’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘

مولانا سراج نعمانی

خطیبِ شہیر مولانا حق نواز صاحب بھی شہید کر دیے گئے۔ آخر کیوں؟ اخبارات نے اس موضوع پر کالم لکھے، اداریے لکھے، مضامین اور خبروں کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ماہنامہ اور ہفت روزہ رسائل میں تبصری، تجزیے اور اندازے تحریر ہو رہے ہیں۔ اس مضمون کی اشاعت تک لاہور میں عظیم الشان دفاعِ صحابہؓ کانفرنس اور تعزیتی احتجاجی جلسہ بھی منعقد ہو چکا ہو گا جس میں جانشین امیر عزیمت مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی اپنی مستقبل کی پالیسیوں کی نشاندہی بھی کر چکے ہوں گے۔

لیکن ان تمام تر تجزیوں، تبصروں، تحریروں اور تقریروں کے باوجود مولانا حق نواز شہید کی اس شہادت سے کیا  ہم نے کچھ سبق لیا ہے؟ کیا ہمارے کردار اور گفتار میں موافقت پیدا ہو چکی ہے؟ کیا اب وہ مقاصد ہمیں آنکھیں بند کیے حاصل ہو جائیں گے جو مولانا شہید کے پیشِ نظر تھے؟ یا ہم اسی طرح حکمِ قرآنی کی مخالفت میں اندھے اور بہرے ہو کر ہر ناحق کو سجدے کرتے رہیں گے؟ کیا ان ظالم طاغوتی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں اب ختم ہو جائیں گی جن کے ایما پر مولانا شہید کیے گئے۔ کیا ان طاغوتی اور شیطانی لشکروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم نے اس ملک میں علماء اور قائدین کے قتل عام کی چھٹی دے دی ہے؟

لیکن ہماری سطحی نظریں اس پس منظر کو کیسے پہچانیں جس پس منظر کو فراستِ ایمانی سے جانچا جا سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’اِتَّقُوْا فَرَاسَۃِ الْمُؤْمِنِ لِاَنَّہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ‘‘ (طبرانی) مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نورِ ہدایت سے دیکھتا ہے۔ مگر حالت یہ ہے کہ ’’قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّۃٍ وَّفِیْ اٰذَانِنَا وَقْر‘‘ ہمارے دل غلافوں میں بند ہو چکے ہیں اس لیے کچھ سوچتے نہیں اور ہمارے کانوں میں ڈاٹ ہیں کسی اور کی نصیحت بھی سننے کے لیے تیار نہیں۔ شاید ہماری ہی حالت کے پیش نظر سابقہ امتوں کی حالت ان الفاظ کے ساتھ بیان کی گئی:

لَھُمْ قُلُوْبُ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا اُولٰئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلّ۔

یقیناً آج ہماری یہی حالت ہے مگر اس ذلت کا اقرار کرتے ہوئے شرماتے ہیں، جھجھکتے ہیں، نہیں تو سوچئے کہ کیا سوئے ہوئے شخص کو بیدار کرنے کے لیے چند آوازیں کافی نہیں؟ اگر کوئی ہوش و خرد سے بھی بیگانہ ہو کر سو جائے تو اس کو بھی جھنجھوڑ کر بیدار کیا جا سکتا ہے لیکن ہماری بدقسمت قوم! آہ ’’اَمْ عَلیٰ قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا‘‘ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑ چکے ہیں کہ اتنے عظیم حادثات پے در پے ظہور پذیر ہو رہے ہیں مگر سوائے احتجاجی جلسوں، جلوسوں اور قراردادوں کے کیا ہوا؟ ’’لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ؟‘‘ کہاں جلسوں اور جلوسوں میں بلند بانگ دعوے اور کہاں جیل کی کوٹھڑی میں چند راتیں گزارنے کے بعد بھیگی بلیاں ’’وَاَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا‘‘۔

اب ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ مولانا کیوں شہید کیے گئے؟ شیطانی طاقتیں جب بھی نیکی کی قوتوں کو بیدار ہوتا دیکھتی ہیں تو وہ اپنا طریق کار چار مراحل میں تقسیم کر کے اس کا راستہ روکتی ہیں۔

پہلا مرحلہ

طعن و تشنیع اور بے عزتی کا ہوتا ہے جس مرحلے میں شیطانی طاقتیں حق پرستوں کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرتی ہیں اور حق پرستوں کی اہمیت اور وجود کو زائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مختلف القابات اور طعن آمیز گفتگو سے حق پرست طاقت کو ابھرنے سے روکا جاتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ’’سَاحِرٍ اَوْ مَجْنُوْن‘‘ اور کبھی کہتے ہیں ’’مَا لِھٰذَا الرَّسُوْلِ یَاْکُلُ الطَّعَامَ وَیَمْشِیْ فِی الْاَسْوَاق‘‘ اس پیغمبر کو کیا ہو گیا ہے کہ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا ہے۔ کبھی کہتے ہیں ’’اَھٰذَا بَعَثَ اللّٰہُ رَسُوْلًا‘‘ کیا خدا کو اور کوئی نہیں ملتا تھا کہ اسے ہی پیغامبر بنا دیا۔

دوسرا مرحلہ

پھر سودا بازی ہوتی ہے کہ نہ تم ہمیں برا کہو اور نہ ہم تمہیں کچھ کہیں گے۔ اگر آپؐ شادی کرنا چاہتے ہیں تو مکہ کی حسین ترین لڑکی سے شادی کرا دیں گے۔ اگر آپ دولت چاہتے ہیں تو ہم دولت کے انبار لگا کر آپ کو دے دیں گے۔ اور اگر آپ سرداری چاہتے ہیں تو ہم آپؐ کو اپنا سردار بنا لیں گے۔ بشرطیکہ آپ ہمارے خلاف ہونے والا پروگرام ختم کر دیں۔ لیکن امام الرسلؐ جنہوں نے تمام انبیاءؑ سے زیادہ مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں انہوں نے قیامت تک کے لیے مثال پیش کر دی کہ اگر میرے داہنے ہاتھ پر سورج رکھ دیا جائے اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیا جائے تب بھی میں اپنے اعلانِ حق سے باز نہ آؤں گا۔ فرعون نے بھی سودا بازی کرتے ہوئے کہا تھا ’’اِنَّکُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبُوْن‘‘۔

تیسرا مرحلہ

علاقہ بدری اور سوشل بائیکاٹ کا ہوتا ہے۔ ایسے حالات پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ داعیٔ حق ہجرت پر مجبور ہو جائے، یا شعبِ ابی طالب میں نظربند ہو جائے۔ اور صرف اسی پر ہی بس نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس کے کردار کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو ان سے متنفر کرنے کے ہر ممکن حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں طعن و تشنیع کے جن طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے انہیں صرف زبانی حد تک ہی اس مرحلے میں نہیں چھوڑا جاتا بلکہ کبھی تو ان کے پیغام سے دور کرنے کے لیے کہا جاتا ہے ’’لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ‘‘ اور کبھی ’’اِنَّھُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ‘‘ کہتے ہوئے سرِعام انکارِ حق کر دیا جاتا ہے۔ اسی مرحلے میں یہ بھی کہا جاتا ہے ’’مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ‘‘۔

چوتھا مرحلہ

آخری مرحلہ ہوتا ہے  جہاں باطل کے تمام ہتھکنڈے اور حربے ختم ہو جاتے ہیں۔ حق پرستوں کو دبانے اور ختم کرنے سے عاجز آ کر کبھی ’’حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا اٰلِھَتَکُمْ‘‘ کے فتوے داغے جاتے ہیں اور کبھی ’’لَاُصَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْن‘‘ کا ورد کیا جاتا ہے اور کہیں ’’لَئِن لَّمْ تَنْتَھُوْا لَنَرْجُمَنَّکُمْ وَلَیَمَسَّنَّکُمْ مِّنَّا عَذَابٌ اَلِیْمٌ‘‘ کی مالا جپی جاتی ہے۔ ہر ماحول اور ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق داعیانِ حق کو تکلیفیں پہنچانے کے لیے نت نئے ہتھکنڈے ایجاد کیے جن کا نقطۂ اختتام موت یا شہادت ہوتا ہے لیکن وہ شاید نہیں سمجھتے کہ شہید آخری وقت میں بھی اعلانِ حق سے باز نہیں رہتا اور کبھی کہتا ہے ’’فَزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ‘‘ اور کبھی کہتا ہے ’’یٰلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ‘‘ قیامت کے دن تو باطل پرستوں سے پوچھ گچھ ہو گی لیکن ہم اس دنیا میں بھی ’’بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ‘‘کی آواز بلند کرتے ہوئے کہیں گے ’’وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یَّا اُولِی الْاَلْبَابِ‘‘۔

مولانا حق نواز کی شہادت کوئی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہ تھا وہ یقیناً ان چاروں مراحل سے گزر گئے لیکن مولانا کی یہ حق گوئی ان وارثانِ علومِ نبوت کا شیوہ تھی جس کا ایک تاریخی تسلسل دنیا میں موجود ہے۔ اگر امت مسلمہ میں ہی اسی تسلسل کو اجمالی نگاہ سے ملاحظہ کریں تو امام حسین رضی اللہ عنہ کا اعلانِ حق یزید کے سامنے، حضرت سعید بن جبیرؓ کا اعلانِ حق حجاج بن یوسف کے سامنے، امام اعظمؒ کا اعلانِ حق منصور کے سامنے، امام احمد بن حنبلؒ کا اعلانِ حق معتصم باللہ کے سامنے، برصغیر میں امام ربانیؒ کا اعلانِ حق دربارِ جہانگیری میں، شاہ عبد العزیز دہلویؒ کا اعلانِ حق کہ ہندوستان دارالحرب ہے، انگریز کے خلاف علماء ہند کا جہادِ آزادی بالاکوٹ کے مقام تک، ۱۸۵۷ء میں دوبارہ جنگِ آزادی، دارالعلوم دیوبند کا قیام، شیخ الہندؒ کا کردار، اسی طرح مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا سیوہارویؒ، مولانا مدنیؒ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مولانا احمد سعید دہلویؒ اور ان کے بعد حضرت لاہوریؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غلبۂ دین کی خاطر انہوں نے اپنے اور پرائے کی تمیز کیے بغیر ظالم کے ظلم کو للکارا اور حق کا اعلان کر کے اس فریضہ سے سبکدوش ہوئے جو بحیثیت اہل الذکر ان پر عائد تھی۔ ’’فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ‘‘۔

آخری گزارش علماء حق سے یہی کی جا سکتی ہے کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’’اَلسَّاکِتْ عَنِ الْحَقِّ شَیْطَانٌ اَخْرَسٌ‘‘ اور ’’مَنْ کَتَمَ عِلْمٍ عِنْدَہٗ اَلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ‘‘۔ تو خدا کے لیے کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو جائیں اور متحد اور متفق ہو کر شیطانی قوتوں سے ٹکر لے کر اس دنیا میں نظامِ خلافت کو دوبارہ زندہ کریں ’’وگرنہ داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔ تاکہ آئندہ کے لیے کسی شیطانی قوت کو پنپنے کے لیے کوئی کونا  کھدرا بھی نہ مل سکے جہاں وہ چھپ سکیں اور دنیا میں دینِ حق اسلام کا بول بالا ہو ’’وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ‘‘۔

حالات و مشاہدات

(اپریل ۱۹۹۰ء)

اپریل ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۴

اسلامی نظریاتی کونسل کی رجعتِ قہقرٰی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

فضیلۃ الشیخ مولانا محمد مکی حجازی کی تشریف آوری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ارشاداتِ نبویؐ کی حفاظت کے لیے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی خدمات
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

رشاد خلیفہ - ایک جھوٹا مدعئ رسالت
پروفیسر غلام رسول عدیم

تحریکِ پاکستان اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آیت ’’توفی‘‘ کی تفسیر
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

’’کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘
غازی عزیر

فقہی اختلافات کا پس منظر اور مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
الاستاذ محمد امین درانی

علمِ نباتات کے اسلامی ماہرین (۱)
قاضی محمد رویس خان ایوبی

’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘
مولانا سراج نعمانی

مسیحی ماہنامہ ’’کلامِ حق‘‘ کی بے بسی
حافظ محمد عمار خان ناصر

بابری مسجد اور اجودھیا - تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش
دیوبند ٹائمز

کرنسی نوٹ، سودی قرضے اور اعضاء کی پیوندکاری
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تختۂ کابل الٹنا چند دن کی بات ہے
سرور میواتی

روزے کا فلسفہ
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سرمایہ داری کا بت
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter