گوجرانوالہ سے شائع ہونے والا مسیحی ماہنامہ ’’کلامِ حق‘‘ ملقب بہ ’’راسخ الاعتقاد مسیحیت کا واحد علمبردار‘‘ (بابت ماہ فروری ۱۹۹۰ء) رقم طراز ہے:
’’الشریعۃ ماہنامہ میں آپ کے آرٹیکل سے حیرت ضرور ہوئی ہے اس لیے کہ اب خود اسلام کے اندر دشمنِ اسلام و قرآن اور منکرِ عقائد ایمان مفصل پیدا ہو رہے ہیں اور سابقہ علماء پر اسلام کے تراجم قرآن اور دلائل و براہین کے دشمن اٹھ کھڑے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ اب ایک حافظ محمد عمار خان ناصر صاحب گوجرانوالہ میں پیدا ہو گئے ہیں جو قرآن مجید کی ان آیات کے منکر ہو گئے ہیں جو سابقہ الہامی کتب توریت اور زبور اور صحائف الانبیاء اور انجیل مقدس کی تصدیق میں ہیں جن پر ایمان لانا ہر مسلمان کے جزوِ ایمان کا ستونِ اعظم ہے۔
حافظ صاحب کا یہ دعوٰی توہینِ قرآن میں شامل ہے اور وہ قرآن مجید سے اپنے دعوٰی کی تصدیق کے لیے کوئی آیت پیش نہیں کر سکتے۔ کتاب مقدس کی صداقت اور الہامی عظمت کے بارے اور مقابلہ میں یہ ان کی شکست خوردہ ذہنیت ہے۔‘‘ (ص ۱۶)
یاد رہے کہ یہ مضمون ’’پادری برکت اے خان آف سیالکوٹ‘‘ کا تحریر کیا ہوا ہے۔ اس ساری دل جلی عبارت کا لب لباب یہ ہے کہ ’’حافظ صاحب‘‘ نے بائبل کے ازروئے قرآن سچا اور الہامی ہونے کے دعوٰی کے ڈھول کا پول کیوں کھول کر رکھ دیا ہے؟ اور پادری صاحب کو یہ دلسوزی اس لیے کرنی پڑی کہ ’’حافظ صاحب‘‘ نے خود انہی کے حوالوں سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ قرآن نے جس توریت و انجیل کی تصدیق کی ہے، موجودہ مختلف و متضاد تحریفات کے پلندہ اناجیل اربعہ کو اس اصلی اور سچی انجیل سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔ ہم اسی بحث کو یہاں نئے پیرائے میں دہرا رہے ہیں۔
اصولِ تنزیل میں فرق
پادری برکت اے خان لکھتے ہیں:
’’تمام مذاہب کے درمیان اختلافات کی دو بڑی اہم وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تصوراتِ خدا ہے اور دوسری وجہ نزولِ الہامِ الٰہی ہے۔‘‘ (رسالہ اصول تنزیل الکتاب ص ۳)
مزید لکھتے ہیں:
’’مسیحیوں کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ توریت کی کتاب آسمان پر کسی خاص زبان میں آسمانی ورقوں پر خدا نے لکھ کر رکھی تھی۔ اسی طرح تمام پاک نوشتوں یعنی زبور کی کتاب، صحائف الانبیاء اور انجیل مقدس کے بارے میں بھی ہمارا ایسا ہی عقیدہ ہے۔‘‘ (ایضاً ص۳)
’’جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ موسٰی پر توریت شریف ایک کتاب کی صورت میں آسمان سے نازل ہوئی تھی ان کی یہ بات خداوند کی کتاب مقدس کے اصولِ الہام کے سراسر خلاف ہے کیونکہ آسمان پر پہلے سے توریت کی کتاب کی موجودگی کو تسلیم کرنے کے بعد ہی اس توریت کی کتاب کے بزرگ موسٰی پر آسمان سے نزول کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح زبور اور صحائف الانبیاء اور انجیل مقدس کے متعلق بھی ان کے خیالات خداوند کی کتاب مقدس کے اصول الہام الٰہی کے سراسر منافی ہیں ۔۔۔۔
آسمان پر الہامی کتابوں کی موجودگی اور ان کی آیات کے لفظ بلفظ کسی خاص زبان میں نزول کا جو عقیدہ اہلِ اسلام کے درمیان مروج ہے، کتابِ مقدس کے صحائف کے متعلق نہ یہودیوں میں اور نہ مسیحیوں میں ایسا عقیدہ کبھی مروج ہوا ہے اور نہ انبیاء کرام خدا کی طرف سے وحی و الہام پا کر بصورتِ املا نویس محرر تھے۔‘‘ (ص ۶۰۵)
’’چنانچہ کتاب مقدس کے انبیاء کرام پر کلامِ الٰہی کی باتوں کے الہام و مکاشفہ کی صورت میں نزول کا طریقہ و عقیدہ میں اور حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اوپر ایک عجیب حالت و کیفیت میں نزول وحی قرآن کے طریقہ و عقیدہ میں بھی بڑا خاص فرق پایا جاتا ہے۔‘‘ ( ص ۱۰)
’’اگر قرآن مجید اور توریت شریف اور زبور شریف اور صحائف الانبیاء اور انجیل مقدس ایک آسمان اور ایک ہی خدا کی طرف سے نازل ہوئی تھیں تو پھر قرآن مجید نے باقی تمام الہامی کتابوں کی بعض ضروری ضروری باتوں اور اہم تعلیمات کے بارے میں اختلافی تعلیم کیوں پیش کی؟‘‘ (ص ۱۳)
قرآن پاک کا ساتویں صدی عیسوی کے گمراہی و ضلالت سے مرقع دور میں جب مسیحیوں کو دنیا کی سپرپاور کی حیثیت حاصل تھی ان کتبِ موضوعہ کے برخلاف تعلیم دینا ایک معجزہ اور صداقت کی نشانی تھا جسے پادری صاحب نے شرح صدر تسلیم کیا ہے۔ البتہ مندرجہ بالا اقتباسات سے یہ امر اظہر من الشمس ہو جاتا ہے کہ نہ صرف اہل کتاب اور اہل اسلام کے درمیان الہام الہامی کے نزول کے اصول مختلف ہیں بلکہ یہ دونوں کتابیں ایک ہی آسمان اور ایک ہی خدا کی جانب سے نازل شدہ نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے قرآن نے موجودہ تورات و انجیل کی تصدیق بھی نہیں کی اور پادری صاحب بیک وقت دو متضاد باتیں کہہ رہے ہیں۔
مقام حیرت و استعجاب ہے۔۔۔ پادری صاحب کو چاہیئے تھا کہ کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے کی بجائے ہمارے ناقابلِ تردید دلائل کا توڑ پیش کرتے ۔۔۔ (۱) دشمنِ اسلام و قرآن (۲) منکرِ عقائد ایمان مفصل (۳) علماء اسلام کی تعلیمات کا دشمن (۴) قرآن مجید کی آیات کا منکر (۵) موہنِ قرآن (۶) شکست خوردہ ذہنیت (۷) بے شعور (۸) بدتمیز اور (۹) بدزبان جیسے القابات دینے کی بجائے کوئی دلیل کی بات کریں ۔۔۔ مزید برآں ’’کلامِ حق‘‘ کے مدیر صاحب کا یہ ارشاد بھی قابل توجہ ہے کہ ’’کلامِ حق کے مدیر نے حافظ صاحب کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کے مفروضات کا جواب دیا جائے‘‘۔ حقیقت یہ ہے کہ خود پادری صاحب میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ اپنے ’’مفروضات‘‘ کا دفاع کر سکیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے خیالات پر کی گئی تنقید کا خود سامنا کرنے کی بجائے پادری برکت صاحب کو آگے کر دیا ہے اور یہی ان کی قابلیت ہے۔