ہندو جب بھی کوئی نیا نظام پیدا کرتا ہے تو اس کی بنیاد سرمایہ داری پر ہوتی ہے۔ چنانچہ گاندھی جی جیسا شخص بھی انسانیت کا اتنا بڑا نمائندہ بن کر سرمایہ داری سے ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکا۔ اسی طرح پنڈت جواہر لال نہرو کمیونسٹ ہیں مگر وہ بھی سرمایہ دار ہیں۔ ان کے مقابلہ میں حسرت موہانی کو لیجئے، جس دن اس نے اشتراکیت قبول کی وہ اپنی تمام جائیداد ختم کر چکا اور اب وہ ایک کوڑی کا بھی مالک نہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے یورپ جا کر سوشلسٹوں کے ساتھ رہ کر سوشلزم سیکھا مگر حسرت اپنی ذاتی کاوش سے اس مرتبہ پر پہنچے۔ یہ فرق ہے مسلم سوسائٹی اور ہندو سوسائٹی میں، مسلم جس وقت اپنے اصلی نظام پر آئے گا وہ سرمایہ داری کا بت توڑنے والا ہو گا اور آج دنیا میں سرمایہ داری کے سوا کونسا بڑا بت ہے جسے توڑنے کی ضرورت ہے؟
(خطبات و مقالات ۔ ص ۸۸)
مشاورت کا مسئلہ اسلام میں بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن اسلامی حکومتوں کو شورٰی سے خالی کر کے مطلق العنان جاہل حکمرانوں اور امیروں کا کھیل بنا دیا گیا ہے۔ وہ مسلمانوں کی امانت (سرکاری خزانے) سے اپنی شہوت پرستیوں پر خرچ کرتے ہیں اور وہ بڑی بڑی مصلحتوں کے مقابلہ میں خیانت کرتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس قسم کی غلطیوں کا خمیازہ مسلمانوں کو اس غلط تفسیر کی وجہ سے بھگتنا پڑا۔ ورنہ ہر ایک مسلمان ایک حاکم کے اوپر ننگی تلوار ہے، وہ حاکم کیوں قانونِ الٰہی کی اطاعت نہیں کرتا؟ اگر وہ اطاعت نہیں کرتا تو کس بنا پر ہم سے اطاعت کا طلبگار ہوتا ہے؟ یہ طاقت مسلمانوں میں پھر سے پیدا ہو سکتی ہے اور اس سے ان کی جماعتی زندگی آسانی کے ساتھ قرآن کے مطابق بن سکتی ہے۔
(عنوانِ انقلاب ۔ ص ۱۲۶)