(جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ پارلیمنٹ میں دستورِ پاکستان کی ۲۶ویں ترمیم منظور ہوئی ہے، اس پر ملک بھر میں ہر سطح پر بحث جاری ہے۔ چونکہ اس میں بعض باتیں شریعت اور نفاذِ اسلام سے متعلق ہیں اس لیے دینی حلقے بھی اس پر مسلسل مکالمہ و مباحثہ کر رہے ہیں۔ یہ ترامیم جیسے بھی ہوئی ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے، میں اس بحث میں نہیں پڑتا، لیکن ان کے ذریعے دینی ماحول میں کیا فرق پڑا ہےاور اب آئندہ دینی جدوجہد کرنے والوں نے کیا کرنا ہے؟ یہ دو باتیں مختصرًا عرض کروں گا۔
ان ترامیم کے ذریعے دینی جدوجہد کے تین چار اہم تقاضے اصولاً پورے ہو گئے ہیں۔ مثال کے طور پر:
(۱) پہلی بات یہ ہے کہ موجودہ دستور ۱۹۷۳ء میں نافذ ہوا تھا تو اس میں یہ طے پایا تھا کہ حکومتِ پاکستان جلد از جلد سودی نظام کو ختم کر کے ملک کو سود کی نحوست سے پاک کرے گی۔ تب سے عدالتی، سیاسی اور تحریکی جدوجہد جاری ہے جبکہ ہمارا ایک بڑا مطالبہ چلا آ رہا ہے کہ اس ’’جلد از جلد‘‘ کی کوئی تاریخ طے کی جائے۔ اس ترمیم کے ذریعے یہ تاریخ طے ہو گئی ہے جو کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۲۷ء ہے۔ ترمیم میں یہ لکھا ہے کہ حکومت پاکستان دستوری طور پر پابند ہے کہ یکم جنوری ۲۰۲۸ء سے پہلے ملک کو سودی نظام سے پاک کرے اور سودی قوانین اور سودی نظام ختم کرے۔ اس سے ہم پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ مطالبہ کر سکیں گے کہ دو سال رہ گئے ہیں، ڈیڑھ سال رہ گیا ہے۔ جیسے قرضے کی ادائیگی کی تاریخ طے ہو جائے تو قرضہ مانگنا ذرا آسان ہو جاتا ہے، جبکہ اگر مبہم ہو کہ قرضہ جلد از جلد دے گا، تو وہ جلد از جلد کبھی آتا ہی نہیں ہے۔ جو کہ اس معاملے میں پچاس سال سے نہیں آ رہا تھا، اب تاریخ طے ہو گئی ہے اور ہمارا ایک مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔
(۲) دوسری بات یہ ہوئی ہے کہ ملک کے قوانین کا جائزہ لینے کے لیے وفاقی شرعی عدالت ایک مستقل عدالت ہے، جس کا کام یہ ہے کہ ملک میں نافذ قوانین کا جائزہ لے کر ان کے متعلق فیصلہ کرے کہ فلاں قانون شریعت کے مطابق ہے اور فلاں شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ فلاں قانون میں یہ تبدیلی ضروری ہے، فلاں میں یہ تبدیلی ضروری ہے۔ وفاقی شرعی عدالت میں علماء بھی ہیں اور دوسرے جج صاحبان بھی ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے بڑے بڑے اچھے فیصلے کر رکھے ہیں جو کہ ریکارڈ میں موجود ہیں۔
کسی عدالت کے فیصلہ کے خلاف بالائی عدالت میں اپیل کرنا ایک قانونی حق ہے۔ عام عدالتی طریقہ کار یہ ہے کہ کسی کیس پر کوئی فریق جب بالائی عدالت میں اپیل کرتا ہے، جیسا کہ سیشن کورٹ کے فیصلے پر ہائی کورٹ میں، یا ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیلیں ہوتی ہیں، اگر وہ فریق فیصلہ کے خلاف حکمِ امتناعی یعنی سٹے بھی لینا چاہتا ہے تو اس کے لیے الگ درخواست دینا پڑتی ہے، اس میں جج صاحبان چیک کرتے ہیں کہ سٹے بنتا ہے یا نہیں بنتا۔
جبکہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کا طریقہ کار یہ ہے کہ اپیل دائر کرنے کے ساتھ ہی خودبخود سٹے ہو جاتا ہے، اس کے لیے الگ سے درخواست نہیں دینا پڑتی۔ کوئی بحث نہیں کرنا پڑتی، دلیل نہیں دینا پڑتی اور عدالت کو مطمئن نہیں کرنا پڑتا۔ جس سے ہمارے بہت سے مسائل اس سٹے پر اٹکے پڑے ہیں، اس لیے ہمارا موقف یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر ہوتے ہی خودبخود سٹے نہ ہوجائے بلکہ الگ درخواست دیں اور عدالت کو دلائل دے کر مطمئن کریں کہ سٹے ضروری ہے۔
حالیہ ترمیم میں یہ بات مان لی گئی ہے بلکہ اس میں تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے کہ اگر سٹے کے بعد سپریم کورٹ یا بالائی عدالت ایک سال کے اندر اندر فیصلہ نہیں کرتی تو شرعی عدالت کا فیصلہ خودبخود نافذ ہو جائے گا، ورنہ کئی کیس بیس بیس سال سے لٹکے ہوئے ہیں اور فریزر میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہمارا یہ بڑا مطالبہ تھا جو الحمد للہ پورا ہو گیا ہے۔ اس ترمیم سے ہمیں دوسرا بڑا فائدہ یہ حاصل ہوا۔
(۳) تیسری بات یہ ہے اسلامی نظریاتی کونسل جو ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت بنی تھی اور ہر دور میں کام کرتی رہی ہے۔ اس کی ذمہ داری یہ یہ ہے کہ اس کو گورنمنٹ یا کوئی پارٹی درخواست دے کہ فلاں قانون شریعت کے مطابق نہیں ہے، تو اس میں علماء، وکلاء اور جج صاحبان بیٹھ کر غور کرتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں تو یہ قانون شریعت کے مطابق ہے یا نہیں ہے، اور اس کو شریعت کے مطابق بنانے کے لیے کیا کرنا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کسی قانون کے بارے میں از خود بھی سفارش کر سکتی ہے اور کسی درخواست پر بھی سفارش کر سکتی ہے۔ کسی قانون کے بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل رائے دے گی کہ یہ شریعت کے خلاف ہے یا اس کی فلاں شق شریعت کے خلاف ہے، اور متبادل یہ ہونا چاہیے، تو وہ جس اسمبلی سے متعلق ہے، قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی، وہ سفارش اس اسمبلی میں پیش ہو گی جو اس کے مطابق قانون سازی کرے گی۔
البتہ یہ بات کہ کونسل کی سفارش اسمبلی میں کب پیش ہو گی اور کون پیش کرے گا، یہ معاملہ ابہام میں تھا۔ سینکڑوں سفارشات وزارت قانون میں سالہا سال سے پڑی ہوئی ہیں، ان کی مرضی ہے کہ پیش کریں یا نہ کریں۔ اس پر ہمارا مطالبہ یہ تھا کہ اس کی کوئی مدت طے کی جائے، تو حالیہ ترامیم کے ذریعے وہ مدت طے ہو گئی ہے کہ وہ سفارشات جس اسمبلی سے متعلق ہیں، متعلقہ محکمہ ان سفارشات کو ایک سال کے اندر اسمبلی میں پیش کر کے اس کے مطابق نئی قانون سازی کا پابند ہو گا۔ اس کے لیے بھی ایک سال کی مدت طے ہو گئی ہے کہ جب اسلامی نظریاتی کونسل کسی قانون کے بارے سفارش کرے تو وزارت قانون اور متعلقہ محکمہ متعلقہ اسمبلی میں ایک سال کے اندر پیش کرنے کا اور اس پر بحث کر کے قانون سازی کا پابند ہے۔
(۴) چوتھی بات یہ ہے کہ ملک کا عام طریق کار جو رجسٹریشن کا ہے اکثر و بیشتر مدارس اس کے مطابق رجسٹرڈ ہیں۔ جس طرح دوسرے اداروں کے اکاؤنٹس ہیں، مدارس کے بھی اکاؤنٹس ہیں۔ لیکن دینی مدارس کے بارے میں اب تک عالمی سطح پر اور ملکی سطح پر جو فضا بنائی گئی، اس کے پیش نظر دہشت گردی کے ٹائٹل کے ساتھ دینی مدارس کے لیے الگ ضوابط بنائے گئے تھے، جس کے تحت بہت سے دینی مدارس کی رجسٹریشن کافی عرصے سے رکی ہوئی ہے، متعلقہ محکمہ کی مرضی ہے کہ رجسٹریشن کرے یا نہ کرے، اور بہت سے مدارس اکاؤنٹس بھی اس طریقہ سے منجمد ہیں، بعض کے نہیں بن رہے۔
اس پر ہمارا موقف یہ ہے کہ جو ملک کا عام قانون ہے رجسٹریشن کا اور اکاؤنٹس کا ، وہ جیسے دوسرے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے لیے ہے، مدارس کے لیے بھی وہی قانون ہونا چاہیے۔ مدارس کے لیے رجسٹریشن اور اکاؤنٹ کا امتیازی قانون دینی مدارس سے زیادتی ہے۔ یہ مطالبہ وہ بھی پورا ہو گیا ہے کہ اب مدارس کے لیے الگ پراسس نہیں ہوگا بلکہ جیسے باقی اداروں کی نارمل رجسٹریشن ہوتی ہے دینی مدارس کی بھی ہوگی، اور جیسے باقی اداروں کا اکاؤنٹ سسٹم ہوتا ہے وہی دینی مدارس کا بھی ہوگا۔
یہ چار بڑی پیشرفت ہوئی ہیں الحمد للہ۔ جو بھی معاملات کو سمجھتا ہے وہ اس پر خوشی کا اظہار کرے گا اور ہم نے بھی اظہارِ مسرت کیا ہے، ہم ضدی لوگ نہیں ہیں کہ صحیح بات کو بھی غلط کہیں۔ یہ ہمارے مطالبات تھے، تقاضے تھے اور دینی جدوجہد کی گزارشات تھیں۔
یہ تو ہو گیا ہے، اب اگلی بات کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟ اس حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں معمول یہ ہے کہ ہم متحرک اور منظم ہو کر کوئی بات کہتے ہیں تو اس پر عمل ہو جاتا ہے، جس معاملے میں خاموش رہتے ہیں تو وہ معاملہ لٹکا رہتا ہے۔ ایک عام سا محاورہ ہے کہ بچہ جب تک نہ روئے اسے ماں بھی دودھ نہیں پلاتی۔ ہمارا قومی مزاج بھی یہ ہے۔ اس کے لیے ہماری دو قوتیں ہیں جن کے ذریعے ہم باتیں منوایا کرتے ہیں۔ ایک قوت ہماری وحدت ہے۔ تقریباً ساٹھ سال مجھے بھی اس جدوجہد میں ہو گئے ہیں، میرا تجربہ ہے کہ جو بات ہم تمام مکاتب فکر نے مل کر کی ہے، ان میں سے اکثر ہماری بات مانی گئی ہے۔ اور ہماری دوسری قوت اسٹریٹ پاور ہے یعنی پبلک کا بیدار ہونا اور عوامی احتجاج۔ ہمارے ہاں یہ دو ہی ہتھیار ہیں۔ سیاسی طور پر بھی یہی دو ہتھیار ہیں کہ جس بات کے پیچھے پبلک ہو اور جس بات کے پیچھے وحدت ہو وہ پوری ہو جاتی ہے، اور جس کے پیچھے وحدت اور پبلک نہ ہو وہ پوری نہیں ہوتی۔
اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ چار باتیں فیصلے نہیں ہیں بلکہ وعدے ہیں، ہم مغالطے میں نہ رہیں، پہلے زبانی وعدے تھے اور اب دستوری وعدے ہیں۔ اس کو یوں سمجھیے کہ جو معاملات چل رہے تھے، دستور میں آنے سے متعلقہ ادارے پابند ہو گئے ہیں۔ مگر ان وعدوں پر عملدرآمد کے لیے ہمیں پہلے سے زیادہ کام کرنا ہوگا۔ ہم منظم رہیں گے، متحد رہیں گے، متحرک رہیں گے تو عمل ہوگا ورنہ کچھ نہیں ہو گا۔ الحمد للہ ہمارے ہاں یہ ماحول ہے کہ جب ہم کسی دینی و ملی مقصد کے لیے میدان میں آتے ہیں، دینی جماعتیں اکٹھی ہوتی ہیں تو تاجر برادری بھی ہمارے ساتھ ہوتی ہے، چیمبر اور وکلاء بھی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں۔ ختم نبوت کے مسئلے پر اور دیگر مسائل پر بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ محاذ ہمیں متحرک رکھنا پڑے گا اور وحدت قائم رکھنا پڑے گی۔
سود کا مسئلہ بالخصوص کہ اس کے لیے تین سال کا وقت طے ہوا ہے۔ اگر ہم تین سال متحرک رہیں گے تو پیشرفت ہوگی ورنہ نہیں ہوگی۔ اس پر ہم گوجرانوالہ میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کی مشترکہ میٹنگ کر چکے ہیں۔ تحریک انسدادِ سود پاکستان ایک مشترکہ فورم پہلے سے چلا آ رہا ہے جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ سب شامل ہیں۔ اس کا ایجنڈا سودی نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد ہے۔ ہم دس بارہ سال سے کام کر رہے ہیں۔ تحریک انسدادِ سود پاکستان کی ذمہ داریاں اس وقت مجھ پر ہیں، اس کی رابطہ کمیٹی کا کنوینر ہوں۔ اس لیے ہم نے فیصلہ آتے ہی محسوس کیا کہ ہمارا کام ہو نہیں گیا بلکہ اب ہمیں کام کرنا ہے۔ الحمدللہ ہم نے مختلف مکاتب فکر کے علماء کی گوجرانوالہ میں میٹنگ کی ہے اور یہ طے کیا ہے کہ تحریک انسدادِ سود پاکستان کو از سر نو ہر سطح پر منظم کیا جائے گا۔ اس میں وکلاء بھی ہوں گے، تاجر برادری بھی ہوگی اور علماء بھی ہوں گے۔ اس کے لیے کام کے آغاز کے لیے ہم نے ۳۱ اکتوبر ۲۰۲۴ء کو گوجرانوالہ میں تمام مکاتب فکر کے علماء کا، وکلاء کا اور تاجر برادری کا مشترکہ کنونشن طلب کر لیا ہے کہ ہم نے اس معاملے کو سنبھالنا ہے۔ اس کنونشن میں ہم یہ طے کریں گے کہ ہمارے پاس جو تین سال کا وقت ہے اس میں ہمیں فارغ نہیں بیٹھنا بلکہ ہم ہر حوالے سے اپنی جدوجہد، مطالبہ اور دباؤ قائم رکھیں گے، ان شاء اللہ العزیز، تاکہ جنہوں نے وعدہ کیا ہے اور جن کے ذمے بات لگی ہے، وہ وقت کے اندر اندر اپنا کام پورا کریں۔
آپ حضرات سے گزارش ہے کہ دعا بھی فرمائیں، تعاون بھی فرمائیں اور جہاں جہاں آپ کے بس میں ہو آواز بھی اٹھائیں، تاکہ مقررہ وقت کے اندر اندر یہ ہماری دینی و ملی ضروریات پوری ہو سکیں کہ سود کا خاتمہ ہماری قومی ضرورت ہے، دینی ضرورت ہے اور شرعی تقاضا ہے، اور ہم مل جل کر ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو جائیں، آمین یا رب العالمین۔