(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر کے فرزندانِ عزیز حافظ طلال خان ناصر اور حافظ ہلال خان ناصر کا انٹرویو مولانا راشدی کی نظر ثانی کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
السلام علیکم میرا نام طلال خان ناصر ہے، میں ایف سی کالج میں بی ایس فزکس کا سٹوڈنٹ ہوں اور میرے ساتھ میرے چھوٹے بھائی موجود ہیں۔
السلام علیکم میرا نام ہلال خان ناصر ہے، میں بی ایس کمپیوٹر سائنس کا سٹوڈنٹ ہوں۔ آج ہمارے ساتھ ہمارے دادا جی ہیں۔ ہم بچپن سے ان کے واقعات اور ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں ان سے سنتے رہے ہیں اور ان کی مختلف تحریروں میں پڑھتے بھی رہے ہیں۔ ابھی ہم سوچا کہ ایک باقاعدہ ویڈیو ڈاکومنٹیشن کی جائے، جس میں ہم ترتیب سے ان حالات و واقعات کو سوال جواب کی شکل میں ان سے کلیئر کریں اور ان سے ہم سنیں تو اس کے لیے آج ہم پہلی نشست کا آغاز کریں گے، جس میں ہم ان سے ان کے خاندانی پس منظر کے بارے میں پوچھیں گے۔
سوال: دادا ابو! سب سے پہلے آپ سے ہم یہ پوچھیں گے کہ ہمارے نام کے ساتھ لگتا ہے سواتی، یہ ہمارے نام کے ساتھ کیسے آیا؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم شکریہ بیٹا! ہزارہ کے مانسہرہ ضلع میں سواتی برادری کثیر تعداد میں آباد ہے، ہمارا تعلق اس سواتی برادری سے ہے۔ جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں سوات کی کسی گڑبڑ میں بہت سے خاندان منتقل ہو کر ہزارہ ضلع میں آ گئے تھے۔ اس وقت ہزارہ ضلع تھا۔ وہ آگے چلتے چلتے سواتی برادری کی شکل اختیار کر گئے۔ جیسے لاہور، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں کشمیری قوم ہے، ویسے ہزارہ میں سواتی قوم کہلاتی ہے۔ شنکیاری سے بٹگرام جاتے ہوئے راستے میں کڑمنگ ایک بستی ہے، اس کے ساتھ پہاڑی کی چوٹی پر ہمارے دادا محترم نور احمد خان مرحوم کا ڈیرہ تھا۔ وہ چھوٹے موٹے زمیندار تھے تو ان کا زمیندارہ ڈیرہ تھا، جس کو چیڑاں ڈھکی کہتے ہیں۔ اس وقت تو ایک ڈیرہ سا تھا، جیسے زمینداروں کے ڈیرے ہوتے ہیں، لیکن اب بتاتے ہیں کہ وہاں خاصی آبادی ہے اور وہ گاؤں کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ چیڑاں ڈھکی ہمارا اصل علاقہ ہے۔ ہمارے دادا کا نام نور احمد خان مرحوم ہے اور ان کے والد ہمارے پردادا جی کا نام گل احمد خان ہے۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمۃ اللہ علیہ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمۃ اللہ علیہ جناب نور احمد خان صاحب کے بیٹے ہیں اور اس خاندان سے ہمارا تعلق ہے۔
سوال: بڑے ابا جی لوگ کتنے بہن بھائی ہیں؟
جواب: یہ دو بھائی تھے، ان کی دو بہنیں تھیں۔ ان کی بڑی بہن ہماری بڑی پھوپھی جان ابھی چند سال پہلے فوت ہوئی ہیں۔ بٹل کے قریب لمی گاؤں ہے، وہاں ان کا قیام ہوتا تھا، میں کئی دفعہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ اب وہ انتقال فرما گئی ہیں، لیکن خاندان وہاں ہے اور ہماری چھوٹی پھوپھی گکھڑ آ گئی تھیں، ان کی شادی لاہور میں دولت خان مرحوم سے ہوئی۔ پہلے ہماری پھوپھی جان کا انتقال ہوا، پھر ہمارے پھوپھا دولت خان مرحوم کا بھی انتقال ہو گیا۔ اور یہ دونوں بھائی تھے حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ۔
سوال: بڑے ابا جی اور صوفی صاحب کا تعلیمی سفر کہاں سے شروع ہوا؟
جواب: اصل میں ہوا یہ کہ ان کی والدہ محترمہ ان کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں تو دادا مرحوم نے نئی شادی کر لی تھی۔ نئی شادی پر جو مسائل خاندانوں میں پیدا ہوتے ہیں وہ پیدا ہوئے تو پھر یہ دونوں بھائی اپنے مختلف رشتہ داروں کے گھروں میں لمی میں اور دوسرے مقامات پر رہے۔ یہ چھوٹے بچے تھے اور اپنی ہمشیرہ کے ہاں اور اپنی پھوپھی کے ہاں رہا کرتے تھے۔ اس دوران کسی اللہ والے نے ان کی رہنمائی کی، ان کو تعلیم کی طرف راغب کیا تو یہ دونوں پہلے، آلاں جگہ کا نام ہے، وہاں اور پھر بفہ میں حضرت مولانا غلام ٖغوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے میں آگئے اور وہاں سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا۔
ہمارے دادا مرحوم زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، عام زمیندار تھے، لیکن ان کا سیدو شریف کی خانقاہ کے ساتھ حضرت خواجہ عبدالغفور اخوند رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کا تعلق تھا، ان کی وہ نسبت قائم تھی اور وہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ مجھے اپنے خاندان کے کچھ بزرگوں نے بتایا کہ وہ دعا مانگا کرتے تھے اور اپنے پیر حضرت خواجہ صاحبؒ سے انہوں نے درخواست کی کہ میرے بیٹوں کے لیے دعا کریں کہ اللہ پاک ان کو بڑا مولوی بنائے۔ میں نے یہ سنا تو کہا کہ ان کی دعا قبول ہو گئی۔
سوال: ان کا تعلیمی سفر وہاں مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے مدرسے سے شروع ہوا تو انہوں نے درس نظامی دارالعلوم دیوبند سے کیا تھا؟
جواب: نہیں! اس زمانے میں طلباء کا مزاج ہوتا تھا کہ ایک سال ایک مدرسے میں، دوسرے سال دوسرے مدرسے میں، تیسرے سال تیسرے مدرسے میں گھومتے پھرتے رہتے تھے تو یہ دونوں بھائی وہاں سے چلتے چلاتے سیالکوٹ میں وڈالہ سندھواں میں رہے ہیں، خانیوال میں جہانیاں منڈی میں رہے ہیں اور پھر چلتے چلاتے انوار العلوم گوجرانوالہ میں آ گئے۔ شیرانوالہ باغ کی جامع مسجد میں ۱۹۲۶ء سے مدرسہ انوارالعلوم قائم ہے۔ وہاں اپنے وقت کے بڑے عالم حضرت مولانا عبدالقدیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے، انہوں نے ان دونوں کی سرپرستی فرمائی اور دونوں بھائیوں کے مین استاذ وہ تھے، جو اپنی نگرانی میں پڑھاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب وہ تشریف لایا کرتے تھے تو والد صاحب ہمیں فرماتے کہ یہ آپ کے دادا جی آئے ہیں۔ ہم دادا جی کہہ کر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور دعائیں لیتے تھے۔ حضرت مولانا عبدالقدیر صاحبؒ چھچھ کے تھے اور آخری اوقات میں دارالعلوم تعلیم القرآن راولپنڈی میں شیخ الحدیث رہے ہیں، ہم ان کی خدمت میں دارالعلوم جایا کرتے تھے۔ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میں پنڈی گیا، واپس آیا تو والد صاحب پوچھتے تھے کہ دادا جی سے ملا تھا تو مجھے شرمندگی ہوتی تھی، چنانچہ پھر میں عمداً ان کے ہاں جایا کرتا تھا تاکہ والد صاحب پوچھیں گے تو میں کہہ سکوں گا کہ دادا جی سے ملا تھا۔ وہ ہمارے بڑے شفیق، دعا گو اور سرپرست بزرگ تھے۔
مدرسہ انوارالعلوم میں مولانا عبدالقدیر صاحبؒ کے علاوہ حضرت مولانا عبد العزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ اسی طرح دونوں بھائیوں کے اساتذہ میں حضرت مولانا مفتی عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے، جو حضرت مولانا انور شاہ صاحب کے شاگردوں میں سے تھے، وہ یہاں مرکزی مسجد میں خطیب بھی تھے اور مدرسہ کے مہتمم بھی تھے۔ یہاں ان کے یہ اساتذہ ہیں، جن سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ پھر ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ یہ دونوں بھائی یہاں سے دیوبند چلے گئے اور دیوبند میں انہوں نے دورہ حدیث کیا ہے۔ اس وقت وہاں شیخ الحدیث شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ تھے، ان سے انہوں نے بخاری شریف کا آغاز کیا۔ لیکن پھر ان کے استاذ محترم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ گرفتار ہو گئے تھے۔ آپؒ تحریک آزادی کے بڑے لیڈروں میں سے تھے، آزادی کی تحریک میں گرفتار ہو گئے تھے تو طلباء نے غصے میں آ کر ہڑتال کر دی تھی، بائیکاٹ کر دیا تھا، خاصے ہنگامے ہوتے رہے، حتیٰ کہ تعلیم کچھ عرصہ بند ہو گئی۔ دارالعلوم دیوبند کے طلباء نے متفقہ بائیکاٹ، ہڑتال، جلسے جلوس کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی اس کمیٹی کے سربراہ والد محترمؒ تھے اور اس کی قیادت والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے کی تھی، جو کہ اس وقت سرفراز سرحدی کہلاتے تھے۔ اس لیے مجھ سے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کے اندر یہ تحریکی ذوق کہاں سے آیا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ابا جی سے آیا ہے۔
والد محترمؒ اور چچا محترمؒ دونوں بھائی دارالعلوم دیوبند میں پڑھتے رہے، دارالعلوم دیوبند میں چونکہ ہڑتال تھی تو اس سال امتحان نہیں ہو سکے تھے۔ طلباء طلباء ہوتے ہیں، انہوں نے ہڑتال، بائیکاٹ اور جلسے اور جلوس کیے، دارالعلوم دیوبند کچھ عرصے کے لیے بند ہو گیا تھا۔ والد صاحبؒ کہتے ہیں کہ مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ جو جمعیت علماء ہند کے صدر تھے، وہ طلباء کو سمجھانے کے لیے دیوبند آئے۔ انہوں نے ہم طلباء کو بلایا اور سمجھایا کہ بیٹا! ایسے نہیں کرو، ٹھیک ہے اپنا احتجاج کرو، تحریک اپنی جگہ پر، لیکن مدرسے کو نقصان نہیں ہونا چاہیے، مدرسے کے لیے نقصان کا باعث نہ بنو تو ہم نے ان کے کہنے پر وہ تحریک ختم کی اور واپس مدرسے میں پڑھنا شروع کیا، لیکن اتنا کچھ ہو چکا تھا کہ اس سال سالانہ امتحان نہیں ہو سکا تھا۔ سالانہ امتحان کے لیے والد صاحب اور چچا محترم کو اگلے سال ۱۹۴۲ء میں دوبارہ دیوبند جانا پڑا اور انہوں نے جا کر امتحان دیا اور سند حاصل کی۔ بعد میں جب ۱۹۸۰ء میں صد سالہ اجتماع کے موقع پر حضرات شیخینؒ اور میں ہم تینوں دیوبند گئے تو انہوں نے مجھے وہ ٹھکانے دکھائے کہ یہاں ہم رہتے تھے، یہ کرتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں ان کے ساتھ میں بھی گیا تھا، اس کی تفصیل اپنے مقام پر بتاؤں گا۔
سوال: دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد ان کا گکھڑ کیسے آنا ہوا؟
جواب: جس زمانے میں یہ انوار العلوم میں تھے تو طلبہ ادھر ادھر جاتے رہتے ہیں تو اس زمانے میں ان کا گکھڑ رابطہ تھا۔ چنانچہ جب واپس آئے تو گکھڑ کے لوگوں نے حضرت مولانا عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے تقاضا کیا کہ ہمیں کوئی اچھا سا عالم دیں تو ان کے کہنے پر والد محترمؒ ۱۹۴۳ء میں گکھڑ چلے گئے۔ گکھڑ میں جی ٹی روڈ پر چھوٹی سی مسجد تھی، اب تو بڑی مسجد ہے، وہ بوہڑ والی مسجد کہلاتی تھی، وہاں امام اور خطیب کے طور پر گئے۔ اس کے سامنے بٹ دری فیکٹری جو اس وقت پرانی تھی، اب نئی بن گئی ہے، وہاں ایک چوبارہ تھا، ہماری رہائش وہاں تھی، میری پیدائش وہیں کی ہے۔
گکھڑ میں والد صاحبؒ کا مدرسہ بھی تھا۔ اس زمانے میں مدرسہ یہ ہوتا تھا کہ طلبہ کو کسی عالم دین کی کسی فن میں شہرت کا علم ہوتا تو اس کے پاس اکٹھے ہوتے تھے، کسی کی تفسیر میں مہارت ہے، کسی کی حدیث میں ہے، کسی کی میراث میں ہے۔ طلبہ ماہر فن کے پاس اکٹھے ہو جاتے تھے، محلے کے لوگ روٹی کھلا دیتے تھے اور وہ مسجد میں سو جاتے تھے یہ اس زمانے میں مدرسہ ہوتا تھا۔ چونکہ حضرت والد صاحبؒ کی نحو میں شہرت تھی، نحو کے بہت ماہر اساتذہ میں شمار ہوتے تھے تو باذوق طلبہ گکھڑ آیا کرتے تھے۔ والد صاحب کا مدرسہ میں نے دیکھا ہے، اس کے بہت سے مناظر میرے سامنے ہیں۔ بیس پچیس طلبہ ہوتے تھے۔ ۱۹۴۳ء سے لے کر ۱۹۵۲ء تک والد صاحب اسی طرح پڑھاتے رہے ہیں۔ میں نے ایک دفعہ والد صاحب سے پوچھا تھا کہ آپ ایک دن میں کتنے سبق، کتنے پیریڈ پڑھا لیتے تھے تو فرمانے لگے کہ اکیس اکیس بائیس بائیس سبق تو پڑھائے ہیں۔ یہی کام تھا پڑھانا، نماز پڑھنا اور کھانا، سونا، اور کوئی کام نہیں تھا۔ چوبیس گھنٹے میں اکیس اکیس سبق پڑھائے ہیں۔
فراغت کے بعد والد صاحب گکھڑ آ گئے تھے اور حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس کے بعد لکھنؤ میں حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ کے ادارہ دارالمبلغین لکھنو میں چلے گئے، جہاں اہل سنت کے عقائد کے حوالے سے تربیتی کورس ہوتا تھا، وہاں ان سے کورس کیا۔ اس کے بعد حیدرآباد دکن طبیہ کالج میں چلے گئے جہاں انہوں نے باقاعدہ تین سال طب کی تعلیم حاصل کی اور مستند حکیم حاذق تھے۔ پھر ۱۹۵۱ء، ۱۹۵۲ء کے لگ بھگ گوجرانوالہ واپس آئے اور یہاں سیٹ ہوئے۔
سوال: ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ ایک ٹائم تھا کہ صوفی صاحب اور ابا جی آپس میں بچھڑ گئے تھے۔
جواب: یہ واقعہ تعلیمی دور کا ہے۔ بھائی تھے، کسی بات پر صوفی صاحب ناراض ہو گئے تو نکل گئے۔ والد صاحبؒ ان کو مختلف مدارس میں ڈھونڈتے رہے، بالآخر ایک جگہ مل گئے تھے تو پھر ساری زندگی اکٹھے رہے۔ دونوں بھائی ہی تھے، اس وقت کائنات میں ان کا اور تو کسی کے ساتھ رابطہ تھا ہی نہیں تو دونوں بھائیوں نے پھر اکٹھے ہی ساری زندگی گزاری ہے۔
سوال: صوفی صاحبؒ نے طب کی ڈگری حاصل کی، اس کے بعد انہوں نے طب پریکٹس کی یا نہیں؟
جواب : چوک نیائیں گوجرانوالہ میں انہوں نے دکان بنائی تھی، لیکن وہ نہیں چل سکی۔ اس میں کچھ مزاج کا دخل بھی تھا۔ حضرت صوفی صاحبؒ کا مزاج بڑا نفیس تھا، لکھنوی مزاج تھا، لکھنوی مزاج گوجرانوالہ میں نہیں چلتا۔ والد صاحبؒ ایک دفعہ فرمانے لگے ہم یہاں سے دوائیاں گھوٹ گھوٹ کر بھیج دیتے ہیں، یہ وہاں دوستوں کو چائے پلاتا رہتا ہے۔ مریض آیا ہے تو اس کی بیماری دیکھو، اس کا علاج کرو۔ بہرحال ان کے مزاج کی وجہ سے دکان نہیں چل سکی، ورنہ حکیم بہت زبردست تھے، طبیہ کالج حیدرآباد دکن کے مستند حکیم تھے، لیکن اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ دکانداری کا مزاج بالکل مختلف ہوتا ہے۔
سوال: گکھڑ آنے کے بعد ان کا چیڑاں ڈھکی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کوئی تعلق؟
جواب: کہتے ہیں کہ طالب علمی کے دوران ہمارا پیچھے رابطہ نہیں تھا۔ جب گکھڑ آ کر سیٹ ہو گئے تو پھر پیچھے رابطہ ہوا کہ کون ہے، کون نہیں ہے۔ ان کی سوتیلی والدہ حیات تھیں، ان کو والد صاحبؒ گکھڑ لے آئے، یہیں ان کی خدمت کرتے رہے۔ دادی مرحومہ کے بارے میں مجھے اتنا یاد ہے کہ گکھڑ میں ایک بوڑھی مائی ہمارے گھر میں ہوا کرتی تھیں، اس سے زیادہ یاد نہیں ہے۔ جب ذکر ہوتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہاں وہ ہماری دادی تھیں، ان کا ہیولہ میرے سامنے ہے، میں تب دو چار سال کا بچہ تھا۔ یہیں ان کا انتقال ہوا، دادی جی مرحومہ کی قبر گکھڑ میں ہے۔ اسی طرح والد صاحبؒ چھوٹی ہمشیرہ کو لے آئے اور پھر وہاں آنا جانا شروع ہو گیا۔ میں نے جب ہوش سنبھالی ہے تو ہمارا آنا جانا تھا، آنا زیادہ تھا، ہمارا جانا کم تھا، لیکن بہرحال ہمارے رشتہ دار آیا کرتے تھے۔ لمی میں والد صاحبؒ کے پھوپی زاد بھائی سید فتح علی شاہ صاحب تھے، والد صاحبؒ نے ابتدائی قاعدہ ان سے پڑھا تھا، وہ زیادہ آیا کرتے تھے۔ ایک والد صاحب کے خالہ زاد بھائی تھے حاجی گوہر آمان صاحب جو ہماری بڑی ہمشیرہ کے خسر بزرگوار تھے وہ بھی آیا کرتے تھے۔ پھوپھی زاد، خالہ زاد آنا شروع ہو گئے اور رابطہ بحال ہو گیا تھا، جو اب تک الحمد للہ بحال ہے۔
سوال: ہمارے بڑے ابا جی نے دو شادیاں کی تھیں تو ان کا سارا خاندان…
جواب: جب آپؒ گکھڑ میں سیٹ ہوئے ہیں تو دو سال کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ گوجرانوالہ میں تھانہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی بیک میں آبادی ہے، اس آبادی میں ایک مسجد کے امام مولانا محمد اکبر صاحب مرحوم تھے، جنجوعہ راجپوت برادری سے تعلق تھا، اچھے حافظ، اچھے قاری تھے تو مولانا عبد الواحد صاحبؒ کی وساطت سے والد صاحبؒ کی ان کے ہاں سے شادی ہو گئی۔ ہماری والدہ محترمہ مولوی محمد اکبر صاحب کی بیٹی ہیں اور گوجرانوالہ شہر کی ہیں۔ پہلی شادی ہوئی، اس سے ہماری بڑی ہمشیرہ پیدا ہوئیں، جن کا پچھلے سال انتقال ہوا ہے، اس کے بعد میں پیدا ہوا، میرے بعد ایک اور بھائی تھے جو بچپن میں ہی فوت ہو گئے، پھر مولانا عبد القدوس قارن صاحب، پھر مولانا عبد الحق صاحب اور جو جہلم میں ہماری چھوٹی ہمشیرہ ہیں، پیدا ہوئے۔ اس دوران حضرت والد صاحبؒ نے اپنی برادری میں بھی شادی کی۔ ہماری چھوٹی والدہ ان کی چچا زاد لگتی تھیں۔ حاجی فیروز خان مرحوم کورے اچھڑیاں میں ہوتے تھے، ان کی بیٹی تھیں۔ دوسری شادی ہوئی تو پھر دونوں گکھڑ میں اکٹھی رہیں۔ الحمد للہ ہمارا یہ امتیاز ہے کہ دونوں مائیں زندگی بھر اکٹھی رہی ہیں، ایک گھر میں رہی ہیں، ایک ہنڈیا رہی ہے، ایک جگہ کھانا رہا ہے جبکہ ہم بھائیوں میں بھی ہلکی پھلکی نوک جھونک چلتی رہی ہے، لیکن جس کو جھگڑا کہتے ہیں وہ کبھی نہیں ہوا۔ نہ ماؤں میں اور نہ ہم میں۔ ہم اکٹھے ہی رہے ہیں، اب بھی ہم سب بھائیوں کی طرح ہیں اور الحمد للہ ہمارے ہاں وہ ماحول نہیں پیدا ہوا۔
سوال: صوفی صاحب گوجرانوالہ آئے تو اس کے بعد ان کا کیا سلسلہ تھا؟
جواب: حضرت مولانا مفتی عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو ان کے استاذ محترم تھے اور میں ان کی جگہ نائب کے طور پر آیا تھا۔ میں نے شیرانوالہ مسجد میں ان کی نیابت میں بارہ سال کام کیا ہے، وہ بڑی تفصیلات بتایا کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ شہر کی مغربی جانب گرجاکھی دروازے سے باہر سارا خالی علاقہ تھا، اکا دکا مکان ہوتے تھے، ہمارا مسلکی مرکز اس علاقے میں کوئی نہیں تھا۔ حضرت صوفی صاحبؒ کہتے ہیں وہاں ایک بہت بڑا چھپڑ تھا۔ ہم نے کچھ دوستوں سے مشورہ کیا، چھپڑ پر قبضہ کر لیا اور چھپڑ کو بھرنا شروع کیا۔ حضرت صوفی صاحب کو حضرت مفتی عبد الواحدؒ صاحب نے وہاں بٹھایا۔ وہاں چھوٹے چھوٹے دو تین کمرے تھے اور چھوٹی سی مسجد تھی، باقی سارا چھپڑ تھا۔ وہ مجھے یاد ہے، میں نے وہ سارا دور اپنی آنکھوں سے دیکھا، بلکہ اس چھپڑ میں نہاتا بھی رہا ہوں۔ وہاں انہوں نے مسجد سے آغاز کیا، پھر اس مسجد کو باقاعدہ مسجد نور کا نام دیا گیا اور حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے آ کر اس کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہ سب حضرت صوفی صاحبؒ کا خلوص اور محنت تھی، ان کے ساتھ حضرت مولانا عبد القیوم صاحبؒ اور دوسرے رفقاء کی محنت تھی کہ مدرسہ آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا اور آج وہاں ایک ایکڑ جگہ ہے، جہاں جامعہ نصرۃ العلوم اور مسجد نور ہے۔
مجھے یاد ہے، جامعہ میں ایک دفعہ جلسہ ہوا تو حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ تشریف لائے، تقریر فرمائی۔ دو سال کے بعد پھر آئے تو ساتھ تین چار کمرے اور بن چکے تھے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا ہزارویؒ نے ایک جملہ کہا جو مجھے نہیں بھولتا۔ کہنے لگے مولوی کو کھڑا ہونے کی جگہ دے دو، لیٹنے کی خود بنائے گا۔ اب وہاں جامعہ نصرۃ العلوم کے نام سے الحمد للہ بہت بڑا جامعہ ہے جو کہ ایشیا کے ممتاز مدارس میں شمار ہوتا ہے۔
سوال: حضرت صوفی صاحبؒ کی شادی مدرسہ نصرۃ العلوم بننے سے پہلے ہوئی تھی یا…؟
جواب: حضرت صوفی صاحبؒ شادی کرتے ہی نہیں تھے۔ یہ بھی عجیب داستان چھیڑ دی ہے آپ لوگوں نے۔ ہمارے تین چار بزرگ تھے، جنہوں نے آپس میں عہد کر رکھا تھا کہ شادی نہیں کرنی۔ جن میں ایک ہری پور کے حضرت مولانا قاضی عزیز اللہ صاحب تھے اور ایک مولانا عزیر الرحمان صاحب تھے، جو صَرفی استاذ کہلاتے تھے، مجھے یاد ہے کبھی کبھی تشریف لایا کرتے تھے۔ انہوں نے آپس میں طے کر رکھا تھا کہ شادی نہیں کرنی۔ حضرت صوفی صاحب تو بالکل نہیں مانتے تھے۔ انہیں شادی کے لیے آمادہ، قائل کرنے میں الحمد للہ ہمارا کردار ہے، سب سے زیادہ چھوٹی والدہ مرحومہ کا کہ کسی نہ کسی بہانے تنگ کرتی رہتی تھیں اور میں بھی جا کر کہتا چچا جی! چچی چاہیے۔ ان کی شادی ۱۹۶۵ء، ۱۹۶۶ء میں گکھڑ میں ہوئی ہے۔ اللہ کی قدرت کہ گکھڑ میں آرائیں برادری کے ایک بڑے سادہ سے بزرگ تھے، ان کے ہاں بات طے ہوئی، ہماری چچی مرحومہ والدہ مرحومہ کی شاگرد تھیں، ان کے ہاں پڑھتی رہی تھیں۔
سوال: آپ کتنے بہن بھائی تھے؟
جواب: ہم مجموعی طور پر بارہ بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ ہمارے تین بھائی بچپن میں فوت ہو گئے تھے عبدالکریم رانا، عبدالرشید، اور ایک بھائی محمد یونس خان تھے جو بچپن میں فوت ہو گئے۔ ہم بارہ بھائی تھے، جن میں سے نو حیات رہے، جن کی شادیاں ہوئیں اور بہنیں تین تھیں، اب ایک فوت ہو گئی ہیں، دو الحمد للہ حیات ہیں، اللہ پاک سلامت رکھے۔ دونوں ماؤں سے ہم پندرہ بہن بھائی ہیں۔ سچی بات ہے کہ مجھ سے کوئی اب بھی پوچھتا ہے کہ اس ماں سے کتنے ہیں تو گننے پڑتے ہیں۔ الحمد للہ ہمارا سب کا بھائیوں بہنوں جیسا معاملہ ہے۔ ہم تین بھائی اور دو بہنیں ایک والدہ سے ہیں: میں، قارن صاحب، عبدالحق، ہماری بڑی ہمشیرہ اور جہلم والی ہمشیرہ۔ باقی بھائی اور چھوٹی ہمشیرہ جو گوجرانوالہ میں ہیں دوسری والدہ سے ہیں۔ لیکن ہمارے لیے تقسیم کرنا مشکل ہوتا ہے، الحمدللہ سب کے ساتھ یکساں محبت پیار ہے۔
سوال: آپ کو سب لوگ مولانا زاہد الراشدی کے نام سے جانتے ہیں، لیکن آپ کا اصل نام کیا ہے؟
جواب: ہمارے ہاں نام کا سلسلہ یہ ہے کہ ہمارے ایک بزرگ ماسٹر بشیر احمد صاحب کشمیری تھے، جو کہ حضرت والد صاحبؒ کے دوستوں میں سے تھے۔ ان کا یہ ذوق تھا کہ حروف ابجد کے حساب سے نام رکھا کرتے تھے، یعنی اعداد نکال کر نام سیٹ کرتے تھے۔ میرا اصل پورا نام محمد عبدالمتین خان زاہد ہے، اس کے لطائف بھی بڑے ہیں، لیکن محمد عبدالمتین خان زاہد کے ابجد کے حساب سے اعداد نکالیں گے تو ۱۳۶۷ بنیں گے جو کہ ہجری اعتبار سے میرا سن پیدائش ہے۔ ہم سب بہنوں بھائیوں کے نام اسی طرح ہیں، آگے عمار اور عامر کے نام بھی اسی حساب سے ہیں کہ ان کے عدد نکالیں گا تو سن پیدائش نکل آئے گا۔ ماسٹر صاحب اعداد نکالا کرتے تھے، اس کے بعد یہ ذوق نہیں رہا تو اب ویسے چل رہے ہیں۔
پھر یہ ہوا کہ میرا نام محمد عبدالمتین خان زاہد لمبا نام ہے۔ میں نے جب لکھنا پڑھنا شروع کیا، لکھنے پڑھنے کا ذوق شروع سے چلا آ رہا ہے تو زاہد گکھڑوی کے نام سے لکھا کرتا تھا۔ میرے بعض پرانے مضامین زاہد گکھڑوی کے نام سے موجود ہیں۔ میرا بیعت کا تعلق شیرانوالہ لاہور حضرت مولانا عبید اللہ انور رحمۃ اللہ علیہ سے تھا۔ آپؒ میرے بڑے شیخ تھے، جن تین چار بزرگوں سے میں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے ان میں وہ بھی ہیں۔ میرا شیرانوالہ آنا جانا رہتا تھا۔ ایک دن وہ فرمانے لگے کہ گکھڑوی ثقیل لفظ ہے کوئی ہلکا سا رکھو، تو میں نے کہا کہ پھر سلسلے سے منسوب کر لیتا ہوں۔ ہمارا سلسلہ کہلاتا ہے ”عالیہ قادریہ راشدیہ“ لطیفے کی بات یہ ہوئی کہ عالیہ سے علوی کی نسبت رکھنے والے ہمارے ساتھی مولانا سعید الرحمٰن علوی صاحب موجود تھے اور اکرام القادری صاحب بھی موجود تھے تو میں نے کہا کہ علوی بھی ہے، قادری بھی ہے، راشدی کوئی نہیں ہے میں راشدی بن جاتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا ٹھیک ہے۔ یہ غالباً ۱۹۶۸ء کی بات ہے، تب سے میں زاہد الراشدی کے نام سے لکھ رہا ہوں اور اسی نام سے معروف ہوں۔
سوال: آپ نے ابھی بتایا کہ شروع سے ہی لکھنے پڑھنے کا سلسلہ تھا تو آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اور حفظ قرآن گھر سے ہی کیا؟
جواب: والدہ مرحومہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائیں، ان کا گھر میں معمول تھا کہ شام کو بچیوں اور بچوں کو پڑھایا کرتی تھیں۔ ہماری نانی مرحومہ کا بھی گوجرانوالہ میں یہ معمول تھا۔ گوجرانوالہ اپنی مسجد میں شام کو محلے کے بچے اور بچیاں آ جاتے تھے تو ہماری نانی مرحومہ انہیں قرآن پاک پڑھایا کرتی تھیں، بہشتی زیور پڑھایا کرتی تھیں اور مجھے یاد ہے کہ ”پکی روٹی“ پڑھایا کرتی تھیں۔ یہ ٹھیٹھ پنجابی کا ایک رسالہ ہے، جو اس زمانے میں کورس میں شامل تھا۔ مثلاً اس میں تھا ؎
جے کو پچھے توں بندہ کس دا ہیں؟ توں آکھ خدا تعالیٰ دا
جے کو پچھے اُمت کس دی ہیں؟ توں آکھ جی حضرت محمدؐ دی
جے کوئی پچھے تو ملت کس دی ہیں تو آکھ بابے ابراہیمؑ دی
نانی مرحومہ قرآن پاک کے ساتھ ’’پکی روٹی‘‘ اور دیگر اس قسم کے رسالے پڑھایا کرتی تھیں، ان کا یہ معمول تھا۔ وہی معمول والدہ مرحومہ کو منتقل ہوا تو گکھڑ میں مجھے یاد ہے کہ شام کو تقریباً عصر سے عشاء تک ہمارا گھر بچوں اور بچیوں سے بھرا ہوتا تھا۔ والدہ مرحومہ قرآن پاک ناظرہ پڑھاتی تھیں، ترجمہ پڑھاتی تھیں اور بہشتی زیور پڑھاتی تھیں۔ میری والدہ مرحومہ خود حافظہ نہیں تھیں، لیکن بہت سی بچیوں نے ان سے حفظ بھی کیا ہے۔ بعد میں ہماری چھوٹی والدہ مرحومہ بھی ساتھ شامل ہو گئیں۔ ہماری دونوں مائیں پڑھایا کرتی تھیں، شام کو دو تین گھنٹے ہمارا گھر مدرسے میں بدل جاتا تھا۔ میں نے ابتدائی تعلیم تو وہاں سے حاصل کی، ساتھ والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بھی کچھ پڑھتا رہا۔ گکھڑ میں مسجد کے ساتھ ہی گورنمنٹ پرائمری سکول ہے، وہاں میں سکول میں داخل تھا۔ چوتھی جماعت تک اس اسکول میں پڑھا ہے۔
۱۹۵۶ء یا ۱۹۵۷ء کی بات ہے کہ راہوالی میں گتہ فیکٹری کے مالک سیٹھی محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہ تھے، ان کے والد ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ نومسلم خاندان تھا، ان کا ذوق قرآن پاک ناظرہ اور حفظ کے مدرسے چلانے کا تھا۔ ان کا طریقہ کار یہ تھا کہ کسی گاؤں میں چلے جاتے اور اہل علاقہ سے کہتے کہ یہاں قرآن پاک پڑھانے والا قاری رکھیں، آدھی تنخواہ میں دوں گا۔ مجھے وہ منظر یاد ہے کہ سیٹھی محمد یوسف ؒگکھڑ میں تشریف لائے، جمعے کے دن والد صاحبؒ سے کہا کہ مجھے خطبے سے پہلے دو چار منٹ بات کرنے کے لیے دیں گے؟ انہوں نے فرمایا کر لیں۔ سیٹھی صاحب کھڑے ہوئے اور کہا کہ معروف لہجے میں قاری صاحبان کی طرح کوئی قرآن پاک کا ایک رکوع سنا دے تو میں اسے پچاس روپے انعام دوں گا، مگر شرط یہ لگائی کہ ہو گکھڑ کا۔ یہ ۱۹۵۷ء کے پچاس روپے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں نکلا جو معروف لہجے میں پڑھ سکے، کیونکہ اس زمانے میں معروف لہجہ قرأت کے ساتھ پڑھنا بہت کم تھا، سادہ دیہاتی لہجہ ہوتا تھا۔ انہوں نے یہ طریقہ اختیار کر کے کہا کہ دیکھو یہ اچھی بات نہیں ہے۔ یہاں قرآن پاک کی تعلیم کا مدرسہ بناؤ، قاری صاحب رکھو، آدھی تنخواہ میں دوں گا، آدھی تم اکٹھی کر لینا۔ یوں سیٹھی محمد یوسف صاحبؒ کی تحریک اور ان کے ساتھ اس معاہدے پر مدرسہ تجوید القرآن کے نام سے مدرسے کا آغاز ہوا۔ جہاں پہلے استاذ حضرت قاری اعزاز الحق امروہوی رحمہ اللہ تعالی تھے۔ امروہہ کے تھے، مہاجر تھے۔ انہوں نے وہاں پڑھانا شروع کیا تو میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا، والد صاحب نے سکول سے اٹھایا اور مسجد میں بٹھا دیا، سکول اور مسجد کے درمیان میں دیوار ہی تھی، تب سے آج تک مسجد میں ہی ہوں الحمدللہ۔ قاری اعزاز الحق امروہویؒ سے قرآن پاک کا کچھ حصہ پڑھا، میرے ساتھ حفظ کی پوری کلاس تھی تو پھر وہاں سے باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہو گیا۔
سوال: آپ نے بتایا کہ آپ کے گھر میں ہماری دادی امی کے پاس بچے اور بچیاں پڑھنے آتے تھے تو ان میں کوئی ایسے جو بعد میں مشہور ہوئے ہوں یا انہوں نے کام کیا ہو؟
جواب: الحمدللہ سابق صدر پاکستان جناب رفیق تارڑ صاحب، سابق آئی جی پولیس احمد نسیم، فوج کے ایجوکیشن کور کے سابق انچارج بریگیڈیئر محمد علی چغتائی ہماری والدہ کے شاگرد ہیں۔ بڑے بڑے لوگوں نے ان سے قرآن پاک پڑھا ہے اور الحمدللہ وہ اپنی اپنی جگہ کام کر رہے ہیں۔
دادا جی! آپ کا شکریہ کہ آپ نے اتنی دلچسپ باتیں اور اتنی قیمتی باتیں ہمارے ساتھ کی ہیں۔
اب ہم اس نشست کا اختتام کرتے ہیں۔ ہم نے اس نشست میں اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں بات کی اور یہ کہ ہمارے بڑے ابا جی کیسے گکھڑ میں آ کر مقیم ہوئے۔ اگلی نشست میں ہم اپنے دادا جی سے ان کی تعلیم اور ان کے صحافتی سفر کے بارے میں گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ۔
(جاری)