتمے اور پبلک لا سے متعلق اسلامی شریعت کے چند قوانین کے نفاذ کو ہی اسلام کے اجتماعی نظام زندگی کی فرماں روائی قائم کرنے کے ہم معنی سمجھتے اور اسے ہی جہاد کا مقصد قرار دیتے ہوں۔ تاہم اس صورت میں ان کی بیان کردہ علت درست قرار نہیں پاتی، اس لیے کہ اگر علت ’خدا کے قانون‘ کے علاوہ کسی بھی دوسرے قانون کی فرماں روائی کو ختم کرنا ہے تو پھر ایک طرح کے قوانین اور دوسری طرح کے قوانین میں فرق جائز نہیں ہو سکتا۔ بالخصوص مولانا مودودی کے تصور کی رو سے یہ تفریق زیادہ ناقابل قبول قرار پاتی ہے، کیونکہ ان کے نزدیک خدا کے دیے ہوئے قوانین کے علاوہ کسی دوسرے کے وضع کردہ قانون کی پیروی شرک کی ایک صورت ہے، اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ غیر مسلم شخصی معاملات کے دائرے میں اپنے گمراہانہ قوانین پر عمل کے لیے آزاد ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شخصی قوانین کے دائرے میں اس شرک فی الاطاعت کو آخر کن وجوہ سے گوارا کیا گیا ہے؟ اور اگر اعتقاد کی سطح پر غیر خدا کی عبادت کی اجازت ہے اور پرسنل لا میں بھی غیر خدائی قوانین کی فرماں روائی قبول کی جا سکتی ہے تو ایسی قوم اپنے مذہبی تصورات کے مطابق اپنے نظم اجتماعی کی تشکیل کیوں نہیں کر سکتی؟ مولانا یہ بھی واضح نہیں کرتے کہ اگر خدا کی حاکمیت کو قانونی وسیاسی سطح پر قائم کرنا دین کا اصل مقصد ہے تو پھر سب سے پہلے تو اس حاکمیت کو نظری طور پر تسلیم کروانا چاہیے۔ آخر یہ کیا منطق ہے کہ قانونی وعملی حاکمیت کو ماننا جس نظری اور اعتقادی بنیاد یعنی خدائے واحد اور اس کی دی ہوئی شریعت پر ایمان پر مبنی ہے، اس کو ماننے یا نہ ماننے کا تو پورا اختیار دے دیا جائے، لیکن اس کی فرع اور نتیجے کو منوانے کے لیے جبر واکراہ کو روا رکھا جائے؟ 

مولانا کے نقطہ نظر میں پائی جانے والی الجھن کو حل کرنے کے لیے ایک مزید امکان یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ مولانا کی مراد دراصل غیر مسلموں سے اپنے گمراہانہ قوانین کی پیروی کا حق سلب کرنا نہیں، بلکہ ان قوانین کو حکومت واقتدار کے ذریعے سے دوسرے انسانوں پر مسلط کرنے کی صلاحیت چھین لینا ہے۔ یہ فرض کرنے کے لیے مولانا کے یہ الفاظ ایک حد تک جواز فراہم کرتے ہیں کہ ’’ان کو یہ حق نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر اپنا حکم جاری کریں اور انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہیں۔‘‘ تاہم یہ مفروضہ بھی الجھن کو حل نہیں کرتا، اس لیے کہ اگر ’’خلق خدا اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرنے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایک قوم کسی دوسرے قوم پر اپنے نظام زندگی کو مسلط نہ کر سکے تو پھر جہاد صرف اس قوم کے خلاف جائز ہونا چاہیے جو اس طرح کے عزائم اور ان کو رو بہ عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، نہ کہ مطلق طور پر تمام اقوام کے خلاف۔ او ر اگر مراد یہ ہے کہ ایک قوم کے ارباب حل وعقد کو اپنا مخصوص نظام زندگی اپنی ہی قوم پر نافذ کرنے کا حق نہیں ہے تو اول تو اس کے لیے ’’زبردستی مسلط کرنے‘‘ کی تعبیر درست نہیں، کیونکہ کسی بھی قوم کا نظام زندگی اصولی طور پر کسی ایک طبقے کا مسلط کردہ نہیں ہوتا بلکہ بحیثیت مجموعی پوری قوم کے نظریہ حیات پر مبنی اور اس کا ترجمان ہوتا ہے اور کرہاً نہیں، بلکہ طوعاً اس پر ’’مسلط‘‘ کیا جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی قوم کا اپنے نظام زندگی کو اپنے تصورات کے مطابق تشکیل دینے کا اختیار مولانا کے تصور کے مطابق اسلامی حکومت کے قیام کے بعد بھی کلی طور پر ختم نہیں ہوتا، کیونکہ خود مولانا اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے مذہبی اور معاشرتی قوانین کو تحفظ کی ضمانت دیتے ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ غیر مسلم قومیں اپنے مخصوص دائرے میں اپنے تصورات کے مطابق نظام زندگی بھی تشکیل دے سکتی ہیں او ر اس کے تحت اپنی آئندہ نسلوں کی پرورش کااہتمام بھی پوری آزادی کے ساتھ کر سکتی ہیں۔ اس طرح ریاست کی سطح حکومت واقتدار سے محروم ہونے کے باوجود معاشرتی سطح پر ’’انسانی سوسائٹیوں کی زمام کار اپنے ہاتھ میں رکھ کر اپنی گمراہیوں کو خلق خدا پر اور ان کی آنے والی نسلوں پر زبردستی مسلط کرتے رہنے‘‘ کا اختیا ر بہرحال غیر مسلموں کے پاس جوں کا توں باقی رہ جاتا ہے۔

ایک تیسرا زاویہ نظر

آخر میں، مولانا مودودی کی تحریروں میں اسلام کے فلسفہ جہاد اور اس کے عملی وقانونی مضمرات کے حوالے سے ایک تیسرے زاویہ نگاہ کا ذکر بھی ضروری ہے جس کی نمائندگی بنیادی طور پر اس مناقشے میں ہوئی ہے جو دار الحرب میں غیر مسلموں سے سود لینے کے جواز وعدم جواز کے ضمن میں ان کے اور مولانا مناظر احسن گیلانی کے مابین ہوا۔ یہاں مولانا کا زاویہ نگاہ بدلا ہوا ہے اور وہ اقوام عالم کی اصلاح کی غرض سے پور ی دنیا پر اسلامی حکومت قائم کرنے کو مسلمانوں کا اخلاقی فریضہ قرار دینے کے بجائے کفر اور اسلام کی کشمکش کو محض نظری اور اعتقادی دائرے تک محدود قرار دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

’’اعتقادی قانون کے لحاظ سے دنیا دو ملتوں پر منقسم ہے۔ اسلام اور کفر۔ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اور تمام کفار دوسری قوم۔ ..... کفر ایک دوسری ملت ہے جس سے ہمارا اختلاف اصول اور اعتقاد اور قومیت کا اختلاف ہے۔ اس اختلاف کی بنا پر اصلاً ہمارے اور ان کے درمیان جنگ قائم ہے، الا یہ کہ اس پر صلح یا معاہدہ یا ذمہ کی کوئی حالت عارض ہو جائے۔ پس اسلام اور کفر، اور مسلم اور کافر کے درمیان اصل صلح نہیں بلکہ جنگ اصل ہے اور صلح اس پر عارض ہوتی ہے۔ مگر یہ جنگ بالفعل نہیں، بالقوہ ہے، عملی نہیں نظری اور اصولی ہے۔ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ جب تک ہماری اور ان کی قومیت الگ ہے اور ہمارے اور ان کے اصول ایک دوسرے سے متصادم ہیں، ہم میں اور ان میں حقیقی ودائمی صلح اور دوستی نہیں ہو سکتی۔ ....... اس اعتقادی قانون کی رو سے اسلام اور کفر کے درمیان ابدی جنگ ہے، مگر یہ جنگ محض نظری (Theoretical) ہے۔ ہر کافر حربی (Enemy) ہے، مگر اس معنی میں کہ جب تک ہماری اور اس کی قومیت الگ ہے، ہمارے اور اس کے درمیان بناے نزاع قائم ہے۔ ہر دار الکفر محل حرب ہے یا بالفاظ دیگر حربیت کا کلی ارتفاع صرف اختلاف قومیت ہی کے مٹ جانے سے ہو سکتا ہے۔ اس قانون نے محض ایک نظریہ اور قاعدۂ اصلیہ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر ان کی حکمت عملی کی بنا قائم ہے۔ باقی رہے حقوق وواجبات اور جنگ وصلح کے عملی مسائل تو ان کا اس قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دستوری اور بین الاقوامی قانون سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ (سود ص ۲۹۶ تا ۲۹۹)

اس بحث میں آگے چل کر اسلام کے بین الاقوامی قانون کی وضاحت کے تحت انھوں نے ایک بنیادی نکتے میں روایتی فقہی نقطہ نظر سے اختلاف کیا ہے۔ کلاسیکی فقہا کے ہاں غیر مسلموں کے ساتھ اسلامی ریاست کے تعلق کی حسب ذیل صورتیں تسلیم کی گئی ہیں:

اہل ذمہ، یعنی وہ غیر مسلم جو اسلامی ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے اسلامی ریاست میں مقیم ہوں۔

اہل صلح، یعنی وہ غیر مسلم قوم جو دار الاسلام کی باسی نہ ہو، لیکن اسلامی قوانین کی پابندی قبول کرتے ہوئے اسلامی ریاست کو جزیہ ادا کرنے پر رضامند ہو جائے۔

اہل موادعہ، یعنی وہ غیر مسلم قوم جو نہ تو دار الاسلام میں مقیم ہو اور نہ اسلامی قوانین کی پابندی کو قبول کریں، البتہ اسلامی ریاست کو جزیہ دینا قبول کر لیں۔

اہل حرب، یعنی وہ غیر مسلم جن کا مذکورہ صورتوں میں سے کسی صورت میں بھی اسلامی ریاست کے ساتھ تعلق نہ ہو۔ 

فقہا کے ہاں کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ جزیہ کی ادائیگی اور اسلامی قوانین کی پابندی کے بغیر صلح کسی مستقل قانونی آپشن کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ کسی مجبوری کے تحت محض وقتی طور پر اس کی گنجایش ہے۔ تاہم مولانا مودودی نہ صرف غیر جانبدار غیر مسلم قوموں کا وجود ایک مستقل قانونی شق کے طور پر تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہ بھی قرار دیتے ہیں کہ ایسی قوموں کے لیے اسلام قبول کرنے یا جزیہ ادا کرنے کے علاوہ ان کے ساتھ محض صلح کا معاہدہ کر لینا بھی ایک مستقل قانونی آپشن ہے اور ان کے خلاف جنگ صرف اس صورت میں جائز ہوگی جب وہ مسلمانوں کی طرف سے معاہدہ صلح کی پیش کش کو قبول نہ کریں۔ لکھتے ہیں:

’’اس آخری قسم کے کفار کی بھی متعدد اقسام ہیں۔ ایک وہ جن سے اسلامی حکومت کا معاہدہ نہ ہو مگر دشمنی بھی نہ ہو۔ دوسرے وہ جو اسلامی حکومت کو خراج دیتے ہوں مگر ان کی حدود میں احکام اسلامی جاری نہ ہوں۔ تیسرے وہ جن سے کوئی معاہدہ نہ ہو گر دشمنی بھی نہ ہو۔ چوتھے وہ جن سے مسلمانوں کی دشمنی ہو۔‘‘ (سود ص ۳۱۴)

’’غیر معاہدین‘‘ کے زیر عنوان ان میں سے پہلی قسم کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’وہ کفار جن سے معاہدہ نہ ہو۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کو ہمیشہ بین الاقوامی تعلقات میں جنگ کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی تعلقات کا انقطاع (Rupture of Diplomatic Relations) دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ دونوں قومیں اب باہمی احترام کی قیود سے آزاد ہیں۔ ..... اگر مسلمانوں نے دعوت کے بغیر ان سے جنگ کی تو گناہ گارہوں گے، لیکن ایسی جنگ میں ان کی جان ومال کا جو اتلاف وہ کریں گے، اس میں سے کسی چیز کا ضمان حنفیہ کے نزدیک مسلمانوں پر لازم نہ آئے گا۔‘‘ (سود ص ۳۲۰، ۳۲۱)

’’دعوت سے مراد یہ ہے کہ ان کو الٹی میٹم دیا جائے کہ یا تو ہم سے صلح ومعاہدہ کرو، یا جزیہ دو، یا مسلمان ہو کر ہماری قومیت میں شامل ہو۔ اگر ان تینوں صورتوں میں سے کوئی صورت تم قبول نہیں کرتے تو ہمارے اورتمہارے درمیان جنگ کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔‘‘ (سود ص۳۲۱) 

اپنے اسی نقطہ نظر کے تحت انھوں نے فقہا کی اس راے سے بھی اختلاف کیا ہے کہ جو غیر مسلم قوم مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ نہیں رکھتی، وہ حربی قوم ہے اور مسلمانوں کے لیے اس پر حملہ کرنا یا معمول کے حالات میں اس کے باشندوں کے جان ومال کو مباح رکھنا درست ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:

’’محارب وہ قوم ہے جو مسلمانوں سے برسر جنگ ہو۔ ایسی قوم کا کوئی فرد یا گروہ بالفعل مقاتل (combatant) ہو یا نہ ہو، بہرحال اس کا مال مباح ہے۔ ہم اس کے تجارتی قافلوں کو گرفتار کر سکتے ہیں۔ اس کے افراد ہماری زد میں آئیں گے تو ہم ان کو پکڑیں گے اور ان کے اموال پر قبضہ کر لیں گے۔ ..... لیکن جو قوم ہم سے برسر جنگ نہیں ہے، وہ خواہ معاہد ہو نہ ہو، اس کے اموال ہمارے لیے مباح نہیں ہیں۔ قرآن میں تصریح ہے کہ لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْْہِمْ (الممتحنہ۔ ۸) یہ بات عین مقتضاے عقل وانصاف ہے۔ ورنہ اگر مسلمانوں کے لیے مطلقاً ہر غیر ذمی کافر کا مال مباح ہو، جیسا کہ مولانا کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے، تو مسلمانوں کی قوم اقوام عالم کے درمیان امت وسط ہونے کے بجائے ایک لٹیری قوم بن جائے گی، غیر قوموں پر ڈاکے ڈالنا اس کا پیشہ قرار پائے گا اور دنیا میں اس کا وجود ایک بلائے عام بن جائے گا۔‘‘ (سود ص ۲۴۱، ۲۴۲)

’’مولانا کے نظریہ کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ ہر غیرذمی کافر کو حربی (Enemy) اور ہر غیر مسلم مقبوضہ کو دار الحرب (Enemy Country) سمجھ رہے ہیں۔ یہ اسلام کے بین الاقوامی قانون کی بالکل غلط تعبیر ہے۔ غیر مسلم کا مال اور خون صرف حالت جنگ میں مباح ہے۔‘‘ (سود ص ۲۴۵)

’’اصلی غلطی یہ ہے کہ مولانا ہر اس غیر مسلم کے مال کو مباح سمجھ رہے ہیں جس کی ذمہ داری کسی اسلامی حکومت نے نہ لی ہو، حالانکہ اس نظریہ کی تائید قرآن وحدیث کے کسی حکم سے نہیں ہوتی۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ ایسے دار الکفر جو اسلامی اصطلاح کی رو سے درحقیقت دار الحرب نہیں ہے، دار الحرب قرار دے رہے ہیں۔‘‘ (سود ص ۲۴۸، ۲۴۹)

’’قرآن میں ارشاد ہے کہ ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق۔ اس آیت کی رو سے ہر انسان کی جان اصلاً قابل احترام ہے۔ اس کے حلال ہونے کی صورت صرف یہ ہے کہ حق اس پر قائم ہو جائے۔ جہاد میں یہ حرام اسی طرح ’’حق‘‘ کی خاطر حلال ہو جاتا ہے جس طرح قصاص میں خود مسلمان کا حرام خون بھی حلال ہو جاتا ہے۔ اگر اصولاً کافر غیر ذمی کو اسلام نے ’’حربی‘‘ قرار دیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ امام اور جماعت سے الگ ہو کر ہر مسلمان ہر غیر ذمی کافر پر جب چاہے ’’حق‘‘ قائم کر دے اور جہاں چاہے قتل کر دے اور لوٹ لے۔ اگر ایسا ہو تو ایک مسلمان اور ایک انارکسٹ میں کیا فرق باقی رہا؟‘‘ (سود ص ۲۶۶)

مولانا نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے غیر ذمی کفار کے جان ومال کو صرف ’’غیر معصوم‘‘ قرار دیا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جان ومال سے تعرض کرنے والے مسلمانوں پر دار الاسلام کے قانون کے تحت کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، لیکن بعد کے فقہا نے ’’غیر معصوم‘‘کو ’’مباح‘‘ کے مترادف سمجھ لیا۔ (سود ص ۳۱۲)

اسی بدلے ہوئے رجحان کی نمائندگی ان کے ہاں جدید مسلم ریاستوں میں غیر مسلموں پر جزیہ کے نفاذ کے مسئلے میں بھی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جزیہ کا نفاذ اصلاً جنگ میں مفتوح ہونے والے غیر مسلموں پر ضروری ہے، جبکہ صلحاً فتح ہونے والی قوموں پر اس کا نفاذ غیر مسلموں کی رضامندی پر منحصر ہے۔ لکھتے ہیں:

’’اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے جزیہ لینے کا حکم اس حالت کے لیے دیا گیا ہے جبکہ وہ یا تو مفتوح ہوئے ہوں یا کسی معاہدہ کی رو سے جزیہ دینے کی واضح شرط پر اسلامی حکومت کی رعایا بنائے گئے ہوں۔ پاکستان میں چونکہ یہ دونوں صورتیں پیش نہیں آئی ہیں، اس لیے یہاں غیر مسلموں پر جزیہ عائد کرنا میرے نزدیک شرعاً ضروری نہیں ہے۔‘‘ (رسائل ومسائل، ۴/۲۴۶)

یہ زاویہ نگاہ مسلم وغیر مسلم ممالک کے خارجہ تعلقات کے ضمن میں نہ صرف کلاسیکی فقہی موقف سے بلکہ خود ’’تفہیم القرآن‘‘ میں مولانا کے بیان کردہ موقف سے بھی مختلف ہے، کیونکہ انھوں نے جزیہ کی جو حکمت بیان کی ہے، وہ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اسلامی حکومت کے زیر نگیں رہنے والے غیر مسلموں کے لیے جزیہ کی ادائیگی ایک لازمی فریضے کی حیثیت رکھتی ہو، کیونکہ مذکورہ فلسفہ کی رو سے غیر مسلموں کو ان کی گمراہیوں کا احساس دلانے کے لیے ان پر جزیہ کا نفاذ ناگزیر ہے۔ 

مولانا نے جہاد وقتال کے ضمن میں اسلامی ریاست کی ذمہ داریوں کی وصاحت میں بین الاقوامی معاہدات کی پاس داری کو بھی خاص اہمیت دی ہے۔ چنانچہ سورۂ انفال کی آیات ۷۲، ۷۳ کی تشریح میں انھوں نے ’تفہیم القرآن‘ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے۔ فرماتے ہیں:

’’یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی بڑا اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا برئ من کل مسلم بین ظہرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت وحفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘ اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔ ..... ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/۱۶۱، ۱۶۲)

اگرچہ کسی غیر مسلم قوم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پابندی کا اصول کلاسیکی فقہ میں بھی تسلیم کیا گیا ہے، تاہم فقہا اسے ایک محدود اور وقتی اصول کی حیثیت دیتے ہیں۔ مولانا کے اقتباس سے واضح ہے کہ وہ اسے بین الاقوامی سیاست اور مسلم وغیر مسلم حکومتوں کے تعلقات کی تشکیل کے ضمن میں ایک مستقل اور بنیادی اصول کا درجہ دیتے ہیں جس کی پاس داری مظلوم مسلمان اقلیتوں کی مدد کرنے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دونوں زاویہ ہاے نگاہ کی ترجیحات کا فرق اس سے واضح ہوتا ہے کہ جب ۱۹۴۸ء میں کشمیر کے مقامی مسلمانوں نے بھارت کے خلاف جنگ آزادی کا آغاز کیا تو مولانا مودودی نے حکومت پاکستان کی پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ:

’’جہاد کشمیرکے سلسلے میں میرے نزدیک یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ وہاں لڑائی بھی ہو اور نہ بھی ہو۔ یعنی ایک طرف ہماری حکومت تمام دنیا کے سامنے اعلان کرے کہ ہم لڑ نہیں رہے بلکہ لڑنے والوں کو روک رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لڑے بھی تو اس سے نہ صرف ہماری اخلاقی پوزیشن خراب ہوگی بلکہ ہم لڑ بھی نہیں سکیں گے۔ حکومت کا یہ موقف خود پاکستانی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں بیان کیا تھا۔‘‘ (تصریحات ص ۴۷۰)

اس نکتے پر مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے مابین ایک اہم اور دلچسپ بحث بھی ہوئی کہ آیا پاکستانی حکومت مجاہدین کی عسکری اور افرادی امداد کر سکتی ہے یا نہیں۔ مولانا عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کا عملاً مجاہدین کو مدد فراہم کرنا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ وہ معاہدے کی پابند نہیں رہی، جبکہ مولانا مودودی کا استدلال یہ تھا کہ حکومت کا اس بات کا واضح اعلان اور اقرار نہ کرنا بلکہ ظاہری طور پر اس کی تردید کرنا اور پہلے کی طرح بھارتی حکومت سے سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم رکھنا اس امر کو تسلیم کرنے سے مانع ہے۔ تاہم بحث کے آخر میں مولانا مودودی نے یہ قرار دیا کہ چونکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے مجاہدین کشمیر کی امداد کے علانیہ اعتراف کے باوجود بھارتی حکومت نے اسے نبذ عہد کے مترادف نہیں سمجھا، اس لیے قانونی طور پر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ صرف کشمیر کی حد تک دونوں حکومتیں امن معاہدے کی پابند نہیں رہیں، جبکہ عمومی طور پریہ معاہدہ برقرار ہے۔ (اس دلچسپ مراسلت کے لیے ملاحظہ ہو: ’’انوار عثمانی‘‘ مرتبہ پروفیسر انوار الحسن شیرکوٹی ۲۰۴-۲۲۱۔ ابو حمزہ قاسمی، ’’خطبات ومکتوبات عثمانی‘‘، ۲۴۵-۲۶۰)

۱۹۷۹ء میں افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کی طرف سے افغان مسلمانوں پر ظلم وستم کے واقعات رونما ہوئے تو وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حکومت کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر مولانا سے دریافت کیا گیا کہ آیا پاکستان سے مسلمانوں کو افغان بھائیوں کی مدد کے لیے سرحد پار جانا چاہیے؟ مولانا نے فرمایا:

’’کوئی شک نہیں کہ ہمارے افغان بھائی اس وقت نہ صرف صدی کے بہت بڑے جہاد میں مصروف ہیں، بلکہ جن مشکلات کا انھیں سامنا ہے، دوسروں کو ان کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا۔ .... لیکن جب تک کابل حکومت ریاست پاکستان کے خلاف جنگ کا اعلان نہیں کرتی یا حکومت پاکستان اس سے تمام تعلقات توڑ کر اعلان جنگ نہیں کرتی، آپ پاکستانی شہریوں کو سرحد پار کر کے میدان جنگ میں نہیں اترنا چاہیے۔ یہ نہ صرف اسلامی قانون بین الاقوام کی نگاہ میں مناسب نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنے گا۔ البتہ قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے آپ کے کارکنان جا سکتے ہیں، مگر زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ وہ بھی اسی پالیسی کو اختیار کریں جسے حکومت پاکستان اور آپ کا نظم طے کرے۔ ..... اگر حالات بہت ہی زیادہ خراب ہو جائیں اور وہاں پر جہاد میں مصروف مجاہدین کی قیادت یہ چاہے کہ دوسرے مسلم ممالک سے انھیں افرادی قوت بھی درکار ہو، تب ایسے مسائل کا مرکزی سطح پر حل تلاش کیجیے، مگر یہ چیز انفرادی یا مقامات کی سطح پر نہیں ہونی چاہیے۔‘‘ (تصریحات ص ۴۵۷، ۴۵۸)


سابقہ صفحات میں اٹھائے گئے تنقیدی نکات کی روشنی میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ’الجہاد فی الاسلام‘ اور ’تفہیم القرآن‘ میں اسلام کے تصور جہاد کے حوالے سے مولانا مودودی کی پیش کردہ تعبیرات واضح اور منطقی لحاظ سے مربوط نہیں، بلکہ بڑی حد تک ان کی پریشان خیالی کی غمازی کرتی ہیں۔ ہم نے بعض پہلووں سے مولانا کے فکر کا ایک ابتدائی تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ مولانا کے علمی کام سے دلچسپی رکھنے والے محققین اسے زیادہ تفصیل اور گہرائی کے ساتھ موضوع بنائیں اور مولانا کے فکر ونظر کے وسیع تر تناظر میں اس بحث کے حوالے سے ان کے رجحانات کو متعین کرنے کی کوشش کریں۔ البتہ جہاں تک تیسرے اور آخری زاویہ نگاہ کا تعلق ہے تو ہماری رائے میں وہ عالمی سیاسی حالات اور بین الاقوامی قانون میں رونما ہونے والے جوہری تغیرات کے گہرے ادراک کی غمازی کرتا ہے اور مولانا نے ایک بدلے ہوئے تناظر میں اسلامی قانون کی نئی اور تازہ تعبیر پیش کرنے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے نئے حالات سے ہم آہنگ نقطہ نظر پیش کر کے گہری اجتہادی بصیرت کا ثبوت دیا ہے۔ اس زاویہ نگاہ کا تقابل اس موضوع پر مولانا کی دوسری تحریروں کے ساتھ کیا جائے تو یقیناًبہت سے تضادات اور الجھنیں سامنے آتی ہیں اور خاص طور پر یہ سوال تشنہ جواب رہ جاتا ہے کہ مولانا نے تفہیم القرآن وغیرہ میں جہاد وقتال کے نصوص کی جو اصولی تعبیر پیش کی ہے، اس کی رو سے زیر بحث زاویہ نگاہ کی گنجائش کیسے پیدا ہوتی ہے۔ تاہم جہاں تک عملی دائرے میں زیربحث نقطہ نظر کی اجتہادی قدر وقیمت کا تعلق ہے تو وہ شک وشبہ سے بالاتر ہے اور اس حوالے سے مولانا کا شمار عالم اسلام کے ان نمایاں ترین اہل علم اور مفکرین میں کیا جا سکتا ہے جنھوں نے، نظریہ اور تصور کی سطح پر ہی سہی، اسلامی قانون کی تشکیل جدید کے ضمن میں نہایت بنیادی راہ نمایانہ کردار ادا کیا ہے۔ 

یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلام کے فلسفہ جہاد کی تشریح وتوضیح کے حوالے سے مولانا مودودی اور الاخوان المسلمون کے راہ نماؤں مثلاً سید قطب شہید کے طرز استدلال میں بہت بنیادی اشتراکات پائے جاتے ہیں جنھیں بعض حوالوں سے فکری توارد کی حیرت انگیز مثال کے طورپر پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم جہاں تک نظری اور فلسفیانہ بحث ومباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کو سمجھنے اور مطلوبہ توازن کو ملحوظ رکھنے کا تعلق ہے تو الاخوان المسلمون کے راہ نماؤں کا طرز فکر مولانا مودودی کے طرز فکر سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا۔ اخوان کے ہاں اصولی اور نظری بحث اور عملی ومعروضی حالات کے تقاضوں کے مابین حکیمانہ امتیاز کا شدید فقدان ہے، جبکہ مولانا مودودی اس فرق کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود اخوان نے بحیثیت مجموعی ایک تشدد پسند تحریک کی صورت اختیار کر لی جبکہ مولانا موودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ ہمارے نزدیک مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں ایک متوازن طرز فکر کی تشکیل کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت (Contribution) بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔


حواشی

(۱) البتہ ’لا اکراہ فی الدین‘ اور اس کے ہم معنی نصوص سے، جو اصلاً تکوینی جبر واکراہ کی نفی کے بیان کے لیے آئی ہیں، التزامی طور پر یہ استدلال یقینا درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت کے بغیر کسی انسان کو دین کے معاملے میں کسی دوسرے انسان پر جبر واکراہ کا حق حاصل نہیں۔ چنانچہ بعض روایات میں اس آیت کی جو شان نزول بیان ہوئی ہے، اس سے آیت سے اخذ ہونے والے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ انصار میں یہ رواج تھا کہ اگر کسی عورت کے بچے پیدایش کے بعد فوت ہو جاتے تو وہ منت مان لیتی کہ اگر میرا کوئی بچہ زندہ رہا تو میں اسے یہودی مذہب کا پیروکار بناؤں گی۔ اس طرح انصار کے کئی بچے یہودیوں کی سرپرستی میں رہتے تھے۔ جب بنو نضیر کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کیا گیا تو انصار نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو ان کے ساتھ نہیں جانے دیں گے۔ ہم نے تو ان کو اس وقت یہودی مذہب کا پیروکار بنایا تھا جب ہم سمجھتے تھے کہ ان کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ اب جب اسلام آ چکا ہے تو ہم انھیں اسلام کی پیروی پر مجبور کریں گے۔ اس پر قرآن مجید میں لا اکراہ فی الدین کا حکم نازل ہوا اور کہا گیا کہ ان میں سے جو یہودیوں کے ساتھ جانا چاہے، چلا جائے اور جو یہودی مذہب چھوڑ کر وہیں رہنا چاہے، رہ جائے۔ (تفسیر الطبری، ۳/۰۱) 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بعض مواقع پر اسی تناظر میں اس آیت کا حوالہ دینا منقول ہے۔ روایت ہے کہ جب ابو الحصین انصاری کے دو بیٹے نصرانی ہو کر شام چلے گئے تو انھوں نے یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گزار کیا اور کہا کہ آپ ان کوپیغام دے کر واپس بلوائیں۔ آپ نے فرمایا: لا اکراہ فی الدین۔ (الاصابہ، ۱/۳۳۲، ۳/۸۰۳۔ اسد الغابہ، ۳/۰۶۱)

’طبقات المحدثین باصبہان‘ کے مصنف عبد اللہ بن محمد بن جعفر انصاری کی روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سلمان فارسیؓ کی درخواست پر ان کے اہل خاندان کے نام جو امان نامہ لکھوایا، اس میں فرمایا کہ:

من آمن باللہ وبرسلہ کان لہ فی الآخرۃ ترعۃ الفائزین ومن اقام علی دینہ ترکناہ ولا اکراہ فی الدین (طبقات المحدثین باصبہان ۱/۲۳۲)

بعض آثار میں سیدنا عمر سے بھی آیت کو اس مفہوم پر محمول کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً ان کے غلام وسق بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر نے مجھے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ اس پر انھوں نے فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین۔ پھر جب ان کی وفات کا وقت قریب آ گیا تو انھوں نے مجھے آزاد کر دیا۔ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۶/۸۵۱۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۰۵۵۲۱) ایک موقع پر انھوں نے ایک معمرمسیحی خاتون کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس نے کہا کہ کیا میں موت کے قریب پہنچ کر اپنامذہب چھوڑ دوں؟ اس پر سیدنا عمر نے فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین۔ (نحاس، الناسخ والمنسوخ ۱/۱۹۱) 

اسی طرح شام کی فتوحات میں مسلمانوں کے جرنیل عیاض بن غنم نے مریم الداریۃ کے نام خط میں لکھا:

ولسنا نکرہک علی فراق دینک ولا احدا من اہل بلدتک قال اللہ تعالیٰ لا اکراہ فی الدین (واقدی، فتوح الشام ۱/۶۷۳)

”ہم تمھیں یا تمھارے شہر کے لوگوں میں سے کسی کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں۔“

 (۲) سورۂ توبہ کی آیت ۹۲ میں اہل کتاب کو محکوم بناکر ان پر جزیہ عائد کرنے کا جو حکم دیا گیا یا آیت ۵۳ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا ہدف غلبہ اسلام کو قرار دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہم واضح کر چکے ہیں کہ اس کا باعث اہل کتاب کا فتنہ وفساد نہیں، بلکہ ان کا کفر تھا۔ ہمارا اعتراض مولانا مودودی پر ہے جو ’کفر‘ کو فی نفسہ قتال کا باعث تسلیم نہیں کرتے اور اس حکم کی وجہ بھی کفار کے فتنہ وفساد کو قرار دیتے ہیں، حالانکہ یہ بات نہ عقلی اور منطقی لحاظ سے درست ہے اور نہ ’دفع فتنہ وفساد‘ کی غرض سے قتال کی مشروعیت کو بیان کرنے والے نصوص اس کی تائید کرتے ہیں۔


جہاد / جہادی تحریکات

(مارچ ۲۰۱۲ء)

مارچ ۲۰۱۲ء

جلد ۲۳ ۔ شمارہ ۳

ابتدائیہ ’’جہاد۔کلاسیکی وعصری تناظر میں‘‘
محمد عمار خان ناصر

اسلام کا تصور جہاد ۔ چند توضیحات
مولانا محمد یحیی نعمانی

جہاد ۔ ایک مطالعہ
محمد عمار خان ناصر

’’پر امن طریق کار‘‘ بمقابلہ ’’پر تشدد طریق کار‘‘
محمد رشید

حکمرانوں کی تکفیر اور خروج کی بحث
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (پہلی مجلس مذاکرہ)
ادارہ

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (دوسری مجلس مذاکرہ)
ادارہ

معاصر مسلم ریاستوں کے خلاف خروج کا مسئلہ (تیسری مجلس مذاکرہ)
ادارہ

پاکستان ایک غیر اسلامی ریاست ہے
الشیخ ایمن الظواہری

عصر حاضر میں خروج کا جواز اور شبہات کا جائزہ
محمد زاہد صدیق مغل

غلط نظام میں شرکت کی بنا پر تکفیر کا مسئلہ ۔ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں
مولانا مفتی محمد زاہد

تکفیر اور خروج : دستورِ پاکستان کے تناظر میں
محمد مشتاق احمد

کیا دستور پاکستان ایک ’کفریہ‘ دستور ہے؟ ایمن الظواہری کے موقف کا تنقیدی جائزہ
محمد عمار خان ناصر

پروفیسر مشتاق احمد کا مکتوب گرامی
محمد مشتاق احمد

خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میں
محمد عمار خان ناصر

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تلاش

Flag Counter