انسانیت کے بنیادی اخلاقِ اربعہ (۲)

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

(۲) اخبات 

(خضوع و خشوع)  دوسری صفت یا اخلاق۔ ان اہم بنیادی اخلاق میں سے اخبات یا خضوع ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز مندی کا اظہار اور چشمِ دل کو اس کی طرف متوجہ رکھنا، اس کو اخبات کہتے ہیں۔ اخبات کا لفظ اور اسی طرح خضوع و خشوع قرآن پاک میں وارد ہوئے ہیں مثلاً‌ اخبات جیسا کہ سورۃ ہود میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

ان الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات واخبتوا الیٰ ربہم اولئک اصحاب الجنۃ ہم فیہا خالدون (آیت ۲۳)
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی کی ، یہی لوگ جنت والے ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘

اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ نفوسِ سلیمہ جب ہر قسم کی تشویشاتِ طبعیہ اور خارجیہ سے فارغ ہوں اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جلال اور اس کی کبریائی ان کو یاد دلائی جائے اور کسی نہ کسی طرح ان کا رخ ادھر متوجہ ہو تو لا محالہ انہیں ایک ایسی حالت لاحق ہو گی جو حیرت اور دہشت کی جنس سے ہو سکتی ہے اور ایک خاص رنگ انہیں احاطہ کرے گا، اور جب یہ اس حالت سے نیچے اتر کر سفلی حالت کی طرف آتے ہیں تو یہی حیرت و دہشت خشوع و خضوع اور اخبات بن جاتا ہے اور ایسی حالت ان پر طاری ہوتی ہے جیسے غلاموں کی حالت اپنے آقاؤں کے سامنے یا کسانوں کی حالت بادشاہوں کے سامنے یا جیسا کہ محتاج سائل کی حالت سخی کریم کے سامنے ہوتی ہے۔ 

حاصل یہ ہے کہ نفس کی یہ حالت ملاء اعلیٰ کے ساتھ مشابہ ہوتی ہے جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شان جلال و کبریائی کے سامنے حیران و ششدر رہتے ہیں تو نفس کی یہ صفت خشوع خضوع او رمناجات میں ان ملاء اعلیٰ کے مشابہ ہوتی ہے۔ جب نفس اس کیفیت کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور یہ خصلت اس کے اصل کے جوہر میں داخل ہو جاتی ہے تو اس نفس اور ملاء اعلیٰ کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے او رملاء اعلیٰ کی جانب سے اس نفس پر معارف جلیلہ مترشح ہوتے ہیں۔ ان معارف کی اشباہ و اشکال تجلیاتِ الٰہیہ ہوتی ہیں۔ شریعت نے اس صفت کو حاصل کرنے کے لیے خضوع و خشوع او رمناجات تلاوتِ قرآن کریم، ذکر، دعائیں او رتعویزات وغیرہ مقرر کیے ہیں۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ اخبات کے اسباب یہ ہیں کہ انسان اپنے نفس کو تعظیم کے اعلیٰ حالات کا پابند بنائے جس قدر بھی اس سے ممکن ہو۔ مثلاً‌ سرنگوں ہو کر کھڑا ہونا، سجدہ ریز ہونا اور ایسے الفاظ زبان سے بولنا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے مناجات اور عاجزی پر دال ہوں اور اپنی تمام مناجات اس کے سامنے رکھنی، یہ تمام امور وہ ہیں جو نفس کو اخبات و موضوع کی صفت پر قوی درجہ کی تنبیہ کرتے ہیں۔ 

نیز امام ولی اللہؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اخبات کی حقیقت یہ ہے کہ جب انسان سلیم الفطرۃ ہو اور تشویشات سے فارغ ہو تو جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی صفات و آیات کا تذکرہ کیا جائے اور گہرے طریق پر اس کو یاد کرے تو اس کا نفس ناطقہ متنبہ ہو گا اور اس کے حواس اور جسم میں انکساری و عاجزی پیدا ہو گی اور وہ حیران اور ماندہ یعنی تھکا ہوا ہو گا اور خطیرۃ القدس کی جانب اس کا میلان ہو گا اور ایک ایسی حالت اس پر طاری ہو گی جیسا کہ رعیت کے لوگوں کی اپنے بادشاہ کے سامنے ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنی لاچارگی، عاجزی اور نیازمندی اور ان بادشاہوں کا استبداد اور لینے دینے اور منع کرنے میں ان کا اختیار اور اپنی کمزوری ملاحظہ کرتا ہے۔ اور یہ حالت نسمہ کی حالتوں میں سے زیادہ اقرب حالت ہے  ملاء اعلیٰ کے مشابہت میں، جس طرح ملاء اعلیٰ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے جلال میں حیران و سرگرداں ہوتے ہیں اور جس طرح اس کی تقدیس میں مستغرق ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ ہمہ تن تیار ہوتے ہیں کہ ان کا نفس اپنے کمال علمی کی طرف خروج اختیار کرے اور معرفتِ الٰہیہ ان کےلوح و ذہن پر متنقش ہو اور وہ کسی نہ کسی طرح اس دربار میں سمجھتے ہیں اگرچہ الفاظ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ 

روحِ نماز، حضور مع اللہ اور جبروت کی طرف جھانکنا اور اللہ تعالیٰ کے جلال کو تعظیم و محبت اور اطمینان کے ساتھ یاد کرنا اور ان دعاؤں کے ساتھ جن کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون قرار دیا ہے۔ 

اور تلاوتِ قرآن کی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف شوق، تعظیم اور محبت کے ساتھ متوجہ ہو اور قرآن کے مواعظ میں تدبر کرے اور اس کے احکام کے اِنقیاد میں پوری طرح شعور رکھتا ہو اور اِمتثال کے لیے آمادہ ہو اور اس کے امثال و قصص سے عبرت حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اور آیات کا ذکر جب اس کے سامنے آئے تو اس کی عظمت کا دل و زبان سے اظہار کرے اور جنت و رحمت کی آیات کے سامنے آنے سے اس کے فضل کا طلبگار ہو۔ 

اور روحِ ذکر یہ ہے کہ حضور اور استغراق سے جبروت کی طرف توجہ کرے اور اس سلسلہ میں تہلیل و تکبیر کہنے کی اس قدر مشق بہم پہنچائے کہ حجاب اٹھ جائے اور اس کو مکمل استغراق حاصل ہو جائے۔

اور روحِ دعا یہ ہے کہ ہر قسم کی طاقت اور برائی سے بچنے کی توفیق من جانب اللہ دیکھے اور خود ایسا ہو جائے جیسا میّت غسّال کے ہاتھ میں یا تصویر و عکس ہلانے والے اور حرکت دینے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ مناجات کی لذت بھی پائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جو اصول بیان فرمایا ہےکہ تہجد کے بعد نہایت ہی عاجزی سے اور گڑگڑا کر اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرے اور پھر یہ شرط ہے کہ قلب بھی فارغ ہو، لہو و لعب میں مشغول اور غافل نہ ہو اور اس شخص کو بول و براز کا شدید تقاضا بھی نہ ہو اور غصے اور بھوک کی حالت میں بھی نہ ہو۔

جب انسان اس مناجات اور حاضری کی حالت کو پہچان لیتا ہے، پھر اگر اس حالت کو گم پاتا ہے تو اس کے اسباب کی کھوج لگاتا ہے، دریافت کرتا ہے۔ اب اگر طبیعت کی قوت اور شدت اس کا سبب ہو تو اس کا روزہ سے علاج کرنا چاہیے۔ اور اگر مادۂ شہوت کا غلبہ ہو تو اپنی ملکیت میں اس مادہ کا استغراق کرے۔ انہماک بھی مطلوب نہ ہو صرف علاج کے طور پر اس طریق کو استعمال کرے اور نیز کھانے پینے سے بھی فارغ ہو۔ اگر اس کا سبب ارتفاقات اور لوگوں کی رفاقت و صحبت ہو تو اس کا علاج کرے، ارتفاقات کے ساتھ عبادات کو بھی شریک کرے۔ اور اگر اس کا سبب فکر کے ظروف کا مشوش خیالات اور ردی افکار و وساوس سے پُر ہونا ہے تو پھر لوگوں سے الگ ہو جائے اور اپنے گھر یا مسجد کو لازم پکڑے اور اپنی زبان کو  بجز اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دوسری باتوں سے روک دے اور اپنے قلب کو بجز اس فکر کے جو اس کی ضرورت کا ہو روک دے اور اپنے نفس کی نگرانی کرتا رہے۔ جب نیند سے بیدار ہو تو سب سے پہلے اللہ کا ذکر کرے اور جب سونے کے خیال سے الگ ہو تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اذکار و اوراد کا حکم دیا کہ جن سے دوامِ اخبات او رتضرُّع حاصل ہوتا ہے۔ 

اور اسی طرح جو شخص صفتِ خضوع و اخبات سے آشنا نہ ہو بلکہ اس کی ضد کے ساتھ متصف ہو تو جب ایسا شخص اس مادی عالم سے گزر جائے گا تو اس عالم میں تہہ بہ تہہ اوپر نیچے ظلمتیں اس پر ہجوم کریں گی۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جہاں جبروت کے انکشاف کا مُقتضی ہے اور یہ صفت جس کے ساتھ یہ شخص متصف ہے یہ خشوع کے منافی ہے او ر جبروت کے عدمِ انکشاف کو چاہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہو گا اس کی وجہ سے اس شخص میں نفرت اور تنگی اس کے دل پر ہجوم کرے گی۔ 

انسان جب اپنے بڑے بزرگوں میں سے کسی کی تعظیم کرتا ہے مثلاً‌ باپ دادا یا مرشد، استاد یا نیک دل امراء و ملوک وغیرہ تو اپنے دل ان کے پاس حاضر ہوتے وقت عاجزی پاتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے وہ محبت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ کوئی بات کہیں حکم دیں تو میں اس کی تعمیل کروں اور اپنے دل میں ایک عجیب لذت ۔ ۔۔۔ کسی انسان کو اس کا باپ کوئی کام دیتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے تو یقیناً‌ ا س کی اطاعت کرے گا اور اس کو اپنے رب کی اطاعت کا وسیلہ خیال کرے گا۔ جب یہ خصلتِ خضوع اس میں پختہ ہو کر ملکہ بن جائے تو اس کو یوں کہیں گے کہ اس کو اخبات کی خصلت حاصل ہوگئی ہے۔

اخبات کی مشق کرنے والا انسان ہمیشہ تعظیمی آداب کی پابندی اور حفاظت ہر حال میں لازم خیال کرے گا۔ مثلاً‌ بول و براز کے وقت سر جھکا کر اور حیا سے بیٹھے گا اور ذکر کے وقت اپنے اطراف کو جمع کرے گا اور اس طرح ہر حال میں آداب کی پابندی کرتا رہے گا۔

دین و حکمت

(الشریعہ — نومبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — نومبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۱

چھبیسویں دستوری ترمیم اور دینی حلقوں کے مطالبات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آئینِ پاکستان کی ترامیم
معظم خان لودھی

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۸)
ڈاکٹر محی الدین غازی

انسانیت کے بنیادی اخلاقِ اربعہ (۲)
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مرویاتِ منافقین کی تحقیق : استفسار و جواب
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

بچوں سے قرآن حفظ کرانا
ڈاکٹر عرفان شہزاد

اسرائیل کا لبنان پر حملہ
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

تیسری عالمی جنگ کے آثار
عطیہ منور

دریائے نیل سے نہرِ فرات تک پھیلے ’گریٹر اسرائیل‘ کا تصور صرف ’شدت پسندوں کا خواب‘ ہے یا کوئی ٹھوس منصوبہ؟
منزہ انوار

فلسطین کا ایک سال — روزنامہ جنگ کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ

ڈاکٹر ذاکر عبد الکریم نائیک کی ملاقاتیں
ادارہ

’’سلاطینِ ہند کی دینی و مذہبی مساعی‘‘
محمد عرفان ندیم

سلاطینِ ہند کی دینی و مذہبی مساعی از شمیم اختر قاسمی
پروفیسر عاصم منیر

یادِ حیات (۱) : خاندانی پس منظر / شیخینؒ کا تعلیمی سفر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

Elopements and Our Legal Framework
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter