۱۳ رمضان المبارک ۱۴۲۲ء کو مدینہ طیبہ میں ولی کامل، مفسر قرآن حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری اپنے محبوب مولیٰ سے جا ملے اور جنت البقیع میں سب سے افضل مدفون ذو النورین خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مزار کے پاس تدفین کی سعادت نصیب ہوئی۔ اللہم زدہ رحمۃ واکراما واجعل الجنۃ مثواہ
مولانا عاشق الٰہی ۱۳۴۳ھ میں بسی ضلع بلند شہر انڈیا میں پیدا ہوئے۔ تبلیغی جماعت کے عظیم پیشوا شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ سے سہارنپور میں ۱۳۶۳ھ میں دورۂ حدیث شریف پڑھا۔ پھر دہلی، کلکتہ کے علاوہ اپنے استاذ محترم مولانا محمد حیات سنبھلی کے مدرسہ جامعہ حیات العلوم مراد آباد میں پڑھایا حتیٰ کہ مفتی اعظم مولانا محمد شفیع ؒ نے دار العلوم کورنگی کراچی میں بلا لیا جہاں ۱۳۸۴ھ سے ۱۳۹۶ھ تک فقہ وحدیث کی تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اپنے اکابر مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ ، مولانا بدر عالم میرٹھیؒ ، مولانا عبد الغفور نقش بندیؒ ، مولانا قاری فتح محمد نقش بندیؒ کی طرح مدینہ طیبہ میں رہنے اور وہیں فوت ہو جانے کا عشق محمدی دامن گیر تھا۔ آپ کے شیخ مولانا محمد زکریاؒ صاحب بھی پہلے پہنچے ہوئے تھے اس لیے کراچی سے حرمین شریفین جاگزیں ہوئے اور تالیفی کام میں ان کو امداد دی اور تدریس کرتے رہے حتیٰ کہ ۲۶ سال بعد دل کی حسرت وتمنا پوری ہوگئی۔ رحمت للعالمین ﷺ کا قرب نصیب ہوا اور ارشاد نبوی کے مطابق شفاعت کے حق دار ہو گئے۔
تدریسی خدمات میں انہماک کے باوجود تصنیف وتالیف کی لائن میں اللہ تعالیٰ نے بہترین دماغ اور وافر صلاحیت عطا فرمائی تھی۔ اردو اور عربی میں سو کے لگ بھگ بڑی چھوٹی کتب تصنیف فرمائیں جن کو خدا نے مقبولیت عامہ سے نوازا۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں طبع ہوئیں۔ ناشرین کا کاروبار چمکا مگر مولانا نے خود ان سے ذاتی فائدہ یا رائلٹی نہیں لی نہ کسی کتاب کے حقوق طبع محفوظ رکھے۔ ان کے چھوٹے بیٹے عبد اللہ کا بیان ہے کہ اپنے لیے یا اولاد کے لیے ذاتی مکان تک نہیں بنایا۔ اگر کسی نے آپ کی کتاب پر اپنا نام لکھ کر چھاپ دیا تو برا نہیں منایا بلکہ کہا کہ چلو دین کی بات تو دوسرے تک پہنچ گئی، ہمیں نام کی شہرت درکار نہیں۔ ایسی مثال آج کل کم ہی ملے گی۔
اگر کثیر التصانیف ہونے میں حضرت تھانویؒ کے بعد آپ کا نام شمار کیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا، اگرچہ حضرت شیخ الاسلام سید حسین احمد مدنیؒ کے علمی وارث اور سلف صالحین کے مطابق مسلک اہل سنت علماء دیوبند کے حقیقی ترجمان اور پچاس سے زائد کتب کے مصنف استاذی المکرم شیخ الحدیث والتفسیر مولانا محمد سرفراز خان صفدر مدظلہ بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ دونوں بزرگوں کی تصانیف میں موازنہ سے راقم کو فرق یہ محسوس ہوتا ہے کہ مولاناعاشق الٰہی کی اردو تصانیف عام فہم، اصلاح حال واعمال پر ابھارنے والی تبلیغی طرز کی ہیں جبکہ استاذ مکرم کی فرق باطلہ کے رد میں عقائد حقہ اہل سنت وعلماء دیوبند کی حفاظت کا حصن حصین ہیں۔ حضرت برنی کی عربی تصانیف بہت وسیع عالمانہ، تحقیقی، بلند پایہ اور حنفی مسلک کی ترجمان ہیں۔ دیار عرب میں رہ کر فقہ حنفی کی وکالت اور حفاظت کا حق ادا کیا ہے۔ فرحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً
آپ کی عربی تصانیف میں سے چند یہ ہیں:
(۱) جدید تفسیر انوار القرآن (۹ جلدیں) جس کے انگریزی، فرانسیسی، ہندی اور بنگالی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔
(۲) مجانی الاثمار من شرح معانی الآثار للطحاوی
(۳) بہیج الراوی بتخریج احادیث الطحاوی
(۴) انعام الباری فی شرح اشعار البخاری
(۵) التسہیل الضروری فی مسائل القدوری
(۶) زاد الطالبین
(۷) المواہب الشریفۃ فی مناقب الامام ابی حنیفۃؒ
(۸) القادیانیۃ ماہی؟
(۹) حاشیہ الخیرات الحسان فی مناقب ابی حنیفۃ النعمان
(۱۰) التحفۃ المرضیۃ فی شرح المقدمۃ الجزریۃ
(۱۱) روضۃ الاحباب
اردو میں درج ذیل کتابیں کافی مقبول ہیں:
(۱۲) سیرت سرور کونین (۳ جلدیں)
(۱۳) شرح اربعین نووی
(۱۴) امت مسلمہ کی مائیں
(۱۵) مسلم خواتین کے لیے بیس سبق
(۱۶) مسنون دعائیں
(۱۷) تحفہ خواتین
(۱۸) چھ باتیں
(۱۹) اسلامی نام
(۲۰) ذکر اللہ کی کثرت کیجیے
(۲۱) شرعی حدود وقصاص
راقم کو حضرت ممدوح ومرحوم سے کوئی خاص ذاتی تعلق یا شرفِ تلمذ نہیں البتہ ۸۷ء میں جب راقم جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن کراچی میں تخصص فی علوم الحدیث کا طالب علم تھا، آپ دار العلوم میں مدرس تھے۔ تراویح سنانے والے حفاظ کو منتخب کرنے کی ڈیوٹی آپ کے ذمے لگا دی گئی۔ حفاظ کی ایک جماعت کے ساتھ احقر کو بھی پہلی مرتبہ آپ کی زیارت نصیب ہوئی۔ کشادہ پیشانی، گول چہرہ، میانہ قد، سرمگیں آنکھیں، چمکیلے دانت، سانولا رنگ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ٹیسٹ صاف گوئی کے ساتھ اور اغلاط کی نشان دہی کرتے ہوئے لیا۔ کسی کی اصلاح کے لیے بروقت تنقید اور حق گوئی آپ کی فطرت معلوم ہوئی کہ لگی لپٹی رکھنے کے بجائے بلا خوف لومۃ لائم صحیح وسدید اور حق بات بڑے بڑے لوگوں کو صاف کہہ دیتے تھے۔ امتحان دینے کے شرف کے علاوہ اس وجہ سے بھی عقیدت ہے کہ آپ کی اردو تصانیف اپنے کتب خانہ اور مکتبہ عثمانیہ کے لیے سرمایہ اور باعث زینت بنائی تھیں۔ حضرت استاذیم مدظلہ کی کتب کی طرح ان سے بھی ہر قسم کا فائدہ اٹھایا۔
قلبی تعلق کا تازہ سبب ابھی رمضان ۱۴۲۲ھ میں عمرہ کرنا ہے۔ مدینہ طیبہ جا کر آپ کا پتہ کرنے مسجد قبا گیا۔ عصر کے بعد امام صاحب نے فرمایا ’’عاشق الٰہی شیخ معروف ابنہ عبد الرحمن مدرس فی الحرم النبوی‘‘ خوشی سے واپس آکر ان کو تلاش کر لیا۔ پتہ چلا کہ حضرت عارضہ قلب کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ جمعرات کے دن واپس آ گئے تو جمعہ ۸ رمضان کی شب کو ملاقات کاپروگرام بنایا۔ دفاع صحابہ اور تائید اہل سنت میں اپنی چند کتابیں تو مولانا عبد الحفیظ مکی کے صاحب زادوں کو دی تھیں۔ وہ خود افریقہ گئے ہوئے تھے اور بقیہ مولانا کے صاحبزادے قاری عبد الرحمن کوثر کو دے دی تھیں کہ وہ حضرت کو دکھا کر دعا کی درخواست کر دیں۔
میری محرومی اور قدرے غفلت کا نتیجہ کہیے کہ تراویح کے بعد مولانا عبد الرحمن تجوید پڑھانے بیٹھ گئے۔ میں کچھ دیر انتظار میں بیٹھا دیکھتا رہا۔ ان کے اٹھتے وقت لمحہ بھر کو نگاہ دوسری طرف ہو گئی اور وہ بھی مجھے دیکھے یاد کیے بغیر گھر چلے گئے۔ پھر جدید مسجد کے وسیع صحرا یا سمندر میں ایک دوسرے سے نہ مل سکے۔ جمعہ کے وقت اور پھر تراویح کے بعد بھی ان سے ملاقات اور حضرت کا شرفِ زیارت نہ پا سکا۔ دوسرے دن پھر عمرہ کر کے پاکستان آ گیا۔ ۳ دن بعد خبر سنی کہ حضرت مولانا عاشق الٰہی انتقال فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ۳دن زیارت کی مشقت کا اجر اور اہل اللہ سے محبت خدا کے حوالے کرتا ہوں کہ وہ اپنی مہربانی سے بخش دے۔
احب الصالحین ولست منہم لعل اللہ یرزقنی الصلاحا
اللہ تعالیٰ اکابر دیوبند کی طرح مولانا عاشق الٰہی کی خدمات دینیہ کو قبول فرما کر خطایا سے درگزر فرمائے۔ آمین