(جناب ایمن الظواہری کی کتاب پر راقم کے تنقیدی تبصرے پر محترم پروفیسر مشتاق احمد صاحب نے درج ذیل خط ارسال فرمایا جسے موضوع کی مناسبت سے یہاں درج کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مدیر)
برادر محترم عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ایمن الظواہری کی کتاب پر آپ کا تبصرہ پڑھا ۔ ماشاء اللہ تبصرے کا حق ادا کردیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔
مجھے آپ کے مقدمات و دلائل اور وجہِ استدلال سے مکمل اتفاق ہے ۔ البتہ دو امور کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے :
ایک یہ کہ آپ نے حنفی فقہا کے متعلق درست فرمایا ہے کہ وہ سربراہِ حکومت ( ریاست نہیں کیونکہ ریاست نامی شخصِ اعتباری کا تصور اسلامی قانون کے لیے اجنبی ہے ) کو حد کی سزا دینے کے قائل نہیں ہیں ۔ البتہ اس کی فقہی توجیہ کچھ وضاحت کی محتاج ہے ۔ حنفی فقہا کی یہ راے صرف حدود کی سزاوں کے متعلق ہے جنھیں وہ ’’ حقوق اللہ ‘‘ سے متعلق قرار دیتے ہیں ۔ اپنے ایک پچھلے مضمون میں ، جو الشریعہ میں شائع ہوا تھا ، میں نے اس بات کی کچھ تفصیل پیش کی تھی کہ حق کے مختلف ہونے سے قانونی اثرات کس طرح مختلف ہوجاتے ہیں ۔ حنفی فقہا حدود کو ایک بہت ہی خاص نوعیت کی سزا سمجھتے ہیں جسے بہت ہی خاص حالات کے تحت نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کے اثبات کا طریقِ کار از حد دشوار ہے ۔ پھر مقدمے کے دوران میں فیصلے تک ، بلکہ فیصلے کے نفاذ تک ملزم ( حتی کہ مجرم بھی ) بہت سی رعایتوں کا مستحق ہوتا ہے ۔ مزید یہ کہ اس کا نفاذ صرف حکمران یا اس کا نائب ، جسے حکمران نے یہ اختیار تفویض کیا ہو ، کرسکتا ہے ۔ اس آخری اصول کی بنا پر حنفی فقہا کہتے ہیں کہ وہ امام جس کے اوپر کوئی امام نہ ہو ، اگر حد کے جرم کا ارتکاب کرے تو ’تکنیکی بنیادوں پر ‘ اس سزا کو نافذ نہیں کیا جاسکے گا ۔ البتہ اموال کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ اموال کا تعلق ’’حقوق العبد ‘‘ سے ہے اور فقہا نے تصریح کی ہے کہ حکمران کے پاس حقوق العبد کے اسقاط کا اختیار نہیں ہے ۔ اسی طرح قصاص کی سزا بھی اسے دی جاسکے گی کیونکہ قصاص ایسے ’’ حقِ مشترک ‘‘ سے متعلق ہے جس میں حق العبد غالب ہے ۔ قذف کی سزا دیگر حدود کی طرح نہیں دی جاسکے گی کیونکہ یہ بھی اگرچہ حق مشترک سے متعلق ہے لیکن اس میں حق اللہ غالب ہے ۔ جیسے میں نے عرض کیا ، آپ کا مقدمہ صحیح ہے اور جو استدلال آپ کررہے ہیں وہ بھی درست ہے ، لیکن اس مسئلے کی کچھ توضیح ضروری محسوس ہوئی ۔
دوسری بات حاکم خان کیس کے فیصلے کے متعلق ہے جس کے بارے میں میری راے یہ ہے کہ اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے نہ صرف اپنی دستوری ذمہ داری پوری کرنے سے گریز کیا ہے ، بلکہ دستور اور قانون کی تعبیر کے اصولوں سے روگردانی بھی کی ہے ۔ جب سپریم کورٹ نے ایک دفعہ یہ مان لیا کہ دستور کی دو دفعات کے در میان تصادم ہے تو اس تصادم کو دور کرنا سپریم کورٹ ہی کی ذمہ داری تھی ، نہ کہ پارلیمنٹ کی ۔ سپریم کورٹ نے حاکم خان کیس سے قبل اور اس کے بعد بھی متعدد کیسز میں دستور کی شقوں میں بظاہر پیدا ہونے والے تعارض کو رفع کیا ہے اور اس تعارض کو رفع کرنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کو نہیں سونپی ۔ (اپنے ایک اور مضمون میں اس فیصلے پر میں نے تفصیلی تنقید کی ہے جسے میں نے ۲۰۰۹ء میں ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی ، اسلام آباد ، کے زیر اہتمام فقہی سیمینار میں پیش کیا تھا ۔ وہ مضمون ادارۂ تحقیقات اسلامی اپنے مجموعۂ مقالات میں شائع کررہا ہے ۔ )تاہم آپ کا اخذ کردہ نتیجہ بہر حال درست ہے کہ حاکم خان کیس کے فیصلے کے باوجود دستورِ پاکستان کو ’کفریہ ‘ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
والسلام
محمد مشتاق احمد
۲۲ محرم الحرام ۱۴۳۳ھ (۱۸ دسمبر ۲۰۱۱ء)