(دستورِ پاکستان کی اب تک کی ترامیم کے حوالے سے یوٹیوب چینل ’’ورلڈ ٹائمز‘‘ کی ایک ویڈیو کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ)
السلام علیکم۔ میرا نام معظم خان لودھی ہے۔ ناظرین آئین کسی بھی ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور آئین کو ہم ‘‘سپریم لاء آف دی لینڈ‘‘ بھی کہتے ہیں، اور اس کے علاوہ موجود جتنے بھی قوانین ہوتے ہیں انہیں ’’سب آرڈینیٹ لاز‘‘ (ماتحت قوانین) کہا جاتا ہے۔ آئین کیا ہوتا ہے؟ مختصر طور پر
Constitution are those basic principles that guide a state and its different organs how they should work.
’’آئین وہ بنیادی اصول ہیں جو ریاست اور اس کے مختلف اداروں کی رہنمائی کرتے ہیں کہ انہیں کیسے کام کرنا چاہیے۔‘‘
جو آئین تحریر شدہ ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ سے منظور شدہ ہوتے ہیں انہیں Rigid کہا جاتا ہے۔ اور جو آئین باضابطہ طور پر تحریر شدہ نہیں ہوتے اور پارلیمنٹ سے منظور شدہ نہیں ہوتے انہیں ٰFlexible کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور شدہ آئین کی ترمیم کا طریقہ کار مشکل اور لمبا ہوتا ہے۔ پاکستان کا آئین تحریر شدہ ہے جس کے اندر اب تک چھبیس ترامیم ہو چکی ہیں۔ امریکہ کا دستور، جس کو The Most Rigid Constitution کہا جاتا ہے، اس میں دو ڈھائی سو سال کے بعد بھی صرف ستائیس ترامیم ہوئی ہیں۔
آئین میں ترمیم کیسے ہوتی ہے؟ ذرا اس کو دیکھتے ہیں۔ دنیا کے ہر تحریر شدہ آئین میں اس کی ترمیم کا مکمل طریق کار لکھا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ ۲۳۸ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے آئین میں مجلس شوریٰ یعنی پارلیمنٹ ترمیم کر سکتی ہے۔ اور اس کا طریق کار دفعہ ۲۳۹ میں لکھا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر آئینی ترمیم کا بل کسی بھی ایوان سے منظور ہو سکتا ہے: سینٹ یعنی ایوانِ بالا سے بھی، اور قومی اسمبلی یعنی ایوانِ زیریں سے بھی۔ کسی بل کو منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بل منظور ہونے کے بعد دوسرے ایوان میں بھیجا جائے گا۔ اگر دوسرے ایوان میں اسے دو تہائی اکثریت مل جاتی ہے تو وہ دستخط کے لیے صدر پاکستان کے پاس بھیج دیا جائے گا۔ اگر صدر پاکستان اس پر دستخط کر دیتے ہیں تو یہ آئینی ترمیم پوری ہو جائے گی۔
البتہ مسئلہ یہاں پر آتا ہے کہ جب پہلے ایوان سے بل منظوری کے بعد دوسرے ایوان میں بھیجا جائے، اور دوسرے ایوان سے وہ کسی ترمیم کے ساتھ منظور کیا جائے، تو پھر وہ صدر پاکستان کے پاس نہیں بھیجا جائے گا، بلکہ پہلے ایوان کے پاس واپس بھیجا جائے گا جو اسے دوبارہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کرے گی۔ اگر پہلے ایوان نے بغیر کسی ترمیم کے اسے منظور کر لیا تو پھر وہ دستخط کے لیے صدر پاکستان کے پاس بھیج دیا جائے گا۔
اگر آئین کے اندر کوئی ایسی ترمیم کی جا رہی ہے کہ جس کے ذریعے کسی صوبے کی سرحدات کو تبدیل کیا جا رہا ہے، تو وہ بل تب تک صدر کے پاس نہیں بھیجا جاتا جب تک وہ بل اس صوبائی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں ہو جاتا۔ جس کی مثال خیبرپختونخوا اور فاٹا کے ادغام کی ہے۔ اس سلسلہ میں پچیسویں آئینی ترمیم کا بل تب تک صدر پاکستان کے پاس نہیں گیا جب تک خیبرپختونخوا اسمبلی نے اسے دو تہائی اکثریت سے منظور نہیں کیا۔
پاکستان کے اندر پارلیمانی نظام کی بالادستی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ پاکستان کے آئین کے اندر کسی بھی قسم کی ترمیم کر سکتی ہے، اور یہ ترمیم پاکستان کی کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی۔
اب ہم چلتے ہیں پاکستان کی آئینی ترامیم کی طرف۔ پاکستان میں اب تک کل چھبیس آئینی ترامیم ہو چکی ہیں۔ ان میں سے پہلی سات ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں ہوئی تھیں۔
آئینی ترامیم
پہلی آئینی ترمیم مئی ۱۹۷۴ء میں ہوئی تھی، اور آئین کے اندر جہاں جہاں مشرقی پاکستان کا حوالہ موجود تھا اسے ختم کیا گیا۔ آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بنگلہ دیش جو پہلے مشرقی پاکستان تھا، وہ تو ۱۹۷۱ء میں ہی آزاد ہو گیا تھا، تو اس کا حوالہ ۱۹۷۳ء کے آئین میں کیوں موجود ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء کو بنگلہ دیش کو بطور آزاد ریاست کے تسلیم کیا تھا۔ یعنی اس سے پہلے پاکستان بنگلہ دیش کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم ہی نہیں کرتا تھا، اس لیے مشرقی پاکستان کا حوالہ آئین کے اندر موجود تھا۔ پھر بھٹو صاحب نے پہلا جو دورہ کیا تھا بنگلہ دیش کا، اس کے بعد پاکستان کے آئین میں مئی ۱۹۷۴ء کے دوران ترمیم ہوئی۔
دوسری آئینی ترمیم میں مسلمان کی تشریح کا اضافہ کیا گیا۔ یہ ترمیم ستمبر ۱۹۷۴ء میں ہوئی تھی جس کے ذریعے قادیانیوں اور احمدیوں کو پاکستان نے غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔
تیسری آئینی ترمیم پریوینٹو ڈیٹنشن (احتیاطی حراست) کے متعلق ہے۔ یہ فروری ۱۹۷۵ء میں آئی تھی۔ ایک ہوتا ہے Imprisonment (قید) اور دوسرا ہوتا ہے Detention (حراست)۔ قید اس شخص کو دی جاتی ہے جس نے کوئی جرم کیا ہو، اور وہ جیل چلا جاتا ہے۔ لیکن حراست اس شخص کی ہوتی ہے جس نے کوئی جرم تو نہیں کیا ہوتا لیکن ایسا شک ہوتا ہے کہ وہ کہیں مستقبل قریب میں کوئی جرم کر سکتا ہے تو اس سے روکنے کے لیے اس کو حراست میں لے لیا جاتا ہے۔ تو پہلے یہ حراست ایک مہینے کے لیے ہوا کرتی تھی، تیسری آئینی ترمیم میں اس کی مدت بڑھا کر تین ماہ کر دی گئی تھی۔
چوتھی آئینی ترمیم (نومبر ۱۹۷۵ء) تیسری ترمیم کے ساتھ منسلک ہے۔ چوتھی آئینی ترمیم میں ہائی کورٹس اور دیگر کورٹس کا یہ اختیار واپس لے لیا گیا کہ وہ زیر حراست شخص کی ضمانت لے سکتے ہیں۔
پانچویں آئینی ترمیم (ستمبر ۱۹۷۶ء) چوتھی ترمیم کے ساتھ منسلک ہے۔ پانچویں ترمیم کے ذریعے ہائی کورٹ کے کچھ مزید اختیارات کو کم کیا گیا۔ مثلاً، ہائی کورٹ کو منع کر دیا گیا کہ وہ کوئی ایسا آرڈر جاری نہیں کر سکتی جس کی رو سے پولیس اسٹیشن کے اندر کوئی رپورٹ اگر درج ہو رہی ہے تو اس کو روکا جا سکے۔ اس کے علاوہ یکم جولائی ۱۹۷۰ء کے بعد سے سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس ختم ہو گئی تھیں اور ان کی ایک مشترکہ ہائی کورٹ کام کر رہی تھی۔ پانچویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان کو علیحدہ کر دیا گیا، یعنی اب سندھ کی ہائی کورٹ علیحدہ ہو گئی اور بلوچستان کی ہائی کورٹ علیحدہ ہو گئی۔
چھٹی آئینی ترمیم (دسمبر ۱۹۷۶ء) بہت سادی سی تھی کہ سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو ۶۵ سال کر دیا گیا، اور ہائی کورٹ کے ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر ۶۲ سال کر دی گئی۔
ساتویں آئینی ترمیم (مئی ۱۹۷۷ء) ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت کی آخری ترمیم تھی جس کے ذریعے وزیر اعظم پاکستان کو اختیار مل گیا تھا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لے سکتا ہے۔ اس کے لیے وہ ایڈوائس کریں گے صدر پاکستان کو۔ وہ ایک ریفرنڈم کمیشن بنائے گا جس کے ذریعے وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لے گا۔
آٹھویں آئینی ترمیم (نومبر ۱۹۸۵ء) بہت اہمیت کی حامل ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام کی بالادستی ہے جس کے مطابق وزیر اعظم کے پاس سب سے زیادہ اختیار ہوتا ہے۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کے لحاظ سے حکومت کا سربراہ وزیر اعظم ہوتا ہے۔ لیکن ۱۹۸۵ء میں کیونکہ پاکستان کے اندر مارشل لاء موجود تھا، تو جنرل ضیاء الحق نے آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے پاکستان کے پارلیمانی نظام کو نیم صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا۔ اس کی مثال ہے آرٹیکل ۵۸(۲بی)۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب صدر پاکستان کے پاس یہ اختیار آ گیا تھا کہ وہ کسی بھی وقت نیشنل اسمبلی کو تحلیل کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس کے ذریعے محمد خان جونیجو کی گورنمنٹ، بے نظیر بھٹو صاحبہ کی گورنمنٹ، میاں محمد نواز شریف صاحب کی گورنمنٹ، اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کی دوسری گورنمنٹ کو تحلیل کیا گیا تھا۔
نویں آئینی ترمیم (اگست ۱۹۸۶ء) پاکستان میں نفاذِ شریعت سے متعلق ہے۔ لیکن یہ آئینی ترمیم دونوں ایوانوں سے پاس نہیں ہو سکی تھی، صرف سینٹ سے منظور ہوئی اور نیشنل اسمبلی سے منظور نہیں ہوئی۔ آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر یہ ترمیم منظور نہیں ہوئی تو اس کو پھر بھی آئینی ترمیم کیوں کہا جاتا ہے۔ وہ اس لیے کہ اگر کوئی ترمیم کسی ایک ایوان سے منظور ہو جائے تو اس کے ساتھ ایک نمبر منسلک کر دیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ترمیم سینٹ سے منظور ہو گئی تھی اس لیے اس کو نویں ترمیم کا نمبر دے دیا گیا تھا۔ لیکن کیونکہ یہ ترمیم نیشنل اسمبلی سے منظور نہیں ہوئی اس لیے اس کا ملک میں نفاذ نہیں ہو سکا۔
دسویں آئینی ترمیم (مارچ ۱۹۸۷ء) سینٹ اور نیشنل اسمبلی کے اجلاسوں کے درمیان وقفہ سے متعلق ہے۔ اس سے پہلے آئینی طور پر ان کے اجلاسوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ وقفہ ۱۶۰ دن کا ہو سکتا تھا، لیکن اب اس وقفہ کو کم کر کے ۱۳۰ دن کر دیا گیا۔
گیارہویں آئینی ترمیم (دسمبر ۱۹۸۹ء) بھی نویں ترمیم کی طرح دونوں ایوانوں سے منظور نہیں ہو سکی۔ اس میں خواتین کے لیے نشستوں کے کوٹہ کی نظرثانی کی بات کی گئی۔ چونکہ یہ ایک ایوان سے منظور ہو گئی تھی اس لیے اس کے ساتھ ایک نمبر منسلک کر دیا گیا جو کہ گیارہویں ترمیم بنتی ہے۔
بارہویں ترمیم (جولائی ۱۹۹۱ء) سپیڈی ٹرائل کورٹس (مقدمات کی فوری سماعت کی عدالتوں) کے بارے میں ہے۔ اس میں وفاقی حکومت کے پاس یہ اختیار آ گیا کہ وہ ہینئس کرائمز (گھناؤنے جرائم) کے لیے تین سالہ سپیڈی ٹرائل کورٹس بنا سکتی ہے۔
تیرہویں آئینی ترمیم (اپریل ۱۹۹۷ء) پارلیمانی نظام کی بحالی سے متعلق ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ابھی ہم نے تھوڑی دیر پہلے بات کی کہ آٹھویں آئینی ترمیم کے ذریعے جنرل ضیاء الحق صاحب نے پاکستان کے پارلیمانی نظام کو نیم صدارتی نظام میں تبدیل کر دیا تھا، جس سے صدر پاکستان کے پاس نیشنل اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار آ گیا تھا۔ چنانچہ اس تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس صدارتی اختیار کو ختم کر کے پاکستان کے لیے پارلیمانی نظام بحال کر دیا گیا۔
چودھویں آئینی ترمیم (جولائی ۱۹۹۷ء) ہارس ٹریڈنگ سے متعلق ہے۔ ۱۹۹۷ء میں میاں محمد نواز شریف صاحب کی وہ واحد حکومت تھی کہ جس میں وزیر اعظم کے پاس ایوان میں تقریباً دو تہائی اکثریت موجود تھی اور وہ سنگل ہینڈڈلی (بغیر کسی سیاسی اتحاد کے) حکومت کر رہے تھے۔ ہارس ٹریڈنگ یعنی یہ جو ممبران صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں چلے جاتے ہیں، یا فارورڈ بلاک بنا لیتے ہیں، اس کو روکنے کے لیے ایک چودھویں آئینی ترمیم لائی گئی۔ اس کے ذریعے پارٹی کے سربراہ کو یہ اختیار مل گیا کہ اگر کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ، یا ممبر صوبائی اسمبلی اس کام میں ملوث ہے تو وہ اس کو پارٹی سے نکال بھی سکتا ہے۔ چودھویں آئینی ترمیم کے بعد وزیر اعظم کے پاس بہت زیادہ اختیارات آ گئے تھے، کیونکہ اس سے پہلے وہ صدر کا اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار بھی ختم کر چکے تھے۔
پندرہویں آئینی ترمیم (اگست ۱۹۹۸ء) بھی آٹھویں ترمیم کی طرح نفاذِ شریعت کے متعلق تھی۔ یہ ترمیم نیشنل اسمبلی سے تو پاس ہو گئی لیکن سینٹ نے اس کو پاس نہیں کیا۔ آئینِ پاکستان کی نویں، گیارہویں اور پندرہویں ترامیم ایسی ہیں کہ جو ایک ایوان سے منظور ہوئیں لیکن دوسرے ایوان سے منظور نہیں ہو سکی تھیں اس لیے ان کا نفاذ نہیں ہو سکا۔
سولہویں آئینی ترمیم (اگست ۱۹۹۹ء) کوٹہ سسٹم سے متعلق ہے۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کی دفعہ ۲۷ میں اقلیتوں اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والوں کو نمائندگی دینے کے لیے دس سال کا کوٹہ سسٹم متعارف کرایا گیا تھا۔ ۱۹۸۵ء میں اس کوٹہ کو بڑھا کر بیس سال کر دیا گیا۔ اور ۱۹۹۹ء میں یہ کوٹہ مزید بڑھا کر چالیس سال کر دیا گیا۔
سترہویں آئینی ترمیم (دسمبر ۲۰۰۳ء) جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء دور میں ہوئی۔ اس کے ذریعے جنرل ضیاء الحق کی آٹھویں ترمیم کے اس نیم صدارتی نظام کو بحال کر دیا گیا جسے میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا تھا۔ یعنی اب صدر پاکستان کے پاس ایک بار پھر نیشنل اسمبلی کو ختم کرنے کا اختیار آ گیا۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ صرف نیشنل اسمبلی کو تحلیل کیا جا سکتا ہے، سینٹ کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم (اپریل ۲۰۱۰ء) پاکستان کی آئین کی سب سے بڑی ترمیم ہے، اتنی بڑی کہ اسے چھوٹا آئین بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں ۱۰۳ دفعات میں ترامیم کی گئیں۔ ان میں قابل ذکر یہ ہیں۔ سب سے پہلے سترہویں آئینی ترمیم کے نیم صدارتی نظام کو ختم کر کے پارلیمانی نظام بحال کیا گیا۔ پاکستان میں صوبائی خودمختاری متعارف کرائی گئی۔ نارتھ ویسٹ فرنٹیر پروونس (شمال مغربی سرحدی صوبہ) کا نام تبدیل کر کے خیبرپختونخوا کر دیا گیا۔ خیبرپختونخوا والوں کا یہ مطالبہ کافی عرصہ سے چل رہا تھا، کیونکہ پنجابیوں کا صوبہ پنجاب تھا، سندھیوں کا صوبہ سندھ تھا، لیکن ہمارے پختوں بھائیوں کا صوبہ این ڈبلیو ایف پی تھا، چنانچہ اس ترمیم کے ذریعے ان کا یہ مطالبہ پورا ہوا۔ اس کے علاوہ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ایک کام یہ ہوا کہ جوڈیشیل کمیشن آف پاکستان (JCP) متعارف کرایا گیا، جس کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تقرری کی جائے گی۔
انیسویں آئینی ترمیم (دسمبر ۲۰۱۰ء) جوڈیشیل کمیشن آف پاکستان کے متعلق ہے۔ اس کے ذریعے آئین کی دفعہ ۱۷۵ اے میں ترمیم ہوئی جس میں وزیر اعظم کو ججوں کی تقرری کے عمل میں شامل کیا گیا۔ اب طریقہ کار یہ ہو گیا کہ جوڈیشیل کمیشن ججوں کی نامزدگیاں پارلیمانی کمیٹی کے پاس بھیجے گا، پارلیمانی کمیٹی انہیں وزیر اعظم کے پاس بھیجے گی، وزیر اعظم انہیں منظور کر کے صدر کے پاس بھیجے گا، صدر اس پر دستخط کر کے ججوں کی تقرری کی حتمی منظوری دے گا۔ اسی طرح جوڈیشیل کمیشن میں پہلے دو سینئر ججوں کی شمولیت تھی، اس آئینی ترمیم کے ذریعے ان کی تعداد چار کر دی گئی۔ اس کے علاوہ لکی مروت اور ٹانک کے جو ملحقہ قبائلی علاقے تھے انہیں فاٹا کے اندر ضم کر دیا گیا۔
بیسویں آئینی ترمیم (فروری ۲۰۱۲ء) نگران حکومت کے قیام سے متعلق ہے۔ پاکستان میں جب نیشنل اسمبلی اپنے پانچ سال پورے کر لے گی اور نئے الیکشن ہونے والے ہوں گے تو اس سے پہلے نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ اس کے مطابق ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں چار ممبران گورنمنٹ سے اور چار اپوزیشن سے ہوں گے۔ ان آٹھ ممبران کے پاس تین دن کا وقت ہو گا جس میں یہ مرکز کے اندر نگران وزیر اعظم اور اس کی کابینہ کی تقرری کریں گے۔ اسی طرح ہر صوبہ میں آٹھ ممبران کی کمیٹی بنائی جائے گی جس میں چار گورنمنٹ سے اور چار اپوزیشن سے ہوں گے، اور وہ اپنے صوبے میں نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری کریں گے۔ یہ پارلیمانی کمیٹی اگر تین دن کے اندر یہ معاملہ سرانجام نہیں دے گی تو پھر یہ معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منتقل ہو جائے گا جو نگران حکومت کی تقرری کرے گا۔
اکیسویں آئینی ترمیم (جنوری ۲۰۱۵ء) فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ پیش آیا تھا جسے ہم ’’سانحہ پشاور‘‘ کہتے ہیں جس میں آرمی پبلک اسکول کے بچے شہید کر دیے گئے تھے۔ اس کے لیے ضرورت پڑی کہ پاکستان کے اندر ایک ایسا عدالتی نظام بھی موجود ہو جو تیزرفتاری سے دہشت گردوں کے مقدمات کے فیصلے کر کے انہیں ان کے انجام تک پہنچائے۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے دو سال کے عرصہ کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔ اس کے اندر ایک ’’سن سیٹ کلاز‘‘ موجود تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ عدالتیں اپنی دو سالہ مدت پوری کر کے خودبخود ختم ہو جائیں گی۔
بائیسویں آئینی ترمیم (جون ۲۰۱۶ء) الیکشن کمیشن کے طریق کار کے متعلق ہے کہ چیف الیکشن کمشنر آف پاکستان کو اپوزیشن اور گورنمنٹ مل کر مقرر کرے گی۔ چیف الیکشن کمشنر کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو ۶۵ سے بڑھا کر ۶۸ سال کر دیا گیا۔ جبکہ الیکشن کمیشن کے ممبران کی ریٹائرمنٹ عمر کو ۶۲ سے بڑھا کر ۶۵ سال کر دیا گیا۔ ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ اس سے پہلے صرف ریٹائر ججوں کو الیکشن کمیشن کا ممبر بنایا جاتا تھا، لیکن اس آئینی ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کا ممبر کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمشن کے پانچ ممبران میں سے ایک چیف الیکشن کمشنر ہوتا ہے، باقی چار ممبران چاروں صوبوں سے آتے ہیں۔
تئیسویں آئینی ترمیم (جنوری ۲۰۱۷ء) فوجی عدالتوں کے متعلق ہے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے بننے والی ان عدالتوں کی مدتِ قیام مزید دو سال بڑھا دی گئی اور انہیں جنوری ۲۰۱۹ء تک ایکسٹنشن مل گئی۔
چوبیسویں آئینی ترمیم (دسمبر ۲۰۱۷ء) میں مردم شماری کے بعد پاکستان کی کل آبادی اور صوبوں کی آبادی کا تخمینہ لگایا گیا، جس کے اعتبار سے نیشنل اسمبلی کی نشستوں میں کچھ تبدیلی کی گئی۔ وہ اس طرح کہ نیشنل اسمبلی کے لیے پنجاب کی آٹھ سیٹیں کم کر کے اس میں سے چار خیبرپختونخوا کو اور چار بلوچستان کو دے دی گئیں۔ یعنی نیشنل اسمبلی کی سیٹوں کی کل تعداد تو وہی ۳۴۲ رہی لیکن صوبوں کے حوالے سے یہ ردوبدل ہوئی۔
پچیسویں آئینی ترمیم (مئی ۲۰۱۸ء) کے ذریعے فاٹا کا علاقہ خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا، اور فاٹا کی نیشنل اسمبلی کے لیے کل نششتوں کی تعداد جو اس سے پہلے ۱۲ تھی، انہیں کم کر کے ۶ کر دیا گیا۔ البتہ مئی ۲۰۱۹ء میں فاٹا کو یہ تعداد واپس مل کر پھر ۱۲ ہو گئی۔ اسی طرح خیبرپختونخوا اسمبلی کے اندر جو فاٹا کے ایریاز کی کل نشستیں ۱۶ ہوا کرتی تھیں، ادغام کے بعد اس تعداد کو بڑھا کر ۲۴ کر دیا گیا۔
امید ہے کہ پاکستان کے آئین کی اب تک کی یہ ترامیم آپ کو سمجھ آ گئی ہوں گی۔ آئینِ پاکستان میں ترمیم کے متعلق دفعہ ۲۳۸ میں بتایا گیا ہے کہ یہ کام پارلیمنٹ کر سکتی ہے، اور اس کا طریق کار دفعہ ۲۳۹ میں لکھا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ ویڈیو آپ کے لیے معلوماتی ثابت ہوئی ہو گی۔ بہت شکریہ۔