مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے شائع ہونے والا اردو ماہنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ مجریہ ماہ مئی ۱۹۸۸ء راقم کے پیشِ نظر ہے۔ شمارہ ہٰذا میں جناب مولوی شبیر احمد خاں غوری (سابق رجسٹرار امتحانات عربی و فارسی بورڈ سرشتہ تعلیم الٰہ آباد، یو۔پی) کا ایک اہم مضمون زیرعنوان ’’اسلام اور سائنس‘‘ شائع ہوا ہے۔ آں موصوف کی شخصیت برصغیر کے اہلِ علم طبقہ میں خاصی معروف ہے۔ آپ کے تحقیقی مقالات اکثر برصغیر کے مشہور علمی رسائل و جرائد کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ آں محترم نے پیشِ نظر مضمون کے ایک مقام پر بعض انتہائی ’’ضعیف‘‘ اور ساقط الاعتبار احادیث سے استدلال کیا ہے جو ایک محقق کی شان کے خلاف ہے۔ چنانچہ رقم طراز ہیں:
’’اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروؤں کو جس طرح اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نیکوکاری اختیار کرنے اور برائیوں سے بچنے کا حکم دیا ہے اسی طرح ان کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ خود کو اوصافِ حمیدہ سے متصف کریں اور ان اوصافِ حمیدہ کے چندن ہار میں واسطۃ العقد علم و حکمت ہے۔ لہٰذا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروؤں کو حکم دیا کہ وہ علم حاصل کریں ہر چند کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے انہیں انتہائی مشقت حتٰی کہ اقصائے عالم کا سفر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اطلبوا العلم ولو کان بالصین۔
(علم کو تلاش کرو خواہ وہ چین (اقصائے عالم) ہی میں کیوں نہ دستیاب ہو۔)
پھر اس ’’حکم ناطق‘‘ کو مزید مؤکد بنانے کے لیے اسے ’’فریضۃ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا جس میں کوتاہی یا تہاون کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
طلب العلم فریضۃ علٰی کل مسلم و مسلمۃ۔
(علم کو طلب کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔)
یہی نہیں بلکہ آپؐ نے فرمایا حکمت مومن کی متاعِ گم گشتہ ہے جہاں ملے وہ دوسروں کے مقابلے میں اسے لے لینے کا زیادہ حق دار ہے۔
کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن اینما وجد ھا فھوا حق بھا۔
شمعٔ رسالت کے پروانوں کو اس حکم کی تعمیل میں کیا پس و پیش ہو سکتا تھا، لہٰذا زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ امت مسلمہ علم و حکمت کے خزانوں کی امین ہو گئی۔‘‘ (ماہنامہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ ج ۷ شمارہ ۵ بمطابق ماہ مئی ۸۸ء ص ۲۹)
افسوس کہ آں محترم کی بیان کردہ یہ تینوں انتہائی ’’ضعیف‘‘ اور قطعًا ناقابلِ اعتبار ہیں۔ پہلی دونوں احادیث پر راقم کا ایک طویل تحقیقی مضمون سہ ماہی مجلہ جامعہ ابراہیمیہ سیالکوٹ عدد شمارہ ۱۱۔۱۲ بمطابق ماہ ذوالحجہ ۱۴۰۶ھ تا محرم ۱۴۰۷ھ ص ۲۶۔۳۸) میں تقریباً ڈھائی سال قبل شائع ہو چکا ہے۔ اب دوبارہ مجلس التحقیق الاسلامی لاہور (پاکستان) اپنے مؤقر علمی ماہنامہ محدث لاہور (ج ۱۸ شمارہ ۱۰ بمطابق ماہ جون ۱۹۸۸ء ص ۴۱۔۶۰) میں اسی مضمون کو بالاقساط شائع کر رہی ہے۔ شائقین کے لیے یہ مضمون بھی لائقِ مراجعت ہے۔ زیر نظر مضمون میں محترم جناب غوری صاحب کی بیان کردہ تیسری حدیث ’’کلمۃ الحکمۃ الخ‘‘ اور اس کے جملہ طرق پر علمی بحث پیش کی جاتی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ عند المحدثین اس روایت کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔
اس حدیث کو امام ترمذیؒ نے اپنی ’’جامع‘‘ (جامع الترمذیؒ معہ تحفۃ الاحوذی ج ۳ ص ۳۸۲۔۳۸۳ طبع دہلی و ملتان) کے ’’ابواب العلم‘‘ میں، ابن ماجہؒ نے اپنی ’’سنن‘‘ (ص ۳۱۷ حدیث نمبر ۴۱۶۹) کی ’’کتاب الزہد‘‘ میں، بیہقیؒ نے ’’مدخل‘‘میں اور عسکریؒ نے بطریق ابراہیم بن الفضل عن سعید المقبری عن ابی ہریرہؓ مرفوعاً روایت کیا ہے۔ خطیب تبریزیؒ نے اس حدیث کو ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ مع تنقیح الرواۃ ج ۱ ص ۴۹ طبع لاہور میں، علامہ سخاویؒ نے ’’مقاصد الحسنہ فی بیان کثیر من الاحادیث المشتھرہ ص ۱۹۱۔۱۹۲ میں، امام ابن الجوزیؒ نے ’’علل امتناہیۃ فی الاحادیث الواہیہ ج ۱ ص ۸۸ میں، ملا علی قاری حنفیؒ نے ’’اسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ‘‘ ص ۱۸۶ میں، علامہ محمد اسماعیل عجلونی الجراحیؒ نے ’’کشف الخفاء و مزیل الالباس عما اشتھر من الاحادیث علی السنۃ الناس ج ۱ ص ۴۳۵ میں، علامہ محمد درویش حوت البیروتیؒ نے ’’اسنی المطالب فی احادیث مختلفہ المراتب ص ۱۳۳ میں، علامہ شیبانی اثریؒ نے ’’تمیز الطیب من الخبیث فیما یدور علی السنۃ الناس من الحدیث‘‘ ص ۱۳۸ میں، امام ابن حبانؒ نے ’’کتاب المجروحین‘‘ ج ۱ ص ۱۰۵ میں، امام عقیلی نے ’’ضعفاء الکبیر‘‘ ج ۱ ص ۶۱، علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے ’’الدرر المنتثرة‘‘ ص ۱۹۴، اور ’’جامع الصغیر‘‘ میں، علامہ قضاعیؒ نے ’’مسند شہاب‘‘ میں، عسکری اور علامہ شیخ محمد ناصر الدین الابانی حفظہ اللہ نے ’’ضعیف الجامع الصغیر و زیادتہ‘‘ وغیرہ میں معمولی حک و اضافہ۔ خطیب ترمذیؒ نے ’’مشکوٰۃ‘‘ میں ترمذیؒ اور ابن ماجہؒ والی حضرت ابوہریرہؓ کی روایت میں ’’المؤمن‘‘ کی بجائے ’’الحکیم‘‘ لکھا ہے حالانکہ ترمذیؒ میں ’’المؤمن‘‘ کے الفاظ ہی مروی ہیں۔ (مشکوٰۃ مع تنقیح الرواۃ ج ۱ ص ۴۹)۔ علامہ سخاویؒ نے ترمذیؒ کی روایت کے الفاظ اس طرح نقل کیے ہیں: ’’الکلمۃ الحکیمۃ الخ‘‘ (مقاصد الحسنہ ص ۱۹۲) حالانکہ اصل عبارت میں لفظ ’’الحکیمۃ‘‘ کے بجائے ’’الحکمۃ‘‘ موجود ہے (جامع ترمذیؒ مع تحفہ ج ۳ ص ۳۸) کے ساتھ وارد کیا ہے۔
اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد خود امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
ھذا حدیث غریب، لالغرفہ الوجہ وابراھیم بن الفضل المخزومی ضعیف فی الحدیث‘‘ (جامع ترمذیؒ مع تحفۃ الاحوذی ج ۳ ص ۳۸۲۔۳۸۳)۔
امام ابن الجوزیؒ بھی فرماتے ہیں کہ ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘ (علل المتناہیہ لابن الجوزیؒ ج ۱ ص ۸۸) اس روایت کی سند میں ایک مجروح روای ’’ابراہیم بن الفضل المخزومی المدنی‘‘ موجود ہے جس کے متعلق ابن معینؒ فرماتے ہیں کہ ’’ضعیف ہے، اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی‘‘۔ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں ’’کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ امام نسائیؒ فرماتے ہیں ’’متروک الحدیث ہے‘‘۔ علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ’’متروک ہے‘‘۔ علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں ’’فاحش الخطاء ہے‘‘۔ امام عقیلیؒ فرماتے ہیں ’’امام بخاریؒ کا قول ہے کہ منکر الحدیث ہے‘‘۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ ’’حدیث میں قوی نہیں ہے، ضعیف الحدیث ہے‘‘۔ امام ابن الجوزیؒ نے یحیٰیؒ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اس کی حدیث کچھ بھی نہیں ہوتی‘‘۔ ڈاکٹر عبد المعطی امین قلعجی فرماتے ہیں کہ ’’اس کے متروک ہونے پر ائمہ جرح والتعدیل کا اجماع ہے۔ حدیث کے تمام نقاد نے اس کی تضعیف کی ہے۔ مجھے ایسا کوئی فرد نظر نہیں آتا کہ جس نے اس کی توثیق کی ہو‘‘۔
’’ابراہیم بن الفضل المخزومی‘‘ کے تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ یحیٰی بن معینؒ، علل لابن حنبلؒ، تاریخ الکبیر للبخاریؒ، تاریخ الصغیر للبخاریؒ، معرفۃ والتاریخ للبسویؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ، مجروحین لابن حبانؒ، کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، تہذیب التہذیب لابن حجرؒ، تقریب التہذیب لابن حجرؒ، ضعفاء والمتروکان للنسائیؒ، ضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ اور مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ ملاحظہ ہوں۔
اب ذیل میں اس باب میں وارد ہونے والی چند اور روایات اور ان کے طرق کا عملی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
اس حدیث کو قضاعیؒ نے ’’مسند شہاب‘‘ میں بطریق لیث بن ہشام بن سعد عن زید بن اسلم مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اس میں یہ اضافی الفاظ موجود ہیں ’’حیث ما وجد المومن ضالۃ فلیجمعھا الیہ‘‘۔ عسکریؒ کی ایک دوسری حدیث بطریق عنبسہ بن عبد الرحمٰن عن شبیب بن بشیر عن انس مرفوعاً بھی مروی ہے جو اس طرح ہے ’’العلم ضالۃ المؤمن حیث وجدہ اخدہ‘‘۔ قضاعیؒ اور عسکریؒ کی ایک اور روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے ’’کلمۃ الحکمۃ ضالۃ کل حکیم فاذا وجد ھا فھو احق بھا‘‘۔ ابن عساکرؒ، ابن لالؒ، اور دیلمیؒ وغیرہ نے بطریق عبد الوہاب عن مجاہد عن علی مرفوعاً اس طرح بھی روایت کی ہے ’’ضالۃ المومن العلم کلما قیہ حدیثاً طلب الیہ اٰخر‘‘۔ دیلمیؒ نے اپنی مسند ج ۱ ص ۲۰ میں اور عفیف الدین ابوالمعالیؒ نے ’’فضل العلم‘‘ ج ۱ ص ۱۱۴ میں ابراہیم بن ہانی عن عمرو بن حکام عن ابوبکر عن زیاد بن ابی حسان عن انسؓ کے مرفوع طریق سے ایک اور حدیث اس طرح روایت کی ہے ’’احسبوا علی المومنین ضالتھم قالوا وما ضالۃ المومنین قال العلم‘‘۔ اسباب میں دیلمی کی ایک اور حدیث جو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے اس طرح ہے ’’نعم الفائدۃ الکلمۃ من الحکمۃ یسمعھا الرجل فیھد بھا لاخیہ‘‘۔ دیلمیؒ نے اس باب میں ابن عمرؓ سے بھی ایک حدیث روایت کی جو اس طرح ہے ’’خد الحکمۃ ولا یضرک من ای وِعاء خرجت‘‘۔
ان تمام روایات میں سے قضاعیؒ کی زید بن اسلم والی مرفوع حدیث کے متعلق علامہ سخاویؒ اور علامہ عجلونیؒ فرماتے ہیں کہ ’’یہ روایت مرسل ہے‘‘ (مقاصد الحسنہ للسخاویؒ ص ۹۲ و کشف الخفا للعجلونیؒ ج ۱ ص ۴۳۵) لیکن اس میں صرف راوی ’’زید بن اسلم‘‘ ہیں جو کثرت سے ارسال کرتے ہیں (کذا فی التہذیب التہذیب لابن حجرؒ ج ۱ ص ۲۷۲) کی موجودگی ہی اکیلی علت نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ دو اور مجروح راوی بھی اس کی سند میں موجود ہیں یعنی لیث بن ابی سلیم الکوفی اور ہشام بن سعد۔
’’لیث بن ابی سلیم الکوفی‘‘ جن سے صحاح اور سنن وغیرہ میں مرویات موجود ہیں کی نسبت امام نسائیؒ فرماتے ہیں کہ ’’ضعیف ہے‘‘۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ کا قول ہے کہ ’’صدوق تھے مگر آخر عمر میں اختلاط کرنے لگے تھے اور اپنی احادیث میں تمیز کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے تھے‘‘۔ امام احمدؒ فرماتے ہیں ’’مضطرب الحدیث تھے لیکن لوگ ان سے روایت کرتے ہیں‘‘۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں ’’یحیٰیؒ اور نسائیؒ نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن ابن معینؒ کا ایک اور قول ہے کہ ’’اس میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ ابن صبانؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’آخر عمر میں اختلاط کرتے تھے‘‘۔ امام عقیلیؒ کہ ’’ابن عیینہ لیث بن ابی سلیم کی تضعیف کیا کرتے تھے ۔۔۔ یحیٰی بن سعید لیث سے کوئی روایت بیان نہیں کرتے تھے‘‘۔
’’لیث بن ابی سلیم‘‘ کے تفصیلی ترجمہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں: ضعفاء والمتروکون للنسائیؒ، تاریخ یحیٰی بن معینؒ، تاریخ الکبیر للبخاریؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ، مجروحین لابن حبانؒ، کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، تہذیب التہذیب لابن حجرؒ، تقریب التہذیب لابن حجر اور مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ۔ (ضعفاء والمتروکون للنسائیؒ ترجمہ نمبر ۵۱۱، تاریخ یحیٰی بن معینؒ ج ۲ ص ۵۰۱۔۵۰۲)
اس طریق کا دوسرا مجروح راوی ’’ہشام بن سعد ابو عباد المدنی‘‘ ہے جس کی نسبت امام نسائیؒ فرماتے ہیں ’’ضعیف تھے‘‘۔ امام نسائیؒ کا ایک اور قول ہے کہ ’’قوی نہ تھے‘‘۔ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ’’صدوق ہے لیکن اس کو وہم رہتا ہے‘‘۔ اس پر تشیع کا الزام بھی ہے۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں ’’امام احمدؒ کا قول ہے کہ حافظِ حدیث نہ تھے، یحیٰی القطانؒ ان سے کوئی روایت بیان نہیں کرتے تھے‘‘۔ امام احمدؒ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ ’’محکم الحدیث نہ تھے‘‘۔ ابن معینؒ فرماتے ہیں کہ ’’نہ قوی تھے اور نہ ہی متروک‘‘۔ ابن عدیؒ کا قول ہے کہ ’’ضعف کے باوجود ان کی حدیث لکھی جاتی ہے‘‘۔
ہشام بن سعدؒ کے تفصیلی ترجمہ کے ضعفاء والمتروکون للنسائیؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، تاریخ الکبیر للبخاریؒ، جرح والتعدیل لابن حاتمؒ، مجروحین لابن حبانؒ، کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، تقریب التہذیب لابن حجرؒ اور مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
عسکریؒ کے ثانی الذکر طریق میں ایک مجروح راوی ’’عنبہ بن عبد الرحمٰن‘‘ ہے جسے امام نسائیؒ اور امام ابن حجر عسقلانیؒ نے ’’متروک الحدیث‘‘ بتایا ہے۔ ابو حاتم الرازیؒ نے اس کو ’’وضع حدیث‘‘ کے لیے متہم کیا ہے۔ امام بخاریؒ نے اسے ’’ترک‘‘ کیا ہے۔ علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں ’’امام ترمذیؒ امام بخاریؒ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ذاہب الحدیث تھا‘‘۔ امام عقیلیؒ فرماتے ہیں ’’یحیٰیؒ کا قول ہے کہ وہ ضعیف تھا‘‘۔
’’عنبہ بن عبد الرحمٰن‘‘ کے تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ یحیٰی بن معینؒ، تاریخ الکبیر بخاریؒ، تاریخ الصغیر بخاریؒ، ضعفاء الصغیر للبخاریؒ، ضعفاء والمتروکون للنسائیؒ، ضعفاء المتروکون للدارقطنیؒ، معرفۃ والتاریخ للبسویؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، مجروحین لابن حبانؒ، جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ، کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان، تہذیب التہذیب لابن حجرؒ اور تقریب التہذیب لابن حجرؒ وغیرہ مطالعہ فرمائیں۔
اب دیلمیؒ کی احادیث پر ناقدانہ بحث پیش کی جاتی ہے۔
دیلمیؒ کی اول الذکر (یعنی حضرت علیؓ کی مرفوع) حدیث کی سند میں عبد الوہاب حضرت مجاہد بن جبر یعنی اپنے والد سے روایت کرتا ہے حالانکہ اس کا حضرت مجاہد سے سماع نہیں ہے۔ امام بخاریؒ اور وکیعؒ وغیرہ نے اس امر کی تصریح کی ہے۔ امام نسائیؒ اس کی نسبت فرماتے ہیں ’’متروک الحدیث ہے‘‘۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں ’’یحیٰیؒ کا قول ہے کہ اس کی حدیث نہیں لکھی جاتی‘‘۔ عثمان بن سعیدؒ یحیٰی کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’وہ کچھ بھی نہیں ہے‘‘۔ امام احمدؒ بھی فرماتے ہیں کہ ’’وہ کچھ بھی نہیں، ضعیف الحدیث ہے‘‘۔ ابن عدیؒ فرماتے ہیں کہ ’’جو کچھ وہ روایت کرتا ہے عموماً اس کی متابعت نہیں ہوا کرتی‘‘۔
’’عبد الوہاب بن مجاہد بن جبیر‘‘ کے تفصیلی ترجمہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں: ضعفاء الکبیر للبخاریؒ ضعفاء المتروکون للنسائیؒ، تاریخ یحیٰی بن معینؒ، سؤالات محمد بن عثمانؒ، تاریخ الکبیر للبخاریؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ، مجروحین لابن حبانؒ، کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ، ضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، تہذیب التہذیب لابن حجرؒ اور مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ۔
حضرت علیؓ کی اس مرفوع حدیث کی تخریج ابن عساکرؒ نے بھی کی ہے جس کے متعلق علامہ سید ابو الوزیر احمد حسن دہلیؒ (م ۱۳۳۸ھ) فرماتے ہیں ’’اس باب میں ابن عساکرؒ نے بھی حضرت علیؓ سے باسناد حسن روایت کی ہے‘‘۔ اور علامہ شیخ عبد الرحمٰن مبارکپوریؒ فرماتے ہیں ’’اور ابن عساکرؒ نے بھی حضرت علیؓ سے اس کی تخریج کی ہے جیسا کہ جامع الصغیر میں مذکور ہے۔‘‘ علامہ منادیؒ فرماتے ہیں کہ ’’یہ حدیث باسناد حسن مروی ہے‘‘ (تحفۃ الاحوذی ج ۳ ص ۳۸۳)۔ حالانکہ یہ حدیث سندًا ’’ضعیف‘‘ ہے جیسا کہ اوپر واضح کیا جا چکا ہے۔ غالباً صاحبان ’’تنقیح الرواۃ‘‘ و ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ رحمہم اللہ کو علامہ منادیؒ کے قول سے وہم ہوا ہے۔ حضرت علیؓ کے طریق سے وارد ہونے والی اس حدیث کو علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی حفظہ اللہ نے ’’ضعیف الجامع الصغیر و زیادتہ‘‘ میں وارد کیا ہے۔
دیلمیؒ اور عفیف الدین ابوالمعالیؒ کی روایت کردہ حدیث ’’ضعیف‘‘ نہیں بلکہ اصلاً ’’موضوع‘‘ ہے۔ اس روایت کو امام سیوطیؒ نے اپنی ’’جامع‘‘ اور ’’ذیل الاحادیث الموضوعہ‘‘ (للسیوطیؒ ص ۴۲) میں، امام النجارؒ نے اپنی ’’تاریخ‘‘ میں اور علامہ شیخ محمد ناصر الدین البانی نے ’’سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ (ج ۲ ص ۲۲۴۔۲۲۵) میں وارد کیا ہے۔ اس کی سند میں ابراہیم بن ہانی ’’مجہول‘‘ راوی ہے اور اگلے تین روای انتہائی مجروح بلکہ ’’متروک‘‘ ہیں۔
(۱) زیاد بن ابی حسان البصری جس کی نسبت امام حاکمؒ اور نقاش کا قول ہے کہ ’’وہ حضرت انسؓ وغیرہ سے موضوع احادیث بیان کرتا ہے‘‘۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں ’’شعبہؒ نے اس پر شدید جرح کی اور اس کی تکذیب کی ہے۔ دارقطنیؒ نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ ابو حاتم الرازیؒ وغیرہ نے کہا کہ ’’اس کے ساتھ کوئی حجت نہیں ہے‘‘۔
ابن ابی حسان کے تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ الکبیر للبخاریؒ، تاریخ الصغیر للبخاریؒ، ضعفاء الصغیر للبخاریؒ، ضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ، جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ، مجروحین لابن حبانؒ، کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، لسان المیزان لابن حجرؒ اور مجموع فی الضعفاء والمتروکین وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں۔
(۲) اس سند کا دوسرا راوی ’’بکر ابن خنیس القاضی‘‘ ہے جس کو امام نسائیؒ نے ’’ضعیف‘‘ گردانا ہے۔ دارقطنیؒ نے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔ ابن حبانؒ فرماتے ہیں ’’بصریین اور کوفیین سے اشیائے موضوعہ روایت کرتا ہے‘‘۔ امام ذہبیؒ فرماتے ہیں ’’ابن معینؒ کا ایک قول ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے، دوسرا قول ہے کہ ضعیف ہے اور تیسرا قول ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔ ابوحاتمؒ کا قول ہے کہ ’’صلح ہے لیکن قوی نہیں ہے‘‘۔
ابن خنیس القاضی کے تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ یحیٰی بن معینؒ، تاریخ الکبیر للبخاریؒ، معرفۃ والتاریخ للبسویؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، جرح والتعدیل لابن عدیؒ، ضعفاء المتروکون للدارقطنیؒ، ضعفاء والمتروکون للنسائیؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، المغنی فی الضعفاء للذہبیؒ، اور مجموعہ فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ کی طرف رجوع فرمائیں۔
(۳) اس سند کا تیسرا مجروح راوی ’’عمرو بن حکام‘‘ ہے لیکن مذکورہ بالا دونوں راوی ہی اصلاً اس روایت کی آفت ہیں۔ عمرو بن حکام کو امام نسائیؒ نے ’’متروک الحدیث‘‘ کہا اور امام بخاریؒ نے اس کی تضعیف کی ہے۔ امام احمدؒ نے بھی اس کی حدیث کو ’’ترک‘‘ کیا ہے۔ ابن عدیؒ بیان کرتے ہیں کہ ’’عموماً وہ جو کچھ روایت کرتا ہے اس میں متابعت نہیں ہوتی لیکن باوجود ضعف کے اس کی حدیث لکھی جاتی ہے‘‘۔ امام ذہبیؒ نے ’’میزان‘‘ میں اس سے مروی چند منکر روایات بطور نمونہ نقل فرمائی ہیں۔
عمرو بن حکام کے تفصیلی ترجمہ کے لیے تاریخ الکبیر للبخاریؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ، مجروحین لابن حبانؒ، کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ، ضعفاء والمتروکون للنسائیؒ، ضعفاء الصغیر للبخاریؒ، میزان الاعتدال للذہبیؒ، اور مجموع فی الضعفاء والمتروکین للسیروان وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ منادیؒ اس حدیث پر تعف فرماتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اس کی سند میں ابراہیم بن ہانیؒ ہے جسے امام ذہبیؒ نے ’’الضعفاء‘‘ میں وارد کیا ہے اور کہا ہے کہ مجہول ہے اور بواطیل لاتا ہے۔ یہ ایک دوسرے راوی عمرو بن حکام سے روایت کرتا ہے جسے امام احمدؒ اور نسائیؒ نے ترک کیا ہے اور عمرو بن حکام بکر بن خنیس سے روایت کرتا ہے جسے دارقطنیؒ نے متروک بتایا ہے، اور وہ زیاد بن ابی حسان سے روایت کرتا ہے اور اسے بھی ترک کیا گیا ہے۔
تعجب تو علامہ جلال الدین السیوطیؒ پر ہوتا ہے کہ جنہوں نے دیلمیؒ کی اس حدیث کو اس کی تحقیق کے بغیر نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے اپنی ’’الجامع‘‘ میں وارد کیا ہے اور پھر طرفۂ تماشہ یہ کہ اسی روایت کو اپنی ’’ذیل الاحادیث الموضوعہ‘‘ میں بھی لکھ ڈالا ہے۔
دیلمیؒ کی آخری دونوں روایتیں چونکہ بلاسند مروی ہیں، لہٰذا ازروئے اصولِ حدیث ان کے معیار کی تحقیق ممکن نہیں ہے۔ البتہ حضرت ابن عمرؓ والی آخری حدیث کے مشابہ ایک قول حضرت علیؓ سے موقوفاً بھی مروی ہے جیسا کہ علامہ سخاویؒ اور علامہ عجلونیؒ وغیرہ نے بصراحت بیان کیا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہرگز ثابت نہیں ہے۔ اس کے جملہ طرق انتہائی ’’ضعیف‘‘ اور قطعاً غیر معتبر ہیں۔ البتہ ایسا ممکن ہے کہ علم و حکمت کے حصول کی طرف رغبت دلانے کے لیے یہ حکیمانہ قول ہمارے اسلاف و حکماء میں سے بعض کا ہو۔ علامہ سخاویؒ اور علامہ عجلونیؒ نے اس سلسلہ میں اسلافؒ کے کچھ اقوال بھی نقل کیے ہیں جو راقم کی اس رائے کے لیے شاہد و مؤید ہیں۔ ان میں سے کچھ اقوال اس طرح ہیں:
عسکریؒ نے سلیمان بن معاذ عن عکرمہ عن ابی عباس کے طریق سے حضرت ابن عباسؓ کا یہ قول روایت کیا ہے:
خذ الحکمۃ ممن سمعت فان الرجل یتکلم بالحکمۃ ولیس بحکیم فتکون کالرمیۃ خرجت من غیر رام۔
بیہقیؒ نے سعید بن الجابردہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:
الحکمۃ ضالۃ المؤمن یأخذ ھا حیث وجدھا۔
اور بیہقیؒ عبد العزیز بن ابی رواد کے حوالہ سے عبد اللہ بن عبید بن عمر کا یہ قول بھی نقل فرماتے ہیں:
العلم ضالۃ المؤمن یغد و فی طلبھا فان اصاب منھا شیئاً حواہ حتٰی یصم الیہ غیرہ۔
خود عسکریؒ کا قول ہے:
اراد صلی اللہ علیہ وسلم ان الحکیم یطلب الحکمۃ ابدا وینشد ھا فھو بمنزلۃ المضل ناقتہ یطلبھا۔
علامہ ملا علی القاری حنفیؒ نے بھی اپنی ’’اسرار المرفوعہ فی الاخبار الموضوعہ المعروف بالموضوعات الکبرٰی‘‘ میں اس حدیث کو وارد کرنے کے بعد اشارہ فرمایا ہے کہ (یہ بعض سلفؒ کا کلام ہے)۔ اگرچہ اسلافؒ کے مندرجہ بالا اقوال میں سے بھی اکثر سندًا معیارِ صحت پر بہت زیادہ پختہ اور قوی ثابت نہیں ہوتے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب کسی غیر مستند قول یا فعل کو منسوب کیا جانا بدرجہا مہلک ہے، بہ نسبت اس بات کے کہ سلف صالحین میں سے کسی کی جانب سے آنے والی کوئی غیر قوی خبر بیان کر دی جائے اور اسے شرعی دلیل کے طور پر نہ اپنایا جائے۔ واللہ اعلم۔