ارشاداتِ نبویؐ کی حفاظت کے لیے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی خدمات

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کا یہ معمول تھا کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے وہ جو کچھ سنتے تھے وہ سب لکھ لیتے تھے۔ بعض حضرات صحابہ کرامؓ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں، کبھی غصہ کی حالت میں گفتگو فرماتے ہیں اور کبھی خوشی کی حالت میں اور تم سب لکھ لیتے ہو؟ حضرت عبد اللہؓ بن عمروؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مراجعت کی۔ آپؐ نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بخدا اس سے جو کچھ نکلتا ہے اور جس حالت میں نکلتا ہے وہ حق ہی ہوتا ہے سو تم لکھ لیا کرو۔ (ابوداؤد ج ۲ ص ۱۵۸، دارمی ص ۶۷، مسند احمد ج ۲ ص ۴۰۳ و مستدرک ج ۱ ص ۱۰۶)

حضرت عبد اللہؓ بن عمروؓ نے اپنے اس مجموعہ کا نام صادقہ رکھا تھا (طبقات ابن سعدؒ ج ۲ ص ۱۲۵، قسم اول) اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اپنی زندگی کی آرزو دو چیزوں نے پیدا کر دی ہے جن میں سے ایک صادقہ ہے اور یہ وہ صحیفہ ہے جو میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے سن کر لکھا ہے (مسند دارمی ص ۶۹)۔ اور دوسری چیز دہط نامی زمین تھی جس کو حضرت عمروؓ بن العاص نے وقف کیا تھا اور حضرت عبد اللہؓ اس کے متولی تھے (جامع البیان العلم ج ۱ ص ۷۲)۔ حضرت عبد اللہؓ کا یہی صحیفہ ان کے پوتے عمروؒ بن شعیبؒ کے ہاتھ لگ گیا تھا (ترمذی ج ۱ ص ۴۳ و ج ۱ ص ۸۲) اور یہ اسی صحیفہ سے روایت کرنے کی وجہ سے ضعیف سمجھے جاتے تھے (تہذیب ج ۸ ص ۴۹) کیونکہ حضرات محدثین کرامؒ کے بیان کردہ ضابطہ کے مطابق اگر کسی کو کتاب مل جائے اور صاحبِ کتاب نے اس سے روایت بیان کرنے کی اجازت نہ دی ہو تو اس کتاب سے روایت بیان کرنا حجت نہیں ہے (دیکھئے شرح نخبۃ الفکر ص ۱۰۰ وغیرہ)

حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبد اللہؓ بن عمروؓ کے پاس ایک کتاب دیکھی، ان سے دریافت کیا گیا کہ یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ صادقہ ہے جس میں مندرج روایات کو میں نے براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ میرے اور آپ کے درمیان اور کوئی واسطہ نہیں ہے (طبقات ابن سعدؒ ج ۲ ص ۱۲۵ قسم اول)۔ حضرت عبد اللہؓ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میں علم کو قیدِ تحریر میں لاؤں؟ آپؐ نے فرمایا، ہاں (مجمع الزوائد ج ۱ ص ۱۵۲ وفیہ عبد اللہؒ بن موملؒ و ثقہ ابن معینؒ و ابن حبانؒ و قال ابن سعدؒ و قال الامام احمدؒ احادیثہ مناکیر و جامع بیان العلم ج ۲ ص ۲۷)

حضرت عائشہؓ (المتوفاۃ ۵۷ھ) فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کے قبضے سے دو تحریریں دستیاب ہوئیں جن میں درج تھا کہ سب سے بڑا نافرمان وہ شخص ہے جس نے اپنے پیٹنے والے کے علاوہ کسی اور کو پیٹا اور قاتل کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کیا، اور وہ شخص جس نے اپنی پرورش کرنے والوں کے علاوہ دوسروں سے اپنا الحاق کر لیا اور ایسا شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا منکر ہے اور اس کی کوئی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہ ہو گی (مستدرک ج ۴ ص ۳۴۹ قال الحاکمؒ و الذہبیؒ صحیح)

حضرت نہثلؓ بن مالک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دین کی کچھ باتیں دریافت کیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓ بن عفان کو حکم دیا ’’فکتب لہ کتابا فیہ شرائع الاسلام‘‘ (البدایۃ والنہایۃ ج ۵ ص ۳۵۱ اور تجرید ج ۲ ص ۱۲۲ للذہبیؒ میں بھی اس کتاب کا ذکر ہے) تو انہوں نے ان کو ایک کتاب لکھ کر دی جس میں اسلام کے احکام تھے۔ شرائع الاسلام کا جملہ بڑا واضح اور وسیع ہے۔

مردم شماری

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو چھ اور سات سو کے درمیان نام قلمبند ہوئے (صحیح ابو عوانہ ج ۱ ص ۱۰۲) اور اس کے بعد ایک موقع پر مردم شماری کرائی گئی تو تعداد پندرہ سو تحریر ہوئی (بخاری ج ۱ ص ۴۲۰) اور اس میں آپؐ کے یہ الفاظ ہیں ’’اکتبوا لی من یلفظ بالاسلام من الناس فکتبنا لہ‘‘ (الحدیث) یعنی مجھے مسلمانوں کی گنتی لکھ کر دو چنانچہ ہم نے لکھ کر دی۔

زکوٰۃ کے متعلق تحریرات

زکوٰۃ کے احکام اور مختلف چیزوں میں زکوٰۃ کا لازم ہونا اور زکوٰۃ کی مختلف شرح کتابی شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی جو حضرت عمرؓ کے خاندان کے پاس تھی (ہذہ نسخۃ کتاب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم التی کتب فی الصدقہ وھو عند آل عمرؓ بن الخطاب الخ (دارقطنی ج ۱ ص ۲۰۹) اور یہ کتاب حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے جب کہ وہ مدینہ طیبہ کے گورنر تھے حضرت عبد اللہؒ بن عبد اللہؓ بن عمرؓ اور حضرت سالمؒ بن عبد اللہؓ سے نقل کی تھی اور اپنے ماتحت افسروں کو حکم دیا تھا کہ اسی کتاب کے مطابق عمل کرو اور اسی کے مطابق خلیفہ ولید بن عبد المالک اور دیگر خلفاء عمل کرتے اور حکام سے زکوٰۃ کے بارے میں عمل کرواتے تھے (دارقطنی ج ۱ ص ۲۰۹) اور حضرت عمرؓ بن عبد العزیز (المتوفی ۱۰۱ھ) جب خلیفہ منتخب ہوئے تو انہوں نے

ارسل الی المدینۃ یلتمس عھد رسول اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی الصدقات فوجد عند آل عمروؓ بن حزم کتاب النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الیٰ عمرو بن حزم فی الصدقات ووجد عند آل عمرؓ بن الخطاب کتاب عمرؓ الیٰ عمالہ فی الصدقات بمثل کتاب النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم الی عمروؓ بن حزم فامر عمرؓ بن عبد العزیزؓ عمالہ علی الصدقات ان یاخذوا بما فی ذینک الکتابین۔

’’مدینہ طیبہ قاصد بھیجا تاکہ وہ اس تاکیدی فرمان کی تلاش کرے جو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صدقات کے بارے میں فرمایا تھا۔ چنانچہ قاصد نے حضرت عمروؓ بن حزم کے خاندان کے پاس وہ کتاب پائی جو صدقات کے بارے میں آپؐ نے جاری فرمائی تھی اور اسی طرح حضرت عمرؓ کے خاندان کے پاس بھی وہ تحریر پائی جو انہوں نے عمّال کو بھیجی تھی اور وہ کتاب اسی طرح کی تھی جس طرح کی کتاب آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمروؓ بن حزم کو ارسال کی تھی۔ حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے اپنے عمّال کو انہی دو کتابوں کے بارے تاکید کی کہ وہ صدقات کے بارے انہی کتابوں پر عمل کریں۔‘‘

حضرت عمروؓ بن حزم کو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو ایک تحریر ان کو لکھوا کر دی جس میں فرائض صدقات اور دیات وغیرہا کے متعلق بہت سی ہدایات تھیں (نسائی ج ۲ ص ۲۱۸ و کنز العمال ج ۳ ص ۱۸۳) اسی طرح زکوٰۃ کے متعلق بعض دیگر محصلین کے پاس بھی تحریری ہدایتیں موجود تھیں (دارقطنی ج ۱ ص ۲۰۴)

صحیفۃ علیؓ

حضرت علیؓ (المتوفی ۳۰ھ) کے پاس ایک صحیفہ تھا جو ان کی تلوار کی نیام میں پڑا رہتا تھا۔ اس میں متعدد حدیثیں متعلقہ احکام قلم بند تھیں اور انہوں نے لوگوں کو وہ صحیفہ دکھایا بھی تھا (بخاری ج ۲ ص ۱۰۸۴، مسلم ج ۲ ص ۱۶۱، ادب المفرد ص ۵) اور اس صحیفہ میں متعدد احکام درج تھے جو حقوق اللہ و حقوق العباد پر مشتمل ہیں (دیکھئے بخاری و مسلم صفحات مذکورہ)۔ اور حضرت علیؓ نے ایک موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہ صحیفہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا ہے۔ اس میں فرائض صدقات ہیں (مسند احمد ج ۱ ص ۱۱۹)۔ حدیبیہ میں جو صلح نامہ حضرت علیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے لکھا تھا اس کی ایک نقل قریش نے لی اور ایک آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس تھی (طبقات ابن سعدؒ مغازی ص ۷۱)۔ حضرت علیؓ کے فیصلوں کا ایک بڑا حصہ کتابی شکل میں حضرت ابن عباسؓ کے پاس موجود تھا (مسلم ج ۱ ص ۱۰)۔ ایک دن کوفہ میں حضرت علیؓ خطبہ دے رہے تھے، اسی خطبہ میں آپ نے فرمایا کہ ایک درہم میں کون علم خریدنا چاہتا ہے؟ حارث اعور ایک درہم کے کاغذ خرید لائے اور ان کاغذوں کو لیے ہوئے حضرت علیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت علیؓ نے حارث کے لائے ہوئے اوراق میں ’’فکتب لہ علمًا کثیرًا‘‘ (طبقات ابن سعدؒ ج ۶ ص ۱۱۶) انہیں بہت سا علم لکھ دیا۔

حضرت عبد اللہؓ بن الحکیم کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط پہنچا جس میں مردہ جانور کے متعلق حکم درج تھا (معجم صغیر طبرانیؒ ص ۳۱۷)۔ حضرت وائلؓ بن حجر جب بارگاہِ نبویؐ سے رخصت ہو کر اپنے وطن حضرموت جانے لگے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خاص طور پر ایک نامہ لکھوا کر دیا جس  میں نماز، روزہ، ربوا، شراب اور دیگر امور کے متعلق احکام تھے (معجم طبرانیؒ ص ۲۴۲)۔ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے مجمع سے پوچھا کہ کسی کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کی دیت میں سے بیوی کو کیا دلایا؟ تو حضرت ضحاکؓ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم ہمیں لکھوا کر بھیجا تھا (دارقطنی ج ۲ ص ۴۵۷) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو تحریر کروا کر بھیجنے کا ذکر ابوداؤد ج ۲ ص ۵۰، ترمذی ج ۲ ص ۳۲ اور ابن ماجہ ص ۱۹۳ وغیرہ) میں بھی ہے۔یہودِ مدینہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تحریری معاہدہ کیا تھا اس کا ذکر ابوداؤد ج ۲ ص ۶۶ وغیرہ میں مذکور ہے۔

حضرت عمرؓ (المتوفی ۲۳ھ) کا یہ عام ارشاد تھا کہ علم کو قیدِ تحریر میں لاؤ (مستدرک ص ۱۰۶)۔ حضرت عمرؓ نے حضرت عتبہؓ بن فرقد کو جب کہ وہ آذربائیجان کے محاذ پر تھے، یہ خط لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ریشمی لباس پہننے سے منع کیا ہے، ہاں مگر چار انگشت تک کا حاشیہ اور کنارہ ہو تو گنجائش ہے (محصلہ مسلم ج ۲ص ۱۹۱)

حضرت انسؓ (المتوفی ۹۳ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عتبانؓ سے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی جس میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے سچے دل سے کلمۂ شہادت پڑھا تو اس پر آتشِ دوزخ حرام ہے (یعنی صدقِ دل سے پڑھا اور اس کے مطابق عمل بھی کیا)  مجھے یہ حدیث بہت پسند آئی اور میں نے لکھ لی (ابوعوانہ ج ۱ ص ۱۳)۔ حضرت انسؓ اپنے شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے کہ علم کو قیدِ تحریر میں لاؤ (تلخیص المستدرک ج ۱ ص  ۱۰۶ و دارمی ص ۶۸ طبع ہند و ص ۱۲۷ طبع دمشق و مجمع الزوائد ج ۱ ص ۱۵۲ رواہ الطبرانی فی الکبیر و رجالہ رجال الصحیح)

حضرت عبد اللہ بن عمروؓ (المتوفی ۷۴ھ) نے بھی فرمایا کہ علم کو قیدِ تحریر میں لاؤ (دارمی) اور خود انہوں نے ایک شخص کو حدیث لکھوائی اور اس نے لکھ لی (مسند احمد ج ۲ ص ۱۹۹)۔ اور حضرت ابن عمرؓ مجوزین کتابِ علم میں شامل ہیں (بخاری ج ۱ ص ۱۵)۔ حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت عائشہؓ کو خط لکھا کہ مجھے مختصر طور پر چند نصائح لکھ کر بھیجیں۔ حضرت عائشہؓ نے چند نصیحتیں ان کو لکھ کر روانہ کیں (ترمذی ج ۲ ص ۶۴)۔ حضرت جابرؓ کی روایتوں کا ایک مجموعہ حضرت وہب تابعیؒ نے تیار کیا تھا جو اسمٰعیلؒ بن عبد الکریمؒ کے پاس تھا اور وہ اس سے روایت بیان کرتے تھے اور اسی لیے ضعیف سمجھے جاتے تھے (تہذیب التہذیب ج ۱ ص ۳۱۶)۔ حضرات محدثین کرامؒ کا ضابطہ بیان ہو چکا ہے۔ حضرت جابرؓ کی روایتوں کا ایک مجموعہ حضرت سلیمانؒ بن قیس یشکریؒ نے تیار کیا تھا۔ حضرت ابو الزبیرؒ، حضرت ابو سفیانؒ اور حضرت شعبیؒ جو سب تابعی ہیں حضرت جابرؓ کا صحیفہ انہیں سے روایت کرتے ہیں اور براہِ راست بھی انہوں نے حضرت جابرؓ سے سماعت کی ہے (تہذیب التہذیب ج ۴ ص ۲۱۵)

حضرت عوفؓ بن مالک (المتوفی ۷۳ھ) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور فرمایا ’’ھذا اوان رفع العلم‘‘ یعنی کشفی طور پر جو وقت نظر آ رہا ہے اس میں علم اٹھ جائے گا۔ ایک انصاری نے کہا جن کا نام زیادؓ بن لبید (المتوفی ۴ھ) تھا، یا رسول اللہؐ! علم کیسے اٹھ جائے گا؟ ’’وقد اثبت فی الکتب و رعتہ القلوب‘‘ جب کہ وہ کتابوں میں ثبت کیا گیا ہو گا اور دلوں نے اس کو یاد کیا ہو گا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا علم یہود اور نصارٰی کے پاس لکھا ہوا  نہیں ہے؟ (الحدیث) (مستدرک ج ۱ ص ۹۹ قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح و مجمع الزوائد ج ۱ ص ۲۰۰)۔ مطلب واضح ہے کہ علم صرف لکھنے اور یاد کرنے ہی سے باقی نہیں رہتا جب تک کہ اس پر عمل بھی نہ ہو اور اس کی عام اشاعت نہ ہو۔ آخر کتابیں تو یہود و نصارٰی کے پاس بھی تھیں لیکن علماء حق کے اٹھ جانے اور بے عملی اور کتب پر علماء سوء اور پیرانِ بدکردار کی اجارہ داری نے کتب میں درج شدہ علم کی روح ختم کر دی ہے۔ حضرت زیادؓ کی یہ روایت مشکوٰۃ ج ۱ ص ۳۸ میں بھی بحوالہ مسند احمد و ابن ماجہ و ترمذی و دارمی نقل کی گئی ہے اور یہ روایت مجمع الزوائد ج ۱ ص ۲۰۰ میں بھی ہے۔ مشکوٰۃ کی روایت میں یہود و نصارٰی کی بے عملی اور تورات و انجیل کا ذکر ہے اور مجمع الزوائد کی روایت میں تورات و انجیل اور یہود و نصارٰی کا تذکرہ ہے لیکن اس میں رفع العلم کا سبب حاملینِ علم کا اٹھ جانا مذکور ہے۔ اور حضرت زیادؓ کی ایک اور روایت ہے جس میں یہود و نصارٰی کے تورات و انجیل پر عمل نہ کرنے کا ذکر ہے (مجمع الزوائد ج ۱ ص ۲۰۱ و اسنادہ حسن) اور اسی مضمون کی ایک روایت حضرت ابوالدرداءؓ سے بھی ہے جس میں حضرت زیادؓ کے سوال کا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جواب کا تذکرہ موجود ہے کہ یہود و نصارٰی کے پاس بھی تورات و انجیل موجود ہیں ’’فماذا یعنی عنھم‘‘ یعنی ان کے مطابق عقیدہ اور عمل اور اخلاق کے نہ ہونے سے محض کتابوں کے موجود ہونے سے کیا فائدہ؟

یعنی یہ تو ’’تحمل اسفارًا‘‘ کا مصداق ہے۔ اس مفصل روایت کی روشنی میں یہ بات بالکل عیاں ہو گئی ہے کہ جب حضرت زیادؓ نے یہ فرمایا کہ ’’وقد اثبت فی الکتب‘‘ کہ علم جب کتابوں میں لکھا اور درج کیا ہوا ہو گا تو پھر کیسے ضائع ہو گا؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ اگر علم لکھنا ممنوع ہوتا تو آپؐ اس پر ہرگز خاموشی اختیار نہ فرماتے بلکہ سختی سے تردید فرما دیتے کہ علم کو لکھنے کا کیا جواز ہے؟ اور اگر کسی کے پاس کچھ لکھا ہوا ہے تو اسے مٹا دے۔ بالکل ظاہر امر ہے کہ آپؐ کا اس پر سکوت فرمایا بلکہ صاف الفاظ میں یہ فرمانا کہ آخر تورات و زبور بھی تو لکھی ہوئی ہیں لیکن ان پر عمل کیے بغیر نرے لکھنے سے کیا فائدہ؟ کتابتِ علم کے جواز کی یہ بھی واضح دلیل ہے اور بقول مولانا رومؒ علم تو صرف

؏  علمِ دیں فقہ است و تفسیر و حدیث

ہے اور یہ علوم سرِ فہرست کتابوں میں لکھے جاتے ہیں۔ حضرت زیادؓ بن لبید بیاضی کو جب آنحضرتؐ نے حضرموت کا گورنر بنا کر بھیجا تو ان کو فرائضِ صدقات کے متعلق کتابی ٍشکل میں تحریر لکھوا کر دی (نصب الرایۃ ج ۳ ص ۴۵۱)۔ حضرت براء بن عازبؓ (المتوفی ۷۲ھ) کے پاس لوگ بیٹھ کر ان کی روایتوں کو لکھا کرتے تھے (دارمی ص ۶۹)۔ اہلِ یمن کو آنحضرتؐ نے جو احکام لکھوا کر بھجوائے تھے ان میں یہ مسئلے بھی تھے کہ قرآن کریم کو بغیر طہارت کے ہاتھ نہ لگایا جائے اور غلام خریدنے سے پہلے آزاد نہیں کیا جا سکتا اور نکاح سے پہلے طلاق واقع نہیں ہوتی (دارمی ص ۲۹۳) اور اس کتاب کا اور بغیر طہارت کے قرآن کریم کو ہاتھ نہ لگانے کا ذکر دارقطنی ج ۱ ص ۴۵ وغیرہ میں بھی ہے۔ حضرت رافعؓ بن خدیج (المتوفی ۷۳ھ) مروان نے اپنے خطبہ میں یہ بیان کیا کہ مکہ مکرمہ حرم ہے۔ حضرت رافعؓ بن خدیج نے بلند آواز سے پکار کر فرمایا کہ مدینہ طیبہ بھی حرم (اور عزت و احترام کا مقام) ہے اور یہ حکم میرے پاس لکھا ہوا موجود ہے۔ اگر تم چاہو تو میں اسے پڑھ کر سنا دوں (مسند احمد ج ۴ ص ۱۴۱)۔ حضرت نعمانؓ بن بشیرؓ (المتوفی ۶۴ھ) کو حضرت ضحاکؓ بن قیس نے خط لکھ کر دریافت کیا کہ آنحضرتؐ جمعہ کی نماز میں سورۂ جمعہ کے بغیر اور کون سی صورت پڑھتے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ھل اتاک حدیث الغاشیۃ‘‘ پڑھتے تھے (مسلم ج ۱ ص ۲۸۸)

حضرت عبد اللہؓ بن عباسؓ کی روایتوں کے مختلف تحریری مجموعے تھے۔ اہلِ طائف میں سے کچھ لوگ ان کا ایک مجموعہ ان کو پڑھ کر سنانے کے لیے لائے تھے (کتاب العلل امام ترمذیؒ ص ۲۳۸) حضرت سعیدؒ بن جبیرؒ ان کی روایتوں کو لکھا کرتے تھے (دارمی ص ۶۹)۔ امام مغازی حضرت موسؒیٰ بن عقبہؒ (المتوفی ۱۴۱ھ) فرماتے ہیں کہ میرے پاس ابن عباسؓ کے غلام  حضرت کریبؒ نے حضرت ابن عباسؓ کی کتابیں رکھوائی تھیں جو ایک بارشتر تھیں (تہذیب التہذیب ج ۸ ص ۴۳۳)۔ حضرت ابن عباسؓ کا یہ حال تھا کہ وہ آنحضرتؐ کے غلام حضرت ابو رافعؓ کے پاس آتے اور سوال کرتے کہ فلاں دن آنحضرتؐ نے کیا کیا؟ اور حضرت ابن عباسؓ کے ساتھ ایک شخص ہوتا جو ان کی ساری باتوں کو جنہیں حضرت ابو رافع بیان کرتے لکھتا جاتا (الکتانی ج ۲ ص ۲۴۷)۔ حضرت ابو رافعؓ کی اہلیہ حضرت سلمٰیؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباسؓ کو دیکھا کہ ان کے پاس تختیاں تھیں جن پر حضرت ابو رافعؓ کی بیان کردہ روایتوں کو وہ لکھا کرتے تھے جو آنحضرتؐ کے افعال کے متعلق حضرت ابو رافعؓ بیان کرتے تھے (الکتانی ج ۲ص ۲۴۷) اور حضرت سلمٰیؓ یہ بھی فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباسؓ کو دیکھا کہ وہ حضرت ابو رافعؓ سے آنحضرتؐ کے کارنامے لکھا کرتے تھے (طبقات ابن سعدؒ ج ۲ ص ۱۲۳ قسم دوم)۔

حضرت عکرمہؒ (المتوفی ۱۰۷ھ) فرماتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے جو خط (بحرین کے سربراہ) المنذر بن ساوٰی کو بھیجا تھا وہ میں نے حضرت ابن عباسؓ کی وفات کے بعد ان کی کتابوں میں پایا اور میں نے وہ لکھ لیا اور اس خط میں دینی اور ملکی باتوں کا ذکر ہے (زاد المعاد ج ۳ ص ۶۱)۔ اس کے علاوہ متعدد بادشاہوں اور اپنے اپنے علاقہ کے سربراہوں کو آنحضرتؐ نے جو خطوط ارسال کیے جن میں دین کا اہم ذخیرہ موجود ہے کتب سیر و تاریخ میں ان کی خاصی تفصیل موجود ہے۔ ان میں مصر کا بادشاہ مقوقس، عمان کا بادشاہ جیفر بن الجلندی، یمامہ کا ہوذہ بن علی، غسان کا حارث بن ابی ثمر خاصے مشہور و معروف ہیں۔ حافظ ابن القیمؒ (المتوفی ۷۵۱ھ) نے زاد المعاد ج ۳ ص ۶۰ تا ۶۳ میں ان کو قدرے تفصیل سے درج کیا ہے اور آپؐ کے ارسال کردہ ان خطوط اور دعوت ناموں کے سلسلہ میں حضرت مولانا محمد حفظ الرحمٰن صاحب سیوہارویؒ کی بے نظیر کتاب البلاغ المبین فی مکاتیب سید المرسلین (علیہ و علیٰ جمیعھم الصلوٰۃ والتسلیمات الف الف مرتٍ) مفید ترین کتاب ہے جو اہلِ علم کے لیے ایک علمی تحفہ ہے جس میں ان خطوط کی پوری تفصیل ہے۔ حضرت کریبؒ (المتوفی ۹۸ھ) فرماتے ہیں کہ چھ باتیں میرے تابوت میں لکھی ہوئی ہیں اور تابوت (وہ صندوق ہے جس) میں حضرت علیؒ بن عبد اللہؓ بن عباسؓ کی کتابیں تھیں (ابوعوانہ ج ۲ ص ۲۱۲)

حضرت امیر معاویہؓ (المتوفی ۶۰ھ) نے حضرت مغیرہؓ کو لکھا کہ وہ دعا (اکثر) آنحضرتؐ نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے مجھے لکھ کر بھیجو تو انہوں نے جواب میں لکھا کہ آنحضرتؐ یہ دعا پڑھتے تھے:

لا الٰہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیء قدیر ۔ اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا یَنْفَعُ ذَالْجَدِّ مِنْکَ الْجَدّ (ابوعوانہ ج ۲ ص ۲۴۳ وابوداؤد ج ۱ ص ۲۱۱، ادب المفرد ص ۶۷)

اور اس حدیث میں آتا ہے کہ یہ بھی لکھ کر بھیجا کہ آنحضرتؐ نے قیل و قال کثرت سوال اضاعتِ مال اور ماؤں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے اور خود نہ دینے اور دوسروں سے مانگنے سے منع فرمایا ہے۔ (ادب المفرد ص ۶۷ و بعضہ فی ص ۵ اور ان میں سے بعض چیزوں کے لکھ کر ارسال کرنے کا ذکر بخاری ج ۱ ص ۲۰۰ میں بھی ہے اور قدرے تفصیل سے بعض مزید چیزوں کا ذکر بخاری ج ۲ ص ۸۸۴ میں ہے)۔ حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت عبد الرحمٰن بن شبل الانصاریؓ کو خط لکھ کر بھیجا کہ لوگوں کو حدیث کی تعلیم دو اور جب میرے خیمے کے پاس کھڑے ہو تو مجھے حدیثیں سناؤ (مسند احمد ج ۳ ص ۴۴۴)۔ یہ سننا سنانا شاید اس لیے تھا کہ کہیں ان سے حدیث میں غلطی تو نہیں ہوتی۔

حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری نے آنحضرتؐ سے شکایت  کی کہ میں بسا اوقات آپؐ سے کوئی حدیث سنتا ہوں اور وہ مجھے پسند آتی ہے لیکن میں اس کو یاد نہیں رکھ سکتا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اس کو لکھ لیا کرو (رحمۃ مہداۃ ص ۱۱)۔ حضرت عبد اللہؓ نے حضرت عمرؓ بن عبد اللہ بن ارقم الزہریؓ کو خط لکھا کہ حضرت سبیعہؓ بنت الحارث الاسلمیۃ کے پاس جاؤ اور ان سے (خاوند کی وفات کے بعد عورت کی عدت کے بارے) حدیث دریافت کرو اور ان کو آنحضرتؐ نے جو ارشاد فرمایا ہے وہ بھی دریافت کرو۔ چنانچہ ان سے دریافت کرنے کے بعد وہ حدیث انہیں تحریر کر کے انہوں نے بھیجی (نسائی ج ۲ ص ۹۸)

حضرت عبد اللہؓ بن عمروؓ بن العاص کے سامنے قسطنطنیہ اور رومیہ کی فتح کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے ایک صندوق طلب کیا، اسے کھولا اور فرمایا کہ ہم آنحضرتؐ کے پاس تھے اور آپؐ کے ارشادات لکھتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ پہلے قسطنطنیہ فتح ہو گا (مستدرک ج ۴ ص ۴۲۲ قال الحاکمؒ والذہبی صحیح والدارمی ص ۶۸)۔ حضرت حجرؒ بن عدیؓ کے سامنے پانی سے استنجا کرنے کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ طاق میں جو صحیفہ رکھا ہوا ہے ذرا اسے مجھے لا کر دو۔ جب وہ صحیفہ لا کر دیا گیا تو حجرؒ بن عدیؓ یہ پڑھنے لگے ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ وہ روایتیں ہیں جو میں نے حضرت علیؓ بن ابی طالب سے سنی ہیں، انہوں نے فرمایا کہ طہور ایمان کا نصف ہے‘‘ (طبقات ابن سعدؒ ج ۶ ص ۱۵۴)۔ ایمانِ کامل طہارتِ باطنی (جو کلمۂ توحید سے حاصل ہوتی ہے) اور طہارتِ ظاہری (جو وضو وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے) کا نام ہے۔

محدث عبد الاعلٰیؒ (المتوفی ۵۱ھ) جو روایتیں حضرت محمدؒ بن الحنیفیہؒ سے نقل کرتے تھے وہ دراصل ایک کتاب تھی اور عبد الاعلٰیؒ نے براہِ راست وہ روایتیں حضرت محمدؒ بن الحنیفیہؒ سے نہیں سنی تھیں (طبقات ابن سعدؒ ج ۶ ص ۹۴)۔ امام جعفر صادقؒ (المتوفی ۱۴۸ھ) فرمایا کرتے تھے کہ ہم جو روایتیں اپنے آباؤاجداد سے نقل کرتے ہیں میں نے ان سب کو حضرت امام باقرؒ کی کتابوں میں پایا ہے (تہذیب التہذیب ج ۲ ص ۱۰۴)۔ حضرت سمرہؓ بن جندب (المتوفی ۵۹ھ) سے ان کے بیٹے حضرت سلیمانؒ روایتوں کا ایک نسخہ روایت کرتے ہیں اور ان سے ان کے بیٹے حضرت حبیبؒ (تہذیب ج ۴ ص ۲۳۶)۔ اور حضرت محمدؒ بن سیرینؒ فرماتے ہیں ’’فی رسالۃ سمرۃؓ الٰی بنیہ علم کثیر‘‘ (ایضًا) یعنی اس رسالہ اور تحریر میں جو حضرت سمرۃؓ نے اپنے بیٹوں کو بھیجی بہت بڑا علم ہے۔

مشہور تابعی حضرت ابو سبرۃؒ بن سلمۃ الہذلؒ (جو تابعی کبیر تھے مستدرک ج ۱ ص ۷۶ و سکت عنہ الذہبیؒ) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہؓ بن عمروؓ سے ملا۔ انہوں نے زبانی مجھ سے حدیث بیان کی اور میں نے اپنے قلم سے اسے لکھا اور اس میں ایک حرف کی کمی بیشی میں نے نہیں کی۔ اس حدیث میں بہت سی باتوں کا ذکر ہے جن میں سے بعض یہ بھی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہو گی جب تک کہ فحش گوئی اور بدکلامی اور قطع رحمی اور پڑوس کے حقوق کو پامال کرنا اور امانت والے کا خیانت کرنا اور خائن کو امین تصور کرنا وغیرہ امور ظاہر نہ ہو جائیں (الحدیث) (مستدرک ج ۱ ص ۷۵ امام حاکمؒ اور علامہ ذہبیؒ دونوں فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مسند احمد میں بھی مروی ہے۔ تلخیص المستدرک ج ۱ ص ۷۶)

حضرت عروہؒ بن الزبیرؓ (المتوفی ۹۴ھ) نے غزوۂ بدر کا مفصل حال لکھ کر خلیفہ عبد الملک کو بھیجا تھا (طبری ص ۱۲۸۵)۔ حضرت سعیدؒ بن جبیرؒ (المتوفی ۹۵ھ) فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے رات کو روایتیں سنتا تھا تو پالان پر لکھتا تھا صبح کو پھر ان کو صاف کر  کے لکھ لیتا تھا (دارمی ص ۶۹)۔ حضرت نافعؒ (المتوفی ۱۱۷ھ) جو حضرت ابن عمرؓ کی خدمت میں تیس برس رہے تھے وہ اپنے سامنے لوگوں کو لکھوایا کرتے تھے (دارمی ص ۶۹)۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عبد اللہؓ بن مسعود (المتوفی ۷۹ھ) ایک کتاب نکال لائے اور قسم کھا کر کہا کہ یہ کتاب خود حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے  ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے (جامع بیان العلم ج ۱ ص ۷۲)۔ قاضی ابن شبرمہؒ (عبد اللہؒ بن شبرمہؓ المتوفی ۱۴۴ھ) سے بعض امراء نے سوال کیا کہ یہ حدیثیں جو آپ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سناتے ہیں یہ کہاں سے آئیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ کتاب عندنا (جامع بیان العلم ج ۱ ص ۷۶) کہ یہ ہمارے پاس لکھی ہوئی ہیں۔

حضرت امام زہریؒ (المتوفی ۱۲۴ھ) محدث ابوالزناؤؒ فرماتے ہیں کہ ہم تو صرف حلال و حرام کے مسائل ہی لکھتے رہتے تھے لیکن امام زہریؒ جو کچھ سنتے وہ سب لکھ لیتے تھے اور بعد کو جب مسائل میں ان کی طرف رجوع کرنے کی حاجت پڑی تو میں نے اس وقت یہ جانا کہ وہ اعلم الناس ہیں (جامع بیان العلم ج ۱ ص ۷۳)۔ محدث کیسانؒ کا بیان ہے کہ میں اور امام زہریؒ طلبِ علم میں ایک ساتھ تھے۔ میں نے کہا کہ میں تو صرف سنن ہی لکھوں گا۔ چنانچہ جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی تھا وہ میں نے سب لکھ لیا اور امام زہریؒ نے کہا کہ حضرات صحابہ کرامؓ سے جو کچھ مروی ہے وہ بھی لکھو کیونکہ وہ بھی سنت ہی ہے۔ میں نے کہا کہ وہ سنت نہیں۔ غرضیکہ میں نے وہ نہ لکھا اور امام زہریؒ نے وہ بھی لکھ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کامیاب ہوئے اور میں برباد ہو گیا (جامع بیان العلم ج ۲ ص ۱۸۷ و طبقات ابن سعدؒ ج ۲ ص ۱۳۵ قسم دوم)۔ امام زہریؒ ہی وہ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے علم کی تدوین کی اور اس کو لکھا (جامع بیان العلم ج ۱ ص ۷۳)۔

قارئین کرام! آپ ان ٹھوس حوالوں سے بخوبی یہ معلوم کر چکے ہیں کہ علم اور حدیث کی کتابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کے مبارک دور میں باقاعدہ ہوتی تھی، ہاں مگر مرتب نہ تھی۔ ابواب اور فصول وغیرہا کی صورت میں فقہی رنگ میں تدوین سب سے پہلے حضرت امام زہریؒ نے کی ہے تاکہ مسائل اور احکام کو تلاش کرنے میں بھی کوئی دقت پیش نہ آئے اور اہم سو اہم کی ترتیب بھی برقرار رہے جیسا کہ پہلے باحوالہ یہ بات عرض کی جا چکی ہے۔ 

بعد کے لوگوں میں حفظِ حدیث اور عمل کے جذبہ میں بہ نسبت پہلے مبارک دور کے جب کچھ کمی نظر آنے لگی تو خلیفہ راشد حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے اپنے قابل اور فاضل گورنر حضرت ابوبکرؒ بن حزم کو سرکاری سطح پر حکم لکھ کر بھیجا کہ بغور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کو جمع کر کے لکھو کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور علماء کے اٹھ جانے کا خطرہ ہے اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہی لکھنا اور اہلِ علم کو چاہیئے کہ علم کی خوب اشاعت کریں اور علمی مجالس میں بیٹھ کر تعلیم دیں تاکہ جن کو علم نہیں وہ علم حاصل کریں۔ علم صرف اسی وقت ختم ہو سکتا ہے جب کہ وہ راز بن جائے (اور اس کی نشرواشاعت نہ کی جائے) (بخاری ج ۱ ص ۲۰ و رحمۃ مہداۃ ص ۱۱) اسی طرح حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے اہل مدینہ کو تحریر فرمایا کہ

ان انظروا حدیث رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فاکتبوہ فانی خفت دروس العلم و ذھاب اھلہ (دارمی ص ۶۸)

’’توجہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیثیں لکھو کیونکہ مجھے علم کے مٹ جانے اور اہلِ علم کے اٹھ جانے کا خدشہ ہے۔‘‘

خیر القرون کے ذمہ دار اور باشعور حضرات نے تو ازخود آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات سے عقیدت اور محبت کی بنا پر اور اپنے دین کی حفاظت کے لیے پوری ذمہ داری محسوس کی اور حفظ و کتابت حدیث کا پورا پورا ثبوت دیا لیکن خلیفۂ راشد اور پہلی صدی کے مجدد حضرت عمرؒ بن عبد العزیزؒ نے سرکاری طور پر جس ذمہ داری کا ثبوت دیا وہ ان کا خالص مجددانہ کارنامہ ہے۔

غرضیکہ یہ ٹھوس حوالے اس بات کو بالکل واضح کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ اور حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ اور تبع تابعینؒ کے زمانہ میں جہاں احادیث کے نوکِ زبان کرنے کا عام رواج اور شوق تھا وہاں کتابتِ حدیث کی بھی کمی نہ تھی گو ان حضرات کے مجموعے فقہی ابواب پر مدوّن اور مرتب نہ تھے لیکن ان میں علمی طور پر بہت کچھ درج تھا اور اس دور میں بھی باقاعدہ حدیثیں اور روایتیں قیدِ تحریر میں لائی جاتی تھیں اور وہی قیمتی ذخیرہ سینوں اور سفینوں میں منتقل ہوتا ہوا نچلے روات اور محدثین تک پہنچا۔

گویا دورِ اول کا سرمایۂ حدیث دوسرے دور کی کتابوں میں ہے۔ اور دوسرے دور کا تحقیقی مواد تیسرے دور کی کتابوں کی زینت ہے۔ اور تیسرے دور کی کتابوں میں جو اول اور دوسرے دور کی کتابیں کھپا دی گئی تھیں وہ ہزاروں اوراق میں فقہی ترتیب اور تدوین کے ساتھ ہمارے سامنے مؤطا امام مالک، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابی داؤد، سنن ترمذی، سنن ابی ماجہ، اور طحاوی وغیرہ کتب حدیث کی شکل میں بالکل محفوظ اور موجود ہے اور دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ باوثوق علمی اور گراں بہا سرمایہ ان معتبر کتابوں میں درج ہے۔

الغرض قرآن کریم کے بعد اس سے زیادہ مستند اور معتبر ذخیرہ دنیا کی تاریخ کے خزانہ میں اور کوئی نہیں ہے۔ اگر تحریری سرمایہ ہی منکرینِ حدیث کے لیے قابلِ وثوق ہو سکتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زرین عہد سے تدوینِ کتبِ حدیث کے دور تک اس کی بھی کوئی کمی نہیں رہی جیسا کہ قارئین کرام ٹھوس حوالوں سے یہ پڑھ چکے ہیں۔ علاوہ بریں اسلام میں اصولِ تنقید اور درایت یعنی عقلی اور نقلی حیثیت سے روایت کو پرکھنے کے اصول و ضوابط الگ موجود ہیں اور ان اصول و قواعد کے ذریعے بخوبی احادیث کی تصحیح یا تضعیف کی جا سکتی ہے۔ اور روات کی چھان بین اور تحقیق میں اس درجہ دیانت داری اور حق گوئی سے کام لیا گیا ہے جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی اور یہ کارروائی اہلِ اسلام کے مفاخر میں شامل ہے۔ مشہور عربی دان فاضل ڈاکٹر اس پرنگر جرمنی کا مقولہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے: ’’نہ کوئی قوم دنیا میں ایسی گزری نہ آج موجود ہے جس نے مسلمانوں کی طرح اسماء الرجال سا عظیم الشان فن ایجاد کیا ہو جس کی بدولت آج پانچ لاکھ شخصوں کا حال معلوم ہو سکتا ہے‘‘۔ (بلفظہٖ حاشیہ سیرۃ النبیؐ ج ۱ ص ۶۴ از مولانا شبلیؒ)۔

حدیث و سنت / علوم الحدیث

(اپریل ۱۹۹۰ء)

اپریل ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۴

اسلامی نظریاتی کونسل کی رجعتِ قہقرٰی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

فضیلۃ الشیخ مولانا محمد مکی حجازی کی تشریف آوری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ارشاداتِ نبویؐ کی حفاظت کے لیے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی خدمات
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

رشاد خلیفہ - ایک جھوٹا مدعئ رسالت
پروفیسر غلام رسول عدیم

تحریکِ پاکستان اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آیت ’’توفی‘‘ کی تفسیر
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

’’کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘
غازی عزیر

فقہی اختلافات کا پس منظر اور مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
الاستاذ محمد امین درانی

علمِ نباتات کے اسلامی ماہرین (۱)
قاضی محمد رویس خان ایوبی

’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘
مولانا سراج نعمانی

مسیحی ماہنامہ ’’کلامِ حق‘‘ کی بے بسی
حافظ محمد عمار خان ناصر

بابری مسجد اور اجودھیا - تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش
دیوبند ٹائمز

کرنسی نوٹ، سودی قرضے اور اعضاء کی پیوندکاری
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تختۂ کابل الٹنا چند دن کی بات ہے
سرور میواتی

روزے کا فلسفہ
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سرمایہ داری کا بت
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter