(بھارت کے دارالحکومت دہلی میں اسلامی فقہ اکیڈمی کی دعوت پر جدید مسائل کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے علماء کے ایک سیمینار کی رپورٹ پندرہ روزہ ’’دیوبند ٹائمز‘‘ کے شکریہ کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے۔ اے کاش کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علماء کرام بھی فرقہ وارانہ مباحث سے بالاتر ہو کر قوم کو درپیش جدید مسائل کے حل کے لیے اجتماعی سوچ اور مشترکہ محنت کا راستہ اختیار کر سکیں ؎ ’’شاید کہ اتر جائے کسی دل میں مری بات‘‘)
اسلامی فقہ اکیڈمی کی دعوت پر دوسرا فقہی سیمینار ہمدرد یونیورسٹی کے کنونشن ہال میں ۸ سے ۱۱ دسمبر تک ہوا جس میں ہندوستان بھر سے ممتاز علماء اور فقہاء کے علاوہ جدید تعلیم یافتہ دانشوروں نے حصہ لیا۔ سیمینار کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں حنفی دیوبندی، بریلوی، شافعی، اور مسلک اہلِ حدیث سے تعلق رکھنے والے نمائندہ حضرات نے کھلی فضا میں زیربحث مسائل پر غور کیا اور اتفاق رائے سے فیصلے کیے۔
افتتاحی اجلاس میں کویت سے تشریف لانے والے ڈاکٹر جمال الدین عطیہ نے، جو فقہ کے ممتاز سکالر ہیں، اپنا کلیدی خطبہ پیش کیا اور پاکستان کے ممتاز عالم و مفتی مولانا محمد رفیع عثمانی نے کرسیٔ صدارت سے انتہائی بلیغ اور بصیرت افروز خطبہ دیا۔ اس سے قبل ڈاکٹر منظور عالم (چیئرمین انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نئی دہلی) نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا اور سیمینار کے داعی مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی (امین عام فقہ اکیڈمی) نے علماء اور فقہاء کے اس نمائندہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ اپریل میں پہلا سیمینار اسی جگہ منعقد ہوا تھا۔ یہ دوسرا موقع ہے کہ ہم یہاں پھر جمع ہوئے ہیں۔ جماعتی اور مسلکی حدبندیوں سے اوپر اٹھ کر ممتاز بالغ نظر فقہاء و اصحاب افتاء کا یہاں سر جوڑ کر بیٹھنا ایک فالِ نیک اور قابلِ ذکر امر ہے۔
سیمینار میں دارالعلوم دیوبند کے مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی، مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی اور مفتی سعید احمد پالنپوری، جامعہ الارشاد اعظم گڑھ کے مولانا مجیب اللہ ندوی، ندوۃ العلماء کے مولانا عتیق احمد اور مولانا برہان الدین سنبھلی، بدایوں سے مفتی مطیع الرحمٰن رضوی، جامعہ سلفیہ بنارس کے ڈاکٹر مقتدی احسن ازہری، دارالعلوم ماٹلی والا گجرات کے مولانا ابوالحسن علی، اور علی گڑھ کے ڈاکٹر فضل الرحمٰن اور مولانا مسعود عالم کی موجودگی نے مجلس کو اور نمائندہ و باوقار بنا دیا تھا۔ اس سیمینار میں ۷۰ کے قریب علماء اور دانشوروں نے شرکت کی۔
اجلاس میں نوٹ کی شرعی حیثیت، کرنسی پر افراطِ زر کے اثرات، اور سرکاری و غیر سرکاری سودی قرضوں سے پیدا ہونے والے فقہی مسائل پر مقالات پڑھے گئے۔ نیز گذشتہ سیمینار میں پگڑی اور اعضاء کی پیوندکاری کی جو بحث نامکمل رہ گئی تھی اس کی تکمیل کے بعد تجاویز کی منظوری دی گئی۔
اجلاس نے اس پر اتفاق کیا کہ سود قطعی حرام ہے، اور جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے، لیکن سود ادا کرنے کی حرمت بذاتِ خود نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سود خواری کا ذریعہ ہے۔ اس لیے بعض خاص حالات میں عذر کی بنیاد پر سود ادا کر کے قرض لینے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ کون عذر معتبر ہے، کون نہیں؟ نیز کون سی حاجت قابلِ لحاظ ہے اور کون سی نہیں؟ اس سلسلہ میں اصحابِ فتاوٰی کے مشوروں پر عمل کیا جائے۔ اجلاس نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ بعض سرکاری قرضوں میں حکومت کی طرف سے چھوٹ دی جاتی ہے اور سود کے نام سے زائد رقم بھی لی جاتی ہے۔ اگر یہ زائد رقم سبسڈی کے مساوی یا کم ہو تو یہ زائد رقم شرعاً سود نہیں ہے۔
اجلاس نے ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی پسماندگی کے مخصوص پس منظر میں سرکاری بینکوں سے ملنے والے ترقیاتی قرضوں اور ان پر وصول کیے جانے والے سود پر بھی غوروخوض کیا اور طے کیا کہ اسلامی فقہ اکیڈمی علماء اور ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دے جو مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ایک رپورٹ پیش کرے تاکہ اگلے سیمینار میں غور کیا جا سکے۔
بحث کے دوران علماء کا عام رجحان تھا کہ ہندوستان اور اس جیسے دوسرے ملکوں کو دارالحرب قرار دے کر سود کے جواز کا فتوٰی نہیں دیا جا سکتا۔ اس میں دارالحرب، دارالامن، اور دارالاسلام پر بحث ہوئی اور مقالات پیش ہوئے، ان کی روشنی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اسلام کی دستوری ہدایات اور قانون بین الممالک کی روشنی میں اس بات پر غور کرے گی کہ آج کے دور میں موجودہ ملکوں کو کتنی قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ان کے کیا احکام ہوں گے اور ان میں بسنے والی مسلم آبادی کا کیا کردار حکومت اور دیگر عوام کے ساتھ ہونا چاہیئے۔
سیمینار میں غیر سودی بینکاری کو بڑھاوا دینے کے لیے ایک جامع خاکہ کی ضرورت سے اتفاق کرتے ہوئے ایک ایسی کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ کیا گیا جس میں علماء کے علاوہ معاشیات و بینکنگ کے ماہرین بھی شامل ہوں گے۔
کرنسی نوٹوں پر بحث کے بعد اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ شریعت میں نوٹوں کی حیثیت زر اصطلاحی و قانونی کی ہے اس لیے ان میں زکوٰۃ واجب ہے۔ سیمینار نے سفارش کی کہ مہر کا تعین سونے اور چاندی کی مقدار میں کیا جائے تو عورتوں کے حقوق کا تحفظ ہو گا اور کرنسی کی قوتِ خرید میں خسارہ سے ان پر اثر نہ پڑے گا۔
سیمینار نے اعضاء کی پیوندکاری اور خریدوفروخت پر بھی بحث کی اور تجاویز منظور کی گئیں۔ اس سیمینار نے نئے مسائل کے حل ڈھونڈنے میں علماء اسلام کی اجتہادی صلاحیت کا ثبوت پیش کیا ہے اور یہ کہ شریعت ہر زمانہ کے مسائل کا بہتر حل پیش کرتی ہے۔