بنو تمیم عرب کا مشہور قبیلہ تھا۔ اس کی مختلف شاخیں تھی اور یہ شاخیں عرب کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ یہ پہلے مجوسی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا سب کچھ اسلام پر نچھاور کر دیا تھا۔ رسول اللہ نے ان کے بارے پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت میں دجال کے مقابلے میں یہ لوگ سب سے زیادہ مخالف ثابت ہوں گے۔ یہ قبیلہ تجارت پیشہ تھا اور اسلام کی آمد سے قبل یہ لوگ برصغیر اور سری لنکا تک تجارتی سامان لے کر جاتے تھے۔ سراندیپ جسے آج کل سری لنکا کہا جاتا ہے وہاں کے راجہ کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے۔ چنانچہ بنو تمیم بکثرت وہاں آیا جایا کرتے تھے۔ اسی قبیلے کی ایک خاتون جو تجارتی قافلے کے ساتھ سری لنکا سے واپس جا رہی تھی اس نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا تھا اور راجہ داہر کے خلاف مدد کی درخواست کی تھی۔ حجاج بن یوسف کے حکم پر محمد بن قاسم ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ محمد بن قاسم نے صرف دو تین سال کی مدت میں پورے سندھ کو فتح کر لیا تھا اور وہ آگے بڑھتا ہوا ملتان تک جا پہنچا تھا۔ لیکن شومئی قسمت کہ محمد بن قاسم کو آگے نہیں بڑھنے دیا گیا اور اسے واپس بلا کر شہید کر دیا گیا۔ اہل سندھ کو اس کی وفات کا علم ہوا تو انہوں نے نہ صرف آنسو بہائے بلکہ اس کی یاد میں ایک شبیہ بھی بنا ڈالی۔
یہ محمد بن قاسم کا اہل ہند کے ساتھ حسن سلوک تھا کہ وہ ایک بیرونی حملہ آور کی یاد میں آنسو بہانے پر مجبور ہوئے اور انہوں نے اس کی یاد میں شبیہ تک بنا ڈالی۔ ہندوستان میں جتنے بھی مسلم حکمران حملہ آور ہوئے سب نے یہاں کے عوام کے ساتھ حسن سلوک کے لازول اور انمٹ نقوش قائم کیے۔ اٹھارہویں صدی میں انگریز ہندوستان پر حملہ آور ہوا اور اس نے یہاں کے عوام پر ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے وہ بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں صرف انگریزی عہد میں ہندوستان کا لٹریسی ریٹ بلندی سے پستی کی طرف آیا۔ اس کے برعکس مسلم سلاطین ہند نے اپنے عہد میں ہندوستان میں علوم و فنون کی جو شمعیں روشن کیں اس کے آثار آج بھی جا بجا بکھرے پڑے ہیں۔ محمود غزنوی، محمد غوری اور بابر جیسے تیغ زن اور جری سپہ سالار جب ہندوستان آئے تو اْن کے ساتھ البیرونی جیسے محقق، حضرت ہجویری اور خواجہ معین الدین چشتی جیسے علماء بھی تشریف لائے۔ محمود غزنوی سے لے کر اور رنگ زیب عالمگیر تک ہر عہد میں بیرون ہند سے علماء، فضلاء، صلحاء، شعرا اور اہل کمال بڑی تعداد میں ہندستان آئے اور انہوں نے اس ملک کو مستقل اپنا وطن بنا لیا۔ ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے ارباب علم دفن کی بڑی قدر افزائی کی۔
مسلم سلاطین کی کوششوں سے جو ارباب علم و فن جو بیرون ہند سے آئے اپنے ساتھ علوم و معارف کا خزانہ لے کر آئے۔ چنانچہ ان کے طفیل یہاں کا ادب، تمدن اور فکر کمال کو پہنچا۔ ذوق علم و تہذیب میں ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ آج تک اس کے نشانات سر زمین ہند پر ہر جگہ بکھرے نظر آتے ہیں۔ شاہان ہند کی فیاضیوں اور قدر دانیوں کا شہرہ نہ صرف ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی تھا، چنانچہ دنیا بھر سے بڑے بڑے علماء، فضلا اور شعراء بکثرت ہندوستان آتے اور شاہان ہند کی فیاضیوں سے مالا مال ہوتے۔ اگر کوئی صاحب علم و فن کسی وجہ سے نہیں آسکتا تھا تو اپنی تصنیف یا اپنا کلام بادشاہ کے پاس بھیج دیتا اور وہیں بیٹھے بیٹھے صلہ پاتا تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کے بعد سلطنت مغلیہ کا انحطاط شروع ہوا، سلطنت کا دائرہ تنگ ہوا تو آمدن بھی کم ہو گئی لیکن شاہان مغلیہ کا علمی ذوق اور اہل علوم و فنون اور مدارس و مکاتب کی سر پرستی بدستور جاری رہی۔
یہی حال چھوٹی ریاستوں کا تھا مثلاً دکن کی ریاست حیدر آباد اور میسور کی ریاست نے انحطاط کے باوجود علم پروری کی روش کو نہیں چھوڑا تھا۔ ریاست میسور کا حکمران سلطان ٹیپو خود صاحب علم اور علم دوست تھا اور اس کی سلطنت میں تعلم و تعلم کا بہترین انتظام موجود تھا۔ مسلم سلاطین کے عہد میں مختلف مذاہب کا گہوارہ ہونے کے باوجود عوام کی اجتماعی زندگی مذہبی تعصب سے پاک تھی۔ مذہبی آزادی ہر ایک کو حاصل تھی۔ رعایا کے خانگی فیصلے ان کے مذہب اور رواج کے مطابق ہوتے تھے اور ان کو اپنی عبادت گاہیں بنانے اور ان میں عبادت کرنے کی مکمل آزادی حاصل تھی۔
میرے سامنے اس وقت ’’سلاطین ہند کی دینی و مذہبی مساعی‘‘ کتاب پڑی ہے جس میں ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کی علم پروری، رعایا کے ساتھ حسن سلوک، اہل علم و فن کی قدر دانی اور ان کی مذہبی مساعی کا جامع انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کے ساتھ کھلواڑ یہ ہوا ہے کہ یہاں جتنی بھی تاریخ کی کتب لکھی گئی وہ انگریز اور ہندو مصنفین کی لکھی ہوئی ہیں، اور ان دونوں طبقہ ہائے فکر نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے تاریخی حقائق کو خلط ملط کیا اور اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں بابر اور اکبر کا ہندو رعایا کے ساتھ ظلم و ستم تو دکھائی دیتا ہے لیکن بابر اور اکبر کی ہندوستانی رعایا کے ساتھ حسن سلوک کی مثالیں دکھائی نہیں دیتی۔ ہمیں محمود غزنوی سے لے کر اورنگزیب تک مذہبی جبر تو دکھایا جاتا ہے لیکن سلاطین ہند کی انصاف پروری، رعایا کو حاصل مذہبی آزادی، معاشی مساوات اور حکومتی فنڈنگ سے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی تعمیر و مرمت دکھائی نہیں دیتی۔
سلاطین ہند نے مذہب و ملت سے قطع نظر اہل علم و فن کی جو قدر افزائی کی، انہیں انعامات سے نوازا اور ہندوستان کا لٹریسی ریٹ زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ مذکورہ کتاب میں سلاطین ہند کی انہی مساعی کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ کتاب کی شروعات ہندوستان میں مسلم سلطنت کے قیام سے ہوتی ہیں اور اس کے بعد محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، عہد قطبی، التمش، رضیہ سلطانہ، ناصر الدین محمود، بلبن، خلجی، تغلق، لودھی اور مغلیہ سلطنت سمیت تمام سلاطین کے عہد پر بات کی گئی ہے۔ مغلیہ سلطنت کے عہد کو بطور خاص موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ ظہیر الدین بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور اورنگزیب عالمگیر کے عہد کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا ہے۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی ہیں جو انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں اور عالیہ یونیورسٹی کولکتہ میں اسلامک تھیالوجی کے پروفیسر ہیں۔ فاضل مصنف اس سے قبل بھی مختلف موضوعات پر تحقیقی کتب تحریر کر چکے ہیں۔ اس کتاب میں تحقیقی رجحان واضح ہے اور کتاب میں جابجا حوالہ جات موجود ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ شیخ زید اسلام سنٹر پنجاب یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد عبد اللہ نے لکھا ہے اور اسے پاکستان میں القرطاس پبلشر نے شائع کیا ہے۔
ڈاکٹر محمد عبداللہ اور القرطاس دونوں نام معتبر ہیں اور ان ناموں کی موجودگی میں کتاب کی افادیت اور اس کا مطالعہ لازم ٹھہرتا ہے۔ تاریخ کے طالب علم کے لیے اس کتاب کا مطالعہ اہم ہے اور خصوصاً ہندوستانی تاریخ سے شغف رکھنے والے اہلِ علم اس سے مستغنی نہیں ہو سکتے۔ یونیورسٹیز اور دینی مدارس کی لائبریریز میں اس کتاب کی موجودگی ایک اہم اضافہ ثابت ہو گی اور ان لائبریریز کے لیے یہ کتاب بھرپور اعتماد کے ساتھ ریکمنڈ کی جا سکتی ہے۔