رشاد خلیفہ - ایک جھوٹا مدعئ رسالت

پروفیسر غلام رسول عدیم

ایک اطلاع کے مطابق امریکہ کے ایک مشہور مدعی رسالت ڈاکٹر رشاد خلیفہ کو ۳۱ جنوری ۱۹۹۰ء رات دو بجے تیز دھار آلے سے قتل کر دیا گیا۔ یہ خبر انٹرنیشنل عربی اخبار ’’المسلمون‘‘ کے حوالے سے ہفت روزہ ختم نبوت کراچی بابت ۹ تا ۱۶ مارچ ۱۹۹۰ء (جلد ۸ شمارہ ۳۸) میں چھپی ہے۔ ڈاکٹر رشاد خلیفہ کا مسکن امریکہ کی ریاست Arizona (اریزونا) کا شہر Tucson (ٹوسان) تھا۔ وہ ایک عرصۂ دراز سے بظاہر قرآن و اسلام کی خدمت کر رہا تھا مگر بباطن اسلام کی جڑیں کاٹ رہا تھا تا آنکہ تین سال قبل رسالت کا دعوٰی کر دیا۔

تاریخ شاہد ہے ملحدین و دین بیزار افراد نے اصلاحِ دین کے پردے میں اپنے ناپاک عزائم کے لیے جو تحریکیں اٹھائیں انہیں پروان چڑھانے کے لیے ابتدائی مراحل میں وہ حمایتِ دین کے علم بردار بن کر ابھرے۔ اسی فریب کاری سے عوام میں مقبولیت حاصل کی اور پھر جب ان کی تجدیدی مساعی کی  ساکھ قائم  ہو گئی تو اپنی دوفطرتی کا اس انداز سے مظاہرہ کیا کہ ان کی مقصد برآری بھی ہونے لگی اور ناپختہ کار لوگوں کا ایک ہجوم بھی ان کے ساتھ گمراہی کی راہوں پر چل نکلا۔ ایسے دسیسہ کاروں کا طرزِعمل یہ رہا ہے کہ وہ اپنے باطل خیالات کی پرورش کے لیے کسی قدر اس میں سچائی بھی شامل کر لیتے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو ان کوئی ان کی آواز پر کان نہ دھرتا۔ آغازِکار ہی سے ان کا پول کھل جاتا۔ ایسی تحریکوں کی مثالیں ماضی بعید میں بھی ملتی ہیں اور ماضی قریب میں بھی۔

آغازِ اسلام میں اہلِ تشیع نے بھی کچھ ایسا ہی انداز اختیار کیا۔ اکثر صحابہ کرامؓ کی تکفیر و تفسیق اور ازواجِ مطہرات کی تنقیص کے جراثیم سوسائٹی میں پھیلانے کے لیے اہلِ بیتؓ کی محبت کا سہارا لیا۔ صحابہ کرامؓ سے بے اعتنائی کے نتیجے کے طور پر ان  احادیث نبویہؐ سے گلوخلاصی کرائی جو ان صحابہؓ سے مروی تھیں۔ ان صحابہؓ پر بداعتمادی کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ ان کی مرویات کو رد کر دیا جائے۔ یوں وہ اہلِ بیتؓ سے محبت کے دعوے کے باوجود صحابہؓ کی پاکیزہ سیرتوں اور عملاً سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مستند اقوال و فرمودات اور آپؐ کی سیرتِ طیبہ سے علمی و عملی استفادے سے محروم رہ گئے۔

انیسویں صدی کے وسط آخر اور پھر بیسویں صدی کے پہلے عشرے میں برصغیر میں مرزا غلام احمد قادیانی دعوٰئ نبوت سے پہلے آریہ سماجیوں اور مسیحیوں کے خلاف مناظرِ اسلام بن کر اٹھا۔ اسلام کی صداقت کی حمایت میں مقالے لکھے، مناظرے کیئے، تقریریں کیں مگر جب اپنی مقصد برآری کے لیے دور تک آگے نکل گیا تو مجدد، محدث، مثیل مسیح حتٰی کہ دعوٰئ نبوت سے بھی گریز نہ کیا۔

کچھ ایسا ہی حال عالیجاہ محمد کا تھا۔ عالیجاہ نے سیاہ فام امریکیوں کو اسلام اور قرآن کی طرف بلایا۔ بظاہر یہ دعوت بڑی خوش آئند تھی مگر امتدادِ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک نسلی تحریک زیادہ بن گئی اور دینی کم، جس میں سیاہ فام افریقی دیوتا تھے اور سفید فام امریکی ان کے پیدا کردہ شیطان۔

بعینہٖ یہی حال گذشتہ چند برسوں سے ڈاکٹر رشاد خلیفہ کا تھا۔ رشاد خلیفہ نے ایک داعئ اسلام کی حیثیت سے اپنا تعارف کرایا مگر اس کی دعوت ایک خاص نقطہ پر مرکوز تھی، اسے اسلاف کی دینی خدمات اور قرونِ خیر کی خیریت پر اعتماد نہ تھا۔ اس کی تجدد پسندانہ اور ریاضیاتی ساخت و باخت نے دین کی آڑ میں ایک نئی گمراہی کو جنم دیا۔ ۱۹ کا عدد اس کی تمام تر صلاحیتوں کا مرکز تھا۔ ۱۹ کے عدد سے وہ بظاہر نظر اپنے دو مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔

(۱) قرآن دنیا کی طرف خدا کا آخری پیغام ہے اور ۱۹ کا عدد اس کی تصدیق کرتا ہے۔ خدا کا واحد ہونا حروف ابجد کے اعتبار سے ثابت ہے۔

و + ا + ح + د

۶ + ۱ + ۸ + ۴ = ۱۹

یہی وحدانیتِ الٰہی قرآن کا مقصودِ اصلی ہے۔

(۲) قرآن ہر طرح کی آمیزش، نقص و زیادت سے پاک ہے۔

اس نے اپنے پہلے دعوٰی کی تردید اس تعبیر سے کر دی جو سنت کے انکار پر مبنی تھی، اس نے کہا کہ سنت کی پیروی گمراہی اور بت پرستی ہے۔ یوں منکرِ حدیث ہو کر رشاد خلیفہ قرآنی بصیرت کھو بیٹا۔ اس کی کتاب The Computer Speaks: God's Message to the World نے دنیا کو چونکا دیا اور لوگ اس کی قرآن میں ریاضیاتی کوششوں کے معترف ہو گئے۔

جہاں تک اس کے دوسرے مقصد کا تعلق ہے وہ اس سے بھی انحراف کر گیا۔ جب بعض قرآنی آیات اس کے خودساختہ ریاضیاتی کلیوں کے مطابق نہ نکلیں تو اس نے ان آیات  ہی سے انکار کر دیا۔ مثلاً اس نے سورۂ توبہ کی آخری دو آیتوں کو وضعی اور الحاقی کہہ کر خود ہی قرآن میں عدم نقص و زیادت کی تردید کر دی۔ اس نے کہا:

’’کمپیوٹر نے ایک تاریخی جرم کا اظہار کر دیا۔ خدا کے کلام میں تحریف۔ قرآن میں دو وضعی آیات نکل آئیں۔ قرآن کے ہندسی ضابطے میں نو (۹) نقائص دریافت کر لیے گئے۔ یہ تمام نو نقائص سورت نمبر ۹ کی آخری دو آیتوں میں پائے گئے ہیں۔‘‘

بہت سے نو مسلم رشاد خلیفہ کو سچا رسول سمجھنے لگے کیونکہ وہ بڑے وثوق سے دعوٰی کرتا کہ وہ اپنی اس تحقیق سے قرآن کی زبان و بیان کی پاکیزگی کو ثابت کر رہا ہے۔ اس کے جھانسے میں آنے والے زیادہ تر وہ لوگ تھے جو علمِ دین کا ضروری علم نہیں رکھتے، اسلام تو قبول کر لیتے ہیں، ان کی علمی سطح مبادیات سے اوپر نہیں جاتی۔ تاہم بعض ثقہ قسم کے علماء نے اس کی گرفت کی اور اس کے ان خودساختہ نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، باوجودیکہ وہ ان سے قرآن ہی کی حقانیت ثابت کرتا دکھائی دیتا تھا۔

آج سے دس برس پہلے ممتاز عالمِ دین مولانا عبد القدوس ہاشمی نے بجا طور پر کہا تھا کہ عددیات کا باطل علم قدیم اساطیری ادبوں کی پیداوار ہے، اسلام میں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ عوام میں جو ۶۸۷ کے عدد کی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی نسبت سے اہمیت تسلیم کی جاتی ہے مولانا ہاشمی نے اس کو بے جواز اور بے کار بتایا۔ قرآنی آیات کو عددی شکلیں دے کر ان سے تعویذ بنانا بھی بیکار مشغلہ اور ضعیف الاعتقادی کا نتیجہ قرار دیا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ۱۹ کے عدد کی اہمیت سب سے پہلے نویں صدی عیسوی میں قرامطہ کے ہاں ملتی ہے، پھر ان قرامطہ کی بگری ہوئی شکل بہائی فرقہ کے ہاں ۱۹ کا عدد بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے  کہ بہائی فرقۂ باطلہ کے بانی محمد علی باب کی تاریخ پیدائش ۱۸۱۹ء ہے۔ ان اعداد کا مجموعہ ۹+۱+۸+۱=۱۹ بنتا ہے۔ بہائیوں نے ۱۹ کے عدد کو مرکزِ کائنات مانا اور اسے اسرارِ کائنات کا اصل سرچشمہ قرار دے لیا ہے۔ بہائیوں نے سال کے ۱۹ مہینے قرار دیے اور ہر مہینے کے ۱۹ دن بنائے، یوں ان کا کیلنڈر بھی ۱۹ کے عدد کے گرد گھومنے لگا۔

یہی ۱۹ کا ہندسہ جو بہائیوں کے ہاں بڑا مقدس اور معنی خیز ہندسہ قرار دیا جاتا تھا اسی پر رشاد خلیفہ نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کرنے کی ٹھان لی۔ اسے مرکز بنا کر اس نے کئی کتابیں لکھیں جن میں اہم یہ ہیں:

The Perpetual Miracle of Muhammad 1976

Mujiza Al-Quran Al-Karim 1980

The Final Scripture 1981

Quran, Hadith and Islam 1982

Quran: Visual Presentation of the Miracle 1982

عام مسلمانوں کے علاوہ رشاد کے بھرّے میں آنے والوں میں مشہور مناظرِ اسلام احمد دیدات کا نام سرِفہرست ہے۔ وہ اس کی کنجکاری سے بہت متاثر ہوئے۔ ۱۹۷۹ء میں انہوں نے ایک مختصر کتاب Al-Quran an Ultimate Miracle لکھ کر رشاد کے افکار و دلائل کا خلاصہ پیش کیا۔ بعد ازاں اس موضوع پر احمد دیدات کا ایک لیکچر بعنوان Al-Quran a Visual Miracle بھی پوری دنیا میں ٹیپ کر کے مفت تقسیم کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد رشاد خلیفہ نے اس بات کا دعوٰی کیا کہ اس نے ۱۹ کے عدد کی مدد سے قیامت کی  صحیح تاریخ بھی معلوم کر لی ہے۔ جب اس کی جسارت یہاں تک آ پہنچی تو احمد دیدات سمیت بہ سے مسلمان اس سے بدظن ہو گئے۔ اس کے معترفین نے اس کی مخالفت کرنا شروع کر دی، کئی تاثراتی و جذباتی مضمون لکھے گئے۔ اس کی اس دیدہ دلیری کے پیشِ نظر جید علماء سے استفتاء کیا گیا۔ دنیائے اسلام کے معروف ترین عالمِ دین شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز بن باز (سعودی عرب) نے اس کے ارتداد کا  فتوٰی دیا۔

اس دوران میں رشاد خلیفہ نے مصری سکونت ترک کر کے امریکہ میں مستقل اقامت اختیار کر لی۔ امریکہ کی ریاست اریزونا کے شہر توسان میں بیٹھ کر ایک ماہانہ خبرنامہ جاری کیا جس کی بے شمار کاپیاں امریکہ اور کینیڈا کے سارے اسلامی حلقوں میں مفت تقسیم کیں۔ محدود علم کے نومسلم اس کی گرفت میں جلد آ جاتے بالخصوص وہ خواتین جو پردے کی حامی نہ تھیں اور اسلامی لباس کے حق میں نہ تھیں وہ اس کے جھانسے میں زیادہ آتیں کیونکہ رشاد خلیفہ نے ساتر لباس کو کوئی اہمیت نہ دی اور اس بات کی بھی اجازت دے دی کہ عورتیں اور مرد ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر نماز ادا کر سکتے ہیں۔

رشاد خلیفہ کے عقائدِ باطلہ اور ان کی تردید ایک مستقل مقالے کا متقاضی ہے; تاہم اس مدعئ رسالت کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ۱۹ حروف پر مشتمل بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی آیت قرآن کا ایک معجزاتی عددی ضابطہ ہے۔ یہ معجزاتی ضابطہ سورہ مدثر کی آیت ۳۰ کا منبٰی ہے اور یہ آیت ’’علیھا تسعۃ عشر‘‘ پورے قرآن کی عددی و ریاضیاتی معجزنمائی کی اساس ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ ۱۹ اور اس کی جمعی، تقسیمی اور ضربی شکلیں پورے قرآن کو محیط ہیں۔ جو آیاتِ قرآنی اس ضابطے پر پوری نہیں اترتیں وہ وضعی ہیں۔

حروفِ مقطعات جو قرآن مجید کی ۲۹ سورتوں کی ابتدا میں آتے ہیں ان میں اس نے عددی اسرار تلاش کیے ہیں اور دعوٰی کیا ہے کہ قرآن جیسی ادبی کتاب میں ریاضیاتی صحت ضابطہ اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ یہ کام انسانی قوت سے ماوراء ہے۔ چونکہ آج کا دور انسان کے صلبی اولاد کے بجائے اس کی معنوی اولاد معجزاتی چپ (سیلیکون چپ جس کی مدد سے کمپیوٹر کا انقلاب آیا) اور الیکٹرانی ساحروں یعنی کمپیوٹروں کا دور ہے، قرآن اس چیلنج کو قبول کر کے کمپیوٹر کے لوازم پر پورا اترتا ہے، اس سے اس کا معجزہ اور وحی ہونا ظاہر ہے۔ مزید یہ کہ ۱۹ اور اس کی مختلف ہندسی ہیئتیں، وہ ضربی ہوں جمعی ہوں یا تقسیمی، قرآن کی صحیح تعبیر پیش کرتی ہیں۔

رشاد خلیفہ کا یہ بھی دعوٰی ہے کہ وہ رسول ہے نبی نہیں، کیونکہ قرآن کریم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہا ہے خاتم الرسل نہیں کہا۔ رشاد خلیفہ نے اپنی کتاب Quran: Visual Presentation of Miracle کے پہلے ۲۴۷ صفحات میں نام نہاد ’’۵۲ طبعی حقائق‘‘ پیش کر کے اعداد و شمار کے گوشوارے دیے ہیں۔ عام قاری ان سے مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا لیکن جب ان پر گہرا غور کیا جائے تو اس مدعئ رسالت کے افکار کا تاروپود بکھر کر رہ جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ابو امینہ بلال فلپس کی کتاب The Qur'an's Numerical Miracle: Hoax and Heresy لائق مطالعہ ہے۔

مشاہدات و تاثرات

(اپریل ۱۹۹۰ء)

اپریل ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۴

اسلامی نظریاتی کونسل کی رجعتِ قہقرٰی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

فضیلۃ الشیخ مولانا محمد مکی حجازی کی تشریف آوری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ارشاداتِ نبویؐ کی حفاظت کے لیے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی خدمات
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

رشاد خلیفہ - ایک جھوٹا مدعئ رسالت
پروفیسر غلام رسول عدیم

تحریکِ پاکستان اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آیت ’’توفی‘‘ کی تفسیر
مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ

’’کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن‘‘
غازی عزیر

فقہی اختلافات کا پس منظر اور مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
الاستاذ محمد امین درانی

علمِ نباتات کے اسلامی ماہرین (۱)
قاضی محمد رویس خان ایوبی

’’اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی‘‘
مولانا سراج نعمانی

مسیحی ماہنامہ ’’کلامِ حق‘‘ کی بے بسی
حافظ محمد عمار خان ناصر

بابری مسجد اور اجودھیا - تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش
دیوبند ٹائمز

کرنسی نوٹ، سودی قرضے اور اعضاء کی پیوندکاری
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

تختۂ کابل الٹنا چند دن کی بات ہے
سرور میواتی

روزے کا فلسفہ
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

سرمایہ داری کا بت
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

تلاش

Flag Counter