آج کل بابری مسجد رام جنم بھومی کا جو قضیہ چلا ہوا ہے وہ عقائد، اقتدار اور سیاسی مسائل کا مظہر ہے۔ بلاشبہ ہر شخص کو اپنے عقائد اور یقین کے معاملہ میں پوری آزادی حاصل ہے لیکن جب عقائد تاریخ پر غالب آنے لگیں تو مؤرخ کو تاریخ اور عقائد کے درمیان حد قائم کرنی پڑتی ہے۔ فرقہ وارانہ سیاست کے مقصد سے جب فرقہ وارانہ قوتیں تاریخی شہادتوں پر غالب آنے کی کوشش کرتی ہیں تو لامحالہ مؤرخ کو مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ تاریخی شہادت پیش کرنے کا مقصد اس قضیہ کو سلجھانے کے لیے کوئی حل پیش کرنا نہیں ہے کیونکہ اس جھگڑے کا تعلق تاریخی شہادتوں سے نہیں ہے بلکہ یہ ہندوستانی سیاست کی فرقہ وارانہ سمتوں سے متعلق ہے، البتہ اس سلسلے میں تاریخی شواہد پیش کرنا پھر بھی ضروری ہے۔
سوال یہ ہے کہ بھگوان رام کی جائے پیدائش کہاں ہے؟ کیا یہ اجودھیا میں ہے؟ دوسرے کیا آج جو اجودھیا ہے وہی وہ مقام ہے جو رامائن کے زمانے کا تھا۔ بھگوان رام کے قصوں کا ماخذ رام کتھا ہے جو آج میسر نہیں ہے۔ اسے دوبارہ رزمیہ نظم کی صورت میں لکھا گیا ہے۔ اس طرح والمیکی نے رامائن لکھی۔ نظم ہونے کی وجہ سے اس میں بہت سی باتیں روایت اور قصے کی شکل میں داخل ہو گئی ہیں۔ بہت سے کردار اور مقامات بھی اسی طرح در آئے ہیں جیسا کہ کسی قصے کے بیان کرنے میں بہت سی باتیں فرضی ہو جاتی ہیں۔ تاریخ داں ان قصوں کے معتبر ہونے پر اس وقت تک شبہ کرتے رہیں گے جب تک کہ دیگر تاریخی حقائق سے ان کا ثبوت نہ مل جائے۔ والمیکی رامائن کے مطابق اجودھیا کے راجہ رام نے ترتیایگ جنم لیا۔ کالی یگ سے ہزاروں سال پیشتر کا ہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ ۱۰۲ ق م میں شروع ہوا تھا۔ ایسی کوئی تاریخی شہادت نہیں کہ اس زمانہ میں یہ اجودھیا (جیسا کہ یہ اب ہے) یہاں آباد تھا جہاں آٹھویں صدی ق م میں آباد ہوئی۔ والمیکی رامائن میں زندگی کے جو آثار ملتے ہیں وہ اس اجودھیا کے ساتھ آثار سے میل نہیں کھاتے۔
ظاہر ہے کہ والمیکی رامائن میں جس مقام کا ذکر ہے وہ یہ نہیں ہے جو کہ آج کا اجودھیا ہے۔ پھر اجودھیا کی جائے وقوع کے بارے میں بھی اختلاف رائے ہے۔ ابتدائی دور کی بودھ کتابوں میں شرادستی اور ساکیت کا ذکر ہے مگر اجودھیا کا نہیں۔ جین دھرم کی مذہبی کتابوں میں بھی کوسلہ کی راجدھانی ساکیت بتائی گئی ہے۔ اجودھیا کا ذکر نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اجودھیا گنگا کے کنارے آباد تھا نہ کہ دریائے سرجو کے کنارے جہاں آج کل اجودھیا ہے۔ ساکیت کا نام بدل کر گپت بادشاہوں نے اجودھیا رکھا۔ سکندر گپت نے یہ پانچویں صدی عیسوی کے آخر میں رہائش ساکیت میں بدل دی اور اسے اجودھیا کا نام دیا۔ اس وکرمادتیہ کا نام اختیار کیا جسے اس نے سونے کے سکوں پر استعمال کیا۔ اس طرح رزمیہ میں جس اجودھیا کا ذکر ہے وہ بہت بعد میں ساکیت سے اجودھیا بنا۔ اس سے یہ بھی واضح نہیں کہ گپت بادشاہ رام کے بھگت تھے۔ رام کا تعلق سوریہ دنش سے تھا۔ چنانچہ ساکیت کو اجودھیا کا نام دینے کا مقصد یہ تھا کہ سوریہ دنش خاندان سے خود کو متعلق کر کے اپنا وقار بلند کیا جائے۔
ساتویں صدی کے بعد رامائن میں اجودھیا کو کوسل کی راجدھانی بتایا گیا۔ اجودھیا ترتیایگ کے بعد گم ہو گیا تھا اور وکرمادتیہ نے اس کا دوبارہ سے پتہ چلایا۔ گمشدہ اجودھیا کی بازیافت کی کوشش میں وکرمادتیہ نے پیاگ سے ملاقات کی جو کہ تیرتھ کا بادشاہ تھا جو اجودھیا کے بارے میں واقف تھا۔ وکرمادتیہ نے اس جگہ کی نشان دہی کر دی تھی لیکن اس کے بعد میں پتہ نہ چلا۔ اس کے بعد وہ ایک جوگی سے ملا جس نے کہا کہ اسے ایک گائے چھوڑ دینی چاہیئے اور اس کے ساتھ ایک بچھیا ہونی چاہیئے۔ یہ گائے اور بچھیا گھومتے رہیں۔ جب یہ رام جنم بھومی پر پہنچیں گے تو اس کے تھنوں سے دودھ ٹپکے گا۔ بادشاہ نے جوگی کی نصیحت مان لی۔ جب ایک مقام پر بچھیا نے دودھ ٹپکایا تو بادشاہ نے سمجھا کہ یہی قدیم اجودھیا ہے۔ یہ ہے کہانی اجودھیا کی بازیافت کی۔
آج کا اجودھیا ساکیت کے نام سے مشہور رہا ہے۔ یہ مختلف مذہبوں کا گہوارہ رہا ہے۔ یہاں محض رام کے ہی بھگت نہ تھے بلکہ یہ رام کی پوجا سے بہت بعد میں مخصوص کر دیا گیا۔ پانچویں صدی عیسوی سے آٹھویں صدی عیسوی تک اور بعد تک کتبوں پر اجودھیا کا ذکر ملتا ہے لیکن یہ نہیں کہ یہ جگہ رام کی پوجا کے لیے مخصوص ہو (جیسا کہ ایپی گرافیکا انڈیکا ۱۰ میں صفحہ ۷۲ پر واضح کیا گیا ہے، اس کے صفحات ۱۵، ۱۴۳ اور صفحہ ۱۴ پر بھی اس کا حوالہ ملتا ہے)۔ ہیونگ سانگ نے اجودھیا بدھ مت کا زبردست مرکز بتایا ہے اور بودھ ستوپ، مٹھ یہاں بکثرت تھے۔ کچھ غیر بدھ لوگ بھی یہاں آباد تھے۔ بودھ اس مقام کو متبرک مانتے ہیں۔ یہاں مہاتما بودھ نے چند روز قیام کیا تھا۔ اجودھیا جینوں کا بھی متبرک اور مقدس مقام رہا ہے۔ جینیوں کا پہلے اور چوتھے تیرتھنکر یہیں پیدا ہوئے۔
گیارہویں صدی کی کتابوں میں اجودھیا میں گویاترو کا ذکر ملتا ہے لیکن رام جنم بھومی نہیں کہا گیا، یا رام جنم بھومی سے اس کا رشتہ نہیں جوڑا گیا۔ تیرہویں صدی عیسوی سے رام کی پوجا کرنے والے فرقے کومقبولیت ملی۔ رامانندی فرقے کے عروج سے اس کا ارتقا وابستہ ہے۔ ہندی میں رام کی کہانی تشکیل دی گئی۔ پندرہویں اور سولہویں صدی میں رامانندی اجودھیا میں آباد نہ تھے۔ اس زمانے میں شیو کی پوجا رام کے مقابلے میں زیادہ ہوتی تھی۔ اٹھارہویں صدی سے رامانندی سادھو بڑے پیمانے پر آباد ہوئے۔ اس کے بعد ہی اجودھیا میں بہت سے مندر تعمیر کیے گئے۔ اب تک ایسا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکے کہ بابری مسجد اس اراضی پر بنائی گئی جہاں کہ کبھی کسی زمانے میں مندر تھا۔ مسجد کے دروازے پر فارسی کتبے یہ نہیں بتاتے کہ یہ مسجد بابر کی طرف سے بنوائی گئی۔
بابرنامہ کے پہلے انگریز مترجم بیورج یادداشت میں ایک ضمیمہ میں ان اشعار کا ترجمہ شائع کیا گیا ہے۔ بابرنامہ میں، جو کہ ان یادداشتوں کا مجموعہ ہے، لکھا ہے کہ شہنشاہ بابر کے حکم سے جس کا انصار اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے میرباقی نے فرشتوں کے اترنے کی ایک جگہ تعمیر کرائی۔ (بابرنامہ مترجم اے ایف بیوریج)۔ ان کتبوں میں صرف یہ دعوٰی کیا گیا تھا کہ بابر کے ایک امیر میرباقی نے مسجد تعمیر کرائی۔ یہ کہیں نہیں کہ یہ مسجد مندر کی جگہ پر تعمیر کرائی گئی۔ بابرنامہ میں بھی اس کا کوئی حوالہ نہیں کہ یہاں اجودھیا میں اس مسجد کی تعمیر کے لیے کسی مندر کو توڑا گیا۔
آئینِ اکبری میں اجودھیا کا ذکر ہے۔ اسے رام چندر کی رہائش گاہ کہا گیا ہے جو کہ ترتیا میں روحانیت اور مادیت کا تھا لیکن اکبر کے دادا نے کسی بھی مندر کی جگہ مسجد تعمیر کرائی ہو اس کا ذکر نہیں ملتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تلسی داس جو کہ رام کا زبردست بھگت تھا اور جو اکبر کے عہد میں ہوا ہے اور جو اس خطے کا رہنے والا تھا ملیھ کے عروج پر پریشان ہے لیکن رام جنم بھومی کی جگہ مندر توڑے جانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
انیسویں صدی میں اس کی کہانی سرکاری ریکارڈ میں داخل کی گئی اور دوسروں نے اسے تاریخی حوالہ سمجھ کر پیش کرنا شروع کر دیا۔ مندر توڑنے کی کہانی بے بنیاد اور من گھڑت ہے اس کے لیے کوئی تاریخی ثبوت نہیں۔ ملاحظہ ہو ہسٹاریکل اسکیچ آف تحصیل فیض آباد لکھنؤ۔
ایک غلط فہمی یہ ہے کہ مسلمان حکمران ہندوؤں کے مقدس مقامات کے دشمن رہے ہیں لیکن یہ بات تاریخ کی شہادتوں کی روشنی میں بے بنیاد نظر آتی ہے۔ مسلمان نوابوں کی سرپرستی میں اس کی توسیع ہوئی، نوابوں کی سرکار کالیئتھو کے تعاون سے چلتی تھی۔ مسلمان نوابوں کی افواج میں شیودھرم کے ماننے والا ناما تھے، ہندوؤں کے مقدس مقامات کے لیے تحائف اور جاگیریں دینے میں نواب پیش پیش رہے ہیں۔
(بشکریہ دیوبند ٹائمز)