عیسائیت کبھی فکر ونظر کا کوئی مکمل نظام نہیں رہی جس کی بنیاد پر سماج کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل کی جا سکے۔ قوم یہود کے اندر جو زرپرستی اور دنیا طلبی پیدا ہو گئی تھی، اس کے علما ورہبان جس طرح روح شریعت کو چھوڑ کر اس کے الفاظ سے کھیلنے لگے تھے اور اپنے دینی منصب کو کلیتاً جلبِ دنیا کا ذریعہ قرار دے رکھا تھا، حضرت مسیح علیہ السلام ایک عارضی وقفے کے لیے انہی کی اصلاح کے لیے بھیجے گئے تھے جس کی صراحت وہ خود ان لفظوں میں کرتے ہیں:
’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘ (متی باب ۱۵:۲۴)
آں جناب کی ان تعلیمات وہدایت سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ آپ کی بعثت خاص قوم یہود کے لیے ہوئی تھی اور آپ کی تمام تر کوششیں ان کے بگاڑ کو دور کرنے اور انہیں راہ راست پر لگانے پر مرکوز تھیں:
’’تم سن چکے ہو کہ تم سے کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی دہنے گال پر طمانچہ مارے‘ دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور جو کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا کرتا لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے‘ اس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے مانگے‘ اسے دے اور جو تجھ سے قرض چاہے‘ اس سے منہ نہ موڑ۔‘‘(متی باب ۵: ۳۸۔۴۲)
’’لیکن میں تم سننے والوں سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو۔ جو تم سے عداوت رکھیں‘ ان کا بھلا کرو۔ جو تم پر لعنت کریں‘ ان کے لیے برکت چاہو۔ جو تمہاری تحقیر کریں‘ ان کے لیے دعا کرو۔ جو تیرے ایک گال پرطمانچہ مارے‘ دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور جو تیرا چوغہ لے‘ اس کو کرتا لینے سے بھی منع نہ کر۔ جو کوئی تجھ سے مانگے‘ اسے دے اور جو تیرا مال لے لے‘ اس سے طلب نہ کر۔‘‘ (لوقا باب ۶: ۲۷۔۳۱)
’’مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر ناامید ہوئے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہوگا اور تم خدا تعالیٰ کے بیٹے ٹھہرو گے کیونکہ وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے۔ جیسا تمہارا باپ رحیم ہے‘ تم بھی رحم دل ہو۔‘‘ (ایضاً آیت ۳۵‘۳۶)
قومِ یہود جسے اللہ تعالیٰ نے ایک خا ص وقت تک کے لیے امامت عالم کے منصب پر فائز کیاتھا اور اسے اپنے بے پایاں احسانات سے نوازا تھا‘ اس کی ہدایت وراہنمائی کے لیے تورات کی صورت میں ایک جامع مجموعہ قوانین عطا کیا تھا۔ بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ اس کے اندر خرابی اور بگاڑ کی جو صورتیں پیدا ہوئیں‘ اس کا نمایاں ترین مظہر اس قوم کا فقہی جمود تھا۔چنانچہ اس نے روح شریعت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کے ظاہر کو سب کچھ سمجھ لیا۔ بے جا لفظی موشگافیاں کر کے خدائی شریعت کو کچھ کا کچھ بنا دیا اور احکام کے حقیقی منشا کے علی الرغم ان کا ہیولیٰ ہی بالکل بدل کر رکھ دیا جس کے نتیجے میں وہ ان بے شمار جکڑ بندیوں میں پھنس گئے جن کا خدائی مرضی سے کوئی واسطہ نہ تھا اور بہت سی ان بندشوں سے وہ آزاد ہو گئے جن کا الٰہی شریعت انہیں پابند دیکھنا چاہتی تھی۔ قوم یہود کے سلسلہ انبیا کی آخری کڑی حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت توراتی شریعت میں پیدا ہوجانے والے اسی عدم توازن کو دور کرنے کے لیے ہوئی تھی اور آپ کو ملنے والے مجموعہ احکام انجیل کی امتیازی حیثیت ہی یہ تھی کہ وہ اس قوم اور خاص کر اس کے علما ورہبان کی ظاہر پرستی کو ختم کر کے ان کے اندر روح شریعت کی پیروی کے جذبہ کو بیدار کرے۔ عہد نامہ جدید کا درج ذیل بیان اس حقیقت کا زندہ ثبوت ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اپنی قوم کے فقیہوں اورفریسیوں کی حالت زار پر ماتم کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو!تم پر افسوس کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہو۔‘‘ (متی باب ۲۳:۱۴)
’’اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر دہ یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔ اے اندھے راہ بتانے والو‘ جو مچھر کو تو چھانتے ہو اور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔
اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں۔ اے اندھے فریسی! پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہو جائیں۔
اے ریاکار فقیہو اور فریسیو! تم پر افسوس کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کے مانند ہو جو اوپر سے تو خوب صورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راست باز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں ریاکاری اور بے دینی سے بھرے ہو۔‘‘
(ایضاً‘ آیات ۲۳ تا ۲۸)
’’پھر اس نے اپنی تعلیم میں کہا کہ فقیہوں سے خبردار رہو جو لمبے لمبے جامے پہن کر پھرنا اور بازاروں میں سلام اور عبادت خانوں میں اعلیٰ درجے کی کرسیاں اور ضیافتوں میں صدر نشینی چاہتے ہیں اور وہ بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہیں اور دکھاوے کے لیے نماز کو طول دیتے ہیں۔ ان ہی کو زیادہ سزا ملے گی۔‘‘ (مرقس باب ۱۲: ۳۸۔ ۴۰)
لیکن سانحہ یہ پیش آیا کہ قوم یہود کی عظیم اکثریت نے حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار کیا اور اپنے کو انجیل سے بالکل بے تعلق کر لیا۔ دوسری طرف جن لوگوں نے آں جناب کی پیروی اختیار کی‘ وہ آپ کے حکم اور مرضی کے علی الرغم دوسری انتہا پر جا پہنچے کہ انہوں نے انجیل ہی کو سب کچھ سمجھ لیا اور توراۃ کے منکر ہو گئے جبکہ اصل صورت یہ تھی کہ تورات اور انجیل دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرنے والی تھیں۔ اس دوگونہ مجموعہ شریعت کی پیروی ہی میں اہل کتاب کی نجات مضمر تھی اور اسی کے ذریعے سے وہ زندگی میں جادۂ اعتدال پر قائم رہ سکتے تھے۔ اہل تورات جس فقہی جمود اور لفظی جکڑبندیوں کے گرداب میں پھنس گئے تھے‘ انجیل کے بغیر وہ اس سے نکلنے میں کام یاب نہیں ہو سکتے تھے۔ اس طرح انجیل میں حکمت وموعظت اور روح شریعت کی بھرپور تشریح وتفصیل تو تھی لیکن توراتی مجموعہ قانون کے بغیر اس کے لیے زندگی کی گاڑی کو زیادہ دور تک اعتدال وتوازن کے ساتھ چلانا بہت مشکل تھا۔ لیکن تفصیلات سے قطع نظر ہوا یہی کہ انجیل تورات سے کٹ گئی اور جس طرح اہل کتاب کے لیے انجیل سے روگردانی کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ وہ روح شریعت سے عاری ہو کر نری ظاہر پرستی اور دنیا طلبی اور جلب منفعت میں لگ گئے‘ پیروان مسیح کے لیے توراۃ کے انکار کا انجام یہ ہوا کہ ان کے پاس ایک بالکل کٹی پھٹی شریعت باقی رہ گئی جو واقعہ یہ ہے کہ سماج کی تعمیر اور انسانی آبادی کے مسائل کے حل کی عظیم ذمہ داری سے کسی بھی صورت عہدہ برآ نہیں ہو سکتی تھی۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ حضرت مسیح کی وفات پر زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ۳۲۵ء کی نیسیا کی کونسل میں مسیحیت پر پال کی اجارہ داری قائم ہو گئی جس کے نتیجے میں اس کی صورت ہی مسخ ہو گئی۔ توراۃ سے کٹ جانے کے سبب اس کے اندر پیدا ہوجانے والی مذکورہ خامی اور کمی سے قطع نظر اس کی ہم آہنگی بالکل خاک میں مل گئی اور وہ تضادات کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئی۔ یہی وجہ ہے کہ عہد نامہ جدید میں اگر حضرت مسیح علیہ السلام ایک طرف اپنے پیرووں کو اس دعا کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں کہ آسمان کی طرح زمین پر بھی خدا کی بادشاہت قائم ہو:
’’پس تم اس طرح دعا کیا کرو کہ اے ہمارے باپ ‘ تو جو آسمان پر ہے‘ تیرا نام پاک مانا جائے۔ تیری بادشاہی آئے۔ تیری مرضی جیسی آسمان پر پوری ہوتی ہے‘ زمین پر بھی ہو۔‘‘ (متی باب ۶: ۹۔۱۰)
تو دوسرے مقام پر ہمیں ان کا یہ اعلان پڑھنے کو ملتا ہے:
’’میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں۔‘‘ (یوحنا باب ۱۸:۳۶)
اس سے بھی آگے دوسری جگہ وہ صاف طور پر دین ودنیا کی تقسیم کا درس دیتے دکھائی دیتے ہیں:
’’پس جو قیصر کا ہے‘ قیصر کو اور جو خدا کا ہے‘ خدا کو ادا کرو۔‘‘ (متی باب ۲۲:۲۱)
اس کے علاوہ عہد نامہ جدید حکومت وقت کی پیروی کو بلالحاظ اس کے کہ وہ کس روش پر عمل پیرا ہے اور اس کا انداز کیا ہے‘ پیروان مسیح کے لیے لازم قرار دیتا ہے :
’’ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابع دار رہے کیونکہ کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں‘ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے‘ وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے اور جو مخالف ہیں‘ سزا پائیں گے۔‘‘ (رومیوں کے نام پولس رسول کا خط باب ۱۳: ۱۔۲)
اس تاکید کے ساتھ کہ:
’’سب کا حق ادا کرو۔ جس کو خراج چاہیے‘ خراج دو۔ جس کو محصول چاہیے‘ محصول‘ جس سے ڈرنا چاہیے‘ اس سے ڈرو۔ جس کی عزت کرنا چاہیے‘ اس کی عزت کرو۔‘‘ (ایضاً آیت ۷)
رومن ایمپائر کو پال (Paul) کی قائم کردہ اسی مسیحیت کا تجربہ ہوا اور چوتھی صدی عیسوی میں وہ ا س کا سرکاری مذہب قرار پا گئی۔ پانچویں صدی عیسوی میں حالات کی گردش سے رومن ایمپائر کے زوال کے بعد فطری طور پر اس کی وراثت اس کے حصے میں آئی۔ اپنی ان محدودیتوں اور کمیوں کے پیش نظر جن کا ابھی ذکر ہوا‘ مسیحیت کے لیے مناسب تو یہ تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ چھوٹے اور مختصر دائروں میں انسانی زندگی کے مسائل کے حل میں اپنے کو لگاتی اور حکومت وسلطنت کے جھمیلوں سے اپنے کو بالکل دور رکھتی لیکن مسیحیت کے علم برداروں کے لیے‘ جن کی نگاہیں رومن ایمپائر کی زبردست شان وشوکت کے سامنے خیرہ ہو چکی تھیں‘ اس کا سہارنا اور کمتر دائرے پر اپنے کو قانع بنانا ممکن نہ ہو سکا۔ چنانچہ اس کے بعد ذرا تاخیر کیے بغیر کلیسا نے اپنے کو رومی شاہنشاہی کے ڈھنگ پر منظم کرنا شروع کر دیا اور آٹھویں اور نویں صدی تک وہ پوری طرح کھل کر میدان میں آ گیا لیکن جیسا کہ اشارہ کیا گیا‘ پال کی مسیحیت اپنی محدودیت اور اپنے داخلی تضادات کے ساتھ حکومت وسلطنت کے لیے کوئی کامل اور ہم آہنگ نظام عمل عطا کرنے سے قاصر تھی‘ چنانچہ قطع نظر ان بے شمار ادارہ جاتی اور شعبہ جاتی امور ومسائل کے جن میں اس کا نمائندہ کلیسائے روم بری طرح رومن ایمپائر سے متاثر رہا اور بے چون وچرا اور بلا تامل انہیں اپنے ہاں اپناتا گیا، اس صورت حال نے سرزمین یورپ میں اسی وقت سے چرچ اور اسٹیٹ بالفاظ دیگر مذہب اور ریاست کا جھگڑا کھڑا کر دیا کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ کون ہے؟ اپائے روم یا وقت کے سیکولر حکمران؟ جس کا سلسلہ آگے ہزار سال یعنی سترہویں اور اٹھارویں صدی تک جاری رہا جبکہ مختلف انقلابات کے نتیجے میں کلیسائی اور شاہی بساط الٹ کر دستوری حکومتیں وجود میں آتی ہیں جن کے اندر کھلے لفظوں میں مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی کا اعلان کیا جاتا ہے اور یورپ اطمینان کا سانس لیتا دکھائی دیتا ہے کہ اب آئندہ اسے مذہب کے نام پر ظلم واستبداد کے شکنجے میں نہ کسا جا سکے گا۔ زمانہ مابعد میں اسی کی تقلید میں دنیا کے مختلف حصوں سے مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی کی بات ہمارے سننے میں آتی ہے۔
چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی
آج یورپ نے اسے ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ مذہب کا معاملاتِ دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسی کے اثر سے دنیا کے بیشتر خطوں میں بھی اسے ایک مقبول عام تصور کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے لیکن آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ زیادہ دور نہیں‘ ابھی اٹھارویں صدی کے اختتام تک صورت یہ تھی کہ وہاں ’’بادشاہ بمرضی خدا‘‘ (King by the grace of God)کے لقب کے بغیر بادشاہوں کا نام لینے کی بھی کسی کی ہمت نہ تھی۔ اگلے زمانوں کی بات اپنی جگہ‘ اسی اٹھارویں صدی میں فرانس کے لوئیس چہاردہم (Louis XIV) اور انگلینڈ کے جیمز دوم (James II) نے ’’مرضی خدا‘‘ (The grace of God)کو ایک سیاسی عقیدے کے طور پر اپنایا اور اس کی بدولت اپنی کلیت پسندی (Absolutism) کے لیے وجہ جواز پیدا کی جس کی رو سے دیگر تمام انسانی حقوق مثلاً دولت‘ خاندان‘ پارلیمنٹ وغیرہ کی طرح بادشاہ کا یہ حق بھی ابدی اور من جانب اللہ تھا جسے کسی صورت چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس طرح بادشاہ کی شخصیت عام انسانی قانون کے دائرے سے بلند قرار پا گئی تھی۔ اس کے بعد ایسا ہوا کہ فرانس کی عمل داریوں (Estates) نے اس تصور کو قبول کرنے سے انکار کیا اور برطانوی پارلیمنٹ نے نسبتاً اور سختی سے اس کے خلاف آواز بلند کی۔ بالآخر انگلینڈ کے ۱۶۸۸ء اور فرانس کے ۱۷۸۹ء کے انقلابات کے نتیجے میں بادشاہوں کے اس تقدس اور ان کے من جانب اللہ ہونے کے تصور کو آخری طور پر مسترد کر دیا گیا۔
سرزمین یورپ میں عیسائیت کے قدم جمانے سے لے کر اٹھارویں صدی کے اختتام تک یہ مسئلہ کبھی زیر بحث آیا ہی نہیں کہ مذہب کا معاملات دنیا سے کوئی تعلق ہے‘ نہ ہونا چاہیے بلکہ سچ یہ ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کے لیے جو اپنے ہوش وحواس بالکل کھو نہ چکا ہو‘ اس طرح کی بات اپنی زبان پر بھی لانے کی ہمت نہ تھی۔ اس وقت تک مذہب سے تعلق نہیں‘ مذہب سے لاتعلقی‘ بے دینی سب سے بڑا جرم تھی جس کا ارتکاب کرنے والا نہایت بد انجام سے دوچار ہوتا تھا ۔ وہاں اگر جھگڑا رہا ہے تو اس کا کہ دنیا پرمذہب عیسائیت کی حکومت کس ادارے کے ذریعے سے انجام پائے۔ چرچ اور پاپائیت کے ذریعے سے یہ کام انجام پائے یا یہ ذمہ داری سیکولر حکمرانوں کے سپرد ہونی چاہیے۔ اور کہنا چاہیے کہ عہد جدید کی پو پھٹنے تک یورپ بری طرح سے اس کشمکش کا شکار اور اس اختلاف ونزاع کی آماجگاہ رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ یہی آویزش وچپقلش ہمیں یورپ کی تاریخ کا سب سے نمایاں باب نظر آتی ہے۔ خاص طور پر قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں تو ایسا لگتا ہے کہ وہاں اس ایک کام کے سوا دوسرا کوئی کام ہی نہ تھا جس میں باشندگان یورپ کی قوتیں اور صلاحیتیں صرف ہوتیں جس کے لیے ان میں سے ہر فریق ’’کتاب مقدس‘‘ سے غذا حاصل کرتا تھا جو اس کے لیے‘ جیسا کہ ابھی اوپر تفصیل گزری‘ اس مقصد کی خاطر بھرپور مواد فراہم کرتی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں بارہویں صدی سے لے کر سولہویں صدی تک ’’سیاسی تصور‘‘ کی کل دوڑ اس نشانے تک محدود تھی کہ پاپائیت کا یہ دعویٰ کہ شہنشاہیت پر اسے بالادستی حاصل رہے‘ درست ہے یا نہیں۔ خاص طور پر نویں صدی سے لے کر گیارہویں اور بارہویں صدی تک یہ لڑائی اپنے شباب پر تھی جس میں دونوں فریق اپنے اپنے حق میں الگ الگ دلائل فراہم کر رہے تھے۔ کلیسا جس بنیاد پر اپنے لیے اس حق کا مدعی تھا‘ اس میں خاص بات یہ تھی کہ:
۱۔ چونکہ پوری بنی نوع انسانی ایک ہے اس لیے چرچ جس کی بنیاد براہ راست خدا نے رکھی ہے‘ ریاست کی ذمہ داری بھی صحیح معنوں میں اسی کی ہو سکتی ہے۔ خدائی فرمان کے ذریعے سے اسے یہ چیز حاصل ہوئی ہے۔ خدا جس کی ذات میں تمام دنیوی وروحانی اختیارات مرکوز ہیں‘ چونکہ یہ چیز قادر مطلق ذات کا اٹوٹ حصہ ہے اس لیے کسی صورت میں اس کے حصے بخرے نہیں کیے جا سکتے۔ اس ریاست کے سربراہ اصلاً تو حضرت مسیح علیہ السلام ہیں لیکن چونکہ وہ بنفس نفیس اس دنیا میں موجود نہیں اس لیے ضروری ہے کہ زمین پر ان کا ایک نمائندہ ہو جو عام انسانوں پر ان کے اقتدار کو بحال رکھ سکے۔ جناب مسیح کا یہ نمائندہ پوپ (Pope) ہے جو بیک وقت لوگوں کا پادری (Priest) بھی ہے اور ان کا بادشاہ (King) بھی۔ بادشاہ یعنی ان کا دنیوی اور روحانی شہنشاہ‘ ان کا قانون ساز (Law-giver) ان کا منصف (Judge) غرض یہ کہ وہ ہر پہلو سے سب سے بڑا اور زبردست ہے۔
۲۔ دونوں ہی تلواریں جن میں سے ایک روحانی اقتدار کی نمائندگی کرتی ہے‘ دوسری سیکولر اقتدار ہے‘ انہیں پہلے تو خدا نے پطرس (Peter)کو عطا کیا اور اس سے منتقل ہو کر یہ خیر پوپ تک پہنچی جو روئے زمین پر خدا کا نائب (Vicegerent of God) ہے۔ روحانی تلوار کو تو پوپ نے اپنے پاس باقی رکھا البتہ دنیوی تلوار کو اس نے سیکولر حکمرانوں تک منتقل کر دیا لیکن اس منتقلی کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگ آزادانہ طور پر اس کے مالک ہو گئے۔ ان کی زیادہ سے زیادہ حیثیت یہ ہے کہ یہ کلیسا کے وکیل اور اس کے معتمد علیہ (Agent) ہیں۔ پوپ مالک تو دراصل بیک وقت روحانی اور سیکولر اختیارات دونوں کا ہے‘ البتہ عملاً استعمال وہ اپنے روحانی اختیار ہی کا کرتا ہے۔ بادشاہ اور سیکولر حکمران اپنے مناصب اور اپنے اختیارات بالواسطہ طور پر خدا سے اور بلاواسطہ پوپ سے حاصل کرتے ہیں اور اس بنا پر وہ اس کی رعایا (Vassals) ہیں ۔ بس اتنا ہے کہ پاپا کی رعایا میں شہنشاہ کو سب سے اونچا مقام حاصل ہے۔ اس کی تاج پوشی کی حلف برداری دراصل پوپ کو ایک طرح کا خراج عقیدت ہے۔ دنیوی اقتدار چونکہ چرچ کا عطا کردہ ہے اس لیے اس کا استعمال بھی چرچ کی مرضی کے مطابق ہونا چاہیے۔ پوپ کو اس کا اختیار حاصل ہے بلکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ سیکولر حکمرانوں کو براہ راست اپنے کنٹرول میں رکھے۔ کسی تکلف کے بغیر وہ شہنشاہی اقتدار کو ایک شخص سے ہٹا کر دوسرے شخص تک منتقل کر سکتا ہے۔ اپنی اس حیثیت میں دراصل وہ بادشاہ گر یابادشاہ کا انتخاب کنندہ (Imperial elector) ہے۔ شہنشاہیت میں جب کبھی کہیں خلا پیدا ہوگا‘ ایک لمحہ کی تاخیر کیے بغیر اس کی نگرانی پوپ تک منتقل ہو جائے گی۔ پوپ کو اس کا بھی اختیار ہے کہ وہ عام حکمرانوں کے خلاف لوگوں کی شکایات کی سماعت کر سکے‘ انہیں معزول کر دے اور ان کی رعایا کو ان کی وفاداری سے الگ قرار دے دے۔
۳۔ مادہ کے بالمقابل روح کا درجہ بڑھا ہوا ہے اس لیے فطری طور پر عوامی اقتدار کے مقابلے میں روحانی اقتدار زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور بجا طور پر اسے زیادہ عزت واحترام کا مقام حاصل ہونا چاہیے۔ چرچ روح کی نمائندگی کرتا ہے جبکہ ریاست کو صرف اس کے قالب کی نمائندگی حاصل ہے۔ چرچ سورج کے مانند ہے‘ ریاست کی حیثیت اس کے مقابلے میں چاند کی ہے۔ اس بنا پر عوامی اقتدار (Lay authority) روحانی اقتدار سے مستعار ہے‘ اسی کے ذریعے سے اسے قوت نافذہ ملتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کا تمام تر دارومدار اسی پر ہے۔
اس کے برعکس سیکولر حکمران اپنے لیے جس دلیل کی بنیاد پر اس حق کے دعوے دار تھے‘ اس میں نمایاں بات یہ تھی کہ:
۱۔ سیکولر اقتدار چرچ کا تفویض کردہ نہیں بلکہ یہ چیز براہ راست خدا کی عطا کردہ ہے۔ بادشاہ روئے زمین پر خدا کے نائب اور خلیفہ ہیں اور اس بنا پر وہ صرف اسی کے روبرو جواب دہ ہیں۔ ریاست کو اسی طرح من جانب اللہ (Divine) ہونے کی سند حاصل ہے جیسی کہ چرچ کو ہے اور اس بنا پر وہ چرچ کی تابع فرمان نہیں ہو سکتی ہے۔
۲۔ شہنشاہیت کے علم بردار (Imperialists) پاپائیت کی بالادستی سے اپنے کو آزاد رکھنے کے لیے خاص طور پر کتاب مقدس کو بنیاد بناتے تھے اور عہد نامہ قدیم وجدید ہر ایک سے اس سلسلے میں دلائل فراہم کرتے تھے۔ عہدنامہ جدید سے بالخصوص وہ پال کے اس قول کا حوالہ دیتے تھے جس کا اس سے پہلے ذکر آ چکا ہے کہ :
’’کوئی حکومت ایسی نہیں جو خدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں‘ خدا کی طرف سے مقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے‘ وہ خدا کے انتظام کا مخالف ہے۔‘‘
کتاب مقدس کے اسی طرح کے فرامین کی بنیاد پر سیکولر حکمرانوں کا رعایا سے مطالبہ تھا کہ وہ ان کی غیر مشروط وفادار رہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ خدا کی طرف سے مقرر ہونے کے سبب سے وہ صرف خدا کے حضور جواب دہ ہیں اور اس بنا پر پاپائیت کے اختیار سے بالکل آزاد ہیں اور ان کے اوپر اسے کسی قسم کا اثر واقتدار دکھانے کا حق نہیں ہے۔
اس مرحلے پر جن لوگوں نے مختلف تشریحات کے ساتھ کلیسا کی حمایت کی‘ ان میں سے چند خاص نام یہ ہیں: ہیلڈی برانڈ یا گریگوری ہفتم (Hildebrand or Gregory VII, 1073-1080)‘ سینٹ برنارڈ (St, Bernard, 1091-1153)‘ مین گولڈ (Mane Gold)‘ جان آف سیلس بری (John of Salisbury, 1115-1180)‘ سینٹ ٹامس ایکوناس (St. Thomas Aquinas, 1227-1274‘ اور آگسٹس ٹرائمفس (Augustus Triumphus)۔
اس کے بالمقابل سیکولر حکمرانوں کی تائید میں جو لوگ پیش پیش تھے‘ ان میں قابل ذکر یہ لوگ تھے: مارسگلو آف پاڈوا (Marsiglo of Padua, 1270-1340)‘ ولیم آف اوک ہام (William of Ockham, 1290-1347‘ اطالوی فلسفی دانتے (Dante)اور پیرے ڈیوبیس (Pierre Dubois) جن کے استدلال میں علاوہ اور چیزوں کے حضرت مسیح کا یہ قول بھی شامل تھا کہ ’’میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں‘‘۔
پاپائیت کے علم برداروں اور سیکولر حکمرانوں کے ہم نواؤں کی یہ لڑائی کیسی شدید تھی‘ اس کا اندازہ آپ صرف اس سے کر سکتے ہیں کہ صرف گیارہویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں یعنی ۱۰۵۲ء سے ۱۱۱۲ء کے عرصے میں اپنے اپنے موقف کی حمایت میں فریقین کی طرف سے ایک سو پندرہ کتابچے منظر عام پر آئے تھے۔
چرچ اور اسٹیٹ کی اس لڑائی میں فتح مندی کا سہرا کلیسا کے ہاتھ رہا اور واقعہ یہ ہے کہ تیرہویں صدی عیسوی تک پاپائیت کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی۔ چودھویں صدی کے آتے آتے یورپ میں قومی بادشاہتوں نے زور پکڑنا شروع کریا اور نظام جاگیرداری‘ جبکہ بڑی حد تک یہی ادارہ کلیسا کے زور اور قوت کا ذریعہ تھا‘ دن بدن کمزور پڑتا گیا۔ اسی عرصے میں مختلف اسباب کے تحت یورپ میں روشن خیالی (Enlightenment) اور نشأۃ ثانیۃ (Renaissance)کی تحریکات نے اپنے اثرات دکھانے شروع کیے۔ عوام الناس کے ذہن وفکر میں بیداری آئی‘ سماج میں فرد کی اہمیت کا احساس فزوں تر ہونے لگا اور لوگ بے چون وچرا کلیسا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ نتیجے کے طور پر وہاں میکاولی (Machiavelli, 1409-1527) جیسے مفکرین منظر عام پر آئے جنہوں نے براہ راست مذہب واخلاق سے سیاست کی علیحدگی کا علم بلند کیا۔ اس کے بعد اگرچہ لوتھر (Luther) کی سولہویں صدی کی اصلاح (Reformation) کی تحریک نے ایک بار پھر مذہب اور اسٹیٹ کو ایک ساتھ جوڑنا چاہا جس کے لیے اس نے موجود الوقت پاپائیت کو مسترد کرتے ہوئے بادشاہوں کے ابدی حق (Divine Right of Kings)کا نعرہ لگایا اور خدا کے مقرر کردہ شہزادوں کی خاموش اطاعت (Passive obedience of the godly princes) کی تلقین شروع کی لیکن مسیحی اقتدار سے یورپ اس قدر عاجز آ چکا تھا کہ ’قومی بادشاہتوں‘ کے ذریعے سے مسیحیت کے بالواسطہ اقتدار کے بوجھ کو بھی وہ اب زیادہ دن تک اٹھانے کے لیے آمادہ نہ تھا۔ اس نے صاف لفظوں میں دعویٰ کیا کہ اقتدار کا سرچشمہ بادشاہ نہیں‘ ملک کے عوام ہیں۔ حکومت وقت کو ان کی مرضیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے اور معاملات زندگی کی تنظیم اس ڈھنگ سے ہونی چاہیے جیسا کہ کسی ملک کے عوام کی خواہش ہو۔ چنانچہ مذکورہ تحریک اصلاح کے خلاف خود محاذ اٹھ کھڑا ہوا اور آگے اٹھارویں صدی تک خاص طور پر ہابس‘ لاک اور روسو جیسے مفکرین منظر عام پر آئے جنہوں نے میکاولی سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر مذہب واخلاق کو ریاست کے تابع قرار دیا اور بادشاہوں کے ابدی حق کے برخلاف سماجی معاہدہ (Social Contract)‘ عوام کے اقتدار اعلیٰ (Sovereignty of people)اور خواہش عام (General will) کا تصور پیش کیا جس کا خلاصہ تھا کہ حکومت کا ادارہ بذات خود اقتدارکا مالک نہیں۔ اقتدار کا اصل سرچشمہ عوام ہیں۔ حکمران اور عوام کے درمیان ایک طرح کا سماجی معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت کوئی حکومت وجود میں آتی ہے اس لیے اسے عوام کی مرضیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے جس سے خلاف ورزی کی صورت میں وہ اپنے حق بقا سے محروم ہو جاتی ہے۔ نیز یہ کہ مسیحیت کسی صورت میں حکومت وسیاست کے لیے موزوں نہیں۔ یہ خاص طور پر انہی لوگوں کے افکار کا نتیجہ تھا کہ ۱۶۸۸ء میں انگلینڈ اور ۱۷۷۶ء میں امریکہ اور ۱۷۸۹ء میں فرانس کے انقلابات وجود میں آئے جن میں آخری طور پر بادشاہتوں کے خاتمہ کے ذریعے سے بالواسطہ طور پر سرزمین یورپ سے مسیحیت کے اقتدار کا خاتمہ عمل میں آیا اور معاملات دنیا سے بے دخل کرتے ہوئے مذہب کو فرد کی نجی زندگی پر قانع ہونے کے لیے مجبور کر دیا گیا اور انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ دستوری سطح پر یہ بات منظر عام پر آئی کہ مذہب کا معاملات دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسے اگر جینا ہے تو اس دائرے کے باہر ہی وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ چنانچہ ان انقلابات کے نتیجے میں جو تحریری دستاویزات سامنے آئیں‘ ان میں اگرچہ خالق کائنات (Creator)‘ خدا تعالیٰ (Prudence)اور اعلیٰ تر ہستی (Supreme Being) کے الفاظ موجود ہیں لیکن اس بات کی صراحت بھی موجود ہے کہ معاملات دنیا کے سلسلے میں اب مذہب کے لیے کوئی احترام نہیں رہے گا نیز یہ کہ اقتدار کا اصل سرچشمہ دراصل قوم ہوا کرتی ہے۔
بلنچلی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’تھیوری آف اسٹیٹ‘ میں ریاست سے تعلق رکھنے والے بعض اہم مسائل کے سلسلے میں قرون وسطیٰ اور عہد جدید میں ان کے مابین پائے جانے والے فاصلے کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے جس کے ذریعے سے موجودہ دور میں ’مذہب کی معاملات دنیا سے بے دخلی‘ کے رائج الوقت تصور کے پس منظر کو کافی بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ہم ذیل میں اس کے بعض اہم عنوانات کو اسی نقشہ کے ساتھ پیش کرتے ہیں:
قرون وسطیٰ
۱۔ ریاست کا تصور
قرون وسطیٰ میں ریاست اور ریاست کے اختیار کو براہ راست خدا سے حاصل کردہ تصور کیا جاتا تھا۔ ریاست کی حیثیت ایک ایسی تنظیم کی تھی جو خدا کی مرضی کی آئینہ دار اور اس کے اپنے ہاتھوں کی پیدا کردہ تھی۔
عہد جدید
جدید دور میں ریاست کا وجودانسانی ذرائع کا رہین منت ہے اور اس کی بنیاد تمام انسانی فطرت پر ہے۔ ریاست ایک مشترک زندگی کی تنظیم سے عبارت ہے جس کی تشکیل انسانی ہاتھوں کے ذریعے سے انجام پاتی ہے اور اس کا انتظام بھی انہی کے ذریعے سے چلتا ہے اور یہ چیز تمام تر انسانی مقاصد کے گرد گھومتی ہے۔
۲۔ دینیات اور سائنس
ریاست کے تصور کی بنیاد مذہبی اصولوں پر تھی اور اس کی طاقت سے اس کی پوری مشینری حرکت کرتی تھی۔ قرون وسطیٰ میں اگرچہ مسیحیت چرچ اور اسٹیٹ کی ثنویت کی قائل تھی لیکن اس کا اعتقاد تھا کہ یہ دونوں ہی تلواریں یعنی روحانی اور دنیوی‘ خدا کی تفویض کردہ ہیں۔ ایک کو اس نے پوپ کے حوالے کیا ہے اور دوسرے کی ذمہ داری شہنشاہ کو سونپی ہے۔ پروٹسٹنٹ اسکول دینیات نے روحانی تلوار کے تصور کو مسترد ضرور کیا اور صرف ایک تلوار یعنی ریاست کو قابل قبول ٹھہرایا لیکن اس مذہبی خیال کو وہ مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے تھا کہ اقتدار اعلیٰ خدا کی طرف سے آتا ہے۔
ریاست کے بنیادی اصولوں کی راہ انسانی علوم یعنی فلسفہ اور تاریخ متعین کرتے ہیں۔ موجودہ علم سیاسیات ریاست کی تعبیر وتشریح میں اصلاً انسان کا اعتبار کرتا ہے۔ وہ اپنے سفر کا آغاز ہی اسی نقطہ سے کرتا ہے۔ چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست افراد کے اس اجتماع سے عبارت ہے جو آپس میں اس لیے متحد ہوتے ہیں تاکہ وہ اپنا تحفظ اور اپنی آزادی کا دفاع کر سکیں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو بحیثیت مجموعی اسے پوری قوم کی امنگوں کا مظہر خیال کرتے ہیں۔ ریاست کا جدید نظریہ مذہبی نہیں ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ بالکل لامذہبی ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست کا دار ومدار مذہبی عقیدے پر نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اس کا انکار نہیں کرتا کہ خدا نے انسانی فطرت کو بنایا ہے اور یہ جو دنیا کا نظام چل رہا ہے‘ اس میں اس کی قدرت کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ موجودہ علم سیاسیات کا وظیفہ یہ نہیں کہ خدائی طور طریقوں کو سمجھنے میں اپنی قوت صرف کرے۔ وہ ریاست کو ایک انسانی ادارے کی حیثیت سے سمجھنا چاہتا ہے۔
۳۔ تھیا کریسی (مذہبی مستبدانہ حکومت)
عہد وسطیٰ میں ریاست کا تصور بالکل پرانے دور کے انسانوں کی طرح براہ راست تھیاکریسی کا تو نہ تھا البتہ وہ بالواسطہ تھیا کریسی کا قائل تھا۔ بیچ کی کڑی یعنی حکمران خدا کا نائب اور اس کا خلیفہ ہوتا تھا۔
جدید اقوام کے سیاسی شعور کے لیے تھیاکریسی اپنی جملہ صورتوں کے ساتھ حد درجہ ناگوار ہے۔ عہد جدید کی ریاست ایک انسانی اور دستوری انتظام سے عبارت ہے۔ ریاست کااختیار عوامی قانون کے ہاتھوں بندھا ہوا ہے اور سیاست کا منتہائے مقصود قوم کی فلاح ہے۔ البتہ یہ تمام چیزیں انسانی فہم سے اخذ کردہ ہیں اور انہیں انسانی ذرائع ہی سے رو بہ عمل لایا جائے گا۔
۴۔ مذہب
قرون وسطیٰ میں ریاست کا تمام تر انحصار ہم مذہب جماعات وافرادپر تھا اور اس کا مطالبہ تھا کہ ہر جگہ عقیدے کی یکسانی رہے۔ کافروں اوربے دینوں کے لیے اس زمانے میں کوئی سیاسی حقوق حاصل نہ تھے۔ ان پر مختلف طرح کے مظالم توڑے جاتے تھے اور انہیں طرح طرح سے ستایا جاتا تھا بلکہ اکثر وبیشتر انہیں فنا کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔ بہتر سے بہتر سلوک جس کی ان کے ساتھ توقع رکھی جا سکتی تھی‘ وہ یہ کہ ان کے وجود کو انگیز کر لیا جائے۔
موجودہ دور میں کسی شخص کو قانونی طور پر کوئی مقام ومرتبہ عطا کرنے کے لیے ریاست مذہب کو ایک شرط لازم تصور نہیں کرتی۔ فرد اور سماج ان دونوں سے تعلق رکھنے والے قوانین مذہب اور عقیدے کی گرفت سے بالکل آزاد ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ عہد جدید کی ریاست عقیدے کی آزادی کا تحفظ کرتی اور مختلف چرچوں اور مذہبی سوسائٹیوں کو ایک لڑی میں پرو کر رکھتی ہے۔البتہ مذہب سے بیزار یا کسی بھی بے عقیدہ شخص کے سلسلے میں وہ کسی قسم کی ظلم وزیادتی اور اس کی ایذا رسانی کو کسی بھی انداز سے جائز تصورنہیں کرتی۔
اس موازنے کی روشنی میں عہد جدید کے انسان کی نظر میں مذہب کی حیثیت‘ اس کے مرتبہ ومقام نیز زندگی کی دوڑ میں اس کی واقعی جگہ کے سلسلے میں اس کے نقطہ نظر کو باحسن وجوہ سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح قرون وسطیٰ میں چرچ اور اسٹیٹ کی کشمکش کے نتیجے میں وہاں مذہب کے سلسلے میں ایک خاص نقطہ نظر پروان چڑھا اور بعد میں آہستہ آہستہ اس نے مسیحیت سے آگے فی الجملہ مذہب ہی کے سلسلے میں ایک عام تصور کی حیثیت اختیار کر لی جس کا انتہائی مقام یہ ہے کہ وہ زندگی میں ایک عضو معطل کی حیثیت سے تو باقی رہ سکتا ہے البتہ اس کے لیے سماج میں کسی موثر کردار کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یورپ کی تاریخ میں ایک طویل عرصے تک مذہب اور چرچ لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کیے رہے۔ بعد میں چرچ کا نظام کمزور ہونے کے بعد یہ مقام وہاں کے بادشاہوں کو حاصل ہو گیا اور وہ روئے زمین پر مذہب کا عملی مظہر قرار پائے۔ بادشاہوں نے چرچ کو بے دخل کر کے زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی تو معاملہ پھر بھی غنیمت رہا اس لیے کہ اول الذکر کی طرح یہ بھی اپنے تئیں مذہب کی نمائندگی کے مدعی تھے لیکن اٹھارویں صدی میں جب مذہب سے بیزار بلکہ اس سے عاجز عوام نے ان بادشاہتوں کی بساط الٹی تو بادشاہوں کے خاتمے کا بھی موجب بنی جو اپنے کو اٹوٹ طور پر ان بادشاہتوں سے جوڑے ہوئے تھا۔
یورپ کا ستم یہ ہے کہ پہلے تو اس نے ایک نامکمل مذہب سے جس کے چہرے کو انسانی تحریفات سے بری طرح داغ دار کر رکھا تھا‘ اپنے کو جوڑے رکھا لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی اس کی یہ ہے کہ مختلف اسباب کے تحت جب وہ اس مذہب سے عاجز آ گیا تو اسے مسترد کرنے کے ساتھ ہی اس نے نفس مذہب کے سلسلے میں ایسا دھواں دار پراپیگنڈا شروع کیا کہ کہنا چاہیے کہ دنیا کے بیشتر مذاہب کے ماننے والے اس کی لپیٹ میں آ گئے اور اپنے اپنے مذہب کو بھی انہوں نے اسی چوکھٹے کا پابند بنا لیا جس کی وکالت سرزمین یورپ کے فرزانوں کی طرف سے کی جا رہی تھی یعنی یہ کہ مذہب انسان کی پرائیویٹ زندگی کا معاملہ ہے‘ معاملات دنیا سے اس کا کوئی تعلق ہے نہ ہونا چاہیے‘ یہاں تک کہ اہل یورپ کے نزدیک مذہب کی تعریف ہی اس دائرے میں محصور ہو کر رہ گئی کہ ’’مذہب نام ہے اس محسوس عملی تعلق کا جو کسی ایک یا متعدد مافوق الفطری وجود یا وجودوں پر اعتقاد کی صورت میں کسی فرد کا اس سے یا ان سے قائم ہوتا ہے۔‘‘
ہم مبارک بار دیتے ہیں یورپ کو اس کی اس ہوشیاری اور چالاکی پر کہ اس نے جب اپنی ناک کاٹی تو اس کے فضائل اس زور وقوت کے ساتھ بیان کیے کہ دنیا کی عظیم آبادی نے اپنے لیے ’نکٹا‘ ہونے ہی کو باعث افتخار سمجھا اور ہر اس شخص کو الٹا عار دلانے لگی جو کسی بھی صورت اپنے لیے ’ناک والا‘ رہنے کا قائل اور اس کی وکالت کرنے والا اور اس کا موید نظر آتا ہو۔ لیکن خاص طور پر آج کے روشن خیال اور آزادئ فکر ونظر کے مدعیوں سے ہمارا یہ سوال اب بھی قائم ہے کہ کیا یورپ کے اپنے اس محدود تلخ تجربے کے نتیجے میں نفس مذہب کے سلسلے میں اس کا مذکورہ بالا اعلان واظہار کسی بھی درجے میں حق وصداقت کا آئینہ دار ہے؟ اور کیا اس کی پیروی میں کسی بھی دوسری سمت سے اس طرح کے کسی اظہار واعلان کو مبنی بر حقیقت اور حق وانصاف کاتقاضا قرار دیا جا سکتا ہے؟
(بہ شکریہ ’’تحقیقات اسلامی‘‘ اعظم گڑھ۔ انڈیا)