گجرات کا المیہ اور اس کے اثرات

مولانا محمد رابع حسنی ندوی

ہندوستا ن کو بدیسی غلامی سے آزادی ملنے پر ملک کی ضرورت کے لائق حکومت قائم کرنے اور چلانے کے لیے اس کے دانش وروں اور قانون دانوں نے جو دستور دیا، وہ اس کے قومی اقدار اور مفادات کا حامل دستور ہے جو ہندوستان میں اس عظیم ملک کے تاریخی مزاج وکردار کی جھلک پیش کرتا تھا۔ اس ملک کا ماضی فرقہ وارانہ مذہبی منافرت کا حامل نہیں رہا ہے۔ یہاں ماضی میں جو بھی ٹکراؤ یا کشمکش رہی ہے، وہ ا س کے حکمرانوں کے سیاسی وفوجی اقتدار کی بقا اور طلب تک محدود رہی ہے، مذہبی فرقہ بندی پر نہیں رہی ہے چنانچہ مسلم حکمرانوں کے ماتحت عہدہ داروں میں ہندو دانش ور اور منتظم اور ہندو حکمرانوں کے ماتحت عہدہ داروں میں مسلمان دانش ور اور منتظمین بھی رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر جیسا مذہبی مسلمان شہنشاہ جس کو ہندوؤں میں سخت ہندو دشمن مسلمان حکمران بتایا جاتا ہے، اس نے بھی متعدد اعلیٰ عہدوں پر ہندو دانش وروں اور منتظمین کو رکھا تھا اور صرف مسجدوں کو ہی نہیں بلکہ متعدد مندروں کو بھی جائیدادیں وقف کیں لیکن ہندوستان پر غیر ملکی انگریز حکومت نے ملک میں اپنے قدم جمائے رکھنے کے لیے یہ سیاست اختیار کی کہ ملک کے مختلف مذہبی فرقوں کے مابین پیش آنے والے واقعات میں نفرت اور ٹکراؤ کے اسباب دکھائے جائیں تاکہ ملک کی عوامی طاقت متحد نہ رہ سکے۔ اس کے لیے ملک کی تاریخ میں مذہبی فرقوں کے مابین واقعات کی ایسی تصویر کشی کی جس سے یہ ثابت ہو کہ ملک میں مذہبی زور دستی اور حق تلفی کا دور دورہ رہا ہے چنانچہ انگریز ی اقتدار میں ایسی کتابیں اور نصاب تعلیم مرتب کیا گیا جن سے انگریزوں کا یہ مقصد پورا ہوتا تھا، خاص طور پر مسلمانوں کو جابر اور ظالم اور غیر مسلموں کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کرنے والا دکھایا گیا۔

اس نصاب اور لٹریچر نے عام ہندوؤں اور سکھوں کے ذہنوں کو مسموم کیا، پھر اس ذہن کی کارفرمائی تقسیم ہند کے موقع پر سخت انداز میں ہوئی اور یہ انگریزی اقتدار اعلیٰ کی سربراہی میں انجام پائی جس سے ہندو مسلم فرقوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے سخت نفرت وعداوت ابھری اور ملک کے دونوں ٹکڑوں کے سرحدی علاقوں میں آگ وخون کا کھیل ہوا اور اس سے متحدہ ہندوستان کے ماضی کی رواداری، میل محبت کی تاریخ ٹوٹ پھوٹ گئی۔

لیکن دونوں فرقوں کے غیر متعصب مزاج کے حامل دانش وروں اور قائدین نے حالات کو سنبھالا اور ملک کے مستقبل کے لیے ملک کے ماضی کی اقدار کو بنیاد بنایا اور اسی کے مطابق دستور ترتیب دیا۔ اس دستور کے بموجب ملک نے اپنے نئے عہد میں قدم بڑھایا اور ترقی کی راہ اختیار کی۔ ملک کے باشندوں کی تعداد اور اپنے رقبہ کی وسعت اور اپنی زمینی دولت پھر اپنے روادارانہ اور انسانیت دوست مزاج کے لحاظ سے پورے مشرق کی قیادت کے منصب کی طرف بڑھنا شروع ہوا اور پورے ایشیا میں اس کی اہمیت اور بڑائی کو تسلیم کیا جانے لگا۔ اس پورے خطے میں ہندوستان کے ارد گرد پچاس سے زیادہ مسلم ممالک ہیں، وہ سب ہندوستان کو اپنے بڑے بھائی کی حیثیت سے دیکھنے لگے لیکن انگریزوں کے بوئے ہوئے علاقائی ونسلی منافرت کے بیج بھی اپنا کام کرتے رہے اور ان کے اثر میں آئے ہوئے فرقہ وارانہ دشمنی اور ٹکراؤ کو پسند کرنے والے اداروں اور افراد نے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ مسلمان اقلیت میں تھے اس لیے ان کے فرقہ وارانہ دشمنی کا مزاج رکھنے والے زیادہ کارگر نہ ہو سکے لیکن ہندوؤں میں اس مزاج کے لوگ اور ادارے ملک پر اپنے اثرات بڑھاتے رہے حتیٰ کہ اپنی تدبیروں اور سازشوں سے سیکولر مزاج رکھنے والی حکومتوں میں دخیل بلکہ حاوی ہو گئے۔ وہ ہندو نوجوانوں کے ذہنوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عداوت کا خیال پیدا کرتے رہے ۔ وہ یہ کام جو پہلے تعلیم وابلاغ کے ذرائع سے کرتے تھے ،اب سیاست وحکومت کے ذرائع سے کرنے لگے۔

فرقہ وارانہ منافرت کی حامل ان طاقتوں کا اصل مرکز زیادہ تر ہندوستان کا مغربی علاقہ رہا اور مہاراشٹر اور گجرات ان کے اثرات کا بنیادی علاقہ رہا۔ وہاں سے وہ شمالی ہندوستان اور جنوبی علاقوں میں اپنے منصوبوں پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سلسلے میں ان کو اجودھیا کی قدیم مسجد جس کا انتساب بابر کی طرف کیا جاتا ہے، ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان موضوع نزاع بنانے کا اچھا عنوان ملا چنانچہ اس کے نام سے تحریک شروع کی گئی جس کو حکومتوں کے منافرت پسند ذہن کے افراد وعہدہ داروں کی طرف سے سہارا ملتا رہا۔ بالآخر فرقہ پرست ہندو طاقتوں کو مسجد پر قبضہ کر لینے اور اس میں مندر کے مذہبی رسومات ادا کرنے کا موقع مل گیا۔ مسلمانوں کے پاس عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی دوسرا معتبر ذریعہ نہ تھا چنانچہ انہوں نے اس سے رجوع کیا جس کی بنا پر برس ہا برس سے یہ مسئلہ عدالت میں زیر بحث ہے اور شاید ابھی اسی طرح چلتا رہے لیکن ایک طرف طاقت ہو اور دوسری طرف عدالت تو طاقت اپنا فوری اثر دکھاتی ہے اور عدالت سے رجوع کرنے والے کو اپنی کمزوری کا مشاہدہ کرتے رہنا پڑتا ہے۔

سالِ رواں میں اس کشمکش کا اثر گجرات کے صوبہ سے زیادہ ظاہر ہوا۔ وہاں ہندو بالادستی بلکہ جارحانہ سیاست کے حامل لوگوں کی حکومت ہے۔ اس کے زیر سایہ یہ خونی ڈرامہ رچایا گیا جس سے پورے ملک کے مسلمانوں کے دل دہل گئے اور ملک کا روادارانہ سیکولر کردار پاش پاش ہو گیا۔ بالآخر بدنامی کے خوف اور سیکولر مزاج کے افرادکے دباؤ کا کسی قدر اثر پڑا اور عدالت عظمیٰ نے خصوصی توجہ کی اور ایودھیا کے نام پر جن جارحانہ مقاصد کی تکمیل کی جانے والی تھی، وہ روک دی گئی اور حالات کے بدترین ہو جانے کا جو سلسلہ شروع ہو گیا تھا، اس میں کچھ ٹھہراؤ پیدا ہوا۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ ٹھہراؤ کتنا قائم رہتا ہے۔

اس ملک کے سربراہان حکومت کو، خواہ وہ ہندو فرقہ پرستی کے رہبر آر ایس ایس کے ہم نوا ہوں اور خواہ ملک کے سیکولر مزاج کے داعی ہوں، اس بات پر غور کرنا اور فیصلہ کرنا ہے کہ فرقہ پرستی کا یہ جارحانہ عمل جو ایودھیا میں اپنی من مانی کرنے کے لیے ساری انسانی قدروں اور ملک کی سا لمیت وترقی کے لیے تباہ کن طوفان کی شکل اختیار کر گیا ہے، ملک وقوم کو کس تباہی اور انتشار تک لے جائے گا اور ملک وقوم کی عزت کو بیرون ملک کیا نقصان پہنچائے گا؟ کارخانوں کو جلانا، صنعتی ٹھکانوں کو تباہ کرنا اور سب مال لوٹ لینا، لوٹنے والوں کو کچھ سستے فائدے تو حاصل کرا دے گا لیکن برباد ہو جانے والی صنعتوں کے ختم ہو جانے سے ملک کی دولت اور صنعتی ذرائع میں کیا کمی واقع ہو جائے گی۔ جبکہ یہ مالی وصنعتی کوششیں خاصی حد تک غیر ملکی کرنسی کے حصول کا اور اندرون ملک میں اضافہ دولت کا ذریعہ بن رہی تھیں، اب ملک کے حصول دولت کے دائرے میں کس قدر خسارہ کا باعث ہوگا اور کتنی صنعتیں ٹھپ ہو کر رہ جائیں گی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر منظم فساد سے ملک اپنی طاقت ودولت کے مقام سے ایک قدم پیچھے چلا جاتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ فرقہ وارانہ جوش وغضب میں ملک کی سا لمیت، عزت اور اقتصادی طاقت کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور صرف جذباتی مسرت کے حصول کے لیے اس کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ گجرات جو ملک کی صنعتوں کا عظیم گہوارہ ہے، کس قدر اقتصادی توانائی سے محروم ہو گیا اور یہ خود گجرات کے باشندوں کے ہاتھوں انجام پایا۔ یہ لوگ ملک وقوم کے بہی خواہ ہوئے یا بد خواہ؟

اب رہا مسلمانوں کا مسئلہ تویہ تباہی ان کے لیے حوادث کی حیثیت تو رکھتی ہے لیکن ان کے مٹا دینے یا ختم کر دینے کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ منظم فسادات کے ذریعے سے مسلمانوں کا خاتمہ کر دینے کی اس ملک میں گزشتہ ۵۵ سالوں میں کئی بار کوششیں کی گئیں لیکن وقتی نقصان سے زیادہ ان کا اثر نہیں پڑا۔ مسلمانوں کی تاریخ نے ان کو بتایا ہے کہ ایسے طوفانوں سے بھی زیادہ سخت طوفان ان پر سے گزرے ہیں اور وہ ان کے اثر سے غیر معمولی خوف ودہشت اور تباہی وخسارہ سے گزرے ہیں لیکن وہ ختم نہیں کیے جا سکے بلکہ اس کے بعد ان میں مزید ہمت وحوصلہ پیدا ہوا اور انہوں نے اپنے سابقہ مقام کو دوبارہ بحال کر لیا۔ ان کو ان کے مذہب نے مایوسی اور شکست خوردگی کی اجازت نہیں دی ہے بلکہ ان کو تعلیم دی ہے کہ ایسے طوفانوں میں وہ اپنے حوصلہ کو برقرار رکھیں اور انسانی شریفانہ کردار پر قائم رہتے ہوئے اپنے پروردگار سے خیر کی امید رکھیں۔ سارے حالات کے باوجود آخری کام یابی حق وانصاف اور ہمت سے کام لینے والوں کی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس کی شاہد ہے۔

بعض لوگ اسپین کا نام لیتے ہیں۔ وہ قدیم زمانے میں ایک چھوٹا ملک تھا اور اس میں مسلمان اقلیت میں ہونے کے تعلق سے کم آبادی رکھتے تھے۔ کئی صدیوں تک ظلم برداشت کرنے کے بعد خود ان کی آبادی کی ایک تعداد نے تبدیلی وطن کو اختیار کرلیا۔ اب موجودہ جمہوری عہد میں پھر وہ وہاں دوبارہ بڑھ رہے ہیں اور ترقی کر رہے ہیں۔ رہا یہ ملک ہندوستان تو یہاں کے بیس کروڑ مسلمانوں کو بے وزن کردینے کی کوشش مسلمانوں کو صرف جزوی نقصان پہنچا سکتی ہے، ان کے وجود کو نقصان نہیں پہنچا سکتی لیکن اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ نقصان رسانی پورے ملک وقوم کے لیے کئی پہلوؤں سے نقصان دہ ثابت ہوگی۔

ملک وقوم کی سا لمیت وطاقت کے لیے ضروری ہے کہ اس کی آبادی کے مختلف طبقات میں میل جول، تعاون اور ہم آہنگی ہو اور وہ اسی صورت میں ہوگا کہ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں اور اپنے فرقہ کے فائدہ کے لیے دوسرے فرقہ کے ساتھ حق تلفی اور نقصان رسانی کا عمل اختیار نہ کریں۔ کئی صدیوں سے قائم وجاری اور حکومت وتاریخ کے ریکارڈوں میں تسلیم کی جانے والی مسجد کو محض خواہش پر ہندو عبادت گاہ بنا دینے کی کوشش صرف تلخی، ٹکراؤ اور ملک کی ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے سوا کچھ اور نتیجہ پید انہ کر سکے گی۔

گجرات میں مسلمانوں کو جس بربریت کے ساتھ مارا، لوٹا اور تباہ کیا گیا ہے، اس کو سن کر اور دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ ظلم کی دردناک مثال ہے۔ ظلم ایسا انسانی جرم ہے جس پر اللہ رب العالمین کی گرفت جلد ہوتی ہے۔ اس ظلم کا نتیجہ بھی سخت ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ اس کی گرفت اور سزا سخت ہوتی ہے۔ کوئی تعجب کی بات نہ ہوگی کہ گجرات کے ظالموں کو اپنے ظلم کا نتیجہ سخت دیکھنا پڑے۔

مسلمانوں کو اس سلسلے میں اپنے پروردگار سے رحمت کی دعا اور حالات کا مقابلہ کرنے میں دانش مندی اور دستور وجمہوری قدروں کے ساتھ طریقہ کار کاپابند رہنا ان کے لیے کامیابی کی راہ استوار کرے گا۔ امید ہے کہ ملک کے دونوں فریق اگر جلد نہیں تو بدیر ہی سمجھ داری کی راہ کو اپنائیں گے۔ موجودہ حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آئندہ کے خطرات کے مقابلے کے لیے مناسب حکمت عملی اختیارکریں گے اور موجودہ المیہ میں نقصان اٹھانے والے اپنے بھائیوں کے ساتھ جو ہمدردی قابل عمل ہے، اختیار کریں گے اور گجرات میں جو ریلیف کا کام ہو رہا ہے، ا س میں حسبِ استطاعت پورا حصہ لیں گے۔

(بہ شکریہ تعمیر حیات لکھنؤ)

حالات و واقعات

(اپریل ۲۰۰۲ء)

تلاش

Flag Counter