فقہی اختلافات کا پس منظر اور مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل

الاستاذ محمد امین درانی

فقہی اختلاف سے مراد شرعی احکام میں علماء امت کا وہ اختلاف رائے ہے کہ کون سا عمل زیادہ درست، زیادہ افضل اور بہتر ہے اور زیادہ مستند ہے۔ اہل السنۃ والجماعۃ کے چاروں مذاہب کا اختلاف بسا اوقات اس پر ہوتا ہے کہ کون سا کام اور کون سا طریقہ سب سے افضل اور بہتر ہے۔ سب کی ایک ہی کوشش ہے کہ ایک اسلامی عمل کو بہتر طریقے سے ادا کیا جائے۔ وہ ہرگز ایسے نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو اپنا دشمن تصور کریں یا اسے نیچے دکھانے مغلوب کرنے کی کوشش کریں۔ ہمیشہ دشمنانِ اسلام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دین سے بے خبر سادہ لوح حضرات کو آپس میں لڑاتے ہیں اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور دشمنی پیدا کر کے اپنا مطلب حاصل کرتے ہیں۔ اس مصیبت کا اصل سبب دین اور دین کی تاریخ سے بے خبری اور جہل مرکب ہوتا ہے۔

امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کو امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف بھڑکایا گیا، وہ اس وقت کے مشہور علماء کو ساتھ لے کر کوفہ پہنچے اور جب ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے موقف کی وضاحت کی، امام جعفرؒ نے آپ کے ہاتھوں کو چوما اور کہا بے شک آپ وہ ہستی ہیں جس نے میرے جد امجد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور تعلیمات کو نشر کر کے اسے صحیح رنگ میں پیش کیا اور آپ کوئی نیا مذہب متعارف نہیں کراتے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین باحسن طریق لوگوں کو پڑھاتے ہیں۔

فقہی اختلاف کی ابتدا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اگر کوئی مسئلہ پیش آتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین ان سے دریافت کرتے اور حقیقت معلوم ہو جاتی اور اختلاف کی نوبت نہ آتی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اٹل اور فیصلہ کُن ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر ہمیں اختلاف کی صورت نظر آتی ہے تو وہ ہر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے فہم کے مطابق ہے جو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ارشاد کا مطلب لیا ہے۔

مثلاً غزوہ بنی قریظہ کے لیے روانگی کے وقت فرمایا ’’کوئی شخص عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنو قریظہ کے پاس پہنچنے کے بعد‘‘۔ جب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین چل پڑے تو بعض نے اس حکم پر یوں عمل کیا کہ عصر کے وقت کے داخل ہونے کے بعد راستہ میں نماز نہیں پڑھی اور بنو قریظہ کے علاقہ میں پہنچنے کے بعد نماز ادا کی۔ اور بعض نے اس حکم کا یوں مطلب لیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ ہے کہ ہم راستہ میں دیر نہ کریں اور انہوں نے راستہ میں عصر کی نماز پڑھی اور نماز کے فورًا بعد بنو قریظہ پہنچے۔ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو نہیں ڈانٹا۔

فقہی اختلاف کے اسباب

(۱) دعوتِ اسلام اور تبلیغ کے لیے اصحابِ رسولؐ کا مدینہ منورہ سے باہر جانا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حالات کے مطابق احکام کا نزول ہوتا رہا۔ بعض اوقات یہ نوبت بھی آئی کہ ایک عمل کا حکم مثلاً نماز میں سینہ پر ہاتھ رکھنا نازل ہوا۔ ایک صحابیٔ رسول نے دیکھا کہ ہاتھ رکھنے کا یہ طریقہ ہے۔ جب وہ تبلیغ کے لیے باہر گئے اور انہیں مدینہ سے باہر رہنا پڑا اور واپس آنا نصیب نہیں ہوا، وہ لوگوں کو وہی طریقہ یعنی سینہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم دیتے رہے۔

پہلا حکم تبدیل ہوا کہ نماز میں ہاتھ کھلا رکھنا ہے، باندھنا نہیں۔ جن اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے ایسے طریقے پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب وہ تبلیغ کے لیے مدینہ منورہ سے باہر چلے گئے تو وہ لوگوں کو یہی درس دیتے تھے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا نہیں بلکہ کھلا چھوڑنا ہے۔ ان حضرات کو مدینہ منورہ واپس آنا نصیب نہیں ہوا اس لیے انہیں آخری حکم کا پتہ نہیں چل سکا، اور نہ وہ حضرات اس طریقے کو چھوڑنے کے لیے تیار تھے جس طریقے پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تھی۔

اسی عمل کے بارے میں آخری حکم نازل ہوا کہ نماز میں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اصحابؓ جو نبوت کے آخری سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے انہوں نے نماز کا یہی طریقہ اپنایا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو عمر بھر اسلام قبول کرنے کے بعد مکہ اور مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے اور اس کے علاوہ اور کوئی کام کاج نہیں کیا، جب تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں رہے انہوں نے یہی طریقہ ہاتھ باندھنے کا کوفہ اور مدینہ میں لوگوں کو سکھایا۔

مجتہدین علماءِ امت میں سے ہر ایک نے اپنی تحقیق کے مطابق نماز میں ہاتھ رکھنے یا کھلا چھوڑ دینے کو اپنایا۔ امام ابوحنیفہؒ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری سالوں کے عمل کو ترجیح دیتے ہیں، انہوں نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے عمل کو افضل قرار دیا۔ جبکہ امام شافعیؒ اور ان کے شاگرد امام احمد بن حنبلؒ نے سینہ پر ہاتھ باندھنے کے عمل کو بہتر قرار دیا۔ اور امام مالکؒ نے ہاتھ کھلا رکھنے کو افضل اور بہتر فرمایا۔ ان ائمہ حضرات نے جس طریقے کو بہتر فرمایا، دوسرے طریقے کو ناجائز قرار نہیں دیا نہ اس کی ممانعت کی۔ کیونکہ یہ سارے طریقے ان کے پاس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابِ کرامؓ اور ان کے شاگردانِ عظام سے پہنچے۔ تو ایسا سمجھ لیجئے کہ ان ائمہ حضرات کے آراء ایک ہی درخت کے پھل ہیں اور وہ قرآن و سنت  کا درخت ہے نہ کہ مختلف درختوں کے پھل ہیں جیسا کہ بے خبر لوگ وہم کرتے ہیں۔

(۲) قرآن و سنت کے کلمات (الفاظ) میں ایک سے زیادہ معانی کا احتمال

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آسان عربی زبان میں نازل فرمایا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات، جس کو سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے، وہ عربی زبان میں ہیں۔ عربی زبان کی خصوصیات میں سے ایک یہ خصوصیت بھی ہے کہ ایک لفظ کے کئی معانی بھی ہوتے ہیں۔ اب ایسی صورت میں جب ایک معنی کی تعیین نہ ہو اور آسانی کی خاطر حکمتِ خداوندی نے ایسے لفظ کو استعمال کیا ہو تو ظاہر ہے کہ کوئی اس لفظ کا ایک معنی لیں گے جبکہ دوسرے لوگ اس کے دوسرے معنی لیں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد تعیین کے لیے کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا سکتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے احکام کی توضیح وحی کے ذریعے ممکن تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہو جانے کے بعد یہ کام ناممکن ہو گیا کیونکہ وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔

(۳) فطری صلاحیت و استعداد کا تفاوت

حکمتِ خداوندی نے یہ چاہا کہ انسانوں کی فطری صلاحیت، عقل و فہم میں تفاوت ہو اور علم و عقل کے ذریعے ایک انسان کی دوسرے پر فضیلت ظاہر ہو۔ یہ واضح امر ہے کہ فطری استعداد، عقل و فہم اور علمی تفاوت کا نتیجہ اختلاف رائے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے ایسے نصوص نازل کیے جن کے الفاظ ایک سے زیادہ معانی کا احتمال رکھتے ہیں، دوسری طرف انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف فطری استعداد و صلاحیت سے نوازا۔ یہ دونوں فقہی اختلاف کے بنیادی اسباب ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ یہ چاہتا کہ تمام امت اس اختلاف سے دور رہے اور سب کی رائے خدائی احکام میں ایک ہو تو پھر اللہ تعالیٰ قرآن و سنت کے کلمات ایسے منتخب کرتے کہ جن الفاظ کے صرف ایک معنی ہو اور تمام  انسانوں کو ایک ہی قسم کی فطری صلاحیت اور ایک ہی معیار کے عقل سے نوازتے تاکہ تمام لوگ ایک مسئلے میں ایک ہی رائے والے ہوں۔ مثال سے یہ بات واضح ہو جائے گی۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’وَالْمُطَلَّقَاتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْءٍ‘‘ جن عورتوں کو طلاق ہو جائے وہ تین قروء انتظار کریں گی۔ تین قروء عدت ہے۔ قروء، قرء کی جمع ہے۔ اہلِ عرب کے نزدیک قرء کا معنی حیض بھی ہے اور طہر (پاکی) بھی ہے۔ اور بعض اہلِ زبان قرء کا معنی ’’حیض مع طہر‘‘ لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد اس کی تعیین نہیں ہو سکی کہ قرء سے مراد حیض ہے یا طہر۔ چنانچہ حضرت عمر، حضرت علی، عبد اللہ بن مسعود، ابو موسٰی اشعری، مجادہ، قتادہ، الضحاک، عکرمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور دوسرے تابعین حضرات نے قرء کا مطلب حیض لیا۔ یعنی طلاق کے بعد جب عورت کو تین بار حیض سے واسطہ پڑے تو تیسرے حیض کے بعد وہ آزاد ہو گی، کسی اور سے شادی کر سکتی ہے۔ ان جلیل القدر اصحاب کرامؓ اور بزرگ تابعین کی رائے کو امام ابوحنیفہؒ نے پسند کیا جب کہ دوسرے صحابہؓ حضرت عائشہ، عبد اللہ بن عمر، زید بن ثابت، ابن شہاب الزہری، امام شافعی رضوان اللہ علیہم نے قرء سے مراد طہر لیا۔ جب عورت کو طلاق کے بعد تین بار حیض اور تین بار پاکی (طہر) سے واسطہ پڑے تو چوتھی بار حیض کے دوران یا اس کے بعد وہ آزاد ہو گی اور کسی اور سے شادی کر سکتی ہے۔

اگر اللہ تعالیٰ یہ چاہتے کہ امت اس بارے میں مختلف نہ ہو تو وہ ایسا حکم نازل کر سکتے تھے ’’والمطلقات یتربصن بانفسھن ثلٰثۃ شھور‘‘ جن عورتوں کو  طلاق ہو جائے وہ تین ماہ انتظار کریں گی۔ ظاہر ہے کہ لفظ ’’شھر‘‘ کا معنی عربی زبان میں ایک ہے اور وہ ’’مہینہ‘‘ ہے۔ قرآن مجید میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے واضح حکم ایسا بیان فرمایا ’’لِلَّذِیْنَ یُؤْلُوْنَ مِن نِّسَآءِھِمْ تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃَ اَشْھُر‘‘ جو لوگ عورتوں سے قسم کریں گے (کہ وہ ان کے قریب نہ ہوں گے) وہ چار ماہ انتظار کریں گے، چار ماہ کے بعد ایک طلاق واقع ہو گی۔ ظاہر ہے کہ یہاں پر شہر کا لفظ ہے جس کے معنی ماہ یا مہینہ ہے۔ یہاں قرء جیسے مشترک المعنے لفظ کو استعمال نہیں کیا گیا۔

اس بات سے یہ بات واضح ہوئی کہ فقہی اختلاف حکمتِ خداوندی کے تحت ظہور میں آیا تاکہ انسان کے اوپر تنگی نہ ہو بلکہ فراخی ہو اور جیسے موقع اور حالات کے لحاظ سے سہولت  ہو، اسی طریقے کو اپنا لیا جائے، انسان کی علمی اور عملی فطرت اس کے متقاضی ہیں۔

پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ نے فرمایا، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ کے درمیان اختلاف نہ ہوتا کیونکہ اگر سب اصحابؓ کا ایک قول ہوتا تو لوگ تنگی میں ہوتے کیونکہ یہ اصحابؓ ہمارے رہنما ہیں اور ہمیں ان کی اقتداء کرنی ہے۔ اب جس شخص نے کسی صحابیؓ کے قول پر عمل کیا تو وہ حق پر ہے اور فراخی میں ہے۔ ابوبکر صدیقؓ کے جلیل القدر پوتے القاسمؒ بن محمدؓ سے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا، آپ نے فرمایا، اگر آپ نے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھ لیا تو آپ نے اصحابؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کی اور اگر آپ نے امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھا تو آپ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ کی پیروی کی۔

چنانچہ مشہور حدیث شریف ہے ’’میرے ساتھی ستاروں کی مانند ہیں جس کی آپ نے پیروی کی آپ نے ہدایت پائی۔‘‘

اختلافی مسائل میں علماء کا موقف

اس بارے میں جمہور علماء متقدمین اور متاخرین کا یہ موقف رہا ہے کہ پہلے وہ ان کے بارے میں علم حاصل کرتے تھے، ان کے بارے میں تحقیق کرتے تھے کہ کون سی بات پہلی ہے اور کونسا حکم بعد میں ہے۔ امام مالکؒ سے جب اس اختلاف کے  بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے جواب دیا ایک بات درست ہو گی اور دوسری خطا، آپ کو تحقیق کرنی چاہیئے۔ امام لیثؒ بن سعد فرماتے تھے، اختلاف میں ہم احتیاط سے کام لیتے ہیں۔

امام ابوحنیفہؒ نے اس کا حل یوں کیا کہ اپنے چار ہزار سے اوپر شاگردوں سے اونچے درجے کے چالیس عالم منتخب کیے اور عالموں کی اس مجلسِ مشاورت و تحقیق کے لیے امام ابویوسفؒ کو سیکرٹری منتخب کیا۔ امام ابوحنیفہؒ نے اس مجلسِ تحقیق سے یوں فرمایا، ’’لوگوں نے مجھے دوزخ کے اوپر پل بنا دیا ہے، آپ میری مدد کریں، جو روایت زیادہ صحیح، قوی اور آخری ہو وہ معلوم کر کے مجلس میں پیش کیا کریں، منظوری کے بعد اسے لکھا جائے گا‘‘۔ امام ابوحنیفہؒ کوئی مسئلہ پیش کرتے اور ان چالیس علماء سے قرآن و حدیث سے دلیل مانگتے۔ وہ علماء دلائل پیش کرتے، کبھی کبھی ایک مہینہ تک ایک ہی حکم پر تحقیق ہوتی رہتی اور جب فیصلہ ہو جاتا تھا تو امام ابویوسفؒ کو لکھنے کے لیے حکم دیتے تھے۔ اس طریقِ کار سے امام ابوحنیفہؒ نے یہ کوشش کی کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال میں سے آخری عمل کون سا ہے جس کو اپنایا جائے اور منسوخ حکم معلوم ہو کہ اس کو ترک کر دیا جائے۔

اختلافی مسائل میں مسلمانوں کا آپس میں برتاؤ

صحابہ کرامؓ اور تابعین میں کچھ ایسے تھے جو نماز میں فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھتے تھے اور بعض نہیں پڑھتے تھے۔ کچھ جہر (زور) سے بسم اللہ پڑھتے تھے اور بعض آہستہ چپکے سے پڑھتے تھے۔ اور بعض فجر میں قنوت پڑھتے تھے اور کچھ نہیں پڑھتے تھے۔ اس کے باوجود سب ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ اور دوسرے مجتہدین مدینہ منورہ کے علماء کے پیچھے نماز پڑھتے تھے جبکہ وہ نماز میں فاتحہ سے پہلے کبھی بھی بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے نہ جہر سے نہ آہستہ۔

خلیفہ ہارون رشید نے نماز پڑھائی اور اس نے فصد کے ذریعے جسم سے خون نکالا تھا۔ خلیفہ کو امام مالکؒ نے فتوٰی دیا کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، جبکہ مذہب حنفی میں اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ امام ابویوسفؒ مذہب حنفی کے مجتہد ہیں لیکن انہوں نے نماز نہیں لوٹائی۔

امام شافعیؒ کے نزدیک فجر میں قنوت پڑھنا ہے۔ ایک دن انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کی قبر کے نزدیک (مسجد امام اعظم کے جنوبی جانب میں امام اعظمؒ کی قبر ہے) فجر کی نماز پڑھی اور قنوت کی دعا نہیں پڑھی امام ابوحنیفہؒ کے ادب کی وجہ سے اور کہا کہ بسا اوقات ہم عراقی مذہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔

خلیفہ ہارون رشیدؒ نے امام مالک سے کہا میں آپ کی کتابِ حدیث ’’المؤطا‘‘ کو کعبہ میں لٹکاؤں گا اور لوگوں سے کہوں گا کہ صرف ان روایات پر عمل کریں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ایسا نہ کرنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ نے فروعی مسائل  میں اختلاف کیا اور مختلف ملکوں میں چلے گئے اور ہر ایک حکمِ رسولؐ نافذ ہے (کسی کو پابند نہیں کرنا چاہیئے)۔ خلیفہ ہارون الرشیدؒ کو یہ بات پسند آئی۔ اس سے پہلے خلیفہ منصور کے ساتھ بھی امام مالکؒ کا یہی قول تھا۔

اس تمام بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ فقہی اختلافی مسائل میں جو روایت زیادہ مستند اور قوی ہو اس کو ترجیح دی جائے۔ ائمہ اربعہ بالخصوص امام ابوحنیفہؒ کی تحقیق سے استفادہ کیا جائے اور ظاہر الروایۃ کے مسائل کو ترجیح دی جائے۔ ان کے خلاف مسائل کو بری نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔ وسیع القلبی سے کام لے کر تمام مذاہب اہل سنۃ کے پیروکاروں کو اپنا مسلمان بھائی سمجھ لیا  جائے اور ان کے ساتھ بحث و مناظرہ سے اجتناب کیا جائے۔ سب ہی ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھیں، ان کے ساتھ احترام سے پیش آئیں، اپنے ملک کے اندر بھی مسجد حرام اور مسجد نبویؐ جیسا منظر پیش کرنے کی کوشش کریں جہاں تمام مذاہب کے لوگ حنبلی اماموں کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے درمیان جو دشمنانِ اسلام نے نفرت و تعصب کو ابھارا ہے اس کو خیرباد کہہ کر اسلامی اخوت کا منظر پیش کریں۔

فقہ / اصول فقہ

(اپریل ۱۹۹۰ء)

اپریل ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۴

اسلامی نظریاتی کونسل کی رجعتِ قہقرٰی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

فضیلۃ الشیخ مولانا محمد مکی حجازی کی تشریف آوری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ارشاداتِ نبویؐ کی حفاظت کے لیے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی خدمات
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

رشاد خلیفہ - ایک جھوٹا مدعئ رسالت
پروفیسر غلام رسول عدیم

تحریکِ پاکستان اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آیت ’’توفی‘‘ کی تفسیر
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

’’کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘
غازی عزیر

فقہی اختلافات کا پس منظر اور مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
الاستاذ محمد امین درانی

علمِ نباتات کے اسلامی ماہرین (۱)
قاضی محمد رویس خان ایوبی

’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘
مولانا سراج نعمانی

مسیحی ماہنامہ ’’کلامِ حق‘‘ کی بے بسی
حافظ محمد عمار خان ناصر

بابری مسجد اور اجودھیا - تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش
دیوبند ٹائمز

کرنسی نوٹ، سودی قرضے اور اعضاء کی پیوندکاری
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تختۂ کابل الٹنا چند دن کی بات ہے
سرور میواتی

روزے کا فلسفہ
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سرمایہ داری کا بت
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter